حکیم سید علی کوثر کو ادبی
دنیا میں کوثر چاند پوری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اردو زبان کی چاشنی نے دیگر
افراد کی طرح اطبا کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ اگر سترہویں صدی سے طبی تاریخ کا
مطالعہ کیا جائے تو اکثر پیشے سے طبیب افراد ادب کے مریض بھی ہوئے ہیں اور انھوں
نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں کچھ نہ کچھ تعاون ضرور پیش کیا ہے۔ کوثر چاند پوری
کا تعلق بھی طبابت سے تھا۔
مستند حکیم اور فکشن نگار کوثر
چاند پوری کی پیدائش 18؍ اگست 1900 کو چاند پور میں ہوئی۔ ان کے والد سید علی مظفر
نامور طبیب تھے۔ کوثر چاند پوری حصول تعلیم کے لیے 14سال کی عمر میں بھوپال چلے
گئے تھے۔ وہاں آصفیہ طبیہ کالج میں طب کی تعلیم پائی اور محکمۂ طبابت میں ملازم
ہوگئے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد وہیں پریکٹس شروع کی۔ سبکدوشی کے وقت انچارج افسر
الاطبا تھے۔ 1964 میں دہلی منتقل ہوگئے۔ 13؍جون 1990 کو انتقال ہوا اور جامعہ ملیہ
اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
کوثر چاند پوری میں زمانۂ
طالب علمی ہی سے مضمون نویسی اور شعر گوئی کا ذوق پروان چڑھنے لگا تھا۔ معیاری
رسائل اور نثری کتابوں کے مطالعے نے انھیں مضمون نگاری کی طرف راغب کیا۔ وہ شاعر،
ادیب، مورخ، خاکہ نگار، صحافی، افسانہ نگار اور ناول نگار کی حیثیت سے ہمارے سامنے
آتے ہیں۔
کوثر چاند پوری کا تعلق افسانہ
نگاروں کی اس نسل سے ہے جس میں معروف افسانہ نگاروں کے تابندہ اسما کی ایسی کہکشاں
ملتی ہے جس نے افسانہ نگاری کا ایک معیار قائم کیاہے اور جو پریم چند کے بعد فوراً
منظر عام پر آئی۔ مثلاً کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، منٹو، احمد علی، رشیدجہاں،
حیات اللہ انصاری، دیوندر ستیارتھی، سہیل عظیم آبادی، شوکت صدیقی، خواجہ احمد
عباس، ابراہیم جلیس اورعزیز احمد وغیرہ کے علاوہ دیگر اسما کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔
بقول فکرتونسوی:
’’کوثر کا نام آتے ہی پریم چند کا تصور آتا ہے۔ جس مدرسۂ فکر کے حدیٰ خواں پریم چند تھے۔ کوثر
بھی اسی تہذیب و تعمیر کے نقیب ہیں۔‘‘
(بحوالہ وقار علم و حکمت، کوثر چاند پوری، ڈاکٹر نازنین
خان، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2015)
کوثر چاند پوری کے متعدد
تنقیدی و تا ثراتی مضامین کے علاوہ طب، ادب اطفال، انشائیہ، طنز و مزاح، رپورتاژ،
سوانح اور فکشن کے تعلق سے مطبوعہ کتابوں کی تعداد 181 ہے۔ بقول ڈاکٹر نازنین خان:
’’کوثر صاحب نے نثر کے میدان میں ادب کی ہر صنف میں طبع
آزمائی کی۔ افسانے لکھے، انشائیوں کو گدگدایا، طنز کے تیر چلائے، طنز و مزاح سے
چھیڑ چھاڑ کی، ناولوں کی دنیا آباد کی، رپورتاژ لکھے، تاریخ کے صفحات الٹے، تحقیق
کی تہوں میں جھانکا، تنقید کے کوچے میں قدم رکھا اور سوانح کو موضوع بنایا۔‘‘ (ایضاً، ص 204)
لیکن کوثر چاند پوری کا اصل
میدان فکشن ہے جس کا ثبوت ان کے 14 افسانوی مجموعے اور 17 ناول ہیں۔ ان کا پہلا
افسانوی مجموعہ ’دلگداز افسانے‘ کے عنوان سے 1929 میں منظر عام پر آیا۔ جسے انڈین
پریس لکھنؤ نے شائع کیا، بقول رشید انجم:
’’یہ پہلا افسانوی مجموعہ تھا جو بھوپال کی ادبی سرزمین سے
کتابی شکل میں شائع ہو کر ملک کے طول و عرض کے اردو داں باذوق شائقین تک پہنچاتھا۔
اس سے قبل بھوپال سے کوئی افسانوی مجموعہ شائع نہیں ہوا تھا۔ اس لحاظ سے کوثر صاحب
ہی بھوپال کے پہلے افسانہ نگار تسلیم کیے گئے۔‘‘
(کوثر چاند پوری
(مونوگراف)، رشید انجم، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، 2013،
ص 35)
کوثر چاند پوری کے اولین
مطبوعہ افسانے کے بارے میںنعیم کوثر کا خیال ہے:
’’ان کا پہلا افسانہ ’گدازِ محبت‘ ماہنامہ ’پیام ہستی‘
امرتسر میں شائع ہوا۔‘‘
(وقارِ علم و حکمت، کوثر چاند پوری، مضمون: ایک بے نیاز
مفکر، محقق، ناقد، افسانہ نگار اور حاذق طبیب از قلم نعیم کوثر، ص 22)
ظفر احمد نظامی ’گدازِ محبت‘
ہی کو پہلا مطبوعہ افسانہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ان کا پہلا افسانہ ’گدازِ محبت‘ کے عنوان سے 1926 میں
امرتسر کے پیام ہستی نامی ادبی جریدے میں شائع ہوا۔‘‘
(کوثر چاند پوری (مونوگراف)، ظفر احمد نظامی، ساہتیہ
اکادمی، 2003، ص 43)
پروفیسر نعمان خان کو لکھے ایک
خط میں کوثر چاند پوری نے اپنی افسانہ نگاری کا آغاز 1922 لکھا ہے۔ جس کا ذکر
نعمان خان نے اپنے تحقیقی مقالے ’بھوپال میں اردو انضمام کے بعد‘ میں کیا ہے۔
راقمہ کی نظر سے کوثر چاند
پوری کی ایک تحریر گزری جس سے ان کے پہلے مطبوعہ افسانے کی تصدیق ہوتی ہے۔ لکھتے
ہیں:
’’میںاب تک گداز محبت کو اپنا پہلا افسانہ سمجھتا رہا جو
امرتسر کے کسی رسالے میں نامکمل شائع ہوا تھا۔ لیکن پرانی کتابوں میں مجھے رسالہ
’الکمال‘ لاہور دسمبر 1924 کا فائل ملا ہے۔ اس کے ماہ دسمبر 1924 میں میرا پہلا
افسانہ ’فضائے برشگال کا ایک تیر‘ شائع ہوا ہے۔ اسی کو میں اپنا پہلا افسانہ
سمجھتا ہوں۔ جو آج سے 54 سال قبل شائع ہوا تھا۔ رسالہ ’الکمال‘ ریاض شیرانی کی
ادارت میں لاہور سے چھپتا تھا۔ میرا پہلا افسانہ کافی ترمیم و اصلاح کے بعد میرے
پہلے افسانوں کے مجموعے ’دلگداز افسانے‘ میں شامل ہوا۔ لیکن ’الکمال‘ میں اصل صورت
میں شامل ہوا تھا۔ میں وہی نقل کرا کر بھیج رہاہوں تاکہ میری افسانہ نگاری کے اصل
نقوش واضح ہوں اور پتہ چلے کہ 54 سال کے طویل عرصہ میں میرے فن میں کتنی ترقی ہوئی
ہے اور شعور میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔‘‘
(تعمیر ہریانہ، اکتوبر نومبر1978، ص 12)
کوثر چاند پوری کا قول ہمارے
سامنے موجود ہے تو اسی کو مصدقہ مانتے ہوئے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ
ان کا اولین مطبوعہ افسانہ ’فضائے برشگال کا ایک تیر‘ ہے جو 1924 میں ’الکمال‘ میں
شائع ہوا۔
200
صفحات پر مشتمل مجموعے ’دلگداز
افسانے‘ میں کل 16 افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں میں دیہاتی معاشرت اور سماج سے
منتخب موضوعات اور مسائل پر روشی ڈالی گئی ہے۔ اس مجموعے کو مصنف نے مولوی
عبدالصمد صاحب بلگرامی، تحصیلدار و مجسٹریٹ بھوپال کی نذر کیا ہے اور مقدمہ بھی
خود مصنف نے ہی لکھا ہے۔ اس مجموعے کے مقدمے میں افسانہ نگاری کے سلسلے میں اپنا
مقصد واضح کیا ہے۔ حالانکہ یہ ان کی افسانہ نگاری کا ابتدائی دور تھا۔ لیکن اس
مقدمے کی روشنی میں ان کی افسانہ نگاری کے ابتدائی دور سے آخر تک کے فنی ارتقا کی
پیمائش کی جاسکتی ہے۔ مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’ہماری منشا افسانہ نگاری سے صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم ایک
بہترین اخلاقی روح کو ’حسن و عشق‘ کے ساتھ ملا کر ایسے اعتدال تک پہنچا دیں کہ
ہمارے حواس میں ایسی ضیا اورتنویر پیدا کردے کہ ہم دنیا کے ہر اندھیرے کو اس کی
امداد سے طے کر جائیں۔ یہ مقصد اسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب ہم ان سب اجزا کے اوزان
اور تناسب کا لحاظ رکھیں۔ اگر اس تناسب پر نظر نہیں رکھی جائے گی تو یقینا ہماری
سب غرض فوت ہوجائے گی اور ہم اپنے مقصد اصلی سے دور جا پڑیں گے۔‘‘
(کوثر چاند پوری ظفر احمدنظامی، ساہتیہ اکادمی، 2008، ص
44)
دوسرا افسانوی مجموعہ ’دنیا کی
حور‘ کے عنوان سے 1930 میں منظر عام پر آیا۔
دوسرے افسانوی مجموعے ’دنیا کی
حور(1930)‘ میں شامل افسانے ہندوستانی معاشرت اور ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں۔
افسانوں کے مطالعے سے مصنف کی فن افسانہ نگاری پر مضبوط پکڑ کا اندازہ ہوتا ہے اور
وہ افسانہ نگاری میں کامیابی کے مراحل طے کرتے نظر آتے ہیں۔
تیسر امجموعہ ’ماہ و انجم‘
عالمگیر بک ڈپو، لاہور سے 1937 میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں اکیس افسانے شامل ہیں۔
ان افسانوں سے فن افسانہ نگاری پر ان کی گرفت اور فکر و شعور میں پختگی کا ثبوت
فراہم ہوتا ہے۔ یہاں پر معاشرے کی اہمیت پرزور دیتے ہیں اور فرد کو معاشرے کا حصہ
سمجھ کر اس کی انفرادیت کو اہمیت نہیں دیتے۔
چوتھا افسانوی مجموعہ ’دلچسپ
افسانے‘ 1938 میں جامعہ پریس دہلی سے شائع ہوا۔ ان افسانوں میں زندگی کے مسائل اور
حقائق کو مختلف پہلوئوں سے دیکھا گیا ہے۔
پانچواں افسانوی مجموعہ ’دنیا
کی حور اور دیگر افسانے‘ مکتبہ جدید لاہور سے 1938 میں شائع ہوا۔ اس میں 1930 میں
شائع ہونے والے مجموعے کے افسانوں کے علاوہ چنددوسرے افسانے دیباچہ کے ساتھ شامل
کردیے گئے ہیں۔
’گل و لالہ‘ افسانوی مجموعہ 1938 ہی میں انوار احمدی
پریس، الہ آباد سے شائع ہوا۔ اس میں کل 13 افسانے شامل ہیں۔
1941
میں مجموعہ ’شب نامچے‘ کے
عنوان سے انوار احمدی پریس، الہ آباد سے شائع ہوا۔ اس میں افسانوں کی تعداد 22
ہے۔ جنسی موضوعات پر لکھے گئے افسانوں میں رنگینی ضرور ہے مگر فحاشیت بالکل نہیں۔
تمام افسانے جنسی، معاشرتی اور اخلاقی قدروں کے انحطاط سے انحراف کرتے ہیں۔
مجموعہ ’عورتوں کے افسانے‘
1941 میں مکتبہ جدید، لاہور سے شائع ہوا۔ اس میں پندرہ افسانے شامل ہیں، جن میں
خواتین کے وقار اور ان کی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ عورتوں کی شناخت کے مختلف
پہلوئوں کو قلم بند کر کے دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
مجموعہ’’رنگین سپنے‘ نفیس بک
ڈپو، حیدر آباد سے 1941 میں شائع ہوا۔ اس میں آٹھ افسانے شامل ہیں۔
1944
میں مجموعہ ’لیل و نہار‘
(فسانۂ عجائب جدید افسانوی لباس میں) انوار احمدی پریس، الہ آباد سے شائع ہوا۔
مصنف نے ’فسانۂ عجائب ‘ کو جدید افسانوی قالب عطا کیا ہے۔ ’فسانۂ عجائب‘ کی ادبی
حیثیت سے انکار ممکن نہیں لیکن کوثر چاند پوری نے اس شاندار داستان کو یاد گار بنا
دیا ہے۔
1944
میں مجموعہ ’اشک و شرر‘ کے
عنوان سے دارالبلاغ، لاہور سے شائع ہوا۔ ان افسانوں کا انداز تحریر شگفتہ، اسلوب
دلکش ہے اور پریم چند کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مجموعہ ’شعلۂ سنگ‘ ہمدرد
اکیڈمی، کراچی سے 1963 میں شائع ہوا۔ اس
میں 18 افسانے شامل ہیں۔
1963
میں نسیم بک ڈپو، لکھنؤ سے
شائع ہونے والے مجموعے ’رات کا سورج‘ میں 29 افسانے شامل ہیں۔
’آوازوں کی صلیب‘ کو حلقۂ فکر و شعور دہلی نے 1973 میں
شائع کیا۔ اس مجموعے میں شامل افسانوں کی کل تعداد اٹھائیس ہے۔ ’آوازوں کی صلیب‘
پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی ادیب انور سدید لکھتے ہیں:
’آوازوں کی صلیب‘ ان کے اٹھائیس افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اور اس میں وہ قاشیں جمع
کی ہیں جن پر دوسرے افسانہ نگاروں کی نظر نہیں پہنچ سکی۔ ’میرا پیشہ‘، ’قلزم خون‘،
’قلم الٰہی‘، ’دودھ کی شیشی‘، ’لذت سنگ‘ وغیرہ چند ایسے افسانے ہیں جنھیں بہت عرصے
پہلے میں نے مختلف رسائل میں پڑھا تھااور کوثر چاند پوری کا نام آتے ہی لوح دماغ
پر اتر آئے ہیں۔‘‘
(اوراق، لاہور، اپریل 1975، ص 35)
اس طرح 1929 سے 1973 تک ان کے
افسانوی مجموعوں کی تعداد چودہ (14) ہوجاتی ہے۔ ان کے ریڈیائی افسانوں کو بھی بہت
پسند کیا گیا۔ ان کے فرزند نعیم کوثر صاحب کا (کوثر چاند پوری کی ڈائری کے حوالے
سے) کہنا ہے کہ انھوں نے تقریباً تئیس سال تک آل انڈیا ریڈیو سے اپنی کہانیاں
سنائیں جو 75 کے قریب ہیں۔ دہلی منتقل ہونے کے بعد خارجہ سروس میں کئی افسانے براڈ
کاسٹ ہوئے۔ جن کی پسندیدگی پر بے شمار خطوط ریڈیو اسٹیشن کو موصول ہوئے تھے۔ بقول
ڈاکٹر نازنین خان:
’’ہمدرد صحت دلی میں 1926 سے پچاس سال آگے تک کوثر چاند
پوری کے 435 افسانے شائع ہوئے۔‘‘
(وقار علم و حکمت، کوثر چاند پوری، ص 71)
کوثر چاند پوری نے زندگی کو
بہت قریب سے دیکھا اور اس کے تئیں ان کا رویہ ترقی پسندانہ رہا۔ ترقی پسند فکر کی
قربت اور اثر کی صورت جو کوثر چاند پوری کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے، وہ پریم چند
کے اثر سے ہندوستانی گائوں اور دیہاتی زندگی سے حاصل کردہ افسانوی مواد ہے جس کو
وہ بڑی ہنر مندی سے استعمال کرتے ہیں۔ وہ کبھی کسی مخصوص ادبی نظریے کے قائل نہیں
رہے۔ نہ کسی ادبی گروہ میں شامل ہوئے۔
کوثر چاند پوری کے افسانوں میں
پلاٹ عموماً بہت مختصر ہوتا ہے۔ کردار انتہائی شریف اور نیک یا انتہائی بدباطن۔
مثلاً افسانہ ’بھٹکا ہوا خط‘ کا کردار عبداللہ خاں اور افسانہ ’چھوٹی آنکھیں‘ کا
کردار شیخ منیر میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ کمال بیگ افسانہ ’چھوٹی آنکھیں‘،
منگلا افسانہ ’نچلی منزل‘، حمیدن بوا افسانہ ’حیوان کی پگڈنڈی‘، کریم افسانہ ’بابا
کریم‘کے ایسے کردار ہیںجن میں کوئی برائی کوئی عیب نہیں۔ واقعات اچانک تبدیل
ہوجاتے ہیں۔ افسانوں کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں کہیں
ضروری باتوں کو سمیٹ کر کہتے ہیں اور غیر ضروری مقامات پر تفصیل سے چلے جاتے ہیں۔
جس سے افسانوں کی تاثیر دھندلا سی جاتی ہے۔
کامیاب افسانے کی ایک خوبی
اختصار بھی ہے۔ بنیادی کردار یا تاثر ابھارنے کے لیے جتنا کچھ کہنا ضروری ہو اس کے
علاوہ کوئی بھی غیر ضروری جملہ افسانے کی خامی میں گنا جاتا ہے۔ کوثر چاند پوری کے
افسانے پڑھتے وقت بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ قلم پر ان کا قابو نہیں رہ جاتا اور
افسانہ طوالت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اکثر افسانوں میںاتنے مسائل زیر بحث آئے ہیں کہ
افسانے کا مرکزی خیال مجروح ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں ’چہرہ‘، ’بھٹکا ہوا خط‘، ’ٹھیلے
والے‘، ’دھندلا پرچم‘، ’کیلے کا چھلکا‘ اور ’نچلی منزل‘ وغیرہ افسانوں کی مثال دی
جاسکتی ہے۔ اسی قسم کی کوشش افسانہ ’دنیا کی حور‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ 101 صفحات
پر مشتمل افسانے میں کئی مسائل، واقعات اور بہت سے کرداروں کو متعارف کرانا اور
بہت کچھ کہنے کی کوشش مختصر افسانہ نہیں بن سکتی بلکہ میری نظر میں اس کو Novellete (ناولٹ
یا ناولچہ) کہا جاسکتا ہے۔
کوثر چاند پوری نے اپنے قلم پر
کسی قسم کا لیبل نہیں لگایا۔ انھوں نے جاگیر دار، جمع دار، مستری، غنڈے، تانگے
والے، مکان مالک، باورچی، موٹر ڈرائیور، وزیر، ملازمت پیشہ، ڈاکٹر، بے کار نوجوان،
ٹھیلے والے مہاجر اور اسی قسم کے نہ جانے کتنے کردار ڈھالے ہیں۔ موضوعات کی بھی ان
کے پاس کمی نہیں ہے۔ اپنی بات بے باکی سے وضاحت کے ساتھ کہنے پر قادر ہیں۔ زبان و
بیان کی غلطیاں نہیں بے عیب اور شگفتہ نثر کا نمونہ سامنے آتا ہے۔ حکمت کے پیشے
سے ان کی وابستگی کے طفیل کچھ ایسے تجربات میں قاری کی شرکت ہوجاتی ہے جو اپنے
اندر لطف و لذت کی کیفیت کے ساتھ درد و کسک بھی رکھتے ہیں۔ ’ید بیضا‘، ’ریزے ہی
ریزے‘، ’سسٹر‘، ’مہکتا نوٹ‘، ’بھٹکا ہوا خط‘، ’گنڈا سنگھ‘ اور ’خون کی قیمت‘ جیسے
افسانوں میں طبی نکات دلچسپ انداز میں اجاگر کرتے ہیں۔ تشبیہات کی اختراع اور منظر
کشی پر بھی ان کو عبور حاصل ہے۔ جن کی مثالیں افسانے ’چھوٹی آنکھ‘، ’بھٹکا ہوا
خط‘، ’ہوں ہوں ہنگا‘، ’کیلے کا چھلکا‘، ’اندھیرے میں روشنی‘، ’حصار‘ اور ’جنم‘ میں
ملتی ہے۔ ان کے افسانوں کی انھیں خوبیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر مظفر حنفی
لکھتے ہیں:
’’زبان و بیان پر ان کی استادانہ گرفت، پھر نادر تشبیہات
گھڑنے کی قدرت، منظر کشی کا یہ سلیقہ، جزئیات نگاری کا یہ کمال، سماج کے ہر اونچ
نیچ کو دیکھتے رہنے والی نگاہ اور مدتوں کے فنی ریاض کی عطا کردہ یہ چابک دستی
کوثر چاند پوری کو ہمارے عہد کا اہم افسانہ نگار بنانے کے لیے کافی ہے۔‘‘ (پروفیسر مظفر حنفی،طب یونانی اور اردو زبان و
ادب، ص 104)
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کوثر
چاند پوری کی افسانہ نگاری کی عمر نصف صدی سے زائد ہے۔ ان کی کہانیوں میں افسا
نویت بھی ہے اور عصریت بھی۔ افسانوں کے کردار جس نوع کے ماحول میں پلتے بڑھتے اور
سانس لیتے نظر آتے ہیں اور اپنے عہد کے مزاج اور طبعی میلان کی جس طرح نمائندگی
کرتے ہیں ان کی مدد سے اس عہد کی ذہنی و جذباتی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔
پروفیسر نعمان خاں کوثر چاند
پوری کے ناولوں اور افسانوں کے تعلق سے رقم طراز ہیں:
’’کوثر صاحب قصہ گوئی کے فن پر مکمل عبور کھتے ہیں۔ وہ ادب
برائے ادب کے قائل نہیں بلکہ ان کے ناولوں اور افسانوں میں حقیقی زندگی کی جھلکیاں
نظرآتی ہیں۔ انھوں نے ایک ماہر نباض کی طرح سماجی مسائل کو موضوع بنا کر بطور
علاج ان کا حل پیش کرنے کی سعی کی ہے۔‘‘
(بھوپال میں اردو انضمام کے بعد، ص 143)
Dr.
Shadab Tabassum
23/14,
Zakir Nagar, Okhla
New
Delhi - 110025
Mob.:
9999149012
Email.:
shadabtabassum46@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں