28/9/17

حقوقِ نسواں کی علم بردار- رقیہ سخاوت حسین از عذرا نقوی

آج تاریخ کے صفحات سے نکال کر برصغیرکی ایک ایسی باہمت خاتون رقیہ سخاوت حسین سے آپ کی ملاقات کرار ہی ہوں جس نے ایک صدی پہلے اپنے قلم اور عمل سے حقوقِ نسواں اور مسلمان عورتوں کی تعلیم کے لیے بہت کچھ کیا۔ ا نھوں نے کلکتہ میں مسلمان لڑکیوں کے لیے ایک اسکول قائم کیاتھاجو اب تک رقیہ سخاوت حسین میموریل گرلز کالج کے نام سے قائم ہے۔رقیہ خاتون جو شادی کے بعد بیگم رقیہ سخاوت حسین کے نام سے مشہور ہوئیں 1880 میں بنگال کے ایک زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئیں، ان کے والد ایک اعلیٰ تعلیم یا فتہ زمین دا رتھے ۔زمانے کے رواج کے مطابق انھوں نے اپنے بیٹے کو تو اعلی ٰ تعلیم دلائی اور کئی زبانیں سکھائیں لیکن لڑکےوں کی تعلیم صرف گھر تک محدود تھی۔بنگال کے اعلی ٰطبقے کے مسلمان گھرانوں میں اس زمانے میں عورتوں کو بنگالی زبان نہیں پڑھائی جاتی تھی بس گھر پر عربی اور فارسی پڑھانے کا رواج تھا۔ رقیہ کی بڑی بہن کریم النساء جو کم عمری  ہی سے پڑھنے اور شاعری کا شوق رکھتی تھیں انھیں اس پاداش پر کہ وہ ایک بنگالی نظم پڑھ رہی تھیں کئی برس خاندان کی ایک بزرگ خاتون رشتہ دار کے گھر تقریباََ  قید کردیا گیاتھا،ا ن کی عمراس وقت صرف بارہ سال تھی۔ رقیہ سخاوت حسین نے اپنے خاندان کے حالات لکھتے ہوئے اپنی خود نوشت میں لکھا تھا کہ اس زمانے کے اشرافیہ کے رواج کے مطابق لڑکیاں نہ صرف سخت پردے میں ”زنانے “ میں رہتی تھیں بلکہ غیر برادری کی عورتوں سے بھی پردہ کرتی تھیں۔قریبی رشتہ دار خواتین،معتبر خاندانی خادماؤں کے علادہ کنواری لڑکیوں کو کسی کے سامنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

رقیہ خاتون اور کریم النساء کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بڑے بھائی بہت درمند دل رکھتے تھے، اوراپنی بہنوں کاشوق دیکھ رہے تھے لیکن خاندان اور سماج کی روایات کے خلاف نہیں جا سکتے تھے اس لیے انھوں نے دونوں بہنوں کو گھر میں چھپ چھپ کر رات کو لالٹین کی روشنی میں تھوڑی بہت بنگالی اور انگریزی پڑھائی۔ کریم النساءکی شادی چودہ سال کی عمر میں کردی گئی تھی اور بعد میں انھوں نے شاعرہ کے طورپر شہرت پائی ۔

 رقیہ خاتون کی شادی 1896 میں سولہ سال کی عمر میں خان بہادر سخاوت حسین سے ہوگئی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، ولایت پلٹ تھے اور بھاگلپور (بہار )کے ڈپٹی مجسٹریٹ تھے، ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا۔ عمر میں وہ رقیہ سے بہت بڑے تھے لیکن یہ شادی رقیہ کے لیے نیک فال ثابت ہوئی ۔ حالاں کہ سید سخاوت حسین کی مادری زبان اردو تھی لیکن انھوں نے رقیہ کی نہ صرف بنگالی زبان میں لکھنے میں ہمت افزائی کہ بلکہ انگریزی پڑھنے کا بھی انتظام کروا دیا۔ رقیہ کی جوانی کا بڑا حصہ صوبۂ  بہار میں گزرا جہاں انھیں اپنے شوہر کی اعلیٰ سماجی حیثیت کی وجہ سے بہت سی ہندی اور انگریزی تعلیم یافتہ خواتین سے ملاقا ت کا بھی موقع ملا، انگریزی ادب کے مطالعے نے انھیں ایک نئی دنیا کی جھلک دکھائی۔ اپنے شوہر کی ہمت افزائی کی وجہ سے اب رقیہ نے انگریزی میں بھی لکھنا شروع کردیا۔ انھوں نے متعدد کہانیاں مضامین اور ناول لکھے جو عورتوں سے ہی متعلق تھے۔ وہ بنیادی طور پر سماجی کارکن تھیں اس لیے ادب کو پس پشت ڈال کر شادی کے چند ہی سال بعد رقیہ حقوق نسواں اور عورتوں کی تعلیم کی زبردست علم بردار بن گئیں۔

شادی کے صرف تیرہ سال بعد سخاوت حسین کا انتقال ہو گیا۔ انھوں نے اپنی وصیت میں رقیہ کے لیے کافی رقم چھوڑی تھی تاکہ وہ مسلمان لڑکیوں کے لیے تعلیم کو آگے بڑھائیں۔لہٰذا رقیہ نے اپنے گھر میں لڑکیوں کے لیے ایک اسکول کھول لیا ۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا، ان کی سوتیلی بیٹی اور داماد نے گھر پر قبضہ جمانے کے لیے رقیہ کو دھکے مار کر گھر سے باہر نکال دیا۔انھوں نے اپنا مختصر اثاثہ اورکتابیں جمع کیں اور کلکتہ کا رخ کیا۔وہاں انھوں نے 1911 میں سخاوت حسین میموریل گرلز اسکول قائم کیا ۔ 1916 میں ایک انجمنِ خواتین کی بنیاد ڈالی جو خواتین کی کانفرنسیں ، مباحث وغیرہ منعقد کرتی تھی۔ان کے اسکول سے امیر اور متوسط طبقے کی لڑکیاں مستفید ہوتی تھیں مگر انجمن کے ذریعے انھوں نے غریب عورتوں کے لیے بھی بہت کام کیا۔ گھر گھر جاکر انھوں نے خواتین کو انجمن کا ممبر بنایا ۔ یہ انجمن غریب بےواؤں کی مالی امداد کرتی تھی، پریشان حال اور مظلوم بیویوں کو تحفظ اور پناہ دیتی تھی، غریب لڑکیوں کی شادیاں کراتی تھی اور سب سے اہم بات یہ کہ غریب طبقے کی لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم کا انتظام کرتی تھی۔انھوں نے دوسری خواتین کے ساتھ ٹیم بنا کر کلکتہ کی کچی بستیوں میں ہندو اور مسلمان عورتوں کے لیے کر معمولی تعلیم اور حفظانِ صحت کی تربیت کا انتظام کیا تھا۔تعلیم بنگالی اور اردو میں دی جاتی تھی۔

رقیہ نے انگریزی میں ایک کہانی ”سلطانہ کا خواب“لکھی، جس نے بہت شہرت پائی ا ورجس پر تنقید اور تعریف کا طوفان آگیا۔ یہ دلچسپ کہانی پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک صدی پہلے اس خاتون نے بالکل نئے انداز کی کہانی تخلیق کی تھی جو اس زمانے کے ادب سے بالکل الگ تھی۔ یہ سائنس فکشن بھی کہلائی جاسکتی ہے اور فنٹاسی fantasy بھی ۔ اس میں ایک لڑکی سلطانہ کوخواب میں اس کی دوست سائرہ ایک ایسی مملکت میں لے جاتی ہے جہاں عورت ہی ملکہ ہے، جہاں مرد عورتوں کی طرح پردے میں بٹھا دئیے گئے ہیں اور کاروبارِ جہاں بہت امن چین سے عورتیں چلا رہی ہیں، جہاں عورتوں کی دویونیورسٹیاں ہیں اور عورتوں کی سائنسی تجربہ گاہیں ہیں،جہاں لڑکیوں کے بہت سے اسکول ہیں، کم عمری کی شادیاں ممنوع ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں رقیہ نے کہانی میں سائنسی فکشن کے انداز پر مستقبل میں ہونے والی ایجادا ت کا تذکرہ کیا ہے ۔ جیسے سلطانہ کی دوست اس کو اپنے گھر کے باورچی خانے میں لے جاتی ہے، ان کے اندر جانے سے پہلے پردہ نشین مردوں کو ہٹا دیا جاتاہے ۔یہ باورچی خانہ خوبصورت کچن گارڈن کے درمیان بنا ہے ،  نہ دھواں ہے نہ لکڑی کا چولہا، کھڑکیوں میں پھول سجے ہیں۔ سلطانہ کے استفسار پر اس کی دوست اسے شمسی توانائی سے بنا چولھا دکھاتی ہے جہاں سورج کی روشنی ایک پائپ کے ذریعہ جمع کی جاتی ہے اور اس پر کھانا پکتا ہے۔ اس کے علادہ اس کہانی میں ایک اور ایسی ہی سائنسی ایجاد کا بھی تذکرہ ہے جو ضرورت پڑنے پر بادلوں کے پار جا کر بارش روک دیتی ہے۔ یہ کہانی اپنے وقت کے حساب سے بہت آگے کی بات کررہی تھی،ا س زمانے میں پارسی ، عیسائی اور ہندو عورتوں کی تعلیم کی تحریکوں میں بھی عورتوں کے لیے سائنس اور حساب کی تعلیم نصاب میں شامل نہیں کی جاتی تھی۔

رقیہ نے بہت سے مضامین لکھے جس مےں سے ” عزلت نشین “ کافی مشہور ہوا۔ ان کے پہلے اور آخری ناول کا نام ” پدم راگ “ تھا جو 1925 مےں شائع ہوا تھا، جس میں اےک دارالامان مےںرہنے والی مختلف عورتوں کی زندگی کی جھلکےاں ہےں ےہ ناول کچھ حقیقت اور کچھ خواب کی سی کےفیت لئے ہوئے تھا جب کہ ”سلطانہ کا خواب“ پورا  خواب کی کےفیت تھا۔ ”پدم راگ “ میں دارالامان کی سربراہ خاتو ن زینب کا نکاح ایک بہت پڑھے لکھے مرد سے ہوا تھا مگر رشتہ داروں کی ریشہ دوانیوں اور غلط فہمیوں کی وجہ سے رخصتی نہیں ہوپائی اور اس کے شوہر نے دوسری شادی کرلی۔ زینب بہت ہمت اور اعتماد سے، ا پنے بھائی کی مدد سے، پاکبازی اور عزت سے ایک کارآمد زندگی گزارتی ہے، شاعری کرتی ہے،  بھائی کی جائداد کا کام سنبھالتی ہے اور دارالامان چلاتی ہے۔ ناول کے اختتام میں صورتِ حالات بدل جاتی ہے اور اس کے شوہر سے اس کی پھر ملاقات ہوتی ہے اور وہ اس سے واپسی کی درخواست کرتا ہے۔ لیکن وہ کہتی ہے ”میں اپنی زندگی کا ہدف پہلے طے کرچکی ہوں ، گرہستی کی زندگی گزارنا خد انے میرے نصیب میں نہیں لکھا تھا، تم اپنے رستے جاؤ،میں اپنی راہ جاؤں گی۔“ اس زمانے کو دیکھتے ہوئے ناول کا یہ بہت مختلف قسم کا انجام تھا، بلکہ آج بھی خواتین کے ناولوں میں روایتی قسم کے اختتام ہی لکھے جاتے ہیں۔

بیگم رقیہ سخاوت حسین جیسی اور بھی بہت سی خواتین تاریخ کے صفحات میں زندہ ہیں، جنھوں نے مسلم خواتین کی تعلیم اور حقوق کے لیے اپنی خاندانی پابندیوں، روایتوں اور مجبوریوں کے باوجود آنے والی نسلوں کے لیے راہیں ہموار کیں۔ ان کے ساتھ ہی ان مردوں کے نام بھی آتے ہیں جو ان کے مددگار تھے، ان کی ہمت افزائی کرتے تھے۔لازم ہے کہ ایسے خواتین اور حضرات کی یاد گاہے گاہے تازہ کرلی جائے ۔

عذرا نقوی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں