اردو دنیا، اپریل 2025
عالمی ادب میں کچھ کتابیں ایسی لا فانی اور شاہ کار ہوتی
ہیں،جن کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ایسی کتابیں اخذ و ترجمے کے توسط سے پورری دنیا میں
پڑھی جاتی ہیں۔ جیسے فارسی میں سعدی کی گلستاں وبوستاں،فردوسی کا شاہ نامہ،مولانا
روم کی مثنوی معنوی،عربی میں الف لیلہ ولیلہ اور سنسکرت میں پنچ تنتر وغیرہ۔یہ
کتابیں گویا بین الاقوامی سطح پرادبی وعلمی ورثے کا درجہ رکھتی ہیں،اور قوموں کے
درمیان علمی وفکری ہم آہنگی کا ذریعہ ہیں۔
ڈاکٹر خوشحال زیدی کے بقول ہندوستان کی بیشتر زبانوں میں
ادبِ اطفال کی بنیاد پنڈت وشنو شرما کی ’پنچ تنتر‘ سے پڑی۔وشنو شرمانے اسے جانوروں
کی زبانی کہانیوں کی شکل میں پیش کیا۔پنچ تنتر کی تصنیف کا مقصد دلچسپ کہانیوں کے
ذریعے اخلاق و حکمت کی تعلیم دینا تھا۔ ڈاکٹر خوشحال زیدی نے ڈاکٹر ہری کرشن دیوسرے
کے حوالے سے اس کی وجہِ تصنیف یوں بیان کی ہے:
’’
جنوبی ہندوستان کے روپا نگر میں امر کیرتی راجہ راج
کرتا تھا۔اس کے چار بیٹے تھے۔چاروں ہی بے وقوف اور جاہل تھے۔
انھیں پڑھانے کے لیے کئی طریقے آزمائے گئے، مگر سب بے
سود ثابت ہوئے۔آخر کاریہ ذمے داری پنڈت وشنو شرما کو سونپی گئی کہ وہ ان راج
کماروں کو راج کاج کے طریقے سکھائیں اور
انھیں اخلاقیات کی تعلیم دیں۔وشنو شرما نے جانوروں کی وساطت سے انسانی خصوصیات،سماجی
رشتوں اور انسانی پیچیدگیوں کی تشریح و توضیح کی۔یہ کہانیاں اتنی دلچسپ ہیں کہ آج
بھی اسی ذوق وشوق سے پڑھی جاتی ہیں۔‘‘1
’’کلیلہ
و دمنہ‘ کے مقدمہ میں مذکو ر ہے کہ اس کتاب کو ہندوستان کے فلسفی اور معلم بیدبا
نے وقت کے بادشاہ دبشلیم کے لیے لکھا تھا۔جب کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ’پنچ
تنتر‘کسی ایک شخص کی تخلیقی کاوش نہیں ہے،بلکہ اس کی جڑیں نامعلوم زمانوں تک قدیم
ہندوستان کے اجتماعی لا شعور میں ہیں،اور ’پنچ تنتر‘ ہندوستان کے تین مقبول اور قدیم
ادبی فن پاروں:پنچ تنتر،ہِتو اپدیش اور سرت ساگر کا منتخب مجموعہ ہے۔
ڈاکٹر مرضیہ عارف کے بقول ڈاکٹر ہرٹل کا دعویٰ ہے
کہ’پنچ تنتر‘آج اپنے حقیقی روپ میں موجود نہیں ہے۔یہ بنیادی طور پر’تانترائیکا‘
نام کی ایک قدیم کتاب کی بعض کہانیوں،داستانوں اور روایتوں کا مجموعہ ہے۔اس کی اصل
کتاب دو سو قبل مسیح کشمیر میں تالیف کی گئی تھی،جس کا ایک قلمی نسخہ دکن لائبریری
پونا میں محفوظ ہے۔بیش تر ریسرچ اسکالر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اصل کتاب ایک طرح
کے سیاسی اور سماجی نصاب کی شکل میں نوعمر شاہ زادوں کے لیے لکھی گئی تھی،لیکن اس
کے ضائع ہو جانے کے بعد یادداشتوں کی بنیاد پر از سرِ نو پنچ تنتر مرتب کی گئی۔ اس
میں بعض کہانیاں پرانی کتاب کی اور کچھ نئی شامل کی گئی ہیں،جو ظاہر ہے کہ اپنی
اصل سے مختلف ہے۔ایک روایت کے مطابق ’’پنچ تنتر‘‘ کو مرتب کرنے والے ودیا پتی کا
زمانہ تین سو سال قبل مسیح ہے۔دوسری روایت کے مطابق وشنو کرمان کے سر اس کتاب کو
لکھنے کا سہرا بندھتا ہے۔
اب رہی بات کہ یہ کس زبان میں لکھی گئی؟بعض لوگوں نے
اسے کشمیری زبان میںبتایا ہے،اور اس کا ایک نسخہ دکن لائبریری پونے میں محفوظ بتایا
ہے۔بعض نے پراکرت بھی بتایا ہے۔یہ ممکن ہے کہ اس کا ہند کی دوسری زبانوں میں ترجمہ
ہوا ہو۔اسی طرح بیدبا ودیا پتی کا ترجمہ ہو،اور یہ نام کے بجائے صفت ہو،اور اصل
نام وشنو شرما یا وشنو کرمان ہو۔
’پنچ
تنتر‘ ادبِ عالیہ کا وہ شاہ کار ہے،جس کا ترجمہ فارسی،عربی،ترکی اور عبرانی سمیت
دنیا کی تقریباََ پچاس بڑی زبانوں میں ہو چکاہے۔خسرو اول نوشیرواں عادل کے عہدِ
حکومت(531-578ء)میں سنسکرت زبان میں لکھی گئی پنچ تنتر کا سب سے پہلا ترجمہ پہلوی
زبان میں ماہر حکیم برزویہ نے کیا۔برزویہ نے اصل کتاب پر مزید کہانیوں اور واقعات
کا اضافہ کیا،اور کتاب پر ایک مقدمہ لکھا،جس میں اس نے اپنے احوال اور حصولِ
کتاب کے لیے ملکِ ہند کو روانگی،ہند میں قیام
اور واپسی کے احوال لکھے ہیں۔ اس پہلوی ترجمے کو عباسیوں کے عہد ِ حکومت میں فارسی
نژاد نامور ادیب و انشا پرداز عبد اللہ ابنِ مقفع (106-143 ء)نے ’کلیلہ و دمنہ‘ کے
نام سے عربی میں منتقل کیا،اور اس میں مزید چار فصلوں کا اضافہ کیا۔ بقولِ فلپ
کے۔ہِتِی ’کلیلہ و دمنہ‘ ہم تک پہنچنے والی قدیم ترین ادبی عربی تخلیق ہے۔اصل
سنسکرت اور اس کا پہلوی ترجمہ ناپیدہوجانے کے باعث تمام تراجم کی بنیاد اسی عربی
ترجمے پر ہے۔
ابنِ مقفع کے عربی نسخے سے کئی تراجم دوبارہ فارسی میں
ہوئے،جن کو سامنے رکھ کر حسین واعظ کاشفی نے’انوارِ سہیلی‘ مدون کی۔جلال الدین
اکبر کی ایما پر ابوالفضل نے کلیلہ و دمنہ کے دستیاب نسخوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے
انھیں سادہ اور عام فہم زبان میں نئی ترتیب کے ساتھ فارسی کا جامہ پہنایااور اس کا
نام’’عیارِ دانش ‘‘ رکھا۔
اردو میں عیارِ دانش کے کئی ترجمے ہوئے،لیکن زیادہ شہرت
شیخ حفیظ الدین احمد کے ترجمے ’خردِ فردا‘کو ملی، جو 1805 میں فورٹ ولیم کالج
کلکتہ سے چھپی۔ اسی طرح دکن میں کلیلہ و دمنہ کے کئی تراجم ہوئے۔دکنی زبان کے کئی
ادبا،شعرا اور صوفیا نے پنچ تنتر کے مختلف اقتباسات اور کہانیوں کا دکنی زبان میں
ترجمہ کیا۔اسی طرح فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس کے تحت محمد ابراہیم بیجا پوری نے
1823 میں فارسی ’انوارِسہیلی‘ کا تر جمہ دکنی زبان میں کیا۔2
دکنی زبان میںپنچ تنتر نے نہ صرف ادب کو کافی فروغ دیا،بلکہ
دکنی بیانیہ ادب پر بھی گہرا اثر چھوڑا۔اس نے کہانی سنانے کی مقامی روایت کو تقویت
دی،اور اخلاقی سبق کے ذریعے لوگوں کی تربیت کی۔
’پنچ
تنتر‘ کے اردو مترجمین میں سید حیدر بخش حیدری، ڈپٹی نذیر احمد،محمد حسین آزاد،
مولوی ظہیرالدین، مولوی فیروزالدین اور محمد عبد الغفور نساخ کا نام بھی آتا ہے۔
شکنتلا دیوی کی مرتَبہ’پنچ تنتر‘ کا ایک اردو ترجمہ
ڈاکٹر اطہر پرویز نے کیا تھا،جو 1963میں اردو گھر علی گڑھ سے شائع ہواتھا۔اس کی
زبان بچوں کے لیے بہت آسان اورعام فہم ہے،اور تر جمہ کے بجائے اصل کہانی کا گمان
ہوتا ہے۔
عربی ’کلیلہ و دمنہ‘ کا براہ ِ راست اردو ترجمہ حیدرآباد
کے ایک عالم و فاضل مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی نے 2011 میں مکمل کیا۔2014 میں یہ ترجمہ دوسو تیس صفحات پر مشتمل قبا
گرافکس حیدرآباد نے شائع کیا ہے،جو ہندوستان کے مختلف شہروں کے کتب خانوں میں دستیاب
ہے۔
اس ترجمے کا پیش لفظ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ
اللہ نے تحریر کیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ کلیلہ و دمنہ زبان و ادب کو سیکھنے
سکھانے اور حاکم و محکوم کو اپنے اپنے دائرے میں دور اندیشی کی تعلیم دینے میں ایک
نمایاں اور کامیاب کتاب ہے۔انہوں نے مترجم کی ان الفاظ میں ستائش کی ہے:
’’ابنِ
مقفع کے ادبی شہ پاروں کو اردو کا قالب دینے میں مترجم نے بڑی کوشش کی ہے۔ترجمہ میں
امکانی حد تک سلاست و روانی پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے،لیکن ظاہر ہے کہ دوسری
زبان میں ادب کا وہی معیار باقی رکھنا جو اس کتاب میں ہے جس سے ترجمہ کیا جارہا
ہے،بڑی دقت اور مزاولت کا طالب ہے،تاہم مترجم قابلِ ستائش ہیں کہ انھوں ادب کے اس
مرغزار کی سیر کی اور اپنے اردو داں بھائیوں کے لیے اپنی مادری زبان میں اس کی
عکاسی کی۔3
جب یہ بات قابلِ تسلیم ہے کہ پنچ تنتر کا اصل نسخہ ناپید
ہے،اور اس کا پہلا فارسی ترجمہ ماہر طبیب برزویہ نے کیا جو فارسی اور سنسکرت دونوں
زبانوں پر یکساں قدرت رکھتا تھا۔اسی طرح فارسی ترجمہ سے ابنِ مقفع نے عربی میں
ترجمہ کیا ہے،جو فارسی کا ماہر انشاپرداز، اس کے اصول وآداب کا واقف کار اور اس
پر مکمل قدرت رکھتا تھا۔اس کی مادری زبان فارسی تھی۔اسی طرح وہ پہلوی اور یونانی
زبان سے بھی واقف تھا۔وہ دوسری صدی ہجری کے ابتدائی نصف حصے میںبصرہ میں پلا
بڑھا۔وہ عربی زبان سے اچھی طرح واقف تھا، اور عربی کا نامور ادیب شمار کیا جاتا
ہے۔
آج جب عربی
نسخہ ہی ہمارے سامنے اصلی صورت میں موجود ہے،اور اس کا مکمل اردو ترجمہ بھی موجود
ہے تو ہمیں اسی کو بنیاد بنا کربات کرنی چاہیے، جیسا کہ فارسی مترجم برزویہ نے
اپنے مقدمہ میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ہندوستانی فلسفی بیدبا نے ہندوستانی
بادشاہ دبشلیم کے لیے یہ کتاب لکھی تھی، جو سکندر رومی کے جانشیں کے بعد ملکِ ہند
کا بادشاہ بنا تھا،اور اقتدار میں آنے کے بعد نہایت سرکش اور ظلم وستم کا خوگر بن
گیا تھا۔بیدبا نے اس کی اصلاح اور اس کو راہِ راست پر لانے کے لیے یہ کتاب ترتیب دی،بلکہ
کتاب لکھنے سے پہلے بادشاہ سے ملاقات کرکے اور اپنے علم و حکمت اور اخلاق و آداب
سے اس کو متاثر کیا،جس کی بناپر بادشاہ نے اس کو اپنا وزیر مقرر کر لیا،اوربیدبا
سے یہ کتاب لکھنے کی خواہش کی۔برزویہ کے مقدمہ میں مذکور ہے کہ دبشلیم بیدبا سے
مخاطب ہو کر کہتا ہے:
’’میں
چاہتا ہوں کہ تم میرے لیے ایسی فصیح و بلیغ کتاب لکھ ڈالو،جس میں تم اپنے قوائے
فکر کو استعمال کرو،جوظاہراً سیاستِ عامہ اور اس کی اصلاح پر مشتمل ہو،باطنی طور
پر اس میں بادشاہوں کے اخلاق، ان کے رعایا پر حکم رانی کے انداز،رعایا کی بادشاہ کی
تابع داری اور اس کی خدمت گزاری جس سے خود میں اور دیگر لوگ بہت سی ان ہلاکت خیزیوں
اورتباہیوں سے بچ جائیں،جس کی ضرورت بادشاہ کے مصائب میں پڑ جانے کے وقت ہوتی ہے۔یہ
کتاب میرے بعد سالہا سال یادگاررہے...بیدبا! تم نہایت صائب الرائے اور بادشاہوں کے
معاملات میں اطاعت گزار واقع ہوئے ہو۔میں نے یہ چیز تمہارے اندر پرکھ لی ہے۔میری
خواہش ہے کہ تم ہی اس کتاب کو ترتیب دو،اس میں تم اپنے قوائے فکرو عمل کو بروئے
کار لائو۔اپنے تئیں پوری ان تھک کوشش کرو۔اس سلسلہ کی پوری جدوجہد کرو۔یہ کتاب
حقائق، طنزومزاح، لہوولعب اورحکمت و فلسفہ پر مشتمل ہونی چاہیے۔‘‘4
بیدبا نے یہ کتاب اپنے شاگرد کے تعاون سے ایک سال میں
مکمل کی۔بیدبا اپنے شاگرد کو کتاب املاء کراتا تھا۔بیدبا اپنے شاگرد کو کتاب کی
غرض و غایت بتاتے ہوئے کہتا ہے:
’’
بادشاہ کی شرط کے مطابق اسے تفریح ِ طبع اور علم و حکمت
دونوں کا مجموعہ بنادے... وہ اور اس کا شاگرد بادشاہ کے اس مطالبہ پر غورو فکر
کرنے لگے۔ان کی عقل نے انھیں یہ رہ نمائی کی کہ ان کا کلام دو جانوروںکی زبان میں
ہو۔جانوروں کی گفتگوکو وہ کھیل کود،تفریحِ طبع اور مزاح و مذاق کی جگہ رکھیں۔خود ان
دونوں کی گفتگو حکمت ہو۔حکیم اور دانش ور اس کتاب میں حکمت پر توجہ دیں،جانوروں
اور مزاح و مذاق کو چھوڑ دیں، اور یہ سمجھ لیں کہ اس کتاب کا مقصود بھی یہی ہے،اور
عوام اس کتاب کی جانب دو جانوروں (لومڑی:کلیلہ
اور دمنہ)کی باہم گفتگو سے متعجب ہو کر متوجہ ہوں۔‘‘5
ان اقتباسات سے بخوبی
واضح ہوتا ہے کہ بیدبا نے یہ کتاب صرف شہ زادوں اور راج کماروں کے لیے نہیں لکھی
تھی،بلکہ تفریحِ طبع کے ساتھ ساتھ بادشاہ اور رعایا کے درمیان خوش گوار تعلقات،اور
ایک دوسرے کا پاس و لحاظ رکھنے، علم و حکمت اورفلسفہ و دانش کی باتوں سے اپنے ذہن
و دماغ کو روشن و منور کرنے کے لیے لکھی تھی۔اس کی ضرورت نہ صرف شہ زادگان کو،بلکہ
حکمرانِ وقت اور عوام و خواص کو بھی ہے۔ مذکورہ اقتباسات اور مقدمۂ کتاب کی روشنی
میں ڈاکٹر ہری کرشن دیوسرے اور ڈاکٹر خوشحال زیدی کی باتوں کی تصدیق نہیں کی جا سکتی
ہے کہ پنچ تنتر راج کماروں کو راج کاج کے طریقے سکھانے اور انھیں اخلاقیات کی تعلیم
دینے کے لیے تصنیف کی گئی تھی۔
یہ اور بات ہے کہ نفسیاتی طور پربڑوں کے مقابلے میں بچے
جانوروں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کی یہ دلچسپی دائمی ہے،اور آج تک برقرار
ہے۔ آج بھی بچے جانوروں اورپرندوں پر مشتمل کہانیاں، کومکس، کارٹون اور سیریلس بڑی
دلچسپی سے پڑھتے،سنتے اور دیکھتے ہیں۔بچوں کی اسی دلچسپی اور شوق وذوق کے پیشِ نظر
ہر دور میں پنچ تنتر کی کہانیاں بچوں کے نصاب میں شامل کی جاتی رہی ہیں۔
غرض ’پنچ تنتر‘سنسکرت ادب کی ایسی شاہ کا اور مقبولِ
عالم تصنیف ثابت ہوئی کہ اخذ و ترجمہ کے ذریعے جس کے فیض کا سلسلہ صدیوں سے جاری و
ساری ہے،اور اس کے علوم و معارف،فکرو فلسفہ اور حکمت و موعظت سے روشنی حاصل کرنے
والوں کا دائرہ زمان و مکاں کی قیود سے آزادوسیع سے وسیع تر ہے۔
حواشی
.1 ڈاکٹر
خوشحال زیدی: اوردو میں بچوں کا ادب۔مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی، 1989،ص:154-155،
بحوالہ:ہری کرشن دیوسرے۔بچوں کا عالمی ادب۔ماہ نامہ آج کل نئی دہلی، جنوری 1979
.2 ڈاکٹر
رفیعہ سلطانہ:دکھنی نثرپارے۔بحوالہ:ادبِ اطفال کے چند گوشے،از:ڈاکٹر سید اسرارالحق
سبیلی۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی 2021،ص:78
.3 مولانا
خالد سیف اللہ رحمانی۔کلیلہ و دمنہ(اردو)پیشِ لفظ۔ قباگرافکس حیدرآباد، 2014، ص:7
.4 مفتی
محمد رفیع الدین حنیف قاسمی۔کلیلہ و دمنہ(اردو)۔قبا گرافکس حیدرآباد، 2014،
ص:47-48
.5 حوالہ
ٔ سابق،ص:49
Dr. Syed Asrarul Haque Sabeeli
Asst. Professor & Head,Dept. of Urdu,
Govt. City College(A) Nayapul
HighCourt Road,
Hyderabad-500002 (Telangana)
syedasrarulhaque@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں