28/9/17

حقوقِ نسواں کی علم بردار- رقیہ سخاوت حسین از عذرا نقوی

آج تاریخ کے صفحات سے نکال کر برصغیرکی ایک ایسی باہمت خاتون رقیہ سخاوت حسین سے آپ کی ملاقات کرار ہی ہوں جس نے ایک صدی پہلے اپنے قلم اور عمل سے حقوقِ نسواں اور مسلمان عورتوں کی تعلیم کے لیے بہت کچھ کیا۔ ا نھوں نے کلکتہ میں مسلمان لڑکیوں کے لیے ایک اسکول قائم کیاتھاجو اب تک رقیہ سخاوت حسین میموریل گرلز کالج کے نام سے قائم ہے۔رقیہ خاتون جو شادی کے بعد بیگم رقیہ سخاوت حسین کے نام سے مشہور ہوئیں 1880 میں بنگال کے ایک زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئیں، ان کے والد ایک اعلیٰ تعلیم یا فتہ زمین دا رتھے ۔زمانے کے رواج کے مطابق انھوں نے اپنے بیٹے کو تو اعلی ٰ تعلیم دلائی اور کئی زبانیں سکھائیں لیکن لڑکےوں کی تعلیم صرف گھر تک محدود تھی۔بنگال کے اعلی ٰطبقے کے مسلمان گھرانوں میں اس زمانے میں عورتوں کو بنگالی زبان نہیں پڑھائی جاتی تھی بس گھر پر عربی اور فارسی پڑھانے کا رواج تھا۔ رقیہ کی بڑی بہن کریم النساء جو کم عمری  ہی سے پڑھنے اور شاعری کا شوق رکھتی تھیں انھیں اس پاداش پر کہ وہ ایک بنگالی نظم پڑھ رہی تھیں کئی برس خاندان کی ایک بزرگ خاتون رشتہ دار کے گھر تقریباََ  قید کردیا گیاتھا،ا ن کی عمراس وقت صرف بارہ سال تھی۔ رقیہ سخاوت حسین نے اپنے خاندان کے حالات لکھتے ہوئے اپنی خود نوشت میں لکھا تھا کہ اس زمانے کے اشرافیہ کے رواج کے مطابق لڑکیاں نہ صرف سخت پردے میں ”زنانے “ میں رہتی تھیں بلکہ غیر برادری کی عورتوں سے بھی پردہ کرتی تھیں۔قریبی رشتہ دار خواتین،معتبر خاندانی خادماؤں کے علادہ کنواری لڑکیوں کو کسی کے سامنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

رقیہ خاتون اور کریم النساء کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بڑے بھائی بہت درمند دل رکھتے تھے، اوراپنی بہنوں کاشوق دیکھ رہے تھے لیکن خاندان اور سماج کی روایات کے خلاف نہیں جا سکتے تھے اس لیے انھوں نے دونوں بہنوں کو گھر میں چھپ چھپ کر رات کو لالٹین کی روشنی میں تھوڑی بہت بنگالی اور انگریزی پڑھائی۔ کریم النساءکی شادی چودہ سال کی عمر میں کردی گئی تھی اور بعد میں انھوں نے شاعرہ کے طورپر شہرت پائی ۔

 رقیہ خاتون کی شادی 1896 میں سولہ سال کی عمر میں خان بہادر سخاوت حسین سے ہوگئی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، ولایت پلٹ تھے اور بھاگلپور (بہار )کے ڈپٹی مجسٹریٹ تھے، ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا۔ عمر میں وہ رقیہ سے بہت بڑے تھے لیکن یہ شادی رقیہ کے لیے نیک فال ثابت ہوئی ۔ حالاں کہ سید سخاوت حسین کی مادری زبان اردو تھی لیکن انھوں نے رقیہ کی نہ صرف بنگالی زبان میں لکھنے میں ہمت افزائی کہ بلکہ انگریزی پڑھنے کا بھی انتظام کروا دیا۔ رقیہ کی جوانی کا بڑا حصہ صوبۂ  بہار میں گزرا جہاں انھیں اپنے شوہر کی اعلیٰ سماجی حیثیت کی وجہ سے بہت سی ہندی اور انگریزی تعلیم یافتہ خواتین سے ملاقا ت کا بھی موقع ملا، انگریزی ادب کے مطالعے نے انھیں ایک نئی دنیا کی جھلک دکھائی۔ اپنے شوہر کی ہمت افزائی کی وجہ سے اب رقیہ نے انگریزی میں بھی لکھنا شروع کردیا۔ انھوں نے متعدد کہانیاں مضامین اور ناول لکھے جو عورتوں سے ہی متعلق تھے۔ وہ بنیادی طور پر سماجی کارکن تھیں اس لیے ادب کو پس پشت ڈال کر شادی کے چند ہی سال بعد رقیہ حقوق نسواں اور عورتوں کی تعلیم کی زبردست علم بردار بن گئیں۔

شادی کے صرف تیرہ سال بعد سخاوت حسین کا انتقال ہو گیا۔ انھوں نے اپنی وصیت میں رقیہ کے لیے کافی رقم چھوڑی تھی تاکہ وہ مسلمان لڑکیوں کے لیے تعلیم کو آگے بڑھائیں۔لہٰذا رقیہ نے اپنے گھر میں لڑکیوں کے لیے ایک اسکول کھول لیا ۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا، ان کی سوتیلی بیٹی اور داماد نے گھر پر قبضہ جمانے کے لیے رقیہ کو دھکے مار کر گھر سے باہر نکال دیا۔انھوں نے اپنا مختصر اثاثہ اورکتابیں جمع کیں اور کلکتہ کا رخ کیا۔وہاں انھوں نے 1911 میں سخاوت حسین میموریل گرلز اسکول قائم کیا ۔ 1916 میں ایک انجمنِ خواتین کی بنیاد ڈالی جو خواتین کی کانفرنسیں ، مباحث وغیرہ منعقد کرتی تھی۔ان کے اسکول سے امیر اور متوسط طبقے کی لڑکیاں مستفید ہوتی تھیں مگر انجمن کے ذریعے انھوں نے غریب عورتوں کے لیے بھی بہت کام کیا۔ گھر گھر جاکر انھوں نے خواتین کو انجمن کا ممبر بنایا ۔ یہ انجمن غریب بےواؤں کی مالی امداد کرتی تھی، پریشان حال اور مظلوم بیویوں کو تحفظ اور پناہ دیتی تھی، غریب لڑکیوں کی شادیاں کراتی تھی اور سب سے اہم بات یہ کہ غریب طبقے کی لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم کا انتظام کرتی تھی۔انھوں نے دوسری خواتین کے ساتھ ٹیم بنا کر کلکتہ کی کچی بستیوں میں ہندو اور مسلمان عورتوں کے لیے کر معمولی تعلیم اور حفظانِ صحت کی تربیت کا انتظام کیا تھا۔تعلیم بنگالی اور اردو میں دی جاتی تھی۔

رقیہ نے انگریزی میں ایک کہانی ”سلطانہ کا خواب“لکھی، جس نے بہت شہرت پائی ا ورجس پر تنقید اور تعریف کا طوفان آگیا۔ یہ دلچسپ کہانی پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک صدی پہلے اس خاتون نے بالکل نئے انداز کی کہانی تخلیق کی تھی جو اس زمانے کے ادب سے بالکل الگ تھی۔ یہ سائنس فکشن بھی کہلائی جاسکتی ہے اور فنٹاسی fantasy بھی ۔ اس میں ایک لڑکی سلطانہ کوخواب میں اس کی دوست سائرہ ایک ایسی مملکت میں لے جاتی ہے جہاں عورت ہی ملکہ ہے، جہاں مرد عورتوں کی طرح پردے میں بٹھا دئیے گئے ہیں اور کاروبارِ جہاں بہت امن چین سے عورتیں چلا رہی ہیں، جہاں عورتوں کی دویونیورسٹیاں ہیں اور عورتوں کی سائنسی تجربہ گاہیں ہیں،جہاں لڑکیوں کے بہت سے اسکول ہیں، کم عمری کی شادیاں ممنوع ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں رقیہ نے کہانی میں سائنسی فکشن کے انداز پر مستقبل میں ہونے والی ایجادا ت کا تذکرہ کیا ہے ۔ جیسے سلطانہ کی دوست اس کو اپنے گھر کے باورچی خانے میں لے جاتی ہے، ان کے اندر جانے سے پہلے پردہ نشین مردوں کو ہٹا دیا جاتاہے ۔یہ باورچی خانہ خوبصورت کچن گارڈن کے درمیان بنا ہے ،  نہ دھواں ہے نہ لکڑی کا چولہا، کھڑکیوں میں پھول سجے ہیں۔ سلطانہ کے استفسار پر اس کی دوست اسے شمسی توانائی سے بنا چولھا دکھاتی ہے جہاں سورج کی روشنی ایک پائپ کے ذریعہ جمع کی جاتی ہے اور اس پر کھانا پکتا ہے۔ اس کے علادہ اس کہانی میں ایک اور ایسی ہی سائنسی ایجاد کا بھی تذکرہ ہے جو ضرورت پڑنے پر بادلوں کے پار جا کر بارش روک دیتی ہے۔ یہ کہانی اپنے وقت کے حساب سے بہت آگے کی بات کررہی تھی،ا س زمانے میں پارسی ، عیسائی اور ہندو عورتوں کی تعلیم کی تحریکوں میں بھی عورتوں کے لیے سائنس اور حساب کی تعلیم نصاب میں شامل نہیں کی جاتی تھی۔

رقیہ نے بہت سے مضامین لکھے جس مےں سے ” عزلت نشین “ کافی مشہور ہوا۔ ان کے پہلے اور آخری ناول کا نام ” پدم راگ “ تھا جو 1925 مےں شائع ہوا تھا، جس میں اےک دارالامان مےںرہنے والی مختلف عورتوں کی زندگی کی جھلکےاں ہےں ےہ ناول کچھ حقیقت اور کچھ خواب کی سی کےفیت لئے ہوئے تھا جب کہ ”سلطانہ کا خواب“ پورا  خواب کی کےفیت تھا۔ ”پدم راگ “ میں دارالامان کی سربراہ خاتو ن زینب کا نکاح ایک بہت پڑھے لکھے مرد سے ہوا تھا مگر رشتہ داروں کی ریشہ دوانیوں اور غلط فہمیوں کی وجہ سے رخصتی نہیں ہوپائی اور اس کے شوہر نے دوسری شادی کرلی۔ زینب بہت ہمت اور اعتماد سے، ا پنے بھائی کی مدد سے، پاکبازی اور عزت سے ایک کارآمد زندگی گزارتی ہے، شاعری کرتی ہے،  بھائی کی جائداد کا کام سنبھالتی ہے اور دارالامان چلاتی ہے۔ ناول کے اختتام میں صورتِ حالات بدل جاتی ہے اور اس کے شوہر سے اس کی پھر ملاقات ہوتی ہے اور وہ اس سے واپسی کی درخواست کرتا ہے۔ لیکن وہ کہتی ہے ”میں اپنی زندگی کا ہدف پہلے طے کرچکی ہوں ، گرہستی کی زندگی گزارنا خد انے میرے نصیب میں نہیں لکھا تھا، تم اپنے رستے جاؤ،میں اپنی راہ جاؤں گی۔“ اس زمانے کو دیکھتے ہوئے ناول کا یہ بہت مختلف قسم کا انجام تھا، بلکہ آج بھی خواتین کے ناولوں میں روایتی قسم کے اختتام ہی لکھے جاتے ہیں۔

بیگم رقیہ سخاوت حسین جیسی اور بھی بہت سی خواتین تاریخ کے صفحات میں زندہ ہیں، جنھوں نے مسلم خواتین کی تعلیم اور حقوق کے لیے اپنی خاندانی پابندیوں، روایتوں اور مجبوریوں کے باوجود آنے والی نسلوں کے لیے راہیں ہموار کیں۔ ان کے ساتھ ہی ان مردوں کے نام بھی آتے ہیں جو ان کے مددگار تھے، ان کی ہمت افزائی کرتے تھے۔لازم ہے کہ ایسے خواتین اور حضرات کی یاد گاہے گاہے تازہ کرلی جائے ۔

عذرا نقوی

19/9/17

رہبر اخبار نویسی از سیّد اخبار نویسی مبصر: علیم اللہ حالی


750 صفحات پر مشتمل سید اقبال قادری کی کتاب ’رہبر اخبار نویسی‘ صحافت سے متعلق تمام ضروری امور پر معتبر دستاویزی حیثیت کی حامل ہے۔ ابتدائی صفحات ’عرضِ مصنف ‘ کے عنوان سے مصنفِ کتاب نے صحافت کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج صحافت ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی سے قریب تر ہوچکی ہے۔ دنیا کا ایک حصہ دوسرے حصے سے اس قدر قریب ہوچکا ہے کہ ہم جب تک پوری دنیا میں ہونے والے اہم واقعات سے باخبر نہ ہوں اس وقت تک خود اپنے مسائل حل نہیں کرسکتے۔ ادھر چالیس پچاس برسوں میں ذرائع ابلاغ کی ترقی نے ہمیں دنیا بھر کے حصوں سے باخبر رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ نئے ذرائع اظہار کی تیزی سے ترقی نے ایسی صورتِ حال پیدا کردی ہے کہ ہم جب تک عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات سے باخبر نہ ہوں اس وقت تک خود اپنی جگہ پر مطمئن نہیں رہ سکتے۔ اس لیے موجودہ حالات میں جہاں وسیلہ اظہار کی نئی صورتیں سامنے آئی ہیں عالمی واقعات کی جانکاری بھی ہمارے لیے ضروری ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتِ حال میں اخبار نویسی اور صحافت کی ذمے داریاں بھی خاصی بڑھ چکی ہیں۔ آج صحافت ایک باقاعدہ ترقی یافتہ Faculty کی طرح ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے۔

صحافت کی ضرورت اور عالمی واقعات کے اثرات نے ہمیں شعوری طور پر زیادہ حساس بنا دیا ہے۔ صحافت کے فن سے وابستہ افراد جہاں نئے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کے حالات معلوم کرتے رہتے ہیں۔ وہاں ان حالات کو عام لوگوں تک منتقل کرنے کے سلسلے میں بھی صحافی کی ذمے داریاں خاصی بڑھ چکی ہیں۔ اب صحافت محض ذاتی دلچسپی کا شعبہ نہیں رہ گئی ہے بلکہ ہماری اجتماعی زندگی میں ایک ناگزیر عنصر اور دانش و آگہی کا ذریعہ بن چکی ہے۔

مصنفِ کتاب نے اپنے مختصر لیکن اہم ابتدائیہ میں الفاظ کے جہانِ معنی کو صحافت کے لیے ایک اہم عنصر بتایا ہے۔ زبانوں کے ایک دوسرے سے قریب ہونے اور آلات کی ترقیوں نے الفاظ کے معنی و مفہوم میں بھی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ حالات اور واقعات کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے بیان کرنے کے سلسلے میں صحافی حضرات کو نئے نئے الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصوں کی قربت کے نتیجے میں لسانی سطح پر بھی ایک زبان دوسری زبانوں سے غافل نہیں رہ سکتی۔ مصنف کتاب نے یہ بتایا ہے کہ ہندوستان میں بھی صحافت کاشغل خاصا قدیم ہے۔ سیاسی اور معاشرتی سطح پر نئے تغیرات سے ہمکنار کرنے میں ہماری صحافت نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مصنف نے اردو صحافت کے ارتقا کی تصویر بھی پیش کی ہے اور عہد حاضر کی اشاعتی اور طباعتی سہولتوں کے پیشِ نظر ہمیں اپنی ذمے داریوں سے بھی باخبر کیا ہے۔


پیش نظر کتاب خبر نویسی کے اہم پہلوؤں کی تفصیل پیش کرتی ہے۔ مصنف نے جو عنوانات مقرر کیے ہیں ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صحافت کے تمام ضروری امور کے سلسلے میں نہ صرف واقفیت کے حامل ہیں بلکہ انھیں عصرِ حاضر کی صحافتی ذمے داریوں کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ کتاب دس اہم ابواب پرمشتمل ہے جس کے تحت صحافت کی تاریخ، خبروں کے اقسام، خبروں کے سرچشمے، خبروں کی اہمیت کے لحاظ سے ان کی Editing، نامہ نگاری کے بنیادی اصول، اخبار میں الفاظ و املا کی درستگی، مختلف تقریبات اور تقاریر میں اہم حصوں کی تلاش، نامہ نگاری کے جدید اصول، ادبی اور اخباری تحریر کے فرق اداریہ نگاری، کالم نویسی، انٹرویو، اخبار میں تحریر کے ساتھ تصویروں کی شرکت کے اصول، اخبار نویسی کے سلسلے میں ضروری اخلاقی قانونی امور، مختلف صحافتی انجمنوں کا تعارف، اخبارات میں ضروری اصطلاحات کا استعمال— غرض صحافت کے حوالے سے آج کی ترقی یافتہ دنیا کے تمام ضروری امور کے ساتھ یہ کتاب خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے اسے شائع کرکے اگر ایک طرف صحافت کے پیشے سے منسلک افراد کے لیے ایک وقیع ہدایت نامہ پیش کردیا ہے تو دوسری طرف بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے بھی یہ کتاب کافی اہمیت کی حامل ہے جو اخبارات کے ذریعے تمام عالمی امور کی آگہی کو اہم سمجھتے ہیں۔
مبصر: علیم اللہ حالی

مصنف : سید اقبال قادری

صفحات:751، 
قیمت:260 روپے،
 سنہ اشاعت: 2016
ناشر:قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی


اگر آپ اس کتاب کوخریدنا چاہتے ہیں تو مندرجہ ذیل پتے پر رابطہ کریں:

شعبۂ فروخت: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،ویسٹ بلاک8، وِنگ 7،آر کے پورم، نئی دہلی۔110066
ای میل:  sales@ncpul.in, ncpulsaleunit@gmail.com
فون: 26109746-011
فیکس: 26108159-011
                                 
کونسل کی دیگر ادبی کتابوں کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں۔
http://urducouncil.nic.in/E_Library/urduBooks.html   

18/9/17

میر تقی میر از نثار احمد فاروقی :مبصر: :اسماء


میرشناسی کے باب میں نثار احمد فاروقی نہایت اہم نام ہے۔ میر تقی میر:شخصیت و فن کے حوالے سے اس کتاب کی اہمیت اس لیے دوبالا ہو جاتی ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ میر کے مستند حالاتِ زندگی کو نہایت اختصارو جامعیت اور زمانی تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور میرکے فن اور تصانیف پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے کہ تمام پہلوؤں کا احاطہ ہو سکے۔ساتھ ہی اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ اس میں تنقیدی پہلو کم سے کم ہوں تاکہ کتاب کا مقصد مکمل طور پر واضح ہو سکے اور بچوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم ہو سکیں۔ جس کا اظہار کتاب کے ابتدائیہ میں صاحب کتاب اس طرح کرتے ہیں کہ ”اس کتاب کا مقصد تنقید نہیں تعارف ہے ۔

کتاب کا پہلا باب ’سوانح حیات ‘ کے عنوان سے ہے جس میں 60 ذیلی عناوین شامل ہیں۔اس کے ذریعہ مصنف نے میر کے ابتدائی حالات، خاندان، آبا و اجداد، پیدائش،تعلیم و تربیت، ملازمت، ترک ملازمت، مختلف اسفار، دہلی پر حملوں کی روداد،میرکے آخری ایام کے حالات اور تصنیفات و تالیف (جس میں غزل، قصیدہ ،مثنوی ،تذکرہ،آپ بیتی ،دواوین اردو و فارسی) وغیرہ پر اس انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ میر سے متعلق تمام اہم گوشوں، واقعات وحالات تک بآسانی رسائی ہو جاتی ہے اور اس وقت کے سماجی و سےاسی پس منظر سے بھی آگاہی ہو تی ہے۔ مصنف نے فرداً فرداً میر کی تقریباً تمام تخلیقات کا ایک دو پیراگراف میں جائزہ لینے کی بھی سعی کی ہے۔

کتاب کا دوسرا باب ’میر کا فن ‘ کے عنوان سے 16 صفحے پر مشتمل ہے جس میں موصوف نے میر کے فن پر بحث کرتے ہوئے ان کی غزل گوئی کے مختلف پہلوؤں اور جہات کو اجاگر کیا ہے ساتھ ہی میر کے اہم اور مشہور اشعار کی تشریح کرتے ہوئے اپنی تنقیدی آرا سے بھی قارئین کو روشناس کرایا ہے۔ مثلاًمیر کے فن پر گفتگو کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں : ”ہمارے شعرائے متقدمین میں اکثریت ایسے شاعروں کی ہے جنھوں نے شاعری کو ایک فن یا صناّعی سمجھ کر برتا ہے۔ میر تقی میر نے شعر کو فن تو سمجھا ہے لیکن اپنی ذات کے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے جس کے پردے میں اپنی آپ بیتی اور محسوسات بیان کرتے رہے:
کیا تھا شعر کو پردہ سخن کا
وہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا

 میرکی توجہ شعر کی ہیئت اور اس کی معنویت دونوں پر رہتی ہے جس کا اظہار میر کے مختلف شعر سے بھی ہوتا ہے۔ نثار احمد فاروقی نے میر کے فن پر اشعار کی حوالے اوران کی تشریح و تحلیل کے توسط سے میر کی فن کارانہ عظمت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کے اسلوب فن کی خوبیوں کو سراہتے ہوئے انھیں ’لفظوں کا مصور‘ بھی تسلیم کیا ہے۔ میرکی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے مصنف نے میر کی شعری کائنات، اسلوب بیان، الفاظ و تراکیب، زبان و بیا ن اور شخصی کیفیتوں کو اس خوبی سے برتا ہے کہ وہ پورے ماحول کا آئینہ بن کر ہمارے سامنے آتی ہے جس سے میر کی شخصیت اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ نما ہوتی ہے۔

 خدائے سخن میر تقی کا شمار بنیادی طور پر غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے شاعری کی تقریباً تمام اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی شہرت کا ایوانِ بلند غزل کے کیف آور اشعار پر قائم ہے جنھیں تیر و نشتر سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ میرکے فن نے اردو شاعری میں ان بلندیوں تک رسائی حاصل کر لی ہے جہاں تک کم ہی شاعروں کی پہنچ ممکن ہے۔یہی سبب ہے کہ خود مرزا غالب جیسے عظیم شاعر نے بھی میر کی استادانہ عظمت اور فنکارانہ صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں’ریختہ کا استاد‘ تسلیم کیا ہے۔ وہیں خاقانیِ ہند محمد ابراہیم ذوق نے میر کے کمالِ فن کو اس طرح سراہا ہے:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

اسی طرح میر کی عظمت کے معترف نواب مصطفی خان شیفتہ نے میر کے حوالے سے جو بھی کہا وہ لفظ و معنی دونو ں اعتبار سے قابل تسلیم ہے کہ:”میر جیسے عظیم فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے “۔ کتاب کا تیسرا اور آخری باب ’انتخاب کلامِ میر ‘کے عنوان سے تقریباً102 صفحات پر مشتمل میر کے دیوانِ اوّل کی غزلیات کے ایک نمائندہ انتخاب پر مبنی ہے جس مےں میر کی غزلیں اپنے مختلف موضوعات و اسالیب کے ساتھ اپنی اہمیت و انفرادیت کا احساس دلاتی ہیں۔ اس حصے میں ایسی غزلوں کو منتخب کیا ہے جو عام فہم اور سلاست سے پر ہیں جس میں روانی، سادگی اورلطافت پائی جاتی ہے۔
چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
چلتے ہو تو چمن کو چلیے ،سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں،پھول کھلے ہیں،کم کم بادو باراں ہے

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا ،اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

آخر میں کتابیات کے عنوان سے ان کتابوں کی فہرست شامل ہے جو کتاب کی تیاری میں ممدو معاون ثابت ہوئی ہیں اور جس کا مقصد طالب علم کے لیے مزید تفصیلی مطالعے کا باعث ہے۔

بحیثیت مجموعی یہ کتاب میر اور ان کی شخصیت و فن کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

مبصر:اسما، ریسرچ اسکالر، شعبہ اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

کتاب : میر تقی میر
مصنف:نثاراحمد فاروقی
صفحات:191، قیمت: 43 روپے
ناشر:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،نئی دہلی

اگر آپ اس کتاب کوخریدنا چاہتے ہیں تو مندرجہ ذیل پتے پر رابطہ کریں:

شعبۂ فروخت: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،ویسٹ بلاک8، وِنگ 7،آر کے پورم، نئی دہلی۔110066
ای میل sales@ncpul.in, ncpulsaleunit@gmail.com
فون: 26109746-011
فیکس: 26108159-011


11/9/17

محمد قلی قطب شاہ کے عہد کے قلمی آثار: خدا بخش لائبریری میں از محمد ذاکر حسین


تاریخ نویسوں نے عام طور پر کسی عہد کا تجزیہ اس وقت کے سیاسی، سماجی، معاشرتی، تمدنی اور اقتصادی حالات کو پیش نظر رکھ کر کیا ہے۔ علمی اور ادبی حالات کی جانب ان کی توجہ کم ہی رہی ہے۔ کسی نے اس کو قابل اعتنا سمجھا بھی تو وہ اس قدر دھندلے ہیں کہ اس سے اس دور کے علمی و ادبی حالات کی سچی تصویر پیش نہیں کی جا سکتی۔ ہر دور کی تاریخی کتابوں کی کم و بیش یہی کیفیت ہے۔ حالاں کہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ علم ہی کی بدولت حکومتیں ارتقا کے منازل طے کرتی ہیں اور یہی ان کے عروج کی راہیں بھی ہموار کرتی ہیں اور اسی کی روشن شعاعوں سے تمام دریچے از خود  وَا بھی ہوتے ہیں۔ جس عہد اور سماج پر علم کی خاص مہربانیاں رہی ہیں، وہی عہد اور سماج آج ہماری تاریخ کا زرّیں باب ہے اور وہی دور ہمارے لیے مشعل راہ ہے، جس نے اپنے علمی اکتشافات و اختراعات سے زمانے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔

قطب شاہی دور کے مورخوں نے بھی اپنا سارا زورِقلم فتوحات، کشورکشائی اور عشق و معاشقے کی داستان سرائی میں صرف کیا ہے۔ جب کہ مغل حکمرانوں کی طرح اس خاندان کے حکمراں بھی رزم و بزم دونوں کے مرد میداں تھے۔ اس خاندان کے بانی سلطان قلی قطب شاہ(924ھ / 1518۔949ھ/1543) کو ان کی علمی لیاقت اور جنگی مہارت کی وجہ سے محمود شاہ بہمنی کے دربار سے صاحب سیف و قلم کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت جنگ و جدال اور استحکام حکومت میں گزرا۔ اس کے باوجود اس نے علم و ادب کی سرپرستی کی طرف خاص دھیان دیا اور علمی و ادبی ماحول کو سازگار بنانے کی غرض سے آش خانہ کے نام سے ایک محل تعمیر کروایا، جہاں باقاعدہ ادبی مجلسیں آراستہ کی جاتی تھیں اور کبھی کبھی خود بھی اس میں شریک ہوتا تھا۔ جمشید قلی (949ھ/ 1543۔957ھ/1550) بھی علم و ادب کا بڑا قدردان تھا اور خود بھی فارسی میں طبع آزمائی کیا کرتا تھا۔ احمد شریف وقوعی اس کے دربار کا ملک الشعرا تھا۔ ابراہیم قلی قطب شاہ (957ھ/1550۔988ھ/1580) گرچہ خود شاعر نہیں تھا لیکن علم و ادب سے متصف تھا۔ اردو، فارسی اور عربی شعرا کے ساتھ ساتھ اس نے تلگو فنکاروں کی بھی ہمت افزائی کی۔ اس اعتبار سے وہ تلگو زبان کا پہلا مربی ہے۔ وہ علم و ادب کا اتنا شوقین تھا کہ سفر وحضر میں علما و فضلا کے علاوہ کتابوں سے بھرے ہوئے صندوق بھی اس کے ساتھ ہوتے تھے۔

محمد قلی قطب شاہ (988ھ/1580۔ 1020ھ/ 1611) کے دور حکومت سے قبل ہی گولکنڈا علم و ادب اور تہذیب و تمدن کی شناخت بن چکا تھا۔ علم نوازی، ادب پروری اور اہل کمال کی قدردانی کی جو شاندار روایت اسے ورثے میں ملی، وہ نہ صرف برقرار رہی بلکہ اور مستحکم ہو گئی۔ مورخوں نے ایک رنگین مزاج عاشق کے طور پر اس کا تعارف کرایا ہے۔ اس کی شخصیت کے اس پہلو کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے کہ اس کی دوسری خوبیاں دھندلی پڑ گئی ہیں، لیکن خوبیاں سات پردے سے نکل کر باہر آجاتی ہیں۔ اگر مورخوں کی یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے تو اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہ ایک مدبر اور ماہر سیاست داں تھا اور علم کے بغیر تدبر اور مہارت کا تصور ذرا محال ہے۔ قرائن بتلاتے ہیں کہ علم کی آبیاری، فن کی قدردانی اور ادب کی سرپرستی اس کی زندگی کا خاص مشن تھا۔ چوں کہ خود اردو، فارسی، تلگو اور سنسکرت زبانوں سے نہ صرف واقف تھا بلکہ سنسکرت کے علاوہ بقیہ تینوں زبانوں میں طبع آزمائی بھی کیا کرتا تھا۔ اس لیے اس کا دربار مختلف زبانوں کے عالموں، فاضلوں، شاعروں اور ادیبوں کا مرکز بن چکا تھا۔ خاص طور پر بیرونی ممالک کے دانشوروں کے لیے یہ عہد کشش کا سبب بن گیا تھا۔

کتابوں سے محبت اور کتب خانوں سے دلچسپی محمد قلی قطب شاہ کواپنے اجداد سے وراثت میں ملی تھی۔ اس وراثت کی حفاظت اور اس میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے مقصد سے اس نے خط نسخ، ثلث اور نستعلیق کے ماہر خوش نویسوں کو ایران وعراق سے اپنے دربار میں مدعو کیا تھا۔ ان فنکاروں کی موجودگی سے اس فن کو جنوبی ہند میں کافی فروغ ملا۔ ان خطاطوں میں صرف بابا خان اور اسمعیل بن عرب شیرازی کے نام تذکروں میں ملتے ہیں۔ فن مصوری(Painting)کو بھی دکنی دبستان کی حیثیت سے اسی دور میں پہچان ملی۔ سالار جنگ میوزیم میں محفوظ دیوان محمد قلی قطب شاہ دکنی مصوری کا بہترین نمونہ ہے۔ علم طب پر بھی اس دور میں خصوصی توجہ دی گئی۔ مریضوں کے علاج اور طب یونانی کے طالب علموں کو تعلیمی سہولتیں مہیا کرانے کے لیے 1004ھ/ 1595 میں ایک دو منزلہ عمارت کی بنیاد ڈالی گئی، جس میں بیک وقت چار سو مریضوں کے قیام اور طب یونانی کے طالب علموں کی تعلیم کا انتظام تھا۔ مختلف امراض کے ماہر طبیبوں اور حکیموں کو علاج اور تعلیم کے لیے مامور کیا گیا تھا۔ ان طبیبوں اور حکیموں نے صرف علاج اور تعلیم تک ہی خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ انھوں نے اپنے تجربات اور تشخیصات کو کتابی شکل میں بھی پیش کیا۔ حکیم محمد علی حسینی کی ’اختیارات قطب شاہی‘ اور حکیم صفی الدین جیلانی کی ’تذکرة الشہوة‘ اس سلسلے کی بہترین مثالیں ہیں۔ محمد قلی قطب شاہ کے قصائد میں فلکیات کی اصطلاحوں کی موجودگی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ اسے اس فن سے بھی لگاو تھا۔ اس کی روشنی میں یہ بات حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ فلکیات کے ماہرین بھی اس کے دربار میں موجود تھے۔ لیکن تاریخ و تذکرے اس باب میں بالکل خاموش ہیں۔ ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد قلی قطب شاہ کے دربار میں ہزاروں اہل علم و فن اپنی قابلیت کے جوہر دکھا رہے تھے اور اس طرح وہاں بھی علم و ادب کا ایک انمول خزانہ جمع ہو گیا تھا۔ اس دور میں علم اور تہذیب، مصوری و نقاشی اور دیگر علوم و فنون خوب ترقی کر گئے۔ اورنگ زیب کے زمانے میں جب دکن فتح ہوا تو قطب شاہی کتب خانوں کی بیش تر کتابیں مغلوں کے شاہی کتب خانے میں جمع ہو گئیں۔

1857کے ہنگامے میں جب مغلوں کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو اس افرا تفری کے ماحول میں جب کوئی کسی کا پرسان حال نہ تھا اور چاروں طرف لوٹ مچی ہوئی تھی، عمارتیں زمیں بوس ہورہی تھیں۔ اس کے نتیجے میں شاہی کتب خانوں کی قیمتی کتابیں بھی تتر بتر ہونے لگیں۔ ہندوستان کے پانچ چھ سو برسوں کا علمی خزانہ، ہمارے عالموں اور پنڈتوں کی کمائی شاہی کتب خانوں میں جمع تھیں۔ لیکن جب 1857 کی جنگ آزادی میں ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان تصادم ہوا تو یہ انمول خزانہ ہاتھوں ہاتھ لٹ گیا۔ کچھ عرصے بعد جب لوگوں کے اوسان بحال ہوئے اور خوف و ہراس کا ماحول بدلا تو ہندوستان کے تین نامور سپوتوں نے اس انمول خزانے کو پھر سے اکٹھا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان میں سے دو یعنی نواب سالارجنگ اور نواب رام پور اپنی ریاست کے سپید و سیاہ کے مالک تھے اور تیسرا صوبۂ  بہار کا ایک وکیل خدابخش خاں، جن کے پاس نہ ریاست تھی اور نہ مال و دولت صرف علم کی چاہ اور اپنی ہمت کے بل پر اس میدان کار زار میں معرکہ آرائی کے لیے کود پڑے۔ آخر کار وہ ان سے سبقت لے گئے۔ یہ خدابخش کے خلوص اور نیک نیتی کا ہی ثمرہ ہے کہ ان کی لائبریری میں ہندوستان کے اکثر شاہی کتب خانوں کی بےشتر کتابیں موجود ہیں۔ مغلوں کے شاہی کتب خانے میں لگ بھگ 4300 کتابیں تھیں، تقریباً وہ ساری کتابیں مختلف ذرائع سے خدابخش خاں کو حاصل ہوگئیں۔ اس کے علاوہ عادل شاہی، قطب شاہی، نظام شاہی اور اودھ کے شاہی کتب خانے کی کتابیں بھی اس لائبریری کی زینت ہیں۔

حیدرآباد اور خدابخش لائبریری کا تعلق اسی زمانے سے قائم ہے جب کتابیں جمع کرنے کے شوق میں خدابخش خاں ہندوستان بھر کی سیاحت کررہے تھے۔ اسی تعلق سے انھوں نے حیدرآباد کا بھی سفر کیا تھا یہ تعلق 1895 میں مزید خوشگوار ہوا جب وہ چیف جسٹس کی حیثیت سے حیدرآباد تشریف لائے اور حمایت نگر کلب کو اپنا مسکن بنایا۔ 1898 تک وہ اس عہدے پر فائز رہے۔ اس وقت کا ایک واقعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ خدابخش خاں حیدرآباد کے قیام کے دوران ایک دن جب عدالت سے واپس ہورہے تھے تو ایک کباڑی کے پاس پرانی کتابوں کا ایک بنڈل دیکھا۔ انھوں نے اس سے بنڈل کی قیمت پوچھی۔ کباڑی نے انھیں غور سے دیکھا اور ان کی وضع قطع اور بولنے کے انداز سے سمجھ گیا کہ وہ بڑے آدمی ہیں۔ چناں چہ وہ بولا  ویسے تو ہم اسے دو تین روپے میں بیچتے لیکن جب آپ لے رہے ہیں تو یقیناً یہ کوئی قیمتی کتاب ہے۔ اس لیے میں 20روپے لوں گا۔ خدابخش نے اس کو 20 روپے میں خرید لیا۔ دراصل اس بنڈل میں عربی تاریخ  کی نادر کتابیں تھیں، جنھیں بعد میں نظام حیدرآباد نے 400 روپے میں اسے خریدنا چاہا لیکن انھوں نے فروخت نہیں کیا۔ برٹش میوزیم نے بھی اس نادر و نایاب ذخیرے کو خریدنا چاہا لیکن انھوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ”میں ایک غریب آدمی ہوں اور برٹش میوزیم میرے ذخیرے کے لیے جو رقم دے رہی ہے وہ شاہی قیمت ہے۔ لیکن میں صرف پیسے کے لیے اپنا ذخیرہ انھیں کیسے دے دوں۔ یہ میرے اور میرے والد کی زندگی بھر کی کمائی ہے۔ یہ ذخیرہ پٹنہ کے لیے ہے اور میں یہ تحفہ اپنے باشندگان پٹنہ کو ہی پیش کروں گا۔ ان دونوں واقعات سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ کتابوں سے خدابخش کو کتنا پیار اور کتنا لگاو تھا۔

محمد قلی قطب شاہ اور خدابخش خاں کے مابین دوباتوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ محمد قلی قطب شاہ کی طرح خدابخش خاں کو بھی کتابوں سے بڑی دلچسپی تھی۔ دوسری یہ کہ جس طرح محمد قلی قطب شاہ کو کتابیں اپنے والد ابراہیم قطب شاہ سے وراثت میں ملی تھیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ابراہیم قطب شاہ سفر وحضر میں کتابوں سے بھرا ایک صندوق اپنے ساتھ رکھتا تھا یقینی طور پر وہ کتابیں اس کو ملی ہوں گی اور اس سلسلے میں نصیحت بھری باتیں بھی ہوئی ہوں گی۔ خدابخش کو بھی اپنے والد محمد بخش سے کتابوں کے ساتھ نصیحت بھی ملی تھی کہ اس ذخیرے کو آگے بڑھانا ہے۔ دونوں اپنے مقصد میں کامیاب و کامران بھی ہوئے۔ اسی مماثلت کا نتیجہ ہے کہ اس دور کے علما، ادبا، شعرا کی تخلیقات میں سے چند اس لائبریری کی زینت ہیں۔ ویسے تو محمد قلی قطب شاہ کے دور حیات میں جو973ھ/ 1565 سے 1020ھ/1611 تک محیط ہے، پوری دنیا میں جو کتابیں تصنیف کی گئیں یا جن کی کتابت ہوئی، ان میں سے تقریباً 400 عربی و فارسی کے مخطوطات خدابخش لائبریری میں محفوظ ہیں اور یہ مخطوطات کتب سماوی، تجوید و قرأت، تفسیر، اصول حدیث، حدیث، اصول ِفقہ، فقہ، عقائد، مواعظ، ادعیہ، صرف، بلاغت، لغت، ادب، حکمت، منطق، ریاضیات، نجوم، طب، بیطرہ، تاریخ، سیرت، تذکرہ، جغرافیہ، فرائض، تصوف، شاعری، اخلاقیات، ہئیت، قصص، معمیات اور مناظرہ جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان 400 مخطوطات کو محمد قلی قطب شاہ کے دور سے منسلک کرنا علمی دیانت داری کے خلاف ہوگا کیوں کہ ان میں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہے، جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ مخطوطے اسی دور میں لکھے گئے۔ لیکن اس سے یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں علم و ادب اور فکر و فن کی کتنی زر خیز آبیاری ہورہی تھی اور کس اعلی پیمانے پر علم کی نہریں اپنی پوری روانی کے ساتھ جاری تھیں۔ البتہ چند مخطوطات میں ایسے قرینے موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ محمد قلی قطب شاہ اور دوسرے قطب شاہی حکمراں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا ایک مختصرجائزہ ذیل میں پیش کیا جارہاہے:

(1) انوار العقول من اشعار وصی الرسول (HL.1749):
یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ (وفات 40ھ/660) کا شعری مجموعہ ہے۔ اس کو ایک شیعہ عالم قطب الدین ابوالحسن سعید بن ھبة اللہ الراوندی (وفات 375ھ/ 1177) نے متعدد کتابوں کے مطالعے کے بعد ان اشعار کو جمع کیا اور حروف تہجی کے اعتبار سے اسے مرتب کیا۔ مرتب نے اپنے مقدمے میں یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یقینی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ حضرت علی ؓ کے سارے اشعار اس دیوان میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس کے نسخے متعدد کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ 1745 میں پہلی بار یہ کتاب لنڈن سے شائع ہوئی۔ اس وقت سے اب تک اس کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ خدابخش لائبریری کا یہ نسخہ 858ھ/1454 کا مکتوبہ ہے جسے زین العابدین بن محمد الکاتب نے لکھا ہے۔ ترقیمہ کی عبارت ہے :
کتبہ زین العابدین بن محمد الکاتب عفا اللہ عنھما فی حجة ثمان و خمسین و ثمان مأة الھجریة۔

یہ مخطوطہ قطب شاہی حکومت کے زوال اور عالمگیری سلطنت کے عروج کا عینی شاہد بھی ہے۔ ابتدائی صفحے پر محمد قلی قطب شاہ اور اورنگ زیب کی مہریں اس زوال و عروج کی داستان بیان کرتی ہےں۔ اس کے علاوہ چند مہریں اور بھی ہیں جو اس مخطوطے کے سفر کی روداد پیش کرتی ہیں۔ سید مسعود احمد رضوی نے اپنے مضمون ”قطب شاہوں کی مہریں اور دستخط“ میں سالار جنگ میوزیم میں موجود دیوان علیؓ کے ایک نسخے کی نشاندہی کی ہے۔ یہ نسخہ 918ھ کا مکتوبہ ہے جس پر ابراہیم قلی قطب شاہ، محمد قلی قطب شاہ اور محمد قطب شاہ کی مہریں ثبت ہیں۔ لیکن انھوں نے خدابخش کے اس نسخے کا ذکر نہیں کیا ہے حالاں کہ خدابخش کا نسخہ سالارجنگ میوزیم کے نسخے سے 60 سال پرانا ہے۔ یہ دونوں نسخے اس وقت کے ہیں جب قطب شاہی سلطنت وجود میں نہیں آئی تھی۔ یہ اس بات کے ثبوت ہیں کہ قطب شاہی حکمراں نہ صرف کتابیں لکھواتے تھے بلکہ پہلے سے لکھی ہوئی کتابوں کو مختلف ذرائع سے حاصل بھی کرتے تھے۔ اس مخطوطے پر17 مہریں ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہیں:

سرورق (1): (1) سید جعفرحسین ولد سید مہدی حسین ؟؟12، (2)ضیاحسین خان 1245ھ،(3) علی نقی 1138ھ (4) عالمگیر شاہی (5) خدارازق واحمد شفیع است 1114ھ

سرورق(2): (6) محمد خلیل اللہ بن نعمت اللہ المستعین بالغنی (7)ناخواندہ (8)ضیاحسین خان 1245ھ (9) سید جعفرحسین ولد سید مہدی حسین ؟؟12، (10) شیر داد خان (11) ناخواندہ (12) شہی کہ نقش نگیں مہر حب آل مقیم بود سپہر کرم قطب شاہ ابراہیم(13) ملک جہاں مرا کہ بزیرنگیں شدہ از حکم بادشاہ جہاں آفریں شدہ العبد محمد قلی قطب شاہ(14)مہرسلیماں زحق گشتہ میر مرا، نقش نگیں دل است حیدر صفدر مرا، العبد محمد قطب شاہ

آخری ورق:(15)خدارازق واحمد شفیع است 1114ھ (16) سید جعفرحسین ولد سید مہدی حسین ؟؟12،     (17) ضیا حسین خان 1245ھ،

خدا بخش کے توضیحی فہرست نگار نے ان مہروں کی تفصیل نہیں پیش کی ہے اور صرف یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے ہیں کہ ان میں متعدد مہریں ہیں، جن میں محمد قلی قطب شاہ اور اورنگ زیب کی بھی ہیں۔

(2)غنیة الحساب فی علم الحساب(HL 2023)
عربی زبان میں علم حساب پر یہ خدابخش لائبریری کا ایک اہم اور نادر نسخہ ہے۔ چھٹی صدی ہجری کے ایک ماہر ریاضی داں ابوالعباس احمد بن ثابت قاضی الھمامیہ کے تالیف کردہ اس نسخے کی کتابت تاج بن حسن بن محمد الکرمانی نے 786ھ میں کی۔ 85 اوراق پر مشتمل یہ مخطوطہ حساب کی مختلف شاخوں کا احاطہ کرتا ہے، جیسے باب الضرب (Multiplication)، باب القسمة (Division)، باب النسبة(Percentage)، باب استخراج الجذور (Fraction)، کتاب المعاملات(Commercial Mathematics)، کتاب المساحة(Measurements) اور باب الحفور

اس مخطوطے کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کی دوسری کاپی دنیا کے کسی بھی ذخیرے میں دستیاب نہیں ہے اور دوسری بڑی خصوصیت ہے کہ یہ قطب شاہی حکمرانوں کے دربار کی سیر بھی کرچکا ہے۔ سر ورق پر ابراہیم قلی قطب شاہ، محمد قلی قطب شاہ اور محمد قطب شاہ کی مہریں اس کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ ان مہروں کی عبارت وہی ہے جو انوار العقول فی اشعار وصی الرسول میں ہے۔ اس کے علاوہ محمد عاقبت اللہ مورخہ 1107ھ کی بھی مہر ہے لیکن واضح نہیں ہے۔ خدا بخش کے توضیحی فہرست نگار نے صرف محمد قطب شاہ کی مہر کی نشاندہی کی ہے۔ ایک تحریر ’از عبد القادر صحاف‘ بھی سرورق پر مرقوم ہے۔ صحاف کاغذ ساز کو کہتے ہیں۔ گویا اس مخطوطے کا کاغذ عبد القادر کے ہاتھوں کا بنا ہوا ہے۔

(3) فلک البروج(HL 658):
میر محمد امین شہرستانی روح الامین فارسی کا مشہور شاعر ہے۔محمد قلی قطب شاہ کے دربار کی شہرت سن کر 1010ھ یا 1013ھ میں وہ گولکنڈا آیا اور بادشاہ کے دربار سے منسلک ہو گیا۔اس کی قابلیت کی وجہ سے بادشاہ اسے بہت عزیز رکھتا تھا اور میر جملہ کے خطاب سے سرفراز بھی کیا تھا۔ بادشاہ کی عنایتوں سے متاثر ہو کر اس نے اپنی مثنوی لیلی مجنوں کو بادشاہ کے نام سے معنون کیا۔ فلک البروج اس کی دوسری مثنوی ہے، جو نظامی گنجوی کے تتبع میں لکھی گئی۔ یہ مخطوطہ 191 اوراق پر محتوی ہے۔ سنہ کتابت مذکور نہیں ہے البتہ غالب گمان ہے کہ یہ 17ویں صدی عیسوی میں لکھی گئی۔ شاعر نے مقدمہ میں حمد و ثنا کے بعد اپنے مربی محمد قلی قطب شاہ کی عنایتوں کا دل کھول کر اظہار کیا ہے۔ وہ اس مثنوی کو اس کے نام سے منسوب کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ابھی یہ تکمیل کے مرحلے میں تھی کہ بادشاہ کی وفات ہو گئی۔ اس سے شاعر کو بڑا صدمہ پہنچا اور اپنی بے چارگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
بہ اوج شرف فتاد بہ چاہ
رفت سوی بہشت بادشاہ

جب یہ مثنوی1021ھ/ 1612 میں پایہ تکمیل کو پہنچی تو اس نے اس کو محمد قطب شاہ کے نام معنون کیا:
گشت یک بیست چون فزود بہ ہزار
شد مکمل چو چرخ این گلزار

لیکن محمد قطب شاہ کے دربار میں اسے وہ اہمیت نہ ملی جو محمد قلی قطب شاہ کے دربار میں حاصل تھی۔ آخرکار قطب شاہی سلطنت کو خیرباد کہہ دیا۔ اس مثنوی کو فلک البروج کے علاوہ آسمان ہشتم اور گلستان ناز کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے:
این کتاب مستطاب بفلک البروج موسوم گشت(4ب)
شد چون این کاخ سر بلند تمام
کردمش آسمان ہشتم نام (182ب)

(4) شرح الشمسیةالحساب(HL2018):
ابو اسحق بن عبد اللہ نے 963ھ میں گولکنڈا میں اس کتاب کو مرتب کیا اور اسے وہاں کے ایک امیر عبد الکریم کے نام معنون کیا۔ جس زمانے میں یہ کتاب لکھی گئی وہ ابراہیم قلی قطب شاہ کا دور تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر عبد الکریم اس کے دربار سے منسلک تھا۔ چونکہ اس کتاب میں کوئی مقدمہ نہیں ہے، اس لیے بہت ساری باتوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ اگر سر ورق پر مصنف کی یہ تحریر نہیں ملتی” شرح الشمسیة الفہ اضعف عباد اللّٰہ ابو اسحق بن عبد اللّٰہ عفی عنھما“ تو مصنف کے نام سے بھی واقف ہونا مشکل تھا۔ یہ تحریر اس حقیقت سے بھی آشنا کراتی ہے کہ زیر بحث مخطوطہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ ترقیمہ سے واضح ہوتا ہے کہ بہت کم وقت میں یہ کتاب لکھی گئی:
قد تمت ھذہ النسخة و اکملتھا علی سبیل الاستعجال... من شھر شوال فی( سنة ثلاث و ستین و تسع مأة)۳۶۹ فی بلدة گولکندا من اعمال تلنگ...

سر ورق کی ایک تحریرسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مخطوطہ کسی زمانے میں گجرات کی نظامیہ محمودیہ لائبریری کی ملکیت میں تھا۔ 168 اوراق پر مشتمل یہ مخطوطہ عربی زبان میں علم حساب کے موضوع پر ہے۔ چوں کہ اس کی تصنیف گولکنڈا میں ابراہیم قلی قطب شاہ کے دور میں ہوئی، اس لیے غالب گمان ہے کہ محمد قلی قطب شاہ کی نظروں سے بھی یہ مخطوطہ گزر چکا ہوگا۔
یہ چاروں وہ مخطوطات ہیں جو کسی نہ کسی طور پرمحمد قلی قطب شاہ کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ چند مخطوطات ایسے بھی ہیں جو محمد قطب شاہ اور عبد اللہ قطب شاہ کے دور کے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے:

(5) دیوان حافظ(HL 320):
 دیوان حافظ کے متعدد نسخے خدا بخش لائبریری میں موجود ہیں۔ لیکن یہ نسخہ اس لائبریری کے نادر ترین نسخوں میں شامل ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ محمد قطب شاہ کی فرمائش پر محمد حسن کاتب نے 1020ھ/1611 میں اس کی کتابت کی۔ ابتدا میں کاتب کی یہ تحریر ملتی ہے:
”دیوان خواجہ حافظ تمام شد در کتاب خانہ عامرہ بخط محمد حسن کاتب بتاریخ اوائل ماہ جمادی سنہ ۱۰۲۰  در دار السلطنت حیدرآباد... الخالص لمولاہ سلطان محمد قطب شاہ“
کاتب کی اس عبارت کے نیچے محمد قطب شاہ کی مہر ہے۔ یہ مخطوطہ262 اوراق پر مشتمل ہے۔

(6) تاریخ سلطان محمد قطب شاہی (HL 165):
سلطان محمد قطب شاہ(1020/ 1611۔ 1053/ 1625) سے قبل ” تاریخ قطب شاہی و سایر سلاطین دکن و محاربات او“ کے نام سے قطب شاہی دربار سے منسلک (یکی از چاکران این دربار) کسی مورخ نے اس تاریخ کو مرتب کیا تھا۔ چوں کہ یہ ضخیم تھی اس لیے محمد قطب شاہ نے اپنے دربار کے مورخ کو حکم دیا کہ اس سے قطب شاہی سلطنت کی ایک مختصر تاریخ مرتب کی جائے۔ خاتمہ میں ایک عبارت ہے:
این مختصر کہ اواخر شعبان سنة ست و عشرین و الف و اوائل بیست و ہفتم از عمر شریف حضرت ظل الٰہی قریب شش سال است...

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ابتدا 1026ھ کے آخری شعبان میں ہوئی اور اختتام 1027ھ/1617 کے اوائل میں ہوا۔ اس کتاب کو ایک مقدمہ، چار مقالے، اور ایک خاتمہ میں منقسم کیا گیا ہے۔ مقدمہ میں امیر قرا یوسف ترکمان اور اس کی اولاد کا ذکر ہے۔مقالہ اول میں قلی قطب الملک، مقالہ دوم میں جمشید قطب الملک اور سبحان قلی، مقالہ سوم میں ابراہیم قطب شاہ، مقالہ چہارم میں محمد قلی قطب شاہ اور خاتمہ میں 1025/1616 تک محمد قطب شاہ کی تاریخ ہے۔ اسی خاتمے میں مصنف نے لکھا ہے کہ اگرقسمت نے یاوری کی تو اس دور کی بقیہ تاریخ بھی مرتب کروں گا۔ قسمت نے یاوری کی یا نہیں اس کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔ اس مخطوطے میں محمد قلی قطب شاہ کی چار فارسی غزلیں موجود ہیں۔ 313 اوراق پر مشتمل اس مخطوطے کی کتابت 1171ھ میں ہوئی۔

(7) دیوان اثیر اومانی(HL305):
اثیر الدین عبد اللہ اومانی (وفات665ھ/ 1266) نصیر الدین طوسی(672ھ/1273)کے شاگردوں میں عربی و فارسی کے ایک مشاق موزوں طبع تھے۔ کمال اصفہانی اور مجد ہمگر جیسے ممتاز شعرا  اس کے ہم عصر تھے۔شاعر کردستان کے حکمراں سلطان سلیمان سے بہت متاثر نظر آتا ہے کیوں کہ اس نے اپنے دیوان میں شاہ کردستان کی خوب مدح سرائی کی ہے۔ خدا بخش کا یہ نسخہ1015ھ کا مکتوبہ ہے ۔ترقیمہ کی عبارت ہے:
تمام شد دیوان اثیر الدین اومانی رحمہ اللہ علیہ در تاریخ شہر شوال۱۰۱۵ھ(سنة خمس عشرة و الف)

آخری صفحے پر ایک اور تحریر ملتی ہے:
بابت تحفہ آوردہ میر شاہ محمود شہور سنة ثلاث (و) عشر(ین) (و) الف بتاریخ بیست و چہارم شہر صفر 1023ھ

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ1023ھ میں میر شاہ محمود نے اس وقت کے قطب شاہی حکمراں کو تحفے میں پیش کیا تھا۔اس مخطوطے کی خصوصیت یہ ہے کہ سر ورق پر تین مہریں موجود ہیں۔ پہلی میر نجات قلی خاں مورخہ 1150ھ، دوسری محمد قطب شاہ اور تیسری عبد اللہ قطب شاہ کی ہیں۔ محمد قطب شاہ کی مہر کی وہی عبارت ہے، جو انوار العقول فی اشعار وصی الرسول اور غنیة الحساب میں ہے۔ البتہ عبد اللہ قطب شاہ کی مہر میں جو عبارت درج ہے، وہ ان مہروں سے الگ ہے جو سید مسعود احمد رضوی نے اپنے مضمون میں تحریر کیا ہے۔ مہر کی مکمل عبارت ہے:
انی عبد اللّٰہ آتانی الکتاب بندہ شاہ ولایت قطب شاہ۔

خدا بخش کے کیٹلاگر نے صرف عبد اللہ قطب شاہ کی مہر کا ذکر کیا ہے۔ بقیہ دونوں مہروں کی جانب اشارہ تک نہیں کیا ہے۔ یہ مخطوطہ103 اوراق پر مشتمل ہے۔

(8) جہانگیر نامہ (HL113):
 یہ بادشاہ جہانگیر کی خود نوشت تاریخ ہے، جسے اس نے اپنی حکومت کے تیسرے سال یعنی 1017ھ/1608 میں ایک ڈرافٹ کی شکل میں مرتب کیا تھا۔اس میں 1017/ 1608 تک کے واقعات مندرج  ہیں۔ جس وقت یہ کتاب لکھی گئی اس وقت جہانگیر کی عمر 40 سال تھی۔ اس کے تین سال کے بعد 1020ھ/1611 میں محمد مومن عرب شیرازی نے حیدرآباد کے قطب شاہی کتب خانے کے لیے کتابت کی۔ ترقیمہ میں مذکور ہے:
بتاریخ یوم الاربعاءسلخ ذوالحجة سنة(عشرین و الف) ۱۰۲۰ در دار السلطنت حیدرآباد مصنة عن کل شر و فساد برسم خزانة کتب اعلی حضرت السلطان العادل الکامل افتخار السلاطین فی الزمان و اشرف الخواقین فی الدوران السلطان ابن السلطان السلطان الخاقان ابن الخاقان... لازال رایات دولتہ منصورة منصورة و اعداءحضرتہ مقھورة بیدہ الفقیر محمد مومن مشہور بہ عرب شیرازی سمت تحریر یافت۔

اس ترقیمہ میں الخاقان ابن الخاقان کے بعد محمد قلی قطب شاہ کی مہر کے لیے جگہ چھوڑی گئی تھی لیکن کسی وجہ سے وہ ثبت نہ ہو سکی البتہ سر ورق پر ان کی مہر مورخہ 1020 ھ موجود ہے اس کے بعد عبد اللہ قطب شاہ کی مہر ہے۔ اس کا عکسی ایڈیشن خدا بخش لائبریری سے شائع ہو چکا ہے۔ یہ مخطوطہ قطب شاہی سلطنت کے زوال اور عالگیری سلطنت کے عروج کارازداں بھی ہے۔سرورق پر اورنگ زیب کے لڑکے محمد سلطان کی ایک تحریر ملتی ہے:
” این کتاب جہانگیر نامہ را کہ حضرت جنت مکانی خود تصنیف نمودہ اند در دار الفتح حیدرآباد از کتابخانہ قطب الملک گرفتہ۔ حررہ محمد سلطان

یعنی جب اورنگ زیب کے زمانے میں حیدرآباد فتح ہوا توقطب الملک کے کتب خانے سے اس نسخے کو قبضے میں لے لیا گیا۔ 119 اوراق پر محیط خدا بخش لائبریری کا یہ نادر ترین مخطوطہ ہے۔

(9) برہان قاطع(HL770):
 محمد حسین برہان نے 1061ھ میں اس کتاب کو مرتب کیا اور اسے عبد اللہ قطب شاہ کے نام سے منسوب کیا۔ مصنف اس وقت اپنی علمی لیاقت اور ادبی مہارت کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔بعد میں غالب نے اس کتاب کی خامیوں کو اجاگر کیا۔مخطوطے کی ابتدا میں ایک تحریر ملتی ہے:
شروع درین نسخہ در دور سہ شنبہ بیست و ششم شہر شعبان المعظم سنہ ہزار و یک صد و پنجاہ و یک از ہجرت النبوی ﷺ۔
اور ترقیمہ میں ہے:  تمام(شد) کتاب مستطاب بعنایت ملک... بتاریخ ۱۱ شہر ربیع الثانی ۲۵۱۱۔۔۔ روز چہار شنبہ

ان دونوں تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کتابت کی ابتدا 1151ھ میں ہوئی اور اختتام 1152ھ میں ہوا۔

مذکورہ بالا علمی و ادبی کارنامے یہ ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ محمد قلی قطب شاہ کے شب و روز صرف معشوقوں کے جھرمٹ میں ہی بسر نہیں ہوتے تھے بلکہ امور سلطنت کے علاوہ علم و ادب کے برہم گیسو کو سنوارنے اور فکر وفن کی الجھی لٹوں کو سلجھانے میں بھی ان کا وقت گزرتا تھا۔ویسے تو بہت سارے حکمراں دنیاپر حکومت کر چکے ہیں لیکن آج وہی حکمراں زندہ اور جاوید ہے جس کا دربار علم و ادب کا مخزن تھا۔ اس کے علاوہ جن بادشاہوں نے صرف حکومت کی یا عیش و عشرت میں مگن رہے، وہ تاریخ کے صفحات میں کہےں گم ہو گئے۔زندہ رہنے کے لیے عشق ایک ضروری شے ہے:
ہرگز نمیرد آن کہ دلش زندہ شد بعشق               ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما

عشق ہر حال میں مطلوب ہے خواہ وہ معشوق کے ساتھ ہو یا علم و ادب کے ساتھ۔ عشق و طلب کے بغیر دائمیت نا ممکن ہے۔