اردو دنیا، اپریل 2025
تابش مہدی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، وہ ایک طرف
اپنی کلاسیکی اور جدیدیت آمیز نکھری شاعری کے سبب معروف تھے اور دور دراز یہاں تک
کہ غیرممالک کے عالمی مشاعروں میں مدعو کیے جاتے تھے اور اپنے سادگی سے مترنم
آواز سے مشاعروں کی فضا بدل دیتے تھے وہیں ایک عمدہ نثر نگار اور ناقد کے طور پر
بھی اپنی خصوصی شناخت رکھتے تھے۔ پچاس سے زیادہ ان کی تصنیفات و تالیفات اس امر پر
دال ہیں۔ شاعری کے طور پر تو وہ معروف تھے ہی، لیکن جب انھو ںنے جامعہ ملیہ اسلامیہ
نئی دہلی سے جامعہ کے تناظر میں ’اردو تنقید کا سفر‘ پر پرمغز مقالہ لکھ کر جامعہ
سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تو ان کی تصنیف کے چہار دانگ عالم میں چرچے شروع ہوگئے
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ تنقید کے میدان کے شہسوار بھی کہلانے لگے۔
اپنے چھوٹے چھوٹے اور سادہ جملوں سے انھوں نے نثرنگاری
کے بھی وافر مقدار میں نمونے پیش کیے ہیں۔ وہ نہایت خلیق، نستعلیق، وضع دار اور ایک
علم دوست انسان کے طور پر بھی امروہہ دیوبند اور دہلوی تہذیب کا ایک کامل نمونہ
تھے۔ وہ اگر چہ 22 جنوری 2025 کی صبح اس دارفانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئے لیکن
اپنے پیچھے کثیر تصانیف کے ساتھ ساتھ شاگردوں کی ایک بڑی تعداد بھی چھوڑ گئے جس میں
شاعری کے ساتھ نثرنگاری میں بھی انھوں نے اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کی خوب رہ نمائی
کی اور ان کا رشتہ قلم و کاغذ سے ایسا جوڑا کہ ان میں سے اکثر آج شہرت بلندیوں پر
ہیں، لیکن ایسے شاگردوں کی تعداد کم ہی ہے جو انھیں اپنا نثری اور شاعری دونوں میدانوں
میں ایک استاذ کے طور پر متعارف کراتے ہیں، ورنہ بہت بڑی تعداد ایسے شاعروں،
نثرنگاروں اور ناقدوں کی ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ان سے صرف مشورہ لیتے تھے۔
راقم آج تک یہ بات سمجھنے سے خود کو کمزور پاتا ہے کہ
کیا مشورہ لیے بغیر کسی سے کچھ سیکھا جاسکتا ہے؟ ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ
اپنے خردوں کے مضامین اور غزلیں کہیں شائع دیکھتے تو انھیں خود کال کرتے اور اپنی
جانب سے دعاؤں کے ساتھ نہایت خوشی کا اظہار کرتے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے کہ
مسلسل لکھتے رہیے اور مشقِ سخن جاری رکھیے، اس سے قلم رواں رہتا ہے۔ شاعری کے لیے
ان کا کہنا تھا کہ اس میں استقلال آنا چاہیے اور چلتے پھرتے اپنے اشعار گنگناتے
رہیے اور شاعری کو جزوقتی نہیں ہمہ وقتی اپنائیے، تبھی آپ شاعری میں کوئی نام پیدا
کرسکیں گے۔ یہ باتیں انھوں نے راقم سے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ کہی ہیں کہ شاعری کو
مکمل وقت دیں اور اساتذہ کے کم ازکم ایک ہزار اشعار یاد رکھیں۔ ان کے انتقال سے نہ
صرف ادبی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، بلکہ اردو دنیا ایک ہمہ جہت شاعر
(نعت، غزل اور نظم) نثر نگار اور نقد کی دنیا کی بے مثال شخصیت سے بھی محروم ہوگئی
ہے۔
تابش مہدی نے اپنے اساتذہ پر بہت کھل کر لکھا ہے اور ان
کے احترام و عقیدت کے اپنی تحریرو ںمیں ایسے موتی بکھیرے ہیں، جن سے ان کے علمی شعور اور فنی پختگی کا بہ خوبی
اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے اساتذہ میں علامہ
ہلالی علی آبادی، مولانا عمر عثمانی اور علامہ شہباز امروہوی نہایت باکمال، نامور
اور فکر و فن کی دنیا میں باوقار اور اپنی شاعری اور نثرنگاری کے باوصف اعلیٰ
مرتبہ پر فائز ہیں۔ اپنے اساتذہ سے متعلق تابش مہدی نے علامہ شہباز امروہوی کی
سلطان سخن اور مجتہد فکر و فن سے تعبیر کیا ہے، وہیں مولانا عامر عثمانی کو اپنا علمی
و فکری رہنما تسلیم کیا ہے۔
دیوبند میں مشہور ماہنامہ تجلی (مدیر اعلیٰ: مولانا
عامر عثمانی اور پندرہ روزہ اجتماع دیوبند سے وابستگی کے دوران تابش مہدی: تابش
عامری تھے، اس پر بعض حضرا ت کے اعتراض کے بعد انھوں نے اپنے نام ’مہدی حسن‘ سے
’مہدی‘ اخذ کرکے تابش مہدی لکھنا شروع کیا اور اس نام سے ہی وہ شہرت پائی جو بہت
کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں علامہ شہباز امروہوی اپنے ایک خط میں تابش
مہدی کو لکھتے ہیں:
’’آپ
اگر اپنے نام کے ساتھ ’عامری‘ لکھتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ میں نہیں سمجھ
سکتا کہ کسی کو اس پر اعتراض کیوں ہے؟ لیکن آپ نے اپنا نام جو تابش مہدی لکھا ہے،
وہ میرے نزدیک مہدی تابش زیادہ صحیح ہے، یعنی اصلی نام پہلے اور تخلص پیچھے۔‘‘ (ایضاً،
ص 138)
شاید یہی وہ پہلی آخری بات ہے جس سے تابش مہدی نے
علامہ شہباز امروہوی کی بات سے اختلاف کیا ہے، ورنہ پوری کتاب ’عرفان شہباز‘ میں
جو تابش مہدی کے شہباز صاحب سے متعلق مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ
ہے، کہیں کوئی بات ایسی نظر نہیں آئی کہ انھوں نے علامہ شہباز کی کسی بات سے یک
سر مو بھی اختلاف کیا ہے۔ وہ ان کی بہت زیادہ قدر و منزلت کرتے تھے اور اکثر
ملاقاتوں میں ان سے متعلق علمی و فنی موضوعات پر قصے بھی سناتے رہتے تھے، جو میرے
خیال سے انھیں علامہ شہبااز سے محبت و مودت کے سبب ازبر تھے۔
جہاں تک تابش مہدی کے شعری رویوں اور ان کی ابتدائی
شاعری سے متعلق بات ہے توانھوں نے اپنے ایک انٹرویو میںاس پر تفصیل سے روشنی ڈالی
ہے۔ لکھتے ہیں:
’’میں
نے شاعری کب شروع کی؟ اس کی صحیح تاریخ تو مجھے نہیں معلوم۔ البتہ یہ بات مجھے اچھی
طرح یاد ہے کہ جب میں تیسری کلاس کا طالب علم تھا، بیت بازی کے بین المکاتب مقابلے
میں میں نے شرکت کی۔ ایک بار جب کوئی شعر میرے ذہن میں نہیں آیا تو میں نے اپنی
طرف سے جوڑ گانٹھ کر شعر بنا کر پیش کردیا تھا، جسے ججوں نے تسلیم کرلیا تھا۔ ان
مقابلوں میں عام طور سے پڑھے لکھے اور سخن شناس اساتذہ اپنے اپنے اسکولوں کے طلبا
کو لے کر شریک ہوگئے تھے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ میرا وہ شعر شعریت اور شعر کی جملہ
باریکیوں سے لیس نہ رہا ہو، لیکن یہ بات بہرحال ماننی پڑے گی کہ وہ شعر موزوں رہا
ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں یہیں سے میری شاعری کی بنیاد پڑی۔‘‘
(تابش
مہدی: پہچان اور پرکھ، ترتیب و تدوین: امتیازوحید، بالمشابہ، قاری عبدالعزیز اظہر،
عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، مطبوعہ 2015، ص 282)
تابش مہدی اعلیٰ ادبی اقدار کے شاعر تھے۔ ان کے مجموعہ
کلام ’تعبیر‘ پر راقم نے ڈرتے اور جھجکتے ہوئے لکھاتھا۔ اگر ان کی غزلوں کا محاسبہ
کیا جائے تو دوچار شعر بھی ایسے نہیں نکلیں گے کہ فنی اعتبار سے ان پر کوئی کلام کیا
جاسکے۔ ’تعبیر‘ کے مطالعے کے دوران دو تین جگہو ںکی راقم نے نشاندہی کی، لیکن اس
پر وہ چراغ پا ہونے کی بجائے خوش ہی ہوئے اور اس تبصرے کو اپنی کتابوں میں جگہ دی۔
دونوں شعر درج ذیل ہیں ؎
جہاد کرنے چلا ہوں میں تیرے دشمن سے
مرے خدا مجھے ہارون جیسا بھائی دے
اتنا تم مجبور نہ سمجھو، ہم اتنے مجبور نہیں
جس دن میداں میں اتریں گے لاکھوں سر لے جائیں گے
پہلے شعر کے دوسرے مصرع میں ’ہارون‘ اور دوسرے شعر میں
’اتریں گے‘ توجہ طلب ہے۔ اب یہ تو علم عروض کے ماہرین ہی بتائیں گے کہ یہ شکست ناروا کی کون سی قسم
ہے۔ بظاہر کوئی ایسی خامی نہیں ہے جس پر انگشت نمائی کی جائے، چونکہ اس قسم کے سقم
سے غالب و اقبال کی شاعری بھی مبرا نہیں ہے اور یہ بھی الگ بات ہے کہ اس سقم سے
آج کی بڑی قدآور شخصیتیں بھی نہیں بچ پائی ہیں۔ راقم نے یہ بھی لکھا کہ چونکہ وہ
میرے استاد ہیں اور یہ درس بھی انہی کا دیا ہوا ہے کہ ’کبھی کسی کی رعایت نہ کرنا
چاہے میں ہی کیوں نہ ہوں‘ اس لیے میں نے تذکرہ کردیا تھا۔‘‘
(تابش
مہدی: پہچان اور پرکھ، ص 119,120)
تعبیر ان کے شعری مجموعہ 1989 میں منظرعام پر آیا تھا۔
اس زمانے میں جگہ جگہ فسادات ہوتے تھے اور ان کا اثر علاقائی سطح پر اس دور کے
معاشرے پر نظر آتے تھے۔ تو شاعر جو حالات کا نباض ہوتا ہے، اور اس سے بے خبر کیسے
رہ سکتاتھا۔ تابش مہدی نے اس زمانے میں بڑے تاریخی، تہذیبی اور معاشرتی رنگ کے
اشعار کہے تھے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں
؎
یہ بات تو تاریخ میں ملتی نہیں صاحب
تسبیح و مصلی تو ہے تلوار نہیں ہے
(تعبیر،
ص 23)
مصلحت اندیشیِ ایام سے ہوکر الگ
جنگ کی خاطر تمھیں تیار ہونا چاہیے
(تعبیر،
ص 61)
پیکر مصلحت ہے ہر ایک آدمی
کسی سے ملیے، کسے رہ نما کیجیے
(تعبیر،
ص 26)
ہر آدمی اوڑھے ہے تقدس کا لبادہ
لگتا ہے یہاں کوئی گنہگار نہیں ہے
(تعبیر،
ص 32)
تابش مہدی کا ایک مجموعہ کلام ’کنکر بولتے ہیں‘ ہے۔ غزل
سے متعلق تابش مہدی کا نظریۂ فن اس طرح سامنے آتا ہے کہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں
نے غزل کو نئی وسعتیں دینے کی سعی کی ہے۔ ’نقد غزل‘ جوان کی ایک اہم کتاب ہے، اس میں
ایک جگہ رقم طراز ہیں:
’’غزل
میں نئے اور نادر مضامین کی دریافت ایک دشوار کام ہے۔ غزل کے فارم میں دو چار شعر
موزوں کرلینا بہت آسان ہے، لیکن کوئی نادر اور اچھوتا مضمون پیش کرکے قاری کو اپنی
طرف متوجہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔‘‘ (نقد غزل، ص 38)
تابش مہدی کے ہاں بعض اشعار ایسے بھی ملتے ہیں جن سے ان
کی فکری جولانیاں تو نمایاں ہوتی ہیں، ایک ہی قافیہ میں الگ الگ مضمون بھی پیش کیا
ہے۔ ’کنکر بولتے ہیں‘ ان کا ایک اہم شعری مجموعہ ہے، جس سے دو شعر یہاں نقل کیے
جاتے ہیں اور دونوں کو بہ انداز دگر پڑھیں اور لطف لیں ؎
چھین لی جس نے زندگی میری
وہ حقیقت میں میرا بھائی ہے
بھائی بھائی کو کیوں لڑاتے ہو
آخرکار بھائی، بھائی ہے
یہاں الطاف حسین حالی کے اس نظریے کی تائید ہوتی ہے کہ
’’شاعری ایک ہی چیز کی کبھی ایک حیثیت سے ترغیب دیتی ہے اور کبھی دوسری حیثیت سے
اس سے نفرت دلاتی ہے، مگر کبھی وہ ان حیثیتوں کی تصریح نہیں کرتی، جن پر اس کے
مختلف بیانات مبنی ہوتے ہیں۔‘‘ اب ایک مرتبہ پھر درج بالا اشعار پڑھیے تو لطف
دوبالا ہوجائے گا۔ ساتھ ہی درج ذیل شعر بھی پڑھیں اور لفظ ’پڑوسی‘ کے کردار کا
مشاہدہ کریں ؎
پڑوسی کے بچے بلکتے رہے
پڑوسی کے گھر جشن ہوتا رہا
بہت سے ناقدین فن اس بات پر متفق ہیں کہ تابش مہدی کی شاعری مقصدی شاعری ہے، جس نظریے کا علم
انھوں نے بلند کیا ہے اس کے بلا تامل اظہار بھی کیا ہے۔ تابش مہدی فن کی جن بلندیوں
پر پہنچے ہیں اس میں ان کے اساتذہ کا دخل تو ہے ہی، جس کا انھوں نے برملا اظہار بھی
کیا ہے (گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے) لیکن اسے رب کریم کا خصوصی فیضان بھی کہا جائے
تو کوئی غلط بات نہ ہوگی۔
رباعیات کے اپنے عہد کے ایک بڑے شاعر ناوک حمزہ پوری کے
مطابق ’’تابش مہدی حساس دل اور بیدار مغز لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ اپنے شاندار ماضی
پر ان کی گہری نظر ہے۔ حال پر ان کی کڑی نگاہ ہے، ان کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ
گہرا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے سینے میں ایک دردمند دل ہے۔‘‘
(تابش
مہدی: پہچان اور پرکھ، ص 86)
اس حوالے سے جب تابش مہدی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں
تو ا س طرح کے اشعار ذہن و دل کو سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں ؎
مری نظر میں ادب ہی نہیں وہ اے تابش
جو میری قوم کے بچوں کو بے حیائی دے
اے رئیسِ محلہ خبر ہے تجھے
کس لیے تیرا ہم سایہ مغموم ہے
خوشبوئیں گھر سے باہر نکلنے نہ دو
ہر نظر اس گلی کی ہوس ناک ہے
ادب نوازوں نے نظیراکبرآبادی کی مشہور نظم ’آدمی
نامہ‘ ضرور پڑھی ہوگی اور آدمی کے مختلف رنگ و روپ کا مطالعہ کیا ہوگا۔ نظیر
اکبرآبادی کی اپنی سوچ و فکر ہے اور انھوں نے اپنے انداز میں آدمی کی شخصیت کا
نقشہ کھینچا ہے ؎
دنیا میں بادشہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
زردار و بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے جو مانگتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اور تابش مہدی نے آدمی، آدمیت اورانسان کے جوہر اصلی
کی طرف اپنے مفکرانہ لہجے میں گفتگو کی ہے، بلکہ درج ذیل اشعار میں آپ دیکھیں گے
کہ آخری دو شعر ’نعت رنگ‘ ہیں ۔
پہلے یہ شعر دیکھیں ؎
آدمی تم بھی ہو اور ہم بھی مگر
آدمیت سے ہر شخص محروم ہے
آدمی، آدمی ہیں برابر مگر
سوچتا ہی نہیں یہ کوئی آدمی
اور یہ نعت رنگ دیکھیں ؎
آدمی کو آدمیت سے شناسا کردیا
اللہ اللہ وہ بھی تھا کس درجہ اچھا آدمی
آدمی کے کارناموں کو بھلا سکتا ہے کون
کر گیا روشن جہاں کو ایک تنہا آدمی
ڈاکٹر عبادت بریلوی نے کہا تھا :
’’غزل
کی رفتار زمانے سے ہم آہنگی، بدلتے ہوئے رجحانات کی ترجمانی، معاشی و معاشرتی
حالات کی عکاسی اور غور و فکر کی آئینہ دار اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ غزل میں
باوجود محدود ہونے کے ایک وسعت ہے اور ہر حال میں بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت اور
مناسبت پیدا کرسکتی ہے۔‘‘
(ڈاکٹر
عبادت بریلوی: غزل اور مطالعہ غزل، ص 254)
تابش مہدی کے ہاں غزل کے یہ بدلتے ہوئے رجحانات بڑی شدت
سے محسو س کیے جاسکتے ہیں ۔ اس لیے وہ کہتے ہیں ؎
اک کارزارِ جہد مسلسل ہے زندگی
سرسوں ہتھیلیوں پہ جماتا نہیں کوئی
نہایت مختصر ہے زندگانی
نہایت مختصر سامان رکھیے
تابش مہدی کا ایک مجموعہ کلام ’غزل نامہ‘ ہے، جس میں
غزل کا حسن تجسیم ہر شعر میں اپنے جلوے بکھیرتا ہے اور کندن بدن نظر آتا ہے۔ غزل
کی تاریخ، اس کی ارتقائی شکلیں اور تدریجی جہانِ معنی دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے
ہیں۔ غزل نامہ میں حسنِ ترتیب اپنے پورے شباب پر ہے۔ اس کی تمام غزلوں میں ایک ایسی
روحانی فضا نظر آتی ہے ،جو اپنے جلو میں ایک عجیب سا سرور بخش اور پاکیزہ تخیل
رکھتی ہے۔ اس میں مذہبی اقدار کی تجدید بھی نظر آتی ہے اور ایک حد تک تحدید بھی۔
غزل کی ماہیت اور فکری معنویت اپنی پوری جلوہ سامانیوں کے باوصف نمایاں ہے۔ ساتھ ہی
فکری اور نظری احتیاط کا دامن بھی انھوں نے نہیں چھوڑا ہے۔ ہمارے سرمایۂ غزل میں
اس طرح کی شاعری نایاب نہ سہی کم یاب ضرور ہے۔ درج ذیل اشعار میرے خیال کی تصویب
ضرور کریں گے ؎
سوزِ غم حیات ہماری غزل میں ہے
اک روحِ کائنات ہماری غزل میں ہے
جس پہ تیری روایت نہیں منکشف
وہ نہ شاعر، نہ فنکار ہے اے غزل
بقراط و جالینوس بھی موجود ہیں یہاں
روحِ جنید و شبلی و حسان غزل میں
تیرے اک اک شعر میں ہے فلسفہ
تیرا لہجہ کائناتی ہے غزل
غزل سے بدگمانی توبہ توبہ
روایت غیرفانی ہے غزل کی
غزل کے یہ محض حوالے نہیں ہیں، بلکہ اس کے کائناتی اور
بنیادی ستون ہیں، جن کے ادبی تناظر اپنی انتہاؤں کو چھوٹے نظر آتے ہیں۔ غزل کے
مزاج آشنا یہ بات بڑی اچھی طرح جانتے ہیں
کہ غزل ندرتِ خیال، لطافتِ بیان اور نزاکتِ ہنر کا جیتا جاگتا ایسا شاہکار ہے جہاں
اشتہاریت ممنوع ہے، اس لیے کہ جہاں اس میں اشتہاریت پیدا ہوئی، وہیں وہ ابتذال کی
کسی نہ کسی حد کی پابندی سے گریزاں ہوجاتی ہے اور اپنے فطری دائرہ کار سے باہر
ہوجاتی ہے ؎
تیری تصویر ہے مستقل سامنے
تیرے پیکر پہ میری نظر ہے غزل
تابش مہدی کا آخری مجموعہ کلام ’غزل خوانی نہیں جاتی‘
ہے۔ یہ شعری مجموعہ ان کے سفرِ غزل کا چھٹا پڑاؤ ہے۔ ان کے شاعری کے پچاس سالہ
تجربات و مشاہدات کا عکس بھی اس میں نمایاں ہے۔ اس میں اگر ایک طرف اگر زلف و رخ
کے قصیدے اپنے خصوصی پیکر میں نظر آتے ہیں تو وہیں ان کے اشعار کی روحانی فضائیں
بھی خوشگوار جھونکو ںکی طرح دھنشی رنگ میں نظر آتی ہیں۔ قندیل حسن بدر نے بڑا خوب صورت شعر کہا ہے ؎
کورے کاغذ پہ بھی کاڑھے ہیں شجر، پھول، ثمر
شعر کہنا ہے تو کچھ ذائقہ کچھ ڈھنگ تراش
اس شعر کی روشنی میں ’غزل خوانی نہیں جاتی‘ کے چند
اشعار نذر قارئین کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں ؎
جب مجھ پہ عدو نے کی یلغار کبھی جاناں
تیری ہی محبت کو تلوار کیا ہے میںنے
جانِ حیات! نشانِ غزل! حسن آرزو!
دیکھا تجھے تو مجھ کو ثبوتِ خدا ملا
اک تصادم مستقل رہتا ہے حسن و عشق میں
آپ بیتی لب پہ لانے سے بھی شرماتا ہوں میں
غزل کا حسن ہی دار و مدار ہے لیکن
نظر نہ آیا کوئی آج تک غزل کی طرح
ملی اک پارسا کی جب سے صحبت
یہ دامن پاک ہوتا جارہا ہے
تابش مہدی اپنی فطری ذہانت اور ذکاوت کے باوصف اپنے عہد
کے شاعروں میں ممتاز و ممیز رہے ہیں اور رہیں گے بلکہ جب ان کی غزلیہ شاعری کا باریک
بینی اور ژرف نگاہی کے ساتھ مزید گہرائی سے مطالعہ کیا جائے گا تو گنجینۂ معانی
کے کئی طلسمی دروازے کھلیں گے اور نئے اکتشافات سامنے آئیں گے۔ انھوں نے کہا
تھا ؎
فلک کے اوج پہ یا تم زمین پر رہنا
جہاں بھی رہنا مقام اپنا دیکھ کر رہنا
Dr. Munawwar Hasan Kamal
N-93, Fourth Floor, Abul Fazal Enclave
Jamia Nagar, New Delhi - 110025
Mob.: 9873819521
Email.: mh2kamal@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں