اردو دنیا، اپریل 2025
تنقید کا وجود عالم انسانی
کے وجود کے ساتھ ہوا۔ تنقید کے عام معنی اچھے اور برے کی تمیز کرنے کے ہیں۔ انسان
تنقید کا شعور لے کر پیدا ہوا۔ یونانیوں نے سب سے پہلے ادب اور تنقید پر روشنی ڈالی
اور اس کو معراج کمال تک پہنچایا۔ تنقید کسی ادبی تخلیق میں فن پارے کی خوبیوں کو
ظاہر کرنے کا ایک نظریہ ہے۔ تنقید کا اہم کام ادب کی عظمت کا صحیح اندازہ لگانا
ہے۔ تنقید بھی ایک تخلیقی عمل ہے جس میں کسی بھی ادبی تخلیق سے حجابات کے پردے
اٹھاکر اس کے اقدار کو متعین کرنا ہے۔ نقاد اچھائی اور برائی میں تمیز کرکے ایک نئی
چیز کو جنم دیتا ہے، اس لیے اس عمل کو بھی تخلیق قرار دیا گیا ہے۔ تنقید اس تخلیقی
قوت کو کہتے ہیں جو ادیب کے پیش کردہ کارناموں کو علاحدہ حیثیت سے دوبارہ پیدا
کرنے اور ذہن پر وہی نقش ثبت کرنے کا کام کرتی ہے۔ اردو ادب میں رومانی تنقید، نفسیاتی
تنقید، تاثراتی تنقید، جمالیاتی تنقید، مارکسی تنقید اور سائنٹفک تنقید وجود میں
آئی۔
دنیا میں سب سے زیادہ حیرت
انگیز اور دلچسپ تخلیق ذہن انسانی ہے جس میں سارا خیر و شر سمیٹ کر آگیا ہے۔ ادب
و فنون بھی ایک چھوٹے سے ذہن کا کرشمہ ہے۔ خواہ وہ مصوری ہو یا بت تراشی فن تعمیر
ہو یا موسیقی اور شاعری لیکن شعر و ادب کو ان تمام فنون پر اس لیے فوقیت ہے کہ اس
میں زندگی کا احاطہ کرنے کی سکت زیادہ ہے۔ ادب فنون لطیفہ تک ہی محدود نہیں ہے۔
بلکہ ادب ہماری تہذیبی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ادب کی تعریف کے سلسلے میں
ناقدین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض ناقدین نے ادب کو صرف جمالیاتی انبساط ہی تک
محدود رکھا۔ اسے صرف مسرت کا ذریعہ بنایا۔ ادب پر سب سے پہلے باقاعدہ اظہار مشہور
فلسفی افلاطون نے کیا۔ اس نے اپنے زمانے کی تمام ضروریات سے بغاوت کی، اور حقیقت
اور حسن کی تلاش میں ایک نئے فطری نظام کو جنم دیا۔ افلاطون کی نگاہ میں خیر اور
سچائی ہی اصل حقیقت ہے۔ وہ ادب و شاعری میں بھی حقیقی مقصد کو پورا کرنے کا مطالبہ
کرتا ہے۔
افلاطون کا اہم شاگرد
ارسطو نے اپنی کتاب ’بوطیقا‘ میں ادب و شاعری پر تفصیل سے بحث کی اور افلاطون کے
نقطۂ نظر پر بحث کی۔
اس طرح ادب میں دو نظریے
پیدا ہوگئے ’ادب برائے ادب‘، ’ادب برائے زندگی‘۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے کہا ہے :
’’ادب
ایک فن لطیف ہے جس کا موضوع زندگی ہے‘‘۔ اس کا مقصد اظہار، ترجمانی و تنقید ہے۔ اس
کا سرچشمہ تحریک احساس ہے۔ اس کا معاون اظہار خیال اور قوت متغیرہ ہے اور اس کے
خارجی روپ و حسین ہیئت اور وہ خوبصورت پیرایہ ہائے اظہار ہیں جو لفظوں کی مدد سے
تحریک کی صورت اختیارکرتے ہیں۔
اس فن لطیف میں الفاظ
مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور یہی چیز اس کو باقی فنون لطیفہ سے جدا کرتی ہے ورنہ شدت
تاثر اور تخیل کی مصوری اور تخلیق و اختراع کا عمل دوسرے فنون میں بھی ہے۔‘‘
(بحوالہ
: ’مباحث‘از ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، ص 22)
ادب دراصل زندگی اور تہذیب
کا عکاس ہوتا ہے۔ وہ خارجی حقیقتوں کو داخلی آئینے میں پیش کرتا ہے۔ ادب انسانی
زندگی کی ایک ایسی تصویر ہے جس میں انسانی جذبات اور احساسات کے علاوہ مشاہدات و
تجربات بھی نظر آتے ہیں۔ ’ادب برائے زندگی‘ کا تصور کارل مارکس کے نظریے سے پیدا
ہوا۔
ادب زندگی کی صحیح ترجمانی
کرتا ہے۔ ادب کو زندگی کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ ادب زندگی کا ترجمان اور نقال ہوتا
ہے۔
ادب زندگی اور اس کے
تجربات کو سمجھنے کا شعور رکھتا ہے۔ بہترین ادب کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اجتماعی
خواہشات کی تکمیل کرے۔ ٹین نے کہا ہے کہ
:
’’ادب
نسل، ماحول، وقت سے مل کر وجود میں آتا ہے۔ ادب کی اس تصریح پر غور کرنے سے یہی
نتیجہ نکلتا ہے کہ ادب سماج، ماحول، زندگی، تہذیب اور معاشرت کا عکاس اور ترجمان
ہوتا ہے اور اگر کسی تخلیق میں یہ صفات نہیں رہیں تو اس کو بہترین ادب میں شمار
کرنا صحیح نہ ہوگا۔‘‘
(بحوالہ :Litrature for a age of Science Hymen and Kelen Spalding-P-10)
ادب کو زندگی کی حقیقتوں
کے ساتھ ہی پرکھا جاسکتا ہے اس لیے کہ اس کا زندگی سے ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہوتا
ہے۔ اس زمانے کا ادب زوال پذیر ہوتا ہے، جب وہ زندگی کی حقیقتوں سے دور ہوجاتا ہے۔
اردو ادب میں نئے رجحانات کی ابتدا انیسویں صدی کے آخری حصّے اور بیسویں صدی کے
اوائل میں ہوگئی تھی۔ انیسویں صدی کے آخر میں جس کی وجہ سے ہندوستان ایک نئی
کشمکش میں مبتلا تھا۔ اور وہ تھی اس کی تہذیب اور روایات کی کشمکش۔ نئی زبان، نئی
تہذیب اور نئی باتوں کو قبول یا رد کرنے کا مسئلہ۔ اس کے ساتھ ہی متوسط طبقے کی
حالت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی تھی جس کے لیے سرسید، حالی، مولانا محمد حسین
آزاد، شبلی اور ذکاء اللہ وغیرہ نے نئی باتوں کو اپنانے کی تحریک شروع کی۔ انھوں
نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے نئے علوم اور نئی تہذیب کی حمایت کی اور تعلیم
کی اہمیت پر زور دے کر بیداری پھیلانے کی کوشش کی۔
ادب میں ہمیشہ مختلف نظریات
سرگرم رہے۔ ادب ہمیشہ نظریات کا پابند رہا۔ افلاطون سے لے کر ہیگل تک فرائیڈ اور
مارکس تک ادب کسی نہ کسی صورت میں نظریات کا پابند رہا ہے۔ افلاطون اور ارسطو نے
جب کائنات اور فنون لطیفہ کو نقل کیا تو دوسرے لوگوں نے صرف شخصیات کا آئینہ، تنقید
حیات یا زندگی کا ترجمان کہا تو اپنی نظریات کے تحت ادب کو پیش کرتے رہے۔ اس کا یہ
مطلب نہیں کہ ادب کو کسی نظریہ یا فلسفہ کا غلام بنادیا جائے۔ ایسی صورت میں اس کا
حسن محدود ہوجائے گا۔ اس کی تخلیق کے لیے ایک آزاد اور کھلی فضا کی ضرورت ہے جہاں
اس کے تخیل کی پرواز نہ روکی جائے۔ ادب کو کسی فلسفہ کا غلام بنادینے میں اس کی
ادبیت اور افادیت دونوں مجروح ہوتے ہیں۔
ادب کو زندگی کے مسائل سے
علاحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی اس کے مطالبات اور اس کی حقیقتوں سے آنکھ بند کرکے
بہترین ادب کی تخلیق ممکن نہیں چونکہ ہر ادیب یا فنکار کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ
اپنی تخلیق کو بہتر سے بہتر بنائے۔ علما نے ادب کی تعریف کرتے ہوئے اسے تفسیر حیات
کا نام دیا ہے اور تفسیر بغیر تنقیدی شعور کے ممکن نہیں۔ اس لیے تخلیق کے ساتھ ہی
تنقید کا عمل بھی شروع ہوجاتا ہے۔ تنقیدی شعور کے بغیر نہ تو اعلیٰ ادب تخلیق
ہوسکتا ہے اور نہ فنی تخلیق کی قدروں کا تعین ممکن ہے اس لیے اعلیٰ ادب کی تخلیق
اور ادب کی پرکھ کے لیے تنقید لازمی ہے۔ تنقید کا وجود عالم انسانی کے وجود کے
ساتھ ہوا۔ تنقید کے عام معنی اچھے اور برے میں تمیز کرنے کے ہیں۔ جب زمین پر انسان
کا وجود ہوا تو اس نے بعض درختوں، پودوں، موسموں، ہواؤں اور پھولوں پھلوں کے
سلسلے میں اپنی پسند اور ناپسندی کا اظہار کیا، اور کڑوے اور تلخ پھلوں سے اس کا
منہ بدمزہ ہوا، اور اس نے اسے خواب سمجھا ہوگا۔ دوپہر کی گرمی کو دور کرنے کے لیے
تناور درختوں کا سہارا لیا۔اس لیے اسے پسند کیا۔ پھولوں کی خوشبو نے اسے معطر کیا
تو اسے مسرت محسوس ہوئی۔ کانٹوں نے اسے تکلیف پہنچائی تو ان پر غصہ آیا۔ غرض اس
طرح اس نے اچھے اور برے میں تمیز کرنا سیکھا۔ یہیں سے اس کے ذہن میں تنقیدی شعور
ہوا اس وقت نہ تو کوئی زبان تھی نہ کوئی تہذیب اس لیے ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ
انسان تنقید کا شعور لے کر پیدا ہوا اور جسے تہذیب کے سورج کی گرمی اور روشنی زمین
کو سنوارتی اور بناتی گئی۔ ویسے ویسے تنقید کا شعور بھی ارتقا کی منزلیں طے کرتا
رہا اور جب تہذیب نے ایک جامہ پہن لیا اور انسان اپنے احساسات کی ترجمانی اپنی
ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بات چیت کرنا شروع کی تو تنقید نے ایک شکل اختیارکرنا
شروع کی۔
اگر ہم قدیم زمانے کے ادب
پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یونانی ادب دنیا کاقدیم ترین ادب ہے۔ یونانی قوم
نے اس زمانے میں علم و فن اور تہذیب و تمدن میں اپنی معراج کو پالیا تھا۔ جب دنیا
جہالت میں تھی، یونان میں علم و حکمت بام عروج پر تھی۔ تنقید اور اس کا معیار بھی
سب سے پہلے یونانی ادب میں ملتا ہے اور تنقید کا پہلا اشارہ یونان کے قدیم ترین
شاعر ’ہومر‘ کے ہاں ملتا ہے اس نے اپنی تصنیف ’اوڈیسی‘ میں لکھا ہے کہ :
’’اس
مقدس مطرب ’ڈیموڈوکس‘ کو بلاؤ کیونکہ خدا نے اسے جیسی گانے کی صلاحیت دی ہے کسی
اور کو نہیں دی اس لیے کہ جسے اس کا دل چاہے اس طرح گا کر انسانوں کو خوش
کرے۔‘‘(بحوالہ : بوطیقا، ص 3، تمہید)
یونانیوں نے سب سے پہلے
ادب و تنقید پر روشنی ڈالی اور اس کو معراج کمال تک پہنچایا۔ پروفیسر بوچر نے
افلاطون کی تنقیدی بصیرت کی داد دی، اور افلاطون نے سب سے پہلے فلسفیانہ تنقید پر
روشنی ڈالی اور اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس نے لکھا :
’’افلاطون
کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے وسیع اور فلسفیانہ تنقید کا سنگ بنیاد
رکھا جو علم و ادب کی روح ہے۔‘‘ (بحوالہ : روح تنقید، ڈاکٹر زور،ص 160)
تنقید پر ارسطو کی کتاب
’بوطیقا‘ سب سے پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب سے نہ صرف تنقیدی رجحانات کا پتہ چلتا ہے
بلکہ اصول نقد پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ عزیز احمد نے بوطیقا کی تمہید میں لکھا :
’’جہاں
تک خالص تنقید کا تعلق ہے معلم اول کا یہ شاہکار دنیا بھر میں بے مثل ہے۔‘‘
(بحوالہ
: بوطیقا ارسطو مترجمہ عزیز احمد، ص 32)
ارسطو نے ادبی فن پاروں
کو پرکھنے کے لیے جو اصول معین کیے وہ بے پناہ تنقیدی صلاحیت کا ثبوت ہے رزمیہ المیہ
اور طربیہ پر اس نے جس طرح بحث کی ہے وہ تنقید کا بہت بڑا شاہکارہے۔ ارسطو نے پہلی
بار المیہ و طربیہ شاعری پر تنقیدی بحث کی، یہ المیہ کو اس لیے پسند کرتا ہے کہ اس
سے اخلاق کا درس ہے۔ اس طرح تنقید یونان میں پہلی بار باقاعدہ شکل میں آئی۔
عربی ادب کی تاریخ بہت
پرانی ہے۔ اسلام سے پہلے بھی جب تہذیب و تمدن نام کی کوئی چیز کا وجود نہ تھا۔
بہترین شاعری کے نمونے ملتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انھوں نے اصول اور قاعدہ بھی مقرر کیے
تھے جس کی بنا پر وہ اچھی اور بری شاعری میں فرق کرتے تھے۔وہ شاعری میں طرز بیان کو
سب سے زیادہ ترجیح دیتے۔ ابن رشیق نے اپنی کتاب ’کتاب العمدہ‘ میں جدت اور طرز اور
ندرت بیان پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔
’’ادائے
ندرت معنی کیلئے نئے انداز نکالنا اور ایک ایک بات کو کئی کئی طرح ادا کرنا
شاعرانہ کمال ہے۔‘‘
(اردو
تنقید کی تاریخ، مسیح الزماں، ص 10)
اس زمانے میں تنقید کا
باقاعدہ وجود نہ تھا لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ اصول نقد موجود
تھے۔ مثلاً ابن خلدون نے تنقید کے اس طریقے کو ضروری سمجھا اور لکھا ہے :
’’جب
اشعار نظم کرلیں اور فراغت مل جائے تو خود اپنے اشعار پر ناقدانہ نظر ڈالنی چاہیے۔‘‘
(مقدمہ
ابن خلدون، ص591)
ایرانی نقادوں نے شاعری
کو صرف احساسات کی ترجمانی اور جذبات کی شدت بیان کرنے کا ایک ذریعہ ہی نہیں سمجھا
بلکہ انداز بیان کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ ایران کی ابتدائی شاعری میں عروض و ظاہری
خوبیوں کو شروع ہی سے زیادہ اہمیت حاصل رہی:
’’شمس
قیس رازی نے اس بات سے بحث کی کہ شاعری اور تنقید الگ الگ چیزیں ہیں اس لیے کوئی
ضروری نہیں کہ اچھا شاعر اور اچھا نقاد یا اچھا نقاد اچھا شاعر بھی ہو۔‘‘
(شمس
قیس رازی کتاب العجم بحوالہ اردو تنقید کی تاریخ مصنف مسیح الزماں)
اس نے پہلی بار تنقید کو
فن کی حیثیت سے محسوس کیا۔ سنسکرت ادب بھی
دنیا کے قدیم ادب میں شمار ہوتا ہے۔ جس طرح تمام زبانوں میں زبان کی ابتدا شاعری
سے ہوئی اسی طرح سنسکرت میں بھی اس کے ابتدائی نقوش شاعری کی صورت میں ملتے ہیں۔
جس طرح تنقید کی باقاعدہ ابتداء ارسطو کی کتاب ’بوطیقا‘ سے ہوئی اس طرح سنسکرت میں
بھی تنقیدی شعور کا اندازہ ناٹیہ شاستر سے ہوتا ہے۔اس زمانے میں تنقید میں فن
بلاغت، علم بیان معانی اور علم بدیع پر بہت زیادہ زور دیا گیا۔ سنسکرت میں شاعری
کے تقریباً وہی اصول نظر آتے ہیں جو یونانی ادب میں نظر آتے ہیں۔ ساہتیہ درپن میں
وشواناتھ نے شاعری کی تعریف میں لکھا :
’’وہ
کلام جس سے لذت حاصل ہو یعنی جذبات اور لذت کا ہونا شعر کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔‘‘
(ساہتیہ
درپن از :وشواناتھ، ترجمہ سالک رام شاستری، ص13)
اس کے علاوہ بھاؤ کو
سنسکرت شاعری میں بہت اہم قرار دیا۔ شاعری کے مقصد کے لیے سنسکرت میں بعض شعرا نے
اپنے خیالات کا اظہار کیا جس سے ان کے تنقیدی شعور پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً سنسکرت
کے مشہور عالم ممٹ نے لکھا ہے :’’شبد ارتھو کا ولیم‘‘یعنی لفظ و معانی ہی شاعری ہے
اس لیے لفظ کبھی معانی سے جدا نہیں ہوتا اس طرح ناٹیہ شاستر کے مصنف بھرت نے بہتر
شاعری کے لیے سب سے زیادہ اہم رسوں کو بنایا ہے۔
مغربی ادب کا تنقیدی شعور
ایک طویل عرصہ تک ارسطو کے بنائے ہوئے تنقیدی اصولوں سے بہت زیادہ متاثر رہا۔ جس کی
تحریک ارسطو کی کتاب ’بوطیقا‘ سے ہوئی۔ تنقید کے ارتقاء کی تاریخ میں اٹھارویں صدی
کے وسط سے انیسویں صدی کی تیسری دہائی کا زمانہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں تنقید
کے تمام بنیادی مسائل سامنے آئے جوکہ آج بھی نظر آتے ہیں۔ اس زمانے میں تنقید
کا ایک ایک اہم رجحان نو کلاسکیت سے شروع ہوا جس نے تنقید میں ایک اہم باب کا
اضافہ کیا۔ یہ تحریک اٹلی اور فرانس میں سولہویں صدی میں شروع ہوئی۔ یہ تحریک
کلاسکیت تحریک سے وراثت میں آئی۔ اس تنقید میں نئے رجحانات کو قبول کیا گیا۔ جوکہ
بعد میں رومانی کی شکل میں نمایاں ہوئی۔ نو کلاسکیت تنقید کے عام اصول شائستگی یا
ظاہری آرائش عام روایات اور اصول ہیں۔ نو کلاسیکی کے نظریہ کی بنیاد Imitation of Nature پر ہے۔
نوکلاسیکی تنقید کی ارتقا
میں جان ڈرائڈن کو اہمیت ہے۔ ڈرائڈن پہلا شاعر ہے جس نے اپنی تحریروں میں نوکلاسکیت
کے اصول پیش کیے اس میں شاعری طنز و مزاح ڈرامہ پر تنقیدی مضامین لکھے۔ مختلف
اصناف کے ذریعے نوکلاسکیت کے نظریے کو پیش کیا۔ویلک نو کلاسکیت تنقید کا نمائندہ
تھا۔
کلاسیکی حقیقت پسندی کے
بعد تنقید میں رومانی تحریک کی ابتداء ہوئی۔ یہ ایک رومانی تحریک تھی۔ اس نے تمام
پرانے روایات سے بغاوت کی اور ادب کے اصولوں کو ازسرنو ترتیب دیا۔
رومانیت کی بنیاد تصوریت
اور ماورائیت پر ہے۔ اسی لیے اس میں میانہ روی کی گنجائش نہیں ہے۔ رومانوی ادیبوں
کے یہاں جذباتی انتہا پسندی ہے ان کا احساس بہت شدید اور تصور بہت بلند ہے۔ ہیگل
کے فلسفے نے رومانیت کے راستے کو ہموار کرنے میں بڑی مدد دی اس لیے کہ اس کے یہاں
بھی تصوریت اور ماورائیت کی بہتاب ہے۔ شوپنہار کا فلسفہ جمالیات اور فلسفہ غم بھی
رومانی تصور ہے۔
تنقید میں رومانی تحریک
جرمن سے شروع ہوئی تھی جو بہت جلد انگلستان اور فرانس میں پہنچی۔ اس تحریک کو عام
کرنے میں ٹین (Taine) اور
سینٹ بیو نے سب سے زیادہ کام کیا۔
تنقیدی رجحانات عام طور
پر حالات اور واقعات کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔ رومانی تنقید سے جدید تنقید کی ابتداء
ہوئی اس لیے کہ اس زمانے میں تنقید میں فلسفیانہ نفسیاتی اور جمالیاتی تنقید پر
زور دیا گیا۔ بعض لوگوں نے کسی بھی فن پارے کا معیار اس سے حاصل ہونے والی ذہنی
سکون پر رکھا۔ تو بعض نے اس کی سماجی اہمیت پر زور دیا۔ کچھ لوگوں نے سائنٹفک کی
ابتداء کی تو کچھ لوگوں نے ادب میں فنی خصوصیات جمع کرکے جمالیات تنقید کی بنیاد
ڈالی۔ سائنٹفک تنقید ادیب او فنکار کے تمام پہلوؤں سے بحث کرتی ہے اس میں اس
زمانے کے سماجی حالات اور خیالات کا گہرا عکس دکھائی دیتا ہے۔
سائنٹفک کے ابتدائی نقوش
ٹین کے یہاں ملتے ہیں۔ حالات و نظریات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تنقید کی راہیں بھی
بدلتی گئیں۔ کچھ لوگوں نے ادب کے مطالعہ میں تاریخ کی اہمیت پر زور دے کر تاریخی
تنقید کی ابتداء کی جس کے تحت سیاسی و عمرانی اثرات کا بھی مطالعہ کیا۔ اس طرح نفسیاتی
اور سوانحی تنقید کا بھی وجود ہوا۔ انیسویں صدی میں تنقید میں بہت سے نئے رجحانات
آنے لگے۔ سائنٹفک تنقید نے جن باتوں پر اپنی بنیاد رکھی انہی سے تنقید کی ایک نئی
شاخ جمالیاتی تنقید بھی نکلی جس میں جمالیاتی اقدار پر زور دیا:
’’مجنوں
گورکھپوری کا بیان ہے جمالیات فلسفہ ہے حسن و فن کاری کا۔‘‘
(تاریخ
جمالیات،مجنوں گورکھپوری، ص12)
جمالیاتی تنقید کے اولین
نقادوں میں والٹر پیٹر کا نام لیا جاتا ہے۔
تنقید کے اس نظریے میں
مسرت اور حسن کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جمالیاتی نقاد کسی بھی فنی تخلیق میں سب
سے زیادہ یہ دیکھتا ہے کہ وہ کہاں تک حظ پہنچاتی ہے۔ جمالیاتی تنقید سے ایک شاخ
تاثراتی تنقید کی نکلی۔ جمالیاتی تنقید میں جب حد درجہ داخلیت پیدا ہوجاتی ہے تو
تاثراتی تنقید بن جاتی ہے۔ تاثراتی تنقید میں صرف ان باتوں پر نگاہ رکھی جاتی ہے
کہ کسی بھی ادبی تخلیق کے مطالعے کے وقت ذہن پر کونسا وجدانی اثر طاری ہوتا ہے۔ وہی
تاثر اس تخلیق کے اقدار کو متعین کرتا ہے۔
امریکی نقاد اسپنگارن جس
نے تاثراتی تنقید کو تخلیقی تنقید کا نام دیا ہے۔ والٹر پیٹر اور آسکر واٹلڈ اسی
دبستان کے علمبرداروں میں سے ہے تاثراتی تنقید میں صرف یہ دیکھا جاتا ہے کسی تخلیق
کے مطالعے سے نقاد کے ذہن پر کیا اثر پڑتا ہے۔
جدید دور میں ادب میں
سماجی نقطۂ نظر پر زور دیا گیا ہے۔ نقاد یہ دیکھتا ہے کہ ادبی تخلیقات میں فنکار
نے کس زاویہ سے سماجی مسائل پر روشنی ڈالی۔ اس کا انداز فکر کیا ہے۔ وہ کس طبقے کی
ترجمانی کرتا ہے۔ اس طرح تنقید کا سلسلہ معاشیات، نفسیات، سیاسیات اور دوسرے علوم
سے مل گیا۔ تنقید کا کام ادب کی ترجمانی کرنا ہے اور اس کے محاسن اور اقدار کو
سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ جدید تنقید میں ایک باقاعدہ اسکول مارکسی نقادوں کا ملتا
ہے جس نے ادب اور سماج کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ مارکسی ناقدین کا خیال
ہے کہ ادب کی تخلیق کے لیے دوسرے علوم کا سہارا لینا ضروری ہے۔ ادب زندگی پر
اثرانداز ہوتا ہے۔ سماجی مارکسی تنقید کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ادب
اور زندگی کے متعلق اس کی افادیت پر زور دیا ہے۔
جدید تنقید نگاری میں نفسیاتی
تنقید کا ایک اہم رجحان ملتا ہے جس کی باقاعدہ ابتدا فرائڈ سے ہوتی ہے اس نظریے کے
تحت سب سے زیادہ زور فرد پر دیا جاتا ہے اور ادب کو خالق کی نفسیاتی الجھنوں اور
تشنگیوں کی تصویر بنایا جاتا ہے۔ جدید نفسیات کی مقبولیت فرائڈ کی تحریروں خصوصاً
اس کے فلسفے تحلیل نفسی سے ہوتا ہے۔ فرائڈ نے خواب کی تعبیر و تشریح کی اور بتایا
کہ خواب کی طرح ادب بھی ہماری ناکامیوں کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ نفسیاتی فلسفیانہ،ادبی
اور سماجی تحریکوں کا اثر عالمگیر صورت میں ظاہر ہوا ان اور تحریکات نے مشرق اور
خصوصیت سے ہندوستانی ادب کو بھی متاثر کیا۔ ہندوستانی سماج کے تنقیدی نظریات میں
اس قسم کے تحریکات نظر آتے ہیں۔ ’’سرسید نے سب سے پہلے فکر کو ایک سائنسی نقطۂ
نظر دیا اور چیزوں کو پرکھنے کے لیے تنقیدی نظریہ عطا کیا۔ یہ سرسید ہی کی دین تھی
کہ تنقیدی شعور نے صدیوں کی راہ ایک جست میں طے کرلی۔ ہم دیکھتے ہیںکہ تنقید ایک
دم تذکروں سے نکل کر آب حیات کے دائرے میں آگئی۔ یہ بہت بڑی ترقی تھی۔ دوسرے
تذکروں کے مقابلے میں ’’آب حیات‘‘ میں باقاعدہ تنقیدی رجحان اور اصول ملتے ہیں۔
آزاد کا اصول تمثیلی ضروری ہے۔
لیکن انھوں نے اپنے خاص
انداز میں شاعری کا تجزیہ کرکے ادبی پرکھ کا ایک نیا طریقہ اور معیار متعین کیا۔
اس ضمن میں آب حیات کے علاوہ نیرنگ خیالات کا مقدمہ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے جس میں
بدلتے ہوئے حالات کا شعور ملتا ہے اور ان حالات کے پیش نظر نئی ادبی روایتوں کی
تدوین کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ آب حیات کے بعد مقدمہ شعر و شاعری اس سے زیادہ
اہم قدم تھا چوںکہ انیسویں صدی کے آخری نصف حصّے میں ہندوستان میں بہت سی نئی چیزیں
آئیں بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس زمانے میں پورا نظام حیات بدل گیا۔ اس لیے تنقیدی
شعور اور ادبیات میں تبدیلی کا ہونا لازمی تھا جو نئے تنقیدی شعور کی نشاندہی کرتی
ہیں۔
اردو ادب میں ابتدائی تنقیدی
اشارے تذکروں میں ملتے ہیں۔ تذکروں میں ان تنقیدی اشاروں کی بڑی اہمیت ہے۔ دراصل
ہماری جدید تنقید کی بنیاد ہی اشارے ہیں۔ تذکرہ نگار جس شاعر کا ذکر کرتا ہے اس کے
کلام پر خود ہی رائے دیتا ہے۔ تنقیدی شعور کا یہ سلسلہ شعرا کے کلام سے تذکروں تک
پہنچتا ہے۔ اسے تنقیدی شعور کی ابتدا کا زمانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ تنقیدی شعور کی
بہت سی مثالیں شاعروں کے کلام تقریضوں اور خطوط میں مل جاتے ہیں۔ تذکروں کے فوراً
بعد آب حیات کا نام آتا ہے۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو سب سے پہلے جدید
تنقیدی خیالات کا اظہار آزاد ہی نے کیا۔ آب حیات میں شاعری کے مختلف موضوعات پر
بحث کی۔ اس میں شعرا کے کلام پر تنقید و تبصرہ بھی ملتا ہے۔ آب حیات کی تنقید غیر
جانبدارانہ نہیں ہے۔ پھر بھی اسے تنقید سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ آب حیات کو ہم
صرف تذکرہ نہیں کہہ سکتے کیوںکہ اس میں اور دوسرے تذکروں کے انداز میں خاصا فرق
ہے۔ آب حیات دراصل ہماری پہلی ادبی تاریخ ہے جس میں تذکرے کی خصوصیت اور تنقید بھی
ہے۔
مغربی اثرات میں آزاد،
حالی، سرسید اور شبلی نے سب کو متاثر کیا۔ یہاں اردو تنقید تعریف و توصیف کے دائرے
سے نکل کر سماجی اور نفسیاتی تجزیے کے حدود میں داخل ہوئی۔ ادب میں زندگی اور مقصدیت
کا وجود عمل میں آیا۔ جس نے تنقید کو نئے اور زندہ اصول دیے ہیئت اور اسلوب کے
ساتھ مواد اور موضوع پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ اس طرح اردو ادب میں رومانی تنقید،
نفسیاتی تنقید، تاثراتی تنقید، جمالیاتی تنقید، مارکسی تنقید اور سائنٹفک تنقید
وجود میں آئی۔
اردو میں جمالیاتی و
تاثراتی تنقید
جمالیاتی تنقید کا مقصد
ادبی فن پاروں میں مسرت و حسن کے اجزا کو تلاش کرتا ہے۔ چونکہ جمالیات فنون لطیفہ
کے بارے میں اظہار خیال کرتی ہے اس لیے اس کو فلسفہ فن کہا گیا ہے۔ ادب ایک ایسا
فن ہے جس کا کام تخلیق حسن ہے جوکہ دائمی مسرت کا باعث ہوتا ہے اس لیے فنکار کی
طرح نقاد بھی اس تخلیق کی ٹکنک میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اردو میں جب ہم جمالیاتی تنقید
کی تلاش کرتے ہیں تو ہمیں مختلف نقادوں کے یہاں ایسے رجحانات اور اشارے مل جاتے ہیں
جو اردو میں جمالیاتی تنقید و تاثراتی تنقید کی شکل میں ملتی ہے۔ ان نقادوں میں
آزاد، شبلی، مہدی افادی، سجاد انصاری، عبدالرحمن بجنوری، اثر لکھنوی، مجنوں
گورکھپوری، رشید احمد صدیقی، نیاز فتح پوری اور حسن عسکری کے نام اہم ہیں۔
سائنٹفک تنقید
انیسویں صدی کے درمیان ہی
میں ٹین کے تاریخی نظریے کے ساتھ سماجی نظریہ پیدا ہوا جس کی ابتدا مارکسی اور ہیگل
نے کی۔ حقیقت میں سماجی رجحان ٹین کے نظریۂ نسل زمانہ اور ماحول پر زور دینے سے
شروع ہوا۔
جدید سماجی نظریہ اٹھارویں
صدی سے شروع ہوتا ہے۔ مارکسی تنقید کی ابتدا مارکس سے شروع ہوتی ہے۔ ادب انسان کے
خیالات و جذبات کے اظہار کا نام ہے اور اس کے خیالات اور جذبات بنیادی تجربات پر
ہوتی ہے۔ جب ہم ادب کے لیے یہ بات کہتے ہیں تو اس کا سلسلہ زندگی اور اس کی مادی
حالت میں مل جاتا ہے۔ ادب اور فن کا ارتقا خلا میں وجود رکھنے والا خود مختار عمل
نہیں ہے ایسی تخلیقات ان ہی روایات اور سماجی ماحول سے وابستہ ہوتی ہے جن میں وہ
سانس لیتا ہے۔ جن حالات سے اس کی زندگی دوچار ہوتی ہے۔ ادب کو زندگی کا آئینہ کہا
گیا ہے۔ فنکار اپنے طبقہ اور زمانہ کا عکاس ہوتا ہے۔ مارکسی تنقید نہ تو فنی صنعت
گری کے خلاف ہے نہ جمالیاتی احساسات اور نہ حسن کے خلاف بہتر مارکسی تنقید ایک
اچھے فن پارے میں احساسات کی رفعت جمالیات و تاثرات اور فنی اقدار کے شعور کو بھی
دیکھتی ہے۔ جب ہم ان تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر ادبی تخلیق کی پرکھ کرتے ہیں
تو وہ صحیح معنوں میں سائنٹفک تنقید بن جاتی ہے۔ سائنٹفک تنقید کے نقادوں میں سب
سے اہم نام حالی کا ملتا ہے۔ حالی نے ادب اور سماج کا رشتہ جوڑنے کی کوشش کی۔
انھوں نے سب سے زیادہ
مغرب کا اثر قبول کیا۔ ان کے تنقیدی شعور میں وہ پختگی نظر آتی ہے جو اس دور کے
دوسرے نقادوں کے یہاں نظر نہیں آتی۔ تاثراتی اور سائنٹفک نقادوں میں اہم نام اختر
حسین رائے پوری، سجاد ظہیر، احتشام حسین، اختر انصاری، سردارجعفری، ممتاز حسین، جسارت
بریلوی، ظ۔ انصاری، محمد حسن اور قمر رئیس کے ہیں۔
Dr. Mohd Khwaja Makhdoom
Mohiuddin
Asst. Professor/
Incharge Head Dept of Urdu
Dr. B R Ambedkar Open
University
Hyderabad- 500033
(Telangana)
Mob.: 9849402769
maqdoom_siasat@yahoo.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں