اردو دنیا، اپریل 2025
کتابیں انسانی ذہن پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ دل و دماغ کو
متاثر کرتی ہیں۔ ادب کی مختلف اصناف نے انسانی سوچ میں کافی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔
تخیلی ادب نے اردو قاری کو بہترین زبان و بیان سے روشناس کرایا۔ مختلف حالات و
واقعات کو کہانیوں، افسانوں ، ناولوں، نظموں و غزلوں کی شکل میں قاری کو واقف کرایا
وہیں ادب نے حقائق کو قاری کے سامنے پیش کر کے حالات حاضرہ کے چڑھاؤ اُتار سے
واقف کرایا۔ ان حقائق میں ہمارے ماحول میں ہونے والی تبدیلیاں، ہماری صحت پر
اثرات، اس کے تحفظ کے اقدامات اور بہترین زندگی جینے کے طریقے قاری کو بتلائے۔
چونکہ اردو ادب کا دامن بہت وسیع ہے اور اردو قلمکاروں نے تمام اصناف سخن میں طبع
آزمائی کر کے اردو قاری کو جینے کے طریقے بتلائے۔ اردو ادب میں سائنسی ادیبوں کی
ان خدمات کی جتنی پذیرائی کی جائے کم ہے۔ اگر ہم صحتمند رہیں گے تب ہی تو ہم زندگی
کے دیگر امور صحیح طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔ اپنی زبان و بیان کی صحیح خدمت
کرسکتے ہیں۔ بہترین غزلیں، بہترین افسانے، بہترین ناول لکھ سکتے ہیں اور سائنس کی
ان جدید ایجادوں کی مدد سے دنیا کے کونے کونے میں آسانی سے پہنچا سکتے ہیں۔ یہ
سائنسی علوم ہی ہیں جن سے انسانوں کو بہترین زندگی گزارنے کے گر آئے۔ اس لیے اردو
قاری کو سائنسی علوم سے واقف ہونا ضروری ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھ کر ملک کے نامور
ماہرین سائنس نے اردو زبان میں جدید سائنسی تحقیقات کے ساتھ حفظان صحت اور دیگر
سائنسی علوم کو اردو زبان میں پیش کیا تاکہ اردو قاری ان جدید سائنسی علوم سے واقف
ہوکر صحت مند زندگی گزارے اور جدید دور میں ملک و قوم کی ترقی میں اپنا تعاون پیش
کرے۔
اگر ہم اردو سائنسی ادب پر نظر ڈالیں تو اس میں ہمیں
صوبۂ مہاراشٹر کا گراں قدر تعاون نظر آتا ہے۔ اسی لیے آج کا ہمارا مطمح نظر
مہاراشٹر میں چھپی بے شمار اردو سائنسی کتابوں میں سے وہ کتابیں ہیں جنھوں نے ہم
کو متاثر کیا۔
ریاست مہاراشٹر مراٹھواڑہ ، ودربھ، خاندیش، کوکن اور
ممبئی ڈویژن پر مشتمل ہے۔ مراٹھواڑہ آزادی سے قبل نظام کے زیرتسلط رہا، اس لیے یہاں
پر اردو کی آبیاری بہت معیاری ہوئی۔ آج بھی مراٹھواڑہ کے تمام اضلاع میں نہ صرف
اردو اسکولوں کی کثیر تعداد موجود ہے بلکہ اردو میڈیم کے جونیئر کالج بھی کثیر
تعداد میں موجود ہیں۔ جن سے ہر سال کئی طلبا کامیاب ہوکر میڈیکل ، انجینئرنگ اور دیگر
کورسیس میں داخلہ لے کر اعلیٰ درجوں میں کامیابیاں حاصل کر کے معیاری زندگی گزار
رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر تخلیق کیا جانے والا ادب بہت احترام کی نظر سے دیکھا
جاتا ہے۔ مراٹھواڑہ کے سائنسی ماہرین نے اردو قاری کو اپنے رشحات قلم سے زندگی سے
جڑے تمام سائنسی علوم سے واقف کرایا اور اردو دنیا کے قاری کو بہت متاثر کیا۔
سائنسی قلمکار کی حیثیت سے مراٹھواڑہ میں دورحاضر میں
بہت احترام سے لیا جانے والا نام کیپٹن ڈاکٹر ایم ایم شیخ کا ہے جو مولاناآزاد
کالج اورنگ آباد کے سابق صدر شعبہ حیوانات اور سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر رفیق زکریا سینٹر
فار ہائر لرننگ رہ چکے ہیں۔ آپ نے علاقے کے تمام سائنسی و ادبی قلمکاروں کی
بھرپور رہنمائی کی ہے اور یہ فیض ابھی بھی جاری ہے۔ اسی میں سے ایک راقم الحروف بھی
ہے۔ آپ نے آل انڈیا ریڈیو اورنگ آباد کے توسط سے انتہائی اعلیٰ معلومات بہم
پہنچائی جن کو سن کر سامعین متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ ان ریڈیو تقاریر کو
انھوں نے جب کتابی شکل میں شائع کیا تو اس نے نہ صرف اردو قاری کو متاثر کیا بلکہ
آنے والی نسلوں کے یہاں رہبری کا کام انجام دیا۔ آپ کی سب سے پہلی کتاب ’سائنسی
شعاعیں‘ ہے جو مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی ممبئی کے مالی تعاون سے 2001میں منظرعام
پر آئی۔ اس کے پیش لفظ میں پروفیسر مجید بیدار رقمطراز ہیں کہ ’’سائنسی شعاعیں
کوئی مربوط کتاب نہیں بلکہ کیپٹن ڈاکٹر ایم ایم شیخ کے لکھے ہوئے ایسے مضامین کا
مجموعہ ہے جو وقت بہ وقت مختلف موضوعات کو پیش نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں۔ یہی وجہ
ہے کہ اس کتاب میں تنوع پیدا ہوگیا ہے۔‘‘ کتاب ’سائنسی شعاعیں‘ میں مصنف کیپٹن
ڈاکٹر ایم ایم شیخ نے کل 22مضامین کو پیش کیا۔ ہر ایک مضمون معلومات سے پُر ہے۔
تمام مضامین اچھوتے اور آج کے اس جدید دور میں بھی معلومات کا خزانہ معلوم ہوتے ہیں۔
آج بھی جب کتاب کا مطالعہ ہوتا ہے تو پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اس میں موجود چند اہم عناوین ہیں : کروموزومس یا مجرمین، جانوروں میں چند دلچسپ
حقائق ، پرندوں میں سیلانی کیفیت، پرندوں کی اجتماعی خودکشی، کیا جانور بھی باتیں
کرتے ہیں وغیرہ۔ اس کتاب کے بعد کیپٹن ڈاکٹر ایم ایم شیخ کی دوسری کتاب ’ریشم سازی‘
2016میں منظرعام پر آئی۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے ریشم کی صنعت کی تکنیکی
معلومات آسان زبان میں بہم پہنچائی۔ مصنف نے مختلف تصاویر کی مدد سے ریشم کے کپڑے
کے دورحیات سے لے کر اس صنعت سے حاصل ہونے والی تمام مصنوعات کو سمجھایا۔ ہم ریشم
کے استعمال کو صرف کپڑے کی صنعت تک ہی محدود رکھتے ہیں جبکہ ریشم کے دھاگے کا
استعمال پیراشوٹ، رسیاں، کارتوس کے بیگ ،
ٹیلی فون انڈسٹری میں وافر مقدار میں کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کے منظرعام پر آتے ہی
کشمیر اور بنگلور کے سینٹرل سلک بورڈ نے کثیر مقدار میں کتابیں خرید لیں اور کئی
نوجوانوں نے کامیابی سے ریشم سازی کو شروع کیا اور دوسروں کے لیے مشعل راہ ثابت
ہوئے۔ کتاب ’قرآن اور تخلیق انسانی‘ ڈاکٹر کیپٹن ایم ایم شیخ کی تیسری شاہکار تصنیف
ہے۔ جس میں فاضل مصنف نے26عناوین کے تحت اس موضوع پر علمی اور سائنسی معلومات
فراہم کی ہیں۔ انسانی علم جنینیات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ساتھ ہی حضرت آدمؑ ،
حضرت حواؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کو مختصراً بتلایا۔ اس کتاب میں قدرے تفصیل
سے انسانی جسم کے مطالعے کو بیان کیا۔ قرآن کریم کا استدلال اور تخلیق انسانی سے
بحث کی گئی ہے اور اس ضمن میں قرآن کریم کا سائنسی اعجاز سائنسدانوں کی نظر میں
مورئیس بوکاٹے، ڈاکٹر کیتھ مور، ڈاکٹر عبدالمجید زندانی کے بیانات کو لکھا گیا ہے۔
پوری کتاب معلومات کا خزانہ ہے جس کو پڑھنے کے بعد ذہن متاثر ہوتا ہے۔
شہر اورنگ آباد کی
قلمکار محترمہ رفعت النسا نے اردو قاری کے لیے سائنسی کتابیں تحریر کیں۔ ان کی
کتاب ’ماحول اور قابل بقا ترقی‘ عام اردو قاری کو ماحول کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ترقی
کے گُر بتلاتی ہے۔ کتاب ماحول اس کے تحفظ اور قابل بقا ترقی کے تعلق سے مختلف
معلوماتی مضامین کا احاطہ کرتی ہے جو قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ محترمہ شائستہ محمدی
نے اردو قاری کے لیے عام معلومات پر مبنی کتاب ’نباتی سائنس‘ شائع کر کے نہ صرف
طلبا بلکہ عام اردو قاری کو نباتات کے فوائد سے واقف کرایا جو اردو قاری کے ذہنوں
کو متاثر کرتی ہے۔ اسی شہر کے نوجوان قلمکار جو اردو زبان کے اُستاد ہیں انھوں نے
علم ماحول جیسے موضوع پر خامہ فرسائی کر کے مختلف اکیڈمیوں کے اعزاز حاصل کیے بلکہ
عام اردو قاری کے ذہنوں کو متاثر کر کے انھیں ماحول کی اہمیت سے انتہائی سادہ زبان
میں واقف کرایا۔ شہر اورنگ آباد کے قلمکاروں نے اردو زبان میں سائنسی معلومات
فراہم کر کے گویا اردو زبان کا حق ادا کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے کا ایک اور معتبر
نام پروفیسر خواجہ عبدالنعیم ہے جنھوں نے ’مسالہ جات‘ جیسی کتاب تحریر کر کے اردو
قاری کو مختلف مسالوں کی اہمیت سے واقف کرایا۔ مسالوں کی کاشت کے طریقے بتلائے۔ ہر
ایک مسالے کے درخت کو رنگین تصویر کی مدد سے پیش کیا جس سے کتاب کی اہمیت میں بہت
اضافہ ہوا ۔ جس نے اردو قاری کو بہت متاثر کیا۔
مراٹھواڑہ کے دیگر اضلاع کے قلمکاروں نے بھی سائنس کے
توسط سے اردو کی آبیاری کی کامیاب کوشش کی۔ اس سلسلے میں ناندیڑ سے تعلق رکھنے
والے جناب سید اختر علی کا نام اردو سائنسی دنیا میں بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔
آپ درس و تدریس سے وابستہ رہے اور اب مکمل طور سے سائنس کے توسط سے اردو کی خدمت
میں لگے ہوئے ہیں۔ اب تک آپ کی بچوں اور بڑوں کی کل دس سے زائد سائنسی کتابیں
منظرعام پر آکر پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ حال ہی میں آپ کی شائع شدہ کتاب ’رومن
اعداد‘ معلومات کا خزانہ ہے جس میں ابتدا سے آج تک رومن اعداد کی تاریخ ان کا
استعمال اور موجودہ دور میں ان کے استعمال پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ اس کو پڑھ
کر قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ رومن اعداد کا استعمال اس طرح بھی کیا جاسکتا
ہے۔ بچوں کے لیے آپ کی آٹھ سے زائد سائنسی کتابیں شائع ہوئی ہیں جو مختلف سائنسی
ایجادیں، سائنسی سمجھ ، فہم ، ادراک اور معلومات کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس کے مطالعے
کے بعد بچے اور بڑے دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ جناب سید اختر علی پابندی سے اردو زبان
میں انتہائی معیاری اور معلوماتی مضامین شائع کرتے رہتے ہیں جس کو پڑھ کر اردو قاری
کا ذہن بہت متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح ضلع پربھنی سے تعلق رکھنے والے جناب عزیزاحمدہاشمی
بھی پابندی سے سائنسی مضامین منظرعام پر لاتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب
’سائنسی کوئز‘ منظرعام پر عام ہوئی۔ یہ کتاب سائنس کے مختلف علوم کا احاطہ سوال و
جواب کی شکل میں کرتی ہے۔ اس سے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کو بھی سائنس کی بنیادی
معلومات سے آگہی ہوتی ہے جو ایک متاثر کن بات ہے۔
مہاراشٹر کی سائنسی نسائی قلمکاروں میں شاہ تاج خان
صاحبہ (پونا) کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ آپ بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے سائنسی
مضامین پابندی سے لکھتی رہتی ہیں۔ حال میں آپ کی کتاب ’پکنک‘ منظرعام پر آکر
دادوتحسین حاصل کرچکی ہے۔ ’پکنک‘ دراصل سائنسی کہانیوں کا مجموعہ ہے جن میں فاضل
مصنفہ نے ادبِ اطفال کو سائنسی حوالوں سے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ یہی وجہ
ہے کہ یہ کتاب قاری کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی قدردانی ملک کی مختلف اکیڈمیوں نے کی
اور انھیں اعزازات سے نوازا۔
ممبئی اور اس کے اطراف و اکناف کے سائنسی قلمکاروں نے
بھی سائنس کے توسط سے اردو کی بہت خدمت کی۔ پروفیسر سیداقبال نے مقامی روزنامہ کے
لیے ’سائنس اور سماج‘ کے عنوان سے مسلسل مضامین لکھے ، اِن مضامین میں سے کل
50چنندہ مضامین کا انتخاب کر کے جناب سید خالد نے کتابی شکل میں شائع کیا۔ کتاب
سماج اور اس سے جڑے سائنسی مفروضوں کا ہلکے پھلکے انداز میں احاطہ کرتی ہے۔ ہر
مضمون اپنی جگہ مکمل ، دلچسپ اور معلومات سے پُر ہے جس کو پڑھ کر قاری بہت متاثر
ہوتا ہے۔ ممبئی سے قریب بھیونڈی کو اردو کا گڑھ مانا جاتا ہے یہاں کے قلمکاروں نے
اردو ادب کے ساتھ ساتھ سائنس کی بھی خاطرخواہ خدمت کی ہے۔ یہاں کی بہت مشہور شخصیت
ڈاکٹر ریحان انصاری (مرحوم) جو سائنسی سرگرمی میں پیش پیش رہتے تھے اُن کی کتاب
’شعورصحت‘ منظرعام پر آکر بہت پذیرائی حاصل کرچکی ہے۔ ڈاکٹر ریحان انصاری چونکہ پیشے
سے ڈاکٹر تھے اس لیے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو انھوں نے اردو قاری کی صحت کو بہتر
بنانے کے لیے اپنی تحریروں کے ذریعے بھرپور کوشش کی۔ 33مختلف عناوین پر مشتمل اس
کتاب میں ڈاکٹرریحان انصاری نے انسانی صحت سے جڑے کئی مسائل اور اُن کے تدارک کو
انتہائی سادہ زبان میں اردو قاری کے لیے پیش کیا ۔ جابہ جا مناسب اور صاف ستھری
تصاویر کے اضافے کی وجہ سے اس کتاب کی اہمیت میں بہت اضافہ ہوا۔ اس کتاب کو پڑھنے
کے بعد اردو قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اردو زبان میں بھی اس معیار کا
معلوماتی مواد دستیاب ہے جو ایک متاثرکن بات ہے۔ اسی شہر کے ایک اور مصنف ہیں جناب
عبدالملک مومن جو سائنس کے معلم رہ چکے ہیں اور سائنس کے متعلق خامہ فرسائی کرتے
رہتے ہیں۔ ان کی کتاب ’پانی اور ہمارا ماحول‘ بچوں اور بڑوں دونوں میں یکساں مقبول
ہوئی۔ کیونکہ اس کتاب میں عبدالملک مومن صاحب نے 18چھوٹے چھوٹے مضامین کے توسط سے
پانی اور اس سے وابستہ ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ زبان سادہ ہونے
سے قاری کو متاثر کرتی ہے۔ بہترین تصاویر کی پیشکشی سے بچوں کے ذہنوں پر اچھے
اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے پانی کے تحفظ کے تعلق سے انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا
ہے۔ بھیونڈی سے کچھ دور موجود شولاپور کے نوجوان مصنف جناب جنیدعبدالقیوم شیخ نے
بچوں کے لیے سائنسی کتابیں لکھ کر اپنے علاقے میں ایک نیا رجحان پیدا کیا۔ ان کی
کتابوں میں سے ایک کتاب ’انسانی جسم کے اہم اندرونی اعضا‘ انسانی جسم کی معلومات
کا خزانہ ہے۔ مصنف نے مختلف تصاویر کی مدد سے انسانی جسم کے اندرونی اعضا کی ساخت
، افعال اور بہترین کارکردگی کے نسخے بہترین انداز میں سمجھائے ، جس کو پڑھ کر
انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا جسم کس طریقے سے بنایا
ہے۔ شیخ جنید کی دوسری کتاب ’مسلم سائنس دانوں کی خدمات‘ اردو قاری کو سائنس دانوں
کے تعلق سے معلومات فراہم کرتی ہے۔ خالصتاً بچوں کے لیے جناب شیخ جنید نے منرولیف
کی تحریر کردہ کتاب کو اردو قالب میں بعنوان ’سائنس برائے لطف‘ پیش کر کے سائنسی
ادبِ اطفال میں اپنا مقام پیدا کرلیا۔ اس میں موجود چھوٹی چھوٹی قلمی تصویریں بچوں
کو سائنسی گتھیاں سمجھنے میں آسانی پیدا کرتی ہیں۔
مہاراشٹر کا دوسرا اہم زرخیز اردو سائنسی قلمکاروں کا
علاقہ ناگپور ہے۔ ناگپور اور اس سے متصل کامٹی کے اردو سائنسی قلمکاروں نے سائنسی
دنیا میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ چونکہ اس خطے میں اردو اسکول اور جونیئر کالجس
کافی تعداد میں ہیں اس لیے یہاں پر اردو قاری کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ان کی
سائنسی معلومات میں اضافے کی خاطر یہاں کے سائنسی قلمکاروں نے بہت محنت کی۔ اس میں
سب سے پہلا نام ڈاکٹر محمد رفیق اے ایس کا
ہے۔ جنھوں نے سائنس کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے خامہ فرسائی کر کے کثیر تعداد میں
کتابیں شائع کیں۔ ان کی حال ہی میں شائع شدہ کتاب ’مچھر سے لاحق بیماریاں‘ معلومات
سے پُر کتاب ہے جس میں ڈاکٹررفیق نے ملیریا، ڈینگو اور چکن گنیا جیسی بیماریوں کی
نہ صرف تفصیلات پیش کیں بلکہ ان سے حفاظت کے طریقے بھی بتلائے۔ 350 صفحات پر مشتمل
یہ کتاب مختلف تصاویر سے پُر ہے جس کی وجہ سے قاری کو متن سمجھنے میں آسانی ہوتی
ہے۔ اس میں ڈاکٹری اصطلاحات کو آسان زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری
جب اس کا مطالعہ کرتا ہے تو اُسے دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور وہ پوری کتاب مکمل کیے
بغیر چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ ویسے تو ڈاکٹررفیق اے ایس کی اب تک 20 سے زائد سائنسی
کتابیں منظرعام پر آکر شہرت حاصل کرچکی ہیں۔ کچھ کتابوں کے تو کئی ایڈیشن چھپ چکے
ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے ان کی اب تک پانچ کتابیں شائع کیں
جس کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں ، جن میں بطورِخاص پیٹ کے کیڑے، منشیات، ماحولیات ایک
مطالعہ، ہمارا ماحول قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر رفیق نے ماحول کے تعلق سے کئی کتابیں
شائع کیں اور اردو قاری کو اپنے اطراف کے ماحول سے واقف کرایا نیز اس کے تحفظ کے
گر بتلائے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی مختلف اکیڈمیوں نے انھیں اعزاز سے نوازا۔ اسی وجہ
سے ناگپور سے شائع ہونے والے رسالہ ’الفاظ ہند‘ کے مدیر جناب ریحان کوثر نے ڈاکٹر
رفیق پر مارچ۔اپریل 2023 کا خصوصی شمارہ شائع کیا۔ یہ خصوصی شمارہ ڈاکٹر رفیق کی
اردو سائنسی خدمات کا اعتراف ہے۔ ناگپور کی ہی ایک دوسری اہم شخصیت ڈاکٹر محمد
ابوالکلام ہے جنھوں نے بچوں کے لیے اب تک چھ سائنسی کتابیں تحریر کیں ۔ یہ کتابیں
کہانیوں اور ناولوں کی شکل میں موجود ہیں۔ اُن کا ماحولیات کے موضوع پر بچوں کا
تحریرکردہ ناول ’غبار‘ منظرعام پر آکر نہ صرف بچوں کے لیے بلکہ بڑوں کے دلوں میں
بھی اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ اس ناول میں مصنف نے ناگپور کے براہِ راست آلودگی سے
متاثر ہونے والے علاقوں کا تذکرہ کیا جس کو فاضل مصنف نے دلچسپ اور تجسس سے پُر انداز
میں کہانی کی شکل میں پیش کر کے اردو قاری کو بہت متاثر کیا۔ ان کی دیگر کتابیں بھی
اسی طرح دلچسپی اور تجسس سے پُر ہے۔ کامٹی سے تعلق رکھنے والے مرحوم ڈاکٹرجاویداحمد
نے اپنی حیات میں اردو زبان میں سائنسی مواد فراہم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
ان کی کتاب ’سائنس ہمارے آس پاس‘ مختلف سائنسی مضامین کا مرقع ہے جس میں ڈاکٹرجاوید
نے 27 مختلف عناوین کے تحت قاری کی جدید تحقیقات اور نئی نئی سائنسی باتوں سے واقف
کرایا۔ یہ مضمون تجسس سے پُر اور معلومات کا خزانہ ہے جو اردو قاری کو متاثر کرتا
ہے۔ اس میں موجود تصاویر قاری کو سائنسی مفروضے سمجھنے میں آسانی پیدا کرتی ہیں۔
سائنس دراصل ایسا وسیع سمندر ہے جو معلومات سے پُر ہے۔
ان معلومات کا تعلق براہِ راست ہماری زندگی اور ہماری صحت سے ہے اس لیے یہ ہمارا
فرض بنتا ہے کہ قدرت میں پنہاں رازوں کو ہم جانیں، سمجھیں اور اُن پر عمل کرنے کی
کوشش کریں۔ مہاراشٹر کے کئی سائنسی قلمکاروں نے ان معلومات کو اردو قاری تک
پہنچانے کے لیے اپنی بساط بھر کوشش کی۔ ان تمام کا احاطہ ان صفحات میں کرنا ممکن
نہیں۔ لیکن جن کتابوں نے بہت متاثر کیا اُن کا تذکرہ ضروری تھا تاکہ اردو قارئین
بھی مہاراشٹر کی اردو سائنسی خدمات کو جانیں اور جن کتابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے
اُس کو حاصل کریں اور اپنے اور اپنی نسلوں تک ان معلومات کو پہنچائیں تاکہ ہم ملک
کی ترقی میں قدم سے قدم ملاکر چل سکیں۔
Dr. Rafiuddin Naser
(National Awardee Teacher)
Head Department at Botany,
Maulana Azad College of Arts
Science and Commerce
Dr. Rafiq Zakaria Campus, Rauza Bagh, Aurangabad-431001 (MS)
Mobile : 9422211634
Emial : rafiuddinnaser@rediffmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں