26/12/24

انور ندیم کے قلمی خاکے،’جلتے توے کی مسکراہٹ‘ کے حوالے سے، مضمون نگار: محمد اویس سنبھلی

 اردو دنیا، نومبر 2024


اردو زبان و ادب میں لکھنؤکو دبستانی حیثیت حاصل ہے اوراس حوالے سے یہاں کے باکمالوں کے نام کئی اوّلیات ہیں۔ جواردو ادب کی تاریخ میں یاد رکھی جائیں گی۔ لکھنؤ کے تہذیبی، تاریخی اور ادبی سلسلۃ الذہب کو مزید آب دینے والوں میں ایک نام انور کمال خاں آفریدی قیصر باری یعنی انور ندیم (22؍ اکتوبر1937-2017) کا ہے، جنھوں نے جوش کے وطن ملیح آباد میں آنکھیں کھولیں اورکار گاہ ادب لکھنؤکے دیکھے:

’’ندیم خوب لانبے، مگر مائک کے سامنے اداکاری کے ہاتھوں خمیدہ، بال کچھ ہلکے، مگر لمبے، قلمیں سفیدی مائل، مونچھیں چوڑی، آنکھیں بڑی، ناک اُونچی مگر موٹی اور کچھ عجیب سی، ہونٹ اچھے اور اُن کے نیچے ایک تل بھی، آواز کبھی تیز، کبھی مدھم۔‘‘

(جلتے توے کی مسکراہٹ، انور ندیم، ص 199-200)

یہ ہے لکھنؤ کے انور ندیم کا تعارف، خود اُن کے اپنے لفظوں میں۔ ایک اور جگہ اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’گھر کے محبت ناآشنا ماحول نے انور کہہ کے پکارا۔ پہلی درسگاہ نے انور کمال خاں کو برتا، اور یونیورسٹی کی سطح پر نام کے آخر میں آفریدی کا لاحقہ بھی جڑ گیا۔ پچاس برس کی قلمی کاوشوں کو انور ندیم کی رفاقتیں حاصل رہیں۔مگر آج عمر کے 70سال بھوگنے کے بعد ماں قیصر، باپ باری کے ناموں میں خود کو گم کردینے کی خواہش بہت تیزہو گئی ہے۔‘‘

(The Enigmatic Anwar Nadeem, By Navras J. Aafreedi, Magzine " Cafe Dissensus Everyday" 22 Oct. 2020)

وہ اولاً ایک شاعر، بعدہٗ ایک اچھے نثر نگار ہیں۔ والی آسی کی بدولت آل انڈیا مشاعروں میں اپنی پہچان بنائی اور انڈو پاک کے کئی مشاعرے پڑھے۔ شاعری نے ان کو شہرت عطا کی اور نثر نے ان کا وقار بڑھایا۔ اس مضمون میں ہم ’جلتے توے کی مسکراہٹ‘کے حوالے سے ان کی نثر نگاری پر گفتگو کریں گے۔ سفرنامہ، میدان، اور’جے شری رام‘ وغیرہ ان کے شعری مجموعے ہیں۔ ’ہمارے ہر اشارے میں محبت کارفرما ہے‘ کے نام سے مضامین کا مجموعہ اور’ کرچیں‘ فلمی کہانی ہے۔ ’خانہ خراب‘ کے عنوان سے خودنوشت لکھ رہے تھے، جو شائع ہوگئی ہوتی تو خود نوشت سوانحی ادب میں یقینا ایک بہترین اضافہ قرار پاتی۔ انور ندیم نے جو بھی تحریر کیا ہے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، البتہ ’جلتے توے کی مسکراہٹ‘ نثر نگاری میں ان کی شناخت کو استحکام بخشتی ہے۔ انور ندیم کا بے باکانہ اندازِ تحریر، جُداگانہ لب ولہجہ اور منفرد طرزِ بیان، مختصر جملوں میں ایک پوری کیفیت کا اظہار، الفاظ کی دَر وبَست اور چست فقرے ان کی نثر کو نیا کینوس عطا کرتے ہیں۔انور ندیم کا نثری اسلوب اُن کا اپنا تھا، جس کے وہ موجد تھے اور شاید خاتم بھی۔ جس کسی شخص نے اُن کو پڑھتے ہوئے نہیں سنا، اُن کے لیے ان کی نثر کو سمجھنا ذرامشکل ہے۔ وہ جس ڈرامائی انداز میں، اداکاری کے ساتھ اپنی تحریریں پڑھا کرتے تھے، وہ تحریر یںبھی اسی اندازِ پیشکش کی متقاضی تھیں۔ ان کی تحریر اور تقریر کا انداز ایک ہی ہوتا تھا۔

’جلتے توے کی مسکراہٹ‘ 288 صفحات پر مشتمل ہے اور 23 مئی 1981 سے 6 دسمبر 1982 کے درمیان ہونے والے 23 مشاعروں کے رپورتاژ ہے۔اس سلسلے کی دوسری جلد ’وہائٹ پیپر‘ کے عنوان سے لکھی تھی، جو ہنوز شائع نہ ہوسکی۔ ’جلتے توے کی مسکراہٹ‘ کے محتویات کو’یہاں وہاں‘، ’اِدھر اُدھر‘ کے نام سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیاہے اور دہلی، لکھیم پور، آگرہ، سیتاپور، کلکتہ، گورکھپور، بہرائچ، پٹنہ، انبالہ، بنارس، حیدرآباد وغیرہ کے مشاعروں کی روداد پیش کی ہے۔ ابتدا میں اختر بستوی کا مکتوب ’اس کتاب کا پریچے‘ کے عنوان سے شامل ہے اور آخر میںپروفیسر علی احمد فاطمی کا آگرہ کے مشاعرے پر انور ندیم کے لکھے گئے رپورتاژ کا جواب مکتوب کی شکل میں نقل کیا گیاہے۔ پھر ’کون کہاں‘ کے عنوان سے کتاب میں مذکور شہروں اور شاعروں کا اشاریہ بھی بہ اعتبار حروفِ تہجی 12صفحات میں درج ہے۔

 رپورتاژ نگاری میں کسی پروگرام، محفل، کانفرنس یا کسی حقیقی واقعے کی روداد کو افسانوی رنگ میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ قاری اکتاہٹ محسوص نہ کرے اور خاکہ نگاری میں کسی شخص کے رنگ ڈھنگ کا نقشہ اس طور کھینچا جاتا ہے کہ اس کی تصویر قاری کے ذہن ونگاہ میںمرتسم ہو جائے اور مجسم ہوکر سامنے آجائے۔ ’جلتے توے کی مسکراہٹ‘ کے نام سے انور ندیم کی تحریروں کا یہ خوبصورت گلدستہ رپورتاژ نگاری اور خاکہ نگاری کے امتزاج سے وجود میں آتا ہے۔ مشاعرے میں شامل ہر شاعر کی اچھی بری باتیں اورعادتیں اور اس کے فکر و فن سے متعلق اپنے تاثر کو آسان زبان میں پیش کرنے کے ہنر سے وہ خوب واقف ہیں۔ یہ مجموعہ بیک وقت رپورتاژ نگاری اور خاکہ نگاری کے فن پر پورا اترتا ہے اورکہیں کہیں سفرنامے کا تاثر بھی چھوڑتا ہے۔ انور ندیم کی کڑوی کسیلی باتیں اور تبصروں میں ادبی رنگ اپنے عروج پر ہوتاہے۔

’جلتے توے کی مسکراہٹ‘ میں طنز کی لطیف لکیریں محسوس کی جاسکتی ہیں، کتاب کے نام کی معنی آفرینی کا اصل لطف کتاب کے مطالعے میں ہی ہے۔اس میں انسانوں کی چلتی پھرتی، دوڑتی بھاگتی، چلاتی اور کُھس پھساتی رنگا رنگ تصویریں سرگوشیاں اور اَٹکھیلیاں کرتی نظر آتی ہیں۔ اپنے ملنے والوں پر انور ندیم کی ترچھی نظراور گہری فکر کبھی دھوکہ نہیں کھاتی، وہ اپنے ملنے والوں کی تصویریں، نہ کم نہ زیادہ، منفرد انداز میں کمال دیانت سے لفظوں میں اُکیر دیتے ہیں۔ انور ندیم طویل جملوں اور فقروں کی بندشوںسے آزاد ہیں، مختصر سے مختصر اور چھوٹے چھوٹے جملے بلکہ ٹکڑے میں اپنی بات کہہ کر قاری کو حیرتی بنا دیتے ہیں۔نئے لکھنے والوں کو’جلتے توے کی مسکراہٹ‘ کومطالعے کی کتابوں میںترجیحی طور پر رکھنا چاہیے۔

’ایک جشنِ آرزو ہے مگر سادگی کے ساتھ‘ اور’نگر نگر میں ڈیرے اپنے، بستی بستی پھیرے ہیں‘ کے عنوان سے دو ابتدائی رپورتاژ میں جن شعرا کا انور ندیم تعارف کرایا ہے، وہی لوگ  آنے والی تمام تحریروں میں نت نئے انداز اور رنگ وڈھنگ میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، اضافہ ہوتا بھی ہے تو دو چار کچھ اہم اور کچھ غیر اہم رسمی سے افراد کا، جن کا خاکہ بھی بڑی خوبصورتی سے اڑھایا ہے۔ مشاعروں کے اسٹیج پر انور ندیم اور والی آسی کا خوب ساتھ رہا۔ انور ندیم نے اپنی کتاب ’جلتے توے کی مسکراہٹ‘ کے انتساب میں لکھا ہے :

’’جلتے توے کی مسکراہٹ بھائی والی آسی کی ان مہربان کوششوں کے نام، جو انور ندیم کو مشاعروں میں کھینچ لے گئیں۔‘‘

 انور ندیم نے جن مشاعروں میں شرکت کی، ان کی روداد اس کتاب میں قلم بند کی ہے۔لہٰذا اس کتاب میں سفرنامے ہیں شاعروں کے،صدا بندیاں ہیں لطیفوں کی ، خاکے ہیں اخلاقی رویوں کے اور جھلکیاں ہیں اسٹیج کی، جائزہ ہے شعر و حکمت کا،کہانیاں ہیں مختلف اردو سماجوں کی،ماحول ہے پس منظر کا،باتیں ہیں قصبوں، شہروں ،مہا نگروں کی،دائرے ہیں فکر و نظر کے۔ والی آسی اور انورندیم ہر جگہ، ہر کہیں ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں، وہ زندگی کی ریل ہو یا مشاعرے کا اسٹیج، تاریک شب میں کوئی سنسان سڑک ہو یا بھری،سجی کوئی محفل، ایک کو تلاش کرلیجیے، دوسرا آپ ہی مل جائے گا۔ ایسے ہی والی آسی کی شخصیت اور فن پر انھوں نے بہت خوبصورت جملے قلم بند کیے ہیں۔

’’والی آسی۔۔۔ ۔فنکار ہیں غزل کے، غزل ان کا رجحان بھی ہے اوراُن کی زندگی بھی۔غزل ان کی تمام دلچسپیوں کی جان ہے۔ وہ غزل کے شجرے سے خوب واقف ہیں۔ انھیں پرانی غزلوں کی خبر بھی ہے اور اُن کے پاس نئی غزل کی گہری سوجھ بوجھ بھی ہے۔

(جلتے توے کی مسکراہٹ، ص80)

اعظم گڑھ، اتر پردیش کا ایک ایسا مردم خیز خطہ ہے،جس نے ہندوستان اور اردو ادب کو شبلی نعمانی، اقبال سہیل، احتشام حسین، خلیل الرحمن اعظمی، کیفی اعظمی اور شمس الرحمن فاروقی جیسی عبقری، ادبی اور سیاسی شخصیتیں عطا کیں ہیں۔ علم وفضل اس علاقے کا خاصہ ہے۔ یہاں کے علما اور فضلانے ہر دور میں دین و مذہب، ملک و ملت اور زبان وادب کی خدمت کی ہے اور اپنے افکار، نظریات اور ادبی خدمات کے ذریعہ عالمی شہرت اور مقبولیت حاصل کی ہے۔ اسی فہرست میں ایک نام معروف شاعرساغر اعظمی کا ہے، جنھوں نے ہند اور بیرون ہندکے مشاعروں میں خود اپنے منفرد ترنم، لہجے کی غنائیت سے اپنی شناخت بنائی اور کم وبیش چالیس سال تک مشاعروں کے اسٹیج پر چھائے رہے۔ ساغر اعظمی کے اِس شعر نے تو ان کو راتوں رات اردو کی نئی، پرانی کالونیوں کے نوجوانوں کا چہیتا شاعر بنادیا   ؎

کشمیر کی وادی میں بے پردہ جو نکلے ہو

کیا آگ لگاؤ گے برفیلی چٹانوں میں

ساغر اعظمی مشاعروں سے پہچانے گئے، شاعری، آواز کی سحر کاری اور ندرت فکرو خیال سے   ایک زمانے تک سامعین کے دل و دماغ پر حکومت کرتے رہے۔ بقول انور ندیم:

 ’’ساغر کی آواز غم نصیب انسانیت کی عجیب و غریب، دردناک دُہائیوں کا ترنم ہے۔‘‘

ڈاکٹر ساغر اعظمی کا تعارف کراتے ہوئے انور ندیم نے مزید لکھا ہے:

’’مشاعروں کی راتوں نے ساغر اعظمی کو شہرت بھی دی اور دولت بھی، ہلکے پھلکے بدن پر خوبصورت لباس، چہرہ ایسا کہ پیار کرنے والوں کو یاد رہ جائے۔ ساغر کا ترنم پہلے چیختا تھا مگر اب دلوں کے چور دروازے ٹٹولتا پھرتا ہے         ؎

چل پڑے ہو تو چلتے رہو، رُک گئے تو کچل جائو گے

اس زمانے کے حالات ہیں بھاگتے لشکروں کی طرح!

(ایضاً، صفحہ 221)

کلاسیکی لب و لہجے کے شہرت یافتہ خوش گلو شاعر حق کانپوری (1942-2019) رائے بریلی میں پیدا ہوئے اور زندگی کا زیادہ حصہ کانپور میں گزارا، اس لیے نام کے ساتھ کانپوری لکھتے رہے۔ کانپور کے حوالے سے فنا نظامی کے بعد انھوں نے خوب شہرت پائی اور کم و بیش دو دہائیوں تک مشاعروں میں چھائے رہے۔ حق کانپوری کا ترنم بالکل منفرد تھا۔ انھوں نے کلاسیکی غزلوں کے ذریعے خوب مقبولیت حاصل کی۔ ان کی ایک غزل تو شاید سیکڑوں مشاعروں میں سنی گئی ہوگی          ؎

پہلے کبھی پوچھا تھا جو اب پوچھ رہی ہے

دنیا مرے لٹنے کا سبب پوچھ رہی ہے

انور ندیم نے حق کانپوری کا قلمی خاکہ اس طرح کھینچا ہے :

’’مخملی ٹوپی، گورا رنگ، بہت بے ہودہ کالی داڑھی، آنکھ ، ناک ہونٹ سب چھوٹے، آنکھ میں سرمہ، منھ میں پان، پائجامہ کے اُوپر بہت اُونچا کرتا اور کالا کوٹ۔ باتیں وہی جو نوخیز عمروں کو چھیڑ سکیں، مگر ترنم ہائے غضب!۔۔۔۔۔کم سن، چنچل، گہرا میٹھا۔ حق کا ترنم آندھی بن گیا اور داد و تحسین کے کچے پکے پھل سارے ہال میں بکھر گئے، حق نے اپنی جھولیاں بھر لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

(جلتے توے کی مسکراہٹ، ص 103)

مشاعرہ اور نظامت لازم و ملزوم ہیں۔ ہندوستان میں مشاعروں کی نظامت کے حوالے سے کئی نام سامنے آتے ہیں ،لیکن آزادی کے بعد اردو مشاعروں کی پوری تاریخ میںڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد سے پہلے کسی نے نظامت کو وہ راہیں نہیں دکھائی تھیں، جو ملک زادہ صاحب نے دکھائیں۔

 نظامت کے حوالے سے ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد اتنے مشہور ہوئے کہ ان کی شاعری کہیں پیچھے رہ گئی۔ وہ ساری دنیا میں مشاعروں میں بلائے جاتے، لیکن شاعر کی حیثیت سے کم اور ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے زیادہ۔ وہ ایسے شاعر تھے کہ اگر وہ کامیاب ناظم مشاعرہ نہ بھی ہوتے تو بھی اُن کا تعارف ایک باکمال،معتبر شاعر کی حیثیت سے ضرور ہوتا، اُن کی حیات میں ہی نہ جانے ان کے کتنے اشعار زباں زد خاص وعام ہوگئے تھے، یہ شعر بھی تو ان ہی کا ہے      ؎

چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے

جو دل کا حال ہے وہی دلّی کا حال ہے

لیکن حقیقت ہے کہ ڈاکٹرملک زادہ منظور احمدکی نظامت نے ان کی شاعری پر بہت ستم ڈھایا۔ پوری زندگی وہ مشاعروں کے ناظم کے طور پہچانے گئے۔ انور ندیم نے ان کے تعلق سے کئی واقعات قلم بند کیے ہیں، جن سے ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کی ادبی زندگی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے:

’’ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد، ملک گیر نظامت کے سلسلے میں پچھلے کئی برسوں سے پہلے پائیدان پر براجمان ہیں۔ کبھی کبھار سفر کی تھکن اور بیانیہ بے راہ روی سے بوجھل ہوکر گِرے بھی تو تیسرے، چوتھے نہیں بلکہ دوسرے پائیدان پر، اور پھر جلدی ہی آگئے اسی پہلے پائیدان پر۔۔۔‘‘ (جلتے توے کی مسکراہٹ ، ص 25)

’’ڈاکٹر ملک زادہ نے شاعروں کے منچ اور مشاعرہ سننے والوں کے پنڈال میں زندگی کو بیدار رکھنے کے خیال سے اپنی نظامت کو مشاعرے کے آخری لمحوں تک دل چسپ بنائے رکھا۔‘‘ (جلتے توے کی مسکراہٹ، ص 161)

کرشن بہاری نور کا شمار اُن شعرا میں ہوتا ہے، جنھوں نے لکھنؤ کے ادبی ماحول اور پرکیف فضا میں آنکھیں کھولیں اور اہل سخن کی صحبتوں نے شعری ذوق کو جلا بخشی، فضل نقوی سے شرف تلمذ حاصل کیا اور مشق سخن سے کلاسیکی شاعری میں امتیازی حیثیت کے حامل ہوئے اورپھر استاد شاعر قرار پائے اور اپنے پیچھے تلامذہ کی کثیر تعدادچھوڑی۔ انہوں نے لکھنؤ کی زبان وانداز سے رشتہ قائم رکھتے ہوئے موضوع اور اسلوب کے حوالہ سے غزل میں اپنی انفردایت باقی رکھی۔

منور رانا کو لوگ شاعر کے طور پر جانتے ہیں اوروہ نثرنگارکی حیثیت سے بھی وہ اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ ایک دور ایسا تھا کہ انھوں نے مشاعروں کی نظامت کے فرائض بھی انجام دیے، یہ الگ بات کہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد، ثقلین حیدر،عمر قریشی اور انور جلالپوری کی طرح ان کی نظامت کا ذکر نہیں ہوتا،حالانکہ 1980 اور90 کی دہائی میں منور رانا نے مشاعروں کی خوب نظامت کی۔ 12؍اپریل 1982کو بہرائچ کے مشاعرے کا رپورتاژ لکھتے ہوئے انور ندیم نے منوررانا اور ان کی نظامت کے بارے میں لکھا ہے:

’’اُترپردیش، بنگال ، بہار اور مدھیہ پردیش میں لوگ منور رانا کو جانتے ہیں، بہرائچ میں یہ ان کی پہلی آمد ہے، لوگ اُن کی نظامت کے انداز کو دیکھنے ، سننے کے لیے بیتاب ۔ فرحت علی صاحب کی خاصی طویل افتتاحی تقریر سمٹی تو گیارہ بجے مائک منور رانا کے ہاتھ لگا۔ چھوٹے بال، چوڑا ماتا، بہت گہری خوبصورت آنکھیں، اچھی ناک، خراب مونچھیں، رسیلے ہونٹ، قلمیں بالکل غائب، یہاں سے وہاں تک خوب پھولے پھالے گال،  موٹی گردن، بھاری سینہ، نکلا ہوا پیٹ، چہرے پر نمک، بدن کے دوسرے حصے بالکل کالے، آواز بھاری اور خوب گٹھیلی، ہر موقعے کے لیے اشعار کا خوبصورت انتخاب، کچھ لطیفے بھی، مگر سب کے سب معیاری      ؎

                          (جلتے توے کی مسکراہٹ ، ص 218)

 اسٹیج پر عرصے تک اپنی خوبصورت اور پرکشش شاعری کے ذریعے مقبولیت برقرار رکھنے والے نور اندوری نے مظلوموں کی حمایت میں اپنی غزل کے ذریعے آواز اُٹھائی اور عام انسان کے جذبات کی ترجمانی کی، وہ غزل کے شاعر ہیں اور غزل ہی ان کا اثاثۂ کل ہے، جس میں ان کا ترنم آب زر کا کام کرتا تھا۔

انور ندیم نے نور اندوری کی غزل، ترنم اور مشاعرے میں ان کی موجودگی کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے:

’’نور اندوری، فکر وفن اور ترنم کے معاملے میں ، خمار اور انورمرزاپوری کے درمیان کی کوئی صورت، جو آج کے مشاعرے کا ایک اٹوٹ انگ ہے۔ شراب کی مستی اور شباب کی تھوڑی سی میلی میلی سُرخی گالوں پر بہکنے اور بہکانے کے کام کو بڑھاوا دینے والی نابالغ، مگر دل چسپ غزلیں۔‘‘ (جلتے توے کی مسکراہٹ ، ص 27 )

 مخمور سعیدی جدید غزل گو شعرا میں اپنی منفرد آواز اور لب ولہجے کے لیے معروف ہیں، متعدد کتابوں کے مترجم اور مرتب ہیں، ایک درجن سے زائد رسالوں کی ادارت کا فریضہ انجام دیا ہے  اور اپنی شاعری اوراپنے انداز خاص کے سبب ملک وبیرون ملک کے مشاعروں میں مقبولیت حاصل کی۔ آئیے انور ندیم کی زبان میں مخمور سعیدی کو جانتے ہیں:

’’ناظم مشاعرہ نے مخمور سعیدی کو بلالیا۔۔۔مخمور ؔسعیدی بے مزہ زندگی کی الجھنوں کو شراب کی تلخیوں سے کاٹنے والا پٹھان، دودھیا بدن پر سرخیوں کی اِجاردہ داری، مردانہ شریر ،مگر دانت کافی برے، صحافت اور اشاعتی تنظیموںسے وابستہ، اُردو غزل اور نئی غزل کے بہت اچھے شاعر۔۔۔۔‘‘ (جلتے توے کی مسکراہٹ ، ص 159)

 انور ندیم نثر کوبھر پور توانائی کے ساتھ برتنے والے شاعر ہیں، ان کی قلمی صلاحیت نے نثر کو نئی جہتوں، البیلے انداز اور انوکھے تیکھے پن سے متعارف کرایا ہے،چست اور بندھے ٹکے جملے فقرے کہ قاری بے ساختہ کہہ اٹھے کہ شاعری کررہے ہیں، کھرا پن، طنز ومزاح، چلبلا پن، لفظوں کی دلکشی میں منظر نگاری کی چنگاریاں، زبان سہل، آسان وسادہ، جا بجا ہندی الفاظ کا خلاقانہ استعمال، غرض ہر شے ان کی نثر میں بسیرا کرلیتی ہے۔حیدرآباد، کلکتہ، اُترولہ اور اَنبالہ کے مشاعروں کی روداد بطور خاص پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ان کے بے باکانہ خاکوں پر جتنے تحسینی کلمات ادا کیے جائیں کم ہیں۔

انور ندیم کی نثر میں پھول کی مہک، قوس قزح کی دلکشی، زبان کی مٹھاس، اور لہجے وفقروں کی کاٹ ملے گی۔ رپورتاژ نگاری کی اصل اور کامل تعریف انور ندیم کی تحریریں پڑھ کر سمجھ میں آتی ہیں، جس جگہ ان کے قدم پڑتے ہیں، وہاں کی تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی خوبیوں اور خامیوں کا بھرپور تعارف کم لفظوں اور دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں اور اس شہر یا قریے کا منظر نامہ دل ونگاہ میں بیٹھ جاتا ہے۔ انور ندیم کے اندر ایک کہانی کار چھپا ہوا ہے جو ’جلتے توے کی مسکراہٹ‘ میں اپنے   قاری کو شامل رکھتا ہے ۔

 

Mohd Ovais Sambhli

178/157, Barood Khana, Near Lal Masjid, Lucknow - 226 018 (U.P.)

Mob. : 7905636448

ovais.sambhli@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو اور بھوجپوری کا رشتہ، مضمون نگار: پرواز احمد

  اردو دنیا، اپریل 2025 زبان کی وسعت اور ترقی میں لوگوں کی ہجرت بھی خاص اہمیت رکھتی ہے جس کی ایک باقاعدہ تاریخ بھی موجود ہے۔ چودھویں صدی میں...