26/4/24

کوکن میں ادب اطفال کی صورتِ حال، مضمون نگار، محمد دانش غنی

 

اردو دنیا، فروری 2024


کوکن کے اہالیانِ اردو نے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ اردو زبان سے ہم رشتگی ان کے معاشی مسائل کو حل بھی کرسکے گی یا نہیں؟ وہ تو محض اپنی محبت اور ارتباطِ دلی کا مظاہرہ کرتے رہے لیکن اردو سے لگاوٹ نے انھیں محروم اور مایوس بھی نہیں ہونے دیا چنانچہ آج بھی ہزاروں خاندان صرف اردو زبان کی بدولت روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔ خطۂ کوکن سے علم و ادب میں ممتاز ہستیاں اٹھیں جنھوں نے اپنے نام اور کام سے پورے کوکن کو مقام امتیاز عطاکیا۔ شعر و افسانہ، تحقیق و تنقید، تعلیم و تہذیب، معاشرت اور سیاست و صحافت میں کتنے ہی نام روشن ہیں جن پر نہ صرف خطۂ کوکن کو ناز ہے بلکہ تاریخِ اردو زبان و ادب کا بھی ایک حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یوں بھی خطۂ کوکن کو قدرت نے صورت و سیرت اور ذہانت و دولت کی بیش بہا نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔ ساتھ ہی یہاں کے پہاڑ، جنگل، ندی نالے، کھاڑیاں اور دریا... آم، ناریل، سپاری، چیکو، کاجو، ساگوان، بانس، نیلگری، مرغ و ماہی اور چاول وغیرہ کی پیداوار بھی عطیۂ پروردگار  اور انعامِ الٰہی کی مظہر ہے۔ یہاں حسنِ فطرت انگڑائیاں لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے خطۂ کوکن کے شعرا و ادبا نے اپنی طرزِ معاشرت، عادات و اطوار، تاریخ و واقعات اور حسنِ فطرت جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی اور ذہنی عمر، شخصی انفرادیت، دلچسپی، خواہشات، تحیر خانۂ ادراک، اکتسابی صلاحیت اور شخصیت کے مکمل فروغ کو دھیان میں رکھتے ہوئے بچوں کا ادب تخلیق کیا ہے۔

آزادی سے پہلے بچوں کے ادب پر کوئی قابلِ ذکر کام اگرچہ دکھائی نہیں دیتا لیکن آزادی کے بعدکی ساتویں دہائی میں اس سمت توجہ ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور ادبِ اطفال کا رجحان بڑھتاہوا دکھائی دیتا ہے۔ متعدد شاعروں اور ادیبوں نے بچوں کے لیے تھوڑا بہت لکھنا شروع کیا لیکن بچوں کے ادب سے باقاعدہ وابستگی رکھنے والا ایک نام بدیع الزماں خاور کا ہے۔شری پاد جوشی نے انھیں ’ کوکن کا مغنی ‘ کہا ہے۔ خاور صاحب ایک مدرس تھے۔ عمرِ عزیز کا بڑا حصہ ننھے منوں کی محبت میں گزارا چنانچہ ان کی نفسیات، ان کی زبان اور ان کے پسندیدہ موضوعات سے انھیں بڑی واقفیت تھی اور پھر وہ خود بھی ایک قادرالکلام شاعر تھے اس لیے انھوں نے اسمعیل میرٹھی، افسر میرٹھی، شفیع الدین نیراور راجہ مہدی علی خاں کے زیر اثراپنے طرز پر بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جن میں بطور خاص حب الوطنی، اخلاق و شرافت، کردار و سیرت اور تعلیمی رجحانات کو مدِ نظر رکھا۔ ان کی نظموں میں زورِ بیان، تسلسل، بچوں کی سوجھ بوجھ اور زبان کا سادہ پن بدرجہ اتم موجود ہے۔ چنانچہ یہ نظمیں نہ صرف خطۂ کوکن بلکہ پورے بھارت میں ذوق و شوق سے پڑھی گئیں۔ خاور صاحب نے بچوں کے لیے ’میرا وطن ہندوستان (1973) ‘،  ’امرائی (1976)‘، ’ ننھی کتاب (1983) ‘ اور ’ موتی پھول ستارے (1984) ‘ کے نام سے خوبصورت نظموں کے چار مجموعے دیے۔ اس طرح خطۂ کوکن سے بچوں کے ادب میں اٹھنے والا پہلا معتبر نام بدیع الزماں خاور کا ٹھہر تا ہے۔ 

خطۂ کوکن سے دوسرا اہم نام عبدالرحیم نشتر کا ہے۔ عبدالرحیم نشتر ہندوستان کی جدید اردو شاعری کا ایک نمایاں نام ہے۔ ان کے چار شعری مجموعے، بچوں کی نظموں کے پانچ مجموعے، ایک رپورتاژ، اردو افسانے پر ایک تحقیقی، تنقیدی اور تجزیاتی مطالعے کے علاوہ جدیداردو غزل کے دو انتخاب، ودربھ کی ادبی و شعری روایت سے متعلق نصف درجن کتابچے،کوکن اور پونے کی اردو تعلیم پر تین تحقیقی تصانیف اور برصغیر کے موقر رسائل و جرائد میں ان گنت تخلیقاتِ نظم و نثر شائع ہوچکی ہیں۔ 1960 کے بعد سے تاحال اردو کے اہم ترین رسالوں اور اخباروں میں ان کا نام کہیں نہ کہیں ضرور دکھائی دیتا ہے۔ دراصل ان کا تعلق علاقۂ ودربھ سے ہے۔ 1986  میں تلاشِ روزگار کے سلسلے میں کوکن آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ چونکہ وہ پیشۂ تدریس سے وابستہ تھے اس لیے ان کا ادبِ اطفال کی طرف توجہ دینا بھی فطری تھا۔ یوں تو وہ بچوں کے شعری ادب کی طرف 1990 میں متوجہ ہوئے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی شاعری کا آغاز ہی بچوں کے لیے نظمیں لکھنے سے ہوا۔اس وقت جب کہ دہلی سے کھلونا اور پھلواری شائع ہوتے تھے۔ ناگپور سے فیض انصاری کی ادارت میں’چاند‘ اور شفیقہ فرحت کی ادارت میں ’کرنیں ‘شائع ہوا کرتا تھا۔ غالباً یہ 1953 تا 1955 کی بات ہے۔یہی وقت تھا جب عبدالرحیم نشتر نے بچوں کے لیے نظمیں لکھنے کی ابتدا کی۔ شروع میں عبدالرحیم نشتر کی نظمیں ’ انقلاب‘ممبئی کے بچوں کے صفحے پر جگہ پاتی رہیں۔انقلاب میں بچوں کے صفحے کے ایڈیٹر چاچا ناصر نے اس وقت عبدالرحیم نشتر کو آل مہاراشٹر بچوں کی انجمن کاسکریٹری مقرر کیا اور کئی دفعہ انھوں نے انقلاب کے بچوں کے صفحے کی ترتیب کی ذمے داری انھیں سونپی۔ چنانچہ اس زمانے کے ’انقلاب ‘ممبئی کے بہت سے صفحات عبدالرحیم نشتر کے ترتیب دیے ہوئے تھے۔ انھوں نے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی خوب لکھا۔ ان کی نظمیں بچوں کے معروف رسائل میں مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اسی لیے بعض اہلِ قلم اور اہلِ نظر نے انھیں بنیادی طور پر بچوں کا شاعر کہا ہے۔ 

 عبدالرحیم نشتر کی نظموں کے پانچ مجموعے ’ بچارے فرشتے (1994) ‘، ’ کوکن رانی (1997) ‘، ’ موتی چور کے لڈو (2005)‘، ’گل چھرے (2007)‘ اور ’ بچوں کا سنسار (2021) ‘ کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔تمام مجموعوں کی شاعری ’گنگنائو مرے اشعار مچلتے جائو‘کے مصداق ہے۔ان نظموں میں شاعر کا بچوں کے بارے میں جو مشاہدہ ہے اور بچوں کی نفسیات کا جو عرفان اسے حاصل ہے،وہ اتنا اچھوتا،اتنا پیارا اور اتنا دل آویز ہے کہ طبیعت خود بہ خود کسی نظم کو منتخب کرکے گنگنانے پر مائل ہوتی ہے۔ایک اور بڑی خوبی نظموں کی یہ ہے کہ یہ سبق آموز ہیں۔خدا کی یاد تازہ کردیتی ہیں۔اس کی صناعی کی طرف توجہ کو مرکوز کرتی ہیں۔بچوں کو انسان بن کر جینے کی راہ دکھلاتی ہیں۔ان میں خود شناسی، خود اعتمادی اور شعور کی بالیدگی پیدا کرنے میں معاون نظر آتی ہیں۔حوصلوں کا درس دیتی ہیں۔ مستقل مزاجی کی تعلیم دیتی ہیں۔ کامیابیوں  کے گر سکھاتی ہیں۔قدرت،دنیا اور انسان کی پہچان کراتی ہیں۔ 

اقبال سالک نوجوان شاعر ہیں لیکن انھوں نے خود کو بچوں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ لہذا ان کی پیاری پیاری اور خوبصورت نظمیں رسائل و جرائد میں نظر آجاتی ہیں۔ ’ پہلا قدم ‘ ان کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظموںکا مجموعہ ہے جو 2014 میں رحمانی پبلی کیشنز  مالیگائوں کے زیر اہتمام شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میں انھوں نے زیادہ تر ایسے موضوع کا انتخاب کیا ہے جن سے قاری اکثر وبیشتر گذرتا ہے لیکن یہ نظمیں اُن میں نئی کیفیات وسرشاری پیدا کرتی ہیں۔آسان اور سلیس زبان، چھوٹی بحریں اور مترنم الفاظ کے ساتھ ان نظموں کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ ان میں بچپن صاف طور سے دکھائی دیتا ہے۔

 ساغر ملک کا تعلق بھیونڈی سے ہے اور وہ بھی اسکول میں ٹیچر رہ چکے ہیں۔ بچوں کے درمیان رہتے سہتے اور انھیں سمجھتے سمجھاتے آئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کہانی کے میڈیم سے بچوں کی شخصیت اور کردار سازی میں ایک موثر کردار ادا کیاجا سکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے کہانی کو اپنی پسندیدہ صنف قرار دیا اور بہت سی دلچسپ کہانیاں لکھیں۔ ساغر ملک کی شہرت ان کی کہانیوں کی پہلی کتاب ’ سفید کوا (1984)‘ سے ہوئی اور اب تک وہ بچوں کے لیے پانچ بہت اچھی کتابیں دے چکے ہیں جن میں ’ قاتل سائنسداں (1988)‘، ’کہانیاں (1990) ‘ اور ’کچے گھر کی دھوپ (1990) ‘ شامل ہیں۔ ان کتابوں میں ساغر ملک نے بچہ بن کر بچوں کی عمر اور مزاج کے مطابق پیاری پیاری، نصیحت آموز اور کردار ساز کہانیاں انھیں کی زبان اور پیرائے میں بیان کرنے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کہانیوں میں بچوں کی افتادِ طبع، پسند نا پسند اور ان کی نفسیات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ ان کہانیوں کے کردار بچوں کے جانے پہچانے جانور اور پرندے یا پھر سادہ لوح اور بھولے بھالے انسان ہیں جن کی بدحواسیاں اور کارکردگیاں پر لطف مناظر سجاتی اور خوشگوار مزاح پیدا کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ہر کہانی بچوں کو ایک سبق دیتی ہے، ایک پیغام پہنچاتی ہے اور ان پر اپنا اثر ڈالتی ہے۔ کہانیوں کی کتابوں کے علاوہ ان کے یہاں بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کا ایک مجموعہ بھی ملتا ہے جو ’کرنیں ‘ کے نام سے 1983 میں شائع ہواتھا جس میں بچوں کے لیے اخلاقی اور سبق آموز نظمیں شامل ہیں۔  

ایم مبین اپنی کہانیاں اور ڈراما نگاری کی وجہ سے ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ادبی دنیا میںان کی اپنی ایک شناخت بھی ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بڑی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کی نگارشات کو ہندی حلقوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہے۔ بچوں کے تمام رسائل میں ان کی تخلیقات پابندی سے شائع ہوتی ہیں۔ انھیں کہانی لکھنے کا اچھا سلیقہ ہے۔ دل پذیر اندازِ بیان، موثر زبان اور کسا ہوا بیانیہ ان کی کہانیوں کی خصوصیت ہے۔ انھوں نے کامیاب ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ یہ ڈرامے بھی کہانیوں کی طرح سبق آموز اور دل پر اثر کرنے والے ہیں۔ ’ مال مفت 1998) ‘، ’گدھے کی چوری (2005) ‘، ’پپو پاس ہوگیا (2006) ‘ ، ’ہزار روپے کا نوٹ (2008)‘، ’ میرا نام کرے گا روشن (2011) ‘، ’رانگ نمبر (2012) ‘، ’ گبر سنگھ نے ای میل کیا (2013)، ’دان دھرم (2018)، ’گونگا سچ ((2019)،  ’ابراہیم گاردی (2019)‘ اور ’ کھول دو (2020)،   وغیرہ ان کے ڈراموں کے مجموعے بچوں کی نفسیات اور سوجھ بوجھ کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’جھنگا پہلوان نے کرکٹ کھیلا (2006)،  ’ انمول ہیرا (2007)،  ’ جادوئی چراغ (2007)، ’ ڈیجیٹل جنگل (2022)  اور ’ مشن اوزون (2023)، ایم مبین کی کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ ’سر کٹی لاشیں (2004)،  ’ زحل کے قیدی (2004)، ’انگوٹھا (2013)، ’اے وطن تیرے لیے (2014)‘ اور ’ خلائی سفر (2021)‘  جیسے ناول انھوں نے بچوں کے لیے لکھے ہیں۔ ان کا تسلسل ان کی تازہ فکری اور غضب کی تخلیقی صلاحیت کا غماز ہے۔ انھیں بیانیہ پر قدرت حاصل ہے۔ وہ اپنے گرد و پیش بکھری ہوئی اور پھیلی ہوئی کہانیوں میں سے بچوں کے لائق کسی ایک موضوع کو منتخب کرلیتے ہیں اور پھر نہایت سادہ انداز میں شروع کرکے تحیر خیز واقعات کی کسی ہوئی ترتیب کے ساتھ بڑی دلچسپ انداز میں بیان کر دیتے ہیں۔ ان کہانیوں اور ڈراموں کے مجموعے ادبِ اطفال کے لیے بیش قیمت تحفے ہیں۔

صادقہ نواب سحر ایک مدت سے لکھ رہی ہیں۔ وہ ایک مقبول و معروف فکشن نگار ہیں، ان کے کئی ناول اور افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ہندی جگت والوں میں بھی ان کا نام بڑی اہمیت اور عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ بھی بچوں کی کامیاب اور پسندیدہ ادیب ہیں۔ تعلیم و تدریس میں عمر گزاری۔ مہاراشٹر کی اردو ابتدائی جماعتوں کی نصابی کتابیں تیار کرنے کا انھیں طویل تجربہ حاصل ہے۔ نصابی ضرورتوں کے تحت لکھتی رہی ہیں اس لیے نہایت غور و فکر، ہوش و حواس اور آہستہ روی کے ساتھ لکھتی ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ بچوں کے لیے کیا اور کیسے لکھا جائے۔ حالیہ برسوں میں صادقہ نواب سحر نے بچوں کے ادب میں وقیع اضافے کیے ہیں۔’ مکھوٹوں کے درمیاں ‘ صادقہ نواب سحرکا بچوں کے لیے یک بابی ڈراموں کا مجموعہ ہے جسے تخلیق کار پبلشر نئی دہلی نے 2012میں شائع کیا۔ یہ مجموعہ اسٹیج ڈراموں کی خصوصیات سے معمور ہے۔ ہر ڈرامہ بہ آسانی اسٹیج کیا جاسکتا ہے۔ بچوں سے متعلق دل چھولینے والے موضوعات کو چوکس تھیم اور جاندارا ور اثر آفریں مکالموں کے ساتھ بڑی کامیابی سے پیش کیا گیا ہے۔ ڈراموں کے سارے کردار جانے پہچانے اور ارد گرد کے ہی کردار ہیں۔ اسی وجہ سے ننھا قاری ان میں دلچسپی لیتا ہے۔ ڈراموں کے مناظر کی فضا بندی میں ہنر مندی نظر آتی ہے۔ مکالمے کردار کی عمر، پیشہ اور اس کی نفسیات اور عادات و اطوار کے لحاظ سے لکھے گئے ہیں۔ ڈراموں کے علاوہ صادقہ نواب سحر نے اچھی اچھی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ یوں بھی کہانی لکھنے میں وہ خاصی مشاق ہیں۔ بچے، عورتیں اور بڑے بوڑھے سبھی ان کی کہانیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے بچوں کے نثری ادب میں وہ ایک ممتاز و معتبر مقام رکھتی ہیں۔ نو عمر طالبِ علموں کو ننھی منی کہانیوں اور نظموں کے سہارے پڑھایا جاتا ہے۔ نرسری میں نظموں کی اہمیت اسی لیے ہے۔ صادقہ نواب سحر اس نکتے سے بخوبی واقف ہیں اسی لیے انھوں نے بچوں کی بڑی خوب صورت نظمیں لکھیں۔ ’ پھول سے پیارے جگنو‘ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے جو 2003میں شائع ہوا تھا۔ مجموعے میں شامل ساری نظمیںنہایت کامیاب اور مفید و موثر ہیں۔ بچوں کے سبھی رسالوں میں ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہتی ہیں۔

غنی غازی بچوں کے مقبول اور پسندیدہ ادیب ہیں۔ وہ جب تک ممبئی میں رہے ماہنامہ ’ نقشِ کوکن ‘ سے جڑے رہے اور دلچسپ، مزے دار، سبق آموز کہانیاں تخلیق کرتے رہے۔ ان کی کہانیوں کے مجموعے ’ ریت کے گھروندے (1984) ‘، ’ مٹی کے گھروندے (1986) ‘، ’ شبنم کے موتی (1987)کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں جو نایاب تو نہیں کمیاب ضرور ہیں۔ غنی غازی نے ’ مردہ گھر ‘ کے نام سے بچوں کے لیے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا جو 2016میں نقشِ کوکن پبلی کیشنز ٹرسٹ، ممبئی کے زیرِ اہتمام شائع ہوا تھا۔ ’ مردہ گھر ‘ کی کہانی شروع ہوتے ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ کہانی کی دلچسپی اور قاری کا تجسس آخر تک برقرار رہتا ہے۔ غنی غازی کی کہانیاں من گھڑت نہیں ہوتیں، وہ بچوں میں سائنسی شعور جگاتی ہیں۔ بچوں کے مزاج، رجحان اور زبان کی انھیں اچھی آگہی ہے۔ خیالات کو صفائی اور چابکدستی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں زبان ایک موثر وسیلہ ہے اور وہ کہانی پن کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔ 

 مسرت بانو شیخ بھی ادبِ اطفال کا ایک معروف نام ہے۔ وہ بھی پیشۂ تدریس سے وابستہ رہی ہیں اسی لیے ان کی نگارشات ادبِ اطفال کے تقاضے پوری کرتی ہیں۔ ایک زمانے میں وہ نہایت تیزی سے اٹھی تھیں۔ ان کے ڈرامے ماہنامہ نرالی دنیا، گل بوٹے  انقلاب اور دوسرے رسائل و جرائد میں پابندی سے شائع ہورہے تھے،لیکن اب وہ ایک عرصے سے خاموش ہیں۔ مسرت صاحبہ نے بچوں کے لیے ڈرامے بھی لکھے ہیں اور ان ڈراموں نے اسکول اسٹیج پر بڑی شہرت اور مقبولیت بھی حاصل کی۔ان کے ڈراموں کے پلاٹ عمدہ اور مکالمے برجستہ ہیں۔ انھوں نے بچوں کے مزاج اور ذہنی استعداد کا بھی خیال رکھا ہے۔ ڈراموں کے دو مجموعے ’ ہم ایک رہیں گے (1997) ‘ اور ’آدھا ادھورا (2001)‘ بھی شائع ہوچکے ہیں۔ 

شکیل شاہجہاں مہسلہ (رائے گڑھ) کے ایک کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے بچوں کے لیے کچھ ڈرامے تحریر کیے تھے۔ بعد میں ان ڈراموں کا مجموعہ ’ قطار میں آیئے (1994) ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ تمام ڈرامے بچوں کے ذہن اور مزاج کو مدِ نظر رکھ کر لکھے گئے تھے۔

 نور جہاں نور بچوں کی نفسیات، ان کی ترجیحات، ذہنی سطح اور زبان دانی کی بہترین پارکھ تھیں۔ ان کی نظمیں، کہانیاں، مضامین اور ڈرامے ماہنامہ نرالی دنیا،گل بوٹے، انقلاب اور دوسرے رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیںجن میں لفظوں کا برمحل استعمال جچا تلا انداز اور متاثر کن پیرایۂ اظہار پایا جاتا ہے۔ مدیرِ گل بوٹے محترم فاروق سید کے حوالے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محترمہ دوکتابوں کی مصنفہ بھی تھیں اور یہ دونوں کتابیں گل بوٹے پبلی کیشنز  ممبئی کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی تھیں لیکن ان کتابوں کے نام اب مدیرِ گل بوٹے کے حافظے میں محفوظ نہیں ہیں۔بس انھوں نے اتنا ہی بتایاکہ ان کتابوں میں سے ایک بچوں کی نظموں کا مجموعہ تھا اور دوسری کتاب بچوں کے ڈراموں پر مشتمل تھی۔

 نوگل بھارتی بھی بچوں کے لیے لکھتے رہتے تھے۔ ان کی دلچسپ اور سلیس نظمیں اور کہانیاں اکثر اخباروں کی زینت بنتی رہتی تھیں جنھیں ہم اپنے بچپن میں لہک لہک کر پڑھا کرتے تھے۔ 

 انجم عباسی ایک طویل عرصے تک تدریس سے جڑے رہے اس لیے انھیں بچوں کے ادب میں بھی خاص دلچسپی ہے۔ انھوں نے نہ صرف بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھیں بلکہ بچوں کے لیے مراٹھی زبان کی کئی اچھی تحریروں کا ترجمہ بھی کیا۔

 محمد حسین پرکار بھی اردو کے ساتھ مراٹھی ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ترجمے کی لسانی اور تہذیبی اہمیت سے واقفیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے مراٹھی اور اردو کی لسانی اور تہذیبی روایت کو قائم رکھنے میں اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ محمد حسین پرکار نے مراٹھی شاعری اور ڈراموں کے اردو میں کامیاب تجربے کیے ہیں۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی حیات پر مبنی وی واشرواڈکر کا لکھا گیا ڈرامہ ’ و یزمھنالی دھرتی لا ‘کو اردو روپ دے کر مراٹھی اردو کے لسانی رشتے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔

 شیریں دلوی اردو صحافت کا ایک معروف نام ہے لیکن بچوں کے ادب سے بھی ان کی دلچسپی کچھ کم نہیں ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے کئی کالم لکھے جو روزنامہ ہندوستان میں ’ ان دنوں ‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ نسوانی جذبات، خیالات و تاثرات اور صفات سے رچی ہوئی اس ادیبہ نے چھوٹے بچوں اور نوخیز لڑکیوں کے لیے بڑی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔ بچوں کے لیے ان کے کالم پابندی سے شائع ہوتے ہیں۔

عامل کھٹیلوی ( محمد اقبال خان دیشمکھ ) کا تعلق بھی صحافت کے پیشے سے رہا ہے۔ وہ ایک زمانے میں  ہفت روزہ ’ کوکن کی آواز ‘ کے نائب مدیر تھے۔ بچوں کے لیے انھوں نے ’ چاند تارے (2005) ‘ پیش کیا تھا۔ کہانیوں کے اس مجموعے میںبچوں کے لیے دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔ عامل کھٹیلوی کے پاس کہانی نویسی کا نہایت پر اثر فن موجود ہے۔ وہ اپنے فن کو ادبِ اطفال کی طرف مرکوز کردیں تو بچوں کے ادب کو ایک اچھا کہانی کار مل سکتا ہے۔

نظام فیضی، آدم نصرت، ملک تاسے، قاضی فراز احمد، مغل اقبال اختر،تسنیم انصاری، صابر مجگانوی، تاج الدین شاہد، بکر سیمابی اورجویریہ قاضی خطۂ کوکن کے ایسے قلم کار ہیں جن کے یہاں بچوں کے معیار اور ان کے فطری ذوق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کچھ اخلاقی نظم و نثر پائی جا تی ہیں جو بچوں کے رسائل میں شائع بھی ہوئی ہیں۔یہ نظم و نثر بچوں کو خیر کی جانب مائل کرتی ہیں۔ ان کے خوابیدہ جذبات کو مثبت انداز سے بیدار کرتی ہیں۔ غورو فکر کی دعوت اور صالح اقدار کو فروغ دیتی ہیں۔ شاہد مہسلائی، سعید کنول، مبشر کنول، تبسم منظور ناڈکر، فیروزہ تسبیح، نگینہ ناز اور دوسرے چند قلمکاروں نے بھی ادبِ اطفال میں حصہ لیا ہے لیکن بیشتر شعرا و ادبا نے نظمیں، ڈرامے،کہانیاں، تعلیمی مضامین، تاریخی کارنامے  پہیلیاں، لطیفے غرض جو کچھ بھی لکھا یا ترجمہ کیا ان کے مطالعے سے امید تو بندھتی ہے کہ خطۂ کوکن میں بچوں کا ادب اس معیار کا ہے کہ بزرگ بچوں کے مستقبل سے بات کرسکتے ہیں۔

خطۂ کوکن میںبچوں کے ادب کی روایت کو جاندار بنانے میں ماہنامہ ’نقشِ کوکن‘ ممبئی کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رسالہ ادبِ اطفال کو بچانے اور سنبھالنے میں تاریخی کردار کا حامل ہے۔ اس ضمن میں محترم محمد شفیع پورکرکے  ہفت روزہ اخبار ’ کوکن کی آواز ‘ نے بھی لائقِ تحسین کردار ادا کیا ہے۔ نئے قلمکاروں اور قارئین کی ایک کھیپ تیار کی۔ مرحوم محمد شفیع پورکر کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ بچوں سے قریب ہوئے اور بچوں کو اپنے قریب کیا۔ انھوں نے ہمیشہ بچوں کا ادب لکھنے والوں کی ہمت افزائی کی۔ انھوں نے ’ کوکن کی آواز ‘ کے آدھے صفحے کو بچوں کے لیے مختص کر کے ’ نئی پھلواری ‘کے نام سے پیش کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ اس صفحے سے ادب کے ساتھ ساتھ بچوں کی دیگر ضرورتیں بھی پوری کی جارہی ہیں۔  اس طرح ’ کوکن کی آواز ‘ ادبِ اطفال کے فروغ میں برابر کا حصہ دار ہے۔ ’ بزم فروغ ادب کوکن، مہاڈ ‘، ’ آواز گروپ مہاڈ ‘، ’ نقشِ کوکن ٹیلنٹ فورم ممبئی ‘، ’ کوکن ٹیلنٹ فورم ممبئی ‘اور ’ کوکن ادبی فارم رتناگری ‘ کی مختلف النوع تقریبات اور کاوشوں کی بدولت کوکن کی درس گاہوں میں بہت سی ادبی اور کلچرل سرگرمیوں کا آغاز ہوا جن سے ادبِ اطفال کو تقویت پہنچی۔

 اب وقفے وقفے سے بچوں کے ادب پر اجلاس بھی منعقد ہونے لگے ہیں۔ کانفرنس اور سمینار کا اہتمام بھی کیا جانے لگا ہے۔ 2019 میں شعبۂ اردو، گوگٹے جوگلے کر کالج، رتناگری نے بچوں کے ادب پر ایک قومی سمینار کا انعقاد کیا تھا جس میں ملک کے اہم ترین اہلِ قلم نے شرکت فرمائی اور اپنے فکر و فن اور پر مغز تحریروں سے ادبِ اطفال کے مختلف گوشوں اور پہلوئوں کو روشن کیا۔ان مقالات کا مجموعہ ’ عصرِ حاضر میں بچوں کا ادب ‘ کے نام سے شعبۂ اردو، گوگٹے جوگلے کر کالج، رتناگری نے 2019  میں شائع بھی کیا ہے۔ دراصل یہ ایک سمینار نہیں بلکہ ادبِ اطفال اور بچوں کے قلم کاروں اور خود ادبِ اطفال کے قارئین کا جشن تھا جس کے چرچے ملک ہی میں نہیں بلکہ بیرونِ ملک میں بھی کیے گئے۔ گوگٹے جوگلے کر کالج کا شعبۂ اردو زبان و ادب کی ترقی اور نئے لکھنے والے اور نئے قارئین کی تعداد میں اضافے کے لیے مسلسل عمل و حرکت میں لگا ہوا ہے۔ کوکن کے بیشتر اردو ہائی اسکولوں میں ’ نقشِ دیوار ‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں طلبا و طالبات اپنے اساتذہ کی مدد سے بچوں کا صفحہ ترتیب دیتے ہیں اور یہ سلسلہ نہایت مقبول ہو چلا ہے۔ اب بچوں اور اسکولوں کے مابین صحت مند مقابلہ آرائی اور مسابقت کے جذبے بھی پنپنے لگے ہیں۔ کمال مانڈلیکر نے مضمون نویسی، ذہنی لیاقت، الفاظ سازی، مباحثہ، تقریری مقابلہ اور جنرل نالج کی روایت کو پھر سے زندہ کردیا ہے۔ مبارک کاپڑی کی رہنمایانہ تحریریں بچوں میں اعلیٰ تعلیم اور اچھے نتائج کی تحصیل کا شعور بھی جگارہی ہیں اور ان میں نیا جوش و جذبہ بھی رچا رہی ہیں۔    

یہ عجیب بات ہے کہ اردو تنقید نے ابھی تک بچوں کے ادب پر ویسی توجہ نہیں کی  جیسا کہ اس کا حق ہے۔ بدیع الزماں خاور، عبدالرحیم نشتر، ایم مبین، صادقہ نواب سحر، ساغر ملک، مسرت بانو شیخ اور اقبال سالک نے بچوں کے ادب کا جو ذخیرہ فراہم کیا ہے اسے پوری طرح نہ تسلیم کیا گیا نہ ان کا قرض اتارا گیا۔ بچوں کا ادب بھی تنقید و تحقیق کے لائق ہے۔ اس طرف سب سے پہلا قدم ڈاکٹر عبدالرحیم نشتر نے اٹھایا ہے۔  انھوں نے ادبِ اطفال کے مسائل اور ان کی ضروریات کے پیشِ نظر کئی مضامین لکھے۔ ’ہندوستان میں ادبِ اطفال کی موجودہ صورتِ حال ‘، ’ ودربھ میں بچوں کا ادب ‘، ’ کیا بچوں کا ادب، ادب نہیں ہے ؟ ‘، ’کوکن کے بچوں میں مطالعے کا فقدان ‘ کے علاوہ بچوں کے شعرا و ادبا کی کتابوں پر لکھے گئے پیش لفظ اور مضامین سے ان کی سوچ کا دائرہ، احساس کی شدت اور جذبے کی سچائی کا پتہ چلتا ہے۔ان کے مضامین کا مجموعہ ’اردو زبان کا سوتیلا بچہ ‘ کے نام سے 2005  میں شائع ہوچکا ہے۔  

یہ ایک حقیقت ہے کہ علم و ادب سے عدم دلچسپی کا ایک بڑا سبب سوشل میڈیا ہے جس کی وجہ سے عصری ادب کی افہام و تفہیم میں مثبت کردار ادا کرنے والے قارئین کی کمی ایک مسئلہ بنتی جارہی ہے، بستیوں سے لائبریریاں غائب ہوگئی ہیں اور ہاتھوں میں موبائل فون آگئے ہیں۔ ہماری نئی نسل جو ابھی ثانوی مدارس میں زیرِ تعلیم ہے کتابوں سے زیادہ موبائل فون میں دل لگا رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو دور کرنے کے لیے بھی بچوں کے بہترین ادب کی تخلیق بے حد ضروری ہے۔ خطۂ کوکن اس لحاظ سے خوش قسمت رہا ہے کہ اس کو ہر زمانے میں اچھے لکھنے والے میسر آئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ دیارِ کوکن کے قلم کاروں سے ادبِ اطفال روشن ہے اور نئے لکھنے والوں نے اس باب میں پیش رفت کر رکھی ہے۔ 


Dr. Mohd. Danish Gani

Dept. of Urdu

Gogate Jogalekar College

Ratnagiri - 415 612

Mobile No. 7558600893


x

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں