اردو دنیا، اپریل 2025
ڈاکٹر تابش مہدی اردو زبان و ادب کا نمائندہ اورایک
معتبر حوالہ تھے۔ انھوںنے زندگی کا ہر لمحہ علم وادب کے فروغ میں وقف کردیا۔ تابش
مہدی کی زندگی موجودہ علم کے شیدائیوں اورآنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال
ہے۔ادبی کاوش کی بدولت ان کو بہت سے انعام و اعزاز سے نوازا گیا۔
تابش مہدی ایک علمی و ادبی گھرانے میں 3 جولائی 1951کو
پید اہوئے ۔ جائے پیدائش یوپی کا مشہور ضلع پرتاپ گڑھ ہے۔ اصل نام مہدی حسن اور پیار
سے تابش کہتے تھے۔ والد رفیع الدین جو موضع رام دیو پٹی بڈھورہ ضلع پرتاپ گڑھ کے
ساکن تھے ۔ زراعت ان کا پیشہ تھا۔ تابش مہدی کی ولادت نانیہال میں ہوئی اور وہیں
پرورش و پرداخت بھی ہوئی۔ ان کی شہرت قلمی نام ’تابش مہدی‘ سے ہوئی۔ ابتدائی تعلیم
نانیہال ہی میں گھریلو ماحول میں ہوئی۔اس سلسلے کی وضاحت کرتے ہوئے شجاع الدین نے
اپنی کتاب میں اس طرح لکھا ہے:
’’تابش
صاحب کی ننھال کسی حد تک فارغ البال اور علم و عمل سے آشنا تھی۔ ان کے نانا حضرت
صوفی میاں محمد ثابت علیؒ موضع ناجیہ پور ضلع پرتاپ گڑھ کے ساکن تھے۔ انھیں اپنے
عہد کے مشہور بزرگ و مجاہد حضرت مولانا سید محمد امین نصیر آبادیؒ سے شرف ارادت
حاصل تھا ۔انھیں کے یہاں تابش نے اپنے دنیا میں آنے کا اعلان کیا اور وہیں شعور کی
ابتدائی منزلیں بھی طے کیں۔‘‘
(تابش
مہدی ایک سفر مسلسل،ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی، مولانا مبین الدین فاروقی اکادمی
،حمزہ کالونی ،نیو سرسید نگر ،علی گڑھ یوپی، 2013، ص18)
تابش مہدی نے 1964میں
ڈسٹرک بورڈ پرتاپ گڑھ سے جونیئر پرائمری اسکول کا امتحان پاس کیا، 1965میں مدرسہ
سبحانیہ الہ آباد سے تجوید اور قرأت سیکھی۔ بعدازاں تعلیم انھوں نے تعلیم
القرآن حسن پور، مرادآباد میں حاصل کی۔ 1970 میں انھوں نے عربی اور فارسی بورڈ
الہ آباد سے مولوی (عربی)، 1978 میںمنشی (فارسی)اور 1980 میں کامل (فارسی) کا
امتحان پاس کیا۔ 1989 میں انھوںنے آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو)کی سند حاصل کی
، بالآخر 1997 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے اردو تنقید میں پی ایچ-ڈی کی سند
حاصل کی۔
تابش مہدی ہمیشہ اپنے مشفق اساتذہ سے ملتے رہتے اور ان
کی عزت کرتے۔ اسی طرح وہ اپنے شاگردوں کو بھی عزیز رکھتے اور شاگردوں نے بھی ان کی
اسی طرح عزت کی۔ تابش مہدی کے اہم اساتذہ میں مشہور شاعر اور طنز و مزاح کے اکبر ثانی شہباز امروہوی، بلالی
علی آبادی یہ بھی اپنے وقت کے اہم شاعر اور بلندپایہ استاد تھے، آرزو لکھنٔوی کے
شاگرد سروش مچھلی شہری جو کہ تابش مہدی کے لائق و فائق استاد تھے، ابو الوفا عارف
شاہ جہاں پوری اور شاعر عامر عثمانی دیوبندی شامل ہیں۔اپنے ان اساتذہ کا ہمیشہ ذکر
خیر کرتے۔ ان کا سکھایا ہوا درس اور نصیحتوں کو گرہ سے باندھ رکھاتھا۔
تابش مہدی کا نکاح 18 مئی 1979میں دیوبند کے مشہور خطاط
اشتیاق احمد عثمانی کی پوتی اور ممتاز احمد عثمانی کی بیٹی رضیہ عثمانی سے ہوا۔ شریک
حیات سے ان کی سات اولادیں ہیں۔دو فرزند ’شاہ دانش فاروق فلاحی ، شاہ اجمل فاروق
ندوی کے علاوہ چار بیٹیاں جن میں ثمینہ تابش صالحاتی،طوبیٰ کوثر صالحاتی ،یمنٰی
کلثوم اور نعمٰی کلثوم ہیں۔
تابش مہدی نے اپنی تدریسی و عملی زندگی کا آغاز 1971
سے کر دیا تھا۔ معاشی حالات نے باقاعدگی سے اسکولی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا۔
اسی وجہ سے وہ معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے کم عمری میں تگ ودو میںمنہمک ہوگئے۔
انھوں نے پرتاپ گڑھ کے کالج ’ابوالکلام آزاد‘ سے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز کیااور
1971 سے 1973 تک منسلک رہے۔ جنوری 1974 سے جون 1978 تک دارالعلوم امروہہ میں تعلیمی
خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد دیوبند میں منسلک رہے دیوبند کے بعد آپ نے جامعۃ
الفلاح، بلریاگنج، اعظم گڑھ میں مدرسی اختیار کی۔آپ کی وفات 74سال کی عمر میں 22
جنوری 2025 کو صبح 10 بجے دہلی کے میکس ہاسپٹل میں ہوئی جہاں یہ گردے اور دل کی بیماریوںکے
علاج کے لیے ایڈمٹ تھے،انا للہ وانا الیہ راجعون۔
تابش مہدی تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ صحافتی اداروں سے
وابستہ رہے جن کا مختصراً ذکر بھی ضروری ہے۔ مختلف اوقات میںپندرہ روزہ ’پیغام حق‘
پرتاپ گڑھ سے نکلتا تھا اس سے منسلک رہے۔ دیوبند سے پندرہ روزہ ’اجتماع‘ نکلتاتھا
اس سے جڑے۔ ماہنامہ ’الایمان ‘ جو دیوبند سے ہی نکلتا تھا اس کے مدیر تھے۔ ماہنامہ
’گل گڑھ‘ یہ سہسوان (بدایوں) سے جاری ہوتا تھا اس کے ایڈیٹر رہے۔ ماہنامہ ’ذکریٰ‘
جو رامپور سے شائع ہوتا تھا اس سے آپ منسلک رہے۔ ماہنامہ ’تجلّی‘ یہ دیوبند سے
جاری ہوا اس سے بھی وابستہ تھے۔ دہلی سے جاری ہونے والا ’زندگی نو‘ سے جڑے۔ دہلی
اردو اکیڈمی سے شائع ہونے والا رسالہ ’ایوان اردو‘ کے معاون مدیر بھی رہے۔ اپریل
2002 اورجنوری 2005 سے بالترتیب ماہنامہ ’پیش رفت‘ (دہلی) کے رکن مجلس ادارت اور
سہ ماہی ’کاروانِ ادب‘ (لکھنٔو)کے مشیر اعزازی اورمجلس ادارت کے رکن تھے۔ یہ تابش
مہدی کی صحافی سچائی تھی جو مختصراً بیان کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں
اور ادبی اداروں سے جو وابستگی تھی اس کاذکر نہ کرنا نا انصافی ہوگا ۔
تابش مہدی 1991 سے 3جولائی 2009 تک مرکزی مکتبہ اسلامی
پبلشرز ، نئی دہلی میں بطور ایڈیٹر اپنی خدمات انجام دیں۔آپ مادرِ علمی ابوالکلام
آزاد انٹر کالج (پرتاپ گڑھ)اور ادارۂ ادب اسلامی ہند کے رکن اساسی بھی تھے۔ عالمی
رابطہ ادب اسلامی (ہند) اور دارالدعوۃ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن (دہلی) کے ممبر، ادبیات
عالیہ اکادمی لکھنٔو کے چیئرمین ،ادارۂ ادب اسلامی ہند کے سابق نائب صدر ،سہ ماہی
’کاروانِ ادب لکھنٔو‘ کے رکن ادارت بھی تھے۔ یہ تمام ذمہ داریاں تابش مہدی کو مفت
میں تفویض نہیںکی گئی تھیںبلکہ ان کی اہلیت و صلاحیت اورکارکردگی کو دیکھتے ہوئے دی
گئیں تھیں جس پر آپ کھرے اترے۔ انھوں نے اپنی تمام زندگی اردو ادب کے لیے صرف کردی،
چاہے وہ شاعری کے حوالے سے یا نثر، یعنی اپنی تنقیدی و تحقیقی خدمات کے حوالے سے ہی
ہو۔ تابش مہدی کی تصنیفی کاوش میں 55 کتابیں ہیں جن میں 13 شاعری کے مجموعے ہیں۔
شاعری کے مجموعے میں ان کے 6 نعتوں اور منقبتوں کے مجموعے ہیں جو کہ ایک بہترین
کارنامہ ہے۔
شعری مجموعوں کے نام نقش اول (1971)، لمحات حرم (1975)،
سرور حجاز (1977)، تعبیر (1989)، سلسبیل (2000)، کنکر بولتے ہیں (2005)، صبح صادق
(2008)، طوبیٰ (2012)، غزل نامہ (2011)، مشک غزالاں (2014) ، رحمت تام (2018)، غزل
خوانی نہیں جاتی (2020)، دانائے سبل (2023)
ڈاکٹر تابش مہدی کثیر الجہات شخصیت کے مالک اور اعلیٰ
درجے کے شاعر، ناقد، محقق، اسلامی اسکالر بھی تھے۔آپ انتہائی ملنسار، دوستوں کے
سچے دوست اور نئے نئے دوست بنانے، ان سے تعلقات استوار رکھنے میںماہر تھے۔ مہدی کو
شاعری کے ساتھ ساتھ علم عروض و قوافی میں مہارت حاصل تھی۔آپ ان صدہا شخصیات میں
سے ایک تھے جو اپنے نامساعد حالات میں بھی اپنی تعلیمی راہ میں رکاوٹ نہ پید
اکرسکے اور معاشی مجبوریاں بھی تعلیمی ترقی میں خلل نہ پید اکرسکیں۔ وہ ایسے لوگوں
میں سے تھے جو ذوق و شوق اور عزم جواں لیے ہوئے شاہ راہ علم پر سرپٹ دوڑتے ہوئے
منزل مقصود پر بآسانی بھلے ہی نہ پہنچ پائے لیکن سنگلاخ زمینوں کو ہموار کرتے
ہوئے بالواسطہ طریقوں سے منزل مقصود کو ضرور پا لیتے ہیں۔
تابش مہدی محض ناقد، محقق، تاریخ نگارہی نہیں تھے بلکہ
شاعر اور مستند عالم بھی تھے۔ عربی، فارسی،ہندی اور اردو زبان پر ان کو دسترس حاصل
تھا۔ پوربی، اودھی اور بھوج پوری ان کے گھر کی غلام تھی، فلسفہ کاانھوں نے مطالعہ
بھی کیا، مذہبی تاریخ، اسرائیلیات اور بائبل سے خاصی واقفیت بھی تھی۔ غزلیہ شاعری
اور نعتیہ مجموعے سے ان کی دینی علمیت اور اس کی گہرائیوں کے عکس ان میں صاف نظر
آتے ہیں۔ ان کے مجموعے کلام کا مختصراً جائزہ لینا ضروری ہے۔
کنکر بولتے ہیں:یہ شعری مجموعہ ہے جو فریوائی اکادمی،
شاہین باغ،جامعہ نگر نئی دہلی سے 2005 میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کی تقدیم ڈاکٹر عبد
الرحمن فریوائی نے لکھی۔ اس میں ایک مضمون شامل ہے جس کا عنوان ’دیر تک زندہ رہنے
والی شاعری‘ جو مخمور سعیدی کا لکھاہوا ہے۔ تقدیم میں ڈاکٹر عبدالرحمن نے ان کی
تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ڈاکٹر
تابش مہدی ہمارے عہد کے ایک ممتازو نامور ادیب، صاحب بصیرت و معتبر نقاد، ذہین و
ژرف بیں محقق اور کہنہ مشق، خوش فکر اور قادرالکلام شاعر ہیں۔ و ہ جہاں ایک اچھے
اور بڑے ادیب، شاعری، تنقید نگار اور محقق کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں،
وہیں اعلیٰ انسانی و اخلاقی قدروں کے نقیب و ترجمان کی حیثیت سے بھی ان کی اپنی ایک
پہچان ہے۔ وہ اپنے فکر و فن کی یکسانی اور عقیدہ و عمل کی پختگی کی وجہ سے تمام
حلقوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کا یہ شعر ان کی زندگی کے
اسی رُخ کی نشان دہی کرتا ہے ؎
اب عظمت و توقیر جبیں جان لی میں نے
اب اور کسی در پہ مرا سر نہ ملے گا
(کنکرے
بولتے ہیں،مجموعہ شاعری ص11، تقدیم)
تابش مہدی شاعری میں اپنا ایک منفرد لب و لہجہ اور مقام
رکھتے تھے۔ انھوں نے سیدھے سادے لفظوں سے بڑے گہرے معانی ومفاہیم پید اکرنے کی
کوشش کی اور ان کو اس ہنر میں مہارت بھی حاصل تھی۔ اسی کے ساتھ مخمور سعیدی کا
مضمون جو اسی مجموعے میں شامل ہے ۔ مخمور سعیدی کی رائے تابش مہدی کے متعلق پیش
نظر ہے:
’’ڈاکٹر
تابش مہدی بہ طور شاعر بھی اور بہ حیثیت انسان بھی بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں۔ ان
کی شخصیت اور شاعری دونوں اسلامی اقدار کے سایے میں پروان چڑھی ہیں اور انھیں
اقدار کے گہرے شعور نے ان کے فکر و خیال کو انسان دوستی کے سانچے میں ڈھالا ہے۔‘‘
صبح صادق : یہ تابش مہدی کا نعتیہ مجموعہ ہے جس میں
حمد، نعت اورمنقبت ہے۔ ویسے بھی ان کے تمام شعری مجموعوں میں سے چھ نعتوں کا
مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ سے ان کی نعت گوئی کا اندازہ ہوگا۔ یہ مجموعہ ادبیات عالیہ
اکادمی، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگرنئی دہلی 2008 میں شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے میں’
حرف چند ‘ کے علاوہ بھی چار مضامین شامل ہیں۔ ’زائرِ حرم ثانی: تابش مہدی‘، ’ایک
صحیح العقیدہ نعت گو‘، ’حرفِ تحسین‘، ’نمودِ صبح ِ صادق‘ اہم ہیں۔ حرف چند میں
تابش مہدی نے اپنی نعت گوئی اور نعت کے سلسلے میں چند باتیں تحریر کیں ہیں:
’’صبح
صادق، میری نعتیہ و منقبتی شاعری کا تیسرا مجموعہ ہے۔ اس سلسلے کا پہلا
مجموعہ’لمحاتِ حرم ‘کے نام سے دسمبر 1975میں انجمن دائرۃ الفکر، دارالعلوم امروہہ
کے اہتمام سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کو میرے اساتذہ کرام طوطیِ ہند حضرت مولانا
وفا عارف شاہ جہاں پوری ؒ، حسان الہند علامہ بلالی علی آبادیؒ اور سلطانِ سخن
علامہ شہباز صدیقی امروہویؒ کی دعائیں حاصل تھیں۔‘‘
(صبح
صادق، تابش مہدی، ادبیات عالیہ اکادمی، ابو الفصل انکلیو ،جامعہ نگر نئی دہلی2008،
ص6)
تابش مہدی کے قلم نے نظم و نثر دونوں میں کمالات دکھائے
ہیں۔جب اخبارات، رسائل، سمیناروں اور ادبی محفلوں میں شریک ہو کر کسی شاعر یا ادیب
کے کلام یا نثری کاوشوں کا جائزہ پیش کرتے
تو وہ ناقد، محقق کے روپ میں نظر آتے۔ تابش مہدی ہر شکل و صورت میںبھاری
بھرکم و موثر نظر آتے تھے اسی وجہ سے ان کو ملک و بیرون ملک میں مدعو بھی کیا جایاتھا۔
آپ کی شہرت و مقبولیت شاعر کی حیثیت سے ہے لیکن شعری سرمایے کے بالمقابل ان کی
نثری کاوشیں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔اب ان کی نثری کاوشوں کا جائزہ لیا جائے گا۔
اردو تنقید کا سفر -جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تناظر میں: یہ
تابش مہدی کا باقاعدہ تنقیدی و تحقیقی کارنامہ ہے۔ 320 صفحات پر مشتمل یہ کتاب فخر
الدین علی احمد میموریل کمیٹی کے مالی تعاون سے 1999میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کو آپ نے چار ابواب میں تقسیم کیا۔
پہلے باب میں اردو تنقید کی طویل تاریخ اور نقادوں کاتذکرہ شامل کیا ہے۔اس میں تنقید
کے معنی و مفہوم، تنقید اور تنقید نگار، تنقید کے نظریے ،اردو تنقید کا قدیم
دبستان، مارکسی، سماجی، سائنٹیفک، ترقی پسند تنقید،نفسیاتی تنقید، جمالیاتی تنقید،
ہئیتی تنقید، اسلوبیاتی تنقید، تاثراتی تنقید، تشریحی اور توضیحی تنقید، اردو تنقید
کی روایت، تذکروں میں تنقید کی روایت، تذکرۂ نکات الشعرا، تذکرۂ ریختہ گویاں،
مخزن نکات، تذکرہ شعرا اردو، تذکرہ ہندی، مجموعہ نغز، گلشن بے خار، آب حیات، حالی
کی تنقید نگاری، شبلی کی تنقید نگاری، عبد الحق کی تنقید نگاری وغیرہ اہم ہیں۔
دوسرے باب میں جامعہ کا عام ادبی ماحول اور اردو تنقید
کے ابتدائی نقوش 1947 سے پہلے، اس باب میں23 علمی وادبی ہستیوں اور مختلف قسم کی
علمی کتابوں سے اردو ادب کے دامن کو مالا مال کردیا۔
باب سوم کا عنوان ہے ’جامعہ میں اردو تنقید کی روایت1947
کے بعد(پہلاد ور)‘ اس میں سید عابد حسین ، ذاکر حسین ، محمد مجیب عبد اللطیف اعظمی
اور مسعود حسین خاں کو نقاد قرار دیا گیا ہے۔اس کے مطالعے سے قاری کو اندازہ ہوگا
کہ کس کو نقاد مانا ہے اور کس کو نہیں۔
چوتھا باب ’جامعہ میں ہم عصر تنقید (دوسرا دور)‘ اس باب
میں وہاں کے شعبۂ اردو سے تعلق رکھنے والے چودہ اساتذہ کے نام بحیثیت نقاد لیا گیا
ہے ۔تنویر احمد علوی، شمس الرحمن محسنی، گوپی چند نارنگ، محمد ذاکر، مشیر الحق،
منظر اعظمی، حنیف کیفی، عظیم الشان صدیقی، انور صدیقی، مظفر حنفی، شمیم حنفی،
عنوان چشتی، صغریٰ مہدی اور قاضی عبید الرحمن ہاشمی وغیرہ شامل ہیں۔
تابش مہدی نے تمام اصحاب کے ناموں کی ترتیب، تاریخ پیدائش
کے اعتبار سے رکھی جو مشکل کام تھا۔ اس میں
90 مضامین قدیم و جدید شعرا و ادبا پر ہے ان کے کلام اور تحریروں پرنقدو تبصرہ کیا
گیا جن میں کچھ پر سرسری انداز اور کچھ پر ضرورت کے حساب سے تفصیل سے لکھا۔ اس کتاب
کا پیش لفظ جو پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے تحریر کیا ہے انھوں نے ان کے
بارے میں جو لکھا ہے وہ یہ ہے ۔
’’جامعہ
ملیہ اسلامیہ کے حوالے سے ادبی تنقید کا تذکرہ بعض اوقات حیرت میں ڈال سکتا ہے، لیکن
موجودہ کتاب کے مطالعے کے دوران نہ صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تنقید کی روایت اور
اس کے سفر سے واقفیت حاصل ہوتی ہے بلکہ مختلف ادوار میں یہاں موجود اساتذہ کی
انفرادی کوششوں پر بھی بھرپور اور غیر جانب دارانہ روشنی پڑتی ہے… عام طور سے سہل
الحصول اور پیش پا افتادہ موضوعات سے ہی سروکار رکھتے ہیں۔ تابش مہدی نے بڑی جرأ
ت کا مظاہرہ کیا۔ انھوںنے بھاری پتھر کو صرف چوم کر چھوڑ دینے کے بجائے اس کے علمی،
اخلاقی اور ادبی تفاضوں کو بڑی عمدگی سے پورا کیاہے۔ حد یہ ہے کہ زبان و بیان اور
املا و انشا کے ادنیٰ تسامحات سے بھی ان کایہ کارنامہ پاک ہے۔‘‘
(اردو
تنقید کا سفر -جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تناظر میں ، ڈاکٹر تابش مہدی ، ادبیات عالیہ
اکادمی ، نئی دہلی 1999،ص10)
تابش مہدی اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین نثر نگار
بھی تھے۔وہ خوبصورت اور موثر زبان لکھنا جانتے تھے۔ ان کا اسلوب بیان متاثر کن تھا
اوران کی تحریریں اس چیز کی شاہد ہیں۔ آپ ادب اسلامی کے عالم اور ترقی پسند تحریک
و جدیدیت کے زبردست ناقد و مخالف تھے۔ لیکن ان تحریکوں کے مثبت پہلوؤں کی ہمیشہ
تعریف کرتے تھے۔ ان کو مختلف اکادمیوں کی طرف سے اعزازات و انعامات سے نوازا گیا یہاں
چند کا ذکر ضروری ہے۔
حضرت حسان ایوارڈ، کل ہند حمد و نعت اکادمی، دہلی2005،
نشان اردو، اردو اکادمی نیپال2013، راسخ عظیم آبادی ایوارڈ، بہار اردو اکیڈمی،
2013، ایوارڈ برائے خدمات اردو، اردو اکادمی دہلی 2015، علامہ اقبال عالمی ایوارڈ
برائے شعر و ادب، اردو ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن آف انڈیا،2021۔
Abul Bashar
Dept of Urdu, Aligarh Muslim University
Aligarh- 202001 (UP)
Mob.: 9358693234
babashar91@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں