اردو دنیا، اپریل 2025
زبان کی وسعت اور ترقی میں لوگوں کی ہجرت بھی خاص اہمیت
رکھتی ہے جس کی ایک باقاعدہ تاریخ بھی موجود ہے۔ چودھویں صدی میں محمد بن تغلق نے
دیوگری کو دولت آباد کا نام دے کر اپنا دارالسلطنت دہلی سے دولت آباد منتقل کر دیا۔
جس کے سبب بڑی تعداد میں دہلی کی رعایا کو دہلی سے ہجرت کرکے دولت آباد جانا پڑا۔
اس طرح ان کے ساتھ ان کی زبان اور تہذیب و ثقافت بھی دہلی سے دولت آباد منتقل ہوتی
ہے۔
برطانوی حکومت میں
بھوجپوری خطّے (جنوبی اتر پردیش اور مغربی بہار) کی عوام کو تلاش معاش کے لیے
بندھوا مزدور (گرمٹیا) کے شکل میں مختلف ممالک نیپال، فیجی، ماریشس، ٹرینیڈاڈ، سورینام،
گیانا، تھائلینڈ، جنوبی افریقہ، یوگانہ وغیرہ جانا پڑا تھا۔ یہ گرمیٹیا لوگ جہاں
بھی گئے اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ گئے اور ایک مدت کے بعد وہیں مستقل
سکونت اختیار کرلی۔
ہندوستان میں اردو زبان بڑے پیمانے پر بولی اور سمجھی
جانے والی زبانوں میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ عموماً ہندستان کے لوگ اپنی
علاقائی زبان کے ساتھ کسی نہ کسی قومی سطح کی زبان کا بھی علم رکھتے ہیں۔ ہندوستان
کے جس بھی حصے یا خطے میں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے وہاں کی کوئی نہ کوئی علاقائی
زبان ضرور ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس علاقائی زبان پر اردو زبان کا کچھ نہ کچھ اثرپڑا
ہوگا۔ اردوزبان کو اپنی روزانہ زندگی میں استعمال کرنے والے لوگ یا اپنی علاقائی
زبان میں اردو کے الفاظ کا استعمال کرنے والے لوگ اردو کو اپنے علاقائی زبان کے
صوتی نظام کے حساب سے ہی استعمال کرتے ہیں۔
بعض ماہرین لسانیات بیرون
ممالک میں بھوجپوری کے پہنچنے اور بولے جانے کی بڑی وجہ گرمٹیا لوگوں کو قرار دیتے
ہیں۔ لیکن اس ضمن میں ایک بات جو توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ بیرون ممالک میں بولی
جانے والی بھوجپوری اور ہندوستان کے الگ الگ خطوں میں بولی جانے والی بھوجپوری میں
خاصہ فرق ہوتا ہے۔یہ فرق صوتی اور لفظی دونوں سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے
طور پر ماریشس اور بنگال کی بھوجپوری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ماریشس میں بولی جانے
والی بھوجپوری اور بنگال میں بولی جانے والی بھوجپوری میں بڑا فرق ہے۔ اس فرق کی ایک
بڑی وجہ وہاں کے مقامی ماحول ومعاشرت اور دیگرعلاقائی زبانوں کا اثر بھی ہے۔
اردو زبان کا بھوجپوری پر اثر تلاش کرنے کے لیے دونوں
زبانوں کے فنکاروں کے متعلقہ ان خطوں میں
دونوں زبانوںکا اثر تلاش کرنا ہوگا جہاں اردو اور بھوجپوری دونوں زبانیں پڑھی یا
بولی جاتی ہیں۔ بھوجپوری کی پیدائش کوجس علاقے سے منسوب کیا جاتا ہے وہ علاقہ بہار
کا بھوجپور ہے۔ اسی بہار میں اردو کا ایک مرکز دبستان عظیم آبادکے نام سے اردو
ادب کی تاریخ میںاپنی ایک الگ پہچان اور اہمیت رکھتا ہے۔ اردو زبان میں فارسی اور
عربی زبانوں کے الفاظ زیادہ استعمال ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو جس دور میں
پیدا ہوئی اس دور میںہندوستان میں فارسی زبان کا غلبہ تھااور فارسی کوسرکاری زبان
ہونے کا درجہ حاصل تھا۔ اس وقت کے ہندوستان کا اعلیٰ طبقہ اور ادبا و شعرا بھی
فارسی زبان میں تصنیف و تالیف کرتے تھے۔ لیکن اردو ادب میں فنکاروں کے اُس فن اور
زبان کو مقبولیت حاصل ہوئی جس میں زبان اردو کی علاقائی زبانوں اور بولیوں کا بھی
استعمال کیا گیا تھا۔
اردو،ہندی اوردیگر زبانوں کی طرح بھوجپوری کی قواعدبھی
موجود ہے۔ بھوجپوری صرف و نحو اور قواعد کافی حد تک اردو اور ہندی کے قواعد سے
مماثلت رکھتے ہیں۔ اسی طرح لوک ادب، اردو ادب اور بھوجپوری ادب کے مختلف اصناف کئی
معنوں میں ملتے جلتے نظر آتے ہیں بس ان کے نام ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ داخلی
اور خارجی سطح پر لوک گیت اوراردو ادب کی مختلف اصناف کے بیچ مماثلت کو ڈاکٹر قیصر
جہاں اپنی کتاب’ اردو گیت‘ میں اس طرح دیکھتی ہیں:
’’خارجی
شاعری کے نمونے ہمیں مثنوی، مرثیہ، نظم جدید، قصیدہ اور رباعی کے ایک حصے میں مل
جائیں گے۔ داخلی شاعری کے ذیل میں غزل، گیت، اور رباعی کا بڑا حصہ شامل ہے۔‘‘
(اردو
گیت از ڈاکٹر قیصر جہاں، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی، 1977، ص 14)
مختلف موضوعات پر لوک گیت کے مختلف اشعار ذیل میںپیش کیے
جا رہے ہیںجس میں اردو زبان کے اثر کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
جوڑا-جامہ
’’انگ
تورے ریشم کا جوڑا
جھالر میں لاگے ہیرا لال رے‘‘
چند مصرعے اور ملاحظہ ہوں ؎
’’
اونچے دالان بندا جوڑا سنوارے
امّا توری بندے سوروج مناوے،
دولہا کے جانی کوئی نجری لگاوے‘‘
(بھوجپوری
لوک گیتوں کے ویودھ آیام از ڈاکٹر جیوتی سنہا،اومیگا پبلی کیشن، 2013،ص 195)
’’الاہ
الاہ لوریاں
دودھ بھری کٹوریاں
کٹوری گئی پھوٹ
چندا ماما گئے روٹھ‘‘
)اتر
پردیش کے لوک گیت ازاظہر علی فاروقی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،1981،ص 38)
بھوجپوری زبان میں تعزیہ
کو’داہا میاں‘ یا ’داہا بابا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بھوجپوری میںمحرم کے مہینے میںکربلا
کے المیہ سے متعلق جو اشعار گائے یا پڑھے جاتے ہیں ان کو ’داہا ‘کے نام سے ہی
منسوب کیا جاتا ہے۔داہا کا ایک شعرملاحظہ
ہو ؎
’’حجرت
چوڑن مدینہ و مکہ چلن کربَلوا کی اور
نانا کا رؤجوا اور مائی کی کبُریا سے دور
ارے پہنچیںُ اوجاڑی جنگلوا، جہاں جُلُم کی بدریا
گھنگھور
اور کہلِن آپن کھونواں بہائے کے جُلم کی تیار میں
اَجُور‘‘
(بھوجپوری
ادب کا تعارف از ڈاکٹر فضل امام، مطبع اسرار کریمی پریس، الہ آباد، 1947، ص 79)
مختلف زبان و ادب میں بارہ ماسہ کی روایت قدیم زمانے سے
ہی چلی آ رہی ہے۔ مختلف زبانوں کے علاوہ ہندستان کی مختلف بولیوں میں بھی بارہ
ماسے کا رواج دیکھنے کو ملتا ہے۔بارہ ماسا وہ صنف ادب ہے جس میں عورت کی زبانی اس
کے شوہر کی بِرہ (جدائی) کے اوقات کو سال کے بارہ الگ الگ مہینوںکے اعتبار سے پیش
کیا جاتا ہے۔ بارہ ماسا میں مختلف موسم،بہار، رُت، میلہ،خزاں وغیرہ کی مناسبت سے
شوہر کی جدائی میں ہونے والے غم اور احساسات و جذبات کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اردو
اور بھوجپوری میں گیت کی روایت میں بارہ ماسے کا ذکرقدیم زمانے سے ہی دیکھنے کو
ملتا ہے۔ بھوجپوری علاقے کے لوگ ایک زمانے سے گرمٹیہ کی شکل میں روزی روٹی کی تلاش
میں بیرون ممالک جاتے رہے ہیں۔ شوہر سے جدائی اور اس جدائی میں سال کے مختلف مہینوں
اور موسموں میں شوہر کو یاد کرنے کے عمل کو عورتوں نے اپنے گیتوں میں بھی جگہ دی۔بھوجپوری
برہ یا ہجرکے چند مصرعے ملاحظہ ہوں
؎
’’میرے
ساجن! تم کو پردیس ہی جانا تھا
تو اے ساجن!میرا گونا کیوں لائے
کس کے ہاتھ چٹھی لکھ کر بھیجوں اور کس سے سندیس کہلاؤں
کوے سے چٹھی بھیجوں اور پنچھی سے سندیس کہلاؤں ‘‘
چند سطریں اور ملاحظہ ہوں جس سے پردیس جا رہے شوہر کے لیے
بیوی کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے ؎
’’کیسے
کٹیں گے دن جتن بتائے جاؤ.........
جو تم سیاں میرے جاؤ چکریا اپنی صورت میری بہیاں
لکھائے جاؤ
(چاکری)
جتن بتائے .........جاؤ‘‘
(لوک
گیت از اظہر علی فاروقی،ادارۂ انیس اردو، الہ آباد، ص14)
بھوجپوری علاقے کے ادبا نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں
وہاں کے علاقائی اور روایتی موضوعات کو خاص طور پر اہمیت دی ہے جس میں حب الوطنی،
مشترکہ تہذیب، تیج تیوہار، غریبی، کسانی، پیدائش اور وفات، ذات پات، خواتین کے
حقوق، جاگیدارانہ نظام وغیرہ اہم ہیں۔ان موضوعات کی پیشکش میںمتعلقہ سماج کے ضرب
المثل اور کہاوتوں وغیرہ کا بھی بخوبی استعمال کیا گیاہے۔ ناول گؤدان کا ایک
اقتباس ملاحظہ ہو:
’’جسم
ڈھل گیا تھا۔ خوبصورت گندمی رنگ سانولا پڑ گیا تھا اور آنکھوں سے بھی کم دکھائی دیتا
تھا۔ یہ سب کچھ پیٹ کے فکر ہی کے سبب تو تھا۔ کبھی تو جینے کا سکھ نہ ملا۔ اس دائمی
خستہ حالی نے اس کی خودداری کو بے دلی میں تبدیل کر دیا تھا۔ جس گرہستی میں پیٹ کو
روٹیاں بھی نا مل سکیں اس کے لیے اتنی خوشامد کیوں؟ ان حالات سے اس کا دل برابر
بھڑکتا رہتا تھا اور دو چار جھڑکیاں سن لینے ہی پر اسے اصلیت کا پتہ چلتا تھا۔ اس
نے ہار کر ہوری کی لاٹھی، مرزئی، پگڑی، جوتے، تمباکو کا بٹوا، سب لا کر اس کے
سامنے پٹک دیے۔‘‘
(گئودان
از منشی پریم چند، مکتبہ جامعہ دہلی، جنوری 1966، ص 6)
یہ اقتباس سماج کے اس ماحول و معاشرت کی حقیقت ہے جس سے
ایک غریب کسان نبردآزما ہوتا ہے اور ان پریشانیوں سے خود کو کبھی بھی علیحدہ نہیں
کر پاتا ہے۔
اردو زبان کے جو الفاظ بھوجپوری زبان و ادب میں صوتی
تبدیلی کے ساتھ استعمال ہوتے رہے ہیں وہ آج بھی رائج ہیں۔ بعض ادیب انھیں اردو کی
بگڑی ہوئی شکل قرار دیتے ہیں۔اردو زبان کے جو الفاظ بھوجپوری میں تبدیلی کے ساتھ
مستعمل ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ بھوجپوری میں شامل
تو ہواہے لیکن اس کو بھوجپوری کے رنگ و آہنگ میں ڈھال کر شامل کیا گیا ہے۔اس طرح
وہ اردو الفاظ بھی بھوجپوری کے الفاظ معلوم ہوتے ہیں۔اسی طرح لوک گیتوں کی زبان بھی
علاقائی اور مقامی ہوتی ہے اس وجہ سے الفاظ کے تلفّظ پر مقامی اثر دیکھنے کو ملتا
ہے۔ بھوجپوری میں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کے الفاظ بھی رائج ہیں۔اس بابت
ڈاکٹر افضل امام کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’
یہ زیادہ تر اردو اور ہندی ہی سے آئے ہیں۔ یوں تو عربی
اور فارسی کے الفاظ تُلسی داس کی رامائن رام چرت مانس میں بھی ملتے ہیں۔ سورداس،
کبیر داس، ملک محمد جائسی اور بہاری وغیرہ کے یہاں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ لیکن یہ
حقیقت ہے کہ بھوجپوری میں کچھ الفاظ براہ راست فارسی سے آئے ہیں کیونکہ جون پور،
ایک عرصہ تک مشرقی سلطنت کا پایۂ تخت تھا۔ جون پور کے مشرق اور جنوب میں بھوجپوری
علاقہ ہے اور جون پور کی شاہ گنج تحصیل بھوجپوری علاقہ میں آتی ہے۔‘‘
(بھوجپوری
ادب کا تعارف از ڈاکٹر فضل امام،مطبع اسرار کریمی پریس، الہ آباد،1947،صفحہ نمبر
22-23)
بھوجپوری میں ترکی اور عربی زبان کے الفاظ کے استعمال کی
وجہ بھوجپوری پر زبان فارسی اور اردو کا اثر ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھوجپوری زبان میں
اردو، عربی، فارسی اور ہندی کے الفاظ کی بہتات ملتی ہے۔
اردو، عربی،فارسی و ترکی زبان کے چند الفاظ ذیل میں پیش
کیے جا رہے ہیں جو کچھ تبدیلی کے ساتھ بھوجپوری میںرائج ہیں۔ اُجیر (وزیر)، لاس
(لاش)، کھاندانی (خاندانی)، دماگ(دماغ)، نباب (نواب)، ترپھ (طرف) ، کابو (قابو)،
دسمن (دشمن)، ترکی (ترقی)، دروگہ
(داروغہ)، متلب (مطلب)، گلتی (غلطی)، موں کدمہ (مقدمہ)، مسہور (مشہور)، جاگیر، بہادر، ارمان وغیرہ۔
بنارس بھوجپوری کا وہ علاقہ ہے جہاں بولی جاتی ہے۔ اتر پردیش کے اس شہر بنارس میں بھوجپوری زبان کے ساتھ اردو الفاظ کا خاصہ
استعمال ہوتا ہے۔ بنارس کے مشہور و معروف شعرا میں نذیر بنارسی ایک بڑا نام ہے۔ نذیر
بنارسی اپنے کلام میں ان الفاظ کا بخوبی استعمال کرتے ہیں جو اودھ اوراتر پردیش کے
جنوبی علاقوں میں عام بول چال میں استعمال ہوتے ہیں۔ نذیر بنارسی کی نظم’ پیارا
ہندوستان‘کا ایک بند ملاحظہ ہو
؎
کالی بلائیں سر پر پالے
شام اودھ کی ڈیرا ڈالے
ایسے میں کون اپنے کو سنبھالے
میرا نواس استھان یہی ہے
پیارا ہندوستان یہی ہے
(کلیات
نذیر بنارسی از مرتب ناظر حسین خان، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی 2014، ص 22)
نظم’پہلی جنگ آزادی‘(1857 کے شہیدوں کی یاد میں)کا ایک
بند ملاحظہ ہو ؎
’’موت
آئی گلے جو تم سے ملنے
تم نے اسے دیش پیار سمجھا
جب آ کے اجل نے تھپکیاں دیں
ماتا کا اسے دلار سمجھا‘‘
(کلیات
نذیر بنارسی از مرتب ناظر حسین خان، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی 2014،ص30)
نظم ’پیارا ہندوستان‘کے بند کے دوسرے مصرے میں ’ڈیرا ‘
لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کا استعمال عام طور سے ٹھہرنے والی جگہ یا مسکن کے
معنی میں ہوتا ہے۔ لفظ ڈیرا فارسی سے اردو میں اور پھراردو سے بھوجپوری زبان اور
عام بول چال کی زبان میں استعمال ہوا ہے۔
وہیں دوسرا بند جو’ پہلی جنگ آزادی‘نظم سے اخذ کیا گیاہے
اس کے آخری مصرعے میں لفظ ’دلار‘کا استعمال ہوا ہے۔یہ لفظ بھی بھوجپوری، ہندی اور
اردو زبانوں میں خوب استعمال ہوتا ہے۔
درج بالا نظموں کے بند وں میں جس اردو زبان کا استعمال
ہوا ہے وہ تہذیب و ثقافت اور لوک زبان سے متعلق عوام کے جذبات سے کافی قریب تر
ہے۔اس سے ان علاقے کے لوگو ں کا آزادی اور ثقافت کے متعلق رجحان اور ان کی محبت
کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اردو ادب میں بہار اور مشرقی اترپردیش
کے علاقوں کے شعرا جیسے شاد عظیم آبادی، اصغر گونڈوی، یگانہ چنگیزی، فراق
گورکھپوری، اشرف علی فغاں،جمیل مظہری، کلیم عاجز، نذیر بنارسی وغیرہ کے یہاں
علاقائی روایتوں کے اثر کے ساتھ ساتھ عوامی زبان کا خاص اثر بھی دیکھنے کو ملتا
ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں میں بولی کا اثر بھی اسی شدت کے ساتھ
نظر آتا ہے جس شدت کے ساتھ زبان کا۔
بہار اور مشرقی اتر پردیش
کے اردو اور بھوجپوری شعرا کے یہاں ان کی غزلوں اور نظموں میں حب الوطنی، تہذیب و
ثقافت، تیج تہوار، مختلف قسم کے پہناوے، مختلف بولیاں، مختلف زبانیں، لوک تہوار،
مصوّری، روزی روٹی، کسان، خواتین کے حقوق، ماں باپ کی خدمت، اُمید جیسے ادبی و
لسانی موضوعات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے یا یوں کہا جائے کہ یہ شعرا عوام کی سادہ زندگی سے قریب تر ہوتے ہیں اوران
کے احساسات و جذبات اور روزانہ کی زندگی کے عوامل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں ؎
کر دیں گے ہم ایک ان کے لیے خون پسینا
ہم کام کیے جائیں گے مارے ہوئے پتا
آثار بتاتے ہیں پلٹنے کو ہے پانسا
گھورے کے بھی دن کہتے ہیں اک روز پھریں گے
ہم زندہ تھے ہم زندہ ہیں ہم زندہ رہیں گے
(نظم
’داستان آدم‘گل نغمہ از فراق گورکھپوری،مطبع الف آفسیٹ پرنٹرس،ص 157)
میرا خیال ہے کہ اردو کا بھوجپوری پر اثر دبستان لکھنؤ
اوردبستان عظیم آباد کی بڑی دین ہے۔ اردو اور بھوجپوری کے رشتے کے ذیل میں صرف یہ
کہہ دینا کہ اردو کا ہی اثر بھوجپوری پر رہا ہے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ کسی بھی ادب
میں مؤثر طریقے سے اپنی بات اور احساسات و جذبات کو پیش کرنے کے لیے ادیب متعلقہ
علاقے کی بولی اور زبانوں کا استعمال کرتا رہا ہے۔اردو زبان میں بھی شعرا نے اپنے
فن پاروں کو مؤثر بنانے کے لیے مختلف بولیوں اور ان کے الفاظ کو اپنے اپنے فن پاروں
میں بہت خوبی لے ساتھ برتا ہے۔مثال کے طور پر فراق کی نظم کا ایک بند ملاحظہ
ہو ؎
’’پرجا
ہی ہے دیش کا راجہ
گھر کی چٹائی راج سنگھاسن
سب کی ٹوپی راج مکُٹ ہے
پھوس کا گھر بھی راج محل ہے‘‘
(نظم
’دھرتی کی کروٹ‘ گل نغمۂ از فراق گورکھپوری،مطبع الف آفسیٹ پرنٹرس، ص 162)
نظم کے اس بند میں لفظ پرجا،چٹائی، مکُٹ وغیرہ الفاظ کا
استعمال ہوا ہے جو عام بول چال یا لوک ادب میں استعمال ہوتے ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح ایک زبان کسی بولی کو
متاثر کرتی ہے اور اپنے ذخیرۂ الفاظ اور صرف و نحو و قواعد کے ذریعے اس کووسعت و
گیرائی عطا کرتی ہے۔ اسی طرح بولیاں بھی کسی بھی زبان و ادب کے ارتقا، ان کی جامعیت
اور ان کے ذخیرۂ الفاظ کی وسعت، ان میں اثر پیدا کرنے اوران کو عوام سے قریب تر
لانے اور مقبول عام بنانے میں مددگار ہوتی ہیں۔
Parwaz Ahmed
Research Scholar, Department of Urdu
Banaras Hindu University
Varanasi- 221005 (UP)
Mob:7753027349
Email:ahmedvns111@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں