31/3/21

2020 کا فکشن اور فکشن تنقید - مضمون نگار: اسلم جمشیدپوری

 



زمانے کے سمندر میں بارہ مہینوں کا ایک کلینڈر دریا کی شکل میں سما گیا۔ وقت کا سمندر ایسے ہزاروں اور لاکھوں برسوں کے خزانے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور روز افزوں وسیع وبیکراں ہوتا جاتا ہے۔ موضوعات اور وقت کی ستم ظریفیوں کے حساب سے 2020کا نٹے کی طرح دل میں چبھنے والا سال ثابت ہوا ہے۔2020 میں کورونا سے متاثر ادب خاصا تخلیق ہوا۔ادبی رسائل محفلیں اور سمینار آن لائن ہونے لگے۔ہر سال کی طرح میں نے 2020 میں لکھے گئے فکشن اور فکشن تنقید کا ایک جائزہ لیا ہے جو اردو دنیا کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔

2020 کا افسانہ:

 2020 میں افسانوں اور افسانچوں کے متعدد مجموعے منظر عام پر آئے کچھ نے چونکایابھی،کچھ افسانوی مجموعے بہت مشہور ہوئے اور کچھ نے قاری پر گہرا تاثر قائم کیا۔ اس سال شائع ہونے والے خاص مجموعوں میں تین کہانیاں(خالد جاوید)ادراک(شبیر مصباحی)ذہن زاد (توصیف بریلوی) نئی راہ نئی روشنی (انور آفاقی) دیوار ہجر کے سائے (عشرت معین سیما) بکھرے رنگ (ڈاکٹر عقیلہ) ڈائجسٹ کہانیاں (راشد اشرف) امریکی کہانیاں (یاسر حبیب) میری چاہت کے گلاب (احمد حسنین) نیا حمام(ڈاکٹر ذاکر فیضی)خون کا رنگ(ارشد منیم) گمشدہ دولت(طارق شبنم)وہ دس اور دوسری کہانیاں (ف۔س اعجاز) احتیاط(راجیو پرکاش ساحر) چراغوں کے اندھیرے (محمد عرفان ثمین)پس پردہ (ڈاکٹر عارف انصاری) دخمہ(پروفیسر بیگ احساس) حمید سہروردی اور بچوں کی کہانیاں (ڈاکٹر اسرارالحق سبیلی) اونچی اڑان(ڈاکٹر ایم اے حق)کل اور آج کا غم(ڈاکٹر عظیم راہی)تنکے (ڈاکٹر نذیر مشتاق)وغیرہ ہیں۔

خالد جاوید کا افسانوی مجموعہ’تین کہانیاں‘ کے نام سے 2020 میں منظر عام پر آیا۔اس سے قبل آپ کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ’بُرے موسم میں‘2002 دوسرا مجموعہ ’آخری دعوت‘2007 میں تیسراا فسانوی مجموعہ ’تفریح کی ایک دوپہر‘2008 میں شائع ہوا۔ان تینوں افسانوی مجموعوں نے قارئین کو اتنا متاثر کیاکہ آپ کو ایک معتبر افسانہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔سبھی کہانیوں میں فکری وفنی جنبش نظر آتی ہے۔

خالد جاوید کے تازہ مجموعے میں تین کہانیاں ’تاش کے پتوں کے عجائب گھر‘،’تنقید کے خلاف ایک بیانیہ ‘ اور ’زندوں کے لیے ایک تعزیت نامہ‘ شامل ہیں۔یہ تینوں کہانیاں سماج و معاشرے کے الگ الگ موضوعات پر تحریر کی گئی ہیں۔ کہانیوں کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ آپ کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔

ذاکرفیضی کا پہلا افسانوی مجموعہ ’نیا حمام‘ 2020 میں منظر عام پر آیا۔

ادبی حلقوں میں اس کی پزیرائی ہو چکی ہے۔سماجی رشتوں کے تانے بانے بنتا ہوا یہ مجموعہ دیگر فکشن نگاروں کے دل میں بھی جگہ بناچکا ہے۔مشہورفکشن نگار پیغام آفاقی کے بقول ’’فیضی کے اندر ایک عمدہ افسانہ نگار ہے، جو اپنے انداز میں افسانے لکھ رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ذاکر فیضی کے اس افسانوی مجموعے میں نیا حمام، ٹوٹے گملے کا پودا، فنکار، ٹی۔او۔ڈی وائرس، اسٹوری میں دم نہیں ہے۔ مردوں کی الف لیلہ، کوڑا گھر، ورثے میں ملی بارود، ہٹ بے، کلائمکس،اخبار کی اولاد، بدری، لرزتی کھڑکی، دعوتِ نون ویج غور و فکر کی دعوت دینے میںمجموعے میںپانچ افسانچے بھی شامل ہیں۔ ان کہانیوں میں انسانی رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ، سماجی اور ثقافتی سروکار امیر غریب کے جذبات و احساسات کی سچی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔

 ناصر آزاد کا پہلا افسانوی مجموعہ ’خواب اور حقیقت‘ 2020 میں منظر عام پر آیا۔

ایک اہم اور منفرد قسم کا افسانوی مجموعہ ہے۔ جس میں عورت مرد کی خودپسندی، خواتین پر ظلم و ستم، غریبی، مفلسی کی ستم ظریفی، ازدواجی زندگی میں بے چینی، بے قراری وغیرہ کے نقوش آسانی سے مل جاتے ہیں۔ناصر آزاد کی ایک اہم خوبی جو انہیں مقبول عام بناتی ہے وہ ہے ’باریک بینی سے سوچنا‘ ہمیشہ اپنے افسانوں کو بار بار پڑھتے ہیں اور بہتر سے بہتر کہانی لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔مالیر کوٹلہ پنجاب کے ممتاز افسانہ نگار محمد بشیر مالیر کوٹلوی لکھتے ہیں:

’’ناصر افسانے کو بہت باریک بینی سے دیکھتے ہیں اور بہتر تخلیق پر یقین رکھتے ہیں۔ افسانے کا کوئی پہلو کمزور ہواس کے لیے فکر مند رہتے ہیں‘‘

وہ دس اور دوسری کہانیاں ‘ ف۔ س۔ اعجاز کا یہ دوسرا اور تازہ افسانوی مجموعہ ہے۔

اس مجموعے میں ف۔ س۔ اعجاز نے اپنی مشہور کہانی ’وہ دس‘ کے علاوہ بتیس چھوٹی بڑی کہانیاں شامل کی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کہانی ریزی کے عنوان سے تیتیس ایک صفحے کی کہانیاں بھی شامل اشاعت ہیں۔ انھوں نے ان کہانیوں کو افسانچہ نہیں کہا ہے۔یہ ایک سوال ہے جس کا جواب قاری تلاش کرے گا۔ ف۔س اعجاز کی کہانیاں ہمارے عہد کا سچ تو ہیں ہی مستقبل کا پیش خیمہ بھی ہیں۔ ان کی کئی کہانیاں وہ دس، کبیرا کھڑا بازار میں،ایریکا، گڑیا، من و سلوا، لکڑی کاجزیرہ، بھولاپن، پاسورڈ، گرین سون، چاند اور چھپکلی، اسکرولڈ، آپ کی توجہ ضرورمبذول کرائے گی۔ ان کے کئی افسانچے سوال، ساسک،بے رحم، میٹو، ڈر، بھی آپ کو سوچنے پر مجبور کریں گے۔

دیوارہجر کے سائے‘ جرمنی کی مشہور افسانہ نگار عشرت معین سیما کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔

آپ کے افسانوں میں یوں تو ہر طرح کے موضوعات شامل ہیں لیکن عورت کی بے بسی، عورت پر ہونے والے ظلم وستم، بے چارگی اور مرد سماج کے ذریعے ڈھائے جانے والے ظلم وستم کا خاصہ واضح نظر آتا ہے۔وہ اپنے خواتین کردار کو سماج سے لڑنے کا حوصلہ بھی بخشتی ہیں۔ دیوارِ ہجرکے سائے میں عشرت معین سیما کے تقریباً انیس افسانے شامل ہیں،جن میں وہ کون تھی، دھواں، دیوار ہجر کے سائے، جنت، چاند، اور چاردیواری،سبزپوش، کفارہ ایسے افسانے ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بکھرے رنگ‘ ڈاکٹر عقیلہ کا افسانوی مجموعہ ہے۔ جس کا پیش لفظ ڈاکٹر ریاض توحیدی نے لکھا ہے۔ ڈاکٹر عقیلہ نئی افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں سے بہت جلدی شناخت قائم کی ہے۔ بکھرے رنگ مجموعے میں ڈاکٹر عقیلہ کے تقریباً گیارہ افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں میں رومان کی لہریں کہیں تیز ہو جاتی ہیں تو کہیں مدھم،لیکن ایک دھیمی دھیمی آنچ کا احساس ہمیشہ باقی رہتا ہے۔مجموعے کے افسانے طلاق، آخرمیں نے پالیا تجھے، سرجو، چھوٹی سی محبت، چال، بکھرے رنگ، ایسے افسانے ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور گہرا تاثر چھوڑتے ہیں۔

ڈاکٹر ایم۔اے حق کی کتاب ’اونچی اُڑان‘ مختصر ترین کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ افسانچوں کے اس مجموعے میں کل باسٹھ افسانچے شامل ہیں۔نصیحت،ترکیب، اخلاق،  ٹریننگ، پہل، ذہانت، ناکام سازش، واہ !!!، معافی، حاضر دماغ، جوئے کااڈا، تبدیلی، ضدی شہزادہ، شرمندگی، کھیل کھیل میں،گوگل، ہابیل اور قابیل، مہنگا فلیٹ، وندے ماترم،اسکیم، اُووراسمارٹ، بھول، دوراندیشی، سزا، باخبر، جیت،احتیاط، تدبیر، انوکھا فیصلہ، مذاق، نے قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ بچوں کی تربیت اور انھیں اردو ادب سے منسلک کرنے کے لیے ان افسانچوں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ افسانچوں کو یکجا کر کے کتابی شکل میں لانے کا منفرد کارنامہ ڈاکٹر تسلیم عارف نے بخوبی انجام دیا ہے ا فسانچوں میں سماج و معاشرے کے مقامات،تجربات مشاہدات کی تصاویر نظر آتی ہیں۔

2020کا ناول

گذشتہ سال 2020 میں متعدد ناول شائع ہوئے۔کئی نے ہمارے ذہنوں کو جھنجوڑڈالا جنھیں ہم بہت زمانے تک یاد رکھیں گے۔کورونا کے اثرات پر بھی کئی ناول سامنے آئے ہیں۔اس سال لکھے گئے متعدد ناولوں میں مردہ خانے میں عورت (مشرف عالم ذوقی) ہجور آما (شبیر احمد) ایک خنجر پانی میں(خالد جاوید) اللہ میاں کا کارخانہ(محسن خان) میں تمثال ہوں(عارفہ شہزاد) کا  بُلہاکیہہ جانا میں کون (ذکیہ مشہدی )سہیم(نجم الدین احمد)پچھل پیری(نعمان فاروقی) شہر مرگ (طاہرہ) شیلٹر۔ ہوم شیلٹر (افسانہ خاتون) موسیٰ (ڈاکٹر شفق سوپوری)وقت قیام(مشتاق انجم) چلڈرنس فارم (ایم مبین) دھول دیپ(یعقوب یاور)کڑوے کریلے (ثروت خان) سودوزیاں کے درمیان(خالد فتح محمد) کورونا ایٹ داریٹ سکسٹی ڈگری(اختر آزاد، پی ڈی ایف فارم)وغیرہ۔ 

ایک خنجر پانی میں‘ خالد جاوید کا ناولٹ ہے۔ ناول کا موضوع بظاہر پانی کے مسائل ہیں۔لیکن خالد جاوید نے پانی کو زندگی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے اور پانی کے لیے جدید فلیٹ نما زندگی میں جو مشکلات اور مصائب بالواسطہ اور بلاواسطہ انسانی زندگی میں در آتے ہیں،ان کو اپنے مخصوص بیانیے اور فلسفیانہ انداز کے ساتھ اس طور پیش کیاہے کہ ان کے پرانے ناولوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ خود خالد جاوید اپنے ناول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ یقیناموت کی تیسری کتاب ہے۔جو دراصل بہتے ہوئے وقت اور پانی کی کتاب بھی ہے۔

اس ناول کا موضوع یتیم خانے،شیلٹر ہوم اور اس طرح کے ادارے ہیں۔ گذشتہ برسوں بہار میں شیلٹر ہومزکے شرمناک واقعات منظر عام پر آئے تھے۔ جس میں سیاسی، رہنماؤں کی کالی کرتوتوں کو خاص شہرت ملی تھی۔یہ واقعات عورتوں کے شیلٹر ہومس میں زیادہ ہوئے تھے۔افسانہ خاتون نے عورتوں کے ساتھ ہونے والے عبرت ناک واقعات کے اسباب و علل پر غور کرتے ہوئے پردے کے پیچھے کے سچ کو بے نقاب کیا ہے۔

ناول ’مردہ خانے میں عورت‘بھی ان کے سابقہ انداز کا ایک کھلا بیان ہے۔نئے عہد میں کوئی داستان گوکس طرح کی داستان لکھے گا۔طلسم ہوشربا،کا ملک کے پس منظر میں ازسرنو لکھے جانے کا کیاانداز ہوگا یہ مردہ خانے میں عورت کو پڑھ کر سمجھا جاسکتا ہے۔

میں تمثال ہوں ‘ عارفہ شہزاد کا ناول ہے جو متعدد عشقیہ قصوں پر مبنی ہے۔پورے ناول میں سات عشقیہ قصے بیان کیے گئے ہیں۔جن میں مختلف نشیب و فراز ہیں کہیں بچپن کے واقعات ہیں تو کہیں جوانی کے قصے مصنفہ کی تعریف کرنی چاہیے کہ اس نے ان قصوں کا بیان حقیقت پسند انہ کیا ہے۔

ہجور آما‘ بنگال کے مشہور ومعروف فکشن نگار شبیر احمد کا پہلا ناول ہے جسے بنگال کے پس منظر میں لکھی گئی ایک ایسی عشقیہ داستان ہے جو سیاسی اور سماجی نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی زندگی کی دھوپ چھاؤں کو پیش کرتی ہے۔ناول میں خواب، خوابوں کی تعبیر فرائڈ کے جنسی نظریات کا رل مارکس کا سماجی نظریہ، بنگال کی سیاست کالال رنگ اور بنیادی سہولیات کے فقدان میں زندگی گزارتے آدی واسی وغیرہ کو اس طور ناول کیا ہے کہ واقعہ در واقعہ ہجور آما کا سحر کاری کو انگیز کرتا رہتا ہے۔ ویب نینا کے برج مکھرجی اور باز احمدکی شکل میں کئی عمدہ کردار اور ناول نے ہمیں دیے ہیں۔

دھول دیپ‘ یعقوب یاور کا تحریر کردہ دلچسپ ناول ہے ۔ یعقوب یاور نے اسے بارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ دراصل یہ ناول بھی گجرات کے تاریخی مقامات کا تقریباً سات ہزار سال پرانا قصہ اور معاشرہ ہے۔ ایسے میں مصنف کا تخیل اگر اس کی صحیح رہنمائی کرے تو بعض ایسے کردار اور قصے سامنے آتے ہیں جو زمانے تک ہماری یادکا حصہ بنے رہتے ہیں۔دھول دیپ یعقوب یاور کا ایک شاہکار ناول ثابت ہوگا۔

اللہ میاں کا کارخانہ‘محسن خان کاپہلا ناول ہے۔ ناول کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی سال میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہو گئے ہیں۔پہلا ایڈیشن ایم۔آر سی پبلی کیشن اور دوسرا ایڈیشن عرشیہ پبلی کیشن دہلی کے زیر اہتمام بڑے خوبصورت گیٹ اپ میں شائع ہوا ہے۔

اللہ میاں کا کارخانہ‘ محسن خان کے تجربات و مشاہدات اور بیانیہ کے سبب ایک منفرد ناول کے طور پر سامنے آیا۔یہ دراصل عام زندگی کی کہانی ہے جس میں انسانی بستیوں کے ساتھ ساتھ قبرستان بھی ایک کردار کے طور پر موجود ہے۔ناول کا بیانیہ اس قدر پختہ اور مستحکم ہے کہ واقعات درواقعات ناول قاری کو اپنی گرفت میں لیتا چلا جاتا ہے۔

چلڈرنس فارم‘ دراصل ایم مبین کے ذریعے لکھا گیا بچوں کے لیے ایک اہم ناولٹ ہے۔چلڈرنس فارم میں ثواب و گناہ،کفارہ، بے ضمیری جیسے جذبات سے پر کردار ہیں تو چلڈرن فارم کا یعنی یتیم خانے کاپس منظر ہے۔یہ یتیم خانہ پارسیوں کا دکھایا گیا ہے لہٰذا ایم مبین نے پارسیوں کی زندگی،ان کی تہذیب اور رہن سہن کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

کڑوے کریلے‘ ڈاکٹر ثروت خان کا اس سال شائع ہونے والا نیا ناول ہے۔دراصل ان کا خواتین کے استحصال پر لکھا گیا ایک عمدہ ناول ہے جس میں انہوں نے آج کی عورت کو جس کی نمائندگی مولی کر رہی ہے۔آج کی عورت کو ظالم اورہوس زدہ انسانوں کے بُرے کارناموں کی نذر ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔

سودوزیاں کے درمیاں‘ خالد فتح محمد کا ایک اہم ناول ہے۔2020  میں شائع ہونے والے اس ناول ’سودوزیاں کے درمیاں‘ میں نئی تکنیک نئے رنگ اور سماج و معاشرے کی سچی تصاویر نظر آتی ہیں۔ناول کے کرداروں کے ذریعے خالد فتح محمد نے عوامی زندگی کے نشیب و فراز کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔

خالد فتح محمد نے اس ناول کے ذریعے عام انسانوں کے دکھ درد اور غموں کو فنکارانہ انداز میں پیش کرنے کا منفرد کارنامہ انجام دیا ہے۔

2020 کی فکشن تنقید

2020میں متعدد تنقیدی کتابیں شائع ہوئیں کچھ کتابیں ترتیب شدہ ہیں۔کچھ شخصیات پر مبنی ہیں اور کچھ خالصاً تنقید کا حق ادا کرتی ہیں۔اس سال شائع ہونے والی خاص کتابوں میںراجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری (ڈاکٹر پرویز شہر یار)اردو فکشن کے پانچ رنگ(پروفیسر اسلم جمشید پوری)شین مظفر پوری(ڈاکٹر ابوبکر رضوی) اسرار گاندھی کے تخلیقی اسرار(پروفیسراسلم جمشید پوری) گاہے گاہے باز خواں(سلام بن رزاق)اردو فکشن تعبیر و تفہیم (ڈاکٹر کہکشاں عرفان)جوگندر پال: دید و نادید (حمید سہروردی) ذکی انورشخصیت فن اور تنقیدی مطالعہ (ڈاکٹر اختر آزاد)فکشن تنقید،تکنیک و تفہیم(ڈاکٹر منور حسن کمال) عصمت چغتائی روایت شکنی سے روایت سازی تک(ڈاکٹر فرزانہ کوکب) اردو افسانے میںدلت مسائل (ڈاکٹر نزہت پروین) اظہار الاسلام شخصیت اور فن (ڈاکٹر فاروق اعظم) مرگ انبوہ (مشرف عالم ذوقی) آزادی کے بعد اردو فکشن(ڈاکٹر محمد سلمان بلرامپوری)سیمانچل کے افسانہ نگار(احسان قاسمی)اردو افسانوں میں مسائل نسواں کی عکاسی(ڈاکٹر نورالصباح) اکیسویں صدی کی دہلیز پراردوکے اہم ناول (رحمن عباس) وغیرہ۔

 اردو فکشن تعبیر و تفہیم ‘ ڈاکٹر کہکشاں عرفان کی فکشن تنقید پر پہلی کتاب ہے۔اردو فکشن تعبیر و تنقید میں ڈاکٹر کہکشا ںکے تقریباً 15 مضامین شامل ہیں۔کتاب کاا ختصاص یہ ہے کہ اس میں پریم چند سے ترقی پسند فکشن نگار،پھر 1970کے اہم فکشن نگاروں، غضنفر، اسرار گاندھی سے لے کر اکیسویں صدی کے معروف افسانہ نگار فکشن نگار، صادقہ نواب سحر،شائستہ فاخری اور جدید تر نسل کے ڈاکٹر محمد مستمر کے فن پر کہکشاں عرفان نے کھل کر بحث کی ہے۔

جوگندر پال: دیدونادید‘ حمید سہروردی کے قلم کا کمال ہے۔

کتاب ہذا میں جوگندر پال کی زندگی،ان کا ادبی سفر، افسانہ،  افسانچہ، ناول، ناولٹ، ڈرامہ،اور تنقید وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ساتھ ہی جوگندر پال کے منتخب افسانے،افسانچے اور ڈرامے بھی کتاب میں شامل کیے ہیں۔

زکی انور کی شخصیت وفن‘ڈاکٹر اختر آزاد کی تازہ ترین تنقیدی و تحقیقی کاوش ہے جو کتاب ہذا میں اختر آزاد نے اپنے زمانے کے مقبول و معروف فکشن نگار’زکی انور کی شخصیت وفن‘ کو موضوع بنایا ہے۔انھوں نے زکی انور کے تقریباً انیس افسانوں کا تجزیہ کیا ہے ساتھ ہی زکی انور کے آٹھ اہم افسانوں کا انتخاب بھی شامل کیا ہے۔اُمید ہے کہ یہ کتاب زکی انور شناسی میں سنگ میل ثابت ہوگی۔

شین مظفر پوری‘ ڈاکٹر ابوبکر رضوی کا تحریر کردہ فردنامہ (Monograph) ہے۔انھوں نے شین مظفر پوری کے حالات زندگی، افسانہ نگاری، ناول نگاری، ریڈیائی ڈرامے، طنزومزاح نگاری، یادداشت، صحافت وغیرہ موضوعات کے تحت خاصا مواد فراہم کیا ہے۔آپ نے شین مظفر پوری کے تین افسانے،ناول کا ایک باب، انشائیہ، خاکہ اور اداریہ کے نمونے بھی شامل کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کتابیات کے تحت شین مظفر پوری کی کتابوں کو شامل کیا ہے۔

راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری‘ ڈاکٹر پرویز شہریار کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے۔ یہ کتاب بیدی فہمی میں اپنا الگ مقام رکھتی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے راجندر سنگھ بیدی کے سوانحی کوائف، بیدی کے افسانوں کے فکری سروکار،بیدی کا افسانوی فن، کردار نگاری، اسلوب اور زبان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ساتھ ہی بیدی کے مشہور افسانوں، اپنے دکھ مجھے دے دو، لاجونتی، جوگیاوغیرہ افسانوں کے تجزیے بھی شامل کیے ہیں۔

گاہے گاہے بازخواں‘ (اردو کے کلاسیکی افسانے اوران کے تجزیے)مشہور و معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق کی اہم تنقیدی کتاب ہے۔عرشیہ پبلی کیشنز نے اسے شائع کیا ہے۔

اس کتاب میں پوس کی رات، ٹھنڈا گوشت، دوفرلانگ لمبی سڑک، لاجونتی، جڑیں نظارہ درمیاں ہے، مورنامہ، گاڑی بھررسد، پرندہ پکڑنے والی گاڑی، آگ کے پاس بیٹھی عورت، ہزاروں سال لمبی رات،پیتل کاگھنٹہ جیسے کلاسیکی اور عمدہ افسانوں کے تجزیے ہیں۔ایک فنکار یا افسانہ نگار جب افسانوں کے تجزیے کرتا ہے تو وہ افسانے کے ہر پہلوں کا خیال رکھتا ہے۔ہر طرح سے افسانہ سمجھنے اور سمجھانے کا کام کرتا ہے۔افسانے کے جھول کی طرف بھی اشارے کرتا ہے۔ایسے تبصروں کو ہم تخلیقی تنقیدمیں شامل کرتے ہیں۔اس طور دیکھا جائے تو سلام بن رزاق نے ان تجزیوں کے ذریعے عمدہ تخلیقی تنقیدکا نمونہ پیش کیا ہے۔

فکشن تنقید تکنیک و تفہیم‘ڈاکٹر منور حسن کمال کی تازہ ترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر منور حسن کمال نے مشرف عالم ذوقی کے ناولوں اور افسانوں پر لکھے گئے مضامین کو یکجا کیا ہے۔مضامین کی ترتیب و تہذیب کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک مقدمہ بھی تحریر فرمایاہے۔ دراصل یہ کتاب ذوقی فہمی میں معاون ثابت ہوگی۔

اردو افسانہ میں دلت مسائل‘ ڈاکٹر نزہت پروین کا تحقیقی و تنقیدی کارنامہ ہے۔

انھوں نے اس کتاب میں ابتدا سے لے کر موجودہ افسانوی منظرنامے تک پینتالس دلت افسانوں کا انتخاب شامل کیا ہے۔ساتھ ہی بہت سے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ بھی کیا ہے۔اردو افسانہ میں دلت مسائل ہندوستان میں دلتوں کی سیاسی و سماجی صورت حال جیسے موضوعات پر بھی نزہت پروین نے خاطر خواہ بحث کی ہے۔اپنے موضوع پر یہ اب تک کی پہلی اور عمدہ کتاب ہے۔

ڈاکٹر محمد فاروق اعظم کی کتاب ’اظہار الاسلام: شخصیت اور فن‘ افسانے کی تنقیدکے تعلق سے بہت اہم کتاب ہے۔اظہارالاسلام شناسی کے تعلق سے اس کتاب کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔مغربی بنگال کے منفرد افسانہ نگار اظہا رالاسلام پر مربوط یہ تنقیدی اور تحقیقی کام ڈاکٹر محمد فاروق اعظم کا منفرد کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر محمد فاروق نے ا بتدا میں ’اپنی بات ‘ کے علاوہ اظہارالاسلام کا ’سوانحی خاکہ‘ اور ’اظہارالاسلام میری نظر میں‘ تحریر کیا ہے۔صاحب کتاب کی تحریر کے علاوہ ممتاز ناقدین پروفیسر شمس الرحمن فاروقی،مشرف عالم ذوقی، رونق نعیم، ڈاکٹر سید عارفی، ڈاکٹر علی حسین شائق، نصراللہ نصر، ڈاکٹر سید قمر صدیقی وغیرہ نے اظہار الاسلام کی شخصیت، فن اور افسانہ نگاری کے تعلق سے پر مغز مضامین تحریر کیے ہیں جن کو ڈاکٹر محمد فاروق اعظم نے نہایت فنکارانہ انداز سے کتاب میں یکجا کیا ہے۔

آزادی کے بعد اردو فکشن تنقید‘ ڈاکٹر محمد سلمان بلرامپوری کی تحقیقی و تنقیدی کاوش ہے۔محمد سلمان بلرامپوری کی یہ پہلی کتاب ہے جس میں انہوں نے آزادی کے بعد کے فکشن ناقدین اور ان کے کاموں پر کھل کر بحث کی ہے۔ پانچ ابواب میں تقسیم اس کتاب کے پہلے باب میں فکشن تنقید کے بنیادی مسائل پرگفتگو کی ہے۔دوسرے باب میں ترقی پسند تنقید اور اردو فکشن کا مطالعہ،تیسرے باب میں نئی تنقید اورفکشن کا مطالعہ،چوتھے باب میں آزادی کے بعد اردو فکشن کا تجزیاتی مطالعہ اور پانچویں باب میں آزادی کے بعد اردو فکشن کے اہم ناقدین پر گفتگو کی ہے۔محمد سلمان بلرامپوری نے آزادی کے بعد کے اہم ناقدین میںشمس الرحمن فاروقی، وارث علوی، گوپی چند نارنگ، حافظ سہیل، مہدی جعفر، وہاب اشرفی، پروفیسر خورشید احمد،مرزا حامد بیگ، شمیم حنفی، ابوالکلام قاسمی اور معین الدین جینا بڑے پر گفتگو کی ہے۔ اس فہرست میں چند اور نام شامل ہو سکتے تھے مثلاً پروفیسر قمر رئیس، ڈاکٹر انوار احمد، صغیر افراہیم، ارتضیٰ کریم، محمد حمید شاہد،علی احمد فاطمی۔

سیما نچل کے افسانہ نگار‘معروف شاعر اور ناقد محترم احسان قاسمی کی ’سیمانچل ادب گہوارہ‘ سیریز کی پہلی کتاب ہے جس میں سیمانچل کے متعدد افسانہ نگاروں، رفیع حیدرانجم،عبدالمنان،معین الدین احمد،شمس جمال، مشتاق احمد نوری، احسان قاسمی، جمشید عادل، نیلوفر پروین،  پرمودبھارتیہ، کلام حیدری، شبیہہ مشہدی، علی امام وغیرہ تقریباً تیتس افسانہ نگاروں کے افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے میں سیمانچل میں مستقل سکونت اختیار کرنے والے افسانہ نگار، کچھ دن قیام کرنے والے افسانہ نگار اور ملازمت کرنے والے افسانہ نگار شامل ہیں۔

 رسائل کے فکشن نمبر

2020میں متعدد رسائل کے فکشن نمبر شائع ہو چکے ہیںکچھ ناول نمبر،کچھ افسانہ نمبر اورکچھ شخصیا ت پر مبنی ہیں۔ اس سال شائع ہونے والے خاص فکشن نمبر میںلوح،  ادب سلسلہ،شاعر،چہار سو وغیرہ نے قارئین کو کافی متاثر کیا۔کتابی سلسلہ ششماہی ’لوح‘اپنی نوعیت کا مختلف و منفرد رسالہ ہے جس کے مدیر ممتاز احمد شیخ ہیں۔ ’لوح‘ نے دنیا بھر کے اردو رسائل میں اپنا الگ مقام بنالیا ہے۔اس کا ہر شمارہ کسی نہ کسی موضوع پر مشتمل خاصا ضخیم ہوتا ہے۔

تازہ شمارہ ’ناول‘ پر ایک خاص شمارہ ہے جو تقریباً پونے آٹھ سو صفحات پر پھیلا ہے۔’لوح‘ کے ناول نمبر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ناول کی تاریخ یعنی ابتدا سے لے کر موجودہ عہد یعنی بیسویں صدی کے مشہور ومعروف ناولوں کے منتخب ابواب شامل کیے گئے ہیں۔ساتھ ہی مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر رشید امجد، مشرف عالم ذوقی، محمد حمید شاہد،ڈاکٹر امجد طفیل، ڈاکٹر محمد اشرف کمال کے منفرد مقالات و مضامین اور ناول کی ابتدا، ارتقا، بیسویں صدی کے اہم ناول اور نئے ناول کے سفر کو عمدگی سے سمیٹا ہے۔

لوح کا یہ شمارہ طالب علموں،ریسرچ اسکالر، اساتذہ اور شائقین ناول کے لیے کارآمد اور یادگار شمارہ ہے۔

ادب سلسلہ‘کا ایک خصوصی شمارہ افسانہ نمبر کی شکل میں سامنے آیا ہے۔اس کے مدیر محمد سلیم علیگ اور مہمان مدیر راقم ہے۔ اس شمارے میں اردو افسانہ اور ناول کی صورت حال اور مستقبل کے تعلق سے بارہ مضامین شامل ہیں۔ ساتھ ہی سلسلۂ افسانہ کے تعلق سے بارہ افسانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔آخر میں اردو ناول اور افسانوں کے تعلق سے ایک دلچسپ سوال نامہ مع جوابات شامل ہے۔

شاعر کا اکتوبر 2020 کا شمارہ افسانہ نمبر کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اس میں اردو کے عالمی افسانہ نگاروں کی تخلیقات شامل ہیں۔اس افسانہ نمبر میں تقریباً بیس افسانے شامل ہیں۔یہ افسانہ نمبر نئے افسانہ نگاروں کی خصوصاً نمائندگی کرتا ہے۔ ’شاعر‘کا یہ مشن رہا ہے کہ وہ نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔شاعر کی یہ خوبی اس کی مقبولیت کا راز بھی ہے۔

معروف رسالہ’چہار سو ‘کے ستمبر۔ اکتوبر کے شمارے میں صادقہ نواب سحر پر ایک گوشہ شامل ہے۔رسالے کے مدیر گلزار جاوید ہیں جو گذشتہ تین دہائیوں سے رسالہ جاری رکھے ہوئے ہیںاور ہر شمارے میں کسی ادیب یا شاعر پرگوشہ ضرور شائع کرتے ہیں۔ادبی رسائل کی بھیڑ میں چہار سو کا اپنے گوشوں کے حوالے سے ایک منفرد مقام ہے۔ تازہ ترین شمارہ ستمبر اکتوبر 2020 میں گوشہ ٔ صادقہ نواب سحر شائع ہوا ہے۔اس گوشے میں تقریباً پندرہ مضامین، ان کے فن اورشخصیت پرشامل ہیں ساتھ ہی ایک ڈرامہ چڑیا کا بچہ گیا کہاں اور ایک افسانہ منت بھی شامل ہے۔ناول ’’راجدیو کی امرائی‘‘ کا ایک باب بھی گوشے کی زینت بنا ہوا ہے۔

 سوشل میڈیا پر اردو فکشن

جوں جوں کمپیوٹر اور موبائل ہماری زندگی کا لازمی جز وبنتے جا رہے ہیں اور کورونا کی وجہ سے بہت ساری آف لائن سرگرمیاں آن لائن ہونے لگیں تو ادب کی صورت حال بھی تبدیل ہونے لگی ہے۔فکشن کی ہی بات کی جائے تو اب فیس بک پر بہت سے گروپ نہ صرف کہانیوں کا مقابلہ کر ارہے ہیں بلکہ افسانوں کے وائس ایڈیشن voice edition بھی آنے لگے ہیں۔اردو افسانہ، وولر،اردو ادبی فورم، عالمی افسانہ فورم (وحید قمر) اردو افسانہ (صدف اقبال)اشتراک ڈاٹ کام،صدا پارے، لفظ نامہ ڈاٹ کام، اردو فکشن یو ٹیوب چینل، جموں وکشمیر فکشن رائٹر س گلڈ، انہماک انٹر نیشنل فورم( سید تحسین گیلانی) عالمی اردو فکشن (ڈاکٹر ریاض توحیدی) جیسے بہت سے گروپ فیس بک پر افسانوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔اسی طرح افسانچے کے فروغ میں بھی بہت سارے افسانچہ گروپ حصہ لے رہے ہیں۔انٹرنیشنل افسانچہ فاؤنڈیشن (نخشب مسعود )عالمی افسانچہ اکیڈمی (ڈاکٹرایم۔اے حق)دنیائے افسانچہ (پرویز بلگرامی) گلشن افسانچہ (رونق جمال)وغیرہ پر متعدد افسانچے آوازکی صورت میں لوڈ ہو رہے ہیں۔

واٹس اپ پر بھی کئی گروپ افسانے اور افسانچے کے فروغ میں مستقل اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بزم افسانہ (سلام بن رزاق)اور افسانہ و افسانچہ گروپ (محمد علیم اسماعیل)بزم نثار(جاوید نہال حشمی)افسانچے ہی افسانچے وغیرہ کی کاوشوں سے سوشل میڈیا پر افسانے کے ساتھ افسانچوں کی بھی بہار آئی ہوئی ہے۔


Prof. Aslam Jamshedpuri

Dept of Urdu,

Chaudhary Charan Singh University, Ramgarhi

Meerut- 250001 (UP)

E-mail aslamjamshedpuri@gmail.com

Mob.8279907070

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں