31/3/21

امیر خسرو کی مثنوی ’مطلع الانوار‘ کا ایک اہم مخطوطہ - مضمون نگار: عبدالحق

 



امیر خسرو فارسی ادب کے بڑے شاعر ہیں۔ ان کی بزرگی اور عوامی مقبولیت میں خانقاہی سلسلے خواجہ نظام الدین اولیا اور شاہانِ وقت کی نسبتیں بھی شامل ہیں۔ یہی مراسم بہت حد تک ان کی شعری تخلیقات میں تصوف و تاریخ کے حوالے سے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ ان کا سب سے بڑا تخلیقی سرمایۂ ثروت ان کی مثنویاںہیں جن میں ان کے تخیل کی بے کرانی اور روز و شب کے مشاہدات کی دنیا آباد ہے۔ غزلیں دوسری جہات اور مختلف اظہار سے معمور ہیں ۔ ان میں شبیہ و شخصیت کی دوسری صورتیں بھی موجود ہیں۔

راقم کے نزدیک خسرو اس لیے بھی محترم ہیں کہ اقبال نے کئی مقام پر شعری نذرانے پیش کیے ہیں جن میں عقیدت و احترام کے ساتھ فکر و نظر کی ہم خیالی اہمیت کی حامل ہے۔ ہندوستان کے فارسی شعرا میں چند ہی اقبال کو عزیز ہیں جن میں نظیری نیشاپوری، بیدل اور غالب کو علامہ نے جس طرح یاد کیا ہے وہ بہت ہی معنی خیز اور فکر آفریں ہے۔ نظیری ہندوستان کے نہ تھے مگر زندگی کا آخری حصہ مسکن و مدفن کے طور پر ہندوستان ہی ہے۔ نظیری کو اقبال نے جو خراج پیش کیا ہے وہ مولانا رومی کو بھی نذر نہ کرسکے۔ بیدل شناسی پر اقبال نے کتاب لکھنے کی کوشش کی جو مکمل نہ ہوسکی۔ حالی کے بعد اقبال دوسرے غالب شناس ہیں۔ غالب شناسی میں آج تک ان کا کوئی حریف پیدا نہ ہوسکا۔ اس پہلو پر ابھی تک ہماری توجہ مبذول نہ ہوسکی۔ اقبال نے آخری کلام ارمغان حجاز کی رباعی میں دعا مانگی ہے        ؎

عطا کن شورِ رومی، سوزِ خسرو

عطا کن صدق و اخلاصِ سنائی

چناں بابندگی درسا ختم من

نہ گیرم گر میرا بخشی خدائی

یہ آخری تخلیق کا حوالہ تھا۔ ان کی پہلی تصنیف کا اعتراف بھی خیال افروز ہے      ؎

خسروِ شیریں زباں رنگیں بیاں

نغمہ ہائش از ضمیر کن فکاں

شاعری کو ضمیر کن فکاں کہنا اقبال کی جرأت گفتار کی مثال ہے اور تعارف و تحسین کا بے باک اقرار ہے۔ فارسی میں اقبال نے خسرو کی زمین میں کئی غزلیں رقم کی ہیں۔ خسرو شناسی سے متعلق یہ تمہیدی کلمات تھے جو سخن گستری کے طور پر تحریر کیے گئے۔ مقصد تو ان کے  ایک اہم مخطوطے کا سرسری تعارف ہے تاکہ تفہیم خسرو کے لیے ان کے قلمی نسخوں پر نظر رہے۔ یہ بہت ہی افسوس ناک پہلو ہے کہ خسرو کے کلام کی تدوین اور متون کی تصحیح پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاسکی ہے۔ ہم شکر گزار ہیں کہ ظاہر احمد اوغلی نے 1975 میں ماسکو سے مطلع الانوار کے سب سے قدیم مخطوطے کو شائع کیا تھا۔ یہ مخطوطہ 760ھ کا رقم کردہ ہے۔ ابھی حال ہی میں مریم زمانی نے تہران سے تصحیح شدہ ایڈیشن شائع کیا ہے جو قابل قدر اور بہت وقیع ہے۔

ابو محمد الیاس بن یوسف نظامی گنجوی (1140-1202) نے شعری تخلیق میں ایک انوکھی مثال قائم کی ہے۔ ان کی پانچ مثنویاں خمسۂ نظامی یا پنج گنج کے نام سے مقبول ہوئیں۔ ان کی پیروی میں کئی شعرا نے مثنویاں تخلیق کیں۔ امیر خسرو، مولانا جامی اور علی شیرنوائی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ نظامی کی مثنوی ’مخزن الاسرار‘ بنی نوع انسان کی بزرگی اور حسنِ اعمال و افکار پر مشتمل ہے۔ انسانی کردار کے مختلف اور متنوع پہلو کہانی یا حکایت کی شکل میں پیش کیے گئے ہیں۔ امیر خسرو (1252-1324) نے بھی اپنے خمسے کا آغاز ’مخزن الاسرار‘ سے کیا اور ’مطلع الانوار‘ نام رکھا۔ جو وسط الحیات ’قران السعدین‘، ’فتح الفتوحات‘ کے بعد 698ھ میں رقم کی گئی۔ اس کا بھی مرکزی خیال اور اس کے متعلقات ہیں یہ 13332 اشعار پر مشتمل ہے۔ تصوف کے فکری و عملی آہنگ سے اسے مربوط کیا گیا ہے۔

امیر خسرو فارسی ادب میں ایک نادر روزگار تخلیق کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قدرت نے انھیں بے پناہ تخلیقی توانائی بخشی تھی۔ بیش و کم کے ساتھ وہ ایک درجن شعری مجموعوں کے مالک ہیں جن میں مطلع الانوار کو اولیت کے علاوہ ایک انفرادیت حاصل ہے۔ ان کی دوسری مثنویاں داستانوی رنگ و آہنگ سے معمور ہیں۔ شیریں، خسرو، لیلیٰ مجنوں، آئین سکندری، ہشت بہشت وغیرہ مگر مطلع الانوار کا بنیادی موضوع انسان اور اس کے روز و شب کے اذکار ہیں۔ اس کی فضیلت اور فیوض کی برکتوں کا بھی بیان ہے۔ انداز بیان داستانوی اور حکایاتی ہے۔ مطلع الانوار کئی بار شائع ہوئی ہے اور اس کے کئی مخطوطے محفوظ ہیں۔ راقم ایک نئے اور اہم مخطوطے کو متعارف کرانا چاہتا ہے جو ذاتی ذخیرے میں محفوظ ہے۔ یہ بہت قدیم نہ سہی لیکن پھر بھی چار سو سال سے زائد پہلے رقم کیا گیا ہے۔ اس میں ترقیمہ ہے جس میں 1000ھ درج ہے۔ مولانا شبلی نے شعرالعجم جلد دوم میں لکھا ہے:

’’مخزن الاسرار کا جواب ہے 3331 شعر ہیں۔ دو ہفتہ میں تمام ہوئی سال اختتام 698ھ ہے۔ تصوف کے مضامین ہیں پنج گنج کے سلسلے کی پہلی کتاب ہے۔‘‘ (شعر العجم، نقش اول، ص 140)

یہ مخطوطہ برسوں سے میرے پاس ہے مگر کبھی متوجہ نہ ہوسکا۔کورونا کی قید نے وقت گزاری کے لیے مخطوطات کی طرف متوجہ کیا۔ دیوانِ بیدل کے ایک قدیم نسخے کے مطالعے کے بعد زیرنظر مخطوطہ سامنے آیا۔ یہ عام کتابی سائز میں ہے۔ کاغذ خاصا قدیم ہے۔ روشنائی بھی پھیکی ہوگئی ہے۔ یہ بہت زیادہ کرم خوردہ بھی ہے۔ اشعار اہتمام سے لکھے گئے ہیں۔ مثنوی کے انداز پر مصرعے آمنے سامنے ہیں۔ نظامی کے بحر اور اوزان کا خیال رکھا گیا ہے بلکہ ہر جگہ خسرو نے پیروی کی ہے۔ ہر صفحے پر تقریباً پندرہ اشعار درج ہیں۔ تحریر خطِ نستعلیق میں ہے۔ کہیں کہیں رواں تحریر بھی موجود ہے۔ مختلف مقالوں کی ابتدا نثری عنوان سے ہوتی ہے جو مطلع الانوار کا انداز ہے۔ کاتب نے یکسانیت کا خیال نہ رکھ کر کئی صفحوں پر آڑی ترچھی سطروں میں اشعار قلم بند کیے ہیں۔ کاغذ کی کفایت کے سبب حاشیوں پر بھی اشعار درج ہیں۔ یہ مخطوطہ شروع کے ایک صفحہ سے محروم ہے۔ میری بدتوفیقی ہے کہ اس وقت مطلع الانوار کا کوئی دوسرا نسخہ موجود نہیںہے جس سے متن کا مقابلہ کیا جاسکے اور شعری متون کے اختلاف یا الحاق پر گفتگو کی جاسکے۔ صرف اس کے مختصر تعارف پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔ نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخطوطے کا آغاز ہوتا ہے۔ حمد کا حصہ نہیں ہے۔ کچھ صفحات آب رسیدہ بھی ہیں۔ کاتب نے عجلت پسندی کا بھی ثبوت دیا ہے۔ کاغذ و کتابت موسمی موثرات سے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جلد ساز نے بہت احتیاط سے کام نہیںلیا ہے۔

ترقیمہ کی عبارت بہت واضح اور مکمل ہے۔ کاتب بہت ہی غیرمعروف ہے اور خوش خط بھی نہیں ہے۔ ترقیمہ ملاحظہ ہو:

’’تمت کتاب عالی جناب مطلع الانوار تصنیف حضرت امیر خسرو دہلوی فی التاریخ ہفتم شہر جمادی الاوّل 1000ھ در مقام جین پور سرکار روھتاس بعنایت الٰہی بخیر و عافیت انجام رسانید۔ اگر سہوی و خطاے کہ شعار انسان است بظہور آید بہ قلم زود رقم بہ صحت رسانید وکاتب ایں کتاب عالی بود خلیل الرحمن جعفری بہ شوق تمام و اشتیاق کمال در تسوید ایں شعر نگار زدم۔‘‘

ترقیمہ میں تقریباً ہر تفصیل درج ہے جس سے کسی شک و شبہ کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس عبارت کے بعد کاتب کے قلم سے کچھ مفردات کے نام اور نسخۂ علاج کا بھی ذکر ہے۔ جو مخطوطات کے مزاج میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔ درد دنداں کا نسخہ تجویز کیا گیا ہے۔ ایک دعا کے الفاظ بھی قلم بند کیے گئے ہیں۔

اس خطی نسخے کے ابتدائی اشعار موجود نہیں مگر مثنوی کے آخری اشعار محفوظ ہیں۔ ترقیمہ سے قبل کے چند اشعار قابل ذکر ہیں       ؎

وہ کہ ہمہ عمر بیاری گذشت

دل نہ ازیں جاہ کاری گذشت

ہر چہ دریں شعبدہ بستم امید

نامہ سیہ کردم ودیدہ سفید

روز قیامت کہ کنیدم خطاب

ہیچ ندانم کہ چگویم خواب

یارب از ایں جواب خودم

ہمہ توبیا موز جواب خودم

مخطوطہ کے آخری صفحے کے دیگر شعر میں اشعار کی تعداد کا ذکر ہے جو اختتام سے پہلے گیارہواں شعر ہے۔ تین ہزار تین سو بتیس کے اعداد قلم بند کیے گئے ہیں اور دو ہفتہ کے اندر مثنوی لکھی گئی        ؎

در ہمہ بیت آوردی اندر شمار

سیصد ودو بر شمہ و سہ ہزار

از اثر احتر گردوں خرام

شدبد و ہفتہ ایں مہِ کامل تمام

چرخ کہ خورشید جہانش نوشت

مطلع انوار خطابش نوشت

یہ خطی نسخہ 99 ورق پر مشتمل ہے۔ کاغذ ہلکا ہے اور درمیان میں چند ورق دبیز کاغذ کے مستعمل ہیں۔ مخطوطہ بہت ہی کرم خوردہ اور بوسیدہ ہے۔ بڑی مشکل سے لپٹے ہوئے اوراق کو الگ کیا گیاہے۔ کرم خوردہ ہونے کی وجہ سے متن کی قرأت بہت مشکل ہوگئی ہے۔ دوسرے نسخوں کی مدد سے صحت کا امکان ہے۔ تدوین کے لیے تمام متون کو پیش نظر رکھ کر مطلع الانوار کا مطالعہ ممکن ہوسکے گا۔ خسرو کی یہ پہلی مثنوی ہے اور پنج گنج کے سلسلے کی ایک بازیافت بھی ہے۔ انسان کی برگزیدگی اور حکیمانہ افکار سے معمور اس تخلیق کی ایک انفرادی اہمیت ہے۔ قدامت اور کرم خوردگی کی وجہ سے اشعار کا پڑھنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ بعض محفوظ صفحات کا متن بہتر ہے۔ مگر ان صفحات کی تعداد بہت کم ہے۔ کاتب نے حکایت کے نمبر اور عنوانات کے لیے کہیں کہیں جگہ خالی چھوڑ دی ہے۔ مقالہ چہار دہم کے بعد یہ اہتمام باقی نہیں ہے جس سے کاتب کی لاپرواہی کا گمان ہوتاہے۔ مخطوطے میں موجود ابتدائی اشعار حسب ذیل ہیں     ؎

ز آبِ حیاتش کہ تادم رسید

قطرہ………… رسید

جام شراب کہ پیمبر خورد

جرعہ آہ جام علی نیز خورد

یہ نعت دوم کے آخری اشعار ہیں۔ اس کے بعد نعت سوم شروع ہوتی ہے    ؎

اے بخت گنج خدا را کلید

دہراں گنج تو کردی پدید

اندیشہ ہے کہ مخطوطے میں شروع کے ایک دو ورق غائب ہیں۔ زیرنظر مخطوطے کی اہمیت قدامت کے اعتبار سے نہ سہی مگر خسرو کی باقیات کے گوہر گراں مایہ کی حیثیت سے قابل قدر ضرور ہے۔

 

Prof. Abdul Haq

Delhi University

Delhi - 110007

Mob.: 09350461394

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...