31/3/22

عائشہ عودہ کی خودنوشت أحلام بالحریۃ - مضمون نگار : ڈاکٹر صہیب عالم

 



عائشہ عودہ کی پیدائش رام اللہ کے ایک گاؤں دیر جریر میں1944 میں ہوئی۔ اسرائیلی فوجیوں نے 1969 میں قیدی بناکر ان کے ساتھ زبردست ظلم وجارحیت کا رویہ اختیارکیا۔ خاندانی گھر کو مسمار کردیا۔ 1970 میں اسرائیلی فوجی کورٹ نے عمر قید کی سزا سنا دی۔ مزید مغربی قدس میں بم رکھنے کے الزام اور غیرقانونی تنظیم سے تعلق رکھنے کی پاداش میں 10 سال کی سزا سنادی۔

1979 میں قیدیوں کے تبادلے کے تحت ان کی رہائی ممکن ہو پائی۔ 1998 میں قائم شدہ ابن رشد اکیڈمی نے ان کے علمی کارناموں کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں انعام واکرام سے نوازا۔ یہ ادارہ مسلسل کسی نہ کسی ادیب کو اس کے تخلیقی ادب یعنی ناول، خودنوشت، سفرنامے، اور شعروشاعری پر انعام سے نوازتی ہے۔

عائشہ عودہ گرفتار ہونے سے قبل رام اللہ کے ایک اسکول میں علم ریاضیات کی معلمہ کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دے رہی تھیں۔ 1967 کی عظیم فلسطینی جدوجہد میں آپ کا نام نمایاں ہوکر سامنے آیا۔

ادب السجون جدید فلسطینی ادب میں ایک نئے صنف کی حیثیت سے 1967 سے پروان چڑھ رہا ہے۔ اہم فلسطینی شعرائ محمود درویش، سمیح القاسم، توفیق زیاد وغیرہ کو جب قید کیا گیا تو انھوں نے قید خانوں کے اندر بھی شعروشاعری کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایک مشہور شاعر معین بسیسو نے مصر میں اپنی گرفتاری کے تجربے کو ’دفاتر فلسطینیہ‘ (فلسطینی ڈائری) کے نام سے شائع کرایا ہے۔

یہ صنف یعنی ادب السجون کافی حد تک جدید عربی ادب میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ اس صنف میں مرد وعورت، ترقی پسند، تقلید پسند اور اسلام پسند ادبائ وشعرائ اپنی تخلیقات پیش کر رہے ہیں۔ ایسے افراد بھی اس میں طبع آزمائی کر رہے ہیں جن کے پاس نہ توکوئی سیاسی رجحان ہے اور نہ وہ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ صنف ڈائری، خودنوشت، ناول ، اشعار ، ڈرامے، شذرات، انٹرویوز کی شکل میں موجو د ہے۔ عربی ادب سے دلچسپی رکھنے والے اسکالرس کے لیے یہ ایک اہم میدان کے طور پر سامنے آرہا ہے، یہ تحقیق کا ایک نیا دروا کررہا ہے، اس کا تاریخی، سیاسی، سماجی اور تنقیدی جائزہ لیا جانا چاہیے۔

عائشہ عودہ نے ایک انٹریو کے دوران ـ اپنی خودنوشت ’احلام بالحریہ‘ کی تصنیف کا مقصد واضح کرتے ہوئے کہا کہ میرے لکھنے کا مقصد ہرگز ادب السجون کا حصہ بننا نہیں بلکہ میرا مقصد صرف اور صرف قید میں گزاری ہوئی زندگی کے کربناک تجربات کو سامنے لانا ہے تاکہ جو شخص جب چاہے اس سے واقفیت حاصل کرسکے۔حقیقتاً میری یہ تحریر مزاحمتی ادب اور آزادی کے ادب کا حصہ ہے۔ قید ہماری جد وجہد کا ایک مرحلہ ہے۔ میں ادب السجون کی قیدی نہیں ہوں کیونکہ میںنے یہ تحریر قید سے آزاد ہونے کے بعد مختلف ایام میں تحریر کی ہے۔ میری تحریر کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے جس کا فلسطین کی آزادی کے لیے کوشاں ہر فلسطینی اسرائیلی قیدخانوں میں سامنا کر رہا ہے۔

عائشہ عودہ نے أحلام بالحریہ لکھتے وقت مکمل دیانت داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک انٹریو میں بیان کرتی ہیں:

’’میں نے یہ خودنوشت لکھنے کے دوران حد درجہ امانت، سچائی اور دیانت داری سے کام لیا ہے۔ کیونکہ میرے ذہن ودماغ میں وہ تمام اذیتیں اور صعوبتیں نقش ہوگئی ہیں جیسا کہ میںنے اپنے ہیر کلپ سے قید خانے کی دیوار پر کندہ کیا ہے اور میں تا حیات اسے بھول نہیں سکتی۔ ممکن ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ اس کی شدت میں کمی آ جائے لیکن ہمارے ذہن ودماغ پر اس کا نقش گہرا ہوتا جائے گا اور ممکن ہے آنے والے وقت میں اس سے محاسبہ اور نقد کرنے میں آسانی ہو۔ اور ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں زبان میں کچھ نرمی آ جائے اور میں آج جوہوں وہ نہ رہ سکوں۔‘‘

اس کتاب میں انھوں نے قید میں ہونے والے مزاحمتی تجربات کو، اپنے تجربات کو بھی اور اپنے رفقائ کے تجربات کو بھی، اور قید کے اندر اسرائیلی فوجیوں کے جبروظلم کو اجاگر کیا ہے۔ یہ قیدی کے نام کو پسند نہیں کرتی ہیں۔

أحلام بالحریہ 2005 میں پہلی بار شائع ہوئی جو کہ166 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ نسائی ادب کا ایک مثالی نمونہ بھی ہے۔ قید کے دوران عائشہ اور ان کی قیدی ساتھیوں نے قید خانہ کو ایک انقلابی مدرسہ میں تبدیل کردیا تھا۔ ان کا پہلا مقصد جہالت کو ختم کرنا تھا اور دوسرا مقصد ثابت قدمی، امیدوں کی پرورش اور مایوسی کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنا تھا، اور نیا سورج اگنا ہی چاہتا ہے اس پر یقین کامل پیدا کرنا تھا۔

فنی پہلو سے اگر عائشہ عودہ کی خودنوشت کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ انھوں نے ادب السجون کے ساتھ مزاحمتی اور نسائی ادب کو تقویت دی۔ 1969 سے 1979 کے دوران اسرائیل کی طرف سے ہونے والے ظلم وجبر، کربناک اذیتوںاور صعوبتوں کو انھوں نے مکمل طور سے پیش کیا ہے۔ ان پر جسمانی، ذہنی، معنوی، جذباتی اور وجدانی تمام خطرناک اور کربناک اذیتوں کا تجربہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان کے گھر کو ڈھا دیا گیا۔ انھوں نے قید میں جودس سال گزارے یہ ان کے وہ ایام گزشتہ ہیں جس میں انہوں نے دوسرا جنم لیا ۔

 عورت ہونے کے باوجود عائشہ نے اپنے جسم وقلم سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ اپنی اس خودنوشت کے ذریعہ عائشہ نے اسرائیلی جرائم، ظلم وبربریت، اور اذیتوں سے پردہ اٹھایا اور عام لوگوں کے سامنے اسے پیش کردیا تاکہ عورتوں اور مردوں کے ساتھ اسرائیلی قیدخانوں کی کہانی دنیا کے سامنے آسکے۔

أحلام بالحریہ کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے جب قاری اسے پڑھتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ اس کے سامنے ایک لائیو ویڈیو چل رہاہے جس میں یکے بعد دیگرے اس کے سامنے دل دہلا دینے والے منظر گزرتے جارہے ہیں۔ اس دوران قاری نہ اکتاہٹ محسوس کرتا ہے اور نہ اس کا ذہن ودماغ کتاب سے باہر نکل پاتا ہے۔

یہ کتاب مقدمہ کے علاوہ نو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب آزاد ی کا خواب، دوسرا باب آدھی رات، تیسرا باب تفتیش، چوتھا باب اعتراف جرم ، پانچواں باب گویا کہ دیوار پھٹ گئی، چھٹا باب دوسرا جنم، ساتواں باب گنگناہٹ، آٹھواں با ب اپنے دوستوں کے ساتھ اور نواں باب لکھنے کا تجربہ۔

عائشہ مسئلہ کا سرسری تجزیہ کرتی ہوئی نہیں گزرجاتی ہیں، بلکہ وہ اس قیدوبند کے بنیادی سبب کا برملا اظہار کرتی ہیں، ان کا ماننا ہے کہ اسرائیلی غاصب جب تک سرزمین فلسطین پر موجود رہیں گے، قیدوبند کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

ـ’’میں پہلی لڑکی نہیں ہوں اور نہ آخری، جب تک فلسطین اسرائیلی غاصبوں کے قبضے میں رہے گا ہماری جیسی لڑکیا ںگرفتار ہوتی رہیں گی‘‘۔

اسرائیلی جارحیت کس طرح مردوعورت میں تفریق کیے بغیرانسانیت کوشرمسار کرنے والی حرکتیں کرتی ہے، اس کا اندازہ عائشہ کے ان بیانات سے لگایا جاسکتا ہے جو وہ تفتیش کے دوران اپنے اوپر گزرے ہوئے دردناک لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے قلم بند کرتی ہیں:

’’ان میں سے ایک نے میری چوٹیوں کی طرف دیکھا، اس کو زور سے پکڑا، اور ہوا میں مجھے اونچا اٹھایا اور زمین پر پھینک دیا اور ان کے قدموں نے مجھے روندنا شروع کردیا۔ دوبارہ اس نے میرے بال کی چوٹی کو اپنی طرف کھینچا اور مجھے اوپر اٹھایا اور زمین پر دے مارا ، گویا کہ انھوں نے مجھے کھلونا بنا رکھا تھا اور ان لوگوں نے میرے ساتھ تین یا چار بار حرکتیں کیں۔‘‘

’’جب میں نے ان کے سوال کا جواب نہیں دیا تو اسرائیلی فوجی نے مجھے حرافہ کے نام سے پکارا اور کہا :

یہ حرافہ ایسے نہیں بولے گی۔‘‘

’’میرے پیچھے کھڑے شخص نے دو پائپ اٹھایا، اور میرے سر پر مارنے لگا، جیسے کہ ڈھول بجانے والا ڈھول پر مارتا ہے، میں نے اپنے سر کو بچانے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کیے، تو وہ میرے ہاتھ کے اوپر سے مارنے لگا۔‘‘

’’دوسرا شخص میری طرف بڑھا، میرے چہرے پر زور سے تھوکا، میں نے اپنے چہرے کو صاف کرنے کی کوشش کی۔ اس نے دوبارہ تھوکا، اس نے میرے دونوں ہاتھوں کو پیچھے کرکے کرسی سے باندھ دیا اور اپنے گھونسے سے میرے سر کے آخری حصہ پر مارنے لگا۔ میں نے اپنا توازن کھو دیا۔‘‘

’’اس نے استہزائ اًکہا : یہ حرافہ نہیں بولے گی۔ دوبارہ اس نے لوہے کے دو پائپ لیے اور میرے سر پر مارنے لگا، رکتا ، مارتا، رکتا، مارتا، یکے بعد دیگرے… یہاں تک کی سر زخمی ہوگیا۔‘‘

’’ایک فوجی دروازہ پر کھڑا ہوا، کچھ بولا، جلد ہی ایک شخص پانی سے بھری بالٹی لے کر آیا، بغیر کچھ بولے میرے اوپر انڈیل دیا اور نکل گیا۔

میرا جسم سکڑ گیا، میرے دانت ٹھنڈک کی وجہ سے کڑکڑانے لگے، ٹھنڈک میری ہڈیوں میں گھس گئی، میں اپنے جسم کو سمیٹ کر ایک حصے کو دوسرے حصہ سے گرمی پہنچانے کی کوشش کرنے لگی، میرے دانت ٹھنڈ کی وجہ سے کڑکڑارہے تھے، اورکانپ رہے تھے۔ ٹھنڈ میرے پورے جسم میں سرایت کرگئی۔ زمیں بھی میرے لیے پناہ گا ہ نہ بن سکی، میں قید خانے کے ایک گوشے سے لگے دیوار سے چمٹ گئی، کچھ منٹ بعد دوسری بار پانی سے بھری بالٹی میرے جسم پر انڈیل دی گئی۔ میرا پورا جسم پانی سے بھیگ گیا۔ ٹھنڈک نے میرے پورے جسم کو لپیٹ لیا، میرے دانت پرانی کار کے انجن کی طرح کانپ رہے تھے۔‘‘

عائشہ ان تمام اذیتوں اور صعوبتوں کے باوجود ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے بارے میں کچھ بھی سننا گوارہ نہیں کرتی ہیں۔ وہ اذیت خانے میں بھی اسرائیلی جارحیت پسندوں کو عار دلانے اور ان کو ان کی حیثیت دکھانے کا کام کرتی ہیں۔ایک جگہ لکھتی ہیں:

’’ان میں سے ایک نے حقارت اور ذلت آمیز لہجے میں بات کرنا شروع کردیا۔

تم، تم، تم حقیر ہو، اسرائیل سے لڑنا چاہتی ہو، ھ ھ ھ ھ

پھر اس نے زور سے قہقہہ لگایا اور بولنے لگا:

اسرائیل سے پنگا،

اسرائیل نے تو بس چھ دنوں کے اندر تمام عرب ممالک کو شکست دے دی۔ اور وہ بھی چھ گھنٹوں میں۔ تم حقیر، ذلیل اسرائیل سے جنگ کرو گی۔ تم کند ذہن ہو، بے وقوف ہو۔

متکبرانہ لہجے میں  بولا:

اس کی اس بات نے مجھے ہلادیا۔ میرا غصہ پھٹنا ہی چاہتا تھا ، میں نے اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود اس کے لہجے میں ایک جملہ کہا۔

اگر تم طاقتور اور مہذب ہو تو میری جیسی لڑکی کو مارنے کی کیا ضرورت؟

زور سے چیخا اور کہا، اپنا منہ بند کرو، منہ نہ لڑاؤ، جو ہم کہہ رہے ہیں سنو۔

اس نے عرب قوم کی عزت پر حملہ کیا۔ اور عرب کی قیادت پر بھی۔ اور کہا کہ عرب کی قیاد ت نے تو اپنے آپ کو بیچ دیا ہے۔‘‘

’’اگر تم طاقتور اور مہذب ہو تو میری جیسی لڑکی کو مارنے کی کیا ضرورت‘‘ اس ایک جملہ میں اس نے اپنا مقام بھی بیان کردیا کہ وہ کہاں کھڑی ہے اور اسرائیلی جارحیت پسندوں کو ان کی حیثیت بھی یاد دلادی کہ وہ کس قدر سطحیت اور گراوٹ کا شکار ہیں۔

عائشہ قید وبند کے ان ایام میں اپنی فلسطینی بہنوں کو نہیں بھولتی ہیں، انہیں یاد رکھتی ہیں اور انھیں اونچے اونچے عزائم سے مالامال دیکھنا چاہتی ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ فلسطینی لڑکیاں اپنے گھر اور بال بچوں سے آگے بڑھ کر ملک کی تعمیر وترقی اور ملک کی آزادی کی جدوجہد میں اس کے ساتھ شریک ہوں۔

’’میرا مقصد ملک کی تعمیر ہے، صرف گھر کی تعمیر نہیں، میری زندگی کا مقصد صرف اپنے بچوں کے عدد بڑھانے کے بجائے عوام کی تربیت ہے۔ ان کی آزادی اور زندگی اس ناجائز قبضہ میں محفوظ نہیں ہے…‘‘

’’میرے خواب بڑے اور وسیع تر ہیں، جنھیں چھینا نہیں جاسکتا۔ اگر میں نہیں جلی اور تم نہیں جلے تو روشنی کہاں سے آئے گی۔‘‘

عائشہ عزم اور حوصلے کا نام ہے، پوری کتاب میں اس کی یہ شان اور عظمت واضح طور سے نظر آتی ہے، تمام حالات کا سامنا کرنے کے باوجود اس کے قدم میں کہیں لغزش نہیں آئی، اس نے بے مثال ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا، لکھتی ہیں:

’’یہ وہ تحریر ہے جسے میں نے 33 سال بعد لکھاہے۔ میں نے بم نصب کرنے کے سلسلے میں کبھی بھی لب نہیں کھولا۔ بہت سے لوگوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اپنے اس جرأت مند انہ کارنامہ کو بیان کروں جیسا کہ وہ سمجھتے ہیں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ مجھے یا د ہے کہ فلسطین کی نسائی تنظیم کی سربراہ ڈاکٹر عصام عبد الھادی نے عمان میں اس سلسلے میں بات کرنے کے لیے بلایا، اور بہت سی طالبات نے اس سلسلے میں سوالات کیے، میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ گوناگوں کیفیت میں پایا۔‘‘

آگے لکھتی ہیں:

اصل چیز عزم کے ساتھ فیصلہ لینا ہے …… عزم ہی کامیابی کا ضامن ہے

اس کے بالمقابل وہ اسرائیلی جارحیت کی کمزوری پر بہت ہی گہرا طنز کرتی ہوئی لکھتی ہیں:

’’زمین وآسماں سے وہ لوگ ہمارے خیمے پر بمباری کرتے ہیں، برباد کردیتے ہیں، قتل کرتے ہیں، پانی اور بجلی کاٹ دیتے ہیں۔ زمیں گھر اور درختوں پر بلڈوزرچلا دیتے ہیں۔ موت، ڈر، رعب اور بربادی کی کاشت کرتے ہیں… اور وہی لوگ… عمالقہ ہیں اور وہی فیصلہ کرنے والے ہیں۔‘‘

عائشہ اپنی اور آزادی فلسطین کے لیے جدوجہد کرنے والی اپنی تمام بہنوں کے آہنی عزائم کا اظہار ان لفظوں میں کرتی ہیں:

’’مرد عورت سے افضل نہیں ہیں۔ عورت مرد سے کم نہیں ہیں۔ وطن ، مستقبل ، آزادی اور عزت نفس تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے اور ثبات قدمی ہمارا شعار ہے۔‘‘

 

Dr. Suhaib Alam

Assistant Professor

Department of Arabic

Jamia Millia Islamia

New Delhi-110025




29/3/22

تانیثیت اور خواتین ناول نگار - مضمون نگار : محمد یونس ٹھوکر

 



انیسویں صدی کے نصف آخر سے ہی تانیثی افکار و خیالات کی گونج شعوری یا غیر شعوری طور پر اردو ادب میں عموماََ اور اُردو فکشن میں خصوصاََ سنائی دینے لگیں۔ طبقۂ نسواں کے نازک اور سنجیدہ مسائل کو فکشن کے لبادے میں صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا جانے لگا۔ طبقۂ نسواں کی پسماندگی اور زبوں حالی کو مرد ادیبوں اور فکشن نگاروں کے ساتھ ساتھ خواتین قلمکاروں نے بھی موضوع بحث بنایا۔ البتہ خواتین قلمکاروں نے مردوں کے بعد لکھنا شروع کیا۔ کیوں کہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ برصغیر میں ایک طویل عرصے تک اُردو شعر وادب پر صرف مردوں کی اجارہ داری قائم تھی۔ خواتین کا اپنے خیالات کو قلم کے سہارے پیش کرنے کو مذہبی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے معیوب تصور کیا جاتا تھا۔ عشرت آفریں کا یہ شعر شاید اسی کی ترجمانی کرتا ہے ؎

اتنا بولوں گی تو کیا سوچیں گے لوگ

رسم یہاں کی ہے لڑکی سی لے ہونٹ

عورتوں پر ادب کے تئیں عائد قدغن کا معاملہ کچھ اس قدر سنگین تھا کہ اول تو عورتیں یہ جرأت ہی نہیں کرتی تھیں کہ وہ ادب تخلیق کریں۔ اب اگر کوئی اکّا دکّا عورت اپنی تخلیقی کوشش کرتی تو وہ اپنے اصلی نام کو مخفی رکھ کر فرضی ناموں سے اپنی تخلیقات شائع کرتی۔ ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ کا یہ شعر اس کی غمازی کرتا ہے  ؎

کعبے میں جا کے بھول گیا راہ دیر کی

ایمان بچ گیا، مرے مولا نے خیر کی

ناول کے مطابق اس شعر کا خالق مرد نہیں بلکہ عورت یعنی امراؤ جان ادا ہے، لیکن تانیث کا فعل نہ لانا ہی دراصل وہ جبر ہے جو عورتوں پر ادب کے حوالے سے مسلط تھا۔ اس تناظر میں معروف تانیثی مفکر ورجینا وولف کے اس خیال سے بھی اتفاق کرنا نا گزیر بنتا ہے کہ اگر کوئی عورت  "Crime And Punishment"جیسا ناول تخلیق نہ کر سکی یا اس کے لیے اس جیسا ناول لکھنا سرے سے ہی نا ممکن تھا تو اس کی کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ عورتیں ان تمام سہولتوں اور آسائشوں سے محروم رکھی گئی تھیں جو کہ مردوں کے لیے میّسر تھیں۔ غزال ضیغم نے اپنے ایک مضمون ’’مرد اساس معاشرے میں خواتین ادیباؤں کے مسائل‘‘ میں عورت پر قائم تخلیقی و ادبی حد بندیوں کا یوں اظہار کیا ہے:

’’مرد اساس معاشرے میں خواتین ادیباؤں کے لیے کہیں بھی کوئی صاف کھلی سڑک نہیں۔۔۔ خار دار راستہ۔۔۔ جہاں جگہ جگہ پر speed breakerبنے ہیں۔۔۔ بار بار ٹہریے۔۔۔ آگے نہ بڑھیے ۔۔۔ آگے خطرہ ہے۔۔۔ سرخ سگنل ڈاؤن ہے ۔۔۔ ہری اور لال بتیوں کے بیچ جلتی بجھتی خواتین ادیبائیں۔۔۔ ہر روز ایک شاعرہ ایک ادیبہ کی موت ہوتی ہے۔۔۔ ان کا ادب ان کی شاعری اس طرح مختلف طریقوں سے چھین لی جاتی ہے۔ ان کے ذہن کو کند کر دیا جاتا ہے ۔۔۔‘‘

          (عتیق اﷲ (مرتب)، بیسویں صدی میں خواتین اُردو ادب،ایچ۔ ایس۔ آفسٹ پریس، نئی دہلی، 2002، ص 151)

لیکن آہستہ آہستہ مختلف سیاسی و معاشرتی تحریکوں اور نئے تعلیمی نظام نے، مختلف ادیبوں کی تخلیقات ( جیسے نذیر احمد کے ناول ’’مراۃالعروس‘‘ اور راشد الخیری کی ’’صبح زندگی‘‘ اور ’’شام زندگی‘‘)، مختلف رسائل جیسے تہذیب نسواں، عصمت، خاتون وغیرہ نے بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں تک آتے آتے اس بحر منجمد میں ارتعاش پیدا کیا۔نتیجتاََ پتھر پسیجا اور لوہا پگھلا، خواتین سماجی، سیاسی، معاشرتی اور تعلیمی اعتبار سے بیدار ہوئیں اور یوں خواتین کی تخلیقی صلاحیتوں کے بند پانیوں کو جوئے آب عطا ہوئی۔ناول جیسی اہم صنف ادب میں طبع آزمائی کر کے خواتین قلمکاروں نے جہاں ایک طرف اپنی آرائ و نظریات کے دریچوں کو وا کیاوہیں اس صدیوں پرانی   پدرانہ فکر و فہم پر بھی خط تنسیخ کھینچی کہ عورتیں مردوں سے کمتر ہیں۔کیونکہ ناول تخلیق کرنا یا اس صنف میں طبع آزمائی کرنا ایک وسیع اور جامع صلاحیت اور مطالعہ کائنات کا مطالبہ کرتا ہے جیسا کہ وحید اختر رقمطراز ہیں:

’’ناول کے لیے زندگی کا گہرا اور وسیع مشاہدہ کرداروں اور پلاٹ کی پیچیدگیوں کو دیر تک اور دور تک سنبھالے رہنے کی صلاحیت اور دیر پا تخلیقی جذبہ چاہیے۔‘‘

(وحید اختر، سخن گسترانہ بات، مشمولہ رسالہ ’’الفاظ‘‘ ،علی گڑھ، مارچ۔ اپریل، 1981)

حالانکہ خواتین ناول نگاروں نے اس میدان میں شہسوار ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔خواتین پر ادب کے تئیں عائد پابندیوں کے باوجود کم تعداد میں ہی سہی لیکن خواتین نے مختلف ادبی کارنامے روز اول سے ہی انجام دیے۔ احساس کمتری کے باوجود ان کے شرارو نشتر قلم سے بہترین تحریریں پھوٹیں۔

چنانچہ ناول میں تانیثی فکر و شعور کی بو باس ترقی پسند تحریک سے پہلے بھی کہیں نہ کہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر ضرور ملتی ہے۔ ترقی پسند تحریک کے معرض وجود میں آنے سے قبل ہی 1932 میں ’’انگارے‘‘ کی اشاعت نے ہی اُردو ادب عموماََ اور اُردو فکشن میں خصوصاََ جوحقیقت پسندی اور روشن خیالی کی چنگاری پیدا کی تھی اس میں خواتین قلمکاروں کی بھی کاوشیں شامل تھیں۔اس پرجوش مجموعے نے جہاں سماج کے نچلے طبقے کے جنسی اور نفسیاتی مسائل کو آئینہ دکھایا وہیں بے جا و بے بنیاد مذہبی رسوم اور پابندیوں پر بھی بے باکانہ احتجاج کیا۔اردو ناول بھی فکری سطح پر اس اثر کو قبول کیے بغیر نہ رہ سکا۔صغریٰ مہدی کی رائے سے اتفاق کیا جاسکتا ہے:

’’انگارے نے تانیثیت کا ایک مضبوط تر نظریہ اُردو ادب میں داخل کیا۔ اُردو ناول نے اس نظریے کو اپنے رگ وپے میں شامل کرلیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ طرز فکر اُردو ناول نگاری کا ایک ناگزیر حصہ بن گیا۔ عورتوں کے بے شمار مسائل اس میں سانس لینے لگے۔ کہیں کہیں یہ سانس للکار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔‘‘

          (صغری مہدی، اُردو ناولوں میں عورت کی سماجی حیثیت،سجاد پبلیشنگ ہاؤس، دہلی،2002 ، ص 79)

پھر ترقی پسند تحریک نے اس رویے کو اور زیادہ استحکام بخشا۔اس تحریک نے تانیثی افکار وخیالات کو پھلنے پھولنے اور ترویج پانے کے لیے ایک آزادانہ ماحول اور بنیاد فراہم کی۔قرۃالعین حیدر اور ان کی ہم عصر عصمت چغتائی،خدیجہ مستور، جمیلہ ہاشمی، بانو قدسیہ، صغریٰ مہدی اور رضیہ فصیح جیسی خواتین ناول نگاروں نے بھی اسی تحریک کے عرصۂ حیات میں ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت قائم کی۔

بہر حال اس مؤثر ادبی تحریک کے منظر نامے پر قرۃالعین اور اس کے ہمعصر ناول نگاروں نے اپنے خلاق اور فعال تخیل کو سر گرم عمل لاکر اپنے ناولوں میں طبقۂ نسواں کی زبوں حالی، ان کے تشخص اور وجود ، ان کی داخلی و خارجی حالات و کوائف ، ان کی ذہنی و جذباتی کرب و عذاب اور گھٹن اور مرد اساس معاشرے میں ان کے خوابوں کی شکست و ریخت کو موضوع بحث بناکر اپنی طرف سے طبقہ نسواں کی حمایت کی۔ان خواتین ناول نگاروں نے طبقۂ اناث کی مجروح شخصیت اور من جملہ مسائل کو آئینہ دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

اردو فکشن میں خواتین قلمکاروں میں سب سے پہلی واضح اور مستحکم تانیثی آواز عصمت چغتائی کی ہے۔ یہ قرۃالعین حیدر کی سب سے اہم ہمعصرخاتون ناول نگار ہیں جن کے ناولوں میں تانیثی افکار و خیالات کی بازآفرینی کی جاسکتی ہے۔ان کا اسلوب اور انداز تحریر خالص تانیثی آواز کی غمازی کرتا ہے۔خواتین کے سماجی اور معاشرتی پہلوؤں کو بیان کرنے پر انھیں مکمل گرفت حاصل ہے۔انھیں اس طبقہ کی زندگی کے جنسی اور نفسیاتی مسائل بیان کرنے پر خاصی مہارت ہے۔عصمت کا ماننا ہے کہ عورت گھر کی چار دیواری میں مقید رہ کر ذہنی کرب و عذاب میں مبتلا رہتی ہے۔انھیں اس کرب و عذاب سے نجات دلانا ہی ان کی تحریروں کا اصل جوہر ہے۔شاید اسی لیے ان کی تحریروں میں درشتی اور شدت جھلکتی ہے۔افسانہ ’’لحاف ‘‘ پر اسی شدت پسندی اور بے باکی کے باعث ان پر مقدمے دائر ہوئے تھے۔جنسی مسائل اور نفسیاتی پہلوؤں کو بڑی بے باکی سے بیان کرنا ان کے ہاں اتفاقی نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مقصد کار فرما ہے اور وہ ہے آزادیٔ نسواں کا خواب۔ اس بے باکی کے پس پردہ ہی ان کی تحریروں میں انسان دوستی کی بہترین تصویریں ملتی ہیں۔ خود ان کا کہنا ہے:

’’میں قصداََ محض جنسی موضوع اٹھا کر نہیں لکھتی اس کے پیچھے میرا کوئی مقصد ہوتا ہے یعنی انسان کی آزادی کا سوال ، عورت کی آزادی کا سوال جس کو میں حل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘

          (بحوالہ ، قیصر جہاں (مرتب)، اُردو میں نسائی ادب کا منظر نامہ، سلسلۂ مطبوعات، ڈی ایس اے پروگرام شعبۂ اُردو علی گڑھ مسلم یونیور سٹی، علی گڑھ، 2004، ص 195)

ان کے ناولوں ضدی، ٹیڑھی لکیر، معصومہ، دل کی دنیا وغیرہ میں عورتوں کی زندگی کے تلخ حقائق کی ترجمانی ملتی ہے۔سماجی ناہمواری اور طبقاتی کشمکش ایک معاشرے کے دو انتہائی سنگین ناسور ہیں۔ عصمت چغتائی کا تانیثی شعور اتنا راسخ اور پختہ ہے کہ انھوںنے اپنے ناولوں میں ایسے نسوانی کردار تراشے ہیں جو ان دونوں ناسوروں کے خلاف احتجاج کا پرچم بلند کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔جہاں ’ٹیڑھی لکیر‘ کی’ شمن‘ہر لحظہ اور ہر آن سماجی ناہمواریوں کے تھپیڑے کھا کر زندگی کے منظر نامے پر ابھرتی ڈوبتی نظر آتی ہے وہی’ضدی‘ کی آشا طبقاتی کشمکش کے خلاف اپنی جان نچھاور کرتی ہے ۔شمن اپنے حقوق کی پامالی برداشت نہیں کرتی۔ وہ مردانہ سماج کی ظلم و زیادتیوں اور بد سلوکیوں کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتی ہے۔

شمن عصمت چغتائی کا ایک مضبوط اور جاندار کردار ہے اُردو کے تقریباََ سبھی ناقدین نے اس کردار کی تعریف کی ہے۔ اس کردار کے توسط سے جہاں انھوں نے مردانہ سماج پر طنز کے تیر چلائے ہیں وہیں ہندوستانی سماج میں عورت کی حیثیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستانی سماج کے کھوکھلے پن کو قدرے واضح انداز میں منظر عام پر لانے کے لیے انھوں نے نوری کا کردار تراشا ہے۔ یہ ان لڑکیوں کی ترجمانی کرتی ہے جنھیں شوہر کی بے جا پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ عصمت چغتائی کو عورت کی اس حیثیت سے چڑ ہوتی ہے جہاں عورت کا کام صرف بچوں کی پیدائش اور پرورش کے علاوہ گھرداری تک محدود ہو۔ ناول ’’ٹیڑھی لکیر ‘‘ میں وہ اس کے خلاف احتجاج اور بغاوت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں:

’’اسے نوری بالکل ایک گائے بیل کی طرح لگ رہی تھی۔ اکیاون ہزار میں وہ اپنی جوانی کا سودا کرکے ایک مرد کے ساتھ جارہی تھی بیوقوفوں کی طرح نہیں۔ کاغذ لکھا کر اگر وہ بعد میں تڑپے تو اور پھندا اس کے گلے میں تنگ ہوتا جارہا ہے اور وہ چغد بھی ڈھول تاشے سے خریدکر لے جارہا ہے۔ آخر فرق ہی کیا ہے اس سودے میں اور آئے دن جو جاڑوں میں خرید و فروخت ہوتی رہتی ہے وہ چھوٹا موٹا بیوپار ہے جسے کچالو، پکوڑیوں کی چاٹ اور یہ لمبا ٹھیلہ ہے۔ جب تک ایک فریق خیانت نہ کرے بیوپار چلتا رہتا ہے ورنہ سودا پھٹ۔‘‘

(عصمت چغتائی، ٹیڑھی لکیر، کتاب کار ، رام پور، 1967 ، ص 211)

 مرد اساس معاشرہ male dominated society کی بے اعتنائی اور غیر منصفانہ رویہ ہی شمن کی فطرت کو باغی اور سرکش بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ وہ مرد وزن سے شدید نفرت کرتی ہے اور کسی ایک کی بیوی نہ بن کر سب کی بیوی بن جاتی ہے۔ وہ ایک باغی لڑکی کی طرح سماج و معاشرے سے انتقام لیتی ہے۔اس کا یہ انتقامی رویہ سماج کے ان کثیر تعدادلڑکیوں کی نمائندگی کرتا ہے جن کی خواہشات ، احساسات، نفسیات اور جذبات کو مردانہ سماج کے جبر و تسلط کے بل بوتے پر زیر کیا گیا اور نتیجہ کے طورپر ان کی شخصیت اور نفسیات میں ایک بھیانک دراڑ پیدا ہوئی۔ عصمت چغتائی نے خود اس کی طرف اشارہ کیا ہے:

’’شمن کی کہانی کسی ایک لڑکی کی کہانی نہیں ہے۔ یہ ہزاروں لڑکیوں کی کہانی ہے۔ اس دور کی لڑکیوں کی کہانی ہے جب وہ پابندیوں اور آزادی کے بیچ ایک خلا میں لٹک رہی  ہیں۔‘‘

(عصمت چغتائی، (پیش لفظ)ٹیڑھی لکیر،کتاب کار ، رام پور، 1967)

عصمت چغتائی کے نسوانی کردار تو احتجاج بن کر نمودار ہوتے ہیں۔’’ٹیڑھی لکیر‘‘ کی شمن مردوں کی برتری اور عورتوں کی کمتری ، جیسی زیادتی سے تنگ آکر چلا اُٹھتی ہے:

’’ہنہ بد تمیز! چور اور حیوان کو حیوان کہنا بد تمیزی نہیں ، راست گوئی ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ تمھارے بھوکنے سے میں ڈر جاؤں گی۔ چاہے جو کچھ ہو تمھارے فریب کا حال ضرور لکھوںگی اس طرح دھوکہ دے کر تم بھاگ نہیں سکتے، اس کا انجام سوچ لینا‘‘

(عصمت چغتائی، ٹیڑھی لکیر،کتاب کار ، رام پور، 1967 ، ص291)

عصمت نے شمن کے کردار کے ذریعے ہندوستانی سماج و معاشرے میں زندگی گزارنے والی ایک ایسی عورت کی خوبصورت عکاسی کی ہے جو روشن خیال اور خوددار ہونے کی بنا پرایک طرف آزادانہ زندگی گزارنے کی متمنی ہے اور بظاہرخودمختارانہ اقدام بھی اُٹھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔

خدیجہ مستور کا نام بھی لینا از حد ضروری ہے۔ ان کے دو اہم ناول ’’آنگن ‘‘ اور ’’زمین‘‘جو بالترتیب 1962 اور1984 میں سامنے آئے۔ مذکورہ دونوں ناولوں میں تانیثیت کے دھندلے نقوش تلاش کیے جا سکتے ہیں۔خدیجہ مستور کا خاصہ یہ ہے کہ انھوں نے تانیثیت کی وکالت باغیانہ اور بے باکانہ انداز میں نہیں کی ہے بلکہ ان کے ناولوں میں تانیثی آواز کی حمایت بڑی دھیمی، سبک اور مدھم انداز میں پوشیدہ ہے جسے تلاش کرکے منظر عام پر لایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے تقسیم برصغیر کے پس منظر میں طبقۂ نسواں کے داخلی انتشار، روحانی کرب و عذاب، بے بسی اور احساس محرومی کا نقشہ صاف اور واضح کھینچا ہے۔

تقسیم ملک کے تناظر میں تحریر ہوئے ناول ’’آنگن‘‘ کے نسوانی کردار تانیثی فکر و شعور کے اعتبار سے لائق مطالعہ ہیں۔ عالیہ نامی ایک نوجوان لڑکی مرکزی کردار کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہ ایک تعلیم یافتہ، سنجیدہ اور ذہین لڑکی ہے۔ حالات اور وقت کے نشیب و فراز کا انھیں گہرا اور عمیق ادراک حاصل ہے۔  جب کسم دیدی کو اس کا شریر اور ظالم شوہر چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو سب کسم دیدی پر طعنے کستے  ہیں اور بدنامی کے ڈر سے اس کے ساتھ ترک موالات بہتر سمجھتے ہیں۔لیکن اس سلسلے میں عالیہ کی سوچ کس قدر مثبت اور معتبر دکھائی دیتی ہے۔ ملاحظہ ہو:

’’اب اگر ان سے ملی تو لوگ انگلیاں اٹھائیں گے، وہ بد معاش جو مشہور ہو گئیں‘‘ ’’مگر لوگ اس آدمی کو بُرا کیوں نہیں کہتے جو انہیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔؟‘‘

’’بس نہیں کہتے ، لڑکی ہی کو برا سمجھتے ہیں، تم بھی اب بڑی ہو گئی ہو ، ان کے گھر نہ جانا ورنہ لوگ اُنگلیاں اُٹھائیں گے۔‘‘

خدیجہ مستور، آنگن، ایجوکیشنل بُک ہاؤس، علی گڑھ، 2010 ، ص 57)

جمیلہ ہاشمی کے ناولوں میں تانیثی آب و رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ موصوفہ کے کئی ناول منظر عام پر آچکے ہیں جن کو خاصی پزیرائی حاصل ہوئی۔ ان ناولوں میں ’’تلاش بہاراں‘‘ ’’آتش رفتہ‘‘ ’’چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو‘‘ خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔’’تلاش بہاراں‘‘ کو 1961 میں پاکستان کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ، آدم جی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شاید اس کی مقبولیت کی وجہ بھی یہی ہو سکتی ہے ورنہ فنی اعتبار سے یہ اتنا زیادہ پختہ ناول نظر نہیں آتا کیونکہ اس میں بقول اقبال مسعود نفس وحدت کی کمی ہے۔ 644صفحات پر پھیلے ہوئے اس ناول کا موضوع متعین کرنا اگر چہ قدرے مشکل امر ہے تاہم ا س کے بین السطور میں تانیثی فکر و شعور کی گونج ضرور سماعت کی جا سکتی ہے۔اس اعتبار سے اس ناول کی مرکزی نسوانی کردار کنول کماری ٹھاکر اہم ہے۔ اس کردار کو پیش کرنے پر ناول نگار نے پوری قوت صرف کی ہے۔اس کردار کے توسط سے جمیلہ ہاشمی نے مردانہ اقدار حیات اور جبر و استحصال کا توڑ پیش کیا ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ مصنفہ نے دراصل طبقہ نسواں کی زبوں حالی اور ظلم و استحصال کو اندر سے بھانپ لیا ہے اور اب یہ اس کردار کے طفیل خواتین کو جدو جہد کی تلقین کرکے آزادانہ زندگی حاصل کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔جیسا کہ نیلم فرزانہ لکھتی ہیں:

’’تلاش بہاراں کا ’’اسم‘‘ دراصل ناول کے ایک کردارکنول کماری ٹھاکر کی کوششوں اور جدوجہد کا استعارہ ہے جو اس نے عورتوں کی بھلائی ، ان کے حقوق کی حفاظت اور عورتوں کی عام ذہنی صورتحال کو بدلنے کے لیے کی۔ اس ناول میں جتنے بھی اہم کردار پیش کئے گئے ہیں ان سب کی کہانی ہندوستانی عورت کی زندگی کے المناک پہلو کو پیش کرتی ہے۔ ان کرداروں کے حوالے سے ناول کا موضوع ہندوستانی عورت کا مقدر قرار پاتا ہے۔‘‘

          (نیلم فرزانہ، اُردو ادب کی اہم خواتین ناول نگار، براؤن بک پبلی کیشنز، نئی دہلی، 2014، ص 257-256)

جنگ آزادی اور تقسیم ملک کے پس منظر میں یہ ناول دراصل ہندوستانی سماج میں عورت کے استحصال اور مظلومیت کی عکاسی کرتا ہے۔ناول نگار نے اس کردار کی تخلیق کرکے اُس ظالمانہ اور استحصالی نظام کی بیخ کنی کرنے کی کوشش کی ہے جہاں اس کی عزت و عظمت غیر محفوظ ہے۔اس کردار کے جملہ افعال ،حرکات و سکنات اور خیالات و تصورات سے ہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس جابرانہ سماجی و معاشرتی نظام کو تبدیل ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں جہاں عورت کی حیثیت مخدوش ہے۔ ناول کا مطالعہ کرتے وقت خود اس کردار کے یہ الفاظ اس بات کا عندیہ دیتے ہیں:

’’زندگی کی بنیادیں بدلنے کی ضرورت ہے ۔ کام اور کوشش کی ضرورت ہے ۔ عام ذہنی سطح کو بدلنے کی ضرورت ہے اور میں یہ کام کروں گی۔‘‘ ۰

(جمیلہ ہاشمی، تلاش بہاراں، اُردو اکیڈمی سندھ، کراچی، 1961، ص 27)

جیلانی بانو کا نام اُردو کے معتبر اور باوقار خواتین ناول نگاروں کے ذیل میں شمار کیا جاتا ہے ۔’ایوان غزل‘‘ اور ’’بارش سنگ‘‘ ان کے دو مشہور ناول ہیں۔جیلانی بانو کا خاصہ یہ ہے کہ وہ اپنے بے باک تخلیقی و ادبی اظہار کے لیے معروف ہیں۔ ان کے ناولوں میں جاگیردارانہ طرز معاشرت و آمرانہ شاہی نظام کے زوال کے پس پردہ خواتین کی زبوں حالی کی عکاسی ملتی ہے۔ عورت کا سماجی و تہذیبی استحصال، مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، انسانی حقوق کا عدم تحفظ، شہری زندگی کی مجبوریاں وغیرہ ایسے چند اہم موضوعات ہیں جن سے جیلانی بانو کے افسانوں اور ناولوں کا خمیر تیار ہوتا ہے۔

اس طرح مذکورہ بالا خواتین ناول نگاروں نے اپنی فکشن تخلیقات کے ذریعہ طبقہ نسواں کی زندگی کے کئی تاریک پہلوؤں کو ضیا بخشنے کی کوشش کی ہے۔ ان ناول نگاروں کے ذریعہ ہی تصورات کے اظہار کی راہیں ہموار ہونے لگیں۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے پیش رو ناول نگاروں کی کھیپ کے لیے تانیثی افکار و نظریات کی مشعلیں جلائی تاکہ وہ اپنے تانیثی فکر وفہم کے چراغ ان سے روشن کر کے ادب کے اندر اس فکر و فہم کو مزید جلا بخشے ۔


Mohd Younus Thokar

Shirmal

Shopian-192305 (Kashmir)

 

 



28/3/22

بنارس میں فارسی ادب - مضمون نگار : تمنا شاہین


 


بنارس میں فارسی ادب کی ایک صحت مند روایت رہی ہے۔ قدیم زمانے کے بعض فارسی ادبی آثار آج بھی باشندگان بنارس کے ذاتی کتب خانوں کے علاوہ قلعہ رام نگر اور کلابھون بی۔ایچ۔یو کے ذخیرۂ کتب میں موجود ہیں۔ اس بات سے ادب کے تقریباً تمام طالب علم بخوبی واقف ہیں کہ ہندوستان میں فارسی زبان وادب کو مغلوں کے دور میں زیادہ ترقی حاصل ہوئی۔مغلیہ حکومت کے زمانے میں بے شمار فارسی کتب وجود میں آئیں اور اس زبان کو ملک کی سرکاری زبان کی حیثیت بھی حاصل ہوئی لیکن بنارس کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بنارس میں فارسی زبان مغلوں کی آمدسے قبل آچکی تھی۔ ہندی زبان کے مشہور شاعر کبیر داس اردو اور سنسکرت کے علاوہ فارسی بھی جانتے تھے۔ عبد الرحیم خانخاناں بنیادی طور پر ہندی کے شاعر تھے لیکن انھیں فارسی زبان سے گہری رغبت تھی۔ ان کی ہندی شاعری میں عربی وفارسی الفاظ کی خوبصورت آمیزش ان کی فارسی دانی کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے۔ہندی زبان کے مشہور شاعر تلسی داس صرف ہندی اور سنسکرت کے عالم ہی نہیں تھے بلکہ عربی و فارسی بھی جانتے تھے۔ان کی شاعری میں ہندی کے ساتھ فارسی الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام بنارس میں گزارے اور یہیں اسّی گھاٹ پر وفات پائی۔

شاہجہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ نے عربی و فارسی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔پنڈت رامانند ترپاٹھی جو سنسکرت اور فارسی کے اچھے عالم تھے 1632 میں بنارس آئے۔ان کے علم وکمال کی شہرت جب شاہ جہاں تک پہنچی تو انھوں نے اپنے بیٹوں دارا شکوہ اور اورنگ زیب کو ان کی شاگردی میں دے دیا۔ان کے زیر سایہ دارا شکوہ نے فارسی اور سنسکرت کی تعلیم حاصل کی چونکہ دارا شکوہ کو سنسکرت علوم سے خاصی دلچسپی تھی لہٰذا انھوںنے بنارس کے کئی پنڈتوں سے سنسکرت کی تعلیم حاصل کی۔انھوںنے اپنشدوں اور علم وید کی کئی اہم کتابوں کا فارسی ترجمہ کرایا اوراس کام کے لیے 150پنڈت مقرر کیے۔دارا شکوہ نے اپنشدوں کے ترجمے کا نام ’سر اکبر‘رکھا۔دراصل ا نھوں نے سنسکرت کی تعلیم حاصل کر کے ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد مستحکم کرنے کی کوشش کی۔داراشکوہ سے متاثر ہوکر کئی ہندو دانشوروں نے سنسکرت کے ساتھ فارسی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کیا۔چو نکہ داراشکوہ ایک اچھے شاعر تھے اور انھیںشعرو ادب سے گہری رغبت تھی۔اس لیے شعرا و ادبا کی قدربھی کرتے تھے اور انھیں اعزازواکرام سے بھی نوازتے رہتے تھے۔ دارا شکوہ نے بہ زبان فارسی کئی قطعات لکھے۔ان کی فارسی دانی اور سنسکرت سے دلچسپی نے فارسی زبان و ادب کے ارتقامیں اہم کردار ادا کیا۔اسی زمانے میں فارسی کے ادبی افق پر منشی چندربھان برہمن کا نام لہرایا جو ایک عظیم المرتبت شاعر ہونے کے ساتھ ایک بہترین انشا پرداز بھی تھے۔وہ دارا شکوہ کو بے حد عزیز تھے۔بنارس کے پروردہ چندربھان کا درج ذیل شعر آج بھی ادبی حلقوں میں مشہور ہے    ؎

مرادلیست بکفر آشنا کہ چندیں یار

بکعبہ بزم بازش برہمن آوردم 

(تحقیقی مقالہ:مسلم الحریری اور ان کے تلامذہ: مسرت شاہین، ص15)

ترجمہ: ’’میرا دل ایسا کفر آشنا ہے کہ میں نے چند بار کعبہ کی زیارت کی اس کے باوجود میں برہمنیت سے چھٹکارا نہ پا سکا۔‘‘

دارا شکوہ کے ایک منشی بنواری داس تھے انھیں فارسی زبان پر قدرت حاصل تھی۔وہ صرف ایک مترجم ہی نہیں تھے بلکہ اچھے شاعر بھی تھے اور صوفیانہ شعر کہتے تھے انھوں نے نثر میں راجہ ولی،رام گپت اور بودھ چند اودے کا فارسی میں ترجمہ کیا۔تقریباً اسی زمانے میں مرزا فطرت موسوی نے اپنی مشہور مثنوی’در ماجرائے بنارس‘تصنیف کی تھی جس میں انھوں نے عشقیہ داستان پیش کرتے ہوے گنگا کے حسن اور پاکیزگی کو انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔یہ شاعر بھی بنارس کی مٹی سے نمودارہوا اور یہیں کی خاک کا پیوند بنا۔دارا شکوہ کے زمانے میں ہی ملا طغریٰ مشہدی بنارس تشریف لائے۔ہندوستان کے مختلف خطوں کی سیاحت کرتے ہوے جب وہ بنارس پہنچے تو یہاں کی خوشگوار فضا اور رنگینی کو دیکھ کر ان کی زبان سے بے ساختہ حسب ذیل اشعارنکل پڑے:

ز بنگالہ  تا  احمدا ٓبا د  و  سندھ

شدم کوچۂ پیمائی ہر شہر ہند

صف آرا می باغ است گنگ بنارس 

ارم چو کند طرح چنگ بنارس

حسن بت را سیر کردم ذوقہا در دیر کردم

نقد ایماں خیر کردم پیش دربان بنارس   

(ایضاً،ص16)

ترجمہ: ’’ بنگال سے احمدآباد اور سندھ ہوتے ہوئے میں نے ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیاحت کی یعنی ہندوستان کے کئی شہروں میںگھوما۔

بنارس کی گنگا ندی اور یہاں کے باغوں کی صف آرائی کا مقابلہ کوئی دوسرا شہر نہیں کر سکتا جنت بھی اس کو دیکھ کر رشک کرتی ہے۔

میں نے بنارس کے بت خانوں کی سیر کی۔ مندروں میں جاکر بھی اپنا شوق پورا کیا اور اپنے ایمان [اس کی قیمت ] کو بھی بنارس کے دربانوں کے سامنے پیش کر دیا۔‘‘

گزرتے وقت کے ساتھ بنارس میں کئی ایسے شاعرو ادیب پروان چڑھے جنھوں نے فارسی شعرو ادب سے دلچسپی کے تحت ایک نئی ادبی روایت کو استحکام بخشا۔اٹھارہویں صدی عیسوی میں یہاں فارسی زبان وادب کے کئی جید علماموجود تھے جن میں بعضوں نے فارسی شاعری کو عروج تک پہنچایا اور بعضوں نے نثر نگاری میں نئے نئے گل بوٹے کھلائے۔شیخ علی حزیں،لالہ متن لال آفریں،ملا عمر سابق بنارسی اور مخلص بنارسی وغیرہ نے شہر بنارس کے باشندوںمیںفارسی زبان و ادب کا ذوق پیدا کیا۔ شیخ علی حزیں کی بنارس آمد اور سکونت سے متعلق بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔بنارس کی ادبی روایت سے متعلق جتنے بھی مضامین تحقیقی مقالے اور کتابیں راقمتہ السطور کی نظر سے گزرے ہیں ان سب میں حزیں کے تعلق سے گفتگو کی گئی ہے کیونکہ ان کے پائے کا کوئی دوسرا فارسی شاعر اس زمانے میں نہیں تھا۔وہ نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ان کی تصانیف کی ایک طویل فہرست ہے جسے پیش کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔حزیں کے زمانے میں کئی شعرا و ادبا بنارس میں رہ کر علم وادب کی آبیاری کر رہے تھے جب کہ کچھ شعرا ایسے بھی تھے جو حزیں کے رنگ میں اشعار کہتے تھے۔ان میں ملا عمر سابق بنارسی کا نام سر فہرست ہے۔ملا کے اجداد کا تعلق بخارا سے تھا لیکن ان کی پیدائش بنارس میں ہوئی۔انھوں نے محلہ کتوا پورہ میں اپنا ذاتی مکان بنواکر مستقل رہائش اختیار کی۔شعرو شاعری سے انھیں گہرا شغف تھا۔ چونکہ شیخ علی حزیں اپنی صلاحیت سے بخوبی واقف تھے اور اپنے علم و کمالات پر انھیں حد درجہ زعم تھا جس کے سبب وہ ہر کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے لیکن یہ بھی ایک مستند حقیقت ہے کہ وہ ملاکی ذہانت و فطانت سے متاثر تھے۔ان کی علم فہمی اور پرہیزگاری نے حز یں کو ان سے رشتہ استوار رکھنے پر مجبور کر دیا۔حالانکہ ملا کے استاد سراج الدین علی خاں آرزو سے حزیںکے تعلقات اچھے نہ تھے،اس کے باوجود انھوں نے ملا سے دوستانہ مراسم رکھے اورزندگی کے آخری ایام تک دونوں کے درمیان باہمی روابط اور محبت وخلوص کی فضا برقرار رہی۔ دونوں ایک دوسرے کے کلام سے نہ صرف محظوظ ہوتے بلکہ ستائش بھی کرتے تھے۔ملا نے حزیں کے رنگ میں بھی اشعار کہے بلکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حز یں کوئی غزل سناتے اور ملا دوسرے ہی دن اسی طرح میں غزل کہہ کر حز یں کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔حزیں انتہائی شوق سے نہ صرف ان کا کلام سنتے بلکہ دادوتحسین سے نواز کرعزت افزائی بھی کرتے تھے۔اس سلسلے میں دونوں کے اشعارملاحظہ ہوں         ؎

ای        وای             بر اسیری   کز   یاد   رفتہ  باشد     

دردام ماندہ باشد صیاد رفتہ باشد

(حزیں)

ترجمہ: ’’افسوس ہے ایسے قیدی پر جس کی یاد جاتی رہے کہ دام میں پڑا رہے اورصیاد اسے چھوڑ کر چلا جائے۔‘‘

جانش چساں بہ حسرت ناشاد رفتہ باشد

کز ہجر بر دل او بیداد رفتہ باشد

(ملاسابق)

ترجمہ:’’ اس کی روح حسرتوں سے دوچار رہی اور وہ ناشاد ہی چلاگیااس کے دل پر جدائی کا بوجھ رہا اور پھر بھی وہ ظالم چلا گیا۔‘‘

ملا عمر سابق نے کئی مثنویاں بھی لکھیں۔بنارس کے مشہور قصے ’قصۂ عاشق معشوق‘پر انھوں نے ایک طویل مثنوی تحریر کی۔اس میں انھوں نے شہر بنارس کی تعریف اس طرح کی ہے       ؎

چہ شہر آنکہ از حسن سر انجام

زلطف حق بنارس یافتہ نام

چہ شہری انتخاب ہفت کشور

زروم ومصروبردہ رونق و فر

(اوراقِ پریشاں:پروفیسر شمیم اختر،ص58)

ترجمہ: ’’ اپنے حسن وزیبائش کی وجہ سے بالآخر ایک شہر خدائے لطف سے بنارس نام سے موسوم ہو گیا۔

کیا ہی حسین شہر ہے کہ ہفت کشور سے انتخاب کیا گیا ہے اور اس کے جا ہ وجلال اور رونق کو  روم ومصر سے لیا گیا ہے۔‘‘

اسیرالحق مخلص بنارسی کا تعلق بھی اسی زمانے سے تھا۔حالانکہ ان کے تخلص کے سلسلے میں اختلاف رائے ہے۔بعضوں نے ان کا تخلص ’اسد‘تحریر کیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ’مخلص‘تخلص اختیار کیااور اسی نام سے مشہور بھی ہوے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بارہا اپنا تخلص استعمال کیا ہے۔وہ صرف ایک بلند پایہ صوفی شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ عربی و فارسی زبان پر مہارت کے ساتھ مروجہ علوم سے بھی انھیں خاصی دلچسپی تھی۔انھوں نے بھی حزیں کے رنگ بلکہ اسی بحر میں اشعار کہے ہیں۔ حزیں  اور ملا سابق کے مذکورہ شعر کی طرح پر مخلص کا درج ذیل شعر دیکھیے        ؎

عمری کہ بی گل و مل ناشاد رفتہ باشد

فصلِ بہار رنگیں برباد رفتہ باشد

ترجمہ:’’ایک عمر بغیر شراب وشباب کے ناشاد ہی چلی گئی اور فصل بہار کی رنگینیاں بھی بیکار چلی گئیں۔‘‘

اس کے علاوہ ان کا اپنا مخصوص رنگ تھا جن میں صوفیانہ افکارو خیالات واضح طورپر نظر آتے ہیں۔مثلاً           ؎

رندان مئی پرست زکونین فارغ اند

کر دند صرف بادہ کثیرو قلیل را

(ایضاً،ص64)

ترجمہ: ’’شراب کا رسیا قلیل و کثیر یعنی تمام شراب کو ختم   کرکے اب دونوں جہاں سے فارغ ہو چلا ہے۔‘‘

اس بات کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہندوستان کے مختلف خطوں کے شعرا و ادبا نے بنارس میں سکونت اختیار کی جن میں سے بعض اہل علم تا عمراسی شہر کے ہوکر رہے۔لالہ متن لال آفریں بھی انھیں میں سے ایک ہیں۔ان کا تعلق الٰہ آباد سے تھالیکن جوان بیٹے کی موت کے بعد وہ بنارس آگئے اور یہیں مستقل طور پر رہنے لگے۔ فارسی زبان وادب سے انھیں گہری رغبت تھی۔ انھوں نے بنارس کی تعریف میں تین ہزار اشعار پر مشتمل ایک فارسی مثنوی بہ نا م ’کاشی استُتِ‘تحریر کی جو اس زمانے میں بے حد پسند کی گئی۔     

نواب علی ابراہیم خاں ’حاکم بنارس ‘نے جب یہاں مستقل سکونت اختیار کی تو یہاں کے ادبی ذخیرے میں قابل قدر اضافے ہوئے۔ انھوں نے اپنے قیام کے دوران کئی اہم کتابیں تصنیف کیں۔ان کی تصانیف میں تذکرہ شعرا، وقائع جنگ مرہٹہ، خلاصتہ الکلام اور گلزار ابراہیم زیادہ مشہور ہوئیں۔دراصل خلاصتہ الکلام فارسی گو شعرا کا ایک تذکرہ ہے جس میں 188 مثنویات کا انتخاب بھی شامل ہے۔

فارسی چونکہ مغلوں کی مادری زبان تھی اس لیے انھوں نے اس کی سر پرستی اور حفاظت کی پوری کوشش کی اور مملکت کا نظم ونسق کچھ اس طرح قائم کیا کہ بلاامتیاز قوم وملت اور بلا تفریق ذات وبرادری ہندوستانیوں نے فارسی زبان سیکھی۔کسی نے مصلحت کے تحت فارسی زبان میں مہارت حاصل کی توکسی نے ذاتی ذوق وشوق کی بنیاد پر اس زبان میں کمال حاصل کیا۔چونکہ مغلوں کے دور حکومت میں ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہی مکتب میں ایک ہی استاد سے عربی،فارسی اور سنسکرت کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔اس لیے دونوںمذاہب کے ماننے والوں میں خلوص و محبت اور اشتراک وتعاون کا جذبہ بھی پرورش پارہا تھالیکن انگریزوں کو یہ تال میل اور باہمی اتفاق بری طرح کھٹکتا تھا۔اس لیے انھوں نے ہندوستان میں کئی ایسے ادارے قائم کیے جہاں ہندوستانی زبانوں کی مشترکہ تعلیم دی جاتی تھی۔اس سلسلے میں بنارس میں بھی ایک اسکول قائم ہوا۔ڈاکٹر ابو الحسن اختر لکھتے ہیں:

’’بنارس اسکول 1818میں قائم ہوا تھا۔اس مدرسے کے ابتدائی اخراجات کے لیے جے کشن گوپال نے 1814 میں20000 کی رقم عنایت کی تھی۔اس میں انگریزی، فارسی اور بنگلہ زبان کی درس وتدریس کا معقول انتظام تھا۔‘‘

(فارسی ادب بعہد بہادر شاہ ظفر:ڈاکٹر ابو الحسن اختر،ص88)

اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخری عشرے میں ملک کے سیاسی وسماجی حالات انتہائی فتنہ خیز تھے۔یہی وہ زمانہ ہے جب مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ فارسی زبان و ادب بھی تنزلی کا شکار ہو رہا تھا لیکن بنارس کے ذی علم طبقے میں فارسی ادب کا وقار باقی تھا۔انیسویں اور بیسویں صدی میں بھی یہاں فارسی داں موجود تھے۔ انیسویں صدی کے نصف میں امیر بیگ بنارسی نے ’حدائق الشعرا ‘کے نام سے ایک تاریخ رقم کی۔وہ خود بھی ایک اچھے شاعر تھے اور انھیں نثر نگاری پر بھی عبور حاصل تھا۔ مرزا غالب نے کلکتہ جاتے ہوے جب بنارس میں قیام کیا تو 108 اشعار پر مشتمل ایک مثنوی ’چراغِ دیر ‘تحریر کی۔اس مثنوی میں غالب جیسے خود پسند شاعر نے بنارس کی تعریف دل کھول کر کی ہے۔مثنوی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں             ؎

تعالی اللہ بنارس چشم بد دور

بہشت خرم و فردوس معمور

بنارس را کسے گفتا کہ چین است

ہنوز از گنگ چینش بزجبین است

بخوش پُرکاریٔ طرز وجودش

زدہلی می رسد ہر دم درودش

بنارس را مگر دیدست در خواب

کہ می گردد زنہرش در دہن آب

(آثار بنارس:مفتی عبدالسلام نعمانی،ص28)

ترجمہ:’’ سبحان اللہ بنارس کو بری نظر نہ لگے یہ ایسی جنت ہے جہاں خوشی کے شادیانے بجتے ہیں اور یہ بھرا پُرا فردوس ہے۔

کسی نے جب کہا کہ بنارس حسن و زیبائش میں چین کی طرح ہے [یہ بات بنارس کو بری لگی]اسی وجہ سے آج تک بنارس کے ماتھے پر شکن پڑی ہوئی ہے۔

اس کے وجود کا نازو انداز ایسا بھلا اور خوش گوار ہے کہ اس پر دہلی ہمیشہ درود بھیجتا رہتا ہے۔

چونکہ [دہلی]نے بنارس کو خواب میں دیکھ لیا ہے اس لیے اس کے منھ میں نہر کا پانی بھر آیا ہے۔‘‘

بنارس کے معروف شاعر ذاکر بنارسی کے چھوٹے بھائی’ مولوی پناہ علی‘عربی وفارسی کے جید عالم تھے۔ان کے علم وفضل سے متاثر ہوکرمہاراجہ ایشوری پرساد نرائن سنگھ نے انھیں اپنے بچوں کا استاد مقرر کر دیا تھا۔وہ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور خود پناہ علی بھی اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کر تے تھے۔اس زمانے میں رجب علی بیگ سرور بھی بنارس میں مقیم تھے۔وہ مہاراجہ بنارس کے خاص مہمان تھے۔سرور نے مہاراجہ کی فرمائش پر’ محمد رضی تبریزی ‘کی فارسی تصنیف’حدائق العشاق‘کا ترجمہ’ گلزارسرور ‘کے نام سے کیاجو ان کی اردو اور فارسی دانی کا بہترین نمونہ ہے۔’پنڈت دیا رام عاشق‘ عربی وفارسی لسانیات کے ماہر تھے ان کا قریبی تعلق دلّی سے تھا لیکن وہ مستقل طور پر بنارس میں ہی رہتے تھے۔فارسی زبان وادب میں ’لالہ بشیشر پرساد‘کا نام محتاج تعارف نہیں۔وہ بیک وقت کئی صفات کے مالک تھے۔وہ ایک بلند پایہ مصنف اور مترجم ہونے کے ساتھ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔ فارسی زبان وادب پر مہارت کے ساتھ رموز شعر گوئی سے بھی انھیں گہری واقفیت تھی۔ان کی تمام تصنیفات وتالیفات کا علم تو نہ ہو سکاالبتہ ’تحفت الاحباب بنارس‘(یہ ان کی اہم تصنیف ہے)میں انھوں نے اپنے احوال درج کیے ہیں۔

راجہ رام موہن رائے بھی عربی وفارسی کے عالم تھے۔پھر بھی انھوں نے سنسکرت اور فارسی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوے عوام کو انگریزی تعلیم کی طرف راغب کیا۔ ڈاکٹربھگوان داس ہندی،سنسکرت اور بنگلہ کے ساتھ عربی و فارسی کے بھی عالم تھے۔حافظ رحمت اللہ رحمت بنارسی اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے۔منشی آفاق بنارسی،فائز بنارسی،مسلم الحریری اور مولانا کریم الدین احمد وغیرہ نے بھی فارسی زبان وادب کی خدمت کی۔ان کے علاوہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے اساتذہ میں مولوی سلیمان عباس،امرت لعل عشرت، حنیف نقوی اور شمیم اختر کو بھی فارسی زبان وادب سے گہری وابستگی تھی۔موجودہ دور میں فارسی زبان و ادب کی خدمت کرنے والوں میں یونیورسٹی کے اساتذہ خصو صاً پروفیسرسید حسن عباس اور پروفیسر محمد عقیل کے نام قابل ذکر ہیں۔ا س سلسلے میں مزید تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہر بنارس میں فارسی زبان وادب کا ماضی جتنا شاندار اور تابناک تھا اس کا حال اتنا ہی ابترہے۔فارسی جاننے والے آج بھی یہاں کثیر تعداد میں موجود ہیں لیکن زبان پر مہارت اور ادب سے اصل واقفیت رکھنے والوں کی شدید کمی ہے لہٰذا بنارس میںاس کے مستقبل سے متعلق کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔


 

Dr. Tamanna Shaheen

Guest Faculty, Department Of Urdu

DAVPG College,

Varanasi- 221001 (UP)

Mob: 9389201652.

Email: tamannashaheen@yahoo.com