11/9/25

غلام حیدر سے خصوصی گفتگو، ساجد جلال پوری

 اردو دنیا، اپریل 2025


ساجد جلال پوری:آپ کی پیدائش کب اور کہاں  ہوئی؟

غلام حیدر: میری پیدائش یکم جنوری 1937،  امروہہ (اس وقت ضلع مرادآباد کی تحصیل) میں ہوئی ۔

س ج : آپ کا خاندانی پس منظر کیا ہے ؟

غ ح: تیرھویں صدی عیسوی سے امروہہ میں حضرت سید شرف الدین شاہ ولایت کا نقوی خاندان امروہہ میں آباد ہے۔والد سید غلام احمد گوکہ جدید اسکولی تعلیمی نظام میں کبھی نہیں پڑھے مگر نظم و نثر دونوں کی کافی مہارت تھی۔چار کتابیں سماجی موضوعات (خواتین) اور ایک دینی اصلاحی کتاب ’پنجتنی پھول‘ 1939  سے برابر شائع ہو رہی ہے۔

س ج :آپ کی تعلیم و تربیت کن کن شہروں میں ہوئی؟

غ ح: والد کی زیرِ نگرانی اسماعیل میرٹھی کی پانچوں ریڈرس کی تعلیم۔ منصبیہ کالج (میرٹھ) کی کسی ابتدائی جماعت میں ایک ڈیڑھ سال اردو فارسی کی تعلیم کی ابتدا 1943-44 چوتھی سے دسویں جماعت (میٹریکولیشن) جامعہ ملیہ اسلامیہ (1944-51)بی اے، ایم اے (معاشیات) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (1951-57)۔

س ج : آپ کے ادبی سفر کی ابتدا کیسے ہوئی ؟

غ ح: جامعہ میں بچوں کے ادب کی تخلیقی صلاحیت کی آبیاری لگ بھگ ابتدائی جماعتوں سے ہی ہو جاتی تھی۔پہلی کاوش ایک نظم 1944-45 میں ’پیام تعلیم‘ میں چھپی تھی۔اسی رسالے میں 1970 تک میری کئی کاوشیں شائع ہوتی رہیں۔پیامِ تعلیم کے مدیر (جو بچوں کے مانے جانے ہوئے ادیب ہوتے تھے) ان کا میں انتہائی مرہونِ احسان ہوں کہ انھوںنے تربیت و اصلاح کے قابلِ قدر فرائض انجام دیے۔

س ج : کیا نثر نگاری کے علاوہ آپ کو شاعری سے بھی ربط رہا ہے؟

غ ح: گو کہ بزعم خود میرا خیال ہے کہ میری پوری زندگی میں شعر و شاعری کے اثرات غیر معمولی طور پر حاوی ہیں۔ جتنے اردو فارسی اشعار اب بھی مجھے یاد ہیں ان کا شمار کئی ہزار میں آتا ہے۔مروجہ دیوانِ غالب اب بھی آدھے سے زیادہ یاد ہ ہے وغیرہ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے الیکشن کے سلسلے کی 267 اشعار پر مشتمل مثنوی  جسے کلاسک میں شمار کرکے انگریزی ریویو کے ضمیمے کے طور پر شائع کیا گیا۔بہرطور بقولِ غالب ’نا کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد‘ میں نے شاعری کے سلسلے میں اپنی ذہنی اور قلبی کیفیت کو اپنے شعر میں ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے      ؎

شعر خوانی سے نہیں کسبِ ہنر کی خواہش

سانس آ جائے ہے رک رک کے کچھ اشعار کے ساتھ

بہر طور اپنے خیال میں کچھ زیادہ مفید یا کار آمد کام کرنے کی خواہش کے تحت طے کر کے اسے خیر آباد کہہ دیا تھا۔اگر میرا یہ بیان کسی رخ سے آپ کے ناگوارِ خاطر ہوا ہو تو غالب کے اس شعر میں حسبِ ضرورت ترمیم کر کے اس طرح پڑھ لیجیے         ؎

بک رہا ہے جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

س ج : آپ کی پہلی تخلیق کب اور کہاں شائع ہوئی ؟

غ ح: ایک نظم’ ایک دن کا قصہ میں سنائوں ‘پیامِ تعلیم میں1944میں شائع ہوئی تھی۔میرا تخلص احسن تھا۔مقطع اس طرح تھا          ؎

 احسن اب ایسا نہیں کرنا

مل تو گیا اس دن ہی بدلا

س ج :آپ کی تصانیف کی تعداد کیا ہے، ان کے نام بتائیں؟

غ ح:(ادبِ اطفال پر مطبوعہ کتابیں)

(1) پیسے کی کہانی (2)خط کی کہانی (3) بینک کی کہانی  (4)اخبار کی کہانی (5) غار سے جھونپڑی تک (6) آزادی کی کہانی انگریزوں اور اخباروں کی زبانی (7) مولانا ابوالکلام آزاد (8) شیطانی مشین (9) پگڈنڈی جنگل سے کھیت تک (10) چار سہیلیوں کی کیاری (11) وقت کا مسافر (12) ایس۔اے بریلوی (13) آخری چوری (ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ) (14) میرے استاد (15) پیڑ پیڑ میرا دانا دے (16) امید کی کرن (17) متفرق کہانیاں (18) مضامیں،مقالے اور متفرق تحریریں

(ادب عالیہ پر مطبوعہ کتابیں)

(1) ہندوستان میں بیوپاری کارپوریشن کا فروغ (2) اماوس سے پورن ماسی تک (3) کتاب نما خصوصی شمارہ۔ انیس نمبر،ایڈیٹر) (4) نقوشِ جامعہ(5) کشکولِ حیدری (6) یوروپی ادب کی نادر کہانیاں (7) رَو میں ہے رخشِ عمر(8) میری دو  درس گاہیں، جامعہ ملیہ اسلامیہ (9) میری دو درس گاہیں،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (10) اپنی دنیا آپ پیدا کر ( خود نوشت) (11) قرآن حکیم اور اسلامی معاشرے کے بنیادی نقوش ۔

س ج : بچوں کے ادب میں دلچسپی کیسے ہوئی۔ اس کا آغاز کیسے ہوا؟

غ ح : جامعہ قدیم اردو میں بچوں کے جدید ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی۔بلکہ حقیقت میں بچوں کے ادب کو ایک اہم صنفِ ادب کا تصور جامعہ نے ہی بخشا ہے۔ڈاکٹر ذاکر حسین اور جامعہ کے کارکنوں کی ایک پوری ٹیم،مکتبہ جامعہ،پیام تعلیم وغیرہ جامعہ کے دورِ فقیری میں کبھی اس کام میں پورے انہماک سے لگے رہے اور نتیجے میں 1926 سے 1947 تک 300 سے زیادہ بچوں کی کتابیں مکتبہ جامعہ شائع کر چکا تھا۔جن میں آدھے سے زیادہ جدید ترین سائنسی، تکنیکی اور سماجی موضوعات سے تعلق رکھتی تھیں۔یہی بچوں کے ادب کے سلسلے میں میری نرسری تھی۔خدا معلوم میں کتنا حق ادا کر پایا اپنی مادری درس گاہ کی توقع اور تربیت و تعلیم کا۔ممکن ہے۔حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔مزید تفصیل کے لیے میری تازہ نثری کلیات ’’بچوں کا گلدستہ،ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔

س ج : ادب اطفال کے ماضی حال اور مستقبل پر تبصرہ فرمائیں۔

غ ح : بچوں کے اردو ادب کے سرمائے میں حصہ نظم بھرپور بلکہ آج کے تناظر اور میرے طرزِ فکر میں ادب کے تعمیری رخ کے اعتبار سے تناسب سے کچھ زیادہ ہے۔

اسماعیل میرٹھی،افسر میرٹھی، شفیع الدین نیّر جیسے کل وقتی اور متاثر کن شعرا بھی اب کم ہی ہیں۔دوسرے نظم بہ مقابلہ نثر (بہ استثناء اسماعیل میرٹھی) بچوں کے لیے بہر طور محدود اظہارِ بیان کی صلاحیت رکھتی ہے۔ماضی کا نثری ادب (بہ استثناء مکتبہ جامعہ) میری رائے میں بڑی حد تک پرانی کہانیوں اور غیر منقول تصورات پر مبنی ہے اور جدید دور میں شامل ہونے والے بچوں کے لیے آج کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔

2             کچھ ادیب حسبِ ضرورت محنت کرکے صحیح معلومات کی فراہمی کے ساتھ بچوں کی مناسبت سے زبان و بیان وغیرہ کی پابندیوں کے ساتھ کوشش ضرور کر رہے ہیں، مگر میرے خیال میں وہ موجودہ طوفانی رفتار سے بدلتی ہوئی دنیا کے قارئین کی ذہن سازی کے لیے ناکافی ہے۔ زیادہ تر اشاعتی ادارے تجارتی مجبوریوں کے تحت اور اردو کے مجموعی زوال کے تحت قوتِ خرید میں شدید کمی کی وجہ سے بھی مجبور و معذور ہیں۔

3             ایک بنیادی اہمیت کا نکتہ یہ بھی ہے بچوں کا اردو ادب ہندوستان میں ایک غیر معمولی دور سے گزر رہا ہے۔ اس کے قارئین خود اپنے ہی ملک میں ہی مختلف تعلیمی اور معاشی طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں میں تعلیم یافتہ خصوصاً اقتصادی آسودگی والا طبقہ ا پنے بچوں کو بہتر سے بہتر انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیجتا ہے۔ مذکورہ اس طبقے کے لیے وجود و عدم کوئی معنی نہیں رکھتا۔اس سے  نچلا یا اوسط طبقہ، جو بچوں کو ان اسکولوں میں نہیں بھیج سکتا وہ مجبوراً انہیں سرکاری اسکولوں میں بھیجتا ہے جہاں زیادہ تر ہندی یا علاقائی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔(اور علاقائی زبانوں سے ان کا بچوں کا ادب نہ صرف ان کے ذہنی تقاضوں کو پورا کرتا ہے،دیدہ زیب اور سستا بھی ہوتا ہے چونکہ اسے علاقے کی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔جن ریاستوں میں قانونی طور پر اردو کو دوسری زبان کا درجہ حاصل ہے،وہاں (میری معلومات کے مطابق) کشمیر اور مہاراشٹر کے اردو میڈیم اسکولوں کے بچے ضرور موجودہ ادبِ اطفال کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں۔

گو کہ باقاعدہ اور مصدقہ اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں، مگر واضح اور بہت حد تک ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ اپنے گھروں پر یا غیر منظور شدہ دیہی اور دیہی مدرسوں میں پڑھنے والے خصوصاً معاشی اور تعلیم میں پچھڑے طبقوں کے بچے یا وہ بچے جومنظور شدہ مدارس سے کسی اور باقاعدہ اسکول میں داخلہ لے لیں، انھیں اردو تو تھوڑی بہت آتی ہے مگر جدید، تیزی سے بدلتی دنیا کی معلومات ان کے پاس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

ہمارے بچوں کے ادب پر بنیادی طور پر اب ایسے گروپ کے تعلیمی اور معلوماتی تقاضوں کو پورا کرنے کا فرض عائد ہونا چاہیے۔ مختصراً انھیں بادشاہوں، پیر فقیروں کی بعید ا ز قیاس کرامتوں یہاں تک کہ خالص دینی داستانوں کی بھی اتنی فرصت نہیں،(جو انھیں دینی مدارس میں مل جاتی ہے) انھیں حقیقت میں آج کی دنیا کے سائنسی، تکنیکی،سماجی،معاشی،موسمیاتی وغیرہ وغیرہ جیسے مسائل پر بنیادی معلومات والے دلچسپ اور دیدہ زیب ادب کی ضرورت ہے، جو بالکل ابتدائی۔ تصویری کہانیوں سے شروع ہو کر لگ بھگ دسویں جماعت کے طالب علموں کی ذہنی تربیت کر سکیں اور انھیں موجودہ دنیا میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بنا سکیں۔

س ج : کیا آپ کی کوئی کتاب نصاب میں بھی شامل ہے؟

غ ح:جتنا وثوق سے مجھے معلوم ہے،وہ یہ ہے کہ مہاراشٹر میں ’مہاراشٹرا راجیہ پاٹھیہ پستک نرمتی وابھیاس کرم‘ ادارے نے پانچویں جماعت کی نصابی کتاب ’بال بھارتی‘ میں میری ایک کہانی بعنوان ’ہڈ کی پلیٹ‘ 2006 میں اور اس سے پہلے ایک اور نصابی کتاب میں میری کتاب ’خط کی کہانی‘ کا ایک ٹکڑا خطوں کا قبرستان شامل کیا تھا۔

میری چار کتابیں’پیسے‘، ’خط‘، ’بینک‘ اور’اخبار کی کہانی‘ (بالترتیب 1973,1974,1978 اور 2000) میں پہلی بار شائع ہوئی تھیں۔جو مرکزی ادارے NCPULسے ابھی تک چوتھی اور پانچویں اشاعت میں چھپ رہی ہیں۔

س ج :آپ کو کون کون سرکاری اور غیر سرکاری اعزازات سے نوازا گیا ہے؟

غ ح:مجھے بہت سے اعزازات ملے جن میں ( بین الاقوامی ادارہ،چلڈرن بک ٹرسٹ، نئی دہلی کے انعامات سے نوازا گیا تھا۔ ان میں سے اہم ایوارڈ اور میرے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے ساتھ اعلیٰ اور عزیز ترین اعزاز میں ٹرسٹ کی ذیلی بین الاقوامی تنظیم،ایسوسی ا یشن  آف چلڈرین رائٹرس اینڈ السٹرٹیرس ((AWICکا لائف اچیو منٹ ایوارڈ (2012) تھا۔

س ج : ادب اطفال لکھنے والوں کو بچوں کی نفسیات پر گرفت مضبوط ہونی چاہیے۔ آپ نئے قلم کاروں کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے۔

غ ح:میرا خیال، مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھتے وقت ان کی نفسیات سے زیادہ خود اپنی نفسیات کو سمجھنا اور خود پر قابو رکھنا ضروری ہے۔اس کی وضاحت سے پہلے اتنا ضرور کہوں گا کہ بچوں کی عمر کے مختلف درجات پر ان کا رویہ اور مختلف کیفیات مین ان کا ردِّ عمل، ان کاگہرا مشاہدہ اور اسے ذہن میں رکھنا بچوں کے ادیب کے لیے بنیادی نکتہ ہے۔( عام طور پرزمرۂ عمر کو3 تا 6، 4تا 9، 9 تا 12 اور 12 تا 16 پر محدود کیا جاتا ہے) فی الوقت اس نکتے کی وضاحت نہ کرتے ہوئے صرف اتنا ضرور کہوں گا کہ 3 تا6 کا نارمل بچہ، 9 تا 12 زمرے سے بہت مختلف رویہ فہم و تجربہ رکھتا ہے۔

دوسرا نکتہ، جو حقیقت میں زیادہ اہم اور عملاً بے حد مشکل ہے۔وہ ہے،معمر ادیب کی خود گرفت۔اس سلسلے میں میں صرف دو بزرگوں کی مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔کے شنکر پلائی ( چلڈرن بک ٹرسٹ اور اس سے ملحق پانچ بین الاقوامی درجے کی تنظیموں کے بانی اور منتظم اعلیٰ، بچوں کے ملیالی ادیب ( جنھیںمیں انتہائی متاثر کن، نرم قلم، ادیب مانتا ہوں) انھوںنے مختلف زبانوں کے ادیبوں کی ایک ورکشاپ میں انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے جو جملے کہے تھے انھیں میں بے حد اختصار سے اپنے الفاظ میں دوہرا رہا ہوں۔

عام طور پر بچوں کے لیے لکھنے والے کہتے ہیں کہ معمّر لوگوں کو بچوں کے لیے لکھتے وقت بچوں کے لیول تک نیچے اترنا پڑتا ہے، جو یقینا مشکل ہوتا ہے،مگر میں اس سے بھی بالکل متضاذ تصور رکھتا ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے لیے لکھتے وقت ہمیں ان کے معصوم اور بے لوث رویے کے اعلیٰ ترین معیار تک اٹھنا ہوتا ہے، جو ہماری زندگی بھر کے تجربات، مصلحتوں اور ذہنی کج رویوں، پس منظر کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ مشکل کام ہوتا ہے۔

ہم بچوں کے لیے لکھتے وقت خود اپنے سے عہدو پیمان کرتے ہیں کہ ہم انہی کی عمر کے مطابق لکھیں گے۔ مگر پانچ سطریں لکھنے کے  بعد اپنی عمر طبعی پر واپس آجاتے ہیں۔بچوں کے لیے لکھتے وقت بنیادی تصور یا منتخب موضوع، پلاٹ یا فارمیٹ، زبان، طرز بیان، مثالیں، کہانی یا مضمون کی طوالت کرداروں کا عمل اور ردِّ عمل  اور کتنی ہی چیز وں کا خیال رکھنا بچوں کے ادیب کا فرضِ عین ہے۔

س ج : اردو دنیا اور بچوں کی دنیا( رسالے) کے متعلق آپ کے کیا خیالات ہیں؟

غ ح:یہ دونوں رسالے سرکاری اداروں سے شائع ہوتے ہیں کچھ خوبیوں اور پابندیوں کے ساتھ مجموعی طور پر بچوں کے لیے معیاری، مصور، رنگین طباعت وغیرہ کے ساتھ اچھا ادب پیش کرتے ہیں، چونکہ ان کی اشاعت میں بظاہر کوئی پریشانی نہیں ہے، اس لیے بچوں کو دیدہ زیب مواد ہر مہینے آسانی سے مل جاتے ہیں۔

س ج :ہم عصر ادیبوں کے بارے میں کیا رائے اور خیالات ہیں؟

غ ح: ممکن ہے میری یہ رائے کسی کے ناگوار خاطر بھی ہو،بہر طور، معذرت کے ساتھ عام طور پر آج کل بچوں کے لیے لکھنے والے اسے  فرض کے جذبے کے تحت نہیں اپناتے اور یہ نتیجہ ہے ادب عالیہ کے ادیبوں اور عوام کے طرزِ فکر کا جو اس صنف کو غیر اہم، ناقابلِ اعتماد اور دوسرے درجے کا ادب سمجھ کر پڑھنے تک کی صورت گوارا نہیں کرتے۔خود ادیب بھی عام طور پر وقت گزاری (کچھ اور نہیں ہے تو لائو بچوں کے لیے کچھ لکھ دیں) کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور آپ بیتی کا کوئی قصہ، پرانی داستانیں، جن کا آج کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے، دوہرا کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ فرض ادا ہو گیا۔کسی طے شدہ منصوبے کے تحت لگ کر کام کرنے والے بہت کم ہیں۔ میرے مشاہدے میںمہاراشٹر میں جہاں بچوں کے ادب پرکچھ خصوصی توجہ نظر آتی ہے، محترمہ بانو سرتاج، عطاالرحمن طارق، فاروق سید کے علاوہ اور کچھ لوگ ادھر دہلی میں ڈاکٹر شمس الاسلام فاروقی  (سائنس پر بچوں کی بنیادی کتابیں)،ڈاکٹر اسلم پرویز رسالہ ماہنامہ سائنس کے مدیر اعزازی وغیرہ کے نام گنے جا سکتے ہیں۔

 

Azadar Husain Sajid Jalalpuri

Mohalla Jafara Bad

Post: Jalalpur

Distt.:  Jalalpur

Distt.: Ambedkar Nagar- 224149 (UP)

Mob.: 7571867186

azadarhusainsajid@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

پروفیسر انور ظہیر انصاری، مضمون نگار: عبد الرحمن فیصل

  اردو دنیا، اپریل 2025 پروفیسر انور ظہیر انصاری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اردو کے اچھے استاد،ادب کے ایک سنجیدہ قاری اور ناقد کی ...