29/3/22

تانیثیت اور خواتین ناول نگار - مضمون نگار : محمد یونس ٹھوکر

 



انیسویں صدی کے نصف آخر سے ہی تانیثی افکار و خیالات کی گونج شعوری یا غیر شعوری طور پر اردو ادب میں عموماََ اور اُردو فکشن میں خصوصاََ سنائی دینے لگیں۔ طبقۂ نسواں کے نازک اور سنجیدہ مسائل کو فکشن کے لبادے میں صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا جانے لگا۔ طبقۂ نسواں کی پسماندگی اور زبوں حالی کو مرد ادیبوں اور فکشن نگاروں کے ساتھ ساتھ خواتین قلمکاروں نے بھی موضوع بحث بنایا۔ البتہ خواتین قلمکاروں نے مردوں کے بعد لکھنا شروع کیا۔ کیوں کہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ برصغیر میں ایک طویل عرصے تک اُردو شعر وادب پر صرف مردوں کی اجارہ داری قائم تھی۔ خواتین کا اپنے خیالات کو قلم کے سہارے پیش کرنے کو مذہبی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے معیوب تصور کیا جاتا تھا۔ عشرت آفریں کا یہ شعر شاید اسی کی ترجمانی کرتا ہے ؎

اتنا بولوں گی تو کیا سوچیں گے لوگ

رسم یہاں کی ہے لڑکی سی لے ہونٹ

عورتوں پر ادب کے تئیں عائد قدغن کا معاملہ کچھ اس قدر سنگین تھا کہ اول تو عورتیں یہ جرأت ہی نہیں کرتی تھیں کہ وہ ادب تخلیق کریں۔ اب اگر کوئی اکّا دکّا عورت اپنی تخلیقی کوشش کرتی تو وہ اپنے اصلی نام کو مخفی رکھ کر فرضی ناموں سے اپنی تخلیقات شائع کرتی۔ ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ کا یہ شعر اس کی غمازی کرتا ہے  ؎

کعبے میں جا کے بھول گیا راہ دیر کی

ایمان بچ گیا، مرے مولا نے خیر کی

ناول کے مطابق اس شعر کا خالق مرد نہیں بلکہ عورت یعنی امراؤ جان ادا ہے، لیکن تانیث کا فعل نہ لانا ہی دراصل وہ جبر ہے جو عورتوں پر ادب کے حوالے سے مسلط تھا۔ اس تناظر میں معروف تانیثی مفکر ورجینا وولف کے اس خیال سے بھی اتفاق کرنا نا گزیر بنتا ہے کہ اگر کوئی عورت  "Crime And Punishment"جیسا ناول تخلیق نہ کر سکی یا اس کے لیے اس جیسا ناول لکھنا سرے سے ہی نا ممکن تھا تو اس کی کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ عورتیں ان تمام سہولتوں اور آسائشوں سے محروم رکھی گئی تھیں جو کہ مردوں کے لیے میّسر تھیں۔ غزال ضیغم نے اپنے ایک مضمون ’’مرد اساس معاشرے میں خواتین ادیباؤں کے مسائل‘‘ میں عورت پر قائم تخلیقی و ادبی حد بندیوں کا یوں اظہار کیا ہے:

’’مرد اساس معاشرے میں خواتین ادیباؤں کے لیے کہیں بھی کوئی صاف کھلی سڑک نہیں۔۔۔ خار دار راستہ۔۔۔ جہاں جگہ جگہ پر speed breakerبنے ہیں۔۔۔ بار بار ٹہریے۔۔۔ آگے نہ بڑھیے ۔۔۔ آگے خطرہ ہے۔۔۔ سرخ سگنل ڈاؤن ہے ۔۔۔ ہری اور لال بتیوں کے بیچ جلتی بجھتی خواتین ادیبائیں۔۔۔ ہر روز ایک شاعرہ ایک ادیبہ کی موت ہوتی ہے۔۔۔ ان کا ادب ان کی شاعری اس طرح مختلف طریقوں سے چھین لی جاتی ہے۔ ان کے ذہن کو کند کر دیا جاتا ہے ۔۔۔‘‘

          (عتیق اﷲ (مرتب)، بیسویں صدی میں خواتین اُردو ادب،ایچ۔ ایس۔ آفسٹ پریس، نئی دہلی، 2002، ص 151)

لیکن آہستہ آہستہ مختلف سیاسی و معاشرتی تحریکوں اور نئے تعلیمی نظام نے، مختلف ادیبوں کی تخلیقات ( جیسے نذیر احمد کے ناول ’’مراۃالعروس‘‘ اور راشد الخیری کی ’’صبح زندگی‘‘ اور ’’شام زندگی‘‘)، مختلف رسائل جیسے تہذیب نسواں، عصمت، خاتون وغیرہ نے بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں تک آتے آتے اس بحر منجمد میں ارتعاش پیدا کیا۔نتیجتاََ پتھر پسیجا اور لوہا پگھلا، خواتین سماجی، سیاسی، معاشرتی اور تعلیمی اعتبار سے بیدار ہوئیں اور یوں خواتین کی تخلیقی صلاحیتوں کے بند پانیوں کو جوئے آب عطا ہوئی۔ناول جیسی اہم صنف ادب میں طبع آزمائی کر کے خواتین قلمکاروں نے جہاں ایک طرف اپنی آرائ و نظریات کے دریچوں کو وا کیاوہیں اس صدیوں پرانی   پدرانہ فکر و فہم پر بھی خط تنسیخ کھینچی کہ عورتیں مردوں سے کمتر ہیں۔کیونکہ ناول تخلیق کرنا یا اس صنف میں طبع آزمائی کرنا ایک وسیع اور جامع صلاحیت اور مطالعہ کائنات کا مطالبہ کرتا ہے جیسا کہ وحید اختر رقمطراز ہیں:

’’ناول کے لیے زندگی کا گہرا اور وسیع مشاہدہ کرداروں اور پلاٹ کی پیچیدگیوں کو دیر تک اور دور تک سنبھالے رہنے کی صلاحیت اور دیر پا تخلیقی جذبہ چاہیے۔‘‘

(وحید اختر، سخن گسترانہ بات، مشمولہ رسالہ ’’الفاظ‘‘ ،علی گڑھ، مارچ۔ اپریل، 1981)

حالانکہ خواتین ناول نگاروں نے اس میدان میں شہسوار ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔خواتین پر ادب کے تئیں عائد پابندیوں کے باوجود کم تعداد میں ہی سہی لیکن خواتین نے مختلف ادبی کارنامے روز اول سے ہی انجام دیے۔ احساس کمتری کے باوجود ان کے شرارو نشتر قلم سے بہترین تحریریں پھوٹیں۔

چنانچہ ناول میں تانیثی فکر و شعور کی بو باس ترقی پسند تحریک سے پہلے بھی کہیں نہ کہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر ضرور ملتی ہے۔ ترقی پسند تحریک کے معرض وجود میں آنے سے قبل ہی 1932 میں ’’انگارے‘‘ کی اشاعت نے ہی اُردو ادب عموماََ اور اُردو فکشن میں خصوصاََ جوحقیقت پسندی اور روشن خیالی کی چنگاری پیدا کی تھی اس میں خواتین قلمکاروں کی بھی کاوشیں شامل تھیں۔اس پرجوش مجموعے نے جہاں سماج کے نچلے طبقے کے جنسی اور نفسیاتی مسائل کو آئینہ دکھایا وہیں بے جا و بے بنیاد مذہبی رسوم اور پابندیوں پر بھی بے باکانہ احتجاج کیا۔اردو ناول بھی فکری سطح پر اس اثر کو قبول کیے بغیر نہ رہ سکا۔صغریٰ مہدی کی رائے سے اتفاق کیا جاسکتا ہے:

’’انگارے نے تانیثیت کا ایک مضبوط تر نظریہ اُردو ادب میں داخل کیا۔ اُردو ناول نے اس نظریے کو اپنے رگ وپے میں شامل کرلیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ طرز فکر اُردو ناول نگاری کا ایک ناگزیر حصہ بن گیا۔ عورتوں کے بے شمار مسائل اس میں سانس لینے لگے۔ کہیں کہیں یہ سانس للکار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔‘‘

          (صغری مہدی، اُردو ناولوں میں عورت کی سماجی حیثیت،سجاد پبلیشنگ ہاؤس، دہلی،2002 ، ص 79)

پھر ترقی پسند تحریک نے اس رویے کو اور زیادہ استحکام بخشا۔اس تحریک نے تانیثی افکار وخیالات کو پھلنے پھولنے اور ترویج پانے کے لیے ایک آزادانہ ماحول اور بنیاد فراہم کی۔قرۃالعین حیدر اور ان کی ہم عصر عصمت چغتائی،خدیجہ مستور، جمیلہ ہاشمی، بانو قدسیہ، صغریٰ مہدی اور رضیہ فصیح جیسی خواتین ناول نگاروں نے بھی اسی تحریک کے عرصۂ حیات میں ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت قائم کی۔

بہر حال اس مؤثر ادبی تحریک کے منظر نامے پر قرۃالعین اور اس کے ہمعصر ناول نگاروں نے اپنے خلاق اور فعال تخیل کو سر گرم عمل لاکر اپنے ناولوں میں طبقۂ نسواں کی زبوں حالی، ان کے تشخص اور وجود ، ان کی داخلی و خارجی حالات و کوائف ، ان کی ذہنی و جذباتی کرب و عذاب اور گھٹن اور مرد اساس معاشرے میں ان کے خوابوں کی شکست و ریخت کو موضوع بحث بناکر اپنی طرف سے طبقہ نسواں کی حمایت کی۔ان خواتین ناول نگاروں نے طبقۂ اناث کی مجروح شخصیت اور من جملہ مسائل کو آئینہ دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

اردو فکشن میں خواتین قلمکاروں میں سب سے پہلی واضح اور مستحکم تانیثی آواز عصمت چغتائی کی ہے۔ یہ قرۃالعین حیدر کی سب سے اہم ہمعصرخاتون ناول نگار ہیں جن کے ناولوں میں تانیثی افکار و خیالات کی بازآفرینی کی جاسکتی ہے۔ان کا اسلوب اور انداز تحریر خالص تانیثی آواز کی غمازی کرتا ہے۔خواتین کے سماجی اور معاشرتی پہلوؤں کو بیان کرنے پر انھیں مکمل گرفت حاصل ہے۔انھیں اس طبقہ کی زندگی کے جنسی اور نفسیاتی مسائل بیان کرنے پر خاصی مہارت ہے۔عصمت کا ماننا ہے کہ عورت گھر کی چار دیواری میں مقید رہ کر ذہنی کرب و عذاب میں مبتلا رہتی ہے۔انھیں اس کرب و عذاب سے نجات دلانا ہی ان کی تحریروں کا اصل جوہر ہے۔شاید اسی لیے ان کی تحریروں میں درشتی اور شدت جھلکتی ہے۔افسانہ ’’لحاف ‘‘ پر اسی شدت پسندی اور بے باکی کے باعث ان پر مقدمے دائر ہوئے تھے۔جنسی مسائل اور نفسیاتی پہلوؤں کو بڑی بے باکی سے بیان کرنا ان کے ہاں اتفاقی نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مقصد کار فرما ہے اور وہ ہے آزادیٔ نسواں کا خواب۔ اس بے باکی کے پس پردہ ہی ان کی تحریروں میں انسان دوستی کی بہترین تصویریں ملتی ہیں۔ خود ان کا کہنا ہے:

’’میں قصداََ محض جنسی موضوع اٹھا کر نہیں لکھتی اس کے پیچھے میرا کوئی مقصد ہوتا ہے یعنی انسان کی آزادی کا سوال ، عورت کی آزادی کا سوال جس کو میں حل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘

          (بحوالہ ، قیصر جہاں (مرتب)، اُردو میں نسائی ادب کا منظر نامہ، سلسلۂ مطبوعات، ڈی ایس اے پروگرام شعبۂ اُردو علی گڑھ مسلم یونیور سٹی، علی گڑھ، 2004، ص 195)

ان کے ناولوں ضدی، ٹیڑھی لکیر، معصومہ، دل کی دنیا وغیرہ میں عورتوں کی زندگی کے تلخ حقائق کی ترجمانی ملتی ہے۔سماجی ناہمواری اور طبقاتی کشمکش ایک معاشرے کے دو انتہائی سنگین ناسور ہیں۔ عصمت چغتائی کا تانیثی شعور اتنا راسخ اور پختہ ہے کہ انھوںنے اپنے ناولوں میں ایسے نسوانی کردار تراشے ہیں جو ان دونوں ناسوروں کے خلاف احتجاج کا پرچم بلند کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔جہاں ’ٹیڑھی لکیر‘ کی’ شمن‘ہر لحظہ اور ہر آن سماجی ناہمواریوں کے تھپیڑے کھا کر زندگی کے منظر نامے پر ابھرتی ڈوبتی نظر آتی ہے وہی’ضدی‘ کی آشا طبقاتی کشمکش کے خلاف اپنی جان نچھاور کرتی ہے ۔شمن اپنے حقوق کی پامالی برداشت نہیں کرتی۔ وہ مردانہ سماج کی ظلم و زیادتیوں اور بد سلوکیوں کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتی ہے۔

شمن عصمت چغتائی کا ایک مضبوط اور جاندار کردار ہے اُردو کے تقریباََ سبھی ناقدین نے اس کردار کی تعریف کی ہے۔ اس کردار کے توسط سے جہاں انھوں نے مردانہ سماج پر طنز کے تیر چلائے ہیں وہیں ہندوستانی سماج میں عورت کی حیثیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستانی سماج کے کھوکھلے پن کو قدرے واضح انداز میں منظر عام پر لانے کے لیے انھوں نے نوری کا کردار تراشا ہے۔ یہ ان لڑکیوں کی ترجمانی کرتی ہے جنھیں شوہر کی بے جا پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ عصمت چغتائی کو عورت کی اس حیثیت سے چڑ ہوتی ہے جہاں عورت کا کام صرف بچوں کی پیدائش اور پرورش کے علاوہ گھرداری تک محدود ہو۔ ناول ’’ٹیڑھی لکیر ‘‘ میں وہ اس کے خلاف احتجاج اور بغاوت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں:

’’اسے نوری بالکل ایک گائے بیل کی طرح لگ رہی تھی۔ اکیاون ہزار میں وہ اپنی جوانی کا سودا کرکے ایک مرد کے ساتھ جارہی تھی بیوقوفوں کی طرح نہیں۔ کاغذ لکھا کر اگر وہ بعد میں تڑپے تو اور پھندا اس کے گلے میں تنگ ہوتا جارہا ہے اور وہ چغد بھی ڈھول تاشے سے خریدکر لے جارہا ہے۔ آخر فرق ہی کیا ہے اس سودے میں اور آئے دن جو جاڑوں میں خرید و فروخت ہوتی رہتی ہے وہ چھوٹا موٹا بیوپار ہے جسے کچالو، پکوڑیوں کی چاٹ اور یہ لمبا ٹھیلہ ہے۔ جب تک ایک فریق خیانت نہ کرے بیوپار چلتا رہتا ہے ورنہ سودا پھٹ۔‘‘

(عصمت چغتائی، ٹیڑھی لکیر، کتاب کار ، رام پور، 1967 ، ص 211)

 مرد اساس معاشرہ male dominated society کی بے اعتنائی اور غیر منصفانہ رویہ ہی شمن کی فطرت کو باغی اور سرکش بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ وہ مرد وزن سے شدید نفرت کرتی ہے اور کسی ایک کی بیوی نہ بن کر سب کی بیوی بن جاتی ہے۔ وہ ایک باغی لڑکی کی طرح سماج و معاشرے سے انتقام لیتی ہے۔اس کا یہ انتقامی رویہ سماج کے ان کثیر تعدادلڑکیوں کی نمائندگی کرتا ہے جن کی خواہشات ، احساسات، نفسیات اور جذبات کو مردانہ سماج کے جبر و تسلط کے بل بوتے پر زیر کیا گیا اور نتیجہ کے طورپر ان کی شخصیت اور نفسیات میں ایک بھیانک دراڑ پیدا ہوئی۔ عصمت چغتائی نے خود اس کی طرف اشارہ کیا ہے:

’’شمن کی کہانی کسی ایک لڑکی کی کہانی نہیں ہے۔ یہ ہزاروں لڑکیوں کی کہانی ہے۔ اس دور کی لڑکیوں کی کہانی ہے جب وہ پابندیوں اور آزادی کے بیچ ایک خلا میں لٹک رہی  ہیں۔‘‘

(عصمت چغتائی، (پیش لفظ)ٹیڑھی لکیر،کتاب کار ، رام پور، 1967)

عصمت چغتائی کے نسوانی کردار تو احتجاج بن کر نمودار ہوتے ہیں۔’’ٹیڑھی لکیر‘‘ کی شمن مردوں کی برتری اور عورتوں کی کمتری ، جیسی زیادتی سے تنگ آکر چلا اُٹھتی ہے:

’’ہنہ بد تمیز! چور اور حیوان کو حیوان کہنا بد تمیزی نہیں ، راست گوئی ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ تمھارے بھوکنے سے میں ڈر جاؤں گی۔ چاہے جو کچھ ہو تمھارے فریب کا حال ضرور لکھوںگی اس طرح دھوکہ دے کر تم بھاگ نہیں سکتے، اس کا انجام سوچ لینا‘‘

(عصمت چغتائی، ٹیڑھی لکیر،کتاب کار ، رام پور، 1967 ، ص291)

عصمت نے شمن کے کردار کے ذریعے ہندوستانی سماج و معاشرے میں زندگی گزارنے والی ایک ایسی عورت کی خوبصورت عکاسی کی ہے جو روشن خیال اور خوددار ہونے کی بنا پرایک طرف آزادانہ زندگی گزارنے کی متمنی ہے اور بظاہرخودمختارانہ اقدام بھی اُٹھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔

خدیجہ مستور کا نام بھی لینا از حد ضروری ہے۔ ان کے دو اہم ناول ’’آنگن ‘‘ اور ’’زمین‘‘جو بالترتیب 1962 اور1984 میں سامنے آئے۔ مذکورہ دونوں ناولوں میں تانیثیت کے دھندلے نقوش تلاش کیے جا سکتے ہیں۔خدیجہ مستور کا خاصہ یہ ہے کہ انھوں نے تانیثیت کی وکالت باغیانہ اور بے باکانہ انداز میں نہیں کی ہے بلکہ ان کے ناولوں میں تانیثی آواز کی حمایت بڑی دھیمی، سبک اور مدھم انداز میں پوشیدہ ہے جسے تلاش کرکے منظر عام پر لایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے تقسیم برصغیر کے پس منظر میں طبقۂ نسواں کے داخلی انتشار، روحانی کرب و عذاب، بے بسی اور احساس محرومی کا نقشہ صاف اور واضح کھینچا ہے۔

تقسیم ملک کے تناظر میں تحریر ہوئے ناول ’’آنگن‘‘ کے نسوانی کردار تانیثی فکر و شعور کے اعتبار سے لائق مطالعہ ہیں۔ عالیہ نامی ایک نوجوان لڑکی مرکزی کردار کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہ ایک تعلیم یافتہ، سنجیدہ اور ذہین لڑکی ہے۔ حالات اور وقت کے نشیب و فراز کا انھیں گہرا اور عمیق ادراک حاصل ہے۔  جب کسم دیدی کو اس کا شریر اور ظالم شوہر چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو سب کسم دیدی پر طعنے کستے  ہیں اور بدنامی کے ڈر سے اس کے ساتھ ترک موالات بہتر سمجھتے ہیں۔لیکن اس سلسلے میں عالیہ کی سوچ کس قدر مثبت اور معتبر دکھائی دیتی ہے۔ ملاحظہ ہو:

’’اب اگر ان سے ملی تو لوگ انگلیاں اٹھائیں گے، وہ بد معاش جو مشہور ہو گئیں‘‘ ’’مگر لوگ اس آدمی کو بُرا کیوں نہیں کہتے جو انہیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔؟‘‘

’’بس نہیں کہتے ، لڑکی ہی کو برا سمجھتے ہیں، تم بھی اب بڑی ہو گئی ہو ، ان کے گھر نہ جانا ورنہ لوگ اُنگلیاں اُٹھائیں گے۔‘‘

خدیجہ مستور، آنگن، ایجوکیشنل بُک ہاؤس، علی گڑھ، 2010 ، ص 57)

جمیلہ ہاشمی کے ناولوں میں تانیثی آب و رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ موصوفہ کے کئی ناول منظر عام پر آچکے ہیں جن کو خاصی پزیرائی حاصل ہوئی۔ ان ناولوں میں ’’تلاش بہاراں‘‘ ’’آتش رفتہ‘‘ ’’چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو‘‘ خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔’’تلاش بہاراں‘‘ کو 1961 میں پاکستان کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ، آدم جی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شاید اس کی مقبولیت کی وجہ بھی یہی ہو سکتی ہے ورنہ فنی اعتبار سے یہ اتنا زیادہ پختہ ناول نظر نہیں آتا کیونکہ اس میں بقول اقبال مسعود نفس وحدت کی کمی ہے۔ 644صفحات پر پھیلے ہوئے اس ناول کا موضوع متعین کرنا اگر چہ قدرے مشکل امر ہے تاہم ا س کے بین السطور میں تانیثی فکر و شعور کی گونج ضرور سماعت کی جا سکتی ہے۔اس اعتبار سے اس ناول کی مرکزی نسوانی کردار کنول کماری ٹھاکر اہم ہے۔ اس کردار کو پیش کرنے پر ناول نگار نے پوری قوت صرف کی ہے۔اس کردار کے توسط سے جمیلہ ہاشمی نے مردانہ اقدار حیات اور جبر و استحصال کا توڑ پیش کیا ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ مصنفہ نے دراصل طبقہ نسواں کی زبوں حالی اور ظلم و استحصال کو اندر سے بھانپ لیا ہے اور اب یہ اس کردار کے طفیل خواتین کو جدو جہد کی تلقین کرکے آزادانہ زندگی حاصل کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔جیسا کہ نیلم فرزانہ لکھتی ہیں:

’’تلاش بہاراں کا ’’اسم‘‘ دراصل ناول کے ایک کردارکنول کماری ٹھاکر کی کوششوں اور جدوجہد کا استعارہ ہے جو اس نے عورتوں کی بھلائی ، ان کے حقوق کی حفاظت اور عورتوں کی عام ذہنی صورتحال کو بدلنے کے لیے کی۔ اس ناول میں جتنے بھی اہم کردار پیش کئے گئے ہیں ان سب کی کہانی ہندوستانی عورت کی زندگی کے المناک پہلو کو پیش کرتی ہے۔ ان کرداروں کے حوالے سے ناول کا موضوع ہندوستانی عورت کا مقدر قرار پاتا ہے۔‘‘

          (نیلم فرزانہ، اُردو ادب کی اہم خواتین ناول نگار، براؤن بک پبلی کیشنز، نئی دہلی، 2014، ص 257-256)

جنگ آزادی اور تقسیم ملک کے پس منظر میں یہ ناول دراصل ہندوستانی سماج میں عورت کے استحصال اور مظلومیت کی عکاسی کرتا ہے۔ناول نگار نے اس کردار کی تخلیق کرکے اُس ظالمانہ اور استحصالی نظام کی بیخ کنی کرنے کی کوشش کی ہے جہاں اس کی عزت و عظمت غیر محفوظ ہے۔اس کردار کے جملہ افعال ،حرکات و سکنات اور خیالات و تصورات سے ہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس جابرانہ سماجی و معاشرتی نظام کو تبدیل ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں جہاں عورت کی حیثیت مخدوش ہے۔ ناول کا مطالعہ کرتے وقت خود اس کردار کے یہ الفاظ اس بات کا عندیہ دیتے ہیں:

’’زندگی کی بنیادیں بدلنے کی ضرورت ہے ۔ کام اور کوشش کی ضرورت ہے ۔ عام ذہنی سطح کو بدلنے کی ضرورت ہے اور میں یہ کام کروں گی۔‘‘ ۰

(جمیلہ ہاشمی، تلاش بہاراں، اُردو اکیڈمی سندھ، کراچی، 1961، ص 27)

جیلانی بانو کا نام اُردو کے معتبر اور باوقار خواتین ناول نگاروں کے ذیل میں شمار کیا جاتا ہے ۔’ایوان غزل‘‘ اور ’’بارش سنگ‘‘ ان کے دو مشہور ناول ہیں۔جیلانی بانو کا خاصہ یہ ہے کہ وہ اپنے بے باک تخلیقی و ادبی اظہار کے لیے معروف ہیں۔ ان کے ناولوں میں جاگیردارانہ طرز معاشرت و آمرانہ شاہی نظام کے زوال کے پس پردہ خواتین کی زبوں حالی کی عکاسی ملتی ہے۔ عورت کا سماجی و تہذیبی استحصال، مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، انسانی حقوق کا عدم تحفظ، شہری زندگی کی مجبوریاں وغیرہ ایسے چند اہم موضوعات ہیں جن سے جیلانی بانو کے افسانوں اور ناولوں کا خمیر تیار ہوتا ہے۔

اس طرح مذکورہ بالا خواتین ناول نگاروں نے اپنی فکشن تخلیقات کے ذریعہ طبقہ نسواں کی زندگی کے کئی تاریک پہلوؤں کو ضیا بخشنے کی کوشش کی ہے۔ ان ناول نگاروں کے ذریعہ ہی تصورات کے اظہار کی راہیں ہموار ہونے لگیں۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے پیش رو ناول نگاروں کی کھیپ کے لیے تانیثی افکار و نظریات کی مشعلیں جلائی تاکہ وہ اپنے تانیثی فکر وفہم کے چراغ ان سے روشن کر کے ادب کے اندر اس فکر و فہم کو مزید جلا بخشے ۔


Mohd Younus Thokar

Shirmal

Shopian-192305 (Kashmir)

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں