اردو دنیا، نومبر 2024
پرانی قدروں کی امین شاعرہ عزیز بانو داراب وفا 23؍ اگست 1926 کو بدایوں
میں پیدا ہوئیں۔ ان کے جدِ امجد کا تعلق کشمیر کے دارابو خاندان سے تھا۔ 1801 میں
ان کے پر دادا عزیز الدین آٹھ برس کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ ہجرت کرکے لکھنؤ
آکر بس گئے تھے۔ عزیز الدین کا فارسی زبان کے مشہورشاعروں میں شمار ہوتا ہے۔ ان
کے دادا خواجہ وصی الدین ڈپٹی کلکٹر تھے اور والد شریف الدین داراب پیشے سے ایک
ڈاکٹر تھے۔ حالانکہ ان کا گھر پرانی روایات
کا پروردہ تھا۔ اس کے باوجود عزیز بانو اعلی تعلیم سے مزین ہوئیں۔ موصوفہ نے تھبرن
کالج سے بی اے اور لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ سے ایم اے کیا۔ بعد ازاں ایک گرز کالج
میں انگریزی کی لیکچرر ہو گئیں۔ بیگم سلطانہ حیات نے 1960 میں اندرا گاندھی کی
صدارت میں ایک مشاعرہ منعقد کرایا تھا جس میں عزیز بانو کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
موصوفہ کی شاعری کی تعریف خود اندرا جی نے بھی کی تھی۔ وقتاََ فوقتاََ عزیز بانو
کے پروگرام ریڈیوں سے بھی نشر ہوتے رہے۔ ہندوستان کے علاوہ بیرون ممالک کے مشاعروں
میں بھی شرکت کی لیکن یہ سلسلہ جلد ہی ختم ہو گیا اور انھوں نے گوشہ نشینی اختیار
کر لی۔ ان کا انتقال 13؍ جنور ی2005 کو لکھنؤ میں ہوا۔ ان کا شعری مجموعہ ’گونج ‘
کے نام سے ان کی وفات کے چار سال بعد 2009میں سید معین الدین علوی نے ترتیب دیا جو
ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، علی گڑھ نے شائع کیا۔فاضل مرتب نے عزیز بانو کی زندگی اور
شاعری سے متعلق اس مجموعے پر مدلل اپنی رائے بھی قائم کی ہے۔ ساتھ ہی ان کے حقیقی
بھائی پروفیسر عزیز الدین طارق کا ’اظہارِ تشکر‘ بھی شامل ہے۔ انتقال سے قبل
موصوفہ نے احباب کے اصرار پر اپنا کلام یکجا کر لیا تھا لیکن اسی درمیان موت کے بے
رحم ہاتھوں نے ان کو ہم سے چھین لیا اور یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔
انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغازافسانہ نگاری سے کیا تھا
لیکن جلد ہی وہ شعر گوئی کی طرف مائل ہوگئی تھیں کیوں کہ یہ سرمایہ انھیں ورثے میں
ملا تھا۔ عزیز بانو صرف تفننِ طبع کے لیے شعر کہتی تھیں۔ بس شعر کہا اور بعد میں
اسے نذرِ آتش کر دیا۔ ایسا وہ بہت عرصے تک کرتی رہیں۔ بعدمیں دوستوں کے سمجھانے
پر وہ باز آئیں، لیکن ان سب کے با وجو د وہ اپنے کلام کو سنبھال کر نہ رکھ سکیں۔
وہ اپنے اس مزاج کے تعلق سے اپنے شعری مجموعے کے صفحہ 17پر ’آہنگِ وفا‘ کے زیرِ
عنوان لکھتی ہیں:
’’شروع میں میرا رجحان ادب کی طرف تھا۔ میں افسانے اور غزلیں
لکھتی اور گھر کے اندھے کنویں میں ڈال دیتی۔میں جو کچھ بھی لکھتی اپنی تشفی کے لیے
لکھتی۔ مجھے شہرت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یونیورسٹی پہنچتے پہنچتے شعر کہنے لگی تھی۔
1960میں میں نے دو غزلیں کہیں جو بے حد مقبول ہوئیں۔‘‘
قرۃالعین حیدر سے عزیز بانو داراب وفا کے بہت گہرے مراسم
تھے۔ عینی آپا نے اپنے ناول ’کارِ جہاں دراز ہے‘ میں عزیز بانو کا ذکر بھی کیا
ہے۔ موصوفہ کے شعری مجموعے ’ گونج‘ میں بھی عینی آپا کی رائے بعنوان ’جو جھکوں تو
شاخِ گلاب ہوں جو اٹھوں تو ابرِ بہار ہوں ‘ درج ہے۔ اس تحریر کو پڑھ کر اندازہ
ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان کتنا گہرا ادبی اور دوستانہ رشتہ تھا۔
جہاں تک عزیز بانو کی شاعری کا تعلق ہے وہ کئی کشتیوں میں
سوار رہی، شروع میں ان کی شاعری روایتی طرزِ فکر کی غمازی کرتی دکھائی دیتی ہے،جس
کااعتراف خود موصوفہ نے بھی اپنے مجموعے میں صفحہ 17پر کیا ہے۔وہ لکھتی ہیں:
’’مگر اس مقبولیت کے باوجود میں اپنی شاعری سے مطمئن نہ تھی۔
میری شاعری روایتی شاعری تھی۔ ‘‘
آگے چل کر وہ ترقی پسندتحریک کی گرویدہ رہیں، ترقی پسند
شاعروں میں انھیں فیض نے سب سے زیادہ متأثر کیا۔ وہ اپنے انتشارِ شعور کے تعلق سے
آگے صفحہ 18پراِس طرح روشنی ڈالتی ہی:
’’میری بے چین طبیعت کے لیے ٹھہراؤ ممکن نہ تھا،میرا ذہن اپنی
منزل کی تلاش میں بے چین تھا، ایک دن ترقی پسندی کا سیلاب مجھے بھی تنکے کی طرح
بہا لے گیا۔ خاص طور پر میں فیض سے بے حد متاثر تھی، اُس زمانے میں میں نے جو بھی
شاعری کی اس پر ترقی پسندی کا رنگ غالب تھا۔‘‘
مگر جلد ہی وہ ترقی پسند تحریک سے بھی منقطع ہو گئیں۔ ان کی
جبلت میں ایک طرح کی بے چینی کارفرما رہی۔ ان کے انتشارِ نفس و شعورنے انھیں ہمیشہ
مضطرب رکھا۔ بعد ازاں جب جدیدیت نے اپنے پیر پھیلانے شروع کیے اور پورے ادب میں جدیدیت
کا غلغلہ ہوا تو موصوفہ کا رجحان جدیدیت کی طرف مُڑ گیا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیںکہ
انتشارِ نفس نے ان کے مزاج کو سیمابی بنا دیا تھا، جس کو کسی طرح قرار نہیں تھا،
سکون نہیں تھا، اطمینان نہیں تھا۔ مذکورہ صفحہ پر ہی وہ اپنی جبلی کیفیت کا اظہار یوں
کرتی ہی:
’’یہ زمانہ میرے لیے بڑے کرب اور مایوسی کا زمانہ تھا۔ عین اس
وقت جب میں اپنے اندر ایک خارزار میں بھٹک رہی تھی مجھے ایک عجیب سا مقناطیسی
کھنچاؤ محسوس ہوا۔ مجھ میں بھی ایک ’ کوہِ ندا‘ تھا، جس کی آواز مجھے اپنی طرف
بلا رہی تھی۔ یہ آواز جدید شاعری کی تھی، میں دیوانہ وار اس صدا کا پیچھا کرنے لگی،
یہ سنہ 1970کا زمانہ تھا، اس پہاڑ پر قدم رکھتے ہی میری شاعری کا لہجہ خود بخود
بدل گیا۔ ‘‘
یہ ہیں وہ تین پڑاؤ اور خیمے، جن میں داراب وفا کی شاعری
سانس لیتی ہے اور اپنا فنی سفر طے کرتی ہے۔ لیکن افسوس کہ انھوں نے اپنا قیمتی
سرمایہ خود ضائع کردیا اور دوسرے تساہلی کے سبب جو باقی تھا وہ بھی پورا یکجا نہ
ہو سکا۔ بہرکیف ہمیں ’ گونج‘ میں شامل غزلیات کچھ قطعات اور متفرق اشعار پر ہی
اکتفا کرنا پڑے گا اور اسی مجموعے کی روشنی میں ان کی شاعری کی سمت و رفتار نیز
شعری جہتوں کو منکشف کرنے کی سعی کریں گے۔
یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ داراب وفا کی زندگی اور جبلی
تقاضوں میں ایک طرح کا خبط و مراق پیدا ہو گیا تھا، جس کے باعث ان کی طبیعت میں
ٹھہراؤ نہیں رہا تھا۔ جس’ کوہِ ندا ‘کا وہ ذکر کرتی ہیں، یہ ان کا انتشارِ شعور ہی
تو تھا جو ان کو مختلف پگڈنڈیوں پر چلا رہا تھا۔ چنانچہ ان کی نفسیاتی کیفیت ان کے
فن پر ہمیشہ غالب رہی۔حتیٰ کہ آخری دور میں تو ان کی زندگی کے مطالعے سے ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ وہ نرگسیت میں بھی مبتلا ہو گئی تھیں لیکن فنکار ہونے کی وجہ سے
انھوں نے اپنے آپ کو ابنار مل ہونے نہیں دیا۔ جیسا کہ وہ خود معترف ہیں کہ ابتدائی
دور میں وہ روایتی خول میں مقید رہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چاہے ان کا روایتی دور
رہا ہو یا ترقی پسندی کا یا پھر جدیدیت کا،انھوں نے تینوں دور میں کس معیار کی
شاعری کی ہے۔ ان کی زبان کس طرح کی رہی، ان کا اندازِ تخاطب اور اسلوب کس طرح کا
رہا۔ ان کا تفحصِ الفاظ اور پروازِ تخیل قاری کے دل و دماغ کو متأثر کرتی ہے یا
نہیں... ؟ان کا نسائی لب و لہجہ کس نوعیت کا ہے،یہ صرف نسائی لب و لہجہ ہے یا پھر
ان کا کلام تانیثیت کا مظہر ہے۔ ان کے یہاں کس طرح کے جذبے جنم لیتے ہیں۔ ان کے
اندر کے ’ کوہِ ندا‘ کا صوتی آہنگ کیا گل کھلاتا ہے نیزان کا رنگِ شاعری دلوں پر
کیا دستک دیتا ہے۔روایتی شاعری کے تعلق سے مندرجہ ذیل شعر دیکھیے ؎
میں جمالِ فطرتِ حسن ہوں مری ہر ادا ہے حسین تر
جو جھکوں تو شاخِ گلاب ہوں جو اٹھوں تو ابرِ بہار ہوں
یہ ان کے ابتدائی دور کا شعر ہے جو شاید موصوفہ کو خود بھی
بے حد پسند تھا اور عینی آپا کو بھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نسائی لب و لہجے کا یہ
شعر بہت خوب صورت ہے،خوبصورتی کے ساتھ معنی خیز ی اور معنی آفرینی بھی لیے ہوئے
ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شعر ’ وجودِ زن ‘ کی بھر پور غمازی کر رہا ہے۔ اگر ہم اس
شعر کی تہوں میں جانے کی کوشش کریں تو بہت سی پرتیں کھلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت ذات ’جمالِ فطرتِ حسن‘ ہے۔ ’ شاخِ گلاب ‘ اور ’ ابرِ
بہار ‘ کی ترکیب و استعارے سے شعر جمالیاتی حسن کا مرقع بن گیا ہے۔ شعر میں صرف
جذبات کی فراوانی نہیں بلکہ حقیقت کا عنصر بھی ہے۔ اب ذراترقی پسندی کے حوالے سے
بھی ایک شعر دیکھ لیجیے جو انھیں بھی بہت پسند تھا ؎
ساز ہر شاخ کو جب دستِ صبا دیتا ہے
درِ زنداں کی بھی زنجیر ہلا دیتا ہے
اس شعر میں فیض کا پرتو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اس شعر میں
وہی گونج شامل ہے جو ترقی پسندی کا شیوہ اور طرۂ امتیاز تھا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن
نشیں ہونی چاہیے کہ خواہ وہ شعر روایتی ہو یا ترقی پسندانہ ہو یا پھر کسی اور
رجحان کے تحت خلق کیا گیا ہو، شاعری کا طرہ ٔامتیاز اور حسن یہ ہے کہ وہ علامتوں،
استعاروں اور تشبیہوں کے بغیر آگے نہیں چل سکتی، فنکار کی فکر، اس کا رجحان، اس
کا نقطۂ نگاہ اور اس کا مزاج ہی فن پارہ یا شعر کو اس خصوصیت کا حامل بنا تا ہے،
جس کا فن پارے پر اطلاق کیا جاتا ہے، اور اس معاملے میں کہ وہ شعر کس تحریک یا
رجحان کی نمائندگی کرے گا بس تفحصِ الفاظ کا محتاج ہوتا ہے، کیوں کہ ڈکشن ہی وہ
اساس ہے جو فن پارے یا شعر کو جہت و سمت عطا کرتا ہے اور اس کو نیا پیراہن زیب تن
کراتا ہے۔ مذکورہ شعر میں دستِ صبا کے ساتھ درِ زنداں اور زنجیر نے شعر کو ترقی
پسند تحریک کا نمائندہ بنا دیا ہے۔
مجموعی طور پر عزیز بانو داراب وفا کے تعلق سے ہم یہ بات
کہہ سکتے ہیں کہ ان کے نسائی لب و لہجے میں ایک خاص طرح کا درد و غم پایا جاتا ہے
جسے درد و محبت کی ملی جُلی چاشنی کا نام دیا جا سکتا ہے۔ زندگی کی وہ معنویت ان
کے شعری ابعاد میں جنم لیتی ہے جس کا رشتہ عورت کی چہار دیواری اور جذبات کی نازک
ڈور سے ہے۔ وہ علامتوں اور اشاروں سے بہت گہری باتیں کہہ جاتی ہیں ایسی گہری باتیں
جو اپنے اندر بہت سی داستانیں مخفی رکھتی ہیں۔ جب ہم ان کی کائناتِ غزل کا مطالعہ
کرتے ہیں تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ عزیز بانو کا فن تہداری اور داخلیت
کا آئینہ دار ہے۔ ان کے یہاں بلیغ اشارے ہیں، معنی خیز تمثیلیں اور علامتیں ہیں،
مضمون آفرینی، استعارات و تشبیہات ہیں
؎
ہر ایک شہرنگاراں سمجھ رہا ہے مجھے
نہ جانے کتنے زمانوں کی داستاں ہوں میں
میرے ماتھے کی لکیروں میں اضافہ کرکے
وہ بھی ماضی کی طرح اپنی نشانی دے گا
روٹھ جائے گا تو مجھ سے اور کیا لے جائے گا
بس یہی ہوگا کہ جینے کا مزا لے جائے گا
خود میں اُتروں گی تو میں بھی لا پتہ ہو جاؤں گی
روشنی کے غار میں جاکر دِیا ہو جاؤں گی
کبھی گوکُل کبھی رادھا کبھی موہن بن کے
میں خیالوں میں بھٹکتی رہی جوگن بن کے
مذکورہ بالا اشعار کے علاوہ ان کے مجموعے میں اس قبیل کے
اور بہت سے شعروں کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ان شعروں میں جدت و ندرت، معنی آفرینی،
سہل پسندی مگر تہہ داری اور گہرائی، وسعتِ فکر، تجربات کا نچوڑ، مشاہدے کی گہرائی
اور شاعرانہ دیدہ وری رچی بسی ہے۔
مآخذ:
1 تذکرہ خواتین مصنف :عبد الباری آسی
2 گونج شعری مجموعہ، شاعرہ: عزیز بانو داراب وفا
3 کارِ جہاں دراز ہے ناول، مصنفہ: قرۃ العین حیدر
Dr. Mohd Mustamir
Assistant Professor,
Dept of Urdu
Zakir Husain Delhi
College
Delhi- 110002
Mob.: 8920860709
drmohdmustamir@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں