پروفیسر حنیف کیفی (محمد حنیف قریشی) 8 ستمبر 1934 کو اس دنیا میں تشریف لائے اور 27 جنوری 2021 کو صبح ساڑھے دس بجے (ہولی فیملی اسپتال، دہلی) ہم سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
یہ نظامِ الٰہی ہے کہ اس دنیا
میں جو بھی آیا ہے اسے ایک دن ملک عدم کی طرف مراجعت بہرحال کرنی ہے۔
میں شعبۂ اردو جامعہ ملیہ
اسلامیہ، دہلی پی ایچ ڈی کی غرض سے 1993 میں آیا تھا۔ پروفیسر حنیف کیفی کی صدارت
کا وہ آخری سال تھا۔ مشہور ادیبہ محترمہ قرۃ العین حیدر بھی اس وقت شعبۂ اردو کو
تفویض کردہ خان عبدالغفار خاں چیئر سے وابستہ تھیں۔ بعد میں اسی چیئر سے مشہور
ادیب ونقاد جناب شمس الرحمن فاروقی بھی وابستہ رہے۔ خیر، میرا رجسٹریشن ہوگیا، میں
شعبۂ اردو سے ایک ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے باضابطہ وابستہ ہوگیا۔ مجھے یوجی سی
سے جونیئر فیلوشپ (JRF) جاری ہوگئی۔ پروفیسر شمیم حنفی میرے مقالے کے نگراں مقرر
ہوئے۔
درمیان میں 1996 میں پی ایچ ڈی
ادھورا چھوڑ کر میں نے دربھنگہ میں ایک ہائی اسکول (بلور، منی گاچھی) جوائن کرلیا۔
پھر بہ وجوہ 1997 میں واپس دہلی آگیا۔ کیفی صاحب کو دیکھتا کہ وہ شعبۂ اردو کے
سارے پروگرام میں نہایت ہی پابندی اور سنجیدگی سے شرکت فرماتے اور اسی طرح پابندی
کے ساتھ کلاسس لیتے۔ میں نے انھیں اکثر شور شرابے اور ہنسی مذاق کی بے تکلف محفلوں
سے تقریباً کنارہ کشی کرتے ہوئے ہی دیکھا۔ ممکن ہے کہ کچھ ان کے بے حدبے تکلف دوست
ہوں جن سے پرمذاق و پرمزاح لمحے بانٹتے ہوں حالاں کہ ان کے شعبے کے کئی معاصر
ساتھیوں سے بھی ان کے بارے میں کچھ یہی تاثرات سنے ہیں۔ ان کے بارے میں صغریٰ مہدی
صاحبہ لکھتی ہیں:
’’کیفی صاحب جب شعبے میں تھے تب بھی بس کلاسیں لینے آتے۔
شعبے کی تقریبوں میں شرکت کرتے، جو کام سپرد ہوتا وہ کرتے مگر زیادہ وقت بیٹھ کر
گپیں کرنا انھیںپسند نہیں۔‘‘
(بحوالہ حنیف کیف: ذات اور جہات، 2011، ص 50)
شخصیت اور سیرت کی تفہیم و
تعبیر کے لیے اتنی باتیں بھی کافی ہوسکتی ہیں۔ لکھنے کو تو بہت کچھ لکھا جاسکتاہے۔
ان کی شخصیت کی ایک جہت یہ بھی رہی ہے کہ وہ کوئی بھی علمی کام دقت نظری اور شد و
مد کے ساتھ کرتے تھے، لیکن اگر طبیعت آمادہ نہیں تو پھر مجال ہے کہ کوئی ان سے
کچھ لکھوالے۔ لکچرر تو وہ 1972 ہی میں ہوگئے تھے لیکن انھوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ
دوران ملازمت ہی (1980) پروفیسر گوپی چند نارنگ کی نگرانی میں تحریر کیا تھا۔
پروفیسر نارنگ نے کیفی صاحب کے بارے میں لکھا ہے:
’’کیفی صاحب بلا کے کاہل اور سست قلم کار ہیں، تاہم جب
لکھنے پر آتے ہیں تو جی لگا کر اور ایسا ٹھوک بجا کر لکھتے ہیں کہ کوئی حرف نہیں
رکھ سکتا...‘‘ (ایضاً، ص 42)
کیفی صاحب نے گرچہ کم لکھا مگر
حقیقت یہی ہے کہ ان کی کتابوں، ان کے مضامین اور ان کے تبصروں میںایک طرح کی پختگی
اور صلابت نظر آتی ہے۔ انھوں نے ایم اے کے لیے اردو میں سانٹ نگاری پر مقالہ
تحریر کیا تھا، لیکن اس کا معیار کسی بھی پی ایچ ڈی کے مقالے سے کم نہیں۔ اسی کے
ساتھ ان کی کتاب ’اردو میںنظم معرا اور آزاد نظم‘ کے بارے میںیہ بات بڑے ہی وثوق
کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس موضوع پر برصغیر میں اب تک اس سے بہتر اور معیاری کام
منظرعام پر نہیں ا ٓسکا ہے۔ آل احمد سرور نے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا تھا:
’’حنیف کیفی کا یہ علمی و ادبی کام اس موضوع پر اب تک سب
سے اچھا کام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے ذریعے سے ہمارے پڑھنے والوں کو نظم معرا
اور آزاد نظم کی خصوصیات اور امکانات کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔‘‘
پروفیسر گیان چند جین نے تو یہ
تک کہا تھا کہ یہ مقالہ ڈی لٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آل احمد
سرور اور گیان چند جین یا گوپی چند نارنگ — یہ سب اردو کی وہ مقتدر شخصیتیں ہیں جن
کا ایک ایک لفظ سند کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا، کیفی صاحب کی تحقیقی و تنقیدی
نگارشات کے حوالے سے مذکورہ بالا عمائدین نقد و ادب کی جو آرا ہیں ان سے یہ
اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیفی صاحب ایک عمدہ اور بلند پایہ محقق اور نقاد تھے۔ البتہ
ان کی کم آمیزی اور ان کے کم لکھنے کے سبب عام شائقین ادب ان کی نگارشات (نثری و
شعری دونوں) تک کما حقہ نہیں پہنچ سکے لیکن اردو ادب کا سنجیدہ طبقہ ان کی تحریروں
سے واقف بھی ہے اور ان سے استفادہ بھی کرتا ہے۔ جہاں تک ان کی کتاب ’اردو میںنظم
معرااور آزاد نظم‘ کا سوال ہے تو یہ کتاب اپنے موضوع پرحوالے کی واحد اہم اور
معیاری کتاب ہے۔ اس کتاب میں تحقیقی اعتبار سے بھی کئی طرح کے رائج تسامحات اور
غلط فہمیوں کا ازالہ ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ اردو میں اسٹنزا فارم کی
ابتدا نظم طباطبائی کی نظم ’گور غریباں‘ سے ہوئی جو کہ ٹامس گرے کی نظم Elegy Written in a
Country Churchyard کا منظوم
ترجمہ ہے۔ کیفی صاحب نے اپنی تحقیق میں یہ واضح کیا ہے کہ:
’’یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اردومیں اسٹنزا
فارم ’اب اب‘ کی ابتدا برج موہن دتاتریہ کیفی کی نظم ’ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جبلی
پر‘ سے ہوئی اور اس سلسلے میں نظم طباطبائی کی اولیت کا خیال غلط فہمی پر مبنی ہے۔‘‘
دتاتریہ کیفی کی نظم 1887 کی
ہے جب کہ نظم طباطبائی نے ٹامس گرے کی نظم کا ترجمہ 1897 میں کیا تھا۔ اسی طرح
اردو میں سانیٹ کے حوالے سے بھی انھوں نے کئی نوع کے تحقیقی انکشافات کیے ہیں۔ ان
کے علمی و تحقیقی شغف اور تنقیدی شعور نے شعر و ادب کی سچی تفہم و تعبیرکے دروازے
کھولے ہیں۔ کیفی صاحب کو انگریزی ادب سے بھی خاصا شغف رہا تھا۔ وہ انگریزی کے
استاد رہ چکے تھے۔ یوں بھی ان کی کتاب ’اردو میں سانٹ‘ یا ’نظم معرا اور آزاد
نظم‘ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انگریزی زبان و ادب سے بخوبی واقف تھے اور ذہنی
ہم آہنگی بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے انگریزی میں 9 مضامین لکھے تھے جو ساہتیہ
اکادمی دہلی سے شائع ہونے والے Encyclopedia of Indian Literature میں شامل ہیں۔ اسی طرح ان کی کتابوں میں ان کے مضامین کا مجموعہ ’تنقید و
توجیہ‘ بھی اہم ہے۔ لیکن اس کتاب کے حوالے سے کم گفتگو ہوئی۔ ’نظم معرا اور
آزادنظم‘ والی کتاب پر بہت کچھ لکھا گیا اور یہ کتاب مختلف دانش گاہوں کے نصابات
میں شامل ہے۔ اس لیے اس کتاب سے اردو کے بیشتر اساتذہ اور طلبہ واقف ہیں۔ مناسب
معلوم ہوتا ہے کہ ’تنقید و توجیہ‘ پر تھوڑی سی روشنی ڈال دی جائے۔
’تنقید و توجیہ‘ میں کل بیس مضامین ہیں، جن میں ادب،
شاعری اور مسائل کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ امیر خسرو کے بارے میں پروفیسر کیفی
نے ان کی جامع الکمال اور کثیرالجہات شخصیت پران کے ہندوی کلام کی روشنی میں اظہار
خیال کیا ہے۔ امیر خسرو کے ہندوی کلام کے بارے میں کئی طرح کے اختلاف ہیں۔ پروفیسر
کیفی نے بڑی خوبصورتی سے ان اختلافات پر تبصرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’استناد کے مسئلے اور لسانی اختلافات سے قطع نظر ایک عام
قاری اور ادب کے طالب علم کے لیے خسرو کے ہندوی کلام میں خاصی دلچسپی کا سامان
موجود ہے... اس میں جو ذہانت و فطانت، طباعی و صناعی اور مشاقی و قادرالکلامی پائی
جاتی ہے اس کا اگر بھرپور تنقیدی تجزیہ کیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ اس سے بھی خسرو
کے ہندوی کلام کے استشہاد و استناد کا پہلو نکل آئے۔‘‘ (ص16)
غالب کی خودتشہیری اور یگانہ:
غالب شکن یا معتقدِ غالب بہت اہم ہیں۔ مرزا غالب کی شخصیت اور شاعری کے جتنے گوشے نکالے گئے شاید اردو کے کسی دوسرے
شاعر کے یہاں یہ ممکن بھی نہیں تھا۔ ان کی شخصیت ہمیشہ دو متضاد Polesکے
درمیان رہی۔ ہر ایک نے غالب کو اپنے اپنے زاویے سے دیکھا۔ یہ بات کہی جاتی ہے کہ
مرزا غالب بڑے خوددار اور باضمیر تھے۔ جناب حنیف کیفی نے اس بات کی تردید کی ہے۔
’غالب نامہ‘ (شیخ محمد اکرام) کے حوالے سے اپنی بات کی توثیق کرتے ہیں:
’’اور جب ہم اس واقعے کو ان کے قصائد کی روشنی میں دیکھتے
ہیں جن میں وہ عام مجسٹریٹوں اور معمولی متصدّیوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے
قلابے ملا دیتے تھے اور خوش آمد و تملق کا کوئی پہلو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔‘‘
(ص 74)
اوپر تو انھوں نے ’غالب نامہ‘
کا حوالہ دیا ہے لیکن خود بھی لکھاہے کہ:
’’وہ بزعم خود ہمیشہ دوسروں کو غلط، حقیر اور کمتر سمجھتے
رہے۔ جگہ جگہ ان کا اپنی نسبی عظمت اور خاندانی شان و شوکت کا اعلان ادبی نقطۂ
نظر سے غیرضروری سا ہے۔‘‘ (ص 75)
یہ درست ہے کہ غالب نے بحث و
تمحیص یا خطوط میں جھلّاہٹ کے ساتھ بقراطیت اور خودنمائی یا پھر یہ کہ ہم چنیں
دیگرے نیست‘‘ والی بات کا اظہار کیا ہے۔ مگر یہ سب بھی انسانی نفسیات سے تعلق
رکھنے والے امور ہیں۔ اگر نسبی عظمت کا اظہار غیرادبی ہے تو اس پر گفتگو بھی اس سے
متعلق نہیں ہوسکتی۔ چوں کہ غالب کو اپنے تئیں عظمت اور علمی تبحر کا بخوبی احساس
تھا، اس لیے تعلّی کا اظہار جا بہ جا کبھی اشعار میں کبھی گفتگو میں اور کبھی خطوط
میں ہوتا رہا ہے۔ یہ بھی انسانی نفسیات کا تقاضا ہے۔ پروفیسر کیفی نے غالب کے چند
فارسی اور اردو اشعار کی بنیاد پر انھیں خود کو مشتہر کرنے والا ثابت کیا ہے جو بحث
طلب ہے۔
’میرا جی اردو کا پہلا باغی شاعر‘ یہ ایک اہم اور دلچسپ
مضمون ہے۔ پروفیسر کیفی نے میراجی کی جرأت مندی پر توجیہات کی روشنی میں اظہار
خیال کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’میراجی کی یہ جرأت تو قابل داد ہے ہی کہ انھو ںنے اپنی
شاعری میںان مکروہ باتوں کے بیان کو جائز قرار دیا جو ابھی تک اردو شاعری کے لیے ممنوع تھیں۔ ان کا یہ کمال
بھی قابل تعریف ہے کہ انھوں نے ایک کریہہ منظر اور ایک قبیح فعل کو اپنے استعاراتی
بیان اور حرکی، بصری اور سمعی پیکروں کے ذریعے شاعری کا درجہ دے دیا۔‘‘ (ص 164)
اس ضمن میں انھوں نے میراجی کی
نظمیں لب جوئبارے، اونچا مکان، حرامی، دکھ دل کا دار و بطور مثال پیش کی ہیں۔ ساتھ
ہی ان کی فنی بصیرت کا تجزیاتی مطالعہ بھی کیاہے۔ اس طرح یہ مضمون بہت ہی اہم اور
معلوماتی ہوگیاہے۔ کیفی صاحب اپنی تنقید کے لیے بجا طور پر توجیہ پیش کرنے کی پوری
کوشش کرتے ہیں۔
’مولوی عبدالحق: خطبات کے آئینے میں‘ میں مصنف نے سلیس
زبان میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ مشکل عبارت آرائی آسان ہے جب
کہ آسان اور سہل عبارت لکھنا مشکل ہے۔ مولوی عبدالحق کے بارے میں یہ تسلیم کیا
جاتاہے کہ انھوں نے ہمیشہ ادق اور مغلق لفظیات سے اپنی نثر کو بچائے رکھا۔ واضح
رہے کہ پروفیسر کیفی نے یہ مضمون بابائے اردو کے خطبات کی روشنی میں لکھا ہے۔ اس
کے علاوہ کیفی صاحب نے میر، اقبال، فراق وغیرہ پر بہت ہی معیاری اور مختلف جہتوں
کو روشن کرنے والے مضامین لکھے ہیں۔
کیفی
صاحب کے تخلیقی وجدان پر تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔ اس لیے آئیے اب ان کی اس ادبی
جہت پر روشنی ڈالی جائے۔ وہ کہتے ہیں
؎
خطر کسی کو ہو کیا خود ضرر
رسیدہ ہوں
میں کج کلاہ نہیں ہوں اَنا
گزیدہ ہوں
جسے اپنی ذات کا ادراک ہو اور
جسے اپنی قوتِ فکر پر پوری طرح اعتماد ہو، وہی اس طرح کا شعر کہہ سکتا ہے۔ اس شعر
میں یہ بتایا گیا ہے کہ مجھ سے کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ میں
اَناگزیدہ ہوں اور اَناگزیدہ ہمیشہ اپنے لیے ہی ضرر رساں ہوتا ہے۔ پھر لفظ ’خطر‘
خلا میں تو وجود نہیں رکھتا۔ اس کا رشتہ بھی اس شعر میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی
لفظ سے ہوگا۔ دوسرے مصرعے میں ’کج کلاہ‘ آیا ہے۔ گویا ’کج کلاہ‘ سے ’خطر‘ ہوسکتا
ہے۔ لیکن میرا اپنا ماننا یہ ہے کہ کج کلاہی میں بھی اَنا گزیدگی کا عنصر ضرور
ہوتا ہے۔ یہ تو سچی بات ہے کہ جو شخص اس دنیا میں اپنی ’اَنا‘ کو اپنا رہبر اور
مشیر جانتا ہے، وہ ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے کیونکہ ایسا شخص سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔
وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جو لوگ مصلحت کوشی اور کاسہ لیسی سے کام لیتے ہیں وہ
کامیاب و سرفراز ہوتے ہیں۔ اَناپرست زندگی میں ہر موڑ پر گھاٹے کا سودا کرتا ہے۔
حنیف کیفی کی غزلوں میں ان کے اَنا گزیدہ ہونے کی نشانیاں نظر آجاتی ہیں۔ ان کا
وجود ہمیشہ ہی دنیا اور افرادِ دنیا سے متصادم نظر آتا ہے ؎
بڑھتا جاتا ہے تصادم ٹوٹتا
جاتا ہوں میں
میرا عالم مختلف، ماحولِ دنیا
مختلف
زمانہ مصلحت اندیش اور ہم سادہ
دل کیفی
زمانے سے نبھانے کا کہاں سے اب
ہنر آئے
اس تصادم میں طوفان بھی اٹھتا
ہے کیونکہ فطرتِ انسانی عام فطرت سے ذرا مختلف ہوتی ہے۔ اَناپرست اور اَناگزیدہ
شخص دنیا یا اہلِ دنیا سے مرعوب نہیں ہوتا۔ اَنا کی فطرت میں خموشی بھی ہے اور
طوفان برپا کرنے کی صلاحیت بھی۔ حنیف کیفی کی غزلوں میں اس نوع کے اشعار مل جاتے
ہیں ؎
ہنگامہ طلب فطرت کب چین سے
بیٹھی ہے
طوفان کچھ اٹھے ہیں کچھ ہم نے
اٹھائے ہیں
سچ بول کے جذبات کا رخ موڑ دیا
ہے
یہ آئینہ کیسا ہے کہ دل توڑ
دیا ہے
اس دنیا میں سچ بولنا ایک طرح
سے اپنے آپ کو موردِ الزام ٹھہرانا ہے۔ لیکن جسے اَنا کا پاس ہوتا ہے وہ کبھی سچ
کا دامن نہیں چھوڑتا۔ اس کی زندگی، اس کی شاعری، اس کی سوچ اور اس کے سارے کام
اَنا کی زد پر ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی دنیا طلبی میں اَنا کا خون بھی ہوتا ہے اور
خودداری مجروح بھی ہوتی ہے۔ دنیا کو آئینہ دکھانے والا اَناپرست کبھی کبھی پس و
پیش کی حالت میں ہوتا ہے۔ کیفی صاحب پر بھی کبھی کبھی یہ حالت طاری ہوتی ہے۔ لیکن
سچا فنکار اس کشمکش کی حالت کو پوشیدہ نہیں رکھتا۔ کہتے ہیں ؎
ہے دامن گیر دنیا کی طلب بھی
مجھے کیفی اَنا کا پاس بھی ہے
سر جھکانا بھی گوارا نہیں مشکل
ہے یہی
سر اٹھائے ہوئے چلنا مری عادت
بھی نہیں
میں نے ابھی اوپر ذکر کیا تھا
کہ سچ بولنے کا مطلب ہے خود کو موردِ الزام ٹھہرانا اور دنیا سے پتھر کھانا۔ صدائے
حق کی گونج کبھی کبھی دب کر رہ جاتی ہے۔ اس پس منظر میں آپ غور کریں کہ حنیف کیفی
کس طرح اپنے احساس کو پیش کرتے ہیں ؎
حرفِ حق حرفِ غلط کرنے کو آئے
پتھر
میں نے سچ بول کے ہر دور میں
کھائے پتھر
رخ موڑنے چلا تھا میں سیلابِ
وقت کا
میری اَنا کی موج مجھے ہی ڈبو
گئی
آج کے تناظر میں دیکھیں تو
پتھر کھانے کے لیے ’حرفِ حق‘ بولنا ضروری نہیں۔ یوں بھی سنگباری جاری ہے اور
انسانیت ہے کہ مسلسل کچلتی اور لہولہان ہوتی جارہی ہے۔ شعورِ انسانی جیسے زنگ
آلود یا فالج زدہ ہوگیا ہے لیکن خیر، کیفی صاحب نے ایک عام اصول کے پس منظر میں
مذکورہ بالا شعر کہا ہے۔ ان کے نزدیک تو جیسے ان کی اپنی ذات ہی مثلِ دیوار حائل
ہے، جو حدِ فاصل بھی ہے۔ ایک ہی غزل کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
مٹے جو یہ حدِ فاصل تو آپ تک
پہنچیں
ہمارے بیچ میں حائل ہے ذات کی
دیوار
اَنا اَنا کے مقابل ہے راہ
کیسے کھُلے
تعلقات میں حائل ہے بات کی
دیوار
بات کی دیوار تو ایسی ہوتی ہے
کہ آسانی سے منہدم نہیں ہوسکتی جیسے کہ بات کا زخم بھی آسانی سے مندمل نہیں ہوتا۔
فیض کا شعر یاد آتا ہے:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا
ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری
ہے
یہی وہ ’بات‘ ہے جو ’دیوار‘
میں متشکل ہوجاتی ہے۔ پھر تو اپنی ہی دیوار سے اپنی آواز ٹکرا کر واپس آتی ہے،
اور کبھی کبھی آدمی متحیر بھی ہوجاتا ہے۔ حنیف کیفی کو یہ آواز اپنی کھوئی ہوئی
اور مبہم سی آواز معلوم ہوتی ہے ؎
یہ کہیں میری ہی کھوئی ہوئی
آواز نہ ہو
ایک مبہم سی جو آتی ہے صدا
میری طرف
جب ’اپنی ذات‘ اور ’وہ بات‘
دیوار بن جائے تو آدمی بس بھٹکتا پھرتا ہے۔ اپنی تلاش مشکل ہوجاتی ہے۔ انہوں نے
پہلے بھی کہا ہے کہ ’’ہمارے بیچ میں حائل ہے ذات کی دیوار‘‘، اور پھر کچھ ایسی ہی
بات کہتے نظر آتے ہیں ؎
قدم قدم پہ اَنا سدِّراہ تھی
کیفی
ہم اپنے سامنے دیوار بن کے خود
آئے
روک دیتی ہے اَنا کیفی مرے
بڑھتے قدم
کوئی کیا میں خود ہی اپنے
پاؤں کی زنجیر ہوں
ہوئے اَنا کے دکھاوے سے لوگ
سرافراز
اَنا نے سر کو اٹھا کر کیا
ہمیں پامال
اس صورتِ حال میں دم گھٹتا
محسوس ہوتا ہے۔ مابعد الطبعیاتی افکار کے حامل شعرا کا، ہوسکتا ہے، دم بحال رہتا
ہو لیکن جس شاعر کی فکر ارضی اور اندازِ تخاطب ارضی ہو، اس کے لیے اپنی ذات میں یا
اپنی ذات کی دیوار میں محصور ہوجانا ایک کرب آمیز اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔
چشمِ ادراک کی فسوں کاری بھی کبھی کبھی ساتھ نہیں دیتی یا کام نہیں آتی۔ شاعری تو
خود ہی فسوں کاری کا عمل ہے۔ کیفی صاحب کی شاعری کسی عصر یا کسی عہد کی تاریخ کو
پیش نہیں کرتی۔ ان کے اندر ایک صلاحیت ہے کہ وہ اپنے خارجی اور داخلی احساسات و
عوامل کو ہم آمیز کرکے اپنے تخلیقی وجدان کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک
ایسا عمل ہے جس پر شعری کائنات اپنی اساس قائم کرتی ہے۔ ان کا لہجہ بھی پُراثر اور
غیرمعروضی ہوتا ہے۔ ’’غیرمعروضی‘‘ پر، ہوسکتا ہے، کچھ لوگ چونک پڑیں۔ مجھے یہ کہنے
میں ذرا بھی تامل نہیں کہ جہاں تحقیق و تنقید میں معروضیت اپنی اہمیت رکھتی ہے اور
اس کا مثبت اثر ہوتا ہے، وہیں یہ معروضیت شاعری میں منفی رول ادا کرتی ہے۔ شاعری
کا تعلق احساسِ لطیف سے ہوتا ہے اور احساسِ لطیف کو معروضیت سے کوئی سروکار نہیں
ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ہم شاعری میں معروضیت کی تلاش کرلیتے ہیں تو ایک طرح کی
خوشی بھی ملتی ہے۔ معروضیت کا گزر شاعری میں اُسی حد تک ہوسکتا ہے کہ احساسِ لطیف
مجروح نہ ہو جیسے حنیف کیفی کے اس شعر میں معروضیت کے ہوتے ہوئے احساسِ لطیف سالم
و ثابت ہے ؎
بھری زمین کھلا آسمان میرا
تھا
جواں تھا دل تو یہ سارا جہان
میرا تھا
کہتے ہیں کہ محزونیت شعر میں
اثرانگیزی پیدا کردیتی ہے۔ اس محزونیت کے لیے آدمی کو اَناگزیدہ ہونا اور خود سے
متصادم ہوتے رہنا ضروری ہے۔ ملاحظہ کیجیے چند اشعار:
آئی نہ سہارے کو اک آواز
شناسا
میں ڈوب گیا اپنی صداؤں کے
بھنور میں
تیرگی میرا مقدر وہ گریزاں اس
سے
میرا سایہ مری ہستی سے جدا ہو
جیسے
یہ اک طرفہ تعلق مستقل وجہِ دل
آزاری
میں سب کو یاد رکھتا ہوں، مجھے
سب بھول جاتے ہیں
کیفی صاحب نے رباعیاں بھی کہی
ہیں اور نظمیں بھی، سانیٹ اور ہائیکو (بائیں ہاتھ کا کھیل) کہے ہیں اور بچوں کے
لیے بھی نظمیں کہی ہیں۔ یعنی ان کی تخلیقیت کا ایک وسیع تناظر ہے۔ بچوں کے لیے کی
گئی ان کی شاعری کامجموعہ ’بچپن زندہ ہے مجھ میں‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔ کیفی
صاحب کی تمام شعری و نثری نگارشات کا محاکمہ کیا جانا چاہیے تاکہ اردو ادب کے
منظرنامے پر ان کی ایک واضح تصویر ابھر سکے۔ ان کی اس رباعی پر اپنی بات ختم کرتا
ہوں ؎
ابلیس کا بیکار عمل جائے گا
خود آگ میں اپنی ہی وہ جل
جائے گا
کتنی بھی ہو باطل کی تمازت
کیفی
حق موم نہیں ہے کہ پگھل جائے
گا
Prof.
Kausar Mazhari
Dept
of Urdu, JMI
New
Delhi - 110025
Mob.:
9818718224
E-mail.:
kausmaz@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں