16/2/24

عالمی کتاب میلے میں قومی اردو کونسل اور این بی ٹی کے اشتراک سے ‘ہندوستان کے کثیر لسانی منظرنامے میں اردو تہذیب کی عکاسی’ پرمذاکرہ

نئی دہلی:دہلی کے پرگتی میدان میں جاری عالمی کتاب میلے میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور این بی ٹی(نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا) کے اشتراک سے ۱۵؍فروری کومیلہ گاہ کے تھیم پویلین میں ’ہندوستان کے کثیر لسانی منظرنامے میں اردو تہذیب کی عکاسی‘ کے عنوان سے ایک مجلسِ مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا،جس میں پروفیسر خواجہ اکرام الدین اور پروفیسر کوثر مظہری نے بہ طورمہمان و مذاکرہ کار شرکت کی،جبکہ اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر شفیع ایوب نے کی۔

 مذاکرے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے کہا کہ اردو تہذیب کا مطلب ہے ہندوستانی تہذیب، یعنی کثرت میں وحدت کا نمونہ ۔انھوں نے کہا کہ یہ زبان خالص ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی زبان ہے، اردو کے پہلے شاعر امیر خسرونے جس زبان میں شاعری کی ہے، وہی ہندوستان کا اصل رنگ ہے جو اردو زبان کے رگ و پے میں شامل ہے، خسرو کے بعد دکن اور میر و غالب اور بعد تک کی شاعری میں یہ رنگ بہت نمایاں ہے۔خواجہ اکرام نے کہا کہ ہندوستان جس کثیر لسانی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے، اس کا سب سے بہترین نمونہ اردو ہے۔انھوں نے اردو پر دوسری زبانوں کے اثرات اور ہندوستانی زبانوں پر اردو کے اثرات کو شعری مثالوں سے بیان کیا۔انھوں نے کہا کہ ہندوستان کو سمجھنے کے لیے ہندوستانی زبانوں کو پڑھنا پڑے گا اور ان زبانوں میں  اردو کی سب سے زیادہ اہمیت ہے،کیوں کہ ہندوستان کے تمام تہذیبی مظاہر کی نمائندگی یہ زبان بخوبی کرتی ہے۔

پروفیسر کوثر مظہری  نے کہا کہ اردو زبان کی تشکیل میں تمام قومی زبانوں اور تہذیبوں کی آمیزش رہی ہے، اس زبان میں ہر ہندوستانی زبان کے علاوہ عربی ، انگریزی ، پرتگیزی ، ترکی اور دیگر کئی زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے اردو نثر کی کلاسیکی کتاب’آب حیات ‘کے ایک اقتباس کا خصوصی حوالہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو کی کلاسیکی شاعری بھی لسانی تنوع کی نمائندگی کرتی ہے، بلکہ نثر سے زیادہ شاعری میں ہندوستانی تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔ پروفیسر مظہری نے کہا کہ اردو تہذیب سلیقہ و شائستگی سکھاتی ہے اور یہ بھی اس کی ایک خاص شناخت ہے، ہندوستانی فلموں کو خوب صورتی و مقبولیت عطا کرنے میں بھی اس کا اہم رول رہا ہے۔ آج گرچہ زبان کے استعمال اور اسے برتنے میں گراوٹ آئی ہے، مگر پھر بھی عموما یہی سمجھا جاتا ہے کہ اگر تہذیب اور سلیقہ مندی سیکھنی ہے تو اردو سیکھنی چاہیے۔ 

ہندی اور اردو کے روابط و اثرات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئےانھوں نے کہا کہ یہ دونوں زبانیں سب سے زیادہ ایک دوسرے سے قریب ہیں اور دونوں نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا ہے۔انھوں نے زبانوں میں مشکل پسندی اور ضرورت سے زیادہ شدھی کرن کو نقصان دہ بتایا اور کہا کہ ہمیں اپنی تخلیقات میں ایسی زبان استعمال کرنی چاہیے ،جو آسانی سے سمجھی جاسکے،تاکہ ہم اپنا پیغام وسیع پیمانے پر لوگوں تک پہنچا سکیں۔  اس موقعے پر کونسل کے عملے کے علاوہ بڑی تعداد میں شائقینِ زبان و ادب موجود رہے۔


انیسویں صدی میں ہندوستان کا تعلیمی نظام:عمر رضا

اٹھارہویں صدی کے اخیرمیں جس نوع کے تعلیمی نظام کو فروغ دیاجانے لگا تھا،اس نے انیسویں صدی میں ایک توانا شکل اختیار کرلی تھی۔اتنی توانا کہ اسے ہندستان میں جدید تعلیم کے آغازکے طور پردیکھاجاتا ہے۔

یہ وہ زمانہ ہے جس میں’ حکومتِ برطانیہ‘ نے ہندستان میں موجود’ ایسٹ انڈیا کمپنی‘ پر براہ راست نظررکھنے کے لیے ’ریگولیٹنگ ایکٹ1773 ‘پاس کیا۔1 وارن ہسٹنگز (Warren Hastings:1732-1818) کو ہندستان کا پہلا گورنر جنرل مقررکیااورکمپنی کے بعض اختیارات ’برطانوی عہدیداران /حکمران ‘کے ہاتھوں منتقل کرنا شروع کردیاتھا۔ اس حوالے سے ولیم پٹ دی ینگر (William Pitt the Younger:1759-1806) کا ذکر بھی ضروری ہے جس نے 1783میں برطانیہ کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا اور1784میں ایک ایسا قانون2 پاس کیا جس کے تحت ایک ’بورڈ آف کنٹرول ‘کا قیام عمل میں آیا۔ اسی بورڈ کے ذریعے حکومت برطانیہ نے کمپنی کے ’دیوانی‘،’ فوجی‘ اور’ مالی‘ معاملات پرپورااختیار حاصل کرلیا تھا۔یہی نہیں اب ’گورنر جنرل‘ ہندستان کا حقیقی حکمراں بن گیا تھاجو ’برطانوی پارلیمنٹ‘ کے تحت کام کرتا تھا۔

ایسٹ انڈیاکمپنی کا کام چونکہ تجارت کرنا تھااور اس معاملے میں اب بھی اس کی اجارہ داری قائم تھی،اس لیے کمپنی نے ہندستان کے تعلیمی اور کسی قدر سیاسی معاملات و مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ البتہ برطانوی عہدیداران اس میںخصوصی دلچسپی لینے لگے تھے۔ کیونکہ اب انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ ہندستان پروہ اپنی حکومت قائم کرسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس کے قیام کے لیے وہ نت نئے پروگرام تشکیل دینے لگے تھے۔انہی میں ایک اہم پروگرام ہندستان کے عوام کو’ انگریزی/ عیسائی‘ رنگ میں رنگنابھی تھا۔چنانچہ انھوں نے ہندستانی عوام کو عیسانی بنانے کی قواعد شروع کردی تھی۔ اس حوالے سے اس زمانے کے دو برطانوی عہدیداران ’چارلس گرانٹ ‘اور ’ولیم ولبرفورس ‘کا ذکر ناگزیر ہے۔

چارلس گرانٹ(Charles Grant: 1746- 1823) کی آمدِ ہندستان1767 میںایک ملٹری عہدیدار کے طور پرہوئی،لیکن بہت جلد اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی امور کی ذمے داری سونپ دی گئی تھی۔ابتدا میں اسے بنگال کی تجارت کا Superintendent بنایاگیا تھا۔گرانٹ چونکہ اس زمانے میں سرگرم عیسائیوں کے ایک مذہبی،اخلاقی اور سیاسی جماعتClapham Sect سے متاثر تھا، اس لیے بہت جلد اُس نے عیسائی مشنری کی تبلیغی سرگرمیوں میںحصہ لیتے ہوئے ہندستان کے زیادہ تر باشندوں کو عیسائی بنانا، اپنی زندگی کا مقصد بنالیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 1787 میں گورنر جنرل کارن والس (Charles Cornwallis:1738-1805) نے گرانٹ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی بورڈ کا رکن مقرر کردیا تھا۔ 1790 میںملازمت سے سبکدوش ہوکروہ برطانیہ واپس چلاگیاجہاں اس کی ملاقات ولیم ولبرفورس سے ہوئی۔

ولیم ولبرفورس(William Wilberforce: 1759-1833) ایک برطانوی سیاست داں اور غلاموں کی تجارت کو ختم کرنے کی تحریک کا رہنما تھا۔ اس نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1780 میں کیا اوراپنے آبائی شہر یورکشائر(Yorkshire) کے لیے ایک آزاد رکن پارلیمنٹ(MP) منتخب ہواتھا۔ 1785 میںمسیحی بن کر وہ Clapham Sectکاروح رواں بن گیاتھا۔ولیم ولبرفورس کی ملاقات نے گرانٹ کی مذہبیت پر گہرا اثر ڈالا۔ چنانچہ اس نے1792میںObservations on the State of Society Among the Asiatic Subjects to Great Britain, Particularly with Respect to Morals, and on the Means of Improving itکے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا جس میںگرانٹ نے بے حد پُرجوش انداز میں ہندستان کو تبلیغ کے ذریعے عیسانی بنانے کی تجویز پیش کی۔3بقول مالک رام:

’’۔۔۔ان [چارلس گرانٹ]کا خیال یہ تھا کہ اس مقصد میں کامیابی کی پہلی منزل یہ ہے کہ یہاں انگریزی کا عام رواج ہو۔جونہی لوگ انگریزی پڑھنے لگیں گے،وہ لامحالہ عیسائیت کا بھی مطالعہ کریںگے اور اس کے بعد وہ آسانی سے اسے قبول کرلیں گے۔اس لیے انھوں نے انگریزی کی ترویج پر خاص زوردیا اوراس کے لیے دو تجویزیں پیش کیں:اول، ہندستان میں کمپنی کی حکومت کا سارا کاروبار انگریزی زبان میں ہونا چاہیے۔ دوم، ہندستانی مدارس میں ذریعۂ تعلیم انگریزی کردیا جائے۔

اس مضمون میں انھوں نے یہ رائے بھی ظاہر کی کہ ہمیں کام کی وسعت سے گھبرانا نہیں چاہیے۔خود ہندستانی باشندے انگریزی پڑھنے کے بہت مشتاق ہیں۔اگر ایک مرتبہ ہم نے انگریزی پڑھانا شروع کردی تو کوئی دن جاتا ہے کہ خود ہندستانی اس میں اتنی مہارت اور لیاقت حاصل کرلیں گے کہ وہ ہماری مدد کے بغیر اپنے ہم وطنوں کو یہ زبان پڑھانے کے قابل ہوجائیں گے۔‘‘4

1793 میں برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے کمپنی کا مشرقی ممالک سے تجارتی اجارہ داری کا قانون چارٹر ایکٹ5پیش کیا گیا تو برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن کی حیثیت سے ولیم ولبرفورس نے ایک قرارداد پیش کی جو گرانٹ کے کتابچے پر مبنی تھی۔اس میں اس نے کہا کہ ’قانون میں یہ لکھاجائے کہ کمپنی کا یہ فرض ہوگا کہ وہ وقتاً فوقتاً ولایت سے ایسے تجربہ کار اور اہل علم لوگوں کو ہندستان بھیجتی رہے،جومدرس اور مشنری کے فرائض سرانجام دے سکیں۔‘6 ولیم ولبر فورس کی اس تجویز پرکمپنی کے ڈائرکٹر بھڑک اٹھے اور اس کی پرزورمخالفت کی۔ نتیجتاً ولیم ولبر فورس کی قرارداد اس وقت توردہوگئی تھی لیکن عیسائی مبلغین کو اس سے تقویت ضرور ملی۔ 1797 میں گرانٹ کے کتابچے کی اشاعت کے بعد تو اس خیال کو مزید فروغ ملنا شروع ہوگیا تھا اور برطانیہ کے بیشترعہدیداران کی یہ رائے ہوگئی تھی کہ عیسائی مبلغین کو ہندستان جانے کی کھلی آزادی ہونی چاہیے تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ہندستانیوں کو عیسائی بناسکیں۔اس کے ساتھ ہی برطانوی عہدیداروں کی ایک جماعت انگریز ملازمین کو ہندستانی زبان و تہذیب سے بھی آشنا کرنا چاہتی تھی تاکہ یہاں کے انتظام وانصرام کو وہ بخوبی نبھاسکیں۔اس حوالے سے گورنر جنرل ویلزلی کا ذکر کیاجاسکتا ہے۔

ریچرڈکولے ویلزلی(Richard Colley Wellesley: 1760-1842) نے1798میں گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا اور وہ اس عہدے پر 1805 تک برقراررہا۔اسی کی رہنمائی میں چوتھی اور آخری اینگلو- میسور جنگ 1799میں لڑی گئی۔یہی وہ جنگ ہے جس میں 4مئی1799کوشیرمیسور ٹیپو سلطان (Sultan Fateh Ali Sahab Tipu:1750-1799) کو شہید کردیاگیا تھا۔ اسی سال ویلزلی نے Censorship of Press Act, 1799 نافذ کیا جس کی رو سے کسی بھی اخبار میں خبریں شائع کرنے سے پہلے حکومت کی اجازت لینی پڑتی تھی۔ علاوہ ازیںاس نے کمپنی کے ڈائرکٹرز کے سامنے ایک ایسے کالج کا منصوبہ پیش کیا جس میں انگریز سول ملازمین کو ہندستان کی زبان و ثقافت اور عدالتی نظام سے روشناس کرایاجاسکے۔

جیسا کہ ذکر کیاجاچکا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی تعلیم کا باربرداشت نہیں کرنا چاہتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ لندن میں موجود بورڈ آف ڈائرکٹرنے قیامِ کالج کی پرزور مخالفت کی، کیونکہ ان کے خیال میں اس کام کے لیے انگلینڈ میں تعلیم کا نظام موجود تھا جہاں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو ہندستان بھیجا جاتا تھا۔اس کے باوجود ویلزلی نے انگریز سول ملازمین کو ہندستان کی زبان و ثقافت اور عدالتی نظام سے روشناس کرانے، نیز ان کی تربیت کے لیے سنۂ 1800 میںکلکتہ کے’ فورٹ ولیم‘ میں ایک کالج قائم کردیا۔ اسی میں’ ہندستانی‘ کا ایک شعبہ قائم کیاگیاجس کی سربراہی جان گل کرسٹ(John Borthwick Gilchrist: 1759-1841) کو دی گئی۔ گل کرسٹ نے  انگریز سول ملازمین کی تدریس کے لیے اگرچہ مختلف زبانوں کی کتابوں کو اردو میں منتقل کروایا،لیکن اس کے ساتھ ہی بعض کتابوں کو ناگری میں شائع کرکے ایک زبان کو دو زبان میں تبدیل کرنے کی بنیاد بھی ڈالی جس کابنیادی مقصدیہاں کی دو بڑی اقوام کے درمیان نفرت اور تفرقہ کا ماحول پیدا کرکے ہندستان پر اپنی حکمرانی کو مستحکم کرناتھا۔7

برطانوی سول ملازمین کے لیے ہندستانی زبان و ثقافت اور یہاں کے افکار و علوم سے آگاہی کو ضروری قرار دے کرفورٹ ولیم کالج میں ویلزلی نے جس طرح سے ’ہندستانی‘ کا شعبہ قائم کیا اور اس کے تحت مختلف النوع علوم و فنون اور تہذیبوںکو ترجموں کی مدد سے متعارف کرانا شروع کیا،کچھ اسی طرح کا خیال برطانوی حکمرانوں کو 1803 میں جنرل لیک8 کی قیادت میں دہلی اور آگرہ وغیرہ پر قبضہ کرنے کے بعدآیا۔

تعلیمی معاملات و مسائل اور خصوصاً عیسائیت کی تبلیغ کو کمپنی شروع ہی سے اپنے لیے مضر ثابت کرتی رہی، کیونکہ اسے اس بات کا بخوبی تجربہ تھا کہ ہندستانیوں کو عیسائی مذہب کی تعلیم دینااور عیسائی بنانا،انھیں بغاوت پر آمادہ کرنا ہے۔لیکن برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے سابقہ قانون کی تجدید کے لیے Charter Act of 1813 پیش کیا گیا توتمام تر کمپنی کی مخالفت کے باجوداس میں عیسائی پادریوں کو ہندستان آنے اور یہاں تبلیغ کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔نیزگورنر جنرل کو یہ اختیار بھی دے دیاگیاتھا کہ وہ علم و ادب کی ترقی،ہندستانی علما کی حوصلہ افزائی اور علم و سائنس کو ہندستان کے برطانو ی مقبوضات کے باشندوں میں رائج کرنے کے لیے کم از کم ایک لاکھ روپے سالانہ کی رقم خرچ کرے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1814 میںLondon Missionary Society نے رابرٹ مے (Robert May: 1752-1814)کی نگرانی میں مغربی بنگال کے چنسورہ (Hugli- Chuchura/ Hooghly- Chinsurah) میں36 ابتدائی ا سکول قائم کیے۔ 1817میں Calcutta School Book Society اور 1818میں Calcutta School Society جیسے اداروں کا قیام عمل میں آیا۔

کلکتہ ا سکول بک سوسائٹی جسے کلکتہ بک سوسائٹی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کا مقصد ہندستان میں تعلیم کے مغربی طریقوں کو فروغ دینا، نصابی کتب اور لغات کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سوسائٹی نے نئے پرائمری ا سکولوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی اور نئے اسکولوں اور اعلیٰ تعلیم کے دیگر اداروں کے لیے نصابی کتابیں شائع کیں۔

کلکتہ ا سکول سوسائٹی ایک آزاد تعلیمی ادارہ تھا جس کا مقصد مختلف اسکولوں میں یکساں تدریسی طریقۂ کارکو متعارف کروانا، پاٹھ شالہ یا روایتی اسکولوں کی تعمیر نو اور ترقی، اور نئے اسکولوں کی تعمیر کرنا تھا۔اس کی افتتاحی تقریب میں جان ہربرٹ ہیرنگٹن(John Herbert Harington: 1765-1828) نے اپنے صدارتی خطبے میں ہنر مند مقامی اساتذہ اور مترجمین کی ضرورت پر زور دیا تھاتاکہ یورپی علوم کو ترجمے کی مددسے ہندستان میں پھیلایا جا سکے۔

کمپنی چونکہ تعلیمی اور تبلیغی معاملات سے خود کو دور رکھتی تھی،اس لیے مذکورہ بالا تعلیمی سرگرمیاںمحدود اور کسی قدر سست روی کا شکار رہیںلیکن1813میں تجدید قانون کے تقریباًدس سال بعد17 جولائی1823کوگورنر جنرل ولیم ایمہرسٹ(William Pitt Amherst: 1773- 1857) نے ایک قرارداد کے ذریعے ایک مرکزی ادارہ General Committee of Public Instruction قائم کرکے اس کی رفتار کو تیز کردیا تھا۔ہندستان کے مختلف مقامات پراس کمیٹی کی متعدد شاخیں قائم کی گئیں۔یکم جنوری1824کوکلکتہ میںسنسکرت کالج کا قیام عمل میں آیا۔دہلی میں انگریزی وضع کا ایک مشرقی کالج کھولنے کی تجویز پیش کی گئی۔ مسٹر جے ایچ ٹیلر(J. H. Taylor) کو،جو اس وقت دلّی کمیٹی کا سکریٹری تھا،دہلی کا تعلیمی جائزہ لینے اور قیام کالج کے لیے کسی معقول اور مناسب جگہ کا انتخاب کرنے کے لیے کہا گیاتو اس نے اپنی تحقیقات جنوری 1824 میںحکومت کو سونپ دی۔اپنی اس رپورٹ میں مسٹر ٹیلرنے دہلی کے’ مدرسہ غازی الدین‘9کی بوسیدہ عمارت اور اس میں ہونے والی تعلیمی صورت حال کا بطور خاص ذکر کیا تھا۔

حکومت نے مسٹر ٹیلرکی تحقیقات/ روداد اپنی سفارشات کے ساتھ ولایت بھیجی۔وہاں سے ’مدرسہ غازی الدین‘ کو کالج میں تبدیل کرنے کا حکمنامہ آگیاجس کی رو سے 1825میںاسے کالج میں تبدیل کرکے مسٹر جے ایچ ٹیلر کواس کا پرنسپل مقررکردیا گیاتھا۔کالج میں پہلے توعربی اور فارسی کی تعلیم دی جاتی تھی، لیکن بہت جلدسنسکرت کا ایک شعبہ قائم کردیا گیاتھااور1828میں انگریزی اور مغربی علوم و فنون کی تعلیم کوبھی شامل کردیاگیاتھا۔ کالج کے قیام کا بنیادی مقصدتو ہندستانیوں کو براہ راست انگریزی میں مغربی علوم و فنون کی تعلیم سے بہرہ مند کرنا تھا، لیکن ابھی یہاںذریعۂ تعلیم اردو تھا۔شاید یہی وجہ ہے کہ کالج میں زبان کی حیثیت سے اردو پڑھنے والے طلبا کی تعداد انتہائی قلیل تھی جبکہ جدید مغربی علوم و فنون کو اردو زبان کے ذریعے پڑھنے والے طلبا کی تعدادبہت زیادہ تھی جس کے پیش نظر بہت سی مغربی کتابوں کا دیگر زبانوں سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔اسکول بک سوسائٹی (School Book Society) کے زیراہتمام بہت سی مفید کتابیں دیسی زبان میں تیار کی گئیں۔نصاب کی کتابیں چونکہ اردو میں نہیں ملتی تھیں، اس لیے ان کی تصنیف و تالیف اور ترجمے پرخاصی رقم صرف کرنی پڑرہی تھی۔ایسی صورت میں بقول مالک رام:

’’حکومت کے متعدد اعلیٰ افسروں کی نظر میں یہ سب باتیں گویا کالج کے بنیادی مقصد (انگریزی زبان اور مغربی علوم و فنون کی ترویج) کے منافی تھیں۔مشرقی علوم کے یہ مخالف اس صورت حال پر پیچ و تاب کھاتے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ سب کچھ ختم کردیاجائے۔‘‘10 

اس مسئلے کو لے کرکمپنی کا سرکاری حلقہ اور خود General Committee of Public Instruction کا مرکز(کلکتہ) دو گروہوں ’مشرقی‘ اور ’مغربی‘میں بٹاہوا نظر آتا ہے۔ مشرقی گروہ جس کی رہنمائی مسٹر پرنسپ (Henry Thoby Prinsep: 1793-1878) کررہے تھے، کا کہنا تھا کہ ہندستانیوں کو انگریزی زبان سے چونکہ نفرت ہے، اس لیے مغربی علوم و فنون کی تعلیم کے لیے ان پرانگریزی زبان کو لازمی قراردینا،ہمارے اپنے’ مقصد ‘سے ہمیں دورکرسکتا ہے۔ یہاں’مقصد‘ سے مراد ظاہر ہے ہندستان کو محکوم بنانا تھا۔

اپریل1834میںولیم بنیٹک(William Henry Cavendish Bentinck:1774- 1839)کمپنی کا گورنر جنرل مقرر ہوا۔اسی سال میکالے (Thomas Babington Macaulay:1800-1859) گورنر جنرل کی کونسل کے رکن کی حیثیت سے ہندستان وارد ہوا۔ یہ وہ شخص ہے جس نے فارسی کی جگہ انگریزی کو دفتری زبان بنانے کی سفارش کی۔اس حوالے سے اس نے فروری 1835 میںایک تجویز بعنوان Minute/ Memorandum on Indian Education  پیش کی جس میں اس نے واضح طور پر کہا تھاکہ:

’’کسی بھی اچھے یورپی کتابخانے کی ایک الماری کے ایک خانے کی کتابیں ہندستان اور جزیرۃالعرب کے سارے علم و ادب پر بھاری ہیں۔‘‘

’’بیمارآدمی کو دوا اس کی صحت کے لیے دی جاتی ہے، نہ کہ اس کے ذائقے اور لذت کی تسکین کے لیے۔اگر انگریزی ان کے لیے مفید ہے تو ہمیں یہ انھیں پڑھانا چاہیے۔آہستہ آہستہ وہ اس کے عادی ہوجائیں گے اور اسے پسند کرنے لگیںگے۔‘‘

’’عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت اور اشاعت فوراً بندکردی جائے۔کلکتے کا مدرسۂ عالیہ اور سنسکرت کالج بند کردیے جائیں۔‘‘

’’ہمیں ہندستان میں ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا ہے جس کے چہرے کا رنگ اور رگوں میں خون تو بیشک ہندستانی رہے گا لیکن وہ اپنے مذاق اور عقیدے اور اخلاق و ذہنیت کے لحاظ سے انگریز ہوگا۔‘‘11

میکالے کی اس’ یادداشت ‘نے مغربی گروہ کے حوصلے بلند کردیے تھے۔یہی وجہ ہے کہ مشرقی گروہ کی تمام تر مخالفتوںکے باوجودولیم بنیٹک نے میکالے کی سفارشات کے پیش نظر English Education Act 1835کو منظوری دے دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی انگریزی کو عدالت اور دفترکی زبان بنادیا گیا۔ ریاضیات (Mathematics)، سائنس(Science)، فلسفہ (Philosophy)، تاریخ(History) اور اخلاقیات (Moral Values) وغیرہ کی تعلیم اب انگریزی میں دی جانے لگی تھی۔ دیسی زبانوں کے درجے ختم کیے جانے لگے تھے۔اس سے بچی ہوئی رقم انگریزی کے طلبا پر خرچ ہونے لگی تھی۔نتیجتاًوظیفے بند ہوگئے تھے جس سے نادار طلباکی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہونے لگا تھا اور عوام میں بے اطمینانی و شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے تھے۔

1836میںآک لینڈ(George Eden Auckland: 1784-1849) گورنرجنرل مقرر ہوکر ہندستان آیا۔اس نے 1835کے قانون پر نظر ثانی کرکے 1839میں ایک نئی قراردادکو منظوری دی جس میں اگرچہ مشرقی زبانوں میں مغربی علوم کی تعلیم کا راستہ صاف کیا لیکن اس کے ساتھ ہی آک لینڈ نے یہ شق بھی لگادی کہ:

’’یورپی علوم کا سنسکرت اور عربی میں پڑھاجانا بے کار ہے۔ہمارا فرض ہے کہ جو طالب علم یورپی ادب اور فلسفہ اور سائنس پڑھنا چاہیں، انھیں یہ مضامین انگریزی ہی میں پڑھائیں۔مزید کوشش اس کی ہونا چاہیے کہ اعلیٰ تعلیم رعایا کے صرف اعلیٰ طبقوں ہی کو دی جائے کیونکہ اس طبقہ کے پاس اسے حاصل کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور وقت بھی۔‘‘12

آک لینڈکے ذریعے منظورشدہ اس قرارداد کے پیش نظرمغربی علوم و فنون کی کتابوں کو مشرقی زبانوں میں منتقل کرنے کا کام کسی حد تک ٹھپ پڑگیا تھا جس سے طلبا کی تعلیم پر برا اثر پڑنے لگا تھا۔ کالج کا عارضی پرنسپل مسٹر جے ایچ ٹیلربے حد مصروف رہا کرتاتھا اور کالج کے کاموں کے لیے زیادہ وقت نہیں دے پاتا تھا۔ البتہ 1841 میں فرانسیسی نژادفلکس بوتروس(Félix Boutros: 1806-1864) دہلی کالج کا پرنسپل مقرر ہوا،جو دیسی زبان میں تعلیم دینے کا حامی تھا،تو اس کے ذریعے اس کام کوضرور رفتار ملنے لگی تھی۔یہی وہ شخص ہے جس نے 1843 میں ’انجمن اشاعتِ علوم بذریعہ السنۂ ملکی‘(Society for the Promotion of knowledge in India through the medium of Vernacular Languages)قائم کی جس کا بنیادی مقصد تدریسی مقاصد کے لیے جدید سائنسی علوم کی کتابوں کو دیسی زبان میں منتقل کروانا تھا۔ اس کے تحت اردو زبان میں پہلی بار باضابطہ سائنسی کتابوں، اعلی درجے کی انگریزی، سنسکرت، عربی اور فارسی کتابوں کونہ صرف یہ کہ اردومیں منتقل کیاگیابلکہ ان کی طباعت بھی ہونے لگی تھی۔

یہ وہ زمانہ ہے جس میںگھریلو صنعت زوال کا شکار ہوچکی تھی اور ہندستانی عوام کے لیے روزگار کا واحد ذریعہ کمپنی کی ملازمت ہوا کرتی تھی۔’ انگریزی تعلیم‘ کی اہمیت کے باوجوداُن ہندستانیوں کو، جوانگریزی سے نابلدتھے، ملازمت مل جایاکرتی تھی،لیکن1844میںہینری ہارڈنگ (Henry Hardinge, 1st Viscount Hardinge:1785-1856)نے ہندستان کے گورنر جنرل کے طور پریہ اعلان کرکے کہ’ انگریزی تعلیم یافتہ‘ لوگوں کو ہی ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت مل سکتی ہے،’ انگریزی تعلیم‘ کی اہمیت کومزید بڑھادیا تھا۔

دلّی کالج میں پیشہ ورانہ اور مغربی علوم و فنون کی تعلیم اردو میں تو دی جارہی تھی لیکن مذکورہ بالا تعلیمی اصلاحات کے سبب عوام کا رجحان اب انگریزی کی جانب بڑھنے لگا تھا۔یہ وہ حالات تھے جس میں ہندستان کا معاشرہ ایک خاص نوع کی کشمکش سے دوچار ہوگیا تھا۔عوام کو روزگار کی ضرورت تھی اور انگریزی سے دوربھی رہنا چاہتے تھے، کیونکہ اس کی تعلیم سے انھیں عیسائی ہوجانے کا خطرہ ستاتا تھا۔ نتیجتاً ہندستانیوں اور برطانوی عہدیداروںکے درمیان شکوک و شبہات کی ایک عجیب و غریب فضا قائم ہوگئی تھی جسے اس زمانے کے بعض برطانوی عہدیداران نے دور بھی کرنے کی کوشش کی۔انہی میں ایک نام جرمن نژاد ڈاکٹر اسپرنگر (Aloys Sprenger:1813-1893)  کا ہے جس نے 1845میں فلکس بوتروس کی سبکدوشی کے بعد کالج کی کمان سنبھالی۔

 اسپرنگر عربی زبان و ادب کا عالم تھا۔ کم سنی ہی میں اسے مشرقی اور اسلامی علوم سے خاص انسیت پیدا ہوگئی تھی۔مشرق اور مغرب کے مابین موجود بغض و عناد اور دوری کو وہ کم کرنا چاہتا تھا۔دلّی کالج کا پرنسپل بننے کے بعداس کی یہ خواہش یقینا پوری ہوئی۔شہر کے علما اور فضلا سے اس نے دوستانہ تعلقات استوارکیے۔اسی سال اس نے ’فوائدالناظرین‘ جیسارسالہ جاری کیاجس کے مدیر ماسٹر رام چندر (Ramchundra: 1821-1880) تھے۔

 ڈاکٹر اسپرنگرنے مسٹر بوتروس کے جاری کردہ ترجمہ و تالیف کے کام کومزید وسعت دی۔ اسی کے زیراہتمام اقلیدس (Euclid,)، اصول قانون(Principles of Law)، اصول حکومت (Principles of Government)، اصول قوانین مال گزاری (Principles and rules of wealth management)، الجبرا (Algebra)، عملی علم ہندسہ (Practical Geometry)، تاریخ اسلام (History of Islam)، تاریخ یونان (History of Greece)، تاریخ روما(History of Rome)، کیمسٹری(Chemistry)، اٹلس (Geography)، انتخاب شعرائے اردو، ترجمۂ گلستاں، لیلاوتی، رامائن، مہابھارت، دیوان سودا،دیوان درد، نیچرل فلاسفی (Natural Philosophy)، سیاسی معیشت (Political Economy) اور فلسفہ (Philosophy) جیسی متعدد کتابیں منظرعام پر آئیں۔ سرسید نے اس زمانے میں اپنی کتاب’آثارالصنادید‘ ڈاکٹر  اسپرنگرکی ہی فرمائش اور تحریک پرمرتب کی تھی۔

1847کے اخیر میں ڈاکٹر اسپرنگرکواودھ کے شاہی کتب خانوں میں موجود فارسی، عربی اور اردو کی قلمی کتابوں کی تفصیلی فہرست تیار کرنے کے لیے لکھنؤ بھیج دیا گیا۔ ایسی صورت میں مسٹر جے ایچ ٹیلر نے عارضی پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔اگرچہ1850میںڈاکٹر اسپرنگردلّی واپس آگیا تھا لیکن چند ہی مہینوں بعدکمپنی نے اسے مدرسۂ عالیہ کا پرنسپل مقرر کرکے کلکتہ بلالیا تھا اور اس کی جگہ جان/ جیمس کارگل(Jhon/James Cargill)کو دلّی کالج کا پرنسپل مقرر کردیا تھا۔

جان/جیمس کارگل کو پرنسپل مقرر ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے کہ کالج کے بعض طلبا نے، جو اَب مدرس ہوچکے تھے یا شہر میں کوئی اور کام کررہے تھے،ہندو مذہب ترک کرکے عیسائیت قبول کرلی تھی۔عوام تو انگریزی زبان اور مغربی علوم و فنون کی تعلیم کو شروع ہی سے شک کی نظر سے دیکھ رہے تھے، اس عمل نے ان کے شکوک و شبہات کو حقیقت میں بدل دیا تھا۔نتیجتاًطلبہ کی تعداد گھٹنے لگی تھی۔ یہ سلسلہ تقریباً تین برس تک قائم رہا۔1854میں حالات معمول پر آئے۔یہی وہ سال ہے جس میں جان/ جیمس کارگل نے کالج سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ایسی صورت میں مسٹر جے ایچ ٹیلرکو عارضی پرنسپل بنادیاگیاتھا۔

کمپنی کے سابقہ چارٹر پر ازسرنو غور کرکےThe Charter Act of 1853 نافذ کیا جاچکاتھااور ایک وسیع تعلیمی پالیسی کی بھی ضرورت محسوس کی جانے لگی تھی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اس زمانے میں ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔اس کمیٹی کا ماننا تھا کہ ہندستان میں تعلیم کو فروغ دینا،کمپنی کے لیے سودمند ہے۔اس کے ایک سال بعد یعنی 1854میںچارلس ووڈ(Charles Wood, 1st Viscount:1800-1885)کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کا صدرمنتخب ہوا اور 19جولائی1854کو اس نے ہندستان میں تعلیم سے متعلق ایک اعلانیہ جسے Wood's Dispatch کے نام سے جانا جاتا ہے،اس وقت کے گورنر جنرل ڈلہوزی(James Andrew Broun Ramsay, 1st Marquess of Dalhousie: 1812- 1860) کو روانہ کیا۔اس میں چارلس ووڈنے ہندستان کے اندر انگریزی زبان کے استعمال میں ایک بڑی تبدیلی کا مشورہ دیا۔ اس نے سفارش کی کہ پرائمری اسکول مقامی زبانیں اپنائیں، ہائی اسکول اینگلو ورنیکولر زبان کو اپنائیں اور کالجوں میں انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنایا جائے۔سچی بات یہ ہے کہ چارلس ووڈکی سفارشات جسے ہندستان میں انگریزی تعلیم کا "Magna Carta" قراردیا جاتا ہے،نے ہندستان میں انگریزی زبان کے رواج کومزید مستحکم کیا۔اس کابھی مقصد ہندستانیوںکا ایسا طبقہ پیدا کرنا تھاجسے کمپنی کی انتظامیہ کے لیے افرادی قوت کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔13

چارلس ووڈ کی مذکورہ بالا سفارشات پر عمل درآمد ہوہی رہا تھا کہ 1857کی بغاوت ہوگئی۔ گیارہ مئی اٹھارہ سو ستاون کو جب باغیوں نے دلّی کو گھیر لیا تو دلی کالج بھی ان کی زد میں آیا۔باغیوں نے دلی کالج کو تہ و بالا کردیا تھا۔ بعض مورخین کے مطابق اسی بغاوت میں12مئی 1857 کو دلی کالج کے عارضی پرنسپل مسٹرجے ایچ ٹیلرکو باغیوں نے موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔ 14

1857 میں دلی کالج بند ہوا توتقریباً سات سال بعد 1864میںاسے ازسرنو کھولاگیا۔ شروع کے چار مہینے تک اس کا انتظام ایک پروفیسر مسٹر ہیٹن(Hatton)نے دیکھا۔ بعدازاں مسٹر ایڈمنڈ ولمٹ(Edmand Wilmot: 1809- 1869) انگلستان سے آیا اور پرنسپل کی حیثیت سے اس کے کام کاج کو ازسرنو سنبھالا۔ کسی غیرمتوقع ضرورت کے سبب وہ 1868 میں کالج سے سبکدوش ہوگیا تو اس کی جگہ سی۔ کے۔ کک(C. K. Cook)کودلّی کالج کا پرنسپل بنادیا گیاتھا۔

دلّی کالج میں تعلیم کا سلسلہ تو جاری رہا لیکن اب اس میں وہ کشش یا رمق باقی نہیںرہی جو پہلے تھی۔کیونکہ اس کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے تھااور یہ یونیورسٹی ابھی امتحان لینے کی مجاز نہیں تھی۔ اس لیے لامحالہ طلبا کو کلکتہ یونیورسٹی کے نصاب کے مطابق امتحانات دینے پڑتے تھے۔ ایسی صورت میں یہاں کا ساراکاروبارانگریزی میں ہونے لگا تھا۔

انقلاب اٹھارہ سو ستاون کے بعد لاہور ایک ایسا مرکز بن کر ضرور ابھر رہا تھا جہاںبرطانوی حکومت کے زیراہتمام میجر فلر(Major Abraham Richard Fuller: 1828-1867)نے گورنمنٹ بک ڈپو اور کالج قائم کرکے انگریزی کتابوں کواردو میں منتقل کروانا شروع کردیا تھا۔1864میں قائم شدہ گورنمنٹ کالج، لاہور کے پرنسپل کے طور پر پروفیسر لائٹنر (Gottlieb Wilhelm Leitner: 1840-1899) مشرقی اورمغربی علوم کو بذریعۂ اردو فروغ دے رہے تھے۔لائٹنر چاہتے تھے کہ ان کا کالج ہر طرح کے معیار پر کھرا اترے، چنانچہ ان کی نگاہ دلی کالج پر ٹکی اور انھوںنے کچھ ایسا کیا کہ 1877 میں حکومت پنجاب نے دلی کالج کو بند کرنے اور وہاں کے تمام طلبا و اساتذہ کو لاہورکالج میں ضم ہونے کا حکمنامہ جاری کردیاتھا۔

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اختیارات یوں تو1773کے بعد سے ہی محدود کیے جانے لگے تھے، لیکن 1857 کی بغاوت کے نتیجے میں اس نے اپنے باقی ماندہ انتظامی اختیارات بھی کھو دیے تھے۔اب چونکہ ہندستان پر برطانیہ کا براہ راست کنٹرول ہو گیا تھا۔اس لیے ہندستانیوں کے تمام تر معاملات و مسائل کا از سر نو جائزہ لیاجانے لگا تھا۔تعلیمی صورت حال کے بھی ازسرنوجائزے کی بات کہی جانے لگی تھی، کیونکہ 1854 میںپیش کردہ چارلس ووڈ کی سفارشات پر توقع کے مطابق عمل نہیں ہورہاتھا۔چنانچہ اس کے نفوذ اور دیگر اصلاحات کے لیےGeneral Council of Education in Indiaکا قیام عمل میں آیا۔1880 میںلارڈ ریپن (George Frederick Samuel Robinson, 1st Marquess of Ripon:1827-1909)کی تقرری ہندستان کے وائسرائے اور گورنر جنرل کے طور پر ہوچکی تھی۔ چنانچہ اس نے ’جنرل کونسل آف ایجوکیشن ان انڈیا‘ کی درخواست پر ہندستان کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے3 اپریل 1882 کو Indian Education Commissionکی تشکیل کی۔ اس نے اس کمیشن کی سربراہی سر ولیم ہنٹر(Sir William Wilson Hunter:1840-1900)کو سونپی۔یہی وجہ ہے کہ اسے  ہنٹر کمیشن(Hunter Commission)کے طور پربھی جانا جاتا ہے۔کمیشن نے اگرچہ پرائمری اور ثانوی جماعتوں میں دیسی زبانوں کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر برقرار رکھا، لیکن اعلیٰ تعلیم کے لیے انگریزی زبان کو اپنانے کی بات کہی۔سچی بات یہ ہے کہ اس کمیشن کا مقصد بھی ہندستان میں ایسے تعلیمی نظام کو فروغ دینا تھا جس سے ہندستانیوں کی ایسی جماعت وجود میں آجائے جوسرکاری ملازمت کے خواہاں ہوں اور ملازمت اختیار کرتے ہی برطانوی نوآبادیات کا حصہ بن کر اس کے خلاف احتجاج و مزاحمت کی قوت کو کھودیں۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کے اخیر میں جس نوع کے تعلیمی نظام کو قائم کیاجانے لگا تھا، اس نے انیسویں صدی میں ایک مضبوط اور مستحکم ادارے کی شکل اختیار کرلی تھی۔اس حوالے سے ’فورٹ ولیم کالج‘ اور’ دلی کالج‘کے علاوہ انیسویں صدی کے اخیر تک نافذ کی گئی تمام تر تعلیمی اصلاحات و سفارشات کا ذکر کیاجاسکتا ہے جس کے تحت اگرچہ دیسی/اردو زبان میں تعلیم دینے کی بات کہی گئی، لیکن انگریزی کوہی ذریعۂ تعلیم بنایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے ان تعلیمی اداروں اور دیگر اصلاحات و سفارشات کا بنیادی مقصد سنسکرت، عربی، فارسی اور کسی قدر علاقائی/دیسی/اردو ہندی کے تئیں ہندستانیوں کے دل میں بیزاری پیدا کرنا اور ہندستانیوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کرناتھاجو رنگ و نسل سے تو ہندستانی لیکن فکر اور کلچر کے اعتبار سے انگریز ہوتے۔اس کے اثرات نہ صرف یہ کہ اس زمانے کے ہندستانی عوام15پر مرتب ہوئے بلکہ آج بھی اس کے بعض اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔یہاں کے عوام کا مغربی علوم و افکار اور انگریزی زبان کا شیدائی ہونا اور اسی میں انھیں اپنے ملک و قوم کی ترقی کانظر آنا، اسی کا نتیجہ ہے۔

حوالے اور حواشی:

  1.       سنۂ 1600میں’ برطانوی ایسٹ انڈیا‘ کمپنی کا قیام عمل میں آیا۔ اسی سال اسے ہندستان سے تجارت کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔چنانچہ اگست1608میں کیپٹن ولیم ہاکنز(Captain William Hawkins:1516-1613)نے اپنے جہاز ہیکٹر(Hector)کو سورت(گجرات) کی بندرگاہ پر لنگرانداز کرکے ہندستان میں کمپنی کی آمد کا اعلان کردیاتھا۔ جلد ہی ہاکنز کو اس بات کا احساس ہوگیا تھاکہ یہاں تجارت کے لیے مغل بادشاہ کی اجازت لینی ضروری ہے،اس لیے وہ مغل دارالحکومت آگرہ پہنچا،لیکن تجارت کے لیے نورالدین محمد سلیم عرف جہانگیر(1569-1627) کی رضا مندی حاصل کرنے میں ولیم ہاکنز ناکام رہا۔
  2.       یہ قانون چونکہ ولیم پٹ کے زمانے میں پاس ہوا تھا، اس لیے اسےPitt's India Act کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس قانون کا مقصد1773 کے’ ریگولیٹنگ ایکٹ‘ کی خامیوںکو دور کر کے ایسٹ انڈیا کمپنی کوبرطانوی پارلیمنٹ کے ماتحت کرنا تھا، اس لیے اسے  East India Company Act (EIC Act 1784)بھی کہاجاتا ہے۔
  3. Charles Grant, Observations on the State of Society Among the Asiatic Subjects to Great Britain, Particularly with Respect to Morals, and on the Means of Improving it, London: The British Library,1797.
  4.       مالک رام،قدیم دلی کالج،دہلی: مکتبہ جامعہ،2011،ص ص20-21۔
  5.       ملکہ الزبتھ اول(Queen Elizabeth I: 1533-1603) نے 31دسمبر1600کو ایک ’چارٹر ‘جاری کرکے’ ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کو ہندستان میں تجارت کرنے کے حقوق دیے تھے۔چارٹر کی ہر بیس سال بعد تجدید ہوتی تھی۔ان چارٹروں کے ذریعے حکومتِ برطانیہ کمپنی کے اختیارات اور حیثیت کا تعین کرتی تھی۔اس مقصد کے لیے پاس کیے جانے والے ایکٹوں کو ’چارٹر ایکٹ‘ کہاجاتا ہے۔آخری چارٹر ایکٹ 1853میں پاس ہوا تھا۔
  6.       بحوالہ مالک رام،قدیم دلی کالج،ص19
  7.      ڈاکٹر جان گل کرسٹ 1759میں ایڈنبرا (اسکاٹ لینڈ) میں پیدا ہوا۔1782میں بمبئی پہنچا اور1784میں وہ بنگال آرمی کے بمبئی دستے میں اسسٹنٹ سرجن کی حیثیت سے ملازم ہو گیا۔ اس نے یہاں رائج اردو زبان (اس زمانے میں اسے ہندی،ہندوی اور ریختہ کہاجاتا تھا) سیکھی کیونکہ اس کے بغیر وہ یہاں اپنے پیشے کو بخوبی سر انجام نہیں دے سکتا تھا۔اس زمانے میں بہت سے انگریز حکام فارسی یا اردو زبان برطانیہ سے سیکھ کر آتے تھے یا کسی ہندستانی منشی کی خدمات حاصل کرکے سیکھ لیا کرتے تھے۔ اس وقت تک سرکاری زبان فارسی تھی۔ گل کرسٹ نے محسوس کیاکہ فارسی کا رواج اٹھ رہا ہے اور اس کی جگہ اردو مقبول ہورہی ہے۔چنانچہ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ یہ زبان خود سیکھے گا اور اپنے ہم وطن انگریزوں کو بھی سکھائے گا۔ چنانچہ یہاںاس نے ہندی لغت تیار کرنے کا منصوبہ بنایا اور 1785میںاس نے اس کے لیے تنخواہ اور الاؤنس کے ساتھ ساتھ ایک سال کی چھٹی بھی مانگی جو منظور کرلی گئی تھی۔ اس کے بعد گل کرسٹ نے لکھنؤ، فیض آباد، الہ آباد، جونپور، بنارس اورغازی پور جیسے مقامات کا سفر کیا۔دن رات کی محنت شاقہ سے 1786میں اس نے انگریزی ہندستانی لغت کا پہلا حصہ مکمل کرلیا۔بورڈ سے درخواست کی کہ اسے بنارس کی زمینداری میں رہنے اور وہاں نیل کی کاشت کرنے کی اجازت دی جائے۔ اجازت مل گئی اورمسٹر چارٹرکے ساتھ نیل کی کاشت بھی کی لیکن بہت جلد مقامی زمینداروں سے مقدمہ بازی میں پھنس گیا تو چارٹر نے یوروپ اور گل کرسٹ نے کلکتہ جانے کا ارادہ کرلیا۔ مئی 1798 میں گل کرسٹ کلکتہ چلاگیا تھا۔
  8.  جنرل لیک(Gerard Lake:1744-1808) جولائی 1801 میں کلکتہ آیا۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوج کی بہتری کے لیے خود کووقف کردیاتھا۔ تمام تر ہتھیاروں، پیادہ افواج، گھڑسوار فوج اور توپ خانوں کواس نے زیادہ قابل انتظام بنایا۔نتیجتاً 1802 میں اسے مکمل طور پرجنرل بنا دیا گیاتھا۔اس کے ساتھ ہی اس نے متعدد فتوحات حاصل کیں۔مثلاً1803 میں دوسری اینگلو-مراٹھا جنگ شروع ہونے پر جنرل لیک نے دولت سندھیا کے خلاف جنگ کی اور دو ماہ کے اندر ہی’ کول‘ جسے اب علی گڑھ کہا جاتا ہے، میں مرہٹوں کو شکست دی۔ یکم ستمبر 1803کو علی گڑھ کی جنگ کے بعد اس نے 11 ستمبر کو دہلی، 10 اکتوبرکوآگرہ اوریکم نومبرکو لسواری کی جنگ  (Battle of Laswari)  میں فتح حاصل کرلی تھی۔
  9.       غازی الدین خاں کا اصل نام میر شہاب الدین صدیقی اور لقب فرزند ارجمند نواب غازی الدین خان صدیقی بے آفندی بہادر، فیروز جنگ اول(1649-1710) تھا جوقلیچ خان خواجہ عابد خان صدیقی بے آفندی کے بیٹے تھے۔ 1686 میں وہ گولکنڈہ قلعہ کے محاصرہ میں ایک کمانڈر اور فوج کے سربراہ تھے۔  شہنشاہ اورنگ زیب(1618-1707) نے ذاتی طور پر گولکنڈہ کی سلطنت کے آخری حکمران سلطان ابوالحسن قطب شاہ کو قیدی بنایاتو غازی الدین خاں،مغل شہنشاہ بہادر شاہ اول(Mirza Muhammad Mu'azzam: 1643-1712) کے دور ِحکومت میں صوبۂ گجرات کے صوبے دار  (گورنر) بنائے گئے تھے۔ 1690 کی دہائی میںمیر شہاب الدین عرف غازی الدین خان نے دہلی کے باہر اجمیری دروازہ پر اپنے لیے ایک مقبرہ تعمیر کرایا۔اس زمانے کے دستور کے مطابق مقبرے کے ساتھ ایک عالیشان مسجد بنائی گئی جس میں ایک مدرسہ بھی قائم کیاگیا۔1710میںغازی الدین خاں کا احمدآباد(گجرات) میں انتقال ہواتو ان کی لاش وہاں سے دہلی لائی گئی اور یہاں دفن ہوئی۔بعض مورخین کا خیال ہے کہ فنڈ کی کمی کے باعث1790میںمدرسے کو بند کردیا گیا تھا۔ تقریباً دو سال بعد1792میں اسے دوبارہ جاری کیاگیا۔ یہی وہ مدرسہ ہے جسے بانیِ عمارت کے نام پر’ مدرسہ غازی الدین خان ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔۔۔یہی مدرسہ آگے چل کر’دلی کالج‘ میں تبدیل ہوا۔(مالک رام،قدیم دلی کالج،ص18۔)
  10.     مالک رام،قدیم دلی کالج، ص30۔
  11. Thomas Babington Macaulay, Minutes on Education in India, Selections from educational Records: 1781-1839 (Part-1),  Edited by H. Sharp, Calcutta: Superintendent Government Printing, 1920,  pp.107-117.
  12. بحوالہ مالک رام،قدیم دلی کالج،ص39۔
  13. 13    The Despatch of 1854 on General Education in India, London: 7, Adam Street, Strand, 1854.
  14. عبدالحق،مرحوم دہلی کالج،دہلی: انجمن ترقی اردو ہند، 1989، ص71
  15.     انیسویں صدی میں برطانوی عہدیدران نے اپنے نوآبادیاتی منصوبوں کے تحت ہندستانیوںکو تعلیم یافتہ بنانا شروع کیا۔ان کے ذہن و دل میں انگریزی زبان اور انگریزی تہذیب کی اہمیت کچھ اس طور پر نقش کی جانے لگی تھی کہ اس کے بغیر ان کی ترقی ممکن ہی نہیں۔اس کے اثرات بڑی تیزی سے مرتب ہونے لگے تھے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے کے بعض دانشوران انگریزی اور انگریزی تہذیب کے دلدادہ ہوگئے تھے۔ اس حوالے سے راجہ رام موہن رائے اور سرسید جیسی عبقری شخصیات کا ذکر کیاجاسکتا ہے۔

 

Dr. Mohammad Umar Raza

Department of Urdu, AMU

Aligarh- 202001

Mob: 8077353841

E-mail: urumarjnu@gmail.com

14/2/24

پنجابی زبان پر فارسی کے اثرات: طارق حسین

 

ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے ہند و ایرانی تعلقات کو تقویت ملی۔مسلم بادشاہ و سلاطین نے ہندوستانی زبان و ادب، فلسفہ و مذہب، علم نجوم، ہیئت، طب، تہذیب اور ہندوستانی معاشرے میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ بادشاہوں کے علاوہ امرائے سلطنت او ر اعیان حکومت نے بھی یہاں رہتے ہوئے جس تہذیب کو اپنایا وہ خالص ترکی، افغانی یا ایرانی تہذیب نہیں تھی بلکہ اس میں مقامی عناصر بھی آہستہ آہستہ شامل ہوتے گئے۔

بر صغیر ہندو پاک کے ہر علاقے پر فارسی زبان نے اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ مگر پنجاب پر اس کے اثرات دیگر علاقو ں سے کہیں زیادہ ہیں۔کچھ محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس علاقے کا نام پنجاب ( پنج آب ) بھی فارسی زبان کا ہی لفظ ہے۔اس خطے کو صوبے کی حیثیت سے ’پنجاب‘ کا نام شیر شاہ سوری  (1540-45) کے عہد حکومت میں حاصل ہوئی اوراکبر (1556-1605) کے دور حکومت میں پنجاب کا نام کثرت سے استعمال ہونے لگا۔ابوالفضل کی جامع تصنیف ’آئین اکبری‘ میں پنجاب کو دو صوبوں میں منقسم بتایا گیا ہے۔اور ان دو صوبوں کا متحدہ نام ’پنجاب ‘ تھا۔ ’آئین اکبری ‘ کی جلد دوم میں ایک فصل کا عنوان ملتا ہے:

’’نھضت موکب اقبال شاھنشاھی از حدود پنجاب بدارالخلافہ آگرہ ظل اقبال بدھلی انداختند۔‘‘

(اقبال شہنشاہی حدود پنجاب سے دارالخلافہ آگرہ و دہلی میں جلوہ گر ہوا۔)

 ہندوستان کے دیگر علاقوں کی نسبت پنجاب سے فارسی زبان و ادب کا گہرا تعلق رہاہے۔ جس طرح ہندوستان کے دیگر حصوں کی علاقائی زبانوں پر فارسی زبان کے اثرات مرتب ہوئے اسی طرح پنجابی زبان و ادب پر بھی اس نے اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

سلطان محمود غزنوی کے حملے کے بعدپنجاب کا علاقہ غزنوی حکومت میں شامل ہو گیا۔جس کے باعث بہت بڑی تعداد میں ترک اور ایرانی صوفی، شاعر اورادیب خطہ پنجاب میں منتقل ہو گئے اور لاہور ادبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ فارسی چونکہ فاتحوں کی زبان تھی اور اس کے برعکس اس خطے میں رہنے والے پنجابی زبان بولتے تھے۔ جب ان دو تہذیبوں کے لوگوں کو ایک ساتھ رہنے کا موقع ملا تو یہ ایک دوسرے کی زبان سیکھنے پر مجبور ہوئے۔ بعض نے شوق سے نئی زبان کو سیکھا، کیونکہ ہر نئی چیزمیں لذت ہوتی ہے۔زبانوں کے اس تال میل کی بدولت آہستہ آہستہ فارسی کے کچھ الفاظ اور محاورات پنجابی میں داخل ہوگئے۔ یہاں تک کہ فارسی الفاظ نے آہستہ آہستہ ہندی زبان میں بھی سنسکرت اور پراکرت الفاظ کی جگہ لینی شروع کر دی جو کہ بعد میں مستقل صورت اختیار کر گئی۔کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ زبانوں کے اس میل ملاپ سے ایک نئی زبا ن معرض وجود میں آئی جس کو آج ہم ’ اردو‘ زبان کے نام سے جانتے ہیں۔

دو تہذیبوںکے اس سنگم سے فارسی زبان کے الفاظ کثرت سے پنجابی زبان میں داخل ہوتے گئے۔پنجاب شاعروں، ادیبوں، فن کاروں، صوفیوں اور دانشوروں کا اہم مرکز رہا ہے اور اس کے علاوہ مسلمان فاتحین کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ سے بہت سارے مسلمان صوفی بزرگوں نے بھی اس خطے کا رخ کیا جنھوں نے پنجابی زبان میں بے مثال منظوم تحریریں رقم کی ہیں۔ ان صوفی شعرا میں دو قسم کے گروہ تھے پہلا گروہ ان صوفیا ئے کرام کا ہے جن کا کام تھا اور دوسرے گروہ میں وہ بزرگان دین شامل تھے جنھوں نے دینی مسائل کو فلسفیانہ رنگ میں جانچا اور مذہب کے ظاہری عقائد کے برعکس باطنی عقائد کی تعلیم پر زیادہ زور دیا اور شریعت کے مقابلے میں طریقت کو ترجیح دی ان کا یہ نظریہ تھا کہ مذہب در اصل خدا اور انسان کے درمیان ایک روخانی رشتے کا نا م ہے اور یہ رشتہ دنیا کے تمام انسانوں کوایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔

پندرہویں صدی عیسوی کے وسط میں پنجابی زبان کو صوفیانہ خیالات، عقائد او ر روحانی تجربوں کو  بیان کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ اس کی ابتدا شیخ ابراہیم فرید ثانی سے ہوئی جو حضرت فرید گنج شکر ؒ کے عزیز اور اسی سلسلے کے جانشین بھی تھے۔ فرید ثانی کے بعد سلطان باہو، بابا بلھے شاہ، علی حیدر اور ہاشم جیسی شخصیتوں نے اس تحریک کو چلایا اور اپنی شاعری سے پنجابی شاعری کی  صوفیانہ روایات کو مضبوط کہا۔یہ صوفی شاعر اس دنیا کو اپنے خالق حقیقی کی ذات کا مظہرسمجھتے تھے۔ یہ وحدت الوجود کا فلسفہ در اصل فارسی شاعری سے ہی پنجابی میںداخل ہوا،اور ہندؤوں کے ویدانت فلسفے نے بھی اس کو  قوت بخشی۔

فارسی کے پنجابی پر اثرات

فارسی زبان جب اس خطے پنجاب میں داخل ہوئی تو فارسی کے الفاظ پنجابی زبان میں اس طرح شامل ہو گئے کہ ان میں تمیز کرنا مشکل ہے۔ان لفظوں میں اکثر تو ایسے ہیں کہ ان کی شکل و صورت اور معنی دونوں اصلی حالت میں قائم ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ ان کی صورتیں بدل چکی ہیں لیکن ان کے معنی میں فرق نہیں آیا۔مثال کے طور پر چند الفاظ: ’’قول، اقرار، رنج، خوشی، زندگی، موت، صبح، شام،زمین، آسمان‘‘ وغیرہ یہ سب الفاظ اپنی صورت اور معنی میں استعمال ہوتے ہیں او ر ان کے بولنے میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔یہ الفاظ عام بول چال کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی استعمال ہونے لگے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میںپنجابی بولی میں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے مگر فارسی کے الفاظ ہر جگہ مشترک نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر وارث شاہ کی ’ہیر‘ جو کہ پنجاب کا ایک بلند ادبی شاہکار ہے۔مثال کے طور پر ’ہیر‘ کے چند شعر درج ذیل ہیں            ؎

ہیر آکھیا عشق دے راہ پوناں نہیں کم ملوانا قاضیاںدا

ایس عشق میدان دیاں کُٹھیاں نوں درجہ ملے شہیداں تے نمازیاں دا

ترت وچ درگاہ قبوُل ہونا سجدہ عاشقاں پاک نمازیاں دا

راہ حق دے جان قربان کرنی ایہہ کم نہیں جھوٹھیاں پازیاں دا

کر کے قول زبان جتھیں ہار جانا کم بے ایمانا دھوکے بازیاں دا

عشق سر ہے ذات خدائی دا وے عاشق شان ویکھن کارسازیاں دا

رانجھا نال ایمان قبولیا میں قصہ ختم کر دور درازیاںدا

رانجھا  چھڈ کے انگ نہ لاں کھیڑا ہوندا گدھے نوں حق نہ تازیاںدا

جدوں کدوں کردا ترس عاشقان تے مالک رب غریب نوازے دا

وارث شاہ حقیقی دی لین لذت پہلاں چکھ کے لون مجازیاں دا

 ’’ہیر بولی عشق کے راستے پر قدم رکھ لیا،تو پھر عاشق اور معشوق کو ملوانا قاضیوں کا کا م نہیں۔

عشق کے میدا ن میں جوپوری طرح اتر گیا اس کو شہیدوں او ر نمازیوں کے برابر کا درجہ ملتا ہے۔

پاک نمازیوں کی طرح بہت جلدی اس کی بارگاہ میںعاشق کا سجدہ قبول ہو جاتاہے ۔

جھوٹے لوگوں کا کام راہ حق میں جان قربان کرنا نہیں ہے۔

ایک بار قول و اقرار کر کے مکر جانادھوکے باز اور بے ایمانوں کاکام ہے۔

عشق ذات خدائی کا سر ہے عاشق اس کی کارسازیوں کی شان دیکھتے ہیں ۔

اپنے ایمان کے ساتھ میں نے رانجھے کو قبول کر لیا اور دور درازیوں کا قصہ اب ختم کر دے۔

رانجھااب چھوڑ کر مت جا گدھے کو تازیوں (  جو مسلسل دوڑتے ہیں) کاحق نہیں ہے۔

جب کبھی عاشقوں پر ترس کرتا ہے اس غریب نواز کا رب(خدا)

وارث شاہ ! حقیقی عشق کی لذت لیتے ہیں پہلے عشق مجازی کے نمک کا ذائقہ چکھ کر۔

(یہاں ہیر قاضی سے گفتگوکر رہی ہے۔)

ان اشعار میں فارسی کے الفاظ بڑی طراوت کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔

عشق ،  راہ ،  درجہ ،  شہید ،  غازی ،  نمازی ، کار ساز،  تازی  وغیرہ، یہ تمام الفاظ اپنے محل کے ساتھ ساتھ اپنے اصلی معنوں میں ان اشعار میں شامل ہیں۔لیکن ان کے علاوہ بھی بیشمار الفاظ ہیں جو ذرا سی تبدیلی کے ساتھ مستعمل ہیں اور ان میں بعض تبدیلیاں صرف تلفظ کی ہیں مثلاً۔ سادہ کی جگہ سادی۔ طرح کی جگہ طراں۔ ان کے علاوہ بعض اتنے بدلے ہیں کہ آج ان کو پہچاننا بھی مشکل ہے۔

خواجہ غلام فرید جو کہ پنجابی کے بلند پایہ صوفی شاعر تھے۔ ان کے کلام میں بھی فارسی کے کثیر الفاظ شامل ہیں۔

 ان کا دیوان کافیوں پر مشتمل ہے۔ دیوان فرید سے ایک کافی نقل پیش ہے۔اس میں بھی فارسی الفاظ کثرت سے شامل ہیں          ؎

نازک ناز نگاہ سجن دے

عشوے‘ غمزے من موہن دے

لگڑے کاری تیر وو

سے سینے پل پل چھبدے پھل

سسّی شودی پیر پیادی

ناں تیڑ تاڈے جھوک آبادی

مٹھڑی بے تقصیر وو

نا خرچ پلے نہ گنڈھ سمل

ماہی باجوں سوُل قہر دے

ڈیہاں رات فرید نجر دے

نیناں نیر و ہیر وو

جھر، جنگل، بیلے چھلو چھل

’’میرے محبوب کے ناز(نخرے) بھی نازک ہیں  اس کے اشارے، ادائیں دل کو بہلانے والی ہیں۔

بہت تیز تیر لگے اور وہ میرے سینے میں ہر پل (وقت ) چُب رہے ہیں۔

سسی بیچاری بے آسرا ہے اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے او نہ ہی اس کے پا س کوئی آبادی ہے۔

یہ بغیر کسی گناہ کے مٹ چکی ہے ( اسکا کوئی قصور نہیں ہے ) نہ اس کے پاس کوئی خرچ ہے اور نہ ہی کچھ سامان (زاد راہ)

محبوب کے بغیر بے پناہ دکھ ہیں دن را ت اس ہجر کے دکھ ہیں۔

آنکھوں میں تیز آنسو ہیں جن سے میدان اور جنگل بھر چکے ہیں ۔‘‘

اس کافی میں  نازک ،  ناز ،  نگاہ ،  عشوہ ،  غمزہ،  تیر ، سینہ ،  پیادہ، آبادی ، تقصیر، فارسی کے الفاظ ہیں ان الفاظ کو لوگ آسانی سے بولتے اور سمجھتے ہیں۔پنجابی میں شعر و شاعری کے علاوہ فارسی لفظوں کی ترکیب بھی ہے جو پنجابی کے انداز میں ظاہر ہوتی ہے اوریہاں پرفارسی کا اثر بہت واضح اور نمایاں ہے۔

پنجابی قصے فارسی زبان میں

جس طرح فارسی زبان کے الفاظ پنجابی میں داخل ہوئے وہیں اسی طرح فارسی زبان کے شعرا اور نثر نگاروں نے پنجابی قصے کہانیوں کو فارسی زبان میں داخل کیا۔ان قصوں کو زیادہ تر شاعروں نے مثنوی کی شکل میں مختلف عناوین سے فارسی زبان میں شامل کیا۔اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ شاعری نثر کے مقابلے عوام میں زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ ان قصوں میں مشہور ترین قصے درج ذیل ہیں۔

سسی پنوں، مرزا و صایبہ، مثنوی ہیر رانجا، سوہنی و مہیوال وغیرہ۔

ان سب قصوں میں’ہیر رانجھا‘ کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔قصہ ’ہیر رانجھا‘ کا فارسی میں سب سے قدیم قلمی نسخہ ’ فسانہ دلپذیر‘ ہے جو کہ سعید سعیدی نے نظم کیا ہے۔’فسانہ دلپذیر‘ کے متن کی ابتدا میں سعیدی نے اپنے بارے میں بھی لکھا ہے اور اس کے ساتھ شاہجہاں بادشاہ کی مدح بھی لکھی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے یہ قصہ شاہجہاں کے دور حکومت میں نظم کیاہو گا۔مدح کے چند شعر درج ذیل ہیں          ؎

یا رب کہ ھمیشہ باد خرم

و  ز گردش زمانہ بیغم

او شاہ جھانست شاہ بادہ

عالم ھمہ در پناہ بادہ

بر مسند دین بلطف داور

شاھنشہ ما ابوالمظفر

صاحب صاحبقران ثانی

خوش بر سر تخت کامرانی

’’اے میرے رب وہ ہمیشہ خوش و خرم رہے اور گردش زمانہ سے بے غم رہے۔

وہ جہاں کا بادشاہ ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے  اس کی پناہ میں پوری دنیا ہے۔

وہ مسند دین پر خدا کی مہربانی سے جلوہ گرہے ہمارا وہ بادشاہ ابوالمظفر ہے۔

وہ دوست رکھتاہے دوسرے صاحبقران(یہ لقب ان حکمرانوں کو دیا جاتا تھا جن کی مدت حکومت تیس سال سے زیادہ ہو) لوگوں کو  جو کامیابی کے تخت پر جلوہ نشین ہے۔

قصے کی ابتدا میںشاعراس قصے کے ہیرو  ’دھیدو‘ عرف رانجھا کا تعارف ان اشعار سے کراتا ہے       ؎

افسانہ عشق را زبان نیست

این گفت شنود  را بیان نیست

حرفی شنو از دیار دھیدو

بشنو ھمہ کار و بار دھیدو

از خوبی آن جون چہ گویم

محبوبی از جوان چہ گویم

مشھور زمانہ نام است

در دھر خانہ رانجہ نام است

دیدم پدرش مقدم دھر

مشھور جھان معلم دھر

’’عشق کے افسانے کی کوئی زبان نہیں ہوتی ہے،اس گفتگو کا کوئی بیا ن نہیں ہے۔

دھیدو کے گھر سے اس کا قصہ سنو،اور اس کی زندگی کے تمام کاروبار سنو!

اس جان کی خوبی میںکیا بیان کروں،اس محبوب کی جوانی کے بارے میں کیا بیان کروں۔

اس کا نام پورے زمانے میں مشہور ہے،زمانے میں وہ رانجہ کے نام سے مشہور ہے۔

میں نے اس کے باپ کو زمانے میں آگے دیکھا، دنیابھر میں معلم کی حیثیت سے مشہور ہے۔

ہیر رانجھا قصہ پنجاب میں ہر شخص جانتا ہے اور یہ قصہ نظم اور نثر میں کئی بار لکھا جا چکا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بارہویں صدی ہجری میں پنجاب میںخصوصاً اور ہندوستان میں عموماً اس قصے کو بہت ہردلعزیزی حاصل تھی۔ سجان رائے ’خلاصہ التوریخ‘ میں لکھتا ہے:

’’اھل پنجاب... در محبت و آشفتگی این ھر دو ( رانجھا و ھیر ) نقشھای بدیعہ و اشعار عجبیہ  بستہ سرود  و نغمہ دلفریب میکند ‘‘

پنجاب کے رہنے والے لوگ... ان دونوں کی محبت اور آشفتگی(رانجھا اور ہیر) میں کلام بدیعہ اور عجیب اشعار دلفریب نغمے گاتے تھے)۔

پنجابی رسم الخط پر فارسی رسم الخط کے اثرات

سنسکرت اور پنجابی سمیت اس خطے کی تمام پرانی زبانیں جن میں ایرانی زبان فارسی بھی شامل ہے یہاں کی  ( ہندآریائی)انڈویورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ساتویں صدی عیسوی میں جب عربوں نے ایران کو فتح کیا تواس سے پہلے ایران کی سرکاری زبان قدیم فارسی تھی جو کہ اس کے اپنے پہلوی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔عربوں نے ایران میں عربی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیالیکن کچھ عرصے تک فارسی کا قدیم رسم الخط زندہ رہا مگر آہستہ آہستہ یہ رسم الخط ختم ہو گیا۔تقریباً نویں صدی عیسویں میں فارسی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جانے لگی جو کہ موجودہ فارسی کا رسم الخط ہے۔اس کے بعد جب یہی فارسی زبان ہندوستان میں داخل ہوئی تو یہ یہاں کی سرکاری زبان بن گئی تواس کا رسم الخط بھی یہاں پر رائج ہو گیا اور پھر یہ رسم الخط سنسکرت اور دیگر مقامی زبانوں سے زیادہ معتبر ٹھہرا۔

بابا فرید اور گرونانک کے زمانے میں جب کچھ لوگوں نے ان بزرگوں کا اعلیٰ کلام لکھ کر محفوظ کرنے کا سوچا تو ظاہر ہے کہ اس وقت پنجابی کا اپنا کوئی معتبر رسم الخط نہ ہونے کی بنا پر اس کلام کواسی رسم الخط میں لکھنے کا فیصلہ کیا جو اس وقت اس علاقے میںرائج تھا۔چنانچہ اس وقت ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی تھی جو کہ عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی لہذٰا یہ پنجابی کلام بھی فارسی رسم الخط میںہی لکھے گئے۔

  پنجابی زبان کو دسویں صدی عیسویں کے ایک مورّخ مسعودی نے  ’ملتانی ‘زبان کہا ہے۔ البیرونی نے اس کو’الہندیہ‘ اور ’لہوری ‘کہا ہے۔ اس کے علاوہ مسعود سعد سلمان نے اپنے دیوان میں اس کو ’ہندوی‘  لکھا ہے۔

سکھوں کے پانچویں گورو  ارجن دیو نے جب ’گرو گرنتھ صاحب‘تالیف کی  تو یہ کتاب ’گرمکھی‘ رسم الخط میں لکھی گئی۔ یہ رسم الخط ’سنسکرت ‘رسم الخط سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے یہ رسم الخط سکھوں میں زیادہ مقبول ہوگیا۔ دوسری طرف مسلم صوفیا اور شعرا کا بہت سارا کلام فارسی رسم الخط میں تھا۔یہ کلام بھی اس خطے میں بسنے والے سبھی لوگوںمیں بہت مقبول تھا۔

تقسیم ہند کے وقت پنجاب بھی دو حصوں میں بٹ گیا۔ مشرقی پنجاب جو کہ ہندوستان میں شامل ہوایہاں پر سکھ مذہب کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔اس لیے یہاں پر دفتری زبان ’پنجابی‘ کو تسلیم کر لیا گیا۔ جو کہ ’گرمکھی‘  رسم الخط میں لکھی جانے لگی۔ اس کے بر عکس پاکستان کی سرکاری زبان اردو تھی۔ وہاں پنجابی کو سرکاری زبان کا درجہ نصیب نہ ہوسکا۔اس لیے پنجابی زبان، فارسی رسم الخط میں لکھی جانے لگی۔ جو بعد میں’ شاہ مکھی ‘رسم الخط کہلایا۔ تقسیم ہند کے وقت جہاں ایک طرف پنجاب دو حصوں میں بٹ گیا وہاں پنجابی زبان کا رسم الخط بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔

المختصر یہ کہ عہد وسطی میں فارسی زبان ثقافتی اعتبار سے عروج پر تھی۔ اس عہد کو فارسی زبان و ادب کا عہد زرین کہا جاتاہے۔فا رسی چونکہ سرکاری زبان تھی۔ اور تمام سرکاری کام اسی زبان میں انجام پاتے تھے،  اس لیے اس کا اثر براہِ راست یہاں کی دیگر زبانوں پر پڑا، اور اس خطے کی بیشتر زبانیں اسی رسم الخط میں لکھی جانے لگیں، جس کے اثرات آج بھی ہم پنجاب سے متصل علاقوں میں دیکھتے ہیں،مثلاًکشمیری، پہاڑی، گوجری، پوٹھواری وغیرہ۔

کتابیات

  1. فخر زمان،پنجاب، پنجابی اور پنجابیت،لاہور2003
  2. عارف نوشاہی، پنجاب میں فارسی ادب، لاہور
  3. ڈاکٹر  کے  ایس بیدی  ایم  اے،تین ہندوستانی زبانیں،دہلی
  4. حمید اللہ شاہ ہاشمی، پنجابی زبان و ادب،انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی  1988
  5. خالد پرویز ملک، پنجاب کے عظیم صوفی شعرا،علم وعرفان پبلشر، لاہور  2001
  6. محمد سرور، پنجابی ادب،اداری مطبوعات پاکستان،کراچی
  7. وڈی ہیر وارث شاہ، جواہر سنگھ کرپال سنگھ، امرتسر
  8. دیوان فرید، قیس فریدی، خانپور،  1992
  9. دکتر محمد باقر،پنجابی قصے فارسی زبان میں، لاہور1908

 

 

Tarique Husain

Research Scholar, Dept of Persian

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202201 (UP)

Mob.: 8492959143