28/11/17

مولانا مظہر الحق اور ان کے کارنامے محمد توقیر عالم



مولانا مظہر الحق اور ان کے کارنامے

جنگ آزادی کے عظیم رہنما، قومی یک جہتی کے علم بردار، قومی صحافت کے اہم رکن، مادرہند کے ہونہار سپوت بیرسٹری چھوڑ کر فقیر بننے والے مولانا مظہرالحق کی تاریخ پیدائش 22  دسمبر 1866 اورجائے پیدائش مقام بہپورا ضلع پٹنہ ہے یہ جگہ پٹنہ شہر سے تقریباً پچیس کلو میٹر پچھم ہے۔  مولانا کی یادگار ایک مڈل اسکول اور ایک مسجد آج بھی بہپورا میں موجود ہے۔  والد کا نام احمد اللہ تھا۔  مظہرالحق بھائی میں اکیلے تھے۔  ان کی صرف ایک بہن تھی غفورالنساء۔آبائی مقام بہپورا ضلع پٹنہ کے علاوہ ان کی زندگی کا کافی وقت فرید پور، آندر(موجودہ سیوان ضلع) میں گزرا جہاں ان کے والد احمد اللہ کی نانہال تھی۔  یہ گھرانا عقیدتاً وہابی تھا۔

مولانا کی سیاسی زندگی کوتین سطح پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔  مقامی سطح، ریاستی سطح اور قومی سطح پر ان کی خدمات قابل ذکر ہیں۔  مولانا کی قریبی رشتہ داری سیوان شہر سے سولہ کلومیٹر جنوب آندر گاؤں میں تھی۔  مولانا نے وہاں  اپنے لیے رہائش گاہ 1900  میں بنائی اور اس کا نام آشیانہ رکھا۔  اس آشیانہ میں وہ بہت دنوں تک رہے۔  بیرسٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا نے پٹنہ پھر چھپرہ کچہری میں وکالت شروع کی۔  اس زمانے میں وہ بالکل کلین شیو کے خوبصورت سے نوجوان تھے۔  انگریزی سوٹ اور ٹائی میں ان کی شخصیت پروقار نظر آتی تھی۔  چھپرہ ضلع سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر راجندر پرساد بھی سیوان سے تقریباً پندرہ بیس کلو میٹر پچھم کے رہنے والے تھے اور انھوں نے بھی وکالت کا پیشہ اختیار کیا تھا۔

1903  میں مولانا کو سارن میونسپلٹی کا وائس چیر مین بنایا گیا۔  وہ اس عہدے پر 1906 تک رہے۔  اس مدت میں میونسپلٹی کی مالی حیثیت کافی مضبوط ہوگئی۔  ایک مدت کے بعد پھر وہ سارن میونسپلٹی میں آئے 1924 سے 1927 تک چیرمین رہے۔  ترہت ڈویزن کے کمشنر انگریز افسر ڈی۔ واٹسنD. Watson  نے ان کے کاموں کی خوب تعریف کی۔

ریاستی سطح پر مولانا کی خدمات انتہائی قابل قدر ہیں۔  سچتانند سنہانے اپنی کتاب Some Eminent Behar Contemporariesمیں لکھا ہے:

"We are led to form a new alliance in which the Biharee Musalman was to play as prominent and as honorable part as his Hindu compatriets has done in the year gone by"
مولانا مظہرا لحق، سچتانند سنہا، دہلی دربار میں سر علی امام جیسے حضرات کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ شہنشاہ جارج پنجم نے 12 دسمبر 1911 کو بہار اور اڑیسہ کو ملا کر ایک الگ ریاست بنانے کا اعلان کیا ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا کہ اس نوتشکیل شدہ ریاست کا صدر مقام پٹنہ ہوگا اس طرح 22 مارچ 1912 کو اس نئی ریاست کا قیام ہوگیا اور یکم اپریل 1913 سے سارے کام پٹنہ میں ہونے لگے۔  اس سے قبل یہ کلکتہ کے زیر نگیں تھا۔  اس تاریخ کو Royal Darbar of Delhi میں یہ اعلان کیا گیا کہ ہندوستان کا دار الخلافہ اب کلکتہ کی بجائے دہلی میں ہوگا۔  ایک دن قبل تک ریاست پنجاب کے زیر اثر دہلی کا شمار ایک تحصیل کے طور پر ہوتا تھا۔  دہلی دربار 1911 کی وجہ سے کلکتہ کی مرکزیت ختم ہوگئی۔

مسلم لیگ کے فاؤنڈرممبر میں مولانا کا بھی نام آتا ہے اس تنظیم کو مضبوط اور پر اثر بنانے کی خاطر وہ حسن امام کے ساتھ ڈھاکہ اور بنگال کے دوسرے علاقوں میں گئے۔  بہار میں اس کے دفتر کی باضابطہ ابتدا 1908 سے ہوئی، تب سے مولانا اس کے سکریٹری رہے۔  انھوں نے 1915 میں اس کے بمبئی اجلاس کی صدارت بھی کی تھی۔  اس سلسلے میں سچتا نند سنہا کا بیان قابل ذکر ہے:
"Haque nursed the infant league on Nationalist Line"
یہاں ہم سچتانند سنہا کے حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہCommunal Harmony اور Nationalist Line کی بنیاد پر ہی مولانا نے مسلم لیگ کی پرورش کی۔  یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے کے بعد بھی وہ انڈین نیشنل کانگریس سے دور نہیں رہے اور ساتھ مل کر چلنے کی کوشش کرتے رہے یعنی کانگریس اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے رقیب یا حریف کے طور پر نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

انڈین نیشنل کانگریس کی ستائیسویں کانفرنس 1912 میں بانکی پور، پٹنہ کے مقام پر منعقد ہوئی۔اس (Reception) ری سپشن کمیٹی کے چیرمین مولانا ہی تھے۔ کچھ لوگوں نے مسلم لیگ کو مسلم تنظیم اور کانگریس کو ہندو تنظیم کہا۔  مولانا ایسی سوچ کے مخالف تھے۔

مولانا نے ہندوستانی صنعت کے تحفظ کی خاطر آواز اٹھائی اور یہاں کی انڈسٹری کے پچھڑے پن کا ذمے دار انگریزی حکومت کو بتایا۔  انھوں نے واضح طور پر کہا کہ حکومت برطانیہ برمنگھم اور لنکا شائر کی انڈسٹری کو دھیان میں رکھ کر ساری پالیسی بناتی ہے۔ جو ہندوستان کے ساتھ  ناانصافی ہے ، بہار کے ساتھ ناانصافی ہے۔ مولانا کے ان نظریات کی تائید  دادا بھائی نوروجی نے بھی کی۔

پرائمری تعلیم کی فیس ختم کرنے کے لیے مولانا نے بہت کوشش کی اس زمانے میں بال کرشن گوکھلے نے بھی پرائمری تعلیم سے متعلق اس طرح کے مطالبات پیش کیے۔  ان دونوں رہنماؤں نے لڑکیوں کی تعلیم پر بھی خاص زور دیا۔  ان کے زمانے میں تویہ کوششیں پوری طرح بار آور نہیں ہوپائی لیکن ان باتوں کا اثراب دیکھنے کو مل رہا ہے۔

انگریزی سرکار کی شروعات میں آئی سی اِس (ICS)  ایک عہدہ تھا اس کا امتحان لندن میں ہوتا تھا اور آج بھی ہوتا ہے۔  ہندوستان کے کسی بھی شہر میں اس امتحان کے لیے کوئی مرکز نہیں ہوتا تھا۔ مولانا نے انڈین نیشنل کانگریس کے 1912 والے پٹنہ اجلاس میں پرزور مطالبہ کیا کہ ہندوستان میں بھی امتحان کا مرکز بنایا جائے اور یہ بات مان لی گئی۔  کانگریس کے اسی اجلاس میں مولانا نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ افسران کو Executive اور Judiciary الگ الگ خانوں میں واضح طور پر رکھا جائے۔  مولانا کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ وکیلوں کے بیچ سے ہی جیوڈیشری کے افسران کا انتخاب ہو۔  1912 میں کانگریس پلیٹ فارم سے مولانا نے جو مطالبہ کیا تھا اسے مان لیا گیا۔

اسی زمانے میں ایک نئی اصطلاح ہوم رول کی آئی تھی۔  اردو کے مشہور شاعر اور لکھنؤ کے وکیل پنڈت برج نرائن چکبست بست نے کہا تھا:
برطانیہ کا سایہ سرپہ قبول ہوگا          ہم ہوں گے عیش ہوگا اور ہوم رول ہوگا

مظہرالحق نے ہوم رول کو قبول کیا لیکن برطانیہ کا سایہ قبول نہیں کیا۔  ان کے اس نظر یے سے سو فی صد متفق لوگوں میں بال گنگا دھر تلک اور مسز اینی بسنٹ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ اسی نظریے کی بنیاد پر مختلف علاقوں میں ہوم رول کے دفتر بنائے گئے۔  بہار میں 16 دسمبر 1916 کو بہار ہوم لیگ کی شروعات ہوئی اور مظہر الحق اس کے پہلے صدر بنائے گئے۔

اس وقت تک مولانا مظہرالحق کا شمار ہم انگریز دوست کی حیثیت سے کرتے ہیں ۔ اس کے چند سال بعد ہی ان کے نظریات میں تبدیلی ہوئی ہے۔  جلیا ں والا باغ سانحہ سے انھیں کافی دکھ ہوا، مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال جیسے لوگوں کی وجہ سے ان کی سوچ بدلی۔ طرابلس اور بلقان کی جنگ کے بعد ترکی خلافت کے زوال نے مظہرالحق کو بھی مولانا ابوالکلام آزاد اور گاندھی جی کی طرح انگریز مخالف کر دیا۔

1920 میں صداقت آشرم اور 1921 میں بہار ودیاپیٹھ کی شروعات مولانا ہی کی کوششوں کا ثمرہ ہے اس کے بعد مولانا کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔  اخبار The Independent لکھتا ہے:

Mazharul Haque returned from Calcutta after the speical congress, gave up his huge practice, changed his method of dress, grew a beard and retired in to TAPOVAN  on Gangas, Called the Sadaqat Ashram. Since then he became a FAQEER.

اس طرح انھوں نے مغربی طرز زندگی اور بڑے عہدے سے کنارہ کشی اختیار کی اور بالکل فقیر بن گئے۔  اب انھیں اپنی سوچ کے مطابق کا م کرنے کا زیادہ موقع ملا۔  اس طرح مولانا تن من دھن سے ملک وقوم کی خدمت میں لگ گئے۔  مزاج میں فقیری جو آئی تو ہر طرح کی رکاوٹیں ختم ہوگئیں ۔

اب مولانا کے سامنے صرف تین کام رہ گئے:
-          ہندوستانیوں میں تعلیم کا فروغ
-          ہندوستانیوں میں بھائی چارے کو بڑھاوا  دینا
-          برطانوی سامراج کی مخالفت، اسی ضمن میں انگریزی عہدے اور انگریزی سامان کی مخالفت بھی شامل ہے۔

ہندوستانی قوم، ہندوستانی زبان اور ہندوستانی اشیا کی قدر و قیمت کا اندازہ صداقت آشرم سے ہو سکتا ہے۔  زمین خیرو میاں کی اور کالج طلبا کی مدد سے مولانا نے جھونپڑی بنائی۔ وہ خود بڑے انگریزی داں تھے اس مکان کا کوئی انگریزی نام دے سکتے تھے۔  خود مسلمان تھے اور عربی فارسی کے ماہر بھی تھے۔  اس لیے عربی فارسی نام بھی دے سکتے تھے یا پھر خالص سنسکرت ہندی قسم کا نام بھی دے سکتے تھے لیکن ان کو ہندوستان کی مختلف برادری سے لے کر ہندوستان کی مختلف زبان سے پیار ہے اس لیے اس کا نام عربی فارسی اور سنسکرت کی بنیاد پر صداقت آشرم رکھا۔

مسلم لیگ میں قیام پاکستان کی مانگ زور پکڑنے لگی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح مولانامظہرالحق نے بھی اس مطالبے کی مخالفت کی۔  مولانا آزاد کانگریس میں تھے۔  مظہرالحق نے مسلم لیگ میں رہتے ہوئے واضح طور پر کہا:
"315 million with one ideal, one aim,  where 70 million detatch themselves"

ساڑھے اکتیس کروڑ ایک نظریہ کے حامی ہیں۔  اس میں سات کروڑ لوگ خود کو الگ کیوں کریں۔کاش اس نظریے پر عمل درآمد ہوتا تو ہندوستان کو بٹوارہ، فرقہ وارانہ فساد، دہشت پسندی، علاحدگی پسندی جیسے کرب سے نہیں گزرنا پڑتا۔ 

صحافت میں مولانا کا اہم نام ہے۔  انھوں نے The Mother Land نام کا اخبار نکالا۔  اس زمانے کا مشہور اخبار، The Searchlight  تو کاروبار اور منافع کے اصول پر کام کرتا تھا لیکن مظہرالحق کا اخبار آزادی کے متوالوں کی آواز بن گیا۔  اس کے لہجے میں کہیں بھی تندی یا سختی نہیں تھی۔  پروقار زبان میں اپنی بات کہہ دینا اس اخبار کا شیوہ رہا۔  افریقی نسلی امتیاز کے خلاف یہ اخبار ہمیشہ لکھتا رہا۔  ہندو مسلم اتحاد کی ہمیشہ تدبیر سمجھتا رہا، ہندوستانیوں میں تعلیم کے فروغ کی مسلسل کوشش کرتا رہا،  انگریزوں کی مخالفت کرتا رہا اسی اخبار کی وجہ سے Non Co-operation Movement زور پکڑ نے لگا۔

دیگر مذہب میں شادی کو مولانا نے فروغ دینا چاہا۔  ان باتوں کی کافی مخالفت کی گئی لیکن مولانا نے اپنے نظریے میں تبدیلی نہیں کی۔  یہ اور بات ہے کہ مولانا کی اس بات پر ہندو یا مسلم یا کسی بھی طبقے نے دھیان نہیں دیا۔
مولانا کی پہلی شادی غوثیہ بیگم سے ہوئی۔  1902 میں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔  بچی کی ولادت کے دن ہی ماں کا انتقال ہوگیا۔  یہ لڑکی کم عمری ہی میں فوت کرگئی۔

پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کشور جہاں بیگم سے ہوئی۔  اس بیوی سے ایک بیٹے حسن مظہرکی پیدائش 1908 میں ہوئی۔  سترہ سال کی عمریعنی1925 میں یہ لڑکا داہا ندی کے سیلاب میں ڈوب کر مرگیا۔ کشور جہاں بیگم ہی سے ایک بیٹی ثریاجبین پیدا ہوئی تھی تقریباً تین سال کی عمر میں وہ بچی اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔  کشور جہاں نے 7 ستمبر 1914 کو ایک بیٹا حسین مظہر کو جنم دیا۔  تھوڑے دنوں کے بعد کشور جہاں بھی اس دینا سے رخصت ہوگئیں۔

دوسری بیوی کے انتقال کے بعد مولانا نے 1917 میں تیسری شادی منیرہ طیب جی سے کی جو مشہور کانگریسی رہنما اور مہاراشٹر کے عظیم صنعت کار بدر الدین طیب جی کی بھتیجی تھیں۔  مولانا کے انتقال کے 35-40 سال بعد تک وہ زندہ رہیں۔  منیرہ سے کسی بچے کی پیدائش نہیں ہوئی۔

مظہرالحق کی اولاد میں صرف حسین مظہر ہی زندہ رہے وہ اردو کے ایک اچھے شاعر تھے اور مظہرتخلص کرتے تھے۔  ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
جو سچ کہو تو عجب شے ہیں حضرت واعظ
زمین پہ جیتے ہیں مرتے ہیں آسماں کے لیے

Prof.(Dr.)Md.Tauquir Alam
Pro-Vice Chanceller
Maulana Mazharul Haque Arabic &Persian University
Mobile No.09934688879
E-mail: proftauqiralam@gmail.com



4 تبصرے:

  1. اچھا مضمون ہے مگر بہت مختصر ہے. اور بہت کچھ چھوڑ دیا گیا ہے. حوالوں کا بھی اہتمام نہیں کیا گیا ہے.خود لکھنے کے بجائے کسی پروفیسر سے لکھوادیتے

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب اچھا معلوماتی مضمون ہے۔

    جواب دیںحذف کریں