14/2/24

پنجابی زبان پر فارسی کے اثرات: طارق حسین

 

ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے ہند و ایرانی تعلقات کو تقویت ملی۔مسلم بادشاہ و سلاطین نے ہندوستانی زبان و ادب، فلسفہ و مذہب، علم نجوم، ہیئت، طب، تہذیب اور ہندوستانی معاشرے میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ بادشاہوں کے علاوہ امرائے سلطنت او ر اعیان حکومت نے بھی یہاں رہتے ہوئے جس تہذیب کو اپنایا وہ خالص ترکی، افغانی یا ایرانی تہذیب نہیں تھی بلکہ اس میں مقامی عناصر بھی آہستہ آہستہ شامل ہوتے گئے۔

بر صغیر ہندو پاک کے ہر علاقے پر فارسی زبان نے اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ مگر پنجاب پر اس کے اثرات دیگر علاقو ں سے کہیں زیادہ ہیں۔کچھ محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس علاقے کا نام پنجاب ( پنج آب ) بھی فارسی زبان کا ہی لفظ ہے۔اس خطے کو صوبے کی حیثیت سے ’پنجاب‘ کا نام شیر شاہ سوری  (1540-45) کے عہد حکومت میں حاصل ہوئی اوراکبر (1556-1605) کے دور حکومت میں پنجاب کا نام کثرت سے استعمال ہونے لگا۔ابوالفضل کی جامع تصنیف ’آئین اکبری‘ میں پنجاب کو دو صوبوں میں منقسم بتایا گیا ہے۔اور ان دو صوبوں کا متحدہ نام ’پنجاب ‘ تھا۔ ’آئین اکبری ‘ کی جلد دوم میں ایک فصل کا عنوان ملتا ہے:

’’نھضت موکب اقبال شاھنشاھی از حدود پنجاب بدارالخلافہ آگرہ ظل اقبال بدھلی انداختند۔‘‘

(اقبال شہنشاہی حدود پنجاب سے دارالخلافہ آگرہ و دہلی میں جلوہ گر ہوا۔)

 ہندوستان کے دیگر علاقوں کی نسبت پنجاب سے فارسی زبان و ادب کا گہرا تعلق رہاہے۔ جس طرح ہندوستان کے دیگر حصوں کی علاقائی زبانوں پر فارسی زبان کے اثرات مرتب ہوئے اسی طرح پنجابی زبان و ادب پر بھی اس نے اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

سلطان محمود غزنوی کے حملے کے بعدپنجاب کا علاقہ غزنوی حکومت میں شامل ہو گیا۔جس کے باعث بہت بڑی تعداد میں ترک اور ایرانی صوفی، شاعر اورادیب خطہ پنجاب میں منتقل ہو گئے اور لاہور ادبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ فارسی چونکہ فاتحوں کی زبان تھی اور اس کے برعکس اس خطے میں رہنے والے پنجابی زبان بولتے تھے۔ جب ان دو تہذیبوں کے لوگوں کو ایک ساتھ رہنے کا موقع ملا تو یہ ایک دوسرے کی زبان سیکھنے پر مجبور ہوئے۔ بعض نے شوق سے نئی زبان کو سیکھا، کیونکہ ہر نئی چیزمیں لذت ہوتی ہے۔زبانوں کے اس تال میل کی بدولت آہستہ آہستہ فارسی کے کچھ الفاظ اور محاورات پنجابی میں داخل ہوگئے۔ یہاں تک کہ فارسی الفاظ نے آہستہ آہستہ ہندی زبان میں بھی سنسکرت اور پراکرت الفاظ کی جگہ لینی شروع کر دی جو کہ بعد میں مستقل صورت اختیار کر گئی۔کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ زبانوں کے اس میل ملاپ سے ایک نئی زبا ن معرض وجود میں آئی جس کو آج ہم ’ اردو‘ زبان کے نام سے جانتے ہیں۔

دو تہذیبوںکے اس سنگم سے فارسی زبان کے الفاظ کثرت سے پنجابی زبان میں داخل ہوتے گئے۔پنجاب شاعروں، ادیبوں، فن کاروں، صوفیوں اور دانشوروں کا اہم مرکز رہا ہے اور اس کے علاوہ مسلمان فاتحین کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ سے بہت سارے مسلمان صوفی بزرگوں نے بھی اس خطے کا رخ کیا جنھوں نے پنجابی زبان میں بے مثال منظوم تحریریں رقم کی ہیں۔ ان صوفی شعرا میں دو قسم کے گروہ تھے پہلا گروہ ان صوفیا ئے کرام کا ہے جن کا کام تھا اور دوسرے گروہ میں وہ بزرگان دین شامل تھے جنھوں نے دینی مسائل کو فلسفیانہ رنگ میں جانچا اور مذہب کے ظاہری عقائد کے برعکس باطنی عقائد کی تعلیم پر زیادہ زور دیا اور شریعت کے مقابلے میں طریقت کو ترجیح دی ان کا یہ نظریہ تھا کہ مذہب در اصل خدا اور انسان کے درمیان ایک روخانی رشتے کا نا م ہے اور یہ رشتہ دنیا کے تمام انسانوں کوایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔

پندرہویں صدی عیسوی کے وسط میں پنجابی زبان کو صوفیانہ خیالات، عقائد او ر روحانی تجربوں کو  بیان کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ اس کی ابتدا شیخ ابراہیم فرید ثانی سے ہوئی جو حضرت فرید گنج شکر ؒ کے عزیز اور اسی سلسلے کے جانشین بھی تھے۔ فرید ثانی کے بعد سلطان باہو، بابا بلھے شاہ، علی حیدر اور ہاشم جیسی شخصیتوں نے اس تحریک کو چلایا اور اپنی شاعری سے پنجابی شاعری کی  صوفیانہ روایات کو مضبوط کہا۔یہ صوفی شاعر اس دنیا کو اپنے خالق حقیقی کی ذات کا مظہرسمجھتے تھے۔ یہ وحدت الوجود کا فلسفہ در اصل فارسی شاعری سے ہی پنجابی میںداخل ہوا،اور ہندؤوں کے ویدانت فلسفے نے بھی اس کو  قوت بخشی۔

فارسی کے پنجابی پر اثرات

فارسی زبان جب اس خطے پنجاب میں داخل ہوئی تو فارسی کے الفاظ پنجابی زبان میں اس طرح شامل ہو گئے کہ ان میں تمیز کرنا مشکل ہے۔ان لفظوں میں اکثر تو ایسے ہیں کہ ان کی شکل و صورت اور معنی دونوں اصلی حالت میں قائم ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ ان کی صورتیں بدل چکی ہیں لیکن ان کے معنی میں فرق نہیں آیا۔مثال کے طور پر چند الفاظ: ’’قول، اقرار، رنج، خوشی، زندگی، موت، صبح، شام،زمین، آسمان‘‘ وغیرہ یہ سب الفاظ اپنی صورت اور معنی میں استعمال ہوتے ہیں او ر ان کے بولنے میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔یہ الفاظ عام بول چال کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی استعمال ہونے لگے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میںپنجابی بولی میں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے مگر فارسی کے الفاظ ہر جگہ مشترک نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر وارث شاہ کی ’ہیر‘ جو کہ پنجاب کا ایک بلند ادبی شاہکار ہے۔مثال کے طور پر ’ہیر‘ کے چند شعر درج ذیل ہیں            ؎

ہیر آکھیا عشق دے راہ پوناں نہیں کم ملوانا قاضیاںدا

ایس عشق میدان دیاں کُٹھیاں نوں درجہ ملے شہیداں تے نمازیاں دا

ترت وچ درگاہ قبوُل ہونا سجدہ عاشقاں پاک نمازیاں دا

راہ حق دے جان قربان کرنی ایہہ کم نہیں جھوٹھیاں پازیاں دا

کر کے قول زبان جتھیں ہار جانا کم بے ایمانا دھوکے بازیاں دا

عشق سر ہے ذات خدائی دا وے عاشق شان ویکھن کارسازیاں دا

رانجھا نال ایمان قبولیا میں قصہ ختم کر دور درازیاںدا

رانجھا  چھڈ کے انگ نہ لاں کھیڑا ہوندا گدھے نوں حق نہ تازیاںدا

جدوں کدوں کردا ترس عاشقان تے مالک رب غریب نوازے دا

وارث شاہ حقیقی دی لین لذت پہلاں چکھ کے لون مجازیاں دا

 ’’ہیر بولی عشق کے راستے پر قدم رکھ لیا،تو پھر عاشق اور معشوق کو ملوانا قاضیوں کا کا م نہیں۔

عشق کے میدا ن میں جوپوری طرح اتر گیا اس کو شہیدوں او ر نمازیوں کے برابر کا درجہ ملتا ہے۔

پاک نمازیوں کی طرح بہت جلدی اس کی بارگاہ میںعاشق کا سجدہ قبول ہو جاتاہے ۔

جھوٹے لوگوں کا کام راہ حق میں جان قربان کرنا نہیں ہے۔

ایک بار قول و اقرار کر کے مکر جانادھوکے باز اور بے ایمانوں کاکام ہے۔

عشق ذات خدائی کا سر ہے عاشق اس کی کارسازیوں کی شان دیکھتے ہیں ۔

اپنے ایمان کے ساتھ میں نے رانجھے کو قبول کر لیا اور دور درازیوں کا قصہ اب ختم کر دے۔

رانجھااب چھوڑ کر مت جا گدھے کو تازیوں (  جو مسلسل دوڑتے ہیں) کاحق نہیں ہے۔

جب کبھی عاشقوں پر ترس کرتا ہے اس غریب نواز کا رب(خدا)

وارث شاہ ! حقیقی عشق کی لذت لیتے ہیں پہلے عشق مجازی کے نمک کا ذائقہ چکھ کر۔

(یہاں ہیر قاضی سے گفتگوکر رہی ہے۔)

ان اشعار میں فارسی کے الفاظ بڑی طراوت کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔

عشق ،  راہ ،  درجہ ،  شہید ،  غازی ،  نمازی ، کار ساز،  تازی  وغیرہ، یہ تمام الفاظ اپنے محل کے ساتھ ساتھ اپنے اصلی معنوں میں ان اشعار میں شامل ہیں۔لیکن ان کے علاوہ بھی بیشمار الفاظ ہیں جو ذرا سی تبدیلی کے ساتھ مستعمل ہیں اور ان میں بعض تبدیلیاں صرف تلفظ کی ہیں مثلاً۔ سادہ کی جگہ سادی۔ طرح کی جگہ طراں۔ ان کے علاوہ بعض اتنے بدلے ہیں کہ آج ان کو پہچاننا بھی مشکل ہے۔

خواجہ غلام فرید جو کہ پنجابی کے بلند پایہ صوفی شاعر تھے۔ ان کے کلام میں بھی فارسی کے کثیر الفاظ شامل ہیں۔

 ان کا دیوان کافیوں پر مشتمل ہے۔ دیوان فرید سے ایک کافی نقل پیش ہے۔اس میں بھی فارسی الفاظ کثرت سے شامل ہیں          ؎

نازک ناز نگاہ سجن دے

عشوے‘ غمزے من موہن دے

لگڑے کاری تیر وو

سے سینے پل پل چھبدے پھل

سسّی شودی پیر پیادی

ناں تیڑ تاڈے جھوک آبادی

مٹھڑی بے تقصیر وو

نا خرچ پلے نہ گنڈھ سمل

ماہی باجوں سوُل قہر دے

ڈیہاں رات فرید نجر دے

نیناں نیر و ہیر وو

جھر، جنگل، بیلے چھلو چھل

’’میرے محبوب کے ناز(نخرے) بھی نازک ہیں  اس کے اشارے، ادائیں دل کو بہلانے والی ہیں۔

بہت تیز تیر لگے اور وہ میرے سینے میں ہر پل (وقت ) چُب رہے ہیں۔

سسی بیچاری بے آسرا ہے اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے او نہ ہی اس کے پا س کوئی آبادی ہے۔

یہ بغیر کسی گناہ کے مٹ چکی ہے ( اسکا کوئی قصور نہیں ہے ) نہ اس کے پاس کوئی خرچ ہے اور نہ ہی کچھ سامان (زاد راہ)

محبوب کے بغیر بے پناہ دکھ ہیں دن را ت اس ہجر کے دکھ ہیں۔

آنکھوں میں تیز آنسو ہیں جن سے میدان اور جنگل بھر چکے ہیں ۔‘‘

اس کافی میں  نازک ،  ناز ،  نگاہ ،  عشوہ ،  غمزہ،  تیر ، سینہ ،  پیادہ، آبادی ، تقصیر، فارسی کے الفاظ ہیں ان الفاظ کو لوگ آسانی سے بولتے اور سمجھتے ہیں۔پنجابی میں شعر و شاعری کے علاوہ فارسی لفظوں کی ترکیب بھی ہے جو پنجابی کے انداز میں ظاہر ہوتی ہے اوریہاں پرفارسی کا اثر بہت واضح اور نمایاں ہے۔

پنجابی قصے فارسی زبان میں

جس طرح فارسی زبان کے الفاظ پنجابی میں داخل ہوئے وہیں اسی طرح فارسی زبان کے شعرا اور نثر نگاروں نے پنجابی قصے کہانیوں کو فارسی زبان میں داخل کیا۔ان قصوں کو زیادہ تر شاعروں نے مثنوی کی شکل میں مختلف عناوین سے فارسی زبان میں شامل کیا۔اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ شاعری نثر کے مقابلے عوام میں زیادہ مقبول ہوتی ہے۔ ان قصوں میں مشہور ترین قصے درج ذیل ہیں۔

سسی پنوں، مرزا و صایبہ، مثنوی ہیر رانجا، سوہنی و مہیوال وغیرہ۔

ان سب قصوں میں’ہیر رانجھا‘ کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔قصہ ’ہیر رانجھا‘ کا فارسی میں سب سے قدیم قلمی نسخہ ’ فسانہ دلپذیر‘ ہے جو کہ سعید سعیدی نے نظم کیا ہے۔’فسانہ دلپذیر‘ کے متن کی ابتدا میں سعیدی نے اپنے بارے میں بھی لکھا ہے اور اس کے ساتھ شاہجہاں بادشاہ کی مدح بھی لکھی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے یہ قصہ شاہجہاں کے دور حکومت میں نظم کیاہو گا۔مدح کے چند شعر درج ذیل ہیں          ؎

یا رب کہ ھمیشہ باد خرم

و  ز گردش زمانہ بیغم

او شاہ جھانست شاہ بادہ

عالم ھمہ در پناہ بادہ

بر مسند دین بلطف داور

شاھنشہ ما ابوالمظفر

صاحب صاحبقران ثانی

خوش بر سر تخت کامرانی

’’اے میرے رب وہ ہمیشہ خوش و خرم رہے اور گردش زمانہ سے بے غم رہے۔

وہ جہاں کا بادشاہ ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے  اس کی پناہ میں پوری دنیا ہے۔

وہ مسند دین پر خدا کی مہربانی سے جلوہ گرہے ہمارا وہ بادشاہ ابوالمظفر ہے۔

وہ دوست رکھتاہے دوسرے صاحبقران(یہ لقب ان حکمرانوں کو دیا جاتا تھا جن کی مدت حکومت تیس سال سے زیادہ ہو) لوگوں کو  جو کامیابی کے تخت پر جلوہ نشین ہے۔

قصے کی ابتدا میںشاعراس قصے کے ہیرو  ’دھیدو‘ عرف رانجھا کا تعارف ان اشعار سے کراتا ہے       ؎

افسانہ عشق را زبان نیست

این گفت شنود  را بیان نیست

حرفی شنو از دیار دھیدو

بشنو ھمہ کار و بار دھیدو

از خوبی آن جون چہ گویم

محبوبی از جوان چہ گویم

مشھور زمانہ نام است

در دھر خانہ رانجہ نام است

دیدم پدرش مقدم دھر

مشھور جھان معلم دھر

’’عشق کے افسانے کی کوئی زبان نہیں ہوتی ہے،اس گفتگو کا کوئی بیا ن نہیں ہے۔

دھیدو کے گھر سے اس کا قصہ سنو،اور اس کی زندگی کے تمام کاروبار سنو!

اس جان کی خوبی میںکیا بیان کروں،اس محبوب کی جوانی کے بارے میں کیا بیان کروں۔

اس کا نام پورے زمانے میں مشہور ہے،زمانے میں وہ رانجہ کے نام سے مشہور ہے۔

میں نے اس کے باپ کو زمانے میں آگے دیکھا، دنیابھر میں معلم کی حیثیت سے مشہور ہے۔

ہیر رانجھا قصہ پنجاب میں ہر شخص جانتا ہے اور یہ قصہ نظم اور نثر میں کئی بار لکھا جا چکا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بارہویں صدی ہجری میں پنجاب میںخصوصاً اور ہندوستان میں عموماً اس قصے کو بہت ہردلعزیزی حاصل تھی۔ سجان رائے ’خلاصہ التوریخ‘ میں لکھتا ہے:

’’اھل پنجاب... در محبت و آشفتگی این ھر دو ( رانجھا و ھیر ) نقشھای بدیعہ و اشعار عجبیہ  بستہ سرود  و نغمہ دلفریب میکند ‘‘

پنجاب کے رہنے والے لوگ... ان دونوں کی محبت اور آشفتگی(رانجھا اور ہیر) میں کلام بدیعہ اور عجیب اشعار دلفریب نغمے گاتے تھے)۔

پنجابی رسم الخط پر فارسی رسم الخط کے اثرات

سنسکرت اور پنجابی سمیت اس خطے کی تمام پرانی زبانیں جن میں ایرانی زبان فارسی بھی شامل ہے یہاں کی  ( ہندآریائی)انڈویورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ساتویں صدی عیسوی میں جب عربوں نے ایران کو فتح کیا تواس سے پہلے ایران کی سرکاری زبان قدیم فارسی تھی جو کہ اس کے اپنے پہلوی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔عربوں نے ایران میں عربی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیالیکن کچھ عرصے تک فارسی کا قدیم رسم الخط زندہ رہا مگر آہستہ آہستہ یہ رسم الخط ختم ہو گیا۔تقریباً نویں صدی عیسویں میں فارسی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جانے لگی جو کہ موجودہ فارسی کا رسم الخط ہے۔اس کے بعد جب یہی فارسی زبان ہندوستان میں داخل ہوئی تو یہ یہاں کی سرکاری زبان بن گئی تواس کا رسم الخط بھی یہاں پر رائج ہو گیا اور پھر یہ رسم الخط سنسکرت اور دیگر مقامی زبانوں سے زیادہ معتبر ٹھہرا۔

بابا فرید اور گرونانک کے زمانے میں جب کچھ لوگوں نے ان بزرگوں کا اعلیٰ کلام لکھ کر محفوظ کرنے کا سوچا تو ظاہر ہے کہ اس وقت پنجابی کا اپنا کوئی معتبر رسم الخط نہ ہونے کی بنا پر اس کلام کواسی رسم الخط میں لکھنے کا فیصلہ کیا جو اس وقت اس علاقے میںرائج تھا۔چنانچہ اس وقت ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی تھی جو کہ عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی لہذٰا یہ پنجابی کلام بھی فارسی رسم الخط میںہی لکھے گئے۔

  پنجابی زبان کو دسویں صدی عیسویں کے ایک مورّخ مسعودی نے  ’ملتانی ‘زبان کہا ہے۔ البیرونی نے اس کو’الہندیہ‘ اور ’لہوری ‘کہا ہے۔ اس کے علاوہ مسعود سعد سلمان نے اپنے دیوان میں اس کو ’ہندوی‘  لکھا ہے۔

سکھوں کے پانچویں گورو  ارجن دیو نے جب ’گرو گرنتھ صاحب‘تالیف کی  تو یہ کتاب ’گرمکھی‘ رسم الخط میں لکھی گئی۔ یہ رسم الخط ’سنسکرت ‘رسم الخط سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے یہ رسم الخط سکھوں میں زیادہ مقبول ہوگیا۔ دوسری طرف مسلم صوفیا اور شعرا کا بہت سارا کلام فارسی رسم الخط میں تھا۔یہ کلام بھی اس خطے میں بسنے والے سبھی لوگوںمیں بہت مقبول تھا۔

تقسیم ہند کے وقت پنجاب بھی دو حصوں میں بٹ گیا۔ مشرقی پنجاب جو کہ ہندوستان میں شامل ہوایہاں پر سکھ مذہب کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔اس لیے یہاں پر دفتری زبان ’پنجابی‘ کو تسلیم کر لیا گیا۔ جو کہ ’گرمکھی‘  رسم الخط میں لکھی جانے لگی۔ اس کے بر عکس پاکستان کی سرکاری زبان اردو تھی۔ وہاں پنجابی کو سرکاری زبان کا درجہ نصیب نہ ہوسکا۔اس لیے پنجابی زبان، فارسی رسم الخط میں لکھی جانے لگی۔ جو بعد میں’ شاہ مکھی ‘رسم الخط کہلایا۔ تقسیم ہند کے وقت جہاں ایک طرف پنجاب دو حصوں میں بٹ گیا وہاں پنجابی زبان کا رسم الخط بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔

المختصر یہ کہ عہد وسطی میں فارسی زبان ثقافتی اعتبار سے عروج پر تھی۔ اس عہد کو فارسی زبان و ادب کا عہد زرین کہا جاتاہے۔فا رسی چونکہ سرکاری زبان تھی۔ اور تمام سرکاری کام اسی زبان میں انجام پاتے تھے،  اس لیے اس کا اثر براہِ راست یہاں کی دیگر زبانوں پر پڑا، اور اس خطے کی بیشتر زبانیں اسی رسم الخط میں لکھی جانے لگیں، جس کے اثرات آج بھی ہم پنجاب سے متصل علاقوں میں دیکھتے ہیں،مثلاًکشمیری، پہاڑی، گوجری، پوٹھواری وغیرہ۔

کتابیات

  1. فخر زمان،پنجاب، پنجابی اور پنجابیت،لاہور2003
  2. عارف نوشاہی، پنجاب میں فارسی ادب، لاہور
  3. ڈاکٹر  کے  ایس بیدی  ایم  اے،تین ہندوستانی زبانیں،دہلی
  4. حمید اللہ شاہ ہاشمی، پنجابی زبان و ادب،انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی  1988
  5. خالد پرویز ملک، پنجاب کے عظیم صوفی شعرا،علم وعرفان پبلشر، لاہور  2001
  6. محمد سرور، پنجابی ادب،اداری مطبوعات پاکستان،کراچی
  7. وڈی ہیر وارث شاہ، جواہر سنگھ کرپال سنگھ، امرتسر
  8. دیوان فرید، قیس فریدی، خانپور،  1992
  9. دکتر محمد باقر،پنجابی قصے فارسی زبان میں، لاہور1908

 

 

Tarique Husain

Research Scholar, Dept of Persian

Aligarh Muslim University

Aligarh- 202201 (UP)

Mob.: 8492959143

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں