31/3/21

2020 کا فکشن اور فکشن تنقید - مضمون نگار: اسلم جمشیدپوری

 



زمانے کے سمندر میں بارہ مہینوں کا ایک کلینڈر دریا کی شکل میں سما گیا۔ وقت کا سمندر ایسے ہزاروں اور لاکھوں برسوں کے خزانے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور روز افزوں وسیع وبیکراں ہوتا جاتا ہے۔ موضوعات اور وقت کی ستم ظریفیوں کے حساب سے 2020کا نٹے کی طرح دل میں چبھنے والا سال ثابت ہوا ہے۔2020 میں کورونا سے متاثر ادب خاصا تخلیق ہوا۔ادبی رسائل محفلیں اور سمینار آن لائن ہونے لگے۔ہر سال کی طرح میں نے 2020 میں لکھے گئے فکشن اور فکشن تنقید کا ایک جائزہ لیا ہے جو اردو دنیا کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔

2020 کا افسانہ:

 2020 میں افسانوں اور افسانچوں کے متعدد مجموعے منظر عام پر آئے کچھ نے چونکایابھی،کچھ افسانوی مجموعے بہت مشہور ہوئے اور کچھ نے قاری پر گہرا تاثر قائم کیا۔ اس سال شائع ہونے والے خاص مجموعوں میں تین کہانیاں(خالد جاوید)ادراک(شبیر مصباحی)ذہن زاد (توصیف بریلوی) نئی راہ نئی روشنی (انور آفاقی) دیوار ہجر کے سائے (عشرت معین سیما) بکھرے رنگ (ڈاکٹر عقیلہ) ڈائجسٹ کہانیاں (راشد اشرف) امریکی کہانیاں (یاسر حبیب) میری چاہت کے گلاب (احمد حسنین) نیا حمام(ڈاکٹر ذاکر فیضی)خون کا رنگ(ارشد منیم) گمشدہ دولت(طارق شبنم)وہ دس اور دوسری کہانیاں (ف۔س اعجاز) احتیاط(راجیو پرکاش ساحر) چراغوں کے اندھیرے (محمد عرفان ثمین)پس پردہ (ڈاکٹر عارف انصاری) دخمہ(پروفیسر بیگ احساس) حمید سہروردی اور بچوں کی کہانیاں (ڈاکٹر اسرارالحق سبیلی) اونچی اڑان(ڈاکٹر ایم اے حق)کل اور آج کا غم(ڈاکٹر عظیم راہی)تنکے (ڈاکٹر نذیر مشتاق)وغیرہ ہیں۔

خالد جاوید کا افسانوی مجموعہ’تین کہانیاں‘ کے نام سے 2020 میں منظر عام پر آیا۔اس سے قبل آپ کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ’بُرے موسم میں‘2002 دوسرا مجموعہ ’آخری دعوت‘2007 میں تیسراا فسانوی مجموعہ ’تفریح کی ایک دوپہر‘2008 میں شائع ہوا۔ان تینوں افسانوی مجموعوں نے قارئین کو اتنا متاثر کیاکہ آپ کو ایک معتبر افسانہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔سبھی کہانیوں میں فکری وفنی جنبش نظر آتی ہے۔

خالد جاوید کے تازہ مجموعے میں تین کہانیاں ’تاش کے پتوں کے عجائب گھر‘،’تنقید کے خلاف ایک بیانیہ ‘ اور ’زندوں کے لیے ایک تعزیت نامہ‘ شامل ہیں۔یہ تینوں کہانیاں سماج و معاشرے کے الگ الگ موضوعات پر تحریر کی گئی ہیں۔ کہانیوں کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ آپ کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔

ذاکرفیضی کا پہلا افسانوی مجموعہ ’نیا حمام‘ 2020 میں منظر عام پر آیا۔

ادبی حلقوں میں اس کی پزیرائی ہو چکی ہے۔سماجی رشتوں کے تانے بانے بنتا ہوا یہ مجموعہ دیگر فکشن نگاروں کے دل میں بھی جگہ بناچکا ہے۔مشہورفکشن نگار پیغام آفاقی کے بقول ’’فیضی کے اندر ایک عمدہ افسانہ نگار ہے، جو اپنے انداز میں افسانے لکھ رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ذاکر فیضی کے اس افسانوی مجموعے میں نیا حمام، ٹوٹے گملے کا پودا، فنکار، ٹی۔او۔ڈی وائرس، اسٹوری میں دم نہیں ہے۔ مردوں کی الف لیلہ، کوڑا گھر، ورثے میں ملی بارود، ہٹ بے، کلائمکس،اخبار کی اولاد، بدری، لرزتی کھڑکی، دعوتِ نون ویج غور و فکر کی دعوت دینے میںمجموعے میںپانچ افسانچے بھی شامل ہیں۔ ان کہانیوں میں انسانی رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ، سماجی اور ثقافتی سروکار امیر غریب کے جذبات و احساسات کی سچی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔

 ناصر آزاد کا پہلا افسانوی مجموعہ ’خواب اور حقیقت‘ 2020 میں منظر عام پر آیا۔

ایک اہم اور منفرد قسم کا افسانوی مجموعہ ہے۔ جس میں عورت مرد کی خودپسندی، خواتین پر ظلم و ستم، غریبی، مفلسی کی ستم ظریفی، ازدواجی زندگی میں بے چینی، بے قراری وغیرہ کے نقوش آسانی سے مل جاتے ہیں۔ناصر آزاد کی ایک اہم خوبی جو انہیں مقبول عام بناتی ہے وہ ہے ’باریک بینی سے سوچنا‘ ہمیشہ اپنے افسانوں کو بار بار پڑھتے ہیں اور بہتر سے بہتر کہانی لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مالیر کوٹلہ پنجاب کے ممتاز افسانہ نگار محمد بشیر مالیر کوٹلوی لکھتے ہیں:

’’ناصر افسانے کو بہت باریک بینی سے دیکھتے ہیں اور بہتر تخلیق پر یقین رکھتے ہیں۔ افسانے کا کوئی پہلو کمزور ہواس کے لیے فکر مند رہتے ہیں‘‘

وہ دس اور دوسری کہانیاں ‘ ف۔ س۔ اعجاز کا یہ دوسرا اور تازہ افسانوی مجموعہ ہے۔

اس مجموعے میں ف۔ س۔ اعجاز نے اپنی مشہور کہانی ’وہ دس‘ کے علاوہ بتیس چھوٹی بڑی کہانیاں شامل کی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کہانی ریزی کے عنوان سے تیتیس ایک صفحے کی کہانیاں بھی شامل اشاعت ہیں۔ انھوں نے ان کہانیوں کو افسانچہ نہیں کہا ہے۔یہ ایک سوال ہے جس کا جواب قاری تلاش کرے گا۔ ف۔س اعجاز کی کہانیاں ہمارے عہد کا سچ تو ہیں ہی مستقبل کا پیش خیمہ بھی ہیں۔ ان کی کئی کہانیاں وہ دس، کبیرا کھڑا بازار میں،ایریکا، گڑیا، من و سلوا، لکڑی کاجزیرہ، بھولاپن، پاسورڈ، گرین سون، چاند اور چھپکلی، اسکرولڈ، آپ کی توجہ ضرورمبذول کرائے گی۔ ان کے کئی افسانچے سوال، ساسک،بے رحم، میٹو، ڈر، بھی آپ کو سوچنے پر مجبور کریں گے۔

دیوارہجر کے سائے‘ جرمنی کی مشہور افسانہ نگار عشرت معین سیما کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔

آپ کے افسانوں میں یوں تو ہر طرح کے موضوعات شامل ہیں لیکن عورت کی بے بسی، عورت پر ہونے والے ظلم وستم، بے چارگی اور مرد سماج کے ذریعے ڈھائے جانے والے ظلم وستم کا خاصہ واضح نظر آتا ہے۔وہ اپنے خواتین کردار کو سماج سے لڑنے کا حوصلہ بھی بخشتی ہیں۔ دیوارِ ہجرکے سائے میں عشرت معین سیما کے تقریباً انیس افسانے شامل ہیں،جن میں وہ کون تھی، دھواں، دیوار ہجر کے سائے، جنت، چاند، اور چاردیواری،سبزپوش، کفارہ ایسے افسانے ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بکھرے رنگ‘ ڈاکٹر عقیلہ کا افسانوی مجموعہ ہے۔ جس کا پیش لفظ ڈاکٹر ریاض توحیدی نے لکھا ہے۔ ڈاکٹر عقیلہ نئی افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں سے بہت جلدی شناخت قائم کی ہے۔ بکھرے رنگ مجموعے میں ڈاکٹر عقیلہ کے تقریباً گیارہ افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں میں رومان کی لہریں کہیں تیز ہو جاتی ہیں تو کہیں مدھم،لیکن ایک دھیمی دھیمی آنچ کا احساس ہمیشہ باقی رہتا ہے۔مجموعے کے افسانے طلاق، آخرمیں نے پالیا تجھے، سرجو، چھوٹی سی محبت، چال، بکھرے رنگ، ایسے افسانے ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور گہرا تاثر چھوڑتے ہیں۔

ڈاکٹر ایم۔اے حق کی کتاب ’اونچی اُڑان‘ مختصر ترین کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ افسانچوں کے اس مجموعے میں کل باسٹھ افسانچے شامل ہیں۔نصیحت،ترکیب، اخلاق،  ٹریننگ، پہل، ذہانت، ناکام سازش، واہ !!!، معافی، حاضر دماغ، جوئے کااڈا، تبدیلی، ضدی شہزادہ، شرمندگی، کھیل کھیل میں،گوگل، ہابیل اور قابیل، مہنگا فلیٹ، وندے ماترم،اسکیم، اُووراسمارٹ، بھول، دوراندیشی، سزا، باخبر، جیت،احتیاط، تدبیر، انوکھا فیصلہ، مذاق، نے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ بچوں کی تربیت اور انھیں اردو ادب سے منسلک کرنے کے لیے ان افسانچوں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ افسانچوں کو یکجا کر کے کتابی شکل میں لانے کا منفرد کارنامہ ڈاکٹر تسلیم عارف نے بخوبی انجام دیا ہے ا فسانچوں میں سماج و معاشرے کے مقامات،تجربات مشاہدات کی تصاویر نظر آتی ہیں۔

2020کا ناول

گذشتہ سال 2020 میں متعدد ناول شائع ہوئے۔کئی نے ہمارے ذہنوں کو جھنجوڑڈالا جنھیں ہم بہت زمانے تک یاد رکھیں گے۔کورونا کے اثرات پر بھی کئی ناول سامنے آئے ہیں۔اس سال لکھے گئے متعدد ناولوں میں مردہ خانے میں عورت (مشرف عالم ذوقی) ہجور آما (شبیر احمد) ایک خنجر پانی میں(خالد جاوید) اللہ میاں کا کارخانہ(محسن خان) میں تمثال ہوں(عارفہ شہزاد) کا  بُلہاکیہہ جانا میں کون (ذکیہ مشہدی )سہیم(نجم الدین احمد)پچھل پیری(نعمان فاروقی) شہر مرگ (طاہرہ) شیلٹر۔ ہوم شیلٹر (افسانہ خاتون) موسیٰ (ڈاکٹر شفق سوپوری)وقت قیام(مشتاق انجم) چلڈرنس فارم (ایم مبین) دھول دیپ(یعقوب یاور)کڑوے کریلے (ثروت خان) سودوزیاں کے درمیان(خالد فتح محمد) کورونا ایٹ داریٹ سکسٹی ڈگری(اختر آزاد، پی ڈی ایف فارم)وغیرہ۔ 

ایک خنجر پانی میں‘ خالد جاوید کا ناولٹ ہے۔ ناول کا موضوع بظاہر پانی کے مسائل ہیں۔لیکن خالد جاوید نے پانی کو زندگی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے اور پانی کے لیے جدید فلیٹ نما زندگی میں جو مشکلات اور مصائب بالواسطہ اور بلاواسطہ انسانی زندگی میں در آتے ہیں،ان کو اپنے مخصوص بیانیے اور فلسفیانہ انداز کے ساتھ اس طور پیش کیاہے کہ ان کے پرانے ناولوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ خود خالد جاوید اپنے ناول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ یقیناموت کی تیسری کتاب ہے۔جو دراصل بہتے ہوئے وقت اور پانی کی کتاب بھی ہے۔

اس ناول کا موضوع یتیم خانے،شیلٹر ہوم اور اس طرح کے ادارے ہیں۔ گذشتہ برسوں بہار میں شیلٹر ہومزکے شرمناک واقعات منظر عام پر آئے تھے۔ جس میں سیاسی، رہنماؤں کی کالی کرتوتوں کو خاص شہرت ملی تھی۔یہ واقعات عورتوں کے شیلٹر ہومس میں زیادہ ہوئے تھے۔افسانہ خاتون نے عورتوں کے ساتھ ہونے والے عبرت ناک واقعات کے اسباب و علل پر غور کرتے ہوئے پردے کے پیچھے کے سچ کو بے نقاب کیا ہے۔

ناول ’مردہ خانے میں عورت‘بھی ان کے سابقہ انداز کا ایک کھلا بیان ہے۔نئے عہد میں کوئی داستان گوکس طرح کی داستان لکھے گا۔طلسم ہوشربا،کا ملک کے پس منظر میں ازسرنو لکھے جانے کا کیاانداز ہوگا یہ مردہ خانے میں عورت کو پڑھ کر سمجھا جاسکتا ہے۔

میں تمثال ہوں ‘ عارفہ شہزاد کا ناول ہے جو متعدد عشقیہ قصوں پر مبنی ہے۔پورے ناول میں سات عشقیہ قصے بیان کیے گئے ہیں۔جن میں مختلف نشیب و فراز ہیں کہیں بچپن کے واقعات ہیں تو کہیں جوانی کے قصے مصنفہ کی تعریف کرنی چاہیے کہ اس نے ان قصوں کا بیان حقیقت پسند انہ کیا ہے۔

ہجور آما‘ بنگال کے مشہور ومعروف فکشن نگار شبیر احمد کا پہلا ناول ہے جسے بنگال کے پس منظر میں لکھی گئی ایک ایسی عشقیہ داستان ہے جو سیاسی اور سماجی نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی زندگی کی دھوپ چھاؤں کو پیش کرتی ہے۔ناول میں خواب، خوابوں کی تعبیر فرائڈ کے جنسی نظریات کا رل مارکس کا سماجی نظریہ، بنگال کی سیاست کالال رنگ اور بنیادی سہولیات کے فقدان میں زندگی گزارتے آدی واسی وغیرہ کو اس طور ناول کیا ہے کہ واقعہ در واقعہ ہجور آما کا سحر کاری کو انگیز کرتا رہتا ہے۔ ویب نینا کے برج مکھرجی اور باز احمدکی شکل میں کئی عمدہ کردار اور ناول نے ہمیں دیے ہیں۔

دھول دیپ‘ یعقوب یاور کا تحریر کردہ دلچسپ ناول ہے ۔ یعقوب یاور نے اسے بارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ دراصل یہ ناول بھی گجرات کے تاریخی مقامات کا تقریباً سات ہزار سال پرانا قصہ اور معاشرہ ہے۔ ایسے میں مصنف کا تخیل اگر اس کی صحیح رہنمائی کرے تو بعض ایسے کردار اور قصے سامنے آتے ہیں جو زمانے تک ہماری یادکا حصہ بنے رہتے ہیں۔دھول دیپ یعقوب یاور کا ایک شاہکار ناول ثابت ہوگا۔

اللہ میاں کا کارخانہ‘محسن خان کاپہلا ناول ہے۔ ناول کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی سال میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہو گئے ہیں۔پہلا ایڈیشن ایم۔آر سی پبلی کیشن اور دوسرا ایڈیشن عرشیہ پبلی کیشن دہلی کے زیر اہتمام بڑے خوبصورت گیٹ اپ میں شائع ہوا ہے۔

اللہ میاں کا کارخانہ‘ محسن خان کے تجربات و مشاہدات اور بیانیہ کے سبب ایک منفرد ناول کے طور پر سامنے آیا۔یہ دراصل عام زندگی کی کہانی ہے جس میں انسانی بستیوں کے ساتھ ساتھ قبرستان بھی ایک کردار کے طور پر موجود ہے۔ناول کا بیانیہ اس قدر پختہ اور مستحکم ہے کہ واقعات درواقعات ناول قاری کو اپنی گرفت میں لیتا چلا جاتا ہے۔

چلڈرنس فارم‘ دراصل ایم مبین کے ذریعے لکھا گیا بچوں کے لیے ایک اہم ناولٹ ہے۔چلڈرنس فارم میں ثواب و گناہ،کفارہ، بے ضمیری جیسے جذبات سے پر کردار ہیں تو چلڈرن فارم کا یعنی یتیم خانے کاپس منظر ہے۔یہ یتیم خانہ پارسیوں کا دکھایا گیا ہے لہٰذا ایم مبین نے پارسیوں کی زندگی،ان کی تہذیب اور رہن سہن کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

کڑوے کریلے‘ ڈاکٹر ثروت خان کا اس سال شائع ہونے والا نیا ناول ہے۔دراصل ان کا خواتین کے استحصال پر لکھا گیا ایک عمدہ ناول ہے جس میں انہوں نے آج کی عورت کو جس کی نمائندگی مولی کر رہی ہے۔آج کی عورت کو ظالم اورہوس زدہ انسانوں کے بُرے کارناموں کی نذر ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔

سودوزیاں کے درمیاں‘ خالد فتح محمد کا ایک اہم ناول ہے۔2020  میں شائع ہونے والے اس ناول ’سودوزیاں کے درمیاں‘ میں نئی تکنیک نئے رنگ اور سماج و معاشرے کی سچی تصاویر نظر آتی ہیں۔ناول کے کرداروں کے ذریعے خالد فتح محمد نے عوامی زندگی کے نشیب و فراز کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔

خالد فتح محمد نے اس ناول کے ذریعے عام انسانوں کے دکھ درد اور غموں کو فنکارانہ انداز میں پیش کرنے کا منفرد کارنامہ انجام دیا ہے۔

2020 کی فکشن تنقید

2020میں متعدد تنقیدی کتابیں شائع ہوئیں کچھ کتابیں ترتیب شدہ ہیں۔کچھ شخصیات پر مبنی ہیں اور کچھ خالصاً تنقید کا حق ادا کرتی ہیں۔اس سال شائع ہونے والی خاص کتابوں میںراجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری (ڈاکٹر پرویز شہر یار)اردو فکشن کے پانچ رنگ(پروفیسر اسلم جمشید پوری)شین مظفر پوری(ڈاکٹر ابوبکر رضوی) اسرار گاندھی کے تخلیقی اسرار(پروفیسراسلم جمشید پوری) گاہے گاہے باز خواں(سلام بن رزاق)اردو فکشن تعبیر و تفہیم (ڈاکٹر کہکشاں عرفان)جوگندر پال: دید و نادید (حمید سہروردی) ذکی انورشخصیت فن اور تنقیدی مطالعہ (ڈاکٹر اختر آزاد)فکشن تنقید،تکنیک و تفہیم(ڈاکٹر منور حسن کمال) عصمت چغتائی روایت شکنی سے روایت سازی تک(ڈاکٹر فرزانہ کوکب) اردو افسانے میںدلت مسائل (ڈاکٹر نزہت پروین) اظہار الاسلام شخصیت اور فن (ڈاکٹر فاروق اعظم) مرگ انبوہ (مشرف عالم ذوقی) آزادی کے بعد اردو فکشن(ڈاکٹر محمد سلمان بلرامپوری)سیمانچل کے افسانہ نگار(احسان قاسمی)اردو افسانوں میں مسائل نسواں کی عکاسی(ڈاکٹر نورالصباح) اکیسویں صدی کی دہلیز پراردوکے اہم ناول (رحمن عباس) وغیرہ۔

 اردو فکشن تعبیر و تفہیم ‘ ڈاکٹر کہکشاں عرفان کی فکشن تنقید پر پہلی کتاب ہے۔اردو فکشن تعبیر و تنقید میں ڈاکٹر کہکشا ںکے تقریباً 15 مضامین شامل ہیں۔کتاب کاا ختصاص یہ ہے کہ اس میں پریم چند سے ترقی پسند فکشن نگار،پھر 1970کے اہم فکشن نگاروں، غضنفر، اسرار گاندھی سے لے کر اکیسویں صدی کے معروف افسانہ نگار فکشن نگار، صادقہ نواب سحر،شائستہ فاخری اور جدید تر نسل کے ڈاکٹر محمد مستمر کے فن پر کہکشاں عرفان نے کھل کر بحث کی ہے۔

جوگندر پال: دیدونادید‘ حمید سہروردی کے قلم کا کمال ہے۔

کتاب ہذا میں جوگندر پال کی زندگی،ان کا ادبی سفر، افسانہ،  افسانچہ، ناول، ناولٹ، ڈرامہ،اور تنقید وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ساتھ ہی جوگندر پال کے منتخب افسانے،افسانچے اور ڈرامے بھی کتاب میں شامل کیے ہیں۔

زکی انور کی شخصیت وفن‘ڈاکٹر اختر آزاد کی تازہ ترین تنقیدی و تحقیقی کاوش ہے جو کتاب ہذا میں اختر آزاد نے اپنے زمانے کے مقبول و معروف فکشن نگار’زکی انور کی شخصیت وفن‘ کو موضوع بنایا ہے۔انھوں نے زکی انور کے تقریباً انیس افسانوں کا تجزیہ کیا ہے ساتھ ہی زکی انور کے آٹھ اہم افسانوں کا انتخاب بھی شامل کیا ہے۔اُمید ہے کہ یہ کتاب زکی انور شناسی میں سنگ میل ثابت ہوگی۔

شین مظفر پوری‘ ڈاکٹر ابوبکر رضوی کا تحریر کردہ فردنامہ (Monograph) ہے۔انھوں نے شین مظفر پوری کے حالات زندگی، افسانہ نگاری، ناول نگاری، ریڈیائی ڈرامے، طنزومزاح نگاری، یادداشت، صحافت وغیرہ موضوعات کے تحت خاصا مواد فراہم کیا ہے۔آپ نے شین مظفر پوری کے تین افسانے،ناول کا ایک باب، انشائیہ، خاکہ اور اداریہ کے نمونے بھی شامل کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کتابیات کے تحت شین مظفر پوری کی کتابوں کو شامل کیا ہے۔

راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری‘ ڈاکٹر پرویز شہریار کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے۔ یہ کتاب بیدی فہمی میں اپنا الگ مقام رکھتی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے راجندر سنگھ بیدی کے سوانحی کوائف، بیدی کے افسانوں کے فکری سروکار،بیدی کا افسانوی فن، کردار نگاری، اسلوب اور زبان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ساتھ ہی بیدی کے مشہور افسانوں، اپنے دکھ مجھے دے دو، لاجونتی، جوگیاوغیرہ افسانوں کے تجزیے بھی شامل کیے ہیں۔

گاہے گاہے بازخواں‘ (اردو کے کلاسیکی افسانے اوران کے تجزیے)مشہور و معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق کی اہم تنقیدی کتاب ہے۔عرشیہ پبلی کیشنز نے اسے شائع کیا ہے۔

اس کتاب میں پوس کی رات، ٹھنڈا گوشت، دوفرلانگ لمبی سڑک، لاجونتی، جڑیں نظارہ درمیاں ہے، مورنامہ، گاڑی بھررسد، پرندہ پکڑنے والی گاڑی، آگ کے پاس بیٹھی عورت، ہزاروں سال لمبی رات،پیتل کاگھنٹہ جیسے کلاسیکی اور عمدہ افسانوں کے تجزیے ہیں۔ایک فنکار یا افسانہ نگار جب افسانوں کے تجزیے کرتا ہے تو وہ افسانے کے ہر پہلوں کا خیال رکھتا ہے۔ہر طرح سے افسانہ سمجھنے اور سمجھانے کا کام کرتا ہے۔افسانے کے جھول کی طرف بھی اشارے کرتا ہے۔ایسے تبصروں کو ہم تخلیقی تنقیدمیں شامل کرتے ہیں۔اس طور دیکھا جائے تو سلام بن رزاق نے ان تجزیوں کے ذریعے عمدہ تخلیقی تنقیدکا نمونہ پیش کیا ہے۔

فکشن تنقید تکنیک و تفہیم‘ڈاکٹر منور حسن کمال کی تازہ ترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر منور حسن کمال نے مشرف عالم ذوقی کے ناولوں اور افسانوں پر لکھے گئے مضامین کو یکجا کیا ہے۔مضامین کی ترتیب و تہذیب کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک مقدمہ بھی تحریر فرمایاہے۔ دراصل یہ کتاب ذوقی فہمی میں معاون ثابت ہوگی۔

اردو افسانہ میں دلت مسائل‘ ڈاکٹر نزہت پروین کا تحقیقی و تنقیدی کارنامہ ہے۔

انھوں نے اس کتاب میں ابتدا سے لے کر موجودہ افسانوی منظرنامے تک پینتالس دلت افسانوں کا انتخاب شامل کیا ہے۔ساتھ ہی بہت سے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ بھی کیا ہے۔اردو افسانہ میں دلت مسائل ہندوستان میں دلتوں کی سیاسی و سماجی صورت حال جیسے موضوعات پر بھی نزہت پروین نے خاطر خواہ بحث کی ہے۔اپنے موضوع پر یہ اب تک کی پہلی اور عمدہ کتاب ہے۔

ڈاکٹر محمد فاروق اعظم کی کتاب ’اظہار الاسلام: شخصیت اور فن‘ افسانے کی تنقیدکے تعلق سے بہت اہم کتاب ہے۔اظہارالاسلام شناسی کے تعلق سے اس کتاب کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔مغربی بنگال کے منفرد افسانہ نگار اظہا رالاسلام پر مربوط یہ تنقیدی اور تحقیقی کام ڈاکٹر محمد فاروق اعظم کا منفرد کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر محمد فاروق نے ا بتدا میں ’اپنی بات ‘ کے علاوہ اظہارالاسلام کا ’سوانحی خاکہ‘ اور ’اظہارالاسلام میری نظر میں‘ تحریر کیا ہے۔صاحب کتاب کی تحریر کے علاوہ ممتاز ناقدین پروفیسر شمس الرحمن فاروقی،مشرف عالم ذوقی، رونق نعیم، ڈاکٹر سید عارفی، ڈاکٹر علی حسین شائق، نصراللہ نصر، ڈاکٹر سید قمر صدیقی وغیرہ نے اظہار الاسلام کی شخصیت، فن اور افسانہ نگاری کے تعلق سے پر مغز مضامین تحریر کیے ہیں جن کو ڈاکٹر محمد فاروق اعظم نے نہایت فنکارانہ انداز سے کتاب میں یکجا کیا ہے۔

آزادی کے بعد اردو فکشن تنقید‘ ڈاکٹر محمد سلمان بلرامپوری کی تحقیقی و تنقیدی کاوش ہے۔محمد سلمان بلرامپوری کی یہ پہلی کتاب ہے جس میں انہوں نے آزادی کے بعد کے فکشن ناقدین اور ان کے کاموں پر کھل کر بحث کی ہے۔ پانچ ابواب میں تقسیم اس کتاب کے پہلے باب میں فکشن تنقید کے بنیادی مسائل پرگفتگو کی ہے۔دوسرے باب میں ترقی پسند تنقید اور اردو فکشن کا مطالعہ،تیسرے باب میں نئی تنقید اورفکشن کا مطالعہ،چوتھے باب میں آزادی کے بعد اردو فکشن کا تجزیاتی مطالعہ اور پانچویں باب میں آزادی کے بعد اردو فکشن کے اہم ناقدین پر گفتگو کی ہے۔محمد سلمان بلرامپوری نے آزادی کے بعد کے اہم ناقدین میںشمس الرحمن فاروقی، وارث علوی، گوپی چند نارنگ، حافظ سہیل، مہدی جعفر، وہاب اشرفی، پروفیسر خورشید احمد،مرزا حامد بیگ، شمیم حنفی، ابوالکلام قاسمی اور معین الدین جینا بڑے پر گفتگو کی ہے۔ اس فہرست میں چند اور نام شامل ہو سکتے تھے مثلاً پروفیسر قمر رئیس، ڈاکٹر انوار احمد، صغیر افراہیم، ارتضیٰ کریم، محمد حمید شاہد،علی احمد فاطمی۔

سیما نچل کے افسانہ نگار‘معروف شاعر اور ناقد محترم احسان قاسمی کی ’سیمانچل ادب گہوارہ‘ سیریز کی پہلی کتاب ہے جس میں سیمانچل کے متعدد افسانہ نگاروں، رفیع حیدرانجم،عبدالمنان،معین الدین احمد،شمس جمال، مشتاق احمد نوری، احسان قاسمی، جمشید عادل، نیلوفر پروین،  پرمودبھارتیہ، کلام حیدری، شبیہہ مشہدی، علی امام وغیرہ تقریباً تیتس افسانہ نگاروں کے افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے میں سیمانچل میں مستقل سکونت اختیار کرنے والے افسانہ نگار، کچھ دن قیام کرنے والے افسانہ نگار اور ملازمت کرنے والے افسانہ نگار شامل ہیں۔

 رسائل کے فکشن نمبر

2020میں متعدد رسائل کے فکشن نمبر شائع ہو چکے ہیںکچھ ناول نمبر،کچھ افسانہ نمبر اورکچھ شخصیا ت پر مبنی ہیں۔ اس سال شائع ہونے والے خاص فکشن نمبر میںلوح،  ادب سلسلہ،شاعر،چہار سو وغیرہ نے قارئین کو کافی متاثر کیا۔کتابی سلسلہ ششماہی ’لوح‘اپنی نوعیت کا مختلف و منفرد رسالہ ہے جس کے مدیر ممتاز احمد شیخ ہیں۔ ’لوح‘ نے دنیا بھر کے اردو رسائل میں اپنا الگ مقام بنالیا ہے۔اس کا ہر شمارہ کسی نہ کسی موضوع پر مشتمل خاصا ضخیم ہوتا ہے۔

تازہ شمارہ ’ناول‘ پر ایک خاص شمارہ ہے جو تقریباً پونے آٹھ سو صفحات پر پھیلا ہے۔’لوح‘ کے ناول نمبر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ناول کی تاریخ یعنی ابتدا سے لے کر موجودہ عہد یعنی بیسویں صدی کے مشہور ومعروف ناولوں کے منتخب ابواب شامل کیے گئے ہیں۔ساتھ ہی مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر رشید امجد، مشرف عالم ذوقی، محمد حمید شاہد،ڈاکٹر امجد طفیل، ڈاکٹر محمد اشرف کمال کے منفرد مقالات و مضامین اور ناول کی ابتدا، ارتقا، بیسویں صدی کے اہم ناول اور نئے ناول کے سفر کو عمدگی سے سمیٹا ہے۔

لوح کا یہ شمارہ طالب علموں،ریسرچ اسکالر، اساتذہ اور شائقین ناول کے لیے کارآمد اور یادگار شمارہ ہے۔

ادب سلسلہ‘کا ایک خصوصی شمارہ افسانہ نمبر کی شکل میں سامنے آیا ہے۔اس کے مدیر محمد سلیم علیگ اور مہمان مدیر راقم ہے۔ اس شمارے میں اردو افسانہ اور ناول کی صورت حال اور مستقبل کے تعلق سے بارہ مضامین شامل ہیں۔ ساتھ ہی سلسلۂ افسانہ کے تعلق سے بارہ افسانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔آخر میں اردو ناول اور افسانوں کے تعلق سے ایک دلچسپ سوال نامہ مع جوابات شامل ہے۔

شاعر کا اکتوبر 2020 کا شمارہ افسانہ نمبر کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اس میں اردو کے عالمی افسانہ نگاروں کی تخلیقات شامل ہیں۔اس افسانہ نمبر میں تقریباً بیس افسانے شامل ہیں۔یہ افسانہ نمبر نئے افسانہ نگاروں کی خصوصاً نمائندگی کرتا ہے۔ ’شاعر‘کا یہ مشن رہا ہے کہ وہ نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔شاعر کی یہ خوبی اس کی مقبولیت کا راز بھی ہے۔

معروف رسالہ’چہار سو ‘کے ستمبر۔ اکتوبر کے شمارے میں صادقہ نواب سحر پر ایک گوشہ شامل ہے۔رسالے کے مدیر گلزار جاوید ہیں جو گذشتہ تین دہائیوں سے رسالہ جاری رکھے ہوئے ہیںاور ہر شمارے میں کسی ادیب یا شاعر پرگوشہ ضرور شائع کرتے ہیں۔ادبی رسائل کی بھیڑ میں چہار سو کا اپنے گوشوں کے حوالے سے ایک منفرد مقام ہے۔ تازہ ترین شمارہ ستمبر اکتوبر 2020 میں گوشہ ٔ صادقہ نواب سحر شائع ہوا ہے۔اس گوشے میں تقریباً پندرہ مضامین، ان کے فن اورشخصیت پرشامل ہیں ساتھ ہی ایک ڈرامہ چڑیا کا بچہ گیا کہاں اور ایک افسانہ منت بھی شامل ہے۔ناول ’’راجدیو کی امرائی‘‘ کا ایک باب بھی گوشے کی زینت بنا ہوا ہے۔

 سوشل میڈیا پر اردو فکشن

جوں جوں کمپیوٹر اور موبائل ہماری زندگی کا لازمی جز وبنتے جا رہے ہیں اور کورونا کی وجہ سے بہت ساری آف لائن سرگرمیاں آن لائن ہونے لگیں تو ادب کی صورت حال بھی تبدیل ہونے لگی ہے۔فکشن کی ہی بات کی جائے تو اب فیس بک پر بہت سے گروپ نہ صرف کہانیوں کا مقابلہ کر ارہے ہیں بلکہ افسانوں کے وائس ایڈیشن voice edition بھی آنے لگے ہیں۔اردو افسانہ، وولر،اردو ادبی فورم، عالمی افسانہ فورم (وحید قمر) اردو افسانہ (صدف اقبال)اشتراک ڈاٹ کام،صدا پارے، لفظ نامہ ڈاٹ کام، اردو فکشن یو ٹیوب چینل، جموں وکشمیر فکشن رائٹر س گلڈ، انہماک انٹر نیشنل فورم( سید تحسین گیلانی) عالمی اردو فکشن (ڈاکٹر ریاض توحیدی) جیسے بہت سے گروپ فیس بک پر افسانوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔اسی طرح افسانچے کے فروغ میں بھی بہت سارے افسانچہ گروپ حصہ لے رہے ہیں۔انٹرنیشنل افسانچہ فاؤنڈیشن (نخشب مسعود )عالمی افسانچہ اکیڈمی (ڈاکٹرایم۔اے حق)دنیائے افسانچہ (پرویز بلگرامی) گلشن افسانچہ (رونق جمال)وغیرہ پر متعدد افسانچے آوازکی صورت میں لوڈ ہو رہے ہیں۔

واٹس اپ پر بھی کئی گروپ افسانے اور افسانچے کے فروغ میں مستقل اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بزم افسانہ (سلام بن رزاق)اور افسانہ و افسانچہ گروپ (محمد علیم اسماعیل)بزم نثار(جاوید نہال حشمی)افسانچے ہی افسانچے وغیرہ کی کاوشوں سے سوشل میڈیا پر افسانے کے ساتھ افسانچوں کی بھی بہار آئی ہوئی ہے۔


Prof. Aslam Jamshedpuri

Dept of Urdu,

Chaudhary Charan Singh University, Ramgarhi

Meerut- 250001 (UP)

E-mail aslamjamshedpuri@gmail.com

Mob.8279907070

 



امیر خسرو کی مثنوی ’مطلع الانوار‘ کا ایک اہم مخطوطہ - مضمون نگار: عبدالحق

 



امیر خسرو فارسی ادب کے بڑے شاعر ہیں۔ ان کی بزرگی اور عوامی مقبولیت میں خانقاہی سلسلے خواجہ نظام الدین اولیا اور شاہانِ وقت کی نسبتیں بھی شامل ہیں۔ یہی مراسم بہت حد تک ان کی شعری تخلیقات میں تصوف و تاریخ کے حوالے سے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ ان کا سب سے بڑا تخلیقی سرمایۂ ثروت ان کی مثنویاںہیں جن میں ان کے تخیل کی بے کرانی اور روز و شب کے مشاہدات کی دنیا آباد ہے۔ غزلیں دوسری جہات اور مختلف اظہار سے معمور ہیں ۔ ان میں شبیہ و شخصیت کی دوسری صورتیں بھی موجود ہیں۔

راقم کے نزدیک خسرو اس لیے بھی محترم ہیں کہ اقبال نے کئی مقام پر شعری نذرانے پیش کیے ہیں جن میں عقیدت و احترام کے ساتھ فکر و نظر کی ہم خیالی اہمیت کی حامل ہے۔ ہندوستان کے فارسی شعرا میں چند ہی اقبال کو عزیز ہیں جن میں نظیری نیشاپوری، بیدل اور غالب کو علامہ نے جس طرح یاد کیا ہے وہ بہت ہی معنی خیز اور فکر آفریں ہے۔ نظیری ہندوستان کے نہ تھے مگر زندگی کا آخری حصہ مسکن و مدفن کے طور پر ہندوستان ہی ہے۔ نظیری کو اقبال نے جو خراج پیش کیا ہے وہ مولانا رومی کو بھی نذر نہ کرسکے۔ بیدل شناسی پر اقبال نے کتاب لکھنے کی کوشش کی جو مکمل نہ ہوسکی۔ حالی کے بعد اقبال دوسرے غالب شناس ہیں۔ غالب شناسی میں آج تک ان کا کوئی حریف پیدا نہ ہوسکا۔ اس پہلو پر ابھی تک ہماری توجہ مبذول نہ ہوسکی۔ اقبال نے آخری کلام ارمغان حجاز کی رباعی میں دعا مانگی ہے        ؎

عطا کن شورِ رومی، سوزِ خسرو

عطا کن صدق و اخلاصِ سنائی

چناں بابندگی درسا ختم من

نہ گیرم گر میرا بخشی خدائی

یہ آخری تخلیق کا حوالہ تھا۔ ان کی پہلی تصنیف کا اعتراف بھی خیال افروز ہے      ؎

خسروِ شیریں زباں رنگیں بیاں

نغمہ ہائش از ضمیر کن فکاں

شاعری کو ضمیر کن فکاں کہنا اقبال کی جرأت گفتار کی مثال ہے اور تعارف و تحسین کا بے باک اقرار ہے۔ فارسی میں اقبال نے خسرو کی زمین میں کئی غزلیں رقم کی ہیں۔ خسرو شناسی سے متعلق یہ تمہیدی کلمات تھے جو سخن گستری کے طور پر تحریر کیے گئے۔ مقصد تو ان کے  ایک اہم مخطوطے کا سرسری تعارف ہے تاکہ تفہیم خسرو کے لیے ان کے قلمی نسخوں پر نظر رہے۔ یہ بہت ہی افسوس ناک پہلو ہے کہ خسرو کے کلام کی تدوین اور متون کی تصحیح پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاسکی ہے۔ ہم شکر گزار ہیں کہ ظاہر احمد اوغلی نے 1975 میں ماسکو سے مطلع الانوار کے سب سے قدیم مخطوطے کو شائع کیا تھا۔ یہ مخطوطہ 760ھ کا رقم کردہ ہے۔ ابھی حال ہی میں مریم زمانی نے تہران سے تصحیح شدہ ایڈیشن شائع کیا ہے جو قابل قدر اور بہت وقیع ہے۔

ابو محمد الیاس بن یوسف نظامی گنجوی (1140-1202) نے شعری تخلیق میں ایک انوکھی مثال قائم کی ہے۔ ان کی پانچ مثنویاں خمسۂ نظامی یا پنج گنج کے نام سے مقبول ہوئیں۔ ان کی پیروی میں کئی شعرا نے مثنویاں تخلیق کیں۔ امیر خسرو، مولانا جامی اور علی شیرنوائی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ نظامی کی مثنوی ’مخزن الاسرار‘ بنی نوع انسان کی بزرگی اور حسنِ اعمال و افکار پر مشتمل ہے۔ انسانی کردار کے مختلف اور متنوع پہلو کہانی یا حکایت کی شکل میں پیش کیے گئے ہیں۔ امیر خسرو (1252-1324) نے بھی اپنے خمسے کا آغاز ’مخزن الاسرار‘ سے کیا اور ’مطلع الانوار‘ نام رکھا۔ جو وسط الحیات ’قران السعدین‘، ’فتح الفتوحات‘ کے بعد 698ھ میں رقم کی گئی۔ اس کا بھی مرکزی خیال اور اس کے متعلقات ہیں یہ 13332 اشعار پر مشتمل ہے۔ تصوف کے فکری و عملی آہنگ سے اسے مربوط کیا گیا ہے۔

امیر خسرو فارسی ادب میں ایک نادر روزگار تخلیق کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قدرت نے انھیں بے پناہ تخلیقی توانائی بخشی تھی۔ بیش و کم کے ساتھ وہ ایک درجن شعری مجموعوں کے مالک ہیں جن میں مطلع الانوار کو اولیت کے علاوہ ایک انفرادیت حاصل ہے۔ ان کی دوسری مثنویاں داستانوی رنگ و آہنگ سے معمور ہیں۔ شیریں، خسرو، لیلیٰ مجنوں، آئین سکندری، ہشت بہشت وغیرہ مگر مطلع الانوار کا بنیادی موضوع انسان اور اس کے روز و شب کے اذکار ہیں۔ اس کی فضیلت اور فیوض کی برکتوں کا بھی بیان ہے۔ انداز بیان داستانوی اور حکایاتی ہے۔ مطلع الانوار کئی بار شائع ہوئی ہے اور اس کے کئی مخطوطے محفوظ ہیں۔ راقم ایک نئے اور اہم مخطوطے کو متعارف کرانا چاہتا ہے جو ذاتی ذخیرے میں محفوظ ہے۔ یہ بہت قدیم نہ سہی لیکن پھر بھی چار سو سال سے زائد پہلے رقم کیا گیا ہے۔ اس میں ترقیمہ ہے جس میں 1000ھ درج ہے۔ مولانا شبلی نے شعرالعجم جلد دوم میں لکھا ہے:

’’مخزن الاسرار کا جواب ہے 3331 شعر ہیں۔ دو ہفتہ میں تمام ہوئی سال اختتام 698ھ ہے۔ تصوف کے مضامین ہیں پنج گنج کے سلسلے کی پہلی کتاب ہے۔‘‘ (شعر العجم، نقش اول، ص 140)

یہ مخطوطہ برسوں سے میرے پاس ہے مگر کبھی متوجہ نہ ہوسکا۔کورونا کی قید نے وقت گزاری کے لیے مخطوطات کی طرف متوجہ کیا۔ دیوانِ بیدل کے ایک قدیم نسخے کے مطالعے کے بعد زیرنظر مخطوطہ سامنے آیا۔ یہ عام کتابی سائز میں ہے۔ کاغذ خاصا قدیم ہے۔ روشنائی بھی پھیکی ہوگئی ہے۔ یہ بہت زیادہ کرم خوردہ بھی ہے۔ اشعار اہتمام سے لکھے گئے ہیں۔ مثنوی کے انداز پر مصرعے آمنے سامنے ہیں۔ نظامی کے بحر اور اوزان کا خیال رکھا گیا ہے بلکہ ہر جگہ خسرو نے پیروی کی ہے۔ ہر صفحے پر تقریباً پندرہ اشعار درج ہیں۔ تحریر خطِ نستعلیق میں ہے۔ کہیں کہیں رواں تحریر بھی موجود ہے۔ مختلف مقالوں کی ابتدا نثری عنوان سے ہوتی ہے جو مطلع الانوار کا انداز ہے۔ کاتب نے یکسانیت کا خیال نہ رکھ کر کئی صفحوں پر آڑی ترچھی سطروں میں اشعار قلم بند کیے ہیں۔ کاغذ کی کفایت کے سبب حاشیوں پر بھی اشعار درج ہیں۔ یہ مخطوطہ شروع کے ایک صفحہ سے محروم ہے۔ میری بدتوفیقی ہے کہ اس وقت مطلع الانوار کا کوئی دوسرا نسخہ موجود نہیںہے جس سے متن کا مقابلہ کیا جاسکے اور شعری متون کے اختلاف یا الحاق پر گفتگو کی جاسکے۔ صرف اس کے مختصر تعارف پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔ نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخطوطے کا آغاز ہوتا ہے۔ حمد کا حصہ نہیں ہے۔ کچھ صفحات آب رسیدہ بھی ہیں۔ کاتب نے عجلت پسندی کا بھی ثبوت دیا ہے۔ کاغذ و کتابت موسمی موثرات سے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جلد ساز نے بہت احتیاط سے کام نہیںلیا ہے۔

ترقیمہ کی عبارت بہت واضح اور مکمل ہے۔ کاتب بہت ہی غیرمعروف ہے اور خوش خط بھی نہیں ہے۔ ترقیمہ ملاحظہ ہو:

’’تمت کتاب عالی جناب مطلع الانوار تصنیف حضرت امیر خسرو دہلوی فی التاریخ ہفتم شہر جمادی الاوّل 1000ھ در مقام جین پور سرکار روھتاس بعنایت الٰہی بخیر و عافیت انجام رسانید۔ اگر سہوی و خطاے کہ شعار انسان است بظہور آید بہ قلم زود رقم بہ صحت رسانید وکاتب ایں کتاب عالی بود خلیل الرحمن جعفری بہ شوق تمام و اشتیاق کمال در تسوید ایں شعر نگار زدم۔‘‘

ترقیمہ میں تقریباً ہر تفصیل درج ہے جس سے کسی شک و شبہ کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس عبارت کے بعد کاتب کے قلم سے کچھ مفردات کے نام اور نسخۂ علاج کا بھی ذکر ہے۔ جو مخطوطات کے مزاج میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔ درد دنداں کا نسخہ تجویز کیا گیا ہے۔ ایک دعا کے الفاظ بھی قلم بند کیے گئے ہیں۔

اس خطی نسخے کے ابتدائی اشعار موجود نہیں مگر مثنوی کے آخری اشعار محفوظ ہیں۔ ترقیمہ سے قبل کے چند اشعار قابل ذکر ہیں       ؎

وہ کہ ہمہ عمر بیاری گذشت

دل نہ ازیں جاہ کاری گذشت

ہر چہ دریں شعبدہ بستم امید

نامہ سیہ کردم ودیدہ سفید

روز قیامت کہ کنیدم خطاب

ہیچ ندانم کہ چگویم خواب

یارب از ایں جواب خودم

ہمہ توبیا موز جواب خودم

مخطوطہ کے آخری صفحے کے دیگر شعر میں اشعار کی تعداد کا ذکر ہے جو اختتام سے پہلے گیارہواں شعر ہے۔ تین ہزار تین سو بتیس کے اعداد قلم بند کیے گئے ہیں اور دو ہفتہ کے اندر مثنوی لکھی گئی        ؎

در ہمہ بیت آوردی اندر شمار

سیصد ودو بر شمہ و سہ ہزار

از اثر احتر گردوں خرام

شدبد و ہفتہ ایں مہِ کامل تمام

چرخ کہ خورشید جہانش نوشت

مطلع انوار خطابش نوشت

یہ خطی نسخہ 99 ورق پر مشتمل ہے۔ کاغذ ہلکا ہے اور درمیان میں چند ورق دبیز کاغذ کے مستعمل ہیں۔ مخطوطہ بہت ہی کرم خوردہ اور بوسیدہ ہے۔ بڑی مشکل سے لپٹے ہوئے اوراق کو الگ کیا گیاہے۔ کرم خوردہ ہونے کی وجہ سے متن کی قرأت بہت مشکل ہوگئی ہے۔ دوسرے نسخوں کی مدد سے صحت کا امکان ہے۔ تدوین کے لیے تمام متون کو پیش نظر رکھ کر مطلع الانوار کا مطالعہ ممکن ہوسکے گا۔ خسرو کی یہ پہلی مثنوی ہے اور پنج گنج کے سلسلے کی ایک بازیافت بھی ہے۔ انسان کی برگزیدگی اور حکیمانہ افکار سے معمور اس تخلیق کی ایک انفرادی اہمیت ہے۔ قدامت اور کرم خوردگی کی وجہ سے اشعار کا پڑھنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ بعض محفوظ صفحات کا متن بہتر ہے۔ مگر ان صفحات کی تعداد بہت کم ہے۔ کاتب نے حکایت کے نمبر اور عنوانات کے لیے کہیں کہیں جگہ خالی چھوڑ دی ہے۔ مقالہ چہار دہم کے بعد یہ اہتمام باقی نہیں ہے جس سے کاتب کی لاپرواہی کا گمان ہوتاہے۔ مخطوطے میں موجود ابتدائی اشعار حسب ذیل ہیں     ؎

ز آبِ حیاتش کہ تادم رسید

قطرہ………… رسید

جام شراب کہ پیمبر خورد

جرعہ آہ جام علی نیز خورد

یہ نعت دوم کے آخری اشعار ہیں۔ اس کے بعد نعت سوم شروع ہوتی ہے    ؎

اے بخت گنج خدا را کلید

دہراں گنج تو کردی پدید

اندیشہ ہے کہ مخطوطے میں شروع کے ایک دو ورق غائب ہیں۔ زیرنظر مخطوطے کی اہمیت قدامت کے اعتبار سے نہ سہی مگر خسرو کی باقیات کے گوہر گراں مایہ کی حیثیت سے قابل قدر ضرور ہے۔

 

Prof. Abdul Haq

Delhi University

Delhi - 110007

Mob.: 09350461394

 

 



26/3/21

حنیف کیفی: کوائف و کیفیات - مضمون نگار : محمد اکرام


 


حنیف کیفی صاحب کا نام میں نے دہلی آنے سے پہلے بھی سن رکھا تھا،  البتہ حنیف کیفی اور حنیف نقوی کے درمیان امتیاز کرنا میرے لیے مشکل تھا۔ جب 2000 میں صلاح الدین پرویز(مرحوم) کے سہ ماہی استعارہ سے میری وابستگی ہوئی تو وہاں اردو کے ادیبوں اور شاعروں کا اکثر ذکر ہوتا رہتا تھا۔ دفتر میںآنے والے مشاہیر ادب سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔

استعارہ میں ملازمت سے پہلے اردو زبان و ادب سے میری واقفیت ذرا کم تھی۔  دھیرے دھیرے اردو ادب سے میری دلچسپی بڑھتی گئی اور وہاں آنے والے ادیبوں اور شاعروں سے دعا  سلام کا سلسلہ جاری رہا۔ گلزار دہلوی (مرحوم)، کفیل آذر(مرحوم)، محمود ہاشمی (مرحوم)، اظہار اثر (مرحوم)، یوگیندر بالی (مرحوم)، نند کشور وکرم (مرحوم)، ریوتی سرن شرما (مرحوم)، ظہیر ناصر ]مرحوم[(فلمی میگزین شمع میں جن کا کالم ’مسافر کی ڈائری‘ بہت مقبول تھا)، عابد سہیل (مرحوم)، حنیف ترین (مرحوم)، فاروق ارگلی، نظام صدیقی، قاضی عبیدالرحمن ہاشمی، ابواللیث جاوید، ڈاکٹر جمیل اختر، مشرف عالم ذوقی، ابرار رحمانی،  نگار عظیم، شبنم عشائی، ملک زادہ جاوید، ڈاکٹر کوثرمظہری، ڈاکٹر مولا بخش، راشد انور راشد، ڈاکٹر مشتاق صدف، معین شاداب، خالد بن سہیل (مرحوم) خالد عبادی، احمد صغیر، شاہد اختر(کانپور)، معراج رانا، شبیر احمد، ایڈووکیٹ جیلانی، سعید اختر اعظمی، ہادی رہبر، محمد انیس شاہجہاں پوری  وغیرہ  یہ کچھ نام ایسے تھے جن سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ حقانی القاسمی صاحب جو سہ ماہی ’استعارہ‘ میں شریک مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے، ان کے ذریعے ہی استعارہ کے دفتر میں مجھے ملازمت ملی تھی۔ حقانی القاسمی صاحب سے میری ذہنی ہم آہنگی اس حد تک تھی کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ہم سے اتنے سینئر ہیں۔ حقانی صاحب بہت پہلے سے دہلی میں مقیم تھے، اس لیے ان کی شناسائی بہت سے ادیبوں، شاعروں سے تھی۔ وہ جب کسی ادیب وشاعر سے ملنے جاتے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔ کبھی کبھی جب جامعہ کے شعبۂ اردو میں تشریف لے جاتے تو میں بھی ان کے ساتھ ہولیتا۔ شعبۂ اردو میں ہی میری باضابطہ ملاقات کوثر مظہری صاحب سے ہوئی جو اس وقت شعبہ اردومیں لکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان دنوں ان کی رہائش ابوالفضل انکلیو میں تھی۔ کوثر مظہری صاحب کے ذریعے ہی ہم نے پروفیسر حنیف کیفی صاحب کی شخصیت کو جانا اور سمجھا۔ حنیف کیفی صاحب اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں پروفیسر تھے اور کوثر مظہری صاحب کو بہت عزیز رکھتے تھے۔

2003 میں جب استعارہ کا دفتر شفٹ ہوکر ذاکر باغ چلا گیا، تو ایک دن کوثر مظہری صاحب استعارہ کے دفتر آئے اور مجھے اپنے ساتھ حنیف کیفی صاحب کے گھر یہ کہہ کر لے گئے کہ کیفی صاحب کو کمپوزنگ وغیرہ کا کام رہتا ہے، اگر ہوسکے تو ان کا کام کردیا کیجیے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔

کیفی صاحب سے میری پہلی ملاقات بہت خوشگوار رہی، مجھے محسوس ہی نہیں ہوا کہ شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سبکدوش صدر سے ملاقات ہورہی ہے۔ گھر میں انھوں نے کافی خاطر تواضع کی۔ کیفی صاحب دیکھنے میں تو بہت نحیف و کمزور  نظر آتے تھے لیکن ان کے چہرے پر چمک اور آواز میں بلا کی کشش تھی بلکہ کھنک بھی۔ انداز گفتگو نہایت بلیغ ہوتا تھا، ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ گھر پر نہیں کلاس روم میں بچوں کو درس دے رہے ہوں، کیفی صاحب جیسے خوش اخلاق، منکسرالمزاج، پابند اوقات اور اصول پرست شخص کا مجھ پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ کبھی کبھی بلاضرورت ہی میں ان سے ملنے چلا جاتا۔کیفی صاحب کے عادات و اطوار میں مجھے وقت کی پابندی اور اصول پرستی بہت اچھی لگی۔

کیفی صاحب سے ملنے والوں کا دائرہ محدود تھا۔کیفی صاحب جس کو چاہتے دل سے اور جس کو ناپسند کرتے، ان کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ کیفی صاحب مجھے بہت عزیز رکھتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم ان کے گھر کے ہی ایک فرد  ہیں۔ جب بھی ان کے گھر جانا ہوتا تو سب سے پہلے تمام اہل خانہ کی خیریت پوچھتے، یہاں تک کہ اگر فون پر بھی بات ہوتی تو بھی احوال دریافت کرنا نہ بھولتے۔ کیفی صاحب کے یہاں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں تھا، اپنے گھر پر ہر کسی کو مہمان سمجھتے، اور مہمان نوازی کی جو خوبیاں ہیں انھیں بخوبی نبھاتے۔  خوشی کا کوئی ایسا لمحہ نہ تھا جس میں کیفی صاحب اپنے مخلصین کو یاد نہ کرتے ہوں۔ اگر اجتماعی دعوت کا کوئی موقع ہوا تو مہمانوں سے فرداً فرداً پوچھتے کہ ضیافت میں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی۔

اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کا امتحان لیتا رہتا ہے،کیفی صاحب بھی انہی نیک بندوں میں سے تھے۔ کیفی صاحب اپنی صحت کو لے کر ہمیشہ فکر مند تو رہتے تھے مگر اس حال میں بھی وہ خدا کا شکر بجا لانا نہ بھولتے۔ سنہ 2003 میں جب سے میرا کیفی صاحب کے یہاں آنا جانا شروع ہوا ، کم ہی ایسا دیکھا کہ وہ اپنی صحت کے تعلق سے مطمئن ہوں، جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ ان کی آنکھوں کا آپریشن بھی ہوا اور پروسٹیٹ (Prostate)کا بھی۔ اس کے باوجود تا حیات قلم،کاغذ اور کتاب سے ان کا رشتہ برقرار رہا۔

کیفی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے آٹھ بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی تھی، لیکن ایک بیٹا اور ایک بیٹی جسمانی طور پر معذور تھے۔ کیفی صاحب نے اپنی اکلوتی بیٹی غزالہ کے علاج و معالجے میں اپنی بیماری اور عمر رسیدگی کے باوجود کوئی کمی نہ آنے دی اور  جب بھی ان کو ڈاکٹروں کی ضرورت محسوس ہوتی ڈاکٹروں کے پاس لیے لیے پھرتے تھے، لیکن موت کا ایک دن معین ہے، بالآخر 15جنوری 2003 کو  اپنے والدین کی چہیتی اور بھائیوں کی اکلوتی بہن سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے مالکِ حقیقی سے جاملی۔ کیفی صاحب کا ایک اور بیٹا محمد ارشد علیم بھی ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور تھا، کیفی صاحب اپنے اس معذور بیٹے کو بھی دل و جان سے چاہتے تھے۔ ان کے بیٹے کو اگر تھوڑی سی بھی پریشانی ہوتی تو اپنی پریشانیوں کی فکر  نہ کرتے ہوئے حتی الامکان ان کی دیکھ بھال کرتے، مگر تمام تر علاج و معالجہ کے باوجود وہ بھی 23 اپریل 2017 کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حنیف کیفی کا پورا نام محمد حنیف قریشی اور تخلص کیفی ہے، والد کا نام حاجی حشمت اللہ اور تاریخ پیدائش (ہائی اسکول سرٹیفکٹ کے مطابق) 8 ستمبر 1934 ہے۔ کیفی صاحب کی جائے پیدائش بریلی (روہیل کھنڈ، یوپی) ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم میونسپل پرائمری اسکول، بانس منڈی، بریلی سے حاصل کی، جبکہ 1944 میں چوتھی جماعت کا امتحان پاس کیا۔ ثانوی تعلیم آزاد ہائر سیکنڈری اسکول (موجودہ آزاد انٹرکالج)، بریلی سے حاصل کی،  حنیف کیفی نے بریلی کے ہائی اسکول سے 1952  میں امتیاز کے ساتھ پاس کیا ۔ 1954 میں انٹرمیجیئٹ (سائنس)،  1956 میں بی اے اور 1958میں آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ کیفی صاحب صوبہ مدھیہ پردیش کے ضلع سرگوجا کے ایک قصبے میں انگریزی زبان کے لکچرر کی حیثیت سے  5 دسمبر 1961 کو مامور ہوئے اور 8 مارچ 1972 کو انھوں نے اس ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ ملازمت کے دوران ہی وکرم یونیورسٹی، اجین، مدھیہ پردیش سے 1968میں ایم۔ اے (اردو) کی ڈگری فرسٹ ڈویژن، سیکنڈ پوزیشن میں حاصل کی۔ پھر ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے 10 مارچ 1972 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں اردو کے لکچرر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ملازمت کے دوران ہی پروفیسر گوپی چند نارنگ کی نگرانی میں ’اردو میں نظم معرا اور آزاد نظم (ابتدا سے 1947 تک)، کے موضوع پر 1980میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔پھر یکم جنوری 1983 کو ریڈر بن گئے اور 30 جو ن 1988 کو پروفیسر اور  پھر شعبۂ اردو کے صدر کی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے 7 ستمبر کو 1999 جامعہ سے سبکدوش ہوئے۔

حنیف کیفی صاحب کی تصنیفات و تالیفات کی فہرست طویل نہ سہی مگر ان کی جتنی بھی کتابیں ہیں وہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں اور آئندہ بھی ان کی پذیرائی ہوتی رہے گی کیونکہ ان کی بعض کتابیں حوالہ جاتی حیثیت کی حامل ہیں۔ کیفی صاحب کی مطبوعات کی فہرست حسب ذیل ہے:

(1)      اردو شاعری میں سانٹ (تحقیق و تنقید) 1975

(2)      اردو میں نظم معراا ور آزاد نظم ]ابتدا سے 1947 تک[  (تحقیق و تنقید) 1982

(3)      جے  شنکر پرساد (سوانح و تنقید: انگریزی سے ترجمہ) 1984

(4)      چراغ نیم شب (شاعری) 1986

(5)      اردو کی نئی کتاب (گیارہویں جماعت کے لیے)، 1986

(6)      اردو کی نئی کتاب (بارہویں جماعت کے لیے) 1988

(7)      اردو سانٹ: تعارف و انتخاب (تحقیق و تدوین) 1987

(8)      تنقید و توجیہ (مضامین) 1997

(9)      انتخاب کلام شمیم کرہانی (ترتیب) 1999

(10)سحر سے پہلے (شاعری)، 2004

(11)بائیں ہاتھ کا کھیل (شاعری) 2011

(12)بچپن زندہ ہے مجھ میں (بچوں کے لیے)2018

(13)صبح کی دہلیز پر (شاعری) 2021

کیفی صاحب نے اپنے ادبی سفر کا آغاز 1951 میں شاعری سے کیا جب وہ نویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔کیفی صاحب کی اوّلین تخلیق ’خوش اخلاقی‘ (نویں جماعت کے طالب علم کی حیثیت سے) رسالہ ’بانو‘ دہلی میں 1952 میں شائع ہوئی۔ ان کی خاص دلچسپی شاعری سے تھی، مگر ان کے استاد عشرت صاحب کی خواہش تھی کہ وہ مضامین بھی لکھیں، چنانچہ انھوں نے کیفی صاحب سے ’خوش اخلاقی‘ اور ’میرا بہترین مشغلہ‘ عنوانات کے تحت مضمون لکھنے کو کہا، اس وقت کیفی صاحب نویں کلاس میں تھے۔ بہرحال کیفی صاحب نے استاد کے حکم کی تعمیل کی اور عشرت صاحب نے ان مضامین کو پڑھ کر کیفی صاحب کو داد و تحسین سے نوازا۔کیفی صاحب کے بقول عشرت صاحب نے ان سے مزید مضامین تحریرکرنے کو کہا:

’’عشرت صاحب نے ان مضامین سے متاثر ہوکر میری حوصلہ افزائی کی اور یہاں تک کہا کہ اسی طرح کے کچھ اور مضامین لکھ دو تو میں انہیں شائع کرادوں۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے اسے میری چالاکی کہیں یا ہوشیاری کہ میں نے اپنا مضمون ’میرا بہترین مشغلہ‘ ’کتب بینی‘ کے موضوع پر لکھا اور اس طرح اس میں دو مضامین کو یکجا کردیا تھا۔ اس میں ایک طرف تواخلاقی قدروں اور کتب بینی کے فوائد کو پیش نظر رکھا گیا تھا اور دوسری طرف فرصت کے اوقات کو بسر کرنے کا ایک اچھا مشغلہ پیش کیا گیا تھا۔ آج جب میں اپنی ابتدائی تحریروں کو دیکھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُس وقت یہ پہچان نہیں تھی کہ ان پر شعری اثر زیادہ ہونے کا سبب طبیعت میں شعری مذاق کے رچے بسے ہونے کی سچائی تھی۔ انٹرمیجیئٹ سائنس سے کرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ میدان میری حساس طبیعت اور شاعرانہ مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ ‘‘

(حنیف کیفی: ذات اور جہات، مرتبین: ڈاکٹرمسعود ہاشمی، اطہر عزیز، 2011، ص 156)

کیفی صاحب کی پہلی کتاب ’اردو شاعری میں سانٹ‘ ہے جو انھوں نے ایم اے کے مقالے کے طور پر تحریر کیا تھا۔ اس کتاب کو بہت مقبولیت ملی۔ کچھ لوگوں نے یہاں تک سمجھا کہ یہ کیفی صاحب کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ کتاب کی شہرت سے دھیرے دھیرے کیفی صاحب کا رجحان شاعری سے ہٹ کر نثر کی طرف بڑھتا گیا۔ جب کیفی صاحب کی دوسری کتاب ’اردو میں نظم معرا اور آزاد نظم (ابتدا سے 1947 تک)‘ 1982 میں شائع ہوئی تو اس کتاب کی بھی خوب پذیرائی ہوئی۔ کیفی صاحب کی اس کتاب کو قومی اردو کونسل نے اپنے سلسلۂ مطبوعات کے تحت شائع کیا اور اب تک اس کے تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب کا ایک ایڈیشن 2003 میں پاکستان سے بھی شائع ہوا ہے۔ دراصل یہ کتاب کیفی صاحب کی پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے جو انھوں نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی نگرانی میں تحریر کیا تھا۔ یہ ایک حوالہ جاتی کتاب ہے، جومختلف  جامعات کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ پروفیسر مسعود حسین خان جیسے ماہر لسانیات نے ان کی کتاب ’اردو میں نظم معرّا اور آزاد نظم‘ پر اپنی گراں قدر رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا:

’’یہ ایک گراں قدر تصنیف ہے۔ یہ نہ صرف اس موضوع پر اضافہ کا حکم رکھتی ہے بلکہ عرصہ تک اس موضوع پر علمی کام کرنے والوں کے لیے یہ ایک اہم حوالے کی کتاب کی حیثیت رکھے گی۔‘‘

(حنیف کیفی: ذات اور جہات، مرتبین:ڈاکٹرمسعود ہاشمی، اطہر عزیز، 2011،ص 61)

پروفیسر گوپی چند نارنگ کے بقول:

’’کیفی نے اپنی تمام تر آگہی اور تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو اس میں کھپا دیا ہے، اس موضوع کا جیسا حق کیفی صاحب نے ادا کیا ہے کوئی دوسرا ادا نہ کرسکا۔‘‘

(ایضاً، ص 61)

ڈاکٹر انور سدید نے ’اوراق‘ کے خاص نمبر میں اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :

 ’’مغرب اور مشرق کی تہذیبی آویزش سے اردو شاعری نے جو اثرات قبول کیے ان میں نظمِ معرّا اور نظمِ آزاد کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ اس سے اردو شاعری کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ ہیئت اور اظہار کے تجربوں پر اہل قلم نے خیال انگیز مضامین لکھے ہیں لیکن ان تجربات کی مربوط تاریخ نہیں لکھی گئی۔ اس کمی کو ڈاکٹر حنیف کیفی نے زیر نظر کتاب ’اردو میں نظم معرّا اور آزاد نظم‘ میں پورا کرنے کی سعی کی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 61-62)

 کیفی صاحب جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے  تو اس کا پورا حق ادا کردیتے، کسی کام کو ادھورا چھوڑنا ان کی عادت میں شامل نہیں تھا۔کیفی صاحب کو جب اپنی تحریر پر مکمل اطمینان ہوجاتا تبھی وہ چھپنے کے لیے بھیجتے تھے، چاہے اس میں کتنی ہی تاخیر ہوجائے۔ جس کا اندازہ ان کی تینوں  کتابوں ’اردو سانٹ: تعارف و انتخاب‘ اور ’اردو شاعری میں سانٹ‘  اور ’اردو میں نظم معرا اور آزاد نظم‘ سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان کتابوں میں کیفی صاحب کی ریاضت، عرق ریزی اور شب و روز کی محنت و جستجو جھلکتی ہے جس کی تائید پروفیسر توقیر احمد خاں کے اس اقتباس سے بھی ہوتی ہے:

’’کیفی اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ کام ہو تو ادھورا نہ ہو اور جہاں تک ممکن ہوسکے موضوع کا بھرپور احاطہ کرتا ہو۔ چنانچہ ان کی کتابیں ’اردو شاعری میں سانِٹ‘، ’اردو سانِٹ: تعارف و انتخاب‘ اور ’اردو میںنظم معرّا اور آزاد نظم‘ وغیرہ ایسی کتابیں ہیں جن پر آج تک کوئی اضافہ نہ ہوسکا اور ہوگا بھی کیسے۔ کوئی کیفی صاحب سے زیادہ محنت کرنے والا ہو اور ان سے زیادہ گہری نظر رکھنے والا ہو تو وہی شخص اضافہ کی ہمت کرسکتا ہے۔ ‘‘

(ایضاً، ص 67)

حنیف کیفی صاحب کی ایک اور کتاب ’تنقیدو توجیہ‘  مضامین پر مشتمل ہے۔ اس میں بیس مضامین شامل ہیں۔ کتاب میں امیر خسرو، مرزا غالب، میراجی اور مولوی عبدالحق پر لکھے گئے مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان مضامین میں کیفی صاحب نے ان شخصیات کے ہر پہلو پر گفتگو کی  ہے۔  خاص طور پر امیر خسرو کے ہندوی کلام سے مدلل بحث کی ہے اور سلیس اور سہل انداز میں قاری کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مرزا غالب پر لکھے مضمون میں  غالب کی شاعری اور شخصیت دونوں پہلوؤں کا بھرپور جائزہ ہے۔ اس مضمون میں غالب کے بارے میں کچھ ایسے نکات پر بھی بحث کی گئی ہے جن پر کسی اور نے قلم اٹھانے کی جرأت نہیں کی۔ یہ کتاب ہر طبقے کے لیے مفیدہے، خاص کر طلبا اور اساتذہ کے لیے، جس کی توثیق کوثرمظہری کے اس اقتباس سے ہوتی ہے:

’’پروفیسر کیفی سنجیدہ اور پروقار تنقید کامیلان رکھتے ہیں۔ ان کی تنقید میں تحقیق کے عناصر ملتے ہیں جس کے سبب توجیہ و توثیق کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ طلبائے ادب اور اساتذہ دونو ںکے لیے مفید ہوگا۔ مطالعے سے معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ پروفیسر کیفی کے گہرے اور باوزن افکار کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ‘‘

(بازدید اور تبصرے: کوثرمظہری، عرشیہ پبلی کیشنز،نئی دہلی، 2013، ص302)

کیفی صاحب کے چار شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں، ان کا سب سے پہلا شعری مجموعہ’چراغ نیم شب‘ 1984 میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں غم و اندوہ اور امیدو ناامیدی، اپنوں کی بے وفائی ان سارے موضوعات کے تحت اشعار مل جائیں گے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:

جنھیں سکھائے ہیں آداب زندگی ہم نے

وہی یہ پوچھ رہے ہیں مزاج کیسا ہے

——

اپنوں کی نظر ملتی ہے غیروں کی نظر سے

بے گھر ہوں یہ احساس ملا ہے مجھے گھر سے

حنیف کیفی کا دوسرا شعری مجموعہ ’سحر سے پہلے‘  2004 میں اور ’بائیں ہاتھ کا کھیل‘ 2011میں منظر عام پرآیا۔ کیفی صاحب کا آخری مجموعہ ’صبح کی دہلیزپر‘ ان کی وفات سے 40-45 دن پہلے ہی پریس سے چھپ کر آیا تھا۔ اس مجموعے میں کیفی صاحب کے بہت سے اشعار مایوسی بھرے انداز کے ملتے ہیں۔ اپنے کمزور جسم ، خرابی صحت اور بڑھتی ہوئی عمر کا انھیں بخوبی اندازہ تھا۔ باتوں باتوں میں وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ بھئی کب بلاوا آجائے، کہا نہیں جاسکتا، میرے اکثر احباب اب دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ چاہتا ہوں ادھورے کام جلدی سے پورے ہوجائیں۔ اس مجموعے کے کچھ اشعار سے ان کی مایوسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

جواب دے گئی ہمت میں تھک چکا ہوں بہت

سہارا دے کے اٹھا لو بہت اکیلا ہوں

لرز رہا ہے بدن پاؤں لڑکھڑاتے ہیں

میں گر نہ جاؤں سنبھالو بہت اکیلا ہوں

خطائیں بخشو عزیزو اب آؤ مل بیٹھو

غبار دل سے نکالو بہت اکیلا ہوں

——

آخری منزل میں ہے عمرِ گریزاں کا سفر

ایک لامحدود عالم اور قصہ مختصر

کیفی صاحب نے سانٹ، ہائیکو ، علم عروض جیسے خشک موضوعات پر جو خامہ فرسائی کی،  جن پر کم ہی لوگ لکھنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ علم عروض پر لکھنا تو دور کی بات آج پڑھنا بھی کم لوگ پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک مشکل اور خشک موضوع ہے۔ یوسف ناظم صاحب کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’پروفیسر حنیف کیفی عروض کے ماہرین میں سے ہیں۔ علم عروض ادب کی سب سے خطرناک شاخ ہے۔ کیا حنیف کیفی بتائیں گے کہ اِسے سائنس کیوں نہیں قرار دیا جاسکتا؟ جو بھی ہے بحر’رجز‘ میں بحر ’رمل‘ ڈال کر ہی چلتا ہے۔ میرا تو عقیدہ ہے کہ جو شاعر عروض کی غلطی نہیں کرتا اچھا شعر کہہ ہی نہیں سکتا۔‘‘

(حنیف کیفی: ذات اور جہات، مرتبین:ڈاکٹرمسعود ہاشمی، اطہر عزیز، 2011،ص 47)

کیفی صاحب نے بچوں کے لیے پیاری پیاری، ننھی منی نظمیں بھی لکھی ہیں جو بچوں کے لیے نصیحت آموزبھی ہیں۔ کیفی صاحب کی کچھ نظمیں ’بچوں کی دنیا‘ اور دوسرے رسائل و جرائد میں شائع بھی ہوئی ہیں۔ بچوں کی نظموں پر مشتمل کیفی صاحب کا ایک مجموعہ ’بچپن زندہ ہے مجھ میں‘ 2018 میں شائع ہوا۔ کیفی صاحب جب عمر کے آخری پڑاؤ پر تھے تب یہ مجموعہ منظرعام پر آیا۔ مجموعے کی نظموں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ کیفی صاحب کے اندر وہ ہنستا کھیلتا بچپن پھر سے اجاگر ہوگیا ہے۔ اس مجموعے پر ’بچوں کی دنیا‘ میں حقانی القاسمی صاحب کا جامع تبصرہ  شائع ہوا ہے۔ انھوں نے تبصرے میں کیفی صاحب کے بچپن کو اس طرح اجاگر کیا ہے:

’’لوگ کہتے ہیں کہ بڑھاپے میں بچپن کا زمانہ لوٹ آتا ہے۔ بچپن کی یادیں بڑھاپے میں بے چین کرنے لگتی ہیں۔ کاغذ کی کشتی، تتلیاں، جگنو، گڑیا سب ذہن کے پردے پر رقص کرنے لگتے ہیں۔ جس کا اظہار نوشی گیلانی جیسی شاعرہ نے کچھ یوں کیا ہے:

کچھ نہیں چاہیے تجھ سے اے مری عمرِ رواں

مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لادے

(بچوں کی دنیا، مدیر: ڈاکٹر شیخ عقیل احمد، جلد8، شمارہ9، ستمبر 2020، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی)

اس مجموعے سے نظموں کے کچھ ٹکڑے ملاحظہ ہوں     ؎

ننھی سی وہ بچی ہے

لامعہ سیدھی سچی ہے

ٹھمک ٹھمک چلتی ہے

گرتی اور سنبھلتی ہے

 

(ننھی لامعہ)

——

پہلا دن اسکول کا تھا

خوش تھے بے حد عبداللہ

پھرتے تھے اتراتے ہوئے

چلتے تھے لہراتے ہوئے

ساتھ گئے ابو جان

لائے تھے خود سب سامان

پنسل باکس، ٹفن، بستہ

لے آئے مہنگا سستا

پانی کی بوتل بھی لی

چلتے چلتے لی چھتری

 

(عبداللہ اسکول چلے)

بچوں کے لیے نظمیں تو بہت سارے لوگوں نے لکھی ہیں، لیکن کیفی صاحب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے بچوں کے لیے ہائیکو بھی لکھی ہے۔ ہائیکو اصناف شاعری میں ایک جاپانی صنف ہے جو مختصر اور تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔مثال کے لیے ملاحظہ کیجیے        ؎

سب کا پیارا کھیل

بچوں نے لائن باندھی

چھک چھک چل دی ریل

——

ڈھونڈیں ہر ہر چھور

آنکھ مچولی کھیلیں یار

جو پکڑا وہ چور

(کھیل کھلاڑی)

کیفی صاحب اردو زبان و ادب کے لیے مکمل طور پر وقف تھے اور ان کا پورا وقت تحریر و تصنیف میں گزرتا تھا۔ اس کے باوجود ان کی کتابوں کی تعداد کم ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ عجلت پسند نہیں تھے۔ بہت غور و فکر کرنے کے بعد کتابیں چھپوایا کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے حد درجہ احتیاط کو پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ان کی کاہلی سے تعبیر کیا ہے:

’’کیفی صاحب بلا کے کاہل اور سست قلم ہیں، تاہم جب لکھنے پر آتے ہیں تو جی لگاکر اور ایسا ٹھوک بجاکر لکھتے ہیں کہ کوئی حرف نہیں رکھ سکتا۔‘‘

(حنیف کیفی: ذات اور جہات، مرتبین:ڈاکٹرمسعود ہاشمی، اطہر عزیز، 2011، ص 42)

حنیف کیفی صاحب کے کچھ ادھورے کام جو وہ اپنی زندگی میں پورا نہ کرسکے۔ ان میں ایک کتاب ’گفتگو کتابوں کی‘ ہے۔ اس کتاب کا مسودہ حنیف کیفی صاحب گاہے بہ گاہے 2007 سے اب تک مجھے کمپوز کرنے کے لیے دیتے رہے۔ میں نے کیفی صاحب کی علالت اور نقاہت کو دیکھتے ہوئے نومبر2020 کے آخری ہفتے میں کہا تھا کہ کیفی صاحب! اب آپ اس کتاب پر چھوٹا سا پیش لفظ لکھ کر ترتیب دے دیجیے، انھوں نے میرے اس مشورے کو تسلیم کرتے ہوئے چھوٹا سا پیش لفظ لکھ کر کتاب مجھے عنایت کردی۔ 13 دسمبر 2020  کو میں نے یہ کتاب مکمل کرکے کیفی صاحب کے حوالے کردی کہ سر آپ نظر ثانی کرلیجیے تاکہ یہ کتاب اشاعت کے مرحلے کوپہنچ سکے۔ افسوس کہ وہ نظر ثانی نہ کرسکے۔

کیفی صاحب کے کچھ اور مضامین ہیں جو انھوں نے 2014 سے 2018 کے درمیان مجھے کمپوز کرنے کے لیے دیے تھے جنھیں وہ کتابی صورت میں شائع کرانا چاہتے تھے۔ ان کا یہ کام بھی ادھورا رہ گیا۔ میں بہت پریشان تھا کہ آخر کیفی صاحب کے ان ادھورے کاموں کو کون پورا کرے گا۔ میرا ارادہ تھاکہ قمر سلیم صاحب جو ممبئی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور لکھنا پڑھناان کا مشغلہ بھی ہے، جب ان سے میری ملاقات ہوگی تو کیفی صاحب کی اس خواہش کا ذکر ان سے کروں گا۔ اسی درمیان  ایک دن کیفی صاحب کے صاحبزادے رضوان صاحب کا فون آیا کہ ’بابو‘ (کیفی صاحب کے بیٹے کیفی صاحب کوبابو کہتے ہیں) کے کچھ کام شاید آپ کے پاس ادھورے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ بابو کے بچے ہوئے کام کو میں پایۂ تکمیل تک پہنچاؤں۔ میں نے تفصیل سے کیفی صاحب کے ادھورے کام کے بارے میں رضوان صاحب کو بتایا اور میں نے یہ بھی کہا کہ ان کی طباعت و اشاعت میں میری کسی بھی طرح کی معاونت درکار ہو تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔ انھوں نے اس وعدے کے ساتھ فون رکھ دیا کہ کسی دن آپ کو گھر پر بلاؤں گا اور جوچیزیں بابو اپنی حیات میں میرے حوالے کرگئے تھے انھیں آپ سے سمجھ کر طباعت کے مرحلے تک ضرور پہنچاؤں گا۔  باتوں باتوں میں رضوان صاحب نے یہ بھی بتایاکہ بابو کے لکھنے پڑھنے والے سارے کام میں ہی دیکھتا تھا، وہ مجھے ہی ساری چیزیں بتاتے تھے۔رضوان صاحب کے جواب سے میں بہت مطمئن ہوا  اور مجھے بھی خوشی ہوئی کہ کیفی صاحب جو ادھورے کام اپنی حیات میں پورا نہ کرسکے، اب ان کے بچے پورا کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔

انتقال سے چند روز قبل جب وہ ہولی فیملی میں زیر علاج تھے، ایک دن میرے پاس فون آیا۔ ان کی آواز میں اتنی کپکپاہٹ تھی کہ میں سمجھ نہ سکا وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں۔ پھر فون کسی وجہ سے ڈس کنیکٹ ہوگیا۔ میرا ارادہ تھا کہ کیفی صاحب جب صحت یاب ہوکر گھرآئیں گے تو میں ان سے ملاقات کروں گا ۔ کیا پتہ تھا کہ کیفی صاحب سے یہ میری آخری بات ہورہی ہے۔ کیفی صاحب نے 27جنوری 2021 کوصبح ساڑھے دس بجے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!

کیفی صاحب اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ ہم اب صرف ان کی تحریروں کو پڑھ سکتے ہیں اور کیفی صاحب کے ساتھ گزارے ہوئے لمحوں کو یاد کرسکتے ہیں خاص کر ان لمحوں کو جب وہ اپنے بچوںکی طرح مجھے بھی نصیحتیں کرتے رہتے تھے۔کیفی صاحب کے بارے میں اور کیا کہوں؟ بس یہی کہ...

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے


Mohd Ikram

Mob.: 9873818237

Email.: mdikram2011@gmail.com