28/2/19

اردو میں ادبی کالم نگاری مضمون نگار:۔ صابر علی سیوانی





اردو میں ادبی کالم نگاری
صابر علی سیوانی

اردو ادب میں مختلف اصناف کے لازوال شاہکار موجود ہیں ۔ شاعری ، افسانہ نگاری ، مکتوب نگاری ، تنقید نگاری وغیرہ کے ذریعے فنکاروں نے اپنے فن کے جلوے دکھائے ، لیکن اردو ادب میں جتنی مقبولیت شاعری کو حاصل ہوئی وہ کسی صنف کو حاصل نہ ہوسکی ۔ شاعری کے علاوہ بھی دیگر اصناف میں ماہرین فن نے اپنی طباعی اور خلاقی کے جوہر دکھائے ، ان میں افسانہ نگاری کو آزادی کے بعد عروج حاصل ہوا اور آج بھی ملک و بیرون ملک بڑے بڑے افسانہ نگار موجود ہیں ، جو اپنے قلم کے ذریعے جدید معاشرتی مسائل پر عصری تکنیک کے اثرات کے حوالے سے افسانے قلمبند کررہے ہیں ۔ مکتوب نگاری کے ذریعے بھی اپنی بات کو بے تکلفی سے بیان کرنے کا ہنر اپنایا گیا اور ایک مکتوب نگار اپنے مکتوب الیہ کی خدمت میں اپنی باتیں بلاجھجک پیش کرنے کی سعی کرتا رہا ۔ مرزا غالب کو اس فن میں کمال حاصل تھا ۔ تنقید نگاری کے میدان میں بھی ناقدین نے تخلیق کاروں کی نکیل کسنے کی کوشش کی اور تخلیق کاروں کے نقائص و محاسن کو پیش کرتے ہوئے تخلیقی رجحان کو صحت مند بنانے کی بڑی حد تک کامیاب کوششیں کیں ۔ اسی طرح ادب کے افق پر کچھ فنکار ایسے بھی نمودار ہوئے ، جنھوں نے کالم نگاری کو اپنے مافی الضمیر کی ادائگی کا وسیلہ بنایا اور اس کے ذریعے سماج کے مختلف مسائل اور ادب کی گوناگوں جہات پر لکھنے کی روایت قائم کی ۔ ان کی تحریریں عام ادبی تحریروں سے بالکل الگ بلکہ نہایت شستہ ، شگفتہ ، عام فہم ، سہل الممتنع اور دلچسپ ہوا کرتی ہیں جو قاری کو یک گونہ لطف و انبساط کے احساس سے روشناس کراتی ہیں ۔ جن میں زبان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ زیر لب تبسم پیدا کرنے کی خوبی ہوتی ہے ، جسے پڑھ کر قاری اپنی تمام پریشانیاں بھول جاتا ہے اور ایک نئے جوش و خروش کے ساتھ تازہ دم ہو کر میدان عمل میں اترتا ہے ۔ اردو میں ادبی کالم نگاری ایک خوش گوار اضافے کا نام ہے ، جس میں طنز و مزاح کی ہلکی سی آمیزش بھی ہوتی ہے اور سنجیدگی کا پہلو بھی ، یہی وہ اوصاف ہیں جو دیگر فنون کے مقابلے کالم نگاری کے فن کو ممتاز بناتی ہیں ۔ یہاں ادبی کالم نگاری کے انہی مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی جن کی وجہ سے اسے مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ان فنکاروں کی ادبی کالم نگاری کا جائزہ پیش کیا جائے گا جنھوں نے کالم نگاری کے ذریعے کمالِ فن اور حسنِ تحریر کا مظاہرہ کیا ۔ 
کالم انگریزی لفظ ہے ، جسے انگریزی میں Column تحریر کیا جاتا ہے ، جس کے لغوی معنی صفحے کا حصہ (خصوصاً اخبار کا) خانہ ، فوج کا ایک دستہ ہوتے ہیں ۔ اصطلاحی طور پر کالم اخباری صفحے کا ایک صحافتی جزو ہے جس میں کالم نگار اپنے مخصوص انداز میں کسی خاص موضوع پر اپنی دلچسپ تحریر نذر قارئین کرتا ہے ۔ کالم نگاری کے بارے میں سید اقبال قادری لکھتے ہیں :۔
’’کالم ایک ایسا صحافتی فیچر ہے جس میں کالم نویس منتخب موضوع پر اپنے مخصوص انداز میں اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کسی بھی معاملے کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے‘‘ (رہبر اخبار نویسی ، سید اقبال قادری ، ترقی اردو بیورو ، نئی دہلی 1989 ، صفحہ 300)
بیسویں صدی میں کالم نگاری نے عروج حاصل کیا ، لیکن عصر حاضر میں بھی کالم نگاری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ کالم معاصر اردو صحافت کا ایک اہم جزو تصور کیا جاتا ہے ۔ کسی بھی اخبار کے لیے اس سے صرف نظر ممکن نہیں ہے ۔ کالم میں اہم مسائل کا حل ، پیچیدہ معاملات کی توضیح اور تازہ ترین خبروں پر نہایت منفرد زاویے سے روشنی ڈالی جاتی ہے، لیکن اس تحریر میں اسلوب کی دلکشی اور زبان کی سلاست کو بڑا عمل دخل ہوتا ہے ۔ کالم کی تحریر عام تحریروں سے قدرے منفرد ہوتی ہے ۔ اس کے اسلوب میں مزاح کی چاشنی اور زبان کی شوخی ہو تو اس تحریر کی تاثیر مزید کامیابی کی ضمانت تصور کی جاتی ہے ۔ عام طور پر ادبی کالم نگاروں نے اسی روش کو اپنایا ہے اور وہ اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب بھی ثابت ہوئے ہیں ۔ 
کالم کی عموماً پانچ قسمیں بتائی جاتی ہیں جو اس طرح ہیں (1)رنگ برنگ کالم (2)ذاتی کالم (3)مزاحیہ کالم (4)سنڈیکیٹ کالم (5)خصوصی کالم ۔ لیکن خصوصی طور پر دو طرح کے کالم اخبارات میں زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ ایک کالم تو وہ جن میں روزمرہ کے سیاسی اور سماجی حالات پر طنزیہ ، مزاحیہ تبصرہ ہوتا ہے اور دوسرا کالم وہ ہوتا ہے جس میں کالم نگار مزاح کے ساتھ ساتھ ادبی حسن بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی مستقل حیثیت بن جاتی ہے ۔ یہ کالم اخبار کی طرح ایک روز کے بعد باسی نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک اخبار سے دوسرے اخبار و رسائل تک نقل (ڈائجسٹ) ہوتا رہتا ہے۔ بعض اوقات ان کالموں کا انتخاب کتابی صورت میں بھی شائع ہوتا ہے ۔ ان کالم نگاروں کی صف میں مشفق خواجہ ، عطاء الحق قاسمی ، مشتاق احمد یوسفی ، یوسف ناظم اور مجتبیٰ حسین وغیرہ شامل ہیں ۔ یہاں ادبی کالم نگاری سے مراد وہ کالم نگاری ہے جس میں ادب کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح کا بھی عنصر نمایاں طور پر پایا جاتا ہے ۔
اردو میں ادبی کالم نگاری (طنز و ظرافت) کے نمونے یوں تو ہمیں جعفر زٹلی (1731) کے اردو فارسی کے ملے جلے طنزیہ و مزاحیہ اشعار میں ملتے ہیں یا ان متعدد ’شہر آشوب‘ میں ہمیں طنز و مزاح کے عناصر ملتے ہیں جو اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں لکھے گئے ۔ حتی کہ غالب کے خطوط میں بھی جابہ جا طنز و مزاح کی آمیزش نظر آتی ہے ، لیکن طنز و مزاح اور ادبی کالم نگاری کا باضابطہ آغاز منشی سجاد حسین کے اخبار ’اودھ پنچ‘ سے ہوتا ہے ۔ ہفتہ وار ’اودھ پنچ‘ 1877 میں سجاد حسین کی ادارت میں جاری ہوا ۔ اودھ پنچ کے اجراء سے قبل اردو اخبار نویسی تقریباً نصف صدی کا سفر طے کرچکی تھی ۔ ملک کے گوشے گوشے سے بیشمار اردو اخبارات شائع ہوتے تھے ، ان میں بعض نہایت معیاری اور رجحان ساز اخبارات بھی تھے ۔ اس کے باوجود ’اودھ پنچ‘ کا اجراء ہندوستانی اردو صحافت کی تاریخ کا ایک حسین باب ہے ۔ اس اخبار کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اردو زبان میں طنزیہ و مزاحیہ صحافت کا ایک پورا دور اس کے نام سے منسوب ہے ۔ تقریباً 36 برسوں تک نہایت آب و تاب کے ساتھ ’اودھ پنچ‘ شائع ہوتا رہا ۔ اس اخبار کی خوش بختی یہ بھی رہی کہ اسے چھ سات اعلی اورشوخ مزاج ادیب میسر آگئے تھے ،جن میں تربھون ناتھ ہجر ، رتن ناتھ سرشار ، مچھو بیگ ستم ظریف ، جوالا پرشاد برق ، نواب سید محمد آزاد ، منشی علی احمد شوق اور اکبر الہ آبادی وغیرہ شامل تھے۔ ان قدآور ظرافت نگاروں نے صحیح معنوں میں اردو کے مزاحیہ ادب کو اعتبار و وقار بخشا ۔ ’اودھ پنچ‘ میں جو مضامین شائع ہوتے تھے ان کا دائرہ بہت وسیع تھا ۔ دنیا کا وہ کون سا مسئلہ تھا جو اس میں شامل نہ ہوتا تھا ۔ ان میں مغرب اور مغربی تہذیب ، اہل ہند کی کاہلی ، غربت و جہالت ، بے راہ روی ، مغرب کی اندھی تقلید ، خواتین کی بے پردگی ، سرسید کی تحریک کے بعض اہم پہلو ، شراب ، افیون ، بیٹر بازی ، توہم پرستی اور اس جیسے بیسیوں دیگر موضوعات و مسائل ’اودھ پنچ‘ کا حصہ تھے ۔ سیاسی و سماجی ناہمواریوں پر بھی کھل کر لکھنے والے لکھا کرتے تھے ۔ علاوہ ازیں صحتِ زبان کے موضوع پر بھی کالم لکھے جاتے تھے ۔ شعرا کے کلام پر اصلاح کے مباحثے بھی چلتے رہتے تھے ۔ جس کی وجہ سے اہل علم و ادب کا ایک بڑا حلقہ اس کا اسیر بنتا چلا گیا ۔ ’اودھ پنچ‘ سماج کا مکمل آئینہ دار تھا جس میں منفی سیاسی پہلوؤں اور سامراجی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی جرأت تھی۔ فکر تونسوی ’اودھ پنچ‘ کے حوالے سے پندرہ روزہ ’چنگاری‘ میں بعنوان ’اودھ پنچ والے‘ لکھتے ہیں :
’’اودھ پنچ والے کون تھے؟ ۔ ایک صدی پہلے طنّازوں کا یہ قافلہ کیوں پیدا ہوا تھا ؟ فرنگی سامراج کی تلوار قلم اور اظہار پر لہرارہی ہو ۔ نثر میں رئیسانہ پرتکلفی کو اعلی تہذیب سمجھا جاتا ہو اور سیاسی جد و جہد پر نوکیلے پہرے بیٹھے ہوئے ہوں اور عامتہ الناس کی بے چارگی کو خدا کی دین سمجھا جاتا ہو ۔ ایسے میں ، ایسے گھٹن اور زوال زدہ معاشرے میں ’اودھ پنچ‘ والے دانشوروں کا قافلہ اپنا طرّار ، شگفتہ ، بے باک قلم لیے ہوئے ابھر آیا ۔ کچھ اس طناز لب و لہجہ کے ساتھ ، ایسے شستہ اور تیکھے مزاج کی دلفریب آڑ لیے ہوئے کہ اودھ پنچ میں جو بھی فقرے شائع ہوجاتے ، بے بس عوام کی کُچلی ہوئی روح کے غماز بن جاتے ۔ اردو نثر کو تکلفات کی مٹی کے بے روح ڈھیر سے نجات دلانے اور اسے عوام کی ست رنگی پھلجھڑی بنانے میں جتنا ’اودھ پنچ‘ والوں کا کام ہے ، تواریخ اردو اسے آج تک نہیں بھلاسکی تو آنے والی صدیوں میں کیا بھلاسکے گی۔ (پندرہ روزہ چنگاری ، کالم نگار نمبر ، مرتب فکر تونسوی ، رام نگر شاہدرہ ، دہلی 198 ، صفحہ 12)
’اودھ پنچ‘ نے 36 برس تک ظرافت کے گیسو سنوارنے کے بعد 1913 میں دم توڑ دیا ۔ بعد ازاں اس کی روایت کو فروغ دیتے ہوئے بہت سے اخبارات نے اپنے کالموں میں ظرافت کو سماجی نشیب و فراز کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنایا ۔ انھی میں سے ریاض خیرآبادی کے رسالوں ’فتنہ‘ اور ’عطر فتنہ‘ نے بھی طنز و مزاح کے سرمایے میں بیش بہا اضافہ کیا ۔ ان رسائل کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے نہ صرف طنز و مزاح نگاروں کو طنز کے آداب سکھائے اور مزاح پیدا کرنے کا گُر سکھایا بلکہ طنز و مزاح کی اہمیت کو بھی منوایا۔ اردو طنز و مزاح نگاری کی خوش قسمتی یہ رہی کہ اس میدان میں ہمیشہ اردو کے اعلی پائے کے ادیبوں نے قسمت آزمائی کی ۔ بیسویں صدی کے آغاز تک تو صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ اردو میں نہ صرف طنز و مزاح پر مشتمل رسائل شائع ہونے لگے تھے ، بلکہ ہر اردو اخبار میں مزاحیہ کالم کی اہمیت محسوس کی جانے لگی تھی ۔چونکہ اس دور میں حالات کچھ ایسے پیدا ہوگئے تھے کہ راست طور پر بہت سی باتوں کو بیان کرنے کی بجائے طنز و مزاح کے خوبصورت پیرائے میں اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنا زیادہ موثر سمجھا جاتا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے ادیب جن کا راست طور پر طنز و مزاح سے کوئی تعلق نہ تھا وہ بھی کالم نگاری کی جانب مائل ہوئے اور کالم نگاری کے ذریعے انھیں زبردست شہرت حاصل ہوئی ۔ ان میں سے خواجہ حسن نظامی ، ابوالکلام آزاد ، چراغ حسن حسرت ، قاضی عبدالغفار ، عبدالماجد دریابادی ، عبدالمجید سالک ، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ 
جس سال منشی سجاد حسین کا ’اودھ پنچ‘ بند ہوا ، اسی سال مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنا ہفت روزہ ’الہلال‘ جاری کیا ۔ مولانا نے آغاز میں ہی ’الہلال‘ میں ’افکار و حوادث‘ کے عنوان سے ایک فکاہیہ کالم شروع کیا ، جسے وہ خود ہی لکھا کرتے تھے ۔ ان کے موضوعات سیاسی و مذہبی نوعیت کے ہوا کرتے تھے ۔ وہ ان کالموں میں فرنگی حاکموں کی مسلم دشمنی ، سرسید کی انگریز نواز سیاست اور مسلمانوں کی کاہلی اور سہل پسندی کے موضوعات نمایاں طور پر پیش کرتے تھے ۔ سیاسی مخالفین کی خوب حرف گیری کیا کرتے تھے ، لیکن ان کی ظرافتی تحریروں میں ظرافت سے زیادہ طنز کے عنصر نمایاں ہوتے تھے ۔ مولانا نے ’الہلال‘ میں ’فکاہات‘ کے عنوان سے طنزیہ شاعری کا بھی ایک کالم شروع کیا اور پھر اسی دہائی میں یعنی بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اور اس کے بعد جاری ہونے والے اردو اخبارات نے ظرافت نگاری کو اپنے روزناموں کا جزولاینفک تصور کیا اس طرح مزاحیہ کالم اردو صحافت کا باقاعدہ امتیازی وصف بن گیا اور یہ سلسلہ جو اس وقت شروع ہوا آج بھی اس کا تسلسل اردو صحافت میں پایا جاتا ہے ۔ 
اردو صحافت کا زور اس وقت شمالی ہند خصوصاً پنجاب میں تھا ۔ چنانچہ اس صوبے کی راجدھانی لاہور سے نکلنے والے تقریباً سبھی نئے روزناموں نے فکاہیہ کالم شائع کرنے کا خاص طور پر اہتمام کیا ۔ ان اخبارات نے نظم و نثر کے ذریعے طنز و مزاح کے سرمائے میں اضافے کا کام کیا ۔ مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’زمیندار‘ اور ’ستارۂ صبح‘ محمد علی جوہر کے ’ہمدرد‘ ، عبدالمجید سالک کے ’انقلاب‘ چراغ حسن حسرت کے ’شیرازہ‘ مہاشہ کرشن کے ’پرتاپ‘ مہاشہ خوشحال چند کے ’ملاپ‘ لالہ لاجپت رائے کے ’بندے ماترم‘ اور سناتن دھرم سبھا کے ’ویر بھارت‘ وغیرہ میں اپنے اپنے مخصوص فکاہیہ کالم تھے ۔ یہ حقیقت ہے کہ 1947 تک جتنے بھی اخبارات جاری ہوئے ان تمام اخبارات میں فکاہیہ کالم ہوا کرتے تھے اور جس اخبار کو کوئی مزاحیہ ادبی کالم نگار نہیں ملتا تھا تو اخبار کا مدیر ہی فکاہیہ کالم نگاری کا فریضہ انجام دیا کرتا تھا ۔ نثر ہو یا نظم جس میں مدیر کو زیادہ آسانی یا قدرت حاصل ہوتی تھی اس میں طنز و مزاح کے جوہر دکھاتا تھا ۔ 
1903 میں ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین نے لاہور سے ’زمیندار‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ ان کے انتقال کے بعد مولانا ظفر علی خاں نے زمیندار کی ادارت کی ذمے داری سنبھالی ۔ نظم کے میدان میں مولانا ظفر علی خاں واحد کالم نگار تھے ، جنھوں نے اپنی صلاحیت کا اعتراف کرایا اور منظوم انداز میں مزاحیہ کالم لکھ کر سب کو حیرت زدہ کردیا ۔ پھر یہ جو سلسلہ ان کے اخبار ’زمیندار‘ میں شروع ہوا تو اس کی شہرت برصغیر ہند و پاک میں ایسی پھیلی کہ صرف ان کا کالم پڑھنے کے لیے قارئین ’زمیندار‘ خریدا کرتے تھے اور اس کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے ۔ مولانا ظفر علی خاں کی فکاہیہ کالم نگاری کا اصل جوہر ان کی شاعری میں ہی پوشیدہ تھا ۔ ان کا قلم سیاسی اور مذہبی موضوعات کی جانب مائل تھا ۔ ان کی فکاہیہ نظموں میں خطیبانہ انداز غالب تھا ۔ کبھی ان کی تحریروں میں شدت پسندی غالب آجاتی تھی اور ان میں ہجویانہ انداز نمایاں ہوجاتا تھا۔ وہ جس بھی سیاسی اور مذہبی شخصیت کو نشانہ بناتے تھے ، اس کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دیتے تھے ۔ علاوہ ازیں انھوں نے ایک طرف انگریزوں اور دوسری جانب ہندوؤں کو بھی اپنی مزاحیہ منظوم تحریروں کے ذریعے نشان بنایا۔ حکومت نے اخبار کے شدت پسند انداز کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور 1916 میں ’زمیندار‘ پر پابندی عائد کردی گئی ، لیکن مولانا کب خاموش رہنے والے تھے ۔ انھوں نے فوراً ’ستارۂ صبح‘ کے نام سے ایک غیر سیاسی اخبار نکالا اور اس میں ’فکاہات‘ اور ’جواہر ریزے‘ کے زیر عنوان وہ نئے مزاحیہ کالم کی جگہ مخصوص کرڈالی ، جن میں غیر سیاسی موضوعات پر نہایت شائستگی و شستگی سے طنزیہ تحریریں معرض وجود میں آنے لگیں ۔ 1920 میں ’زمیندار‘ کا دوبارہ اجرا عمل میں آیا اور اس اخبار کا پرانا مزاحیہ سلسلہ ’تیر و تفنگ‘ دوبارہ شروع ہوگیا ۔ اس میں انھوں نے کسی بھی سیاسی لیڈر کو معاف نہیں کیا ، یہاں تک کہ اقبال ، جناح ، ابوالکلام آزاد ، مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو تک کو نشانہ بنانے سے احتراز نہیں کیا ۔ مولانا ظفر علی خاں اپنے فرضی قلمی نام ’نقاش‘، ’ابوزید‘ ،’سروجی‘ ،’حارث‘ اور ’ابن ہمام‘ سے لکھتے رہے ، لیکن مزاحیہ منظوم کالم نگاری میں جو مقام مولانا کو حاصل ہوا وہ کسی دوسرے مزاح نگار کے حصے میں نہیں آیا ۔ 
ادبی طنز و مزاح نگاری میں عبدالمجید سالک کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ عبدالمجید سالک 1920 کے آس پاس ’زمیندار‘ کی ادارت میں شامل ہوئے ۔ انھوں نے ’زمیندار‘ میں ’افکار و حوادث‘ ہی کے عنوان سے اپنا فکاہیہ کالم لکھنا شروع کیا ۔ وہ ایک ذہین اور دور اندیش قلمکار تھے ۔ جلد ہی ان کا کالم مزاح اور طنز کے نئے معیار کو پہنچ گیا اور اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ۔ سالک 1927 میں ’زمیندار‘ سے الگ ہوگئے ۔ عبدالمجید سالک نے ’انقلاب‘ اور ’زمیندار‘ میں کم و بیش 30 برس تک مزاحیہ کالم نگاری کی۔ اس طویل عرصے تک شاید ہی کسی نے مزاحیہ و طنزیہ کالم نگاری کا سلسلہ جاری رکھا ہو ۔ انھوں نے اپنی کالم نگاری کے ذریعے ادبی کالم نگاری کو جن بلندیوں پر پہنچایا اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ 
چراغ حسن حسرت کاشمیری کلکتہ سے شائع ہونے والے اخبار ’نئی دنیا‘ میں کولمبس کے نام سے ’افکار و حوادث‘ جیسا کالم لکھا کرتے تھے ۔ کلکتہ کے ’نئی دنیا‘ کے بعد حسرت نے مسلم اور ہندو ملکیت کے کئی اردو اخبارات میں ملازمت کی ۔ ان اخبارات میں ’کولمبس‘ ، ’کوچہ گرد‘ اور ’سندباد جہازی‘ کے قلمی ناموں سے اپنا کالم لکھا ۔ بعد ازاں 1932 میں لاہور سے ’شیرازہ‘ کے نام سے اپنا فکاہی اور ادبی ہفت روزہ جاری کیا۔ ’شیرازہ‘ میں حسرت کی شاہکار طنزیہ تخلیق ’جدید جغرافیۂ پنجاب‘ قسط وار شائع ہوئی، جو بعد میں 1946 میں کتابی شکل میں چھپ کر منظر عام پر آئی ۔ اس کالم میں انھوں نے پنجاب کے احوال، سیاسی میدان کے سورماؤں ، حریفوں اور حلیفوں کے نشیب و فراز کو اجاگر کیے اور تلخ حقائق کو مزاح و طنز کے پیرائے میں پیش کیے ۔ معروف کالم نگار نصر اللہ خاں نے لکھا ہے کہ’’حسرت صاحب کے بارے میں بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ ان سے بڑا مزاحیہ کالم نویس اور طنز نگار آج تک نہیں پیدا ہوا۔ 
بیسویں صدی کے ظرافتی افق پر ایک تابندہ نام خواجہ حسن نظامی کا ہے ، جنھوں نے اردو طنز و مزاح کے صف اول کے لکھنے والوں میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ۔ خواجہ حسن نظامی کی ظرافت نگاری کے متعلق فکر تونسوی پندرہ روزہ ’چنگاری‘ ، دہلی میں رقمطراز ہیں :
’’بیسویں صدی کا آغاز ہی ہوا تھا کہ دہلی کے افق سے اردو صحافت اور نظافت کا ایک نیا اور چمکدار ستارہ طلوع ہوا ۔ خواجہ حسن نظامی ، پورے نام کے صوتی تاثرات ہی میں عظمت کی جلترنگ جادو جگادیتی ہے ۔ اپنے اخبار’منادی‘ میں قلم برداشتہ بے ساختگی اور بے خوفی سے لکھنا شروع کیا ، تو لکھتے گئے ، لکھتے گئے ،بے تکان ۔ موضوع اس گیسو دراز خواجہ کی قدم بوسی کے لیے جیسے کیو (Que) بنا کر کھڑے ہوجاتے۔ موضوع میں انگریز سامراج آئے ، عالم بے عمل ، مذہبی نقاب پوش آئے یا معاشرتی تو تو میں میں ۔ خواجہ حسن نظامی کا تند و تیز مگر آداب یافتہ قلم اپنے منفرد اسلوب میں سب کے تار و پود بکھیر دیتا ۔ دیکھتے دیکھتے تھوڑی ہی مدت میں ’’منادی‘‘ وقت کی گونجیلی آواز بن گیا۔‘‘
(پندرہ روزہ چنگاری ، دہلی ، 1984، صفحہ 55)
خواجہ حسن نظامی کے مزاحیہ کالموں میں ’کم اِن مائی ڈیئر‘ ،’جھینگر کا جنازہ ‘اور اس قبیل کے دیگر کالموں کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ۔خواجہ حسن نظامی نے کالم نگاری کو وقت کے اہم تقاضے کے طور پر اپنایا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے کالم جس انداز کے تحریر کیے اس کی دھوم سارے ملک میں تھی ، بلکہ آج بھی ان کی تحریریں بڑی دلچسپی اور سنجیدگی سے پڑھی جاتی ہیں ۔ ان کے ایک کالم ’جھینگر کا جنازہ‘ سے پیش ہے ایک مختصر اقتباس : 
’’انسان مثل ایک جھینگر کے ہے ، جو کتابیں چاٹ لیتے ہیں ۔ سمجھتے بوجھتے خاک نہیں۔ یہ جتنی یونیورسٹیاں ہیں ، سب میں یہی ہوتا ہے ۔ ایک شخص بھی ایسا نہیں ملتا جس نے علم کو علم سمجھ کر پڑھا ہو۔ ‘‘
خواجہ حسن نظامی نے جھینگر کے تناظر میں انسانوں کی علمیت اور خصوصاً یونیورسٹیوں میں تعلیم کی صورت حال کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ آج بھی کم و بیش سو سال گزر جانے کے بعد بھی بالکل حقائق پر مبنی معلوم ہوتا ہے ۔ 
حاجی لق لق روزنامہ ’زمیندار‘ لاہور میں ’تعلقہ‘ کے نام سے روزانہ کالم لکھا کرتے تھے ۔ لوگ اسے صبح صبح تفریح کے طور پر پڑھ کر بہت لطف اندوز ہوا کرتے تھے ۔ ان کالموں میں شعریت کا حسن اور معاصرانہ چشمک کی کڑواہٹ و شیرینی دونوں شامل ہوا کرتی تھی ۔ انھیں مزاحیہ نظم و نثر دونوں پر عبور حاصل تھا ۔ لوگ صبح صبح اخبار میں سب سے پہلے ان کا ہی کالم پڑھا کرتے تھے ۔حاجی لق لق کا ایک مزاحیہ مضمون ’لیڈر بن جاؤ‘ ہے جس میں انھوں نے لیڈر کی خصوصیات بیان کی ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر آپ کو دنیا میں کوئی کام نہیں ملتا تو بس آپ لیڈر بن جایئے ۔ آپ کے مزے ہی مزے ہوں گے ۔ اپنے اس مضمون میں حاجی لق لق لکھتے ہیں :
’’اگر آپ کو دنیا میں کوئی کام نہیں ملتا تو لیڈر بن جاؤ ۔ تجارت کرنے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے ۔ کھیتی باڑی کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہے اور نوکری کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے ۔ پہلے تعلیم کی پھر سفارش کی ۔ سفارش کے بغیر چپراسی کی نوکری بھی نہیں ملتی ۔ ہاں لیڈری سب سے آسان چیز ہے ، نہ سرمائے کی ضرورت ، نہ محنت کی، نہ تعلیم کی نہ سفارش کی ۔ اور مزے ولایت پاس سے زیادہ ، جدھر جاؤ عزت ، زندہ باد کے نعرے ، جلسے جلوس ، مرغ پلاؤ ۔ غرض مزے ہی مزے ہیں۔ ‘‘
حاجی لق لق کا ایک بہت ہی مشہور مزاحیہ مضمون ’تانگے والے‘ بھی ہے جس میں کوچبان اور سوار کی گفتگو کو نہایت دلچسپ پیرائے میں لق لق نے بیان کیاہے ۔ وہ اپنے عہد کے ایک عظیم فکاہیہ کالم نگار تھے۔ 
اردو کے ادبی طنز و مزاح میں ایک بڑا نام ملا رموزی کا بھی ہے ۔ ملا رموزی کی گلابی اردو کو کافی شہرت حاصل ہوئی ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ گلابی اردو اور ملا رموزی دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم معلوم ہوتے ہیں ۔ بقول فکر تونسوی کہ : ’’گلابی اردو اور ملا رموزی دونوں ایک دوسرے کے ہمزاد معلوم ہوتے ہیں ، اس فرق کے ساتھ کہ ملا رموزی 1896 میں دنیا میں تشریف لائے اور ان کے اندر گلابی اردو نے 1915 میں جنم لیا ۔ یہ گلابی اردو 1953 میں کوچ کرگئی بلکہ ملا رموزی کا تصور اس کے بعد بھی ہندوستانی ذہن میں زندہ رہا۔‘‘
ملا رموزی کی گلابی اردو کے کالم نہایت دھماکے دار کالم تھے ۔ ان کے کالم شائع ہوتے ہی حکومت اور قارئین پریشان ہوجایا کرتے تھے ۔ انگریزی کلچر نے جو ہندوستانی قوم کی اخلاقی اقدار پر جو بالواسطہ طور پر حملے شروع کیے تھے ملا رموزی طنزیہ ومزاحیہ گلابی لہجے میں ان کا مسلسل منہ توڑ جواب دیتے تھے اور یہی ان کے کالموں کی خصوصیت تھی ۔ ان کا منفرد اسلوب تھا اور اسی منفرد اسلوب کی وجہ سے وہ آج بھی زندہ ہیں ۔ ملاحظہ کیجیے ملا رموزی کی گلابی اردو کا ایک اقتباس اور اندازہ لگایئے ان کے کاٹ دار جملوں کا:
’’تو قسم ہے درجہ سوم موٹر کاروں کی کہ تباہ کرتا ہے دھواں پٹرول ایسی موٹر کاروں کا صحت دماغ کو عوام کی ہر جگہ کہ نہیں ، غالب آئیں گے اب باشندے حبشہ کے اوپر قبضہ اٹلی کے ، مگر یہ کہ لڑتے رہیں گے وہ بیچ دیہات و قصبات اپنے ساتھ تو جھوٹی امید کے‘‘ (جاپان کی سیاہ گولہ باری)
شوکت تھانوی کئی خوبیوں کے مالک تھے ۔ وہ بیک وقت افسانے ، ڈرامے ، خاکے ، شاعری اور کالم نگاری میں طبع آزمائی کرتے رہے ، لیکن انھیں جو شہرت حاصل ہوئی وہ ان کی کالم نگاری کی وجہ سے 1930 سے 1980 تک کم و بیش پچاس برسوں پر محیط وہ قلم کے تیر و نشتر چلاتے رہے ۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد ہندو پاک کے اخبارات شوکت تھانوی کے کالم کے بغیر ادھورے تصور کیے جاتے تھے۔ ان کے اہم کرداروں میں بیگم ، بچے ، بھائی ، بہن اور ہمجولی ہوا کرتے ۔ جن کی آڑ میں وہ طنز و مزاح کی پھلجھڑیاں چھوڑا کرتے تھے اور معاشرے کے خوب و خراب پر ضرب لگایا کرتے تھے ۔ وہ صداقت پسند فنکار تھے اور مزاحیہ لہجے میں ان کرداروں کے اہم اوصاف بیان کرکے ان کے روزمرہ کے معمولات میں شگفتہ نکتے دریافت کرلیتے تھے اور انھیں اس خوبصورت انداز میں پیش کرتے تھے کہ پڑھنے والا ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوجاتا تھا ۔ 
ادبی طنز و مزاح نگاری کے اسلوبیاتی دھاروں کے متعلق پروفیسر گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے کہ اردو مزاح نگاری میں دو اسلوبیاتی دھارے ہیں ۔اس کے متعلق گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :
’’اردو مزاح نگاری میں اب تک دو اسلوبیاتی دھارے خاص کر سامنے آچکے ہیں ۔ ایک جو پطرس اور کنھیا لال کپور کی یاد دلاتا ہے یعنی جو خوش طبعی ، کھلنڈرے پن اور کھلے ڈلے شگفتہ انداز سے عبارت ہے اور دوسرا وہ جو رشید احمد صدیقی کی یاد دلاتا ہے اور اب مشتاق احمد یوسفی سے منسوب ہے ، یعنی متانت آمیز مزاح جس میں ادبیت اور شعریت کی چاشنی غالب ہے ۔ خوش طبعی اور شگفتگی یہاں تبسم زیرِ لب کی حیثیت رکھتی ہے۔ ‘‘
(الف تماشا صفحہ 23)
بیسویں صدی کی چوتھی دہائی اور بالخصوص پانچویں دہائی اردو نثر کے جدید دور سے عبارت ہے ۔ اس دور کے طنزیہ و مزاحیہ ادب میں افکار و اسالیب کی نئی روشیں دکھائی دیتی ہیں۔ طنز و مزاح میں لطائف اور چٹکلے بازی سے قطع نظر اب طنز و مزاح میں اعلی اقدار کی پاسداری کو ملحوظ خاطر رکھا جانے لگا۔ دیرپا ادبی تحریروں پر زیادہ توجہ دی جانے لگی ۔ اس روایت کو فروغ دینے والوں میں مرزا فرحت اللہ بیگ ، احمد شاہ بخاری پطرس اور رشید احمد صدیقی کے نام سرفہرست نظر آتے ہیں ۔ 
مرزا فرحت اللہ بیگ نے ایک شاعر کی حیثیت سے بھی خود کو متعارف کرایا ۔ چند کلاسیکی شعرا کے کلام کی تدوین بھی کی ، لیکن ان کو جو شہرت حاصل ہوئی وہ ایک طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے ہوئی ۔ ان کا اہم ترین ادبی طنز و مزاح کا کارنامہ ’نذیر احمد کی کہانی 150کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘ ہے ، جو 1927 میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا ۔ مولوی نذیر احمد پر لکھا ہوا ایک شاہکار خاکہ ہے جس میں فرحت اللہ بیگ نے بالکل اچھوتے انداز میں مولوی نذیر احمد کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کی خامیوں اور کمزوریوں پر بھی اس انداز سے روشنی ڈالی ہے کہ ان کی شخصیت کے تمام پہلو کھل کر سامنے آجاتے ہیں ۔ فرحت اللہ بیگ کا ایک اور خاکہ جو مزاحیہ پیرائے میں ہے وہ ’ایک وصیت کی تعمیل‘ کے زیر عنوان ہے جس میں مولوی وحید الدین سلیم کی شخصیت کے نمایاں خد و خال پیش کیے گئے ہیں ۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کو دہلی کی ٹکسالی زبان پر خاص قدرت حاصل تھی ۔ ان کے مزاحیہ مضامین اور خاکوں کی اہم خوبی ان کی روزمرہ اور محاوروں سے سجی ہوئی ٹکسالی زبان ہے ، جو انھیں ان کے معاصرین میں ممتاز بناتی ہے ۔ 
پطرس بخاری مزاح نگاروں کی فہرست میں اس حیثیت سے جانے جاتے ہیں کہ انھوں نے خالص مزاح نگاری کے فن میں طبع آزمائی کی ۔ ان کے مزاحیہ مضامین ، جن میں طنز کے عناصر بھی موجود ہیں وہ ہیں ’میں ایک میاں ہوں‘، ’سنیما کا عشق‘ ، ’مرحوم کی یاد میں‘ اور ’مرید پور کا پیر‘۔ ان تمام مضامین میں پطرس بخاری کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے ۔ ان کا اسلوب نہایت دلکش اور زبان نہایت پُراثر ہے ۔ پطرس مغربی طرز فکر اور خصوصاً طنز و مزاح کے مغربی انداز سے بخوبی واقف تھے ،جس کا اثر ان کی تحریروں میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ وہ اپنے عہد کے مقبول ترین اور ہر دلعزیز فنکار تھے ، جن کی تحریروں کی شگفتگی آج بھی اپنی جانب متوجہ کرتی ہے ۔ 
فکاہیہ کالم نگاروں کی فہرست میں سعادت حسن منٹو کا نام بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ حالانکہ منٹو کو افسانہ نگاری کی وجہ سے شہرت حاصل ہے ، لیکن افسانوں کے علاوہ منٹو نے کالم نگاری میں بھی جدت طرازی کا مظاہرہ کیا ۔ منٹو نے اپنے گرد و پیش کے مضحکہ خیز اندھیروں میں روشنی کی لہریں دوڑانے کے لیے اخباری کالم نویسی کا آغاز کیا ۔ منٹو نے اپنے کالم کا عنوان ’تلخ و تند اور شیریں‘ رکھا ۔ ان کے کالم انشایئے کے زمرے میں آتے ہیں ، لیکن ان میں سماجی ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں پر تیکھے اور دلیرانہ طنز بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ان کے کالم میں مزاح نہیں نظر آتا ہے لیکن طنز کے تیروں سے سماجی برائیوں پر نشانہ سادھنے کی کامیاب کوشش نظر آتی ہے ۔ منٹو کسی سیاسی یا مذہبی مسلک کے علمبردار نہیں تھے ، لیکن وہ اہل ثروت کی کبر و انا اور نخوت و خود بینی کو کبھی معاف نہیں کرسکتے تھے۔ معاشرے کی اخلاقی کمزوریوں کو اپنے کالم ’تلخ و تند اور شیریں‘ میں ہدف تنقید بنایا ۔ ’تلخ و تند اور شیریں‘ کے عنوان سے ان کے کالموں کا مجموعہ مکتب شعر و ادب لاہور سے شائع ہوا ۔ منٹو کے کالموں میں وہی بے باکی اور جرأت مندی موجود تھی ، جو ان کے افسانوں کا امتیاز رہا ہے۔ منٹو کے طنز کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے جو ان کے کالم ’دیواروں پر لکھنا‘ سے ماخوذ ہے :
’’بمبئی کارپوریشن نے ایک بہت لمبی دیوار جو کوئنز روڈ پر واقع ہے اور برقی ریل کی پٹری کے متوازی دور تک چلی گئی ہے ، ان اشتہاروں کے لیے مخصوص کردی گئی ہے ۔ اس دیوار کے پیچھے پارسیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کا قبرستان اور ہندوؤں کا شمشان ہے ۔ معلوم نہیں مذہبی نقطۂ نظر سے بمبئی کارپوریشن کی حرکت درست ہے یا نا درست مگر یہ دیوار جس پر ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک نغموں کے بڑے بڑے اشتہار پینٹ ہیں ، ایک عجیب و غریب تضاد پیش کرتی ہے ۔ عقب میں ہزاروں انسان دفن ہیں ، لیکن پیشانی پر پری چہرہ نسیم بانو کی ایک بڑی تصویر نظر آتی ہے ۔ ذرا آگے بڑھیے تو موٹے موٹے حروف میں ’ہنسو ہنسو اے دنیا والو‘ کا اشتہار دکھائی دیتا ہے ۔ دیوار کے پیچھے جلتی ہوئی چتا سے دھواں اٹھ رہا ہے ، لیکن سامنے تھیٹرز کی فلم ’زندگی‘ کا شوخ رنگ اشتہار چمک رہا ہے۔‘‘ (دیواروں پر لکھنا)
اس مختصر سے اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ منٹو کس قدر حساس فنکار تھے اور ان کی تحریروں میں طنز کے کیسے مؤثر اور دلچسپ مصوری نظر آتی ہے ، جو سماج کے تضاد کو عیاں کردیتی ہے ۔ یہی اس فنکار کا کمال ہے ۔
فکر تونسوی کا اسکولی نام رام لال اور تخلص فکر تھا ۔ وہ 17 اکتوبر 1918 کو شجاع آباد ضلع ملتان میں پیدا ہوئے ۔ ان کا آبائی گاؤں تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خان (پنجاب) تھا ۔ وہ ابتدا میں شاعری کرنے لگے تھے ۔ ان کی چند غزلیں بھی رسالوں میں شائع ہوئیں ، لیکن انھوں نے تقسیم ہند کے بعد شاعری ترک کردی اور طنز و مزاح کو ہی اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا ۔ 1954 میں روزنامہ ’نیا زمانہ‘ میں ایک طنزیہ کالم ’آج کی خبر‘ کے عنوان سے لکھنا شروع کیا ، لیکن ان کی شہرت ’پیاز کے چھلکے‘ کالم کی وجہ سے ہوئی ، جسے وہ 1955 سے دہلی کے روزنامہ ’ملاپ‘ میں پچیس سال تک مسلسل لکھتے رہے ۔ اس طرح 1955 سے 1981 تک مسلسل یہ کالم لکھتے رہے ،جس کی وجہ سے انھیں پورے ملک میں حیرت انگیز مقبولیت حاصل ہوئی ۔ وہ ان روزمرہ کے مسائل پر اس انداز سے روشنی ڈالتے تھے کہ ہر شخص اسے اپنے دل کی بات تصور کرتا تھا ۔ ان کی سولہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ جن میں ان کی آپ بیتی بھی شامل ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔ 
اردو کالم نگاری میں پاکستانی کالم نگار مشفق خواجہ کی ایک امتیازی شناخت ہے ۔ مشفق خواجہ کو زبان اور اسلوب پر بے پناہ قدرت حاصل تھی۔ انھوں نے ادبی کالم نگاری کی ابتدائی 15 نومبر 1970 کو الطاف حسین قریشی کے اخبار ’جسارت‘ میں بعنوان ’اندیشۂ شہر‘ اور ’غریب شہر‘ سے کی ۔ پھر جب ’جسارت‘ کی ذمے داری محمد صلاح الدین نے سنبھالی تو مشفق خواجہ 1981 سے 1994 کے آغاز تک ’سخن در سخن‘ کے تحت ’خامہ بگوش‘ کے قلمی نام سے ’جسارت‘ میں کالم لکھتے رہے ۔ ان کے طنز کا نشانہ اردو کی کتابیں اور ان کے مصنفین ہوا کرتے تھے۔ ادبی کالم نگاری میں مشفق خواجہ ایک نئے طرز کے موجد ہیں ، جس کو ’ہجوِ ملیح‘ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ بعض نقادوں نے ان کی تحریروں کو جارحانہ کہا ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی تحریریں نہایت معیاری اور عالمانہ ہوا کرتی تھیں ۔ ان کی تحریر کا ایک مختصر سا نمونہ ملاحظہ کیجیے :
’’بعض کتابیں اگر شائع نہ ہوں تو اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ضائع نہ ہوجائیں ، لیکن بعض ایسی کتابیں بھی ہوتی ہیں جو شائع ہو کر ضائع ہوجاتی ہیں۔‘‘
(آپ بیتی یا آپ بیتی کی معذرت)
مشفق خواجہ کے کالموں کے متعلق مجتبیٰ حسین کی رائے بالکل درست معلوم ہوتی ہے : 
’’خامہ بگوش نے اپنے گہرے طنز کے ذریعے ادب کے بڑے لوگوں کو ان کا چھوٹا پن دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ ان کا کالم جارحانہ ضرورت ہوتا ہے ، لیکن عالمانہ اور عارفانہ بھی ہوتا ہے‘‘ ۔ (ماہنامہ کتاب نما نئی دہلی ، جولائی 1995)
مشفق خواجہ نے اپنے فکاہیہ کالموں کے ذریعے ایک مزاحیہ کردار ’استاد لاغر مرادآبادی‘ کے نام سے تخلیق کیا ۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جیسے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس کی زندگی کی حقیقی تصویر پیش کی ہے۔ یا یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ ان کا یہ کردار انہی کا ہمزاد تھا ۔انور سدید مشفق خواجہ کی کالم نگاری کے متعلق لکھتے ہیں:
’’زندگی کا حقیقی لطف اٹھانے کے لیے ہی مشفق خواجہ نے فکاہیہ کالم نگاری اختیار کی اور اپنے اہداف پر طنز و مزاح کے سیدھے سادے وار کرنے اور ان کے اثرات دیکھنے کے لیے اپنے اصلی نام عبدالحی یا مشفق خواجہ سے پیش کرنے کی بجائے ’خامہ بگوش‘ کے فرضی نام سے شائع کیے۔‘‘ (بحوالہ اردو بک ریویو ، اپریل تا جون 2009 ، صفحہ 35)
مشفق خواجہ اپنے کالموں میں نہ صرف یہ کہ لفظوں کی خانہ پری کرتے تھے ، بلکہ وہ موجودہ ادبی مسائل اور معاصر اردو شاعری پر تنقیدی اشارات سے اپنے کالموں میں حسن ، دلکشی اور معنویت پیدا کرنے کا گُر بھی جانتے تھے ۔ عصری شاعری اور معاصر ادبی منظر نامے کا مشاہدہ کرنا ہو تو مشفق خواجہ کے فکاہیہ کالموں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ ان کالموں میں اردو ادب کی حقیقی تصویر نہایت جرأتمندی اور دیانتداری سے پیش کی گئی ہے ۔ ایک تنقید نگار جو کام اپنی سنجیدہ تحریروں سے کرتا ہے وہی کام مشفق خواجہ اپنے طنز و مزاح سے بھری نگارشات کے ذریعے کرتے ہیں ۔ ملاحظہ کیجیے ان کا تنقیدی انداز فکر :
’’جس طرح نمک کے بغیر کھانا بے مزہ ہوجاتا ہے اسی طرح اگر بھائی فاروقی کے کسی انٹرویو میں احمد فراز کا ذکر نہ ہو تو ایسا لگتا ہے کہ انٹرویو نہیں پڑھ رہے ہیں کشور ناہید کی کوئی نثری نظم پڑھ رہے ہیں۔ ‘‘ (لوحِ جہاں پر حرفِ مکرّر)
کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مقابلے پاکستان میں کالم نگار زیادہ پیدا ہوئے ۔ وہاں کالم نگاری کی روایت بہت زیادہ مستحکم رہی ہے ۔ پاکستان کے بڑے کالم نگاروں میں ایک نام نصر اللہ خاں کا ہے۔ ان کی پیدائش 1930 میں پاکستان میں ہوئی ۔ ان کے قلم میں بڑی معنی خیزی نظر آتی ہے ۔ روزنامہ ’حریت‘ کراچی میں ’آداب عرض‘ کے عنوان سے ان کے کالم روزانہ شائع ہوتے تھے ۔ جب ان کے کالم اس اخبار میں شائع ہونا شروع ہوئے تو بڑے بڑے جغادری کالم نگار چونک پڑے کہ یہ کون کالم نگار آگیا ہے جو ہم لوگوں کی چھٹی کرنے پر تُلا ہوا ہے ۔ صاف ستھرا بیانیہ انداز ، بے باک لہجہ اور خوبصورت اسلوب بیان ان کی تحریروں کا وصف قرار پایا ۔ سیاست ، معاشرت ، معاشرتی تضاد کو انھوں نے اپنی طنزیہ تحریروں کے لیے موضوع بنایا ۔ اپنے کالم ’آداب عرض‘ کے ذریعے کالم نگاری کے میدان میں ایسی چھاپ چھوڑی کہ کوئی بھی دوسرا کالم نگار اس چھاپ کو مٹانہ سکا ۔ 
حیدرآباد میں پیدا ہونے والے مشہور مزاح نگار پدم شری مجتبیٰ حسین کے بھائی ابراہیم جلیس کو پاکستانی کالم نگاروں کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔ وہ ہندوستان میں جب تک تھے اپنی تحریروں کے ذریعے اپنی شخصیت اور علمیت کا جوہر دکھاتے رہے ، لیکن جب پاکستان ہجرت کرگئے تو وہاں کالم نگاری کے ذریعہ اپنی فنکاری اس انداز میں دکھائی کہ پاکستانی کالم نگاروں کی صف میں ایک شوخ اور طرار کالم نگار کے طور پر اپنی شناخت قائم کی ۔ ان کی سرشت میں ہی بغاوت تھی ۔ وہ ہندوستان میں جب تک رہے علم بغاوت کو کبھی نیچا نہیں ہونے دیا اور جب پاکستان گئے تو وہاں بھی پرچم بغادت بلند کرنے سے ذرا بھی جھجک نہیں محسوس کی ۔ ان کی تحریروں میں مزاح کم اور طنز زیادہ ہے ۔ پاکستان کے عوام نے ابراہیم جلیس کے تیکھے اسلوب اور نڈر سچائی کا کھل کر ساتھ دیا ۔ حکمراں ان کی تحریروں سے سہمے رہتے تھے ۔ ان کے قلم کی کاٹ نے بڑے بڑوں کو ڈرنے پر مجبور کردیا تھا ، کیونکہ وہ بیباک ،بے لاگ ،نڈر اور جرأت مند کالم نگار تھے ۔ ان کی تحریروں میں مصلحت نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی ۔ وہ جو دیکھتے تھے اسے مِن و عَن لکھ دیتے تھے ۔ معاشرے کی اونچ نیچ کو اسی انداز سے اپنی فکاہیہ تحریروں میں پیش کرتے تھے ، جس انداز سے وہ سماج میں دکھائی دیتی تھیں ۔ ابراہیم جلیس کی طباعی اور طنزیہ انداز ملاحظہ کرنے کے لیے یہ مختصر اقتباس ملاحظہ کیجیے ، جو ان کے کالم ’وزیر کی تہبند‘ سے ماخوذ ہے :
’’کہتے ہیں کہ ایک چھوٹے آدمی کو شوخیِ تقدیر سے بہت بڑی دولت مل گئی ۔ چھوٹے آدمی کو بڑا روپیہ ملنا ایسی ہی بات ہے جیسے کسی بندر کے ہاتھ استرا لگ جائے ۔ جس طرح بندر شیو بنانے کی کوشش میں اپنا سارا چہرہ ’لہولہان‘ کرلیتا ہے ، اسی طرح چھوٹا آدمی بڑی دولت پانے کے بعد ’لہو ولعب‘ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ‘‘
ابن انشا پاکستانی کالم نگاروں کے ہر اول دستے میں شامل تھے ۔ وہ ایک کامیاب کالم نگار تھے ۔ ان کا کالم پڑھنے کے لیے لوگ منتظر رہا کرتے تھے ۔ ان کا اصل نام شیر محمد خاں اور قلمی نام ابن انشا تھا ۔ وہ 15 جون 1927 کو ضلع جالندھر کے گاؤں تھلہ میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم تو صرف میٹرک تک ہی حاصل کرپائے ، لیکن نظم و نثر میں ایسے جوہر دکھائے کہ شائقین ادب ان کے دیوانے ہو کر رہ گئے ۔ ابن انشا نے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا ۔ ان کی پہلی مشہور نظم ’بغداد کی ایک رات‘ سویرا لاہور میں 1949 میں شائع ہوئی ۔ غزل میں بھی انھوں نے جدّت طرازی کا مظاہرہ کیا ، لیکن ان کی شناخت طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے قائم ہوئی ۔ کالم نگاری کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری بھی چلتی رہی ۔ شاعری میں درد وکرب کی آمیزش تھی ، لیکن کالموں کے ذریعے لوگوں کو ہنساتے تھے ۔ ابن انشا نے پانچ مزاحیہ سفر نامے لکھے جو اس طرح ہیں ۔ (1)چلتے ہو تو چین کو چلیے (2)آوارہ گرد کی ڈائری (3)دنیا گول ہے (4)نگری نگری پھرا مسافر (5) ابن بطوطہ کے تعاقب میں ۔ یہ پانچوں مزاحیہ سفر نامے شائع ہو کر مقبول ہوئے ۔ ابن انشا کے فکاہیہ کالم روزنامہ ’جنگ‘ کراچی میں شائع ہوا کرتے تھے ۔ فکر تونسوی ابن انشا کے کالموں کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ابن انشا کا کالم جب بھی روزنامہ ’جنگ‘ کراچی میں شائع ہوتا تھا تو لوگ اسے پڑھ کر ایک دوسرے سے بغل گیر ہوجاتے تھے ، اور پھر کون تھا جو اس کا کالم نہیں پڑھتا تھا ۔ بغل گیری سے کون محروم رہنا چاہتا تھا‘‘ ۔ (پندرہ روزہ چنگاری ، کالم نگار نمبر ، صفحہ 273)
ابن انشا کی کالم نگاری کی خصوصیات میں سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان کی مزاحیہ تحریریں نہ صرف تفنّن طبع کے لیے پڑھی جاتی تھیں بلکہ ان میں غور و فکر کی دعوت بھی ہوتی تھی ۔ وہ سنجیدہ موضوع کو بھی اس انداز سے پرتکلف پیرائے میں پیش کرتے تھے کہ قاری زیر لب تبسم ریزی کے بغیر نہیں رہ پاتا تھا ۔ وہ اپنی شوخی طبع اور دلکش اسلوب سے اردو کے طنز و مزاحیہ ادب خصوصاً کالم نگاری کی تاریخ میں زندہ و تابندہ رہیں گے ۔ ان کی شوخی ، ظرافت اور طنزیہ انداز سے واقفیت کے لیے ان کے یہ جملے کافی ہیں جو ان کے کالم ’پانی بند رہے گا‘ سے اخذ کیے گئے ہیں :
’’ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد کے باشندوں کو مژدہ ہو کہ جمعے اور ہفتے کو ان کے گھروں کا پانی بند رہا کرے گا ۔ یہ سہولت روزانہ تئیس گھنٹے پانی بند رہنے کی سہولت کے علاوہ ہے ۔ یعنی مجبوریوں کی وجہ سے فی الحال ہفتے میں دو دن سے زیادہ مکمل طور پر بند رکھنا ممکن نہیں ۔ ناغے کے دنوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھائی جائے گی ۔ امید کی جاتی ہے کہ ماہِ محرم کی آمد تک ہم ہفتے میں ساتوں دن پانی بند رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔‘‘
(کالم ’پانی بند رہے گا‘ کالم نگار ابن انشا)
پاکستان کے تقریباً تمام اخبارات میں مزاحیہ کالم پابندی سے شائع ہوتے تھے اور پاکستان میں یہ سلسلہ کم و بیش تمام اخبارات میں اب بھی جاری ہے ۔ اب جبکہ وہاں بھی شوکت تھانوی ، ابراہیم جلیس ، مجید لاہوری اور ابن انشا جیسے بلند پایہ کالم نگار نہیں رہے ، لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ بعد کے کالم نگاروں میں مشفق خواجہ ، انتظار حسین ، منو بھائی ، عطاء الحق قاسمی ، اختر امان ، انجم اعظمی ، انجم رومانی ، محسن بھوپالی جیسے بڑے کالم نگاروں نے کالم نگاری کی روایت کو استحکام بخشا ۔ آج بھی پاکستان میں اردو مزاحیہ و طنزیہ کالم نگاروں کی کمی نہیں ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں ہندوستان میں کالم نگاروں کی تعداد بہت کم ہے ۔ فکاہیہ کالم نگاری کو ہندوستان میں کم ، لیکن پاکستان میں بہت زیادہ رواج حاصل ہوا ۔ بیسویں صدی کے نصف آخر پر محیط اگر کسی ہندوستانی طنز و مزاح نگار کا نام لیا جاسکتا ہے تو وہ مجتبیٰ حسین کا ہے ۔ کم و بیش پچاس برسوں سے مجتبیٰ حسین کی کالم نگاری کا سلسلہ جاری ہے ۔ وہ آج بھی اپنی کالم نگاری کو جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان کی عمر 80 برس سے زائد ہوچکی ہے ۔ 1962 میں انھوں نے روزنامہ سیاست حیدرآباد میں مزاحیہ کالم نگاری کا آغاز کیا ۔ روزنامہ سیاست جو 1949 میں جاری ہوا ، جس میں ’شیشہ و تیشہ‘ عنوان سے مشہور کالم نگار شاہد صدیقی فکاہیہ کالم لکھا کرتے تھے ۔ ان کی موت کے بعد روزنامہ سیاست میں ’کوہ پیما‘ کے قلمی نام سے تقریباً 15برسوں تک مجتبیٰ حسین اپنا کالم لکھتے رہے ۔ ان کے بڑے بھائی محبوب حسین جگر نے ’شیشہ و تیشہ‘ لکھنے کی ذمے داری انھیں سونپی اور پھر وہ تعلیم سے فراغت کے بعد اس کالم کو مسلسل لکھتے رہے ۔ 1972 میں ملازمت کے سلسلے میں دہلی جانے کے بعد ’شیشہ و تیشہ‘ کالم لکھنا ذرا دشوار ہوگیا ۔ چنانچہ انھوں نے ہفتہ واری کالم لکھنے کا فیصلہ کیا اور سیاست کے سنڈے ایڈیشن کے لیے ’میرا کالم‘ عنوان کے تحت لکھنے لگے ۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ، لیکن اب پندرہ دنوں میں ایک بار ان کا کالم شائع ہوتا ہے جو ان کی پرانی تحریروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ’میرا کالم‘ لکھنے کا آغاز انھوں نے 1995 میں روزنامے سیاست (حیدرآباد) کے سنڈے ایڈیشن میں کیا تھا ۔ مجتبیٰ حسین نے اپنے کالموں میں زندگی اور اس کے مظاہر کو ایک متوسط طبقے کے آدمی کے زاویۂ نگاہ سے دیکھا ہے اور اسے اپنی تحریروں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس لیے ان کی تحریروں میں تلخ و شیریں دونوں قسم کے احساسات کی جلوہ سامانی نظر آتی ہے ۔ ان کے مزاحیہ کالموں میں طنز کی تلخی تو ضرور ہوتی ہے ، لیکن اس کے پس پردہ انسان د وستی اور دردمندی کا احساس بھی پوشیدہ ہوتا ہے ۔ انھیں خود پر ہنسنے کا ہنر بخوبی آتا ہے ۔وہ جس موضوع پر بھی لکھتے ہیں کسی نہ کسی طرح اپنی بات کو منوانے اور اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے میں ضرور کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ ساتھ ہی طنز کااثر بھی قائم رکھتے ہیں ۔ بات سے بات پیدا کرنے کا فن انھیں اچھی طرح آتا ہے ۔ وہ کبھی کبھی اپنی تحریروں کو پرلطف بنانے کے لیے لطیفوں کا بھی سہارا لیتے ہیں ، لیکن زبان کے وقار کو کبھی مجروح ہونے نہیں دیتے ۔ مجتبیٰ حسین فی الوقت ہندوستان کے سب سے بڑے کالم نگار تصور کیے جاتے ہیں ۔ ان کی شگفتہ کالم نگاری کے باب سے ایک مختصر سا اقتباس :
’’اتنے برسوں تک بھانت بھانت کے رکشاؤں میں بیٹھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب گھوڑے کی قسمت پھوٹتی ہے تو وہ تانگے میں جوت دیا جاتا ہے اور جب انسان کی قسمت پھوٹتی ہے ، تو وہ رکشے چلاتا ہے اور جس شخص کی قسمت کسی وجہ سے پھوٹنے نہیں پاتی بلکہ پھوٹنے کی منتظر رہتی ہے ، تو وہ رکشے میں بیٹھ جاتا ہے ۔ کئی بار تو ایسا ہوا ہے کہ قسمت کے ساتھ ساتھ ہم بھی پھوٹتے پھوٹتے رہ گئے ۔ ہزار بار رکشے والوں کو سمجھاتا ہوں کہ میاں سلامتی کی چال چلو کہ زندگی میں یہی کلیدِ کامیابی ہے تو وہ مجھ سے کہتے ہیں۔ ’’حضور سلامتی کی چال چل کر تو اس نوبت کو پہنچے ہیں اور اب مزید سلامتی کی چال چلیں تو زمانہ قیامت کی چال چل جائے گا اور ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔‘‘ 
(کالم یہ رکشا والے)
اس اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجتبیٰ حسین معمولی سی معمولی بات کو بھی کس خوبصورت پیرائے میں بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور طنز و مزاح کی آمیزش کے ذریعے مضمون کو نہایت دلچسپ بنادیتے ہیں ، لیکن ان کی مزاحیہ و طنزیہ تحریروں میں ادبیت پر کوئی حرف نہیں آپاتا ہے ۔ 
ہندوستان کے نامور مزاح نگاروں اور کالم نگاروں میں یوسف ناظم کا نام بھی بڑے احترام سے لیا جاتا ہے ۔ انھوں نے مزاحیہ مضامین اور خاکے ہی نہیں لکھے ، بلکہ اپنے تبصروں اور تنقیدی تحریروں میں بھی مزاح کا رنگ بھرنے کی کوشش کی ۔ ان کے کالموں میں مزاح زیادہ اور تلخی کم ہوتی ہے یعنی طنز کا عنصر ان کے مضامین میں کم پایا جاتا ہے ۔ لیکن طنز کے تیر چلانے سے موقع بہ موقع چوکتے بھی نہیں ہیں ۔ یوسف ناظم نے اپنے عہد کی سماجی اور سیاسی ادبی و ثقافتی تبدیلیوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور یہی مطالعہ ان کی تحریروں کا حصہ ہے ۔ انھوں نے اپنے عہد کی سماجی ، سیاسی ، ادبی ، تہذیبی ، اجتماعی اور فرد کی ناہمواریوں کا جو تحریری طور پر جغرافیہ بیان کیا ہے اس میں مزاح کی شگفتگی ہر جملے میں نظر آتی ہے ۔ یوسف ناظم کے طنز و مزاح پر مشتمل کالموں میں ذاتی ، سماجی ، سیاسی ، ادبی ، ملکی ، بین الاقوامی مسائل اور افراد کی اضطرابی کیفیت اور غم انگیزی محسوس ہوتی ہے جس کا اپنے مضمون میں وہ نہایت پُرمزاح انداز میں بیان کرتے ہیں ۔ اس میں ان کی داخلی حسیت اور خارجی کیفیت کا بڑا دخل ہے ۔ معاشرے میں پائے جانے والے اخلاقی بحران کی غم انگیزی جس پر انھوں نے طنز و مزاح کی صورت میں اظہار خیال کیاہے وہ روایتی نہیں بلکہ کالم نگار کے ہاں جس اندرونی اضطراب و تشنگی کا احساس ہوتا ہے ، ان میں بعض انھیں کے عہد اور بعض ان کے ذاتی فکر و شعور کا نتیجہ ہیں ۔ اس کی دلیل میں ان کے ایک کالم ’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘ سے یہ چند سطریں دیکھیں :
’’بعض صورتوں میں یہ بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے بدن پر نشانات دیکھتے ہی تجربہ کار لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ ہو نہ ہو یہ شخص سچ بول کر چلا آرہا ہے ۔ اسی خوشی میں اس شخص کی ہلدی اور پھٹکری سے تواضع کی جاتی ہے ۔ عورتوں اور مردوں میں فرق یہ بھی ہے کہ عورتیں خوشی کے موقع پر ہلدی میں رنگی جاتی ہیں ۔ مردوں کی قسمت میں بھی ہلدی ہوتی ہے ، لیکن صرف اس وقت جب ان سے سچ کہلوایا گیا ہو۔ ‘‘
یوسف ناظم نے روزنامہ ’انقلاب‘ اور ’بلٹز‘ بمبئی میں سماج کے مختلف موضوعات پر سیکڑوں کالم تحریر کیے جو کافی مقبول ہوئے۔ 
لکھنؤ سے شائع ہونے والے روزنامہ ’قومی آواز‘ میں حیات اللہ انصاری ’گلوریاں‘ کے عنوان سے فکاہیہ کالم لکھا کرتے تھے ، جس میں سیاسی اور کبھی کبھی ادبی موضوعات پر دلچسپ مزاحیہ تحریریں ہوتی تھیں۔ لیکن 1957 میں ’گلوریاں‘ لکھنے کی ذمے داری احمد جمال پاشا نے سنبھال لی تھی ، جو تقریباً دس برس تک اس کالم کو لکھتے رہے اور قارئین کو اپنی تحریروں سے ہنساتے رہے ۔ ان کے قلم میں بے ساختگی ، بے خوفی اور شگفتگی تھی اس لیے اتنے دلچسپ کالم لکھ ڈالے جو بیک وقت وقتی اور مستقل حیثیت دونوں کے آئینہ دار تھے ۔ احمد جمال پاشا منشی سجاد حسین کے ’اودھ پنچ‘ سے بہت متاثر تھے ۔ اس لیے انھوں نے ’پنچ‘ کے عنوان سے ایک رسالہ بھی جاری کیا ۔ چند سالوں کے بعد لکھنؤ سے سیوان کے ذکیہ آفاق کالج میں لکچرر بن کر چلے آئے اور پھر ان کا ’گلوریاں‘ کالم لکھنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ بعد ازاں ’گلوریاں‘ لکھنے کی ذمہ داری عبدالمجید سہالوی نے سنبھالی اور مستقل لکھتے رہے ، لیکن اس کالم میں پہلے والی بات نہ رہی ۔ جس کی مقبولیت میں رفتہ رفتہ کمی آتی گئی ۔ 1980 میں ’قومی آواز‘ کا دہلی ایڈیشن شائع ہوا تو اس میں متعدد مہمان کالم نگار شریک ہوئے ، جن میں من موہن تلخ ، سعید سہروردی ، کمال احمد صدیقی اور شمس کنول کے نام قابل ذکر ہیں ۔ 1995 میں دلیپ سنگھ نے ’گل گفت‘ کے نام سے جو کالم لکھے وہ نہایت دلچسپ تھے ۔ ان میں طنز کی دھیمی آنچ بھی تھی اور مزاح کا نمایاں رنگ بھی موجود تھا ۔ بمبئی کے روزنامہ ’انقلاب‘ میں موصوف ’دیدۂ حیراں‘ کے عنوان سے بھی فکاہیہ کالم لکھتے تھے ۔
مذکورہ کالم نگاروں کے علاوہ نصرت ظہیر جو ’قومی آواز‘ میں چیف رپورٹر تھے ، انھیں فکاہیہ کالم نگاری کی ذمے داری سونپی گئی ۔’ قومی آواز‘ سے قبل وہ ’ملاپ‘ اور ’تیج‘ اخبارات میں کام کرچکے تھے ۔ وہ شروع میں ’دہلی ڈائری‘ کے عنوان سے مزاحیہ کالم لکھا کرتے تھے ۔ یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا ۔ ایک سال کے بعد اس کا عنوان بدل کر ’تحت اللفظ‘ رکھ دیا گیا ۔ تحت اللفظ کے عنوان کے تحت تین سال تک فکاہیہ کالم لکھنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ جس میں تازگی اور شگفتگی دونوں خوبیاں موجود تھیں ، لیکن ان کی دوسری مصروفیات کی وجہ سے یہ سلسلہ قدرے توقف کے ساتھ چلتا رہا ، یعنی اس میں پابندی نہیں ہوپاتی تھی اور بالآخر یہ سلسلہ بند ہوگیا ۔ کئی برس تک نصرت ظہیر نہایت پابندی سے روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ نئی دہلی میں اپنا کالم ’نمی دانم‘ کے عنوان سے لکھتے رہے ۔ان کے علاوہ اسد رضا بھی موجودہ فکاہیہ کالم نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں ، جن کی ظرافتی تحریریں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ 
ہند وپاک میں بیسیوں ادبی طنز و مزاح نگار کے شمع روشن کیے ہوئے ہیں اور آج بھی ان کالم نگاروں کی تحریریں بڑی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں ، لیکن اب ادبی کالم نگاروں کا یوں سمجھیے کہ قحط پڑچکا ہے ۔ کالم نگاری کو ہندوستان میں فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ 
حوالہ جات : 
.1 رہبر اخبار نویسی ، سید اقبال قادری ،ترقی اردو بیورو ، نئی دہلی 1989
.2 اردو صحافت ، مرتب : انور علی دہلوی ، اردو اکادمی ، دہلی 2006
.3 اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت ۔مرتب : ڈاکٹر خالد محمود ، اردو اکادمی ، دہلی 2005
.4 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا (ادبیات) ۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،نئی دہلی 2003 
.5 خامہ بگوش کے قلم سے ،مشفق خواجہ ۔ مرتب : مظفر علی سید ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ ، نئی دہلی 2011
.6 داستان تاریخ اردو ۔ حامد حسن قادری ، 272 ، جامعہ نگر ٹیچرس ٹریننگ کالج روڈ ، نئی دہلی 2007 
.7 پندرہ روزہ چنگاری ، کالم نگار نمبر ۔ مرتب: فکر تونسوی ، رام نگر شاہدرہ ، دہلی 1984
.8 ماہنامہ’ شگوفہ‘ ، مجتبیٰ حسین نمبر ۔ ایڈیٹر: ڈاکٹر مصطفی کمال ، بیچلرز کواٹرز ، معظم جاہی مارکٹ ، حیدرآباد نومبر ، 1987
.9 ماہنامہ کتاب نما ۔ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ ، نئی دہلی ، جولائی 1995 
.10 سہ ماہی ’اردو بک ریویو‘ ۔ نیوکوہ نور ہوٹل ، پٹودی ہاوس ، دریا گنج ، نئی دہلی ، اپریل تا جون ، 2009 

Mr. Sabir Siwani
H. No. 9-4-87/C/7, Ist Floor
Behind Mughal Residency,Toli Chowki,
Hyderabad (TS) - 500008





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

بسنت: خسرو کی شاعری کے حوالے سے مضمون نگار:۔ شریف احمد قریشی


بسنت: خسرو کی شاعری کے حوالے سے
شریف احمد قریشی

موسمِ سرما میں شدید سردی کے باعث نباتات پژمُردہ اور حیوانات کی طبیعتیں منقبض ہو جاتی ہیں۔ بسنت رُت یعنی موسمِ بہار میں سیلانِ خون کے سبب طبیعتوں کا شگفتگی، جوش اور اُمنگ سے بھر جانا عین فطرت ہے۔ اس موسم میں آفتاب سمتِ دکن سے طرب انگیز سامان کے ساتھ پلٹتا ہے اور نباتات و حیوانات میں تازہ زندگی کی روح پھونک دیتا ہے۔ پیڑ پودوں کی شاخوں پر سبز کونپلیں نمودار ہونے لگتی ہیں۔ چڑیوں کے مسحور کُن نغمے اور نیچر کا بہار راگ غم ناک و نم ناک فضاؤں کو خوش گوار بنا دیتا ہے۔ 
بسنت رُت یعنی موسمِ بہار کا استقبال کرنے کے لیے ماگھ کے مہینے کی پانچویں تاریخ کو نہایت دھوم دھام سے جشن کا آغاز کیا جاتا ہے جسے بسنت پنچمی کہتے ہیں۔ یہ جشن کہیں ایک ہفتے اور کہیں پندرہ دنوں تک مسلسل چلتا رہتا ہے۔ مخصوص مندروں اور بعض مقامات پر بسنت کے میلوں کا انعقاد نہایت دھوم دھام سے کیا جاتا ہے۔ اس دن وشنو اور کام دیو یعنی موکلِ عشق کی پرستش کی جاتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسی دن علم کی دیوی سرسوتی کا اس عالمِ رنگِ بو میں ظہور ہوا تھا۔ اس لیے اس دن کو سرسوتی دیوی کے یومِ پیدائش کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ 
امیر خسرو سے پہلے مسلمانوں میں بسنت اور بسنت کے میلوں کے انعقاد کا دستور نہ تھا۔ خسرو وہ پہلے مسلم ہیں جنہوں نے دہلی میں تیرہویں صدی عیسوی میں بسنت کے جشن کی شروعات کی۔ اس کے بعد صوفیاے کرام بالخصوص خاندانِ چشتیہ سے وابستہ بزرگانِ دین کی مزاروں ، درگاہوں اور خانقاہوں میں بسنت کے جشن اور میلے نہایت دھوم دھام سے منعقد کیے جانے لگے جس کا سبب یہ ہے کہ امیر خسرو کے پیر ومرشد حضرتِ نظام الدّین اولیاء اپنے بھانجے تقی الدّین نوح کو اس قدر چاہتے تھے کہ ذرا دیر کی مفارقت بھی انہیں ناقابلِ برداشت ہوتی تھی۔ تقی الدّین نوح کو بھی اپنے ماموں حضرتِ نظام الدّین اولیاء سے بے حد اُنس تھا۔ وہ ہر نماز کے بعد دُعا مانگتے تھے کہ اُن کی عمر اُن کے ماموں کو لگ جائے تاکہ اُن کے روحانی فیض کا چشمہ عرصۂ دراز تک جاری رہِے مگر مشیتِ ایزدی کہ ایک روز اچانک وہ اُٹھتی جوانی ہی میں اس جہانِ فانی سے اُٹھ گئے۔ نظام الدّین اولیاء کو اپنے بھانجے کے انتقال کا اس قدر رنج وملال ہوا کہ وہ گُم صُم رہنے لگے۔ تقریباً چھ ماہ کا عرصہ اسی کیفیت میں گزر گیا۔ امیر خسرو اپنے مُرشد کی اس حالت سے نہایت فکر مند تھے اور ہر لمحہ کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح اُن کا غم غلط ہو۔
ایک روز حضرتِ نظام الدّین اولیاء اپنے مریدوں اور مصاحبین کے ساتھ تالاب کی سیر کو نکلے۔ کسی وجہ سے امیر خسرو پیچھے رہ گئے۔ راستے میں اُن کی نظر ایک جمِّ غفیر پر پڑی۔ بسنت پنچمی کا دن تھا۔ کالکا جی کے مندر کے احاطہ میں بسنت کا میلہ لگا ہوا تھا۔ بیشتر شرکاء زرد لباس زیبِ تن کیے ہوئے موج مستی اور عقیدت کے عالم میں گا بجا رہِے تھے۔ وہ دیوی کو خوش کرنے اور اُس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے سرسوں کے پھولوں کے ہار، گجرے اور پھولوں سے سجی ہوئی گاگریں نذر کر رہِے تھے۔ امیر خسرو کو اُسی وقت خیال آیا کہ وہ بھی اپنے مغموم و رنجور مُرشد کو اسی طرح خوش کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے اُسی وقت فارسی اور ہندی زبان میں کچھ اشعار موزوں کیے۔ اس کے بعد اپنی دستار کو کھول کر کُچھ پیچ ادھر اُدھر لٹکائے، اُن میں سرسوں کے پھولوں کے گُچھّوں کو اُلجھا کر جھومنے لگے اور یہ مصرع کہ ’’اشک ریز آمدہ است بہار‘‘ کو لحنِ خاص میں بار بار پڑھتے ہوئے تالاب کی سمت روانہ ہوئے۔ حضرتِ نظام الدّین اولیاء اُس وقت اپنے بھانجے کی مزار پر تھے اُنھوں نے دور سے ملاحظہ کیا کہ آج امیر خسرو عجیب رنگ میں ہیں۔ مستانہ چال اور معشوقانہ انداز میں خراماں خراماں نیم بے خودی کی حالت میں اُن کی طرف بڑھ رہِے ہیں تو وہ بھی اپنے آپ کو نہ روک سکے اور اپنے رنج وغم کو بھُلا کر جیسے ہی خسرو کی جانب بڑھے تو خسرو نے آبدیدہ ہو کر اُن کی طرف دیکھتے ہوئے بے تابانہ انداز میں یہ شعر پڑھا ؂
اشک ریز آمدہ است بہار
ساقیا گُل بریز بادہ بیار 
دوسرے مصرع کے سُنتے ہی حضرتِ نظام الدّین اولیاء بے قرار و بے تاب ہو گئے اور ایسے مدہوش ہوئے کہ اُسی رنگ میں رنگ گئے۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ بیشتر صوفیاے کرام کی مزاروں ، درگاہوں اور خانقاہوں میں بسنت کی گاگریں چڑھنے لگیں اور میلے لگنے لگے۔ لوگ ہاتھوں میں کنول کے پھول اور گڑوے لیے ہوئے تقی الدّین نوح کی مزار پر جاتے ہیں اور قوّال ٹھمریوں کو پڑھ پڑھ کر خسرو کے مصرع ’’عرب پار توری بسنت منائی‘‘ کو بار بار والہانہ انداز میں پڑھتے ہیں۔ 
امیر خسرو نے مسلمانوں میں بسنت کو رواج ہی نہیں دیا بلکہ بسنت کے تعلّق سے کئی قابلِ قدر اور ناقابلِ فراموش گیت بھی لکھے جو عوام وخواص میں حددرجہ مقبول ہوئے۔ اُن کے گیت بسنت کی تقریبات میں نہایت ذوق وشوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ دیکھیے وہ بسنت کے موقع پر کس انداز سے اپنے پیر ومرشد حضرتِ نظامِ الدّین اولیاء سے گویا ہوتے ہیں ؂
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے
توٗ تو صاحب مرا محبوبِ الٰہی
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے

ہمری چنریا، پیا کی پگڑیا 
وہ تو دونوں بسنتی رنگ دے 
توٗ تو صاحب مرا محبوبِ الہٰی 

جو کچھ مانگے رنگ کی رنگائی 
مورا جوبن گرویں رکھ لے 
توٗ تو صاحب مرا محبوبِ الہٰی 

آن پڑی دربار تہارے 
موری لاج شرم سب رکھ لے 
توٗ تو صاحب مرا محبوبِ الہٰی 

موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے
حضرتِ نظام الدّین اولیاء سے روحانی فیض حاصل کرنے والوں میں امیر خسرو کو اوّلیت و افضلیت حاصل ہے۔ پیر ومرشد کی تربیت ہی کی وجہ سے وہ کئی سال تک صائم الدہر رہِے اور عشقِ الٰہی کی سوزش میں تپتے رہِے۔ صوفیانہ اندازِ نظر میں انسان دوستی اور باہمی رفاقت کی اہمیت مسلّمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خسرو کے تخلیقی مزاج میں انسانیت اور ہندوستانیت پائی جاتی ہے۔ اُن کی صوفیانہ فکر بے جا تکلّفات سے مبرّا ہے۔ وہ روا داری اور وسیع النظری کا پیکر تھے۔ انسانیت اُن کا مذہب تھا۔ وہ طبقاتی امتیازات اور عقائد کے بندھنوں سے آزاد باہمی یگانگت اور صلح کُل کے علم بردار صوفی منش شاعر تھے۔ اُنہوں نے ہندوستانی رسم ورواج اور بالخصوص ہندوؤں کے تیوہار بسنت سے متعلّق نہایت خلوص ، یگانگت اور جوش وولولے کے ساتھ اپنے افکار کا اظہار کیا ہے۔ اُنہوں نے عوام کی بول چال اور گفتگو کو اشعار کے پیکر میں ڈھال کر عوامی زبان کو فروغ دیا۔ پریم مارگی سنت اور صوفی اپنے گرو ، مرشد یا مالکِ حقیقی کو پیا اور خود کو اُس کی بہُریا یا دیوانی تصوّر کرتے ہیں۔ بسنت سے متعلّق خسرو کے بیشتر گیت اسی نظریے کے عکّاس و آئینہ دار ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ؂
آج بسنت منالے سُہاگن ، آج بسنت منالے 
انجن منجن کر پیا موری، لمبے نیہر لگائے 

توٗ کیا سووے نیند کی ماتی ، سو جاگے تیرے بھاگ سُہاگن 
آج بسنت منالے سُہاگن ، آج بسنت منالے 

اونچی نار کے اونچے چتون، اَیسو دییو ہے بسائے 
شاہِ امیر توہِے دیکھن کو ، نینوں سے نینا ملائے 

آج بسنت منالے سُہاگن ،سہاگن آج بسنت منالے 
امیر خسرو کی شاعری میں بسنت رُت کی جو سرشاری و بے خودی نظر آتی ہے وہ موسمِ بہار سے متعلّق فارسی شاعری میں دوٗر دوٗر تک نظر نہیں آتی۔ یہاں کی بسنت رُت ایسی فصلِ بہار ہے جسے سرتاجِ موسم کا درجہ حاصل ہے۔ کھیتوں میں سرسوں پھوٗلنے، آموں کے درختوں پر بَور آنے کے مناظر اور کوےَل کی نغمہ سنجی سے سُننے والوں کے نہ صرف دل بے کل ہوجاتے ہیں بلکہ وہ بَورا سے جاتے ہیں۔ گوریاں سنگار کرتی ہیں اور سجے ہوئے گڑوؤں کو لے کر مندروں میں جاتی ہیں۔ اس منظر کو امیر خسرو اپنے پےٖر و مُرشد کو مخاطب کرتے ہوئے اس طرح بیان کرتے ہیں ؂
سکل بن پھوٗل رہی سرسوں، امبوا بَورائے ، ٹیسو پھولے
کوئل بولے ڈار ڈار اور گوری کرت سنگار 

ملنیا گڑھوا لے آئیں کرسوں،سکل بن پھوٗل رہی سرسوں
طرح طرح کے پھول کھلائے ، لے گڑھوا ہاتھن میں آئے 

نجامودّیں کے درواجے پے آون کہہ گئے عاشقِ زار 
اور بےٖت گئے برسوں ، سکل بن پھوٗل رہی سرسوں
یہی نہیں وہ آئندہ آنے والی بسنت رُت میں چادر کی علامت سے خود کو پوری طرح رنگ دینے کا اظہار اپنے پےٖر و مُرشد سے اس طرح کرتے ہیں ؂
توری صورت کے بلہاری ، رکھ لے لاج ہماری
سب سکھین میں چدّر میری میلی ،دیکھ ہنسیں نر ناری 

اب کے بہار چدّر میری رنگ دے ، رکھ لے لاج ہماری 
صدقہ بابا گنج شکر کا، رکھ لے لاج ہماری 

قطب فرید مل آئے براتی ،خسرو راج دلاری ، رکھ لے لاج ہماری 
کوؤ ساس کوؤ نند سے جھگڑے، ہم کو آس تمہاری ، رکھ لے لاج ہماری 
بسنت کے تیوہار سے متعلّق امیر خسرو کا ایک اور گےٖت کی شمولیت ’جواہرِ خسروی ‘ میں ہے جس کا روئے سخن اگر چہ اُن کے پیر ومرشد حضرتِ نظام الدّین اولیاء کی طرف ہے مگر ہندوستانی کلچر، ہندوستانی تیوہاروں سے دلچسپی اور ہندوستان سے گہری وابستگی و محبت کا اظہاریہ ہے۔ تصوف کے رنگ میں ڈوبے ہوئے اس گیت کے چند بند بطورِ نمونہ پیش ہیں ؂
حضرت کھاجہ سنگ کھیلے دھمال 

باءِس کھاجا مل ہن بن آیو تالے
حضرت رسول صاحب جمال 
حضرت کھاجہ سنگ کھیلے دھمال 

عرب یار تیرو بسنت بنایو 
سدا رکھّے لال گُلال 
حضرت کھاجہ سنگ کھیلے دھمال 
مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ امیر خسرو نے بسنت سے متعلّق اپنی منظوم نگارشات کے ذریعے دو قوموں کی تہذیب ومعاشرت ، رواداری اور باہمی اتحاد کو فروغ دینے میں ناقابلِ فراموش کارنامہ انجام دیا ہے۔ 

Dr. Shareef Ahmad Qureishi
Jain Mandir Street
Phoota Mahal
Rampur - 244901 (UP)
Mob: 790693765
Email: drquraishi@rediffmail.com




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے


27/2/19

اردو او سی آر بصری حرف شناس مضمون نگار:۔ مکرم نیاز




مکرم نیاز
بصری حرف شناسی ۔ تعریف
OCR بمعنی Optical character recognition یعنی بصری حرف شناسی یا آسان الفاظ میں متن کی بصری شناخت دراصل وہ الکٹرانک یا میکانیکی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے تصویر میں موجود قابل مطالعہ متن کو کمپیوٹر کی تحریری شکل میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ اب چاہے یہ متن کسی کتاب کے صفحے پر مبنی امیج میں ہو، یا اسکین شدہ دستاویز میں، یا قدرتی منظر والی تصویر میں، یا سائن بورڈ کی تصویر میں یا ٹیلیوژن نشریہ کی تصویر میں موجود کیپشن کی شکل میں ہو۔
تصویر میں موجود متن کو تحریری شکل میں اخذ کر کے ٹکسٹ فائل بنانے سے کئی بنیادی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً:
w تصویری فائل کی بہ نسبت ٹکسٹ فائل کا حجم کئی گنا کم ہوتا ہے۔
w ٹکسٹ فائل میں لفظ/فقرہ کی تلاش ممکن اور آسان ہوتی ہے۔
w ٹکسٹ کی حسب ضرورت تدوین و ترمیم کی جا سکتی ہے یعنی رد و بدل و اضافہ۔
w مختلف اپلیکیشن (اطلاقیے) کے ذریعے ٹکسٹ کا فوری ترجمہ ، اس کے رسم الخط کی تبدیلی اور اسے آواز میں تبدیل کرنے کا کام بسہولت انجام دیا جا سکتا ہے۔
بصری حرف شناسی، امیج پراسیسنگ، مصنوعی ذہانت Artificial intelligence اور کمپیوٹر وژن computer vision کے میدان میں ترقی کا وہ باب ہے جسے موجودہ برقیاتی زمانے میں طبع شدہ ریکارڈ سے ٹکسٹ مواد کے حصول کی خاطر وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے چاہے وہ معاملہ پاسپورٹ دستاویزات کا ہو، یا بنک کے کھاتہ جات کا، چاہے کاروباری کمپیوٹرائزڈ رسیدیں ہوں یا سرکاری و غیرسرکاری شناختی کارڈز سے ٹکسٹ کے حصول کا معاملہ ہو۔
وکی پیڈیا کے بموجب بصری حرف شناسی نظام کی کامیابی کا دارومدار کسی بھی طرح کے حرف کی شبیہ کو پہچان کر اس کو متن میں تبدیل کرنے پر منحصر رہا ہے، اور اس نظام کے ابتدائی ورژن میں ہر رسم الخط کے لیے ایک علیحدہ پروگرام کی ضرورت پڑتی تھی، ونیز ایک وقت میں صرف ایک فونٹ پر کام کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس نظام کی جدید کاری کے بعد موجودہ ذہین بصری حرف شناسی نظام تمام طرح کے فونٹ اور رسم الخط کو متن میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہر آپریٹنگ سسٹم پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بصری حرف شناسی نظام کی تاریخ
بصری حرف شناسی نظام کی تاریخ کے تانے بانے بیسویں صدی کی شروعات میں اس دوران ملتے ہیں جب ٹیلیگراف کی تخلیق اور نابیناؤں کے لیے پڑھنے والے آلہ جات کی تیاری جاری تھی۔ 1931 میں ایمانوئیل گولڈبرگ [Emanuel Goldberg ] نے ایک ایسی ’شماریاتی مشین‘ ایجاد کی جس کے ذریعے محفوظ شدہ دستاویزات میں متن کی تلاش ممکن رہی تھی۔ بعد ازاں اس ایجاد کو آئی۔بی۔ایم نے حاصل کر لیا۔
اسمارٹ فون کی آمد کے بعد بصری حرف شناسی کا یہ نظام انقلابی تبدیلیوں کا نقیب بن گیا۔
اس ٹیکنالوجی پر تیار کردہ عصر حاضر کے سافٹ وئیر میں اومنی پیج، ریڈ آئرس، ایبی فائن ریڈر، ایبی اسکین ٹو ڈوکیومنٹ، ٹاپ او سی آر، انٹیلی جنٹ او سی آر، ٹرانسیم او سی آر، ڈوک شوٹ، او سی آر ٹیکسٹ اسکین، سافٹ رائٹنگ، ٹیبل ایکسٹریکٹر، سمپل او سی آر وغیرہ مشہور ہیں۔
بصری حرف شناسی اور اردو زبان
موجودہ عصری تیکنالوجی زمانے میں بصری حرف شاسی کا یہ نظام کوئی ایسا پیچیدہ موضوع تو نہیں لیکن نستعلیقی اردو زبان کے حوالے سے ضرور مشکل ترین مانا گیا ہے۔ اس وقت آن لائن بازار میں دنیا کی تقریباً زبانوں کے او۔سی۔آر دستیاب ہیں۔ انگریزی، فرانسیسی، اسپینی، اطالوی، لاطینی، روسی، یونانی وغیرہ اور ایشیائی زبانوں میں جاپانی، چینی، کوریائی کے علاوہ دائیں سے بائیں لکھی جانے والی زبانوں جیسے عربی، فارسی، عبرانی میں، تک معقول اور کارآمد او۔سی۔آر ایجاد ہو چکے ہیں۔ حتیٰ کہ 2011 میں جرمن ڈیولوپر/پروگرامر ڈاکٹر اولیور ہیلوگ [Dr. Oliver Hellwig] کے قائم کردہ ہندوستانی ادارہ انڈ۔سنز Ind.Senz کے ذریعے ہندی، مراٹھی، گجراتی، تامل اور سنسکرت کے او۔سی۔آر بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔
جب سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر تحریری اردو یعنی اردو یونیکوڈ کا استعمال عام ہوا ہے، شعبہ حیات کے تقریباً ہر موضوع پر دستیاب اردو کتب کے متن کے حصول کے ذریعے علمی و تحقیقی استفادہ کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیٹ پر اردو ای۔لائبریریوں کے توسط سے کلاسیکی اور جدید موضوع کی لاتعداد کتب بآسانی پی۔ڈی۔ ایف فائل کی شکل میں دستیاب تو ہیں مگر ان کے متن سے استفادہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم خود اسے دیکھ کر ٹائپ کر لیں۔ یا پھر دوسری صورت ’اردو اوسی آر‘ کی شکل میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ ’او سی آر‘ کا اہم فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہزارہا علمی و معلوماتی کتب کو، جو اب آسانی سے دستیاب نہیں ہوتیں، اسکین کر کے یونیکوڈ تحریر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اور پھر لفظ/فقرہ کی تلاش بھی اسی تحریری فائل میں ممکن العمل ہوگی۔
شاید یہی سبب ہو کہ ماہ اگست 2016 میں لسانیات کے پینل کی ایک میٹنگ میں قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کہا تھا : ’’آج کے بدلتے حالات میں نئی ٹیکنالوجی کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بغیر ترقی کا سفر طے کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اردو میں ایک او سی آر کی اہم ضرورت ہے۔ اس وقت ملک کی دوسر ی زبانوں مثلاً بنگلہ، ہندی اور تمل میں یہ سہولیات فراہم ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی کتاب کے تصویری مسودے میں ٹائپ کیے ہوئے الفاظ کو تحریری صورت میں شناخت کرنا بھی ممکن ہو جائے گا۔‘‘
اردو او سی آر پر تحقیقی مقالے
اردو او سی آر پر تحقیقی مقالے موجودہ صدی کی شروعات کے بعد سے سیکڑوں کی تعداد میں تحریر کیے گئے ہیں جن کی تفصیلات scholar.google.com میں انگریزی میں ’اردو او سی آر‘ لکھ کر حاصل کی جا سکتی ہیں... ان میں سے کچھ اہم یہ ہیں:
1۔ ICDAR کی 2003 میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس پر مشتمل مجلہ کی جلد دوم میں یو۔پال اور انربان سرکار کا شائع شدہ مشترکہ مقالہ بعنوان:
Recognition of Printed Urdu Script
2۔ انڈین جرنل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جلد 8، شمارہ 25 میں انکور رانا اور گرپریت سنگھ لیہل کے شائع شدہ مقالے کا عنوان تھا:
Offline Urdu OCR using Ligature based Segmentation for Nastaliq Script
3۔ مارچ 2016 میں منعقدہ بین الاقوامی 'انڈیاکوم' کانفرنس میں ذاکر حسین انجینئرنگ کالج، اے۔ ایم۔یو، کے توفیق علی، توصیف احمد اور محمد عمران کی طرف سے پیش کیا گیا مقالہ بعنوان:
UOCR: A ligature based approach for an Urdu OCR system
4۔ 2014 میں منعقدہ 17 ویں بین الاقوامی IEEE کانفرنس میں ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ، بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد اور کنگ سعود ہیلتھ یونیورسٹی ریاض کے طلبہ کی جانب سے پیش کیا گیا مقالہ بعنوان:
An Ocr system for printed Nasta'liq script: A segmentation based approach
5۔ جنوری 2013 میں اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں دانش الطاف ستی کی جانب سے جو مقالہ پیش کیا گیا اس کا عنوان تھا:
Offline Urdu Nastaliq OCR for Printed Text using Analytical Approach
اردو نستعلیق او سی آر۔ مسائل و امکانات
اس میدان میں بیشمار تھیوریٹکل مقالے لکھے جانے کے باوجود یہ بات کمپیوٹر و انٹرنیٹ اردو کمیونٹی کے ماہرین کے نزدیک ثابت شدہ رہی کہ اردو نستعلیق جیسے پیچیدہ خط کے لیے قابل استعمال او سی آر بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ کیونکہ اردو اور انگریزی میں ایک مشکل حروف کی وجہ سے ہے۔ اردو میں حروف ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں جبکہ انگریزی میں لفظ بن کر بھی حروف اپنی جداگانہ شناخت برقرار رکھتے ہیں۔ اس لیے حروف کے ذریعے انگریزی لفظ کو پہچاننا کسی سافٹ ویئر کے لیے رتی برابر مشکل کام نہیں۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اردو کی طرح ہندی، مراٹھی کے علاوہ دائیں سے بائیں لکھی جانے والی دیگر زبانوں جیسے عربی، فارسی اور عبرانی میں بھی تو حروف جڑ جاتے ہیں، پھر ان کے او۔سی۔آر کس طرح وجود میں آگئے؟
جواب اردو کا پیچیدہ ترین نظام یعنی نستعلیقی رسم الخط ہے جس میں ایک تو بے تحاشا ترسیمہ جات یعنی لگیچرز استعمال ہوتے ہیں، دوسرے حروف بھی اپنی شکل بدلتے رہتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ تمام حروف عمودی سمت میں ایک افقی لائن پر قائم نہیں رہتے۔
کچھ سال قبل اردو محفل فورم کے بانی نبیل نقوی نے نستعلیق رسم الخط کی بصری شناخت میں پیش آنے والی ایسی ہی مشکلات کا تفصیلی ذکر کچھ یوں کیا تھا:
’’میں نے یہ تھیسس ڈیویلپ کیا تھا کہ اگر خطِ نستعلیق لگیچرز کی ایک ڈیٹابیس بن جائے تو تصویری متن کو پہلے افقی (Horizontal) سمت میں پروسیسنگ کرکے اس کی سطور کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد ان سطور کو عمودی (Vertical) سکیننگ کے ذریعے ترسیموں میں علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح تصویری متن کے ترسیمہ جات تصویری شکل میں ہو جائیں گے جنھیں بصری شناخت کے مرحلے سے گزارا جا سکتا ہے۔ اس تھیسس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ Assumption ہے کہ تصویری متن کی سطور اور ہر سطر میں ترسیمہ جات کے مابین کچھ نہ کچھ سپیس ہے جس کی بدولت انہیں سادہ پروسیسنگ سے علیحدہ کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ لیکن جب میں نے تصویری اردو کے نمونے دیکھے تو معلوم ہوا کہ اکثر صورتوں میں یہ مفروضہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ عام طور پر تصویری اردو کے نمونوں میں عبارت کافی تنگ نظر آتی ہے جس کی وجہ سے ک کی کشش پچھلے لفظ کے اوپر آ رہی ہوتی ہے اور اسی طرح سطور کے درمیان بھی سپیس نہیں ملتی۔ اس طرح اگرچہ تصویری متن سے ترسمیہ جات کا حاصل کرنا ناممکن نہیں ہو جاتا لیکن کم از کم سادہ پیٹرن ریکگنیشن سے ان کا حصول ممکن نہیں رہتا۔ اس کے لیے Edge detection جیسے پروسیجر ہی کام دے سکتے ہیں جس پر امیج پراسیسنگ کے ماہرین ہی کام کر سکتے ہیں۔
ایک طریقہ یہ اپنایا جا سکتا ہے کہ شروع میں ایسے ہی تصویری متن پر کام کیا جائے جو کہ مذکورہ بالا مفروضے پر پورا اترتا ہو، یعنی کہ اس کی سطور اور الفاظ کے درمیان کچھ نہ کچھ سپیس ضرور ہو۔ اس طرح کم از کم تحقیق آگے ضرور بڑھتی رہے گی۔ اگر اس میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو مزید پیچیدہ پرابلمز کو حل کرنے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اردو او سی آر کی کوششیں
گزشتہ ڈیڑھ دو عشرے کے دوران مختلف سرکاری و غیرسرکاری اداروں کی جانب سے اردو بصری حرف شناس کی ایجاد کے لیے کافی کوششیں ہوئی ہیں۔ 
پاکستان کے قومی انفارمیشن ٹیکنالوجی ادارہ آئی۔ سی۔ ٹی۔آر۔ڈی۔ایف نے لاہور کے الخوارزمی انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر سائنس کو اردو نستعلیق بصری حرف شناسی نظام کی تخلیق کے لیے تقریباً 30 ملین پاکستانی روپے کا عطیہ مارچ 2012 میں فراہم کیا اور پراجیکٹ تکمیل کے لیے تیس مہینوں کی مدت دی گئی (1)۔ متذکرہ سرکاری ادارہ کی ویب سائٹ پر اس منصوبے کی پیش رفت رپورٹ ہر چند کہ دستیاب نہیں ہے، لیکن دیگر ذرائع کی اطلاعات کے بموجب یہ منصوبہ اس قدر کامیاب نہیں رہا جتنا کہ اس کی امید کی گئی تھی۔
ویسے اسی پراجکٹ کے نگران اعلیٰ ڈاکٹر سرمد حسین کے زیرتحت پاکستانی ادارہ ’سنٹر پر لینگویج انجینئرنگ‘ نے ’سی۔ایل۔ای نستعلیق او سی آر، ورژن‘ 1.0.0 کے نام سے پہلا اردو او سی آر 15 ہزار پاکستانی روپیوں میں گزشتہ سال ماہ اکتوبر میں جاری کیا ہے۔ جس کے مثبت نتائج یا کامیابی کے فیصد کی کوئی اطلاع ابھی تک تو سائبر دنیا میں دستیاب نہیں ہے۔
البتہ متذکرہ ویب سائٹ پر ڈیمو ٹسٹنگ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ جس پر اس سافٹ ویئر کا تعارف کچھ یوں لکھا ہے کہ :اْردو نستعلیق حرف شناس (آپٹیکل کیریکٹر ریکگنائزر) ایک ایسا خودکار نظام ہے جو سکین کردہ صفحے سے متن اخذ کرتا ہے تاکہ اس میں ردّو بدل کیا جا سکے۔ حرف شناس کتابوں اور دستاویزات سے متن کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ مقامی مواد کی آن لائن اشاعت مستعدی سے کی جاسکے۔‘‘
مگر ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ جتنی تیکنیکی شرائط ڈیمو ورژن کے لیے لاگو کی گئی ہیں ان پر عمل کرنے کے باوجود اصل مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ تکنالوجی کے ماہر ڈاکٹر فاتح الدین بشیر ، اردو محفل فورم پر اپنے تجربات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:’’یہ او سی آر صرف ایسی تصاویر سے ٹیکسٹ نکال سکتا ہے جو پہلے کمپیوٹر پر جمیل نوری نستعلیق یا کسی دوسرے نستعلیق فونٹ میں ٹائپ کر کے محفوظ کی گئی ہوں اور پھر انہیں تصویری شکل دے دی گئی ہو۔ میری رائے میں اردو او سی آر کا سب سے بہتر استعمال تو یہی ہو سکتا ہے کہ سکین شدہ کتابوں کا متن حاصل کیا جا سکے جو کہ فی الحال اس او سی آر کے ذریعے ناممکن ہے۔ ہاں، اس سافٹ ویئر کو ایک اچھے اردو او سی آر کی جانب ایک پیش رفت کے طور پر ضرور لیا جانا چاہیے۔‘‘
حوالہ :(1)
https://ignite.org.pk/component/tprojects/project/98.html
حکومت ہند کے ڈپارٹمنٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ادارہ آئی۔ایل۔ٹی۔پی۔ڈی۔سی کے تحت 2013 میں آن لائن او۔سی۔آر پر مبنی ویب سائٹ قائم کی گئی اور اعلان کیا گیا کہ بنگلہ، دیوناگری، گرمکھی، کنڑ ، ملیالم اور تلگو زبانوں میں بصری حرف شناسی نظام اس وقت آن لائن دستیاب ہے اور عنقریب اردو، تامل، گجراتی اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی یہ سہولت دستیاب ہوگی۔اور اس وقت اردو زبان میں بھی یہ سہولت فراہم کی جا چکی ہے۔ اس پر کیے گئے ایک آن لائن تجربہ کے مطابق یہ ویب او۔سی۔آر تقریباً سو (100) الفاظ کی امیج فائل کو تحریر میں بدلنے کے لیے قریب چار منٹ لیتا ہے اور نتیجہ تقریباً ساٹھ تا ستر فیصد درست ہے۔
حوالہ:
http://ocr.tdil۔dc.gov.in/Default.aspx
عربی زبان کی تیکنالوجی پر مختص مشرق وسطی کی کمپنی ’صخر سافٹ ویئر‘ کا ذکر بھی اس ضمن میں ضروری ہے۔ صخر کے کلائنٹس میں لاک ہیڈ مارٹن اور ییل یونیورسٹی جیسے ادارے شامل ہیں، جس سے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کمپنی کی تصدیق امریکی حکومت نے بھی کر رکھی ہے کہ عربی بصری حرف شناسی کے میدان میں ’صخر او سی آر‘ سے بہتر اور کوئی دوسرا سافٹ ویئر نہیں۔ اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کا او سی آر سافٹ ویئر 95 فیصد سے زیادہ درست نتائج دیتا ہے۔ اور یہ او سی آر عربی کے ساتھ ساتھ فارسی، پشتو اور اردو زبان کو بھی سپورٹ کرتا ہے۔ البتہ اس اردو او سی آر سے متعلق کسی انگریزی یا اردو ویب سائٹ پر کوئی تبصرہ یا تجزیہ نہ آنے کا بنیادی سبب شاید اس سافٹ ویئر کی گراں بہاقیمت ہو۔
انٹرنیٹ اردو کمیونٹی کے سب سے پہلے اردو یونیکوڈ فورم ’اردو محفل‘ پر اردو او سی آر سے متعلق ایک علیحدہ زمرہ قائم ہے جہاں اس میدان کے طلبہ اور ماہرین عرصہ دراز سے اپنے اپنے تجربات سے آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔
سنہ 2009 میں علوی نستعلیق یونیکوڈ فانٹ کے خالق امجد علوی نے انگریزی کے او سی آر سافٹ ویئر ایبی فائن ریڈر Abbyy Fine Reader کے ورژن 8 پر تجربات کیے تھے۔ ان کے مطابق: ’’اگرچہ Abbyy والوں نے اپنے سافٹ وئیر میں اردو یا عربی کی سپورٹ بالکل نہیں ڈالی جس کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہم اس کے Pattern Editor میں اردو کو Read کروالیں تو یہ ایک بہت اچھا او سی آر بن سکتا ہے۔‘‘
لیکن امجد علوی کے تجربات شاید ادھورے رہ گئے اور یہ پراجکٹ بھی اپنی تکمیل کو نہیں پہنچا۔ پھر سال اگست 2016 میں اسی ایبی فائن ریڈر کے ورژن 12 پر زہیر عباس صاحب نے اپنے تجربات کا سلسلہ شروع کیا اور ان کے مطابق اس سافٹ ویئر نے اردو زبان کو سپورٹ کیے بغیر کافی اچھے نتائج فراہم کیے ہیں۔ بس اس کی تین بنیادی خامیاں کچھ یوں ہیں کہ:
w الفاظ کے مابین اسپیس کو ٹھیک سے شناخت نہیں کرپاتا۔
w ایک جیسے نظر آنے والے ترسیمہ جات کو ٹھیک طرح سے شناخت نہیں کر سکتا۔
w اس سافٹ ویئر کے پیٹرن ایڈیٹر کو مینوئل ٹریننگ کروانا پڑتا ہے (جبکہ نوری نستعلیق کے 20,000 لیگیچر میں سے صرف 100 کے قریب کو تین دن میں ٹرین کروایا جا سکتا ہے۔)
بہرحال ایبی فائن ریڈر سے متعلق انفرادی کوششوں نے اردو بصری حرف شناس کے ضمن میں کوئی ٹھوس نتائج پیش نہیں کیے۔
اردو او سی آر اور گوگل
گوگل نے مئی 2015 میں اپنے ریسرچ بلاگ پر ’پیپر ٹو ڈیجیٹل ان 200228 لینگوئیجیز‘ کے عنوان سے بڑے پیمانے پر گوگل ڈرائیو میں بے شمار زبانوں میں او سی آر یعنی آپٹیکیل کیریکٹر ریکگنیشن کا اعلان کیا۔ اور خوش قسمتی سے ان 200 زبانوں میں اردو بھی شامل رہی۔
اس سہولت کو استعمال کرنے کے لیے کسی تصویر یا پی ڈی ایف فائل کو گوگل ڈرائیو میں اپلوڈ کرنے کے بعد متعلقہ فائل پر رائٹ کلک کر کے ’اوپن ود‘ > ’گوگل ڈاکس‘ کو منتخب کرنا ہوگا۔ تھوڑے وقفے کے بعد تصویر ایک علیحدہ فائل میں شامل ہو جائے گی اور اس کے نیچے ماحصل متن موجود ہوگا۔
اردو تیکنالوجی ماہرین کی صف اول کے جواں سال محقق ابن سعید نے اس اعلان کی وضاحت میں لکھا تھا کہ:
’’اس تکنیک کی مدد سے تصویری عبارتوں مثلاً اسکین کردہ مواد کو متن کی صورت میں تبدیل کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے گوگل نے آرٹیفیشئیل انٹیلیجنس کی ایک مشہور تکنیک ایچ ایم ایم یا ہیڈین مارکوو موڈل [HMM - hidden Markov model] کا استعمال کیا جس میں متن کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ کر سمجھنے کے بجائے شکلوں کا پورا سلسلہ ایک ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے لیے کافی ٹریننگ ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے۔
ترسیموں کی بنیاد پر اردو او سی آر کا تجربہ نیا نہیں ہے، اس پر بھی کافی لوگوں نے کوشش کی ہے۔ کرننگ کی وجہ سے ترسیموں کو علیحدہ کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے ورنہ ترسیموں کی ٹریننگ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ ترسیموں کی تختی کو علیحدہ کرنا اور بعد میں ان سے متعلقہ نقطوں کو ساتھ لے کر لغات اور این گرامز کی مدد سے کام کرنے پر بہتر نتائج آنے کی امید ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ گوگل کسی ایک زبان میں اضافی توانائی صرف کرنے کے بجائے ایسے طریقوں پر زیادہ توجہ دے گا جس میں درستگی کم سہی پر زیادہ زبانوں کو سمیٹا جا سکے، خاص کر تب جب وہ زبان ان کی ترجیحات میں صف اول میں شمار نہ ہوتی ہو۔‘‘
گو کہ شروعات میں اس گوگل تیکنیک کے نتائج صفر تا دس فیصد رہے تھے مگر آج تقریباً ساڑھے تین سال بعد اردو انٹرنیٹ کمیونٹی کے بیشتر ماہرین کی تحقیقات کے مطابق گوگل ڈاکس کی مصنوعی ذہانت اور نیورل نیٹ ورک پر مبنی اس تیکنیک سے 70 تا 80 فیصد درست نتائج حاصل ہو رہے ہیں اور امکان غالب ہے کہ آنے والے چند برسوں میں اردو نستعلیق حرف شناسی کے موثر نظام کی تشکیل کا سہرا گوگل ہی کے سر پر سجے گا۔
اختتامیہ
اردو بصری حرف شناس سے بالخصوص اور جدید تیکنالوجی سے بالعموم چند متعلقہ سوالات یہاں قائم ہوتے ہیں:
(1) اردو میں سائنسی مضامین، کتب و رسائل تو کسی نہ کسی حد تک موجود ہیں لیکن انفارمیشن اور موبائل ٹیکنالوجی سے متعلق مضامین، کتب اور رسائل کی اس قدر کمی کا سبب کیا ہے؟
(2) جامعاتی تحقیق میں اردو زبان کے حوالے سے او۔ سی۔ آر یا ٹکسٹ ٹو اسپیچ یا اسپیچ ٹو ٹکسٹ یا مشینی ترجمہ پراجیکٹس پر اگر کسی ہندوستانی یونیورسٹی میں کوئی کام ہوا ہے تو ان کی تفصیلات انٹرنیٹ سرچنگ میں کیوں کر دستیاب نہیں ہیں؟
(3) اگر پڑوسی ملک کی حکومت نے جامعاتی سطح پر اردو او۔سی۔آر سے متعلق تعاون کیا یا سرگرمی دکھائی ہے تو ہمارے ملک کی جامعات کے متعلقہ شعبوں میں اس اہم ترین تحقیقی موضوع کو کیوں نظرانداز کیا گیا ہے جبکہ اردو کے نام پر ایک علیحدہ یونیورسٹی میں قائم ہے؟
(4) مشہور و مقبول ادارہ ’ریختہ‘ سے ہٹ کر اردو کی دیگر سرکاری و غیرسرکاری تنظیمیں اور ادارے، اردو زبان و ادب کے ذخیرے کو انٹرنیٹ پر تلاش کے قابل متن کی شکل میں مہیا کرنے کے سلسلے میں تیکنالوجی ماہرین سے کیونکر رابطہ نہیں کرتے؟
(5) گوگل کے سی۔ای۔او اتفاق سے ہندوستانی نژاد ہیں، کیا یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ قومی اردو جامعہ کے سربراہان سرکاری سطح پر ان سے رابطے کے ذریعے اردو کے اہم ذخیرہ کتب کو گوگل او۔سی۔آر کی مدد سے ڈیجیٹائز کرنے کے سلسلے میں باہمی اشتراک کا کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں گے؟ 

Eng'r Syed Mukarram
H.No. 16-8-544, Dawood Manzil
New Malakpet, Hyderabad - 500024 (Telangana)
Mob: 08096961731






قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے