اردو دنیا، اپریل 2025
پروفیسر انور ظہیر انصاری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
وہ اردو کے اچھے استاد،ادب کے ایک سنجیدہ قاری اور ناقد کی حیثیت سے اردو ادب میں
جانے جاتے ہیں۔ اب تک ان کی کل 12 کتابیں اور تقریباً 70 سے زائد مضامین ہندوستان
کے مؤقر رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ 90 سے زیادہ سمیناروں میں آپ نے شرکت کی
اور مقالے پیش کیے ہیں۔ ادبی سرگرمیوں کے علاوہ تقریباً 40 ایم فل اور پی ایچ ڈی
کے مقالوں کے ممتحن اور 5 ؍پی ایچ ڈی کے مقالوں کے نگراں رہ چکے ہیں۔ تقریباً 41
توسیعی خطبے ہندوستان کی متعدد یونیورسٹیوں میں آپ نے پیش کیے ہیں۔ اس کے علاوہ
ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں بورڈ آف اسٹڈیز کے ممبر بھی رہے ہیں۔ ساتھ ہی
گجرات میں اردو زبان و ادب کے لیے جو خدمت انھوں نے کی ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔
پروفیسر انور ظہیر انصاری یکم اکتوبر 1953 کو اترپردیش
کے ضلع مئوناتھ بھنجن میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مئو میں ہی حاصل کی بعد ازاں بی
اے کی تعلیم گورکھپور یونیورسٹی سے مکمل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے
جواہر لال یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ جہاں سے ایم اے(1983)، ڈپلو ما ان ماس کمیونیکیشن
(1985) اور1988 میں ایم۔فل کی سند حاصل کی۔ اردو کے نامور اساتذہ پروفیسر محمدحسن،
پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر نصیر احمد خان، ڈاکٹر اشفاق محمد خان ان کے
استاد تھے۔ جنھوں نے ان کے علمی و ادبی ذوق کو نکھارا ۔ اس کے علاوہ جن اساتذہ سے
انھوں نے استفادہ کیا ان میں پروفیسر نورالحسن انصاری(فارسی)، پروفیسر عبدالودود
اظہر (فارسی)، پروفیسر قمر رئیس، تنویر احمد علوی، عنوان چشتی، شمیم حنفی وغیرہ کے
نام اہم ہیں۔ کورونا کی وبا کے بعد ہی انور ظہیر صاحب کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔
آخر کار31اکتوبر 2024 کوانھوں نے اس دیارِ فانی کو خیرباد کہہ دیا۔
طالبِ علمی کے زمانے سے ہی
آپ نے ملازمت شروع کردی تھی۔ 1984 تا 1985 تک دوردرشن کے رفرنس سیکشن میں آپ نے
جزوی ملازمت کی۔ جنوری 1985 سے جون 1985 تک آل انڈیا پرشین ٹیچرس ایسوسی ایشن کے
زیرِ نگرانی یو جی سی پروجکٹ میں بحیثیتِ ریسرچ اسسٹنٹ وابستگی رہی۔ فروری 1986 میں
ایم ایس یونیورسٹی بڑودہ کے شعبۂ فارسی عربی اور اردو میں بحیثیتِ اردو لکچرر آپ
کا تقرر ہوا اور ترقی کرتے ہوئے اکتوبر 2015 میں پروفیسر کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔
پروفیسر انورظہیر انصاری کی تنقیدی تحریروں کا سلسلہ تو
1980 سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ لیکن ان کا پہلا مضمون’دہلی اور فورٹ ولیم کالج
کا تقابلی مطالعہ‘ کے عنوان سے نومبر1983 میںماہنامہ’ ادب نکھار‘ مئوناتھ بھنجن سے
شائع ہوا۔ 2004 میں ان کی پہلی کتاب ’ساحر لدھیانوی: حیات و کارنامے‘ کے عنوان سے
ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ سے شائع ہوئی۔ یہ مقالہ انھوں نے پی ایچ ڈی کی سند کے
لیے تحریر کیا تھا۔
جیسا کہ ذکر آیا ہے کہ اب تک ان کی متعدد کتابیں زیورِ
طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ ان کتابوں میں ترجمہ، ترتیب اور مضامین کے مجموعے شامل
ہیں ان کی فہرست اس طرح ہے۔ شعورِ ادب (مضامین کا مجموعہ) 2007، ورق ورق آئینہ(ترتیب)
2009، اردو کا شعری اثاثہ اور نئے وارث(تنقیدی مضامین) 2013، سرسید سے شہریار
تک(تنقیدی مضامین) 2018، ترقی پسند شعر و ادب (تنقیدی مضامین) 2019، قصہ غمگین
(ترجمہ اردو سے دیوناگری)۔
پروفیسر انصاری کی ساحر لدھیانوی کی ادبی خدمات پر شائع
ہونے والی کتاب کی ادبی حلقے میں خوب پذیرائی ہوئی اور ادب کے ایک سنجیدہ قاری کے
طور پر قارئین ِ ادب و ناقدینِ ادب میں انھیں قدرکی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ یہ
کتاب ساحرکی زندگی اور تخلیقی کارناموں پر مشتمل ایک مبسوط اور حوالہ جاتی مقالے کی
حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے پہلے ساحر پر جو کچھ بھی مواد موجود تھا وہ مضامین کی شکل میں
رسالوں میں تھا اور اس کے علاوہ ناز صدیقی کی کتاب ساحر لدھیانوی: شخص اور شاعر بھی
ملتی ہے لیکن اس کتاب میں ساحر کے کارناموں کا صرف اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
اس طرح ڈاکٹر انصاری کے مقالے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ساحر کی زندگی، شخصیت،
شاعری اور فلمی نغموں پر شائع شدہ یہ پہلی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی
ہے کہ مقالہ نگار نے یہ مقالہ خود اپنی نگرانی میںہی مکمل کیا۔ مقالے کے مطالعے سے
معلوم ہوتا ہے کہ مقالہ نگار نے خود کو صرف موضوعاتی تجزیہ تک ہی محدود نہیں رکھا
بلکہ ساحر کی فنی خوبیوں کو بھی اجاگر کیا ہے اور تقابلی مطالعے کے ذریعے ہم
عصرشاعری میں ان کے مقام کا تعین کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔
یہ کتاب کل پانچ ابواب پر مشتمل ہے جس میں پہلا باب
ساحر کی حیات اور تخلیقی ارتقا سے متعلق ہے جس میں ساحر کی پیدائش، ابتدائی تعلیم
و تربیت، ماحول ،جس میں ان کی پرورش و پرداخت ہوئی اور جس کا اثر ان کے کلام میں
بھی جا بہ جا نظر آتا ہے، کا ذکر کیا گیا ہے۔ آگے چل کر اسی باب میں پروفیسر
انصاری نے یہ بھی بتایا ہے کہ ساحر کی شاعری کا سلسلہ کالج کے ہی زمانے سے شروع ہو
گیا تھااور ساحر اپنی جذباتی تقریروں اور انقلابی نظموں کے ذریعے عوام کے دلوں میں
جوش و ولولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اسی حصے میں مصنف نے ساحر کی زندگی کے
اتار چڑھاؤ، معاشقوں کا ذکر بھی کیا ہے جن کا اثر کسی نہ کسی طرح ان کی شاعری پر
پڑا اور بعض نظموں مثلاً نظم ’گریز‘کے ذریعے مقالہ نگار نے ان کی جانب اشارہ بھی کیا
ہے۔اسی باب میں ساحر کا بمبئی آنا ، پھرباضابطہ طور پر کمیونسٹ پارٹی میں شامل
ہونا اور فلمی دنیا سے ان کی وابستگی کا بھی ذکر کیا گیاہے۔
اس کے بعد کتاب کے چار ابواب مکمل طور پر ساحر کی شاعری
کے حوالے سے قلم بند کیے گئے ہیں جس میں نظمیں، غزلیں، مرثیے اور ان کی فلمی شاعری
شامل ہے۔
ان ابواب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر
انورظہیر انصاری نے ساحر کے کلام کی تفہیم میں تجزیاتی طریقۂ کار اختیار کیا ہے۔
انھوں نے شاعر کے عہد اور اس کے ماحول کی روشنی میں بھی کلام کو دیکھنے کی کوشش کی
ہے مثلاً یہ اقتباس ملاحظہ کریں:
’’ساحر
کی شاعری میں ایک ایسی فضا اور ایسا احساس نظر آئے گاجو ان کے نجی حالات اور
ماحول اور اسی عہد کی سماجی و سیاسی اور فکری و تہذیبی تبدیلیوں سے اثر پذیر ہوا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساحر کی شاعری کا مطالعہ ہمیں اجتماعی زندگی کے ان تمام عوامل و
عناصر سے ہم کنار کرتا ہے جس پر فرسودہ تہذیبی روایات و اقدارِ حیات اور استعماری
قوّتوں کے جبر و استحصال کی مہر ثبت ہے۔‘‘
1
ساحر کی شعری زندگی کا آغاز تقریباً ترقی پسند تحریک
کے قیام کے ساتھ ہی ہوا یہ زمانہ ہندوستان میں جہدِ آزادی کا دورِ عروج تھا۔ ساحر
نے حالات کے شکار آزادی سے محروم، مظلوم انسانوں کے تئیں ہمدردی کا رویہ اختیار کیا
اور تذلیلِ انسانی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ساحر کے یہاں اجتماعی زندگی کا
پختہ شعور، قوّتِ ارادی اور سیاسی و سماجی انقلاب کے واضح نقوش جابہ جا نظر آئے ہیں۔
اقتباس ملاحظہ کریں:
’’ساحر
کے سامنے چوں کہ غلام ہندوستان کی غلام انسانیت تھی۔ سیاسی اور فکری آزادی سے
محروم اور طبقاتی درجہ بندی کے سبب استحصال کا شکار۔ لہٰذا ایک ترقی پسند شاعر
ہونے کے ناتے انھوں نے نہ صرف معاشی بدحالی، سماجی ناانصافی، سیاسی غلامی اور
معصوم عوام کو مذہب اور تہذیب کے نام پر تقسیم کرنے کے رجحان کے خلاف صدائے احتجاج
بلند کی بلکہ ایک ایسے سماجی نظام کے قیام کا احساس بھی بیدار کیا جس میں اخوت اور
مساوات کو فروغ ہو اور انسان کو انسان کی طرح جینے کا حق و اختیار حاصل ہو‘‘ 2
مذکورہ اقتباس میں مستعمل لفظیات مثلاً طبقاتی درجہ بندی،
استحصال و جبر کے خلاف صدائے احتجاج، معاشی بدحالی، سماجی ناانصافی، سیاسی غلامی
وغیرہ، ترقی پسند تنقید نگاری کے کلیدی الفاظ ہیں۔ چونکہ ساحر ایک ترقی پسند شاعر
تھے اس لیے ضروری بھی ہے کہ ان کی شاعری کا مطالعہ اس عہد کی روشنی میں کیا جائے
جس سے ان کے کلام کی معنویت کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھیں
توپروفیسر انصاری ساحر کے کلام کی تفہیم و تجزیے میں پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔
ساحر کی شاعری کے موضوعاتی تجزیے کے ساتھ ساتھ پروفیسر
انصاری ان پس پردہ عوامل مثلاً سماجی، فکری و زندگی کی حقیقتوں ، کا بیان بھی کرتے
ہیں جن کے سبب ان کی شاعری میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔
کلامِ ساحر کے موضوعی و فکری تجزیے کے بعد انھوں نے تقریباً
ہر باب کے آخر میں ان کے فن سے بھی بحث کی ہے، جس میں ہیئتی نظام کو پیشِ نظر
رکھّا ہے، خصوصاً علمِ بیان و بدیع کے
حوالے سے شاعری کی مثالیں پیش کرکے پروفیسر انصاری نے جمالیاتی خوبیوں کی وضاحت بھی
کی ہے۔ ساحر کی فنی خوبیوں میںانھوں نے نظموں میں مستعمل محاکات نگاری کا خصوصی
طور پر ذکر کیا ہے جس کے ذریعے ساحر نے اپنی نظموں کو ڈرامائی شکل عطا کی ہے۔ اس
حوالے سے ان کا یہ اقتباس دیکھیں:
’’پرچھائیاں
محاکات نگاری کا بہترین نمونہ ہے جس میں فلمی مون تاژ کی تکنیک کا استعمال کیا گیا
ہے پیکر سازی کی اس نئی صورت نے غیر مرئی اور ساکت و جامد چیزوں کو بھی زندہ اور
متحرک کر دیا ہے۔ پرچھائیاں درحقیقت ایک تصویری سلسلہ ہے جو تصورات کی پرچھائیوں
کے ساتھ ابھرتا اور ڈوبتا رہتا ہے اور یہ عمل پوری نظم میں اپنے ڈرامائی عنصر کے
ساتھ جاری و ساری ہے‘‘3
اس اقتباس کے بعدپروفیسر انصاری نے نظم کا مکمل متن پیش
کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نظم کا بنیادی حسن صرف اس کا موضوع نہیں جو عالمی امن کے قیام
کی آرزوؤں سے اثر پذیر ہوا ہے بلکہ وہ فنی رچاؤ اور فنکارانہ حسن ہے جو زبان کی
سادگی اور بیان کی دلکشی کے سبب دو چند ہوا ہے۔ مزید برآں یہ اس لحاظ سے بھی تنہا
نظم ہے کہ یہ مختلف بحروں میں لکھی گئی ہے اور تمام بحروں میں مضمون کی رعایت سے
الفاظ کا استعمال بھی اس کے فن کو نکھارتا ہے۔‘‘4
مذکورہ بیانات کو اگر ذہن میں رکھیں تو یہ کہا جا سکتا
ہے کہ پروفیسر انور ظہیر انصاری کا شعری شعورپختہ ہے۔ لیکن اس تجزیے میں اگر وہ
متن کی
close reading کے ذریعے یہ بھی دکھاتے
کہ کس طرح مضمون کی رعایت سے مناسب لفظوں کا استعمال اور محاکات نگاری نظم کو
ڈرامائی حیثیت عطا کرتی ہیں اور وہ کون سے عناصر ہیں جو نظم میں مستعمل غیر مرئی
اشیا کو زندہ اور متحرک کر دیتے ہیں تو ان کا تجزیہ زیادہ منطقی اور معروضی ہوتا۔
لیکن اس کے باوجودپروفیسر انصاری نے حتیٰ الامکان اپنی بات دلائل و شواہد کی روشنی
میں پیش کی ہے اور نظم کی معنویت کو فکری و فنی دونوں حوالوں سے روشن کیا ہے۔
غزل اور فلمی شاعری کے باب میں مصنف نے موضوعی اور فنی
تجزیے کے ساتھ ساتھ ہم عصرشعرا اور نغمہ نگاروں کے تقابل کے ذریعے ساحر کی شاعری
پر ان کے اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے اور ان کی بلند قامتی کا ثبوت بھی فراہم کیا
ہے۔
ساحر کی فلمی شاعری کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ’’
ساحر نے ابتداً لفظیات اور اسلوب کی انفرادیت کے باوصف اپنے ماقبل شعرا مثلاً
مجروح، جانثار اختر وغیرہ کی روایت سے ہی استفادہ کیا ہے لیکن اس منزل میں بھی ان
کے نظریات رہنما بنے رہے‘‘ 5
مجروح اور ساحر کے اولین نغموں کے حوالے سے وہ کہتے ہیں
کہ مجروح نے وارداتِ عشق کے بیان میں غزل کی رمزیت اور ایمائیت سے کیفیت پیدا کرنے
کی کوشش کی ہے اور ساحر کا شعری رویہ نظمیاتی خصوصیات سے مستحکم ہوا ہے اور قنوطیت
کے بجائے کرب آمیز نشاط کا احساس غالب آیا ہے۔
اسی باب میں آگے چل
کرپروفیسر انورظہیر انصاری نے ساحر کے نغموں کی ادبیت کا بھی مطالعہ شاعری کے تنقیدی Tools( نغموں میں مستعمل بیان و
بدیع کی روشنی) کے حوالے سے کیا ہے اور ماقبل تنقید نگاروں کا حوالہ بھی پیش کیا
ہے جنھوں نے ساحر کے نغموں کی ادبیت کو تسلیم کیا ہے۔
مذکورہ مباحث کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ
کتاب ترقی پسند تحریک اور نظریے کی باز آفرینی میں معاون بھی ہے اور مطالعۂ ساحر
کے باب میں نئے در وا کرتی ہے۔
پروفیسر انور ظہیرانصاری کی ایک اور کتاب ’ترقی پسند
شعر و ادب‘ کے نام سے 2019 میں شائع ہوئی۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کتاب ایک
مخصوص نقطۂ نظر کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔
یہ کتاب 12 مضامین پر مشتمل ایک تنقیدی مجموعہ ہے، جو
ترقی پسند نظریے اور اس تحریک کے معروف تخلیق کاروں کے مطالعے پرمشتمل ہے۔اس کتاب
کا پہلا مضمون ’ترقی پسند شعر و ادب‘ کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے جس میں مصنف نے
ترقی پسندی کے اس بنیادی نظریہ ’’ ادب زندگی اور سماج کا آئینہ ہونا چاہیے‘‘کی
وضاحت پیش کی ہے۔ ترقی پسند ادبی تحریک کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر انصاری نے اس
زمانے کے تمام موضوعات کو شعرا و اُدبا کے تخلیقی و تنقیدی کارناموں کی روشنی میں
پیش کرکے ترقی پسند شعر و ادب کی اہمیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح اگر دیکھیں
تو اس مضمون کو مجموعے کے مقدمے کے طور پر تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد تین مضمون علی سردار جعفری کی شخصیت اور ان
کے ادبی کارناموں کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی سردار جعفری کے ایک مضمون
لمحوں کے چراغ ( موت و زندگی کے آئینے میں) کے ذریعے پروفیسر انصاری نے سردار
جعفری کے یہاں تصورِ زمان کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ موت اور زندگی
کے حوالے سے سردار جعفری نے وقت کو سمجھنے کے لیے اپنے پیش روؤں مثلاً مولانا
روم، علامہ اقبال، ٹیگور اور کبیر وغیرہ، کے تصورات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے نقطۂ
نظر کا بیان کیا ہے۔ مصنف ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ انھوں نے اس حوالے سے کئی نظمیں
بھی تخلیق کی ہیں جن میں میرا سفر، زندگی اور موت، نئی دنیا کو سلام وغیرہ اہم ہیں۔
پروفیسر انصاری مضمون کا تجزیہ کرتے ہوئے آخر میں تصورِ وقت کے حوالے سے سردار کے
نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک ’’زندگی اور موت کا ازلی رشتہ ارتقا
پذیر ہے جو وقت کے دھارے پر بہتا چلا جاتا ہے ، زندگی ختم ہوتی ہے اور ایک نئی
زندگی وجود پذیر ہوتی ہے۔‘‘6
سردار جعفری پر آخری
مضمون ان کی غزلوں کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے، جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی
ہے کہ سردار نے اردو غزل کو نہ صرف ترقی پسند موضوعات سے بہرہ ور کیا بلکہ لفظی
اور معنوی دونوں لحاظ سے تہدار بھی بنایا ہے اور نظموں کی لفظیات کو غزل کے پیکر میں
پیش کرکے اسے غزل کے لب و لہجے سے ہم آہنگ بھی کیا ہے۔
ایک مضمون عزیزاحمد کی کتاب ’ترقی پسند ادب‘ کے مطالعے
پر بھی مبنی ہے۔ اس مضمون میں پروفیسر انصاری نے ان کے نظریۂ نقد کو سمجھنے کی
کوشش کی ہے۔کتاب کی روشنی میں عزیز احمد کے ترقی پسند نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ عزیزاحمد نے مارکسی نظریات کو من و عن قبول نہیں کیا بلکہ مشرق و
مغرب کے فلسفوں کے تناظر میں خصوصاً علامہ اقبال کے حوالے سے اس سے اختلاف بھی کیا
ہے۔
فیض کی شاعری کے متعلق پروفیسر انور ظہیرانصاری لکھتے ہیں
کہ فیض کی شاعری میں جذبے کی شدّت کے باوجود نعرہ بازی نظر نہیں آتی۔ بلکہ وہ انھیں
احتجاج و التفات کا شاعر کہتے ہیں اور اس ضمن میں انھوں نے ان کی شاعری سے مثالیں
بھی پیش کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ فیض کی شاعری ملکی حالات و ماحول سے ہی اثر پذیر
نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں عالمی مسائل سے پیدا شدہ خطرات کا احساس بھی شدید ہے۔ فیض
کی شعری کائنات اسی لیے ہر دور کا احاطہ کر لیتی ہے، خواہ وہ مجاہدینِ فلسطین کے
ترانے کی شکل میں ہو یا کربلائے بیروت کے نغمے کی صورت یا پھر تارکینِ وطن کے لیے
نغمے کے ذریعے احتجاج اور التفات، فیض کا مقصدِ حیات تھا اور وہ تاحیات اس پر عمل
پیرا بھی رہے۔‘‘7
اسرار الحق مجاز ترقی پسند شعرا کی ابتدائی نسل سے تعلق
رکھتے تھے۔ جعفر علی خان اثرنے انھیںاردو شاعری کا کیٹس کہا ہے۔ پروفیسر انصاری نے
مجاز کو ارمانوں اور مسرتوں کا شاعر قرار دیا ہے اور ان کی شاعری کو ترقی پسند نظریے
سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجاز کی شاعری ارمانوں ، مسرتوں اور زندگی
کی توانائیوں کا جذبہ بیدار کرتی ہے اور انسانوں کے دکھ درد کا مداوا بھی تلاش کرتی
ہے اس لیے مجاز کی شاعری ایک جینوئن ترقی پسند فنکار کی تخلیق ہے جو انسانوں میں
امید اور آرزوؤں کا احساس جگاتاہے۔
معین احسن جذبی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے
جذبی کو نشاطِ درد کا شاعر قرار دیا ہے۔ انور ظہیر انصاری نے جذبی کی غزلوں اور
نظموں دونوں کا مطالعہ اس مضمون میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جذبی کی شاعری میں
روایت سے حقیقت تک کا ارتقائی سفر نظر آتا ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو جذبی کی شاعری ان
کی زندگی و حالات کی مکمل داستان بن گئی ہے۔ جذبی کے فن کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں
کہ جذبی نے کلاسیکی غزل کی لفظیات کو اپنی فن کاری کے ذریعے نئے معنی و مفاہیم عطا
کیے ہیں جس کے سبب ان کے کلام میں چیخ و پکار کم اور خوش آہنگ طرزِ اظہار زیادہ
ہے۔
جاں نثار اختر نے کافی عرصے تک ساحر لدھیانوی کے معاون
کے طور پر فلم نگری میں جدو جہد کی اور زندگی کے تلخ و ترش برداشت کیے۔ اسی لیے ان
کی شاعری میں بھی طبقاتی آویزش، سماجی ناہمواری اور استحصالی رویوں کے خلاف
احتجاج کا ایک دھیما لہجہ پایا جاتا ہے۔ پروفیسر انصاری نے اس مضمون میں جاں نثار
اختر کی زندگی، شخصیت، شاعری اور فلمی نغمہ نگاری کے ذریعے ترقی پسند شاعر کی حیثیت
سے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جاں نثار کا شعری کینوس بہت وسیع
ہے ۔۔۔۔۔ایک ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے انھوں نے انسانوں کی قدر کرنے اور انسان
کو انسان سمجھنے کا جذبہ بھی جگایا ہے۔ ایک صالح اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کی
خاطر اس احساس کو بیدار بھی کیا ہے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے ان کے حوصلوں کو مہمیز
بھی کیا ہے۔۔۔۔۔شہری زندگی کی گہما گہمی اور چکا چوند سے دور ایک ایسی زندگی کا
احساس جو زندگی کے حسن سے معمور تو ہو اور حسن و جمال کی کیفیت سے بھر پور اور
رومانیت سے لبریز بھی ہو، جاں نثار اختر کے یہاں جلوہ گر ہو گیا ہے۔‘‘8
کیفی اعظمی کو پروفیسر انصاری نے ایک بے باک کمیونسٹ
شاعر کہا ہے۔ سردار جعفری انھیں اپنے ساتھ بمبئی لے کر آئے جہاں کیفی باقاعدہ کمیونسٹ
پارٹی کے کارڈ ہولڈر بن گئے۔ کیفی کی نظموں کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ کیفی کی زیادہ
تر نظمیں ان کے ذاتی تجربوں و مشاہدوںپر مبنی ہے فٹ پاتھ، زندگی، مکان، دوپہر،
آوارہ سجدے یا بہروپنی جیسی نظمیں بغیر تجربے و مشاہدے کے شاید ہی لکھی جا سکیں۔
اس کے علاوہ ایک مضمون مجروح کی فلمی نغمہ نگاری کے
حوالے سے شامل ہے۔پروفیسر انصاری لکھتے ہیں کہ مجروح نے اپنی غزلوں کی طرح فلموں میں
بھی ترقی پسند خیالات کی ترجمانی کی ہے اس کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ
’’1956 کی کامیاب ترین میوزیکل جاسوسی فلم ’سی آئی ڈی‘ کے نغمے منظرِ عام پر آئے
تو ایسے اٹھے کہ سب کی زبان پر چڑھ گئے اس کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
اس فلم کا مشہور زمانہ گیت، جو بہ ظاہر جانی واکر پر فلمایا گیا مزاحیہ نغمہ ہے لیکن
مجروح نے اس گیت میں بھی اپنے ترقی پسند نظریات کی پیش کش کی راہ ضرور تلاش کر لی۔‘‘9
پروفیسر انصاری کی اس کتاب کے مطالعے سے یہ تو صاف ظاہر
ہے کہ انھوں نے تمام شعرا کا مطالعہ ترقی پسندادب کی روشنی میں کیا ہے۔ لیکن اس کے
ساتھ ہی انہوں نے ہر شاعر کے حالات زندگی کو بھی اپنے پیشِ نظر رکھا ہے اور اس سے
شعرا کے کلام میں آنے والی تبدیلیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔
مذکورہ تمام مباحث کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا
سکتی ہے کہ پروفیسر انورظہیر انصاری کا طریقۂ نقد تجزیاتی ہے وہ متن کا مطالعہ
موضوعاتی اور فنی دونوں حوالوں سے کرتے ہیں۔ ان کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ دلائل و
شواہد کو وہ اپنی تحریروں میں وثوق اور قطعیت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔پروفیسر انصاری
کی یہ کتابیں ترقی پسندی کی اس روایت کی باز آفرینی میں معاون ہیں جس کی مستحکم
بنیاد پروفیسر احتشام حسین، پروفیسر محمد حسن، پروفیسر قمر رئیس وغیرہ نے رکھی تھی۔
حواشی:
1 ساحرلدھیانوی:
حیات اور کارنامے، ص43
2 ایضاً،
ص69
3 ایضاً،
ص94
4 ایضاً،
ص95
5 ایضاً،
ص176
6 ترقی
پسند شعر و ادب، ایم آر پبلیکیشنز، 2019، ص77
7 ایضاً،
ص135
8 ایضاً،
ص202-03
9 ایضاً،
ص231
Abdur Rahman
Assistant Professor, Dept of Urdu
ADC University of Allahabad- 211003 (UP)
Mob.: 8218467664
abdurrahmankhann@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں