30/11/17

تبصرہ اصولِ تعلیم اور عملِ تعلیم از شاہ عمران حسن



اصولِ تعلیم اور عملِ تعلیم

مبصر: شاہ عمران حسن
زیر نظر کتاب ’اصولِ تعلیم اور عملِ تعلیم، ممتاز ماہر تعلیم و مصنف ڈی ایس گورڈن کی تحریرکردہ ہے جس کا اُردو ترجمہ ڈاکٹر خلیل الرحمٰن سیفی پریمی نے کیا ہے۔اُردو ترجمہ نہایت سلیس انداز میں کیا گیا ہے۔ کتاب کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کتاب اُردو میں ہی لکھی گئی ہے۔

یہ کتاب اصلاً مدرسین کے لیے تحریر کی گئی ہے اور وہ بھی ہندوستانی مدرسین کے لیے جو دو حصوں پر مشتمل ہے،پہلے حصے میں اصولِ تعلیم پر بحث کی گئی ہے جب کہ دوسرے حصے میں تنظیم مدرسہ پر،دونوں حصے میں بارہ بارہ ابواب ہیں۔ذیل میں ابتداً پہلے حصے کے بارہ ابواب پر مفصل بات کی جا رہی ہے،اس کے بعد دوسرے حصے پر مختصر گفتگو کی جائے گی۔

پہلے باب میں اصولِ تعلیم پر بحث کی گئی ہے۔اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ تعلیم کی اصل کیا ہے اور سماج میں یہ کس طرح ارتقا ئی منزل پرپہنچی۔سماج میں کس کس طرح سے تعلیم کا سلسلہ چلا۔نیز تعلیم کے وسائل کیا رہے ہیں یعنی تعلیم کے حصول کا ذریعہ سماج میں کیا کیا رہا ہے۔ جب کہ دوسرے باب میں مشرق میں مروجہ تعلیم کا تذکرہ ملتا ہے۔مثلاً چینی سماج،برہمنی نظام، بدھ نظام،مسلم سماج،برطانوی تعلیمی نظام کا مفصل ذکر کیاگیا ہے جو اساتذہ کے لیے دل چسپی کا باعث ہے۔

تیسرا باب یورپ میں مروجہ تعلیم پر گفتگو کرتا ہے۔مثلاً یونان،اسپارٹی تعلیم،ایتھنسی تعلیم، سقراط، افلاطون،ارسطو کا نظریہ تعلیم، رومی تعلیم پر صاحب ِ کتاب نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یہ نہ صرف تعلیمی گفتگو ہے بلکہ اس میں تاریخ کا عنصر بھی نظر آتا ہے۔ جب کہ کتاب کا چوتھا باب تعلیم میں سائنسی نقطہ نظر پرگفتگو ہے۔اس میں تعلیم کی فنی اصطلاحات پر بات کی گئی ہے کہ تعلیم آرٹ ہے یا سائنس۔ علم حیاتیات، علم عضویات، علم نفسیات،علم سماجیات،منطق،اور تعلیم میں شماریات کے حوالے سے اچھی بحث کی گئی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ اساتذہ کرام فنی اصطلاحات سے واقفیت حاصل کرسکیں۔ پانچواں باب بہت اہم ہے۔اس با ب میں تعلیم کے مقاصد پر صاحبِ کتاب نے اپنا نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ یہ بتاتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے مقاصدکیا ہیں۔مثلاً معاش، علم، سماجی کارکردگی،اخلاقی مقاصد،فرصت،متوازن شخصیت،باہمی تعاون وغیرہ پر مختصر نوٹ تحریر کیا گیا ہے جو کسی بھی قاری کے مطالعے کے لیے دل چسپی کا باعث ہے۔

چھٹا باب تعلیمی عمل سے متعلق ہے۔اس میں مصنف نے یہ بتایا ہے کہ تعلیمی عمل کس طرح سماجی ورثے کی حیثیت سے نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کے طریقِ کار کیا ہیں اورساتواں باب’بچہ‘کی نفسیات کے مطالعے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ تعلیم کی ترسیل کے وقت بچے کی نفسیات کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اس میں پروفیسر ریمانٹ اور پروفیسرباگلے کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔

آٹھواں باب استاد وشاگرد کے رشتے پر تحریر کیاگیا ہے۔ نویں باب میں نصاب کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ کتاب کا دسواں باب طریقہ تدریس کے اصول پر مشتمل ہے۔ جب کہ گیارہواں باب تدریسی تکنیک پر بحث کرتا ہے کہ تعلیم دینے کے لیے کس کس تکنیک کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔اور آخری باب مرکز تعلیم پر مبنی ہے۔

 کتاب کا دوسرا حصہ تنظیم مدرسہ سے تعلق رکھتا ہے،یہ بھی بارہ ابواب پر مشتمل ہے، اس میں تکنیکی گفتگوکی گئی ہے۔ مثلاً سماج اور مدرسہ کا تعلق، اقامتی مدرسہ،اسکول اسمبلی، اسکول کی ذمہ داری، انعام اور سزا،اسکول کے تہذیبی مشاغل، مدرسہ کی عمارت اور سازو سامان، استاد کی شخصیت، طلبہ کی درجہ بندی،نظام اوقات، مدرسہ کے فرائض،مدرسہ کی صحتی زندگی، اسکول کا ریکارڈ،امتحان اور جانچ وغیرہ پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔

غرضِ کہ مدرسین کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے،جس کا مطالعہ مدرسین کو ضرور کرنا چاہےے تاکہ وہ تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے اس سلسلے کی تمام دشواریوں اور اصطلاحوں کو سمجھ کر مثبت قدم اُٹھائیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اس اعتبار سے مبارک باد کی مستحق ہے کہ مدرسین کے لیے ایک نایاب کتاب کو دوبارہ شائع کیا ہے۔

کتاب کا نام:   تعلیم اور اصولِ تعلیم
مصنف:  ڈی ایس گورڈن
مترجم:ڈاکٹرخلیل الرحمن سیفی
صفحات: 330
سنۂ اشاعت: 2016
قیمت: 155
ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی


اگر آپ اس کتاب کو خریدنا چاہتے ہیں تو رابطہ کریں:
شعبۂ فروخت: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،ویسٹ بلاک8، وِنگ 7،آر کے پورم، نئی دہلی۔110066
ای میل: sales@ncpul.in, ncpulsaleunit@gmail.com
فون: 26109746-011
فیکس: 26108159-011

بچوں سے متعلق قومی اردو کونسل کی دیگر کتابوں کو آن لائن پڑھنے کے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں:
http://urducouncil.nic.in/E_Library/urdu_DigitalFlip.html

کونسل کی دیگر ادبی کتابوں کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں۔
http://urducouncil.nic.in/E_Library/urduBooks.html

29/11/17

مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت از فیروز بخت احمد



مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت

لارڈ جارج سے ایک بار کسی نے دریافت کیا کہ صحافی بننے کے لیے ایک انسان کو کیا کیا جاننا چاہیے؟ انھوں نے جواب دیا، ’’سب کچھ اور کچھ نہیں یعنی کہ صحافی در اصل وہ ہے جو کہ دنیا کی تقریباً تمام باتوں کو جانے لیکن ماہر کسی کا نہ ہو!‘‘ لیکن مولانا کی یہ عجیب و غریب خصوصیت کہ وہ بہت کچھ جانتے تھے اور جو کچھ جانتے تھے ماہرانہ حیثیت سے جانتے تھے۔ جس موضو ع پر بھی لکھا، اپنا سکہ جمایا۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جس کی نظیر دنیا ئے صحافت میں مشکل ہی سے ملتی ہے۔

بقول نیاز فتح پوری ’’مولانا کے دور صحافت کا تاریخی تعین دشوار ہے کیونکہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اس کا آغاز کب سے سمجھا جائے۔ مولانا کی علمی و صحافتی زندگی کے سلسلے میں رسالہ ’مخزن‘، اخبار ’وکیل‘ اور ’الندوہ‘ کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی ابتدا ’لسان الصدق ‘ کے اجرا سے ہوتی ہے جسے انھوں نے جاری کیا، خود مرتّب کیااور خود ہی بند کر دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جس فضا و ماحول میں رہ کر اسے جاری کیا گیا تھا، وہ مولانا کے لیے بہت تنگ تھی اور وہ بہت سی باتیں جنھیں مولانا کھل کر کہنا چاہتے تھے کہہ نہیں پاتے تھے۔ یہ زمانہ مولانا کی بہت کم سنی کا تھا اور اتنی کم سنی کہ اس عمر میں لوگ اپنی تعلیم بھی ختم نہیں کرسکتے۔

حریت کے شیدائیوں، مظلوموں اور بیکسوں کی صدا کو اپنی صحافت کے ذریعے بین الاقوامی سیاسی شعور دے کر مولانا آزاد نے معاشرے میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ 1899  میں انھوں نے ’المصباح ‘کی ادارت کی۔ان کا تعلق 1901 میں مولوی سید احمد حسن فتحپوری کے ’احسن الاخبار‘ اور ’تحفۂِ احمدیہ‘ سے بھی رہا۔’احسن الاخبار‘ کی ادارت کی بیش تر ذمے داری مولانا ہی انجام دیتے تھے۔ وہ عربی اخباروں کے مضامین اور خبروں کے انتخاب و ترجموں کے کام بھی انجام دیتے تھے۔ پھر انھوں نے ’لسان الصدق‘ (1904) اور ’خدنگ نظر‘،’ایڈ ورڈ گزٹ‘، ’مرقع عالم‘،  ’البصائر‘،  ’مخزن‘،  ’الندوہ‘،  ’وکیل‘، ’دارالسلطنت‘، ’الہلال‘، ’البلاغ‘، ’اقدام‘، ’پیغام‘، ’الجامعہ‘، ’پیام‘، ’المصباح‘،  ’زمیندار‘، ’البشیر‘، ’مسلم گزٹ‘، ’مساوات‘، ’ثقافت الہند‘ وغیرہ میں نہ صرف مضامین دیے بلکہ ان میں سے بہت سوں کی ادارت بھی کی۔

مولانا کے صحافتی سفر کے شروعاتی دور کا ایک واقعہ نیاز فتح پوری کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں:
 ’علامہ رشید رضا، ایڈیٹر ’المنار‘ ایک عظیم الشان اجتماع میں تقریر کرنے جا رہے تھے جو بڑے بڑے علما پر مشتمل تھا۔ ضرورت ایک ایسے شخص کی پڑی کہ جو عربی اور اردو دونوں کا ماہر ہو اور ان کی عربی تقریر کا برمحل ترجمہ کرتا جائے۔ مولانا شبلی کے منصب سے یہ بات فرو تر تھی کہ وہ خود اس خدمت کو انجام دیں۔ لہٰذا وہ بڑے متفکر تھے۔آخر ’’جز قیس کوئی اور نہ آیا بروئے کار‘‘مولانا ابو الکلام بے تکلفانہ سامنے آجاتے ہیں اور اس خدمت کو اتنی خوبی و دلکشی سے انجام دیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ترجمہ نہیں بلکہ خود تقریرکر رہے ہیں۔‘‘
یہ تھا مولانا کی ذہانت و قابلیت کا پہلا عملی مظاہرہ جسے کھلے اسٹیج پرسیکڑوں مدعیانِ فضل و کمال نے دیکھا۔

مولانا نے ’لسان الصدق‘ جاری کیا ’لسان الصدق‘ کی ادارت کے زمانے میں مولانا آزاد کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی تھی اور بہت سے لوگ ان کے مداح بن گئے تھے۔ انھیں میں ایک صاحب شیخ غلام محمد امرتسر کے رہنے والے تھے۔ وہ اس زمانے کے مشہور سہ روزہ اخبار ’وکیل‘ کے مالک تھے جو امرتسر سے شائع ہوتا تھا۔ جب مولانا آزاد نے اکتوبر 1905 سے مار چ 1905تک 6 مہینے ’الندوہ‘ سے وابستہ رہنے کے بعد کسی وجہ سے خود بخود تعلق قطع کر لیاتو شیخ غلام محمد نے انھیں امرتسر آنے اور ’وکیل‘ کی ادارت سنبھالنے کی دعوت دی۔ اس پر مولانا امرتسر چلے گئے اور انھوں نے اپنے زمانۂ ادارت میں ’وکیل ‘ میں بہت خوش گوار تبدیلیاں کیں جس سے پرچے کی مقبولیت میں اضافہ ہوا لیکن ایک نجی حادثہ ایسا پیش آگیا کہ انھیں بادل نخواستہ جلد ہی امرتسر سے واپس جانا پڑا۔

مولاناآزاد کے ایک بڑے بھائی مولاناابو النصر غلام یٰسین آہ یعنی اس نا چیز کے دادا تھے دونوں بھائیوں کی تعلیم ایک نہج اور معیار پر ہوئی تھی۔ان کے والد مولانا خیرالدین کاپیری مریدی کا سلسلہ بھی تھا۔کلکتہ اور بمبئی کے اطراف میں ان کے مریدوں کی خاصی تعدادتھی۔ وہ بڑے بیٹے غلام یٰسین آہ کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کر رہے تھے۔آہ بھی خوٗبوٗ  میں اپنے والد کے نقشِ قدم پر تھے لیکن خدا کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔آہ عراق کے سفر پر گئے اور وہاں بیمار ہوگئے۔حالت خراب سے خراب تر ہوگئی۔ وہ بمبئی واپس آئے تاکہ وہاں علاج ہو سکے۔ والد کلکتہ سے بمبئی پہنچے اور انھیں ساتھ لے گئے لیکن ان کا وقتِ اخیر آ پہنچا تھا۔کلکتہ پہنچنے کے بعد وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔اپنے پیچھے وہ اپنی واحد اولاد نور الدین احمد صاحب یعنی راقم کے والد کو چھوڑ گئے تھے جن کی پرورش کی ذمے داری کا بوجھ مولانا پر بھی آگیا تھا۔یہ وسط 1906  کی بات ہے جب مولانا آزاد امرتسر میں وکیل سے وابستہ تھے۔ مولانا خیر الدین نے انھیں لکھا کہ اب تم گھر آجا ؤ اور کام کاج میں ہاتھ بٹاؤ۔ یہ ابھی جانے کی سوچ ہی رہے تھے کہ نومبر 1906  کو والد نے ایک آدمی امرتسر بھیج دیاتاکہ انھیں اپنے ساتھ لے آئے۔ اب کوئی چارئہ کار نہیں رہ گیا تھا۔یہ کلکتہ چلے گئے۔امرتسر کا زمانۂ قیام اپریل 1906  سے نومبر 1907  یعنی صرف آٹھ مہینے رہا۔ وہ والد کے حکم کی تعمیل میں مجبوراً کلکتہ چلے گئے لیکن سچ یہ ہے کہ وہاں جو کام ان کو سپرد کیا گیا،وہ کسی عنوان ان کی پسندکا نہیں تھا۔ مریدوں کی تعلیم و تربیت اور وعظ وغیرہ سے وہ کوسوں دور تھے۔ادھر اخبار نویسی کا مشغلہ ان کا دل پسند و مرغوب کام تھا۔ شیخ غلام محمد بھی ان کے کام سے ہر طرح مطمئن اور خوش تھے۔ قصہ کوتاہ چند دن بعد انھوں نے اپنے والد سے کھل کر کہہ دیا کہ وہ اس پیری مریدی کے سلسلے کو جاری نہیں رکھ سکتے۔ نہ انھیں یہ پسند ہے کہ لوگ آئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کو فرطِ عقیدت سے بوسہ دیں۔ والد آدمی سمجھدار تھے۔ انھوں نے دیکھ لیا کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے کی نہیں۔ ان کی مرضی کے خلاف انھیں کسی کام پر مجبور کرنے سے کیا فائدہ۔ انھوں نے اجازت دے دی کہ اچھا اگر یوں ہے تو وہ واپس امرتسر جا سکتے ہیں۔اس پر وہ اگست 1907 میں امرتسر چلے گئے اور دوبارہ ’وکیل‘کی ادارت کی باگ ڈور ان کے سپرد کر دی گئی۔ لیکن اب  ان کی صحت جواب دے گئی اور وہ بیمار رہنے لگے۔ سال بھرہی مشکل سے وہاں رہے اور اگست 1908میں ’وکیل‘ سے الگ ہو گئے۔

مولانا کی عمر اس وقت 20سا ل کے لگ بھگ تھی اس دوران انھوں نے کئی پرچوں میں کام کیا۔ ان میں سے بعض ان کی ذاتی ملکیت تھے۔ بعض دوسروں کے کہ جہاں وہ تنخواہ پر ملاز م کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ وہ کہیں بھی رہے ہوں، ان کا نصب العین ہمیشہ بلند رہا۔ان کی یہی خواہش اور کوشش رہی کہ صحافت کو ملک و ملت کی بہتری اور بہبودی، خدمت گزاری اور خیرخواہی کا وسیلہ بنایا جائے۔

’وکیل‘، ’زمیندار‘، ’مسلم گزٹ‘، ’پیسہ اخبار‘، ’مشرق‘، ’حبل المتین‘، ’مسلمان‘، ’الحکم‘، ’الحق‘، ’ہمدرد‘ اور انگریزی کا ’کامریڈ‘، سب کے سب پان اسلامی(Pan Islamic) رنگ میں ڈوبے ہوتے تھے اور اسلام و مسلمانوں کے بارے میں لکھتے وقت ’الہلال‘ کا نام ان اخباروں سے بالکل مختلف نہ تھا۔ ’الہلال‘ کی اصل خصوصیت مولانا کا مخصوص انداز تحریر تھا، جذباتی قسم کا اسلوبِ بیان جس میں تحریروں میں خطابت کی شان نظر آتی تھی۔ جملوں اور لفظوں کے تو وہ بادشا ہ تھے۔ محض ترتیب کے الٹ پھیر سے اپنی تحریروں میں گرمی پیدا کر دیتے تھے جس کی آنچ مدھم ہوتے ہوتے بھی پڑھنے والے کے شعور کو بے بس کر جاتی تھی۔

اور سب باتوں کو چھوڑ کر ’الہلال‘ کے صرف ادارۂ تحریر کو لیجیے تو حیرت ہوتی ہے۔ مولانا آزاد کے علاوہ اس میں مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبداللہ عمادی، مولانا عبد السلام ندوی اور بعض دوسرے اصحاب کام کرتے تھے۔ ان سب کو باقاعدہ تنخواہ ملتی تھی۔شاید ہی کسی ہفتہ وار، پندرہ روزہ یا ماہنامہ کو ایسا ادارۂ تحریر نصیب ہوا ہو۔ پھر اس کے مضمون نگاروں میں ملک کے صف اول کے ادیب اور انشا پر داز شامل تھے۔

مولانا ابو الکلا م آزاد شروع سے ہی ہندوستان کی آزادی اور باہمی ہم آہنگی ویگانگی کے علمبردار رہے۔ ان کے صحافتی سفر کا باقاعدہ آغاز 13جولائی 1912  میں ہوا جب انھوں نے کلکتہ سے ’الہلال‘ جاری کیا۔ یہ ایک ایسا اخبار تھا کہ جس نے قومی جذبات اور سیاسی شعور کو بیدار کرکے ملک میں تہلکہ مچادیا اور ہندوستان پر قابض انگریزی ایوانِ حکومت میں زلزلہ پیدا کر دیا۔

’الہلال‘ صرف اخبار ہی نہ تھا بلکہ انگریزی حکومت کے خلاف تحریک بھی تھی جس نے ملت کے سرد و منجمد لہو کو گرم اور رواں دواں کر دیا۔ مردہ دلوں میں نئی جان ڈال دی، مظلوموں اور مغلوبوں کو آزادی کا شیدائی و فدائی بنا دیا۔اس کی للکار اور پکار نے غلاموں کو زنجیرِ غلامی توڑنے کی توفیق دی اور شعلہ حیات بھڑکا دیا۔
جب جب جدوجہد آزادی ہند کی بات کی جائے گی تو مولانا ابو الکلام آزاد کے پرچہ ’الہلال‘ کا ضرور ذکرہوگا۔ مولانا اپنے جن کمالات، خصوصیات و امتیازات کے توسط سے تمام ملک پر چھائے ہوئے تھے اور جن کی نابغۂ روزگار شخصیت، غیر معمولی ذہنی و دماغی قابلیت نے لوگوں کے دل و جان پر اپنے گہرے نقش چھوڑے تھے، اس کی وجہ ان کی صحافت تھی۔

صحافت کا مقصد ان کے نزدیک اخلاص اور بے لوثی سے ملک و ملت کی خدمت کرنا تھا۔ یہ بات صاف ہے کہ انھوں نے اسے کمائی کا ذریعہ کبھی نہیں سمجھا، ہاں مشن ضرور ما نا۔ مولانا آزاد نے صحافت کو جو عزت و وقار عطا کیا، اس کے لیے اردو زبان آج بھی ان کی مشکور ہے۔

جناب احمد سعید ملیح آبادی، مدیر روزنامہ ’آزادہند‘، کلکتہ بیان کرتے ہیں : 
’’جس اخبار اور رسالے کو ہاتھ لگا دیا، اسے چار چاند لگا دیے۔ ایڈٹ کرنے کا گُر مولانا نے خود اپنے لیے وضع کیا، ان کے سامنے اور اگر کوئی نمونہ تھا تو وہ مصر اور ترکی کے اخبارات اوررسالے تھے جو مولانا کے پاس آتے تھے۔ مضامین کے انتخاب، موضوعات کے تعین، مسائل و مباحث کے بیان حتی کہ الفاظ و اصطلاحات کی ترجیحات اور املا کی پابندی پر بھی مولانا کی نظر اور گرفت رہتی تھی۔‘‘(رشید الدین خاں : ابو الکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت ص 280 مضمون :احمد سعید ملیح آبادی)

’ الہلال‘ مولانا آزادکی علمی، ادبی، دینی و سیاسی بصیرت کا نچوڑ تھا۔ وہ ہر اعتبار سے ایک عہد آفریں جریدہ تھاکیوں کہ اس کے مقابلے کاکو ئی بھی ہفتہ وار پرچہ اب تک نہیں نکلا تھا۔’الہلال‘ کی تعریف میں ضیاء الدین اصلاحی صاحب لکھتے ہیں:
کانک شمس والملوک کواکب
اذا طلعت لم یبد منھن کواکب
(اے باد شاہ تو سورج ہے اور دوسرے سب بادشاہ ستارے ہیں
 جب سورج نکلتا ہے تو سارسے ستارے غائب ہو جاتے ہیں۔)

’الہلال‘ اردو کا پہلا با تصویر ہفت روزہ اخبار تھا جو ترکی سے منگوائے ہوئے ٹائپ پر چھپتا تھا۔ ’الہلال‘ کی مقبولیت اور لوگوں کی اس کے لیے بے چینی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے ایک پرچے کو لوگ حلقہ بناکر سنتے اور مولانا کے ایک ایک لفظ اور فقروں پر سر دھنتے تھے۔

’الہلال‘ کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا کیونکہ یہ لوگوں کے قلوب پر چھا گیا تھا اور اس نے فکر و نظر کے زاویے بدل دیے، نئی راہیں کھولیں اور نئے اسلوب میں نیا پیا م دیا۔ مسلمانوں کی حمیتِ ایمانی کو للکارااور انگریزوں کی نفرت کا نقش ان کے دلوں پر بٹھا دیا۔ بقول ممتاز اردو ادیب مالک رام ’الہلال‘کا اصلی کارنامہ اس کا اسلوب تحریر تھا جس میں رنگینی، شگفتگی اور ابداع و اختراع کی جلوہ گری تھی۔‘‘ ڈاکٹر عابد رضا نے لکھا ہے کہ ’الہلال‘ کی اصل خصوصیت مولانا کا مخصوص انداز تحریر تھا۔ اس میں جذباتی قسم کا اسلو ب تھا جس کی تحریرمیںخطابت کی شان نظر آتی تھی۔ لفظوں کے تو وہ بادشاہ تھے اور محض ترتیب کے الٹ پھیر سے اپنی تحریروں میں وہ گرمی پیدا کر دیتے تھے۔ ’الہلال‘ میں مولانا نے قرآنی آیتوں اور عربی عبارتوں کو نگینے کی طرح جڑ دیا ہے۔ فارسی اشعار نے بھی ان کی تحریروں کو نکھارنے اور سنوارنے میں بڑا حصہ لیا ہے۔

’الہلال‘ اردوصحافت کا اہم ترین سنگ میل ہے۔ یہ جریدہ تمام تر سیاست کے لیے وقف تھا۔  پھرتفسیرِ کلا مِ پاک میں اور سیاسی تعبیروں میں تاریخی عوامل و محرکات کا پورا پورا احسا س تھا۔ لہٰذا صحیح معنوں میں ’الہلال‘ پہلا اخبار تھاجس نے اسلامی سیاست میں ایک ترقی پسندانہ اور آفاقی اندازاپنایا اور اس کی ترویج میں غیر معمولی کردار اپنایا۔

اس وقت کسی بھی رسالے کا حکومت پر تنقید کرنا آسان نہ تھا۔ یہ تو خوش قسمتی تھی کہ بنگال حکومت میں ایسے کارکنوں کی کمی تھی جو ’الہلال‘ کی فارسی اور عربی آمیز اردو سمجھ پاتے۔ پھر بھی لکھنؤ کے انگریزی اخبار ’پائینیر‘ نے حکومت کو آگاہ کیا کہ وہ پرچہ کس قدرزہر بھرا پرو پیگنڈہ کر رہا ہے۔ اس بات کے لیے مولانا پہلے سے تیار تھے کہ جس طرح کا مواد وہ چھاپ رہے ہیں،اس کے پیش نظر ظالم اور جابر حکومت ان سے ایک دن ضمانت طلب کرے گی۔ چنانچہ حکومت نے ان سے پہلی مر تبہ دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کی۔ مگر حکومت بنگا ل نے اس پہلی ضمانت کو ضبط کر لیا۔

’الہلال ‘جاری ہونے کے بعد مولانا آزاد نے ’البلاغ‘  نام سے نیا پریس قائم کیا اور اسی نام پر ایک اخبار  نکالنے لگے۔ یہ اخبار 12 نومبر 1915 کو منظر عام پر آیا اور اس وقت تک جاری رہاجب تک انگریزوں نے اس کوبھی ضبط نہیں کر لیا۔ ’البلاغ‘ میں جو روح کار فرما تھی، وہ’ الہلال‘سے کسی طور مختلف نہیں تھی لیکن اس میں اسلام کے اخلاقی فلسفے پر زیادہ زور تھا۔ ’البلاغ‘ کی تلقین تھی کہ مسلمان مطلق العنانی کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں۔

معروف ادیب وناقد مالک رام کا خیال ہے کہ ’الہلال‘ ان کے عہد شباب کی یادگار ہے اور ’غبار خاطر‘ بڑھاپے کی مگر کوئی بھی شخص اسے پڑھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی تھکے ہوئے دماغ یا قلم کی تخلیق ہے۔ یہاں بھی ان کے ذہن کی گرم جولانی اور قلم کی گل افشانی میں وہی دلکشی ہے جو روز اول سے ان سے منسوب رہی۔  اگر تمام مشغولیتوں سے قطع نظر کر کے اپنے آپ کو علم و ادب ہی کے لیے وہ وقف رکھتے تو نہ معلوم آج اردو کے خزانے میں کیسے کیسے قیمتی جواہر کا اضافہ ہو گیا ہوتا۔

فیروز بخت احمد

28/11/17

مولانا مظہر الحق اور ان کے کارنامے محمد توقیر عالم



مولانا مظہر الحق اور ان کے کارنامے

جنگ آزادی کے عظیم رہنما، قومی یک جہتی کے علم بردار، قومی صحافت کے اہم رکن، مادرہند کے ہونہار سپوت بیرسٹری چھوڑ کر فقیر بننے والے مولانا مظہرالحق کی تاریخ پیدائش 22  دسمبر 1866 اورجائے پیدائش مقام بہپورا ضلع پٹنہ ہے یہ جگہ پٹنہ شہر سے تقریباً پچیس کلو میٹر پچھم ہے۔  مولانا کی یادگار ایک مڈل اسکول اور ایک مسجد آج بھی بہپورا میں موجود ہے۔  والد کا نام احمد اللہ تھا۔  مظہرالحق بھائی میں اکیلے تھے۔  ان کی صرف ایک بہن تھی غفورالنساء۔آبائی مقام بہپورا ضلع پٹنہ کے علاوہ ان کی زندگی کا کافی وقت فرید پور، آندر(موجودہ سیوان ضلع) میں گزرا جہاں ان کے والد احمد اللہ کی نانہال تھی۔  یہ گھرانا عقیدتاً وہابی تھا۔

مولانا کی سیاسی زندگی کوتین سطح پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔  مقامی سطح، ریاستی سطح اور قومی سطح پر ان کی خدمات قابل ذکر ہیں۔  مولانا کی قریبی رشتہ داری سیوان شہر سے سولہ کلومیٹر جنوب آندر گاؤں میں تھی۔  مولانا نے وہاں  اپنے لیے رہائش گاہ 1900  میں بنائی اور اس کا نام آشیانہ رکھا۔  اس آشیانہ میں وہ بہت دنوں تک رہے۔  بیرسٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا نے پٹنہ پھر چھپرہ کچہری میں وکالت شروع کی۔  اس زمانے میں وہ بالکل کلین شیو کے خوبصورت سے نوجوان تھے۔  انگریزی سوٹ اور ٹائی میں ان کی شخصیت پروقار نظر آتی تھی۔  چھپرہ ضلع سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر راجندر پرساد بھی سیوان سے تقریباً پندرہ بیس کلو میٹر پچھم کے رہنے والے تھے اور انھوں نے بھی وکالت کا پیشہ اختیار کیا تھا۔

1903  میں مولانا کو سارن میونسپلٹی کا وائس چیر مین بنایا گیا۔  وہ اس عہدے پر 1906 تک رہے۔  اس مدت میں میونسپلٹی کی مالی حیثیت کافی مضبوط ہوگئی۔  ایک مدت کے بعد پھر وہ سارن میونسپلٹی میں آئے 1924 سے 1927 تک چیرمین رہے۔  ترہت ڈویزن کے کمشنر انگریز افسر ڈی۔ واٹسنD. Watson  نے ان کے کاموں کی خوب تعریف کی۔

ریاستی سطح پر مولانا کی خدمات انتہائی قابل قدر ہیں۔  سچتانند سنہانے اپنی کتاب Some Eminent Behar Contemporariesمیں لکھا ہے:

"We are led to form a new alliance in which the Biharee Musalman was to play as prominent and as honorable part as his Hindu compatriets has done in the year gone by"
مولانا مظہرا لحق، سچتانند سنہا، دہلی دربار میں سر علی امام جیسے حضرات کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ شہنشاہ جارج پنجم نے 12 دسمبر 1911 کو بہار اور اڑیسہ کو ملا کر ایک الگ ریاست بنانے کا اعلان کیا ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا کہ اس نوتشکیل شدہ ریاست کا صدر مقام پٹنہ ہوگا اس طرح 22 مارچ 1912 کو اس نئی ریاست کا قیام ہوگیا اور یکم اپریل 1913 سے سارے کام پٹنہ میں ہونے لگے۔  اس سے قبل یہ کلکتہ کے زیر نگیں تھا۔  اس تاریخ کو Royal Darbar of Delhi میں یہ اعلان کیا گیا کہ ہندوستان کا دار الخلافہ اب کلکتہ کی بجائے دہلی میں ہوگا۔  ایک دن قبل تک ریاست پنجاب کے زیر اثر دہلی کا شمار ایک تحصیل کے طور پر ہوتا تھا۔  دہلی دربار 1911 کی وجہ سے کلکتہ کی مرکزیت ختم ہوگئی۔

مسلم لیگ کے فاؤنڈرممبر میں مولانا کا بھی نام آتا ہے اس تنظیم کو مضبوط اور پر اثر بنانے کی خاطر وہ حسن امام کے ساتھ ڈھاکہ اور بنگال کے دوسرے علاقوں میں گئے۔  بہار میں اس کے دفتر کی باضابطہ ابتدا 1908 سے ہوئی، تب سے مولانا اس کے سکریٹری رہے۔  انھوں نے 1915 میں اس کے بمبئی اجلاس کی صدارت بھی کی تھی۔  اس سلسلے میں سچتا نند سنہا کا بیان قابل ذکر ہے:
"Haque nursed the infant league on Nationalist Line"
یہاں ہم سچتانند سنہا کے حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہCommunal Harmony اور Nationalist Line کی بنیاد پر ہی مولانا نے مسلم لیگ کی پرورش کی۔  یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے کے بعد بھی وہ انڈین نیشنل کانگریس سے دور نہیں رہے اور ساتھ مل کر چلنے کی کوشش کرتے رہے یعنی کانگریس اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے رقیب یا حریف کے طور پر نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

انڈین نیشنل کانگریس کی ستائیسویں کانفرنس 1912 میں بانکی پور، پٹنہ کے مقام پر منعقد ہوئی۔اس (Reception) ری سپشن کمیٹی کے چیرمین مولانا ہی تھے۔ کچھ لوگوں نے مسلم لیگ کو مسلم تنظیم اور کانگریس کو ہندو تنظیم کہا۔  مولانا ایسی سوچ کے مخالف تھے۔

مولانا نے ہندوستانی صنعت کے تحفظ کی خاطر آواز اٹھائی اور یہاں کی انڈسٹری کے پچھڑے پن کا ذمے دار انگریزی حکومت کو بتایا۔  انھوں نے واضح طور پر کہا کہ حکومت برطانیہ برمنگھم اور لنکا شائر کی انڈسٹری کو دھیان میں رکھ کر ساری پالیسی بناتی ہے۔ جو ہندوستان کے ساتھ  ناانصافی ہے ، بہار کے ساتھ ناانصافی ہے۔ مولانا کے ان نظریات کی تائید  دادا بھائی نوروجی نے بھی کی۔

پرائمری تعلیم کی فیس ختم کرنے کے لیے مولانا نے بہت کوشش کی اس زمانے میں بال کرشن گوکھلے نے بھی پرائمری تعلیم سے متعلق اس طرح کے مطالبات پیش کیے۔  ان دونوں رہنماؤں نے لڑکیوں کی تعلیم پر بھی خاص زور دیا۔  ان کے زمانے میں تویہ کوششیں پوری طرح بار آور نہیں ہوپائی لیکن ان باتوں کا اثراب دیکھنے کو مل رہا ہے۔

انگریزی سرکار کی شروعات میں آئی سی اِس (ICS)  ایک عہدہ تھا اس کا امتحان لندن میں ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے۔  ہندوستان کے کسی بھی شہر میں اس امتحان کے لیے کوئی مرکز نہیں ہوتا تھا۔ مولانا نے انڈین نیشنل کانگریس کے 1912 والے پٹنہ اجلاس میں پرزور مطالبہ کیا کہ ہندوستان میں بھی امتحان کا مرکز بنایا جائے اور یہ بات مان لی گئی۔  کانگریس کے اسی اجلاس میں مولانا نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ افسران کو Executive اور Judiciary الگ الگ خانوں میں واضح طور پر رکھا جائے۔  مولانا کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ وکیلوں کے بیچ سے ہی جیوڈیشری کے افسران کا انتخاب ہو۔  1912 میں کانگریس پلیٹ فارم سے مولانا نے جو مطالبہ کیا تھا اسے مان لیا گیا۔

اسی زمانے میں ایک نئی اصطلاح ہوم رول کی آئی تھی۔  اردو کے مشہور شاعر اور لکھنؤ کے وکیل پنڈت برج نرائن چکبست بست نے کہا تھا:
برطانیہ کا سایہ سرپہ قبول ہوگا          ہم ہوں گے عیش ہوگا اور ہوم رول ہوگا

مظہرالحق نے ہوم رول کو قبول کیا لیکن برطانیہ کا سایہ قبول نہیں کیا۔  ان کے اس نظر یے سے سو فی صد متفق لوگوں میں بال گنگا دھر تلک اور مسز اینی بسنٹ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ اسی نظریے کی بنیاد پر مختلف علاقوں میں ہوم رول کے دفتر بنائے گئے۔  بہار میں 16 دسمبر 1916 کو بہار ہوم لیگ کی شروعات ہوئی اور مظہر الحق اس کے پہلے صدر بنائے گئے۔

اس وقت تک مولانا مظہرالحق کا شمار ہم انگریز دوست کی حیثیت سے کرتے ہیں ۔ اس کے چند سال بعد ہی ان کے نظریات میں تبدیلی ہوئی ہے۔  جلیا ں والا باغ سانحہ سے انھیں کافی دکھ ہوا، مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال جیسے لوگوں کی وجہ سے ان کی سوچ بدلی۔ طرابلس اور بلقان کی جنگ کے بعد ترکی خلافت کے زوال نے مظہرالحق کو بھی مولانا ابوالکلام آزاد اور گاندھی جی کی طرح انگریز مخالف کر دیا۔

1920 میں صداقت آشرم اور 1921 میں بہار ودیاپیٹھ کی شروعات مولانا ہی کی کوششوں کا ثمرہ ہے اس کے بعد مولانا کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔  اخبار The Independent لکھتا ہے:

Mazharul Haque returned from Calcutta after the speical congress, gave up his huge practice, changed his method of dress, grew a beard and retired in to TAPOVAN  on Gangas, Called the Sadaqat Ashram. Since then he became a FAQEER.

اس طرح انھوں نے مغربی طرز زندگی اور بڑے عہدے سے کنارہ کشی اختیار کی اور بالکل فقیر بن گئے۔  اب انھیں اپنی سوچ کے مطابق کا م کرنے کا زیادہ موقع ملا۔  اس طرح مولانا تن من دھن سے ملک وقوم کی خدمت میں لگ گئے۔  مزاج میں فقیری جو آئی تو ہر طرح کی رکاوٹیں ختم ہوگئیں ۔

اب مولانا کے سامنے صرف تین کام رہ گئے:
-          ہندوستانیوں میں تعلیم کا فروغ
-          ہندوستانیوں میں بھائی چارے کو بڑھاوا  دینا
-          برطانوی سامراج کی مخالفت، اسی ضمن میں انگریزی عہدے اور انگریزی سامان کی مخالفت بھی شامل ہے۔

ہندوستانی قوم، ہندوستانی زبان اور ہندوستانی اشیا کی قدر و قیمت کا اندازہ صداقت آشرم سے ہو سکتا ہے۔  زمین خیرو میاں کی اور کالج طلبا کی مدد سے مولانا نے جھونپڑی بنائی۔ وہ خود بڑے انگریزی داں تھے اس مکان کا کوئی انگریزی نام دے سکتے تھے۔  خود مسلمان تھے اور عربی فارسی کے ماہر بھی تھے۔  اس لیے عربی فارسی نام بھی دے سکتے تھے یا پھر خالص سنسکرت ہندی قسم کا نام بھی دے سکتے تھے لیکن ان کو ہندوستان کی مختلف برادری سے لے کر ہندوستان کی مختلف زبان سے پیار ہے اس لیے اس کا نام عربی فارسی اور سنسکرت کی بنیاد پر صداقت آشرم رکھا۔

مسلم لیگ میں قیام پاکستان کی مانگ زور پکڑنے لگی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح مولانامظہرالحق نے بھی اس مطالبے کی مخالفت کی۔  مولانا آزاد کانگریس میں تھے۔  مظہرالحق نے مسلم لیگ میں رہتے ہوئے واضح طور پر کہا:
"315 million with one ideal, one aim,  where 70 million detatch themselves"

ساڑھے اکتیس کروڑ ایک نظریہ کے حامی ہیں۔  اس میں سات کروڑ لوگ خود کو الگ کیوں کریں۔کاش اس نظریے پر عمل درآمد ہوتا تو ہندوستان کو بٹوارہ، فرقہ وارانہ فساد، دہشت پسندی، علاحدگی پسندی جیسے کرب سے نہیں گزرنا پڑتا۔ 

صحافت میں مولانا کا اہم نام ہے۔  انھوں نے The Mother Land نام کا اخبار نکالا۔  اس زمانے کا مشہور اخبار، The Searchlight  تو کاروبار اور منافع کے اصول پر کام کرتا تھا لیکن مظہرالحق کا اخبار آزادی کے متوالوں کی آواز بن گیا۔  اس کے لہجے میں کہیں بھی تندی یا سختی نہیں تھی۔  پروقار زبان میں اپنی بات کہہ دینا اس اخبار کا شیوہ رہا۔  افریقی نسلی امتیاز کے خلاف یہ اخبار ہمیشہ لکھتا رہا۔  ہندو مسلم اتحاد کی ہمیشہ تدبیر سمجھتا رہا، ہندوستانیوں میں تعلیم کے فروغ کی مسلسل کوشش کرتا رہا،  انگریزوں کی مخالفت کرتا رہا اسی اخبار کی وجہ سے Non Co-operation Movement زور پکڑ نے لگا۔

دیگر مذہب میں شادی کو مولانا نے فروغ دینا چاہا۔  ان باتوں کی کافی مخالفت کی گئی لیکن مولانا نے اپنے نظریے میں تبدیلی نہیں کی۔  یہ اور بات ہے کہ مولانا کی اس بات پر ہندو یا مسلم یا کسی بھی طبقے نے دھیان نہیں دیا۔
مولانا کی پہلی شادی غوثیہ بیگم سے ہوئی۔  1902 میں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔  بچی کی ولادت کے دن ہی ماں کا انتقال ہوگیا۔  یہ لڑکی کم عمری ہی میں فوت کرگئی۔

پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کشور جہاں بیگم سے ہوئی۔  اس بیوی سے ایک بیٹے حسن مظہرکی پیدائش 1908 میں ہوئی۔  سترہ سال کی عمریعنی1925 میں یہ لڑکا داہا ندی کے سیلاب میں ڈوب کر مرگیا۔ کشور جہاں بیگم ہی سے ایک بیٹی ثریاجبین پیدا ہوئی تھی تقریباً تین سال کی عمر میں وہ بچی اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔  کشور جہاں نے 7 ستمبر 1914 کو ایک بیٹا حسین مظہر کو جنم دیا۔  تھوڑے دنوں کے بعد کشور جہاں بھی اس دینا سے رخصت ہوگئیں۔

دوسری بیوی کے انتقال کے بعد مولانا نے 1917 میں تیسری شادی منیرہ طیب جی سے کی جو مشہور کانگریسی رہنما اور مہاراشٹر کے عظیم صنعت کار بدر الدین طیب جی کی بھتیجی تھیں۔  مولانا کے انتقال کے 35-40 سال بعد تک وہ زندہ رہیں۔  منیرہ سے کسی بچے کی پیدائش نہیں ہوئی۔

مظہرالحق کی اولاد میں صرف حسین مظہر ہی زندہ رہے وہ اردو کے ایک اچھے شاعر تھے اور مظہرتخلص کرتے تھے۔  ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
جو سچ کہو تو عجب شے ہیں حضرت واعظ
زمین پہ جیتے ہیں مرتے ہیں آسماں کے لیے

Prof.(Dr.)Md.Tauquir Alam
Pro-Vice Chanceller
Maulana Mazharul Haque Arabic &Persian University
Mobile No.09934688879
E-mail: proftauqiralam@gmail.com



24/11/17

مضمون ۔ سفر نامہ: ایک جائزہ از صبیحہ انور

سفر نامہ:ایک جائزہ



دیکھ لے اس چمن دہر کو جی بھر کے نظیر
پھر  ترا    کاہے   کو   اس   باغ    میں آنا    ہوگا
سفر نامہ وہ بیانیہ ہے جسے مسافر سفر کے دوران یا منزل پر پہنچ کر اپنے تجربات اور مشاہدات کی مدد سے تحریر کا جامہ پہناتا ہے اور اپنی گزری ہوئی کیفیات سے دوسروں کو واقف کراتا ہے۔ راہ میں پیش آنے والے اپنے تحیّر، استعجاب اور اضطراب کو اس طرح سے قلم بند کرتا ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے نہ صرف پوری تصویر آجاتی ہے بلکہ اس مقام سے متعلق تمام معلومات مع تفصیل اس کے علم اور آگہی میں اضافہ کردیتےہیں۔

لائبریری سائنس کے اصول کے مطابق سفر نامے جغرافیہ کے ساتھ معلوماتی ادب کے ساتھ جگہ پاتے ہیں۔ اپنے اوپر گزرنے والی کیفیات کا بیان کرتے وقت سفر نامہ لکھنے والا خودسفر نامے کے مناظر کا حصہ بن جاتا ہے سفر میں گزرنے والے حالات و تاثرات کایہ اصلی اور جذباتی رکارڈ ہوتاہے جس میں سفر کی نوعیت سے لے کر دوسری تفصیلات، موسم، جغرافیائی، تاریخی، سماجی احوال اپنی رائے کے ساتھ درج کیے جاتے ہیں۔ سفرنامہ راستے کی دشواریوں سے محفوظ رہنے کی تدابیر بھی فراہم کرتا ہے۔ اُن دنوں جب آمدو رفت کے وسائل محدود تھے سفر آسان نہ تھا اور جب تک کوئی بہت ضروری کام نہ ہو کوئی سفر کا جوکھم نہیں اٹھاتا تھا۔ مسافر گھر والوں، اعزا  و  اقربا سے کہا سنامعاف کراکے ہی گھر سے نکلتا تھا۔ اس وقت کا سفر معلومات کا سرچشمہ ہوتے تھے۔ معلومات کی نوعیت کا تعلق بہت کچھ مسافر کی دلچسپی اور مقصدِ سفر پر منحصر ہوتا تھا۔

سفر نامہ لکھے جانے کا بہت کچھ انحصار مسافر یا سیّاح کی مزاجی کیفیت، قوت مشاہدہ اور انداز تحریر پرہوتا ہے۔ عازم سفر کے لیے یہ دلاسہ ہوتا ہے کہ باہر تو نکلو، مسافر نواز بہتیرے ملیں گے۔ ہزاروں شجر سایہ دار راہ میں منتظر ہیں۔ کچھ سفر کسی ضروری کام یا کسی مقصد کے لیے ہوتے ہیں اور کچھ محض لذتِ صحرا نوردی کے لیے جہانیاں جہاں گشت بن جاتے ہیں۔شوق سفر انسانی زندگی کے خمیر میں اس طرح پیوست ہے جیسے فولاد میں جوہر، انسان نے اس انوکھی قدم قدم پر حیرت اور استعجاب اور ہر لمحہ رواں دواں زندگی میں کبھی ایک جگہ ٹھہرنا  پسند ہی نہیں کیا، ہر ایک مقام سے آگے مقام ہے تیرا کے مصداق، نئی دنیاؤں کی تلاش اس کی سرشت میں شامل ہے۔حرکت زندگی کا ثبوت ہے اور آگے بڑھتے رہنے کا شوق مہیا کرتی ہے۔ آج کی ترقی پذیر دنیا انسان کے اسی تجسس اور جستجو کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک جگہ نہیں بیٹھنا چاہتا ہے۔ فطرت کے ہر راز کو افشا کرنا ہر بھیدکی تہہ تک پہنچنا خواہ بہشت میں گندم کھانے کا تجسس ہو یا پوٹاشیم سائنایڈ کا مزہ ہو۔ صرف اس کی سچائی جاننے کے لیے کتنی جانوں کی قربانیاں دی گئیں۔ چاند تاروں پر کمندیں ڈالنے کا جنون اور سمندر کی تہہ کو کھنگالنے کا شوق اب بھی برقرار ہے اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سفر انسانی زندگی کو سنوارنے اور مرتب کرنے کی کوشش کا ایک سلسلہ ہے۔

 البیرونی، مارکو پولو، فاہیان، ناصر خسرو، شیخ سعدی، ابن ہیکل بغدادی اور ابن بطوطہ جیسی ہستیوں کے تجربات اور مشاہدات نے انسانی فکر کی گہرائی اور علم و تجسّس میں اضافہ کیا ہے۔ یونانی سیّاح میگس تھنیز (Megasthenes)، چندر گپت موریہ کے دربار میں تقریباً تین سو سال قبل مسیح ہندوستان آیا تھا۔ میگس تھنیز کے سفر کے تجربے اور بیانیہ شاید دنیا کا پہلا سفر نامہ ہے۔ جس کے آج صرف حوالے ہی ملتے ہیں اور اسے دنیا کی قدیم ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یونانی بادشاہ سکندر اعظم نے ہندوستان پر حملہ کیا... یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سفر نامے نے ہی سکندر اعظم کی ہندوستان تک رہبری کی تھی۔ ہندوستان پر سکندر اعظم کا حملہ تین سو پچاس سال قبل مسیح ہوا تھا۔


اردو میں سفرناموں کی روایت عربی، فارسی سفر ناموں کی دین ہے۔ مغرب کے مقابلے میں مشرق میں سفر نامے کی روایت زیادہ پرانی ہے۔ابن بطوطہ آٹھویں صدی ہجری کا مشہور سیاح گزرا ہے۔ اس نے کم وبیش ربع صدی مشرق و مغرب کی سیاحت میں بسر کی اس نے دلچسپ اور معلوماتی سفر نامہ ’تحفة النظار‘ کے نام سے لکھا۔ ا س کا خلاصہ اردو میں شائع ہوا۔


یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ ’عجائبات فرنگ‘ سوا سال کی سیاحت کے 9سال بعد 1947 میں طباعت سے آراستہ ہوا۔ جسے اردو کا اوّلین سفر نامہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس سے پہلے اس طرح کی کوئی تحریر اردو میں دستیاب نہ تھی...“ (اوراق لاہور، 1978)


یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ عجائبات فرنگ، جعفر تھانیسری کی تصنیف کالا پانی، محمد حسین آزاد کی ’سیر ایران‘ اور سر سید احمد خاں کی ’مسافران لندن‘ بہت اہم سفر نامے ہیں۔ جو کئی اعتبار سے اردو سفر نامے کی تاریخ میں بنیادی نام ہیں۔ سر سید احمد خاں نے 1869 میں لندن کا سفر کیا۔ سر سید کا یہ سفر صرف ایک ترقی یافتہ اور حاکم ملک کا سفر نہ تھا بلکہ یہ سفر نامہ کئی اعتبار سے ایک تاریخی سفر کی روداد ہے جو سر سید کے شوق، اضطراب اور بے چینی کا بھی بیان ہے... جو قوم کا درد اور ترقی اور انقلاب کی تڑپ دل میں رکھنے والے سر سید کی بے چینی کی بھی تصویر ہے۔ یہ سفر نامہ نہیں ہے۔ سر سید کی علمی تحریک اور قوم کی شخصیت سازی کے سر سید کے تصور کو واضح شکل دینے میں ان سفر ناموں اور نئی دنیا کے منظر ناموں نے مہمیز کا کام دیاتھا۔ اور قوم کے شوق اور اشتیاق میں شدت پیدا کی تھی۔


اردو کے ابتدائی سفر ناموں میں مولانا جعفر تھانیسری کا ’کالاپانی‘ 1862 میں سامنے آیا۔ مولانا کو انگریزوں نے کالا پانی کی سزا دی تھی۔ یہ سفر نامہ اسی کیفیت میں انڈمان کے سفر اور مشکلات کا بیان ہے۔ اپنی زندگی کے بارے میں جو باتیں لکھی ہیں وہ نہ صرف حیرت انگیز ہیں بلکہ زندگی کی عجوبہ کاری اور نیرنگی زمانہ کا بیان ہیں۔ پھانسی کی سزا پانے والے کی نفسیاتی حالت کے ساتھ ساتھ انگریز سے نفرت اور ضرورت کے لیے انگریزی زبان سیکھنے کی محنت کا ذکر ملتا ہے۔

اگر چہ یوسف خاں کمبل پوش، جعفر تھانیسری اور سرسید احمد خاں تینوں کے سفر مخصوص مقاصد کے لیے تھے مگر یہ بہ حیثیت مجموعی سیاح کی غیر جانبدار نظر سر سید اور جعفر تھانیسری کے سفر ناموں میں نہ کھل سکی۔ ان پر قومی اور اصلاحی جذبہ اس قدر حاوی رہا کہ اپنے مشاہدے میں آزادانہ طور پر لطیف کیفیات میں قاری کو شامل نہ کرسکے۔ ایک طرح کا احساس کمتری اور شکستگی کی بے چینی ہے جو پورے سفر نامے پر طاری ہے۔جب کہ یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ ایک آزاد فکر سیاح کا سفر نامہ ہے۔ وہ دنیا کو اپنی آنکھوں اور مشاہدے میں سمیٹ لینا چاہتا ہے۔ جس وقت اردو کا قاری داستان کے مافوق الفطرت ماحول اور کرداروں میں دلچسپی لے رہا تھا، یوسف خاں نے اہل ادب کی توجہ حقیقی مشاہدے کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔
1892 میں مولانا شبلی نے پروفیسر آرنلڈ کے ہمراہ قسطنطنیہ کا سفر اختیار کیا اور ترکی، مصر، شام کا دورہ کیا۔ شبلی کا یہ سفر علمی سفر تھا۔ اپنی معرکة الآرا کتاب ’الفاروق‘کے لیے مواد اکٹھا کیا۔ اور اپنے سفر نامے کا نام رکھا ’سفر نامہ مصرو روم و شام‘ جس میں انھوں نے وہاں کے سیاسی سماجی حالات پر روشنی ڈالی ہے اور وہاں کی تاریخی عمارتوں، کتب خانوں اور علمی اداروں پر تفصیل سے معلومات یکجا کی ہیں۔

بیسویں صدی میں جب سفر کی سہولیات میسر آنے لگیں تو نہ صرف سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا بلکہ حالات سفر بیان کرنے کا شوق بھی پروان چڑھا۔ چناں چہ منشی محبوب عالم کا سفر نامہ یورپ، شیخ عبدالقادر کا سفر نامہ ’مقام خلادت‘ خواجہ حسن نظامی کا سفر نامہ مصرو فلسطین، قاضی عبدالغفار کا ’نقش فرنگ‘ قاضی ولی محمد کا’سفر نامہ اندلس‘ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان سفرناموں میں دنیا کے عجائبات اور مختلف دلچسپ مشاہدات کا ہی بیان نہیں ہے بلکہ دنیا کے عجائبات کو دیکھنے کے شوق کو بھی بڑھاوا ملتا ہے۔


عبدالماجد دریابادی کا سفر حجاز اردو سفر ناموں میں ایک اہم نام ہے۔ پروفیسر احتشام حسین کا سفر نامہ ’ساحل و سمندر‘ 1954 اور ڈاکٹر مختارالدین آرزو کی سرگذشت سفر ”زہے روانی عمر کہ در سفر گذرد“ یوروپ کے علمی وادبی سفر نامے ہیں۔


موجودہ عہد میں اظہار ذات کا حوصلہ ہی نہیں بڑھا بلکہ دنیا کو دیکھنے کا ذوق بھی بیدار ہوا ہے۔ اور بڑی تعداد میں سفر نامے لکھے جارہے ہیں۔ سفر نامہ نگاروں میں اپنی بات کو کہنے کا شوق بھی بڑھا ہے۔ ابن انشاءکا ’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘، ’ابن بطوطہ کے تعاقب میں ‘ اور ’دنیا مرے آگے‘ قابل ذکر ہیں۔ رام لعل نے ’زرد پتوں کی بہار‘ سفر نامہ لکھا اور رام لعل کا یہ سفر نامہ 1980 میں پاکستان کا سفر ہے جو جذباتی طور پر دلوں کو بے چین کردینے والا سفر نامہ ہے۔

آج وقت بڑی تیز رفتاری سے ہر آن نئے رخ اختیار کرتا ہوا  ا ٓگے بڑھ رہا ہے کہ دوسروں کے تجربوں سے واقفیت کی ضرورت بہت کم ہوگئی ہے۔ دنیا کو کتابوں، ٹی وی اور انٹرنیٹ کی مدد سے دیکھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ جہاں تک تجسّس کی سیرابی کا سوال ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت آج دنیا مٹھی میں سما گئی ہے کہنا غلط نہیں ہے، اور یہ صرف ایک محاورہ نہیں ہے کہ دنیا بہت چھوٹی ہوگئی ہے۔ آج اس دنیا کی ہر چیز آزمودہ اور دیکھی ہوئی ہے۔ مگر اس کے بعد بھی آج نئے نئے انداز سے سفرنامے لکھے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہزاروں سال پرانی دنیا آج بھی اتنی ہی نئی اور اتنی ہی من موہنی ہے جتنی کہ روز اوّل تھی۔ سورج ہمیشہ ایک ہی طرح سے طلوع ہوتا ہے مگر ہر روز ایسا لگتا ہے جیسے قدرت نے اندھیرے کو روشنی میں بدلنے کا شعبدہ پہلی بار دکھایا ہے۔ہر صبح ایک نئی صبح ہوتی ہے۔ دن کو روشنی کی تابناکی اور ہے اور رات کے اندھیرے کا اسرار دوسرا ہے۔ یہ دنیا چھوٹی یا بڑی ہر پل رنگ بدلنے والی نیرنگ نظر دنیا کو دیکھنا آج بھی بہت مشکل ہے۔ نہ اس کو دیکھنے کی بے چینی کم ہوئی ہے اور نہ ہی آج تک کسی کیمرے، کسی کتاب، کسی قلم کو دنیا کی ساری جلوہ سامانیاں دیکھنے اور دکھانے کا افتخار حاصل ہوا ہے۔

سفر فطرت انسانی کے اس جذبہ متحرک کا نام ہے جسے روانی، بے چینی اور تجسّس کہتے ہیں۔ نئی نئی فضاؤں کو وہ اپنے مشاہدات، اپنی نظر سے دیکھنا اور سمجھنا چاہتا ہے۔ ایک اور کیفیت جو سفر نامے کے ہر منظر کو انوکھا، قابل دید اور قیمتی بناتی ہے چونکہ یہ سفر کا بیان ہے اس لیے ہر مقام، ہر منظر، ہر تعلق کے وقتی ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ وقت کے سرعت سے گزرنے کا احساس جس طرح وقت کو قیمتی بناتا ہے، اسی طرح سفرنامہ کو بھی اہم اور حسین۔جب تک دنیا کو دیکھنے کا شوق اور بے چینی انسان میں موجود ہے اس وقت تک یہ سفر نامے لکھے جاتے رہیں گے۔

 صبیحہ انور
لکھنؤ