29/11/19

دبستانِ رامپور اور حیدرآباد، چند مشترک باتیں مضمون نگار: محمد الیاس



دبستانِ رامپور اور حیدرآباد، چند مشترک باتیں

 محمد الیاس
دبستان رامپور اپنی ادبی خدمات کے لیے مشہور ہے لیکن حیدرآباد کا نام ادبی خدمات کے سلسلے میں رامپور سے بھی پہلے لیا جاتا ہے  اردو کے ان عظیم مراکز کے درمیان بہت کچھ تاریخی حقائق مشترک ہیں۔فصیح الملک نواب مرزا خاں داغ کا رامپور سے حیدرآباد جانا اور وہاں ان کی قدردانی کی بہت سی روایات مشہور ہیں اور داغ کے انتقال کے بعد امیر  مینائی کے شاگرد رشید جلیل القدر حافظ جلیل مانکپوری کا نظام حیدرآباد کے یہاں شرف استاذی سے سرفراز ہونا اردو ادب کا ایک اہم باب ہے۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نوابین حیدرآباد کو دو اساتذہ رامپور سے ہی حاصل ہوئے۔حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ رامپور ایک چھوٹی سی ریاست تھی یہاں کی چہار دیواری میں رہ کر داغ کو وہ شہرت نہیں ملی جتنی حیدرآباد جاکر ملی۔اسی طرح جلیل مانکپوری کو بھی حیدرآباد جاکر بڑی قدر و منزلت حاصل ہوئی جو نظام حیدرآباد کی اردو نوازی اور اساتذہ کی قدر شناسی کی ایک مثال ہے۔ان کو حیدرآباد کے دو فرمانرواؤں (میر محبوب علی خاں اور میر عثمان علی خاں) کی استاذی کا شرف حاصل ہوا۔ اردو شاعری میں امیروداغ کا زمانہ اردو شاعری کا جزوِ لا ینفک دور ہے ان کے بعد تلمیذ امیر، جلیل مانکپوری نے ان دونوں اساتذہ کی روایات کوآگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیااور دکن میں اردو شاعری کے ساتھ اردو صحافت کے فروغ میں ان کا ہم ترین حصہ رہا۔
امیر وداغ کے درمیان انتہائی دوستانہ تعلقات تھے،دونوں ایک دوسرے کے بے حد قدر شناس اور مداح تھے اگر چہ رامپور میں داغ کا رنگ زیادہ پسندیدہ تھا۔ ایک طرف تو داغ کی رنگین مزاجی اور دوسری طرف ان کی فصاحت لہٰذا عوام و خواص دونوں ان کے دلدادہ تھے۔ داغ کے کلام میں لوگوں کو اپنے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی تھیں اسی وجہ سے لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے میں وہ داغ سے آگے بڑھ گئے۔
امیر رامپور میں لکھنوی زبان کی نمائندگی کرتے تھے،جبکہ داغ کا دعویٰ تھا کہ اردو جس کانام ہے اسے صرف ہم دلّی والے ہی جانتے ہیں لہذا یہ دونوں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بھی کوشش کرتے تھے اور اس مسابقت میں ایسے اشعار اردو کے دامن میں آگئے جو اردو کے لیے تو عظیم سرمایہ ہیں ہی دبستان ِ رامپور کے لیے بھی باعثِ فخر ہیں،جیسے       ؎
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اس میں ’ہمیں‘سے مراد دلی والے اور ’ہماری زبان‘سے مراد دلی میں استعمال ہونے والی زبان سے ہے لیکن اب شعر کے معنی و مفہوم میں بھی وسعت آچکی ہے اور اس کو ایک آفاقی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور اس کے مصرعہ ثانی کو لوگ اس طرح پڑھتے ہیں۔
”سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے“
اس شعر کے جواب میں امیر مینائی نے کہا تھا       ؎
دعویٰ زباں کا لکھنؤ والوں کے سامنے
اظہارِ بوئے مشک غزالوں کے سامنے 
داغ کے چار دواوین میں سے دو یعنی ’گلزارِ داغ‘اور ’آفتاب داغ‘رامپور کے زمانہ قیام کی تصنیف ہیں مثنوی فریاد داغ بھی رامپور کی یادگار ہے۔’ماہتاب داغ‘اور ’یادگارِ داغ‘ کے کلام میں وہ چاشنی نہیں جو ان کے کلام کا طرہئ امتیاز ہے۔رام بابو سکسینہ نے چار شعرا کو رامپور کے قصرِ شاعری کا ستون قرار دیا ہے۔امیر، داغ، جلال اور تسلیم۔ان چاروں کے کلام منفرد انداز کے ہیں۔داغ کو حیدرآباد میں جن خطابات سے نوازا گیا ان میں سے ایک ’جہاں استاد‘ بھی تھا لیکن رامپور میں ان کی حیثیت جہاں استاد کی نہیں تھی کیونکہ جس قصر شاعری کے وہ ایک ستون تھے،امیر ،جلال اور تسلیم بھی تو اس قصر شاعری کے ستون ہی تھے جبکہ حیدرآباد میں ان کے ہم پلہ کوئی شاعر نہیں تھا۔ تمام ناقدین نے لکھا ہے کہ داغ کے کلام میں حیدرآباد جانے کے بعد وہ تأثر باقی نہیں رہا جو رامپور کے زمانہ قیام کے دوران تھا۔داغ نے خود کہاتھا     ؎
”جتنے تجربات مجھے رامپور کے زمانہئ قیام میں ہوئے کبھی نہیں ہوئے،رامپور نے میری شخصیت کو سانچے میں ڈھال دیا اور میرے سارے کس بل نکال دیے۔“  1 
شاید اسی وجہ سے حیدرآباد جانے کے بعد حسرت بھرے لہجہ میں داغ نے کہا تھا      ؎
اے داغ بہت دور ہے دکن سے رامپور
ملتے امیر احمد   و    سید  جلال سے
جبکہ دوسری طر ف رامپور میں امیر بھی داغ کی جدائی سے غمزدہ تھے     ؎        
کہاں ہم اے امیر اور اب کہاں داغ
وہ جلسے ہو چکے  ’خلد  آشیاں‘ تک
(خلد آشیاں سے نواب کلب علی خاں کی تاریخ وفات نکلتی ہے)
رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے :
”ان کا بہترین زمانہ ان کے قیام رامپور کا زمانہ کہا جا سکتا ہے جب سے کہ وہ حیدرآباد گئے اور وہاں ثروت و عیش ان کو نصیب ہوا شاعرانہ جگر کاوی اور محنت کے وہ عادی نہ رہے،مگر سچ یہ ہے کہ آخری فیصلہ کن چیز اس معاملہ میں نقاد کا رنگِ طبیعت اور رجحانِ مذاق ہے۔“ 2
23 مارچ 1887 کو نواب رامپور کلبِ علی خاں کا انتقال ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی رامپور میں اردو شعر وادب کے عہدِ زریں کا اختتام ہو گیا۔اس عہد میں کاملان فن جس طرح ریاست رامپور کا رخ کیا کرتے تھے اسی طرح یہاں شعر و ادب کی محفلوں کی رونقیں رفتہ رفتہ کم ہونے لگیں۔یہ عہدِ زریں ان کے والد نواب یوسف علی خاں کے مسند نشین ہونے یعنی 1855 سے شروع ہو کر 1887 میں ختم ہو گیا اور یہاں کے شعراو ادبا پھر ادھر ادھر بھٹکنے لگے۔رئیسِ رسولپور مولوی مہدی حسن شاداب کے نام ایک خط میں 19جولائی 1888 کو امیر مینائی نے لکھا تھا۔
”نواب مرزاخاں داغ سے کارخانہ اصطبل پہلے نکل گیا تھا فراش خانے کی موجودات وہ خود سمجھا کر مستعفی ہوئے۔استعفیٰ نا منظور اور رخصت دوماہ کی منظور ہوئی،کئی روز ہوئے کہ وہ بھی چلے گئے احتمال آنے کا ضعیف ہے،میں بھی نہایت دل برداشتہ ہوں۔معمولی وقت پر حسب حکم سرکار تسلیم گاہ میں جاکر تسلیم بجا لاتا ہوں۔“   3
داغ اس کے بعد رامپور نہیں آئے کچھ دنوں بعد نظام حیدرآباد میر محبوب علی خاں نے ان کو اپنے یہاں بلا لیا اور وہ ان کی دعوت پر حیدرآباد چلے گئے۔نصیر الدین ہاشمی نے لکھا ہے۔
”اس دور میں سلطنت آصفیہ نے اردو کی سرپرستی اس طرح بھی فرمائی کہ ہندوستان کے مشہور شعرا اور مصنّفین کو اپنے ملک میں طلب کر لیا ان کو ماہوار و منصب جاری فرمادی تاکہ یہ ارباب کمال اردو کے خزانے کو مالا مال کرتے جائیں۔اس زمرے میں سب سے پہلے جہاں استاد فصیح الملک،بلبل ہندوستان مرزا داغ دہلوی ہیں جو رامپور کو خیرباد کہہ کر یہاں متوطن ہو جاتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت غفران مکان آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں کی استادی کی عزت حاصل ہوئی اور خطاب فصیح الملک،بلبل ہندوستان،جہاں استاد سے بجا طور پر مفتخر کیے گئے،دوہزار روپیہ ماہوار تنخواہ قرار پائی ہے۔“3
جلیل مانکپوری، مضافات اودھ مانکپور کے رہنے والے تھے۔ امیر  مینائی کے چہیتے شاگرد تھے۔امیر مینائی کی ’امیر اللغات‘کی تدوین میں حتی الوسع امیر کا ساتھ دیا اور امیر نے اس سلسلے میں بیرون رامپور کے جو سفر کیے تھے ان میں بنارس اور بھوپال کے سفر میں امیر کے ساتھ رہے اور رامپور میں جو دفترامیر اللغات کی ترتیب کے لیے قائم کیا گیا تھا اس میں بھی ادارت کا فرض انجام دیا۔اس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ وہ نواب کلب علی خاں کے دور میں (1865 تا 1887)رامپور آئے تھے کیونکہ اسی دوران امیر نے بنارس اور بھوپال کے سفر کیے تھے اور والی بھوپال نواب شاہجہاں بیگم نے امیر اللغات کے لیے ان کی معاونت بھی کی تھی۔امیر  نے داغ کو خطوط کے ذریعے اس طرف متوجہ کیا کہ وہ نظام حیدرآباد کے دربار میں ان کی رسائی کے لیے راہ ہموار کریں۔
اتفاق سے جنوری 1900 میں نظام حیدرآباد میر محبوب علی خاں نے کلکتہ کا سفر کیا۔داغ بھی ان کے ساتھ تھے۔راستے میں بنارس میں قیام کے دوران داغ کی وساطت سے امیر نے نواب میر محبوب علی خاں سے ملاقات کی۔نواب صاحب کی شان میں ایک مسدس جو انھوں نے بنارس جاتے وقت راستے میں ہی کہا تھا،ان کو سنایا۔میر محبوب علی خاں نے امیر سے ساتھ ہی حیدرآباد چلنے کے لیے کہا تو امیر نے موسم گرما میں حیدرآباد پہنچنے کا وعدہ کر لیا لیکن وہ برسات کے موسم میں حیدرآباد جا سکے بھوپال ہوتے ہوئے 5 ستمبر 1900 کو حیدرآباد پہنچے۔ ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے لطیف احمد اور مسعود احمد، جلیل، تین دیگر افراد خاندان اور تین خدمت گار تھے۔ان کے بیٹے محمد احمد صریر رامپور میں ہی رہے۔وہ نواب حامد علی خاں کے استاد اور مصاحب خاص تھے۔لہذا رامپور میں ایک محلہ کوچہئ مینائیاں کے نام سے مشہور ہے جہاں امیر کے خاندان کے افراد سکونت پذیر رہے۔حیدرآباد پہنچنے پر امیرکی توقع سے زیادہ پذیرائی ہوئی۔حیدرآباد ریلوے اسٹیشن پر ان کا شاندار خیر مقدم کیا گیا۔آہ کو ایک خط میں امیر نے لکھا تھا:
”بھائی صاحب! 5 ستمبر کو 5 بجے شام حیدرآباد پہنچے۔یہاں پیشتر سے بذریعہ اشتہار ورود کی اطلاع ہو گئی تھی۔تمام اسٹیشن استقبال کرنے والوں سے بھراہوا تھا۔ اس درجہ مقبولیت کا ہر گز خیال نہ تھا جو ثابت ہوئی۔ مہاراجہ بہادر(بشن پرشاد)پیشکار، وزیر، افواج کی گاڑیاں  لیے ہوئے،پنڈت رتن ناتھ سرشار موجود تھے۔“ 5
حیدرآباد کے سفر کے دوران امیر نے کہا تھا     ؎
اب کے سفر وہ ہے کہ نہ دیکھوں گا پھر وطن
یوں تو  میں  لاکھ  بار  غریب الوطن ہوا
کیسی گھڑی تھی،گھر سے جو نکلا تھامیں غریب
پھر  دیکھنا  نصیب  نہ  مجھ  کو  وطن ہوا
لیکن امیر چونکہ رامپور سے ہی شدید علالت کی حالت میں روانہ ہوئے تھے بالآخر حیدرآباد پہنچنے کے 39 دن بعد 13/ اکتوبر 1900 کو انتقال ہو گیا۔ امیر کی زندگی کے 43 سال رامپور میں گزرے لیکن حیدرآباد کی خاک ان کا مقدر بنی۔زندگی کی تمام ترکوششوں کے باوجود 1886 میں مفید عام پریس آگرہ سے امیر اللغات کا نمونہ شائع ہوا تھا جس کو لے کر امیر نے بہت سے شہروں کا دورہ کیا اور اہل علم حضرات سے ملے تھے۔اور 1891 اور 1892 میں الف مقصورہ اور الف ممدودہ پر مشتمل دو جلدیں شائع ہو سکیں باقی یہ سارا ادبی سرمایہ ضائع ہو گیا۔ جبکہ امیر نے 8 جلدوں میں امیراللغات کو مکمل کر دیا تھا۔ حیدرآباد جاکر ان کے انتقال کے بعداس کی اشاعت کی رہی سہی امیدوں نے بھی دم توڑ دیا۔اس کا مسودہ بھی یکجا نہیں رہ پایا وہ بھی منتشر ہو گیا۔
ان کے علاوہ حیدرآباد جانے والوں میں مولوی احسن اللہ ثاقب، ممتاز علی آہ، وسیم خیرآبادی اور مضطر خیرآبادی تھے۔ آہ حیدرآباد کے ہی رہنے والے تھے اور استاد کے بلانے پر رامپور چلے گئے تھے لیکن جب خود امیر حیدرآباد آئے تو آہ  بھی حیدرآباد آ گئے اور امیر کے انتقال کے بعد انھوں نے حیدرآباد میں ہی امیر مینائی کی یادگار کے طور پر ایک کتاب’امیر مینائی‘ شائع کی تھی جس کے زیادہ تر صفحات میں امیر اور رامپور کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے اور غالب کی رامپور آمد کا بھی ذکر کیا گیا ہے یہ کتاب ادبیات رامپور کی ایک اچھی یادگار ہے۔1889 سے 1895 تک ممتاز علی آہ دفتر امیر اللغات کے سکریٹری رہے اور 1895 سے 1900 تک یعنی امیر کے قیام رامپور کے اختتام تک جلیل دفتر کے سکریٹری رہے۔
حیدرآباد میں مہاراجہ کشن پرشاد شاد (تلمیذ داغ) مدار المہام کی سرکار سے جلیل کے لیے سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر ہو گیا۔ 1905 میں جب داغ کا انتقال ہو گیا تو جلیل کو نظام حیدرآباد میر محبوب علی خاں کی استادی کا شرف حاصل ہوا اور ماہانہ وظیفہ سو روپے سے بڑھ کر پانچ سو روپے ہو گیا۔جلیل القدر کا خطاب عطا ہوا۔جب میر عثمان علی خاں آصف جاہ مسند نشین ہوئے تو ان کے استاد بھی جلیل ہی رہے اور انھوں نے اپنے استاد کو ’فصاحت جنگ بہادر‘ کے خطاب سے نوازا اور’امام الفن‘ کا لقب عطا کیا۔ ان کے علاوہ وہاں کے حکمراں خاندان کے افراد جو شاعری کا ذوق رکھتے تھے جلیل سے ہی اصلاح لیتے  تھے۔ ریاض،مضطر اور وسیم، تلامذہ امیر نے ان کو جانشین امیرقراردیا۔
نور الحسن ہاشمی نے لکھا ہے         ؎
”جلیل القدر نواب فصاحت جنگ بہادر جلیل جانشین حضرت امیرمرحوم کو ایک زمانہ جانتا ہے۔آپ کا کلام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1365ھ میں آپ کا حیدرآباد میں انتقال ہوا۔آپ کی شاعری نے دکن میں اردو کی ترقی میں جو کام کیے ہیں ان کے مد نظر آپ کے ذکرخیر کے بغیر یہ مضمون مکمل نہیں ہو سکتا۔“  6
نظام حیدرآباد میر محبوب علی خاں کی سرپرستی میں ’محبوب الکلام‘نام سے ایک ماہانہ گلدستہ شائع ہوتا تھا اور اس کے بعد(میر عثمان علی خاں کے) دورِ آصفی میں ’دبدبہ آصفی‘کے نام سے ایک ماہنامہ نکلتا تھا ان دونوں کی ادارت جلیل کے ذمے رہی۔رامپور میں نواب کلب علی خاں نے دبدبہ سکندری کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالنا شروع کیا تھا اور جب امیر اور جلیل نے رامپور سے رخت سفر باندھا جب بھی دبدبہ سکندری نکلتا تھا ممکن ہے اسی کے نام پر حیدرآباد سے دبدبہ آصفی نکالا گیا ہو۔ باضابطہ طور پر جلیل کو جانشین قرار دیا گیا لیکن داغ کے انتقال کے بعد اردو شاعری کے لیے جلیل کی بیش بہا خدمات رہیں اور خاندان شاہی کے علاوہ بے شمار شعرا  نے ان سے اکتساب فن کیا اور اردو شاعری کو عروج کی راہ پر گامزن رکھا۔ نصیر الدین ہاشمی کے علاوہ تمام مؤرخین نے جلیل کی شعری خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ 6 جنوری 1946 کو حیدرآباد میں ہی جلیل کا انتقال ہوا۔  امیر، داغ اور جلیل مانکپوری کے علاوہ مولوی احسن اللہ ثاقب،ممتاز علی آہ، ریاض  خیرآبادی اور مضطر خیرآبادی، یہ وہ جواہر تھے جو ریاست رامپور میں اپنے فن پاروں کی ضو بکھیرنے کے بعد حیدرآباد کے حصے میں آئے۔ باقی ماندہ زندگی یہیں گزاری اور یہیں پیوند خاک ہوئے۔
حواشی
1؎    بزم داغ: رفیق مارہروی ص 209، سنہ شاعت درج نہیں 
2؎  تاریخ ادب اردو: رام بابو سکسینہ ص 376، مطبع تیج کمار لکھنؤ 1986
3؎  خطوط منشی امیر احمد: مولوی احسن اللہ ثاقب، ص 309     اردو پریس علی گڑھ 1910
دکن میں اردو: نصیر الدین ہاشمی، ص547، سپرپرنٹر دہلی 1985
خطوط منشی امیر احمد:احسن اللہ ثاقب ص211،   اردو پریس علی گڑھ 1910
دکن میں اردو:نصیر الدین ہاشمی ص631، سپرپرنٹر دہلی 1985

Dr. Mohd Ilyas
385, Peetal Basti
Moradabad -  244001 (UP)
Mob.: 9412838085

ماہنامہ اردو دنیا،نومبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

28/11/19

بہار میں جدید اردو مرثیہ سمت و رفتار مضمون نگار۔ محمد ارمان


بہار میں جدید اردو مرثیہ
 سمت و رفتار

محمد ارمان


مرثیہ اردو شاعری کی ایک عظیم و قدیم صنف ہے اور یقینا جہاں اس کے اجزائے ترکیبی پر علمائے نقد و ادب نے ہمارے لیے نہایت قیمتی اور یادگار تحریریں چھوڑی ہیں، وہیں اس صنف کے منظر و پس منظر اور عہد بہ عہد ارتقا  پر بھی نہایت ہی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، یہاں تک کہ مختلف علاقوں اور خطوں میں بھی اردو مرثیہ کے ارتقائی سفر اور اس کے متعلقہ صوبائی و دبستانی اختصاص پر  تجزیاتی اظہار خیال میں کوئی کمی نہیں رکھی گئی ہے اور ان نکات کی صاف صاف نشاندہی کردی گئی ہے جن سے اس صنف کے ایسے امتیازات مبرہن ہوجاتے ہیں جو دکن، دہلی، لکھنو اور عظیم آباد کے رثائی اکتسابات کا فرق بخوبی سامنے لادیتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ازروئے مقصدیت قدیم و جدید مرثیہ گوئی میں کیا بات وجہ تفاوت بنی ہے اور جدید اردو مرثیہ کی سمت و رفتار کا  معاملہ کیا رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ قدیم دور میں مرثیے ازراہِ ثواب رونے اور رلانے کے مقصد سے لکھے گئے، جب کہ بیسویں صدی کے نصف اوّل سے مرثیہ گوئی کا مقصد حالات حاضرہ کی روشنی میں عزم و استقلال کے حصول کی نفسیاتی صورت اختیار کرگیا۔ مرثیہ کے تعلق سے انیس و دبیر کی خدمات بیشک ہمارے لیے ابدی سرمایہ افتخار ہیں، لیکن ان بزرگوں  کے دور میں ہی ایک ذہنی خلش ابھرنے لگی تھی اور بہار میں اردو مرثیہ نگاری کے مایہ ناز فن کار جو اس صنف کے حوالے سے انیسویں صدی اور بیسویں صدی عیسوی کے سنگم پر کھڑے تھے، یہ محسوس کرنے لگے تھے، بلکہ اس احساس سے یک گونہ مایوس بھی ہورہے تھے کہ مرثیہ میں روایات صحیحہ کی پابندی کے ساتھ اہل بیت کے شیوہئ صبر و رضا کی عکاسی گویا نہیں ہو رہی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یوں کہا جائے کہ مرثیہ میں مقصدیت کی سمت بدلنے کا احساس باقاعدہ اظہار کی صورت اختیار کرنے لگا تھا۔ 
یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، لیکن اتنی بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ بہار میں ذہنی و فکری اعتبار سے جدید اردو مرثیہ کی داغ بیل اُسی دن پڑی، جس دن شاد نے اپنے مرثیہ پر مرزا دبیر کی اصلاح قبول کرنے سے معذرت کرلی اور پھر انھیں دنوں میر مونس کی معرفت وہ پیغام میر انیس تک بھی پہنچا دیا گیا جس میں مولوی یحییٰ وکیل بھی شاد کے ہم خیال تھے، یا ازروئے واقعہ یہ کہاجائے کہ شاد کے لیے مولوی یحییٰ وکیل ذہنی محرک بنے تھے۔
یہ 1872 کا واقعہ ہے اور اس کی تفصیل رسالہ ’ندیم‘ گیا کی 22 ویں جلد میں دیکھی جاسکتی ہے اور پھر جدید اردو مرثیہ کا بہار میں عملاً آغاز اس دن سے ہوا جس دن شاد نے میر انیس کے جوابی خیالات کے مدنظر اپنا دوسو بند پر مشتمل مرثیہ مکمل کرلیا۔ یہ 1884 کی بات ہے۔ گویا کم و بیش دس بارہ سال میں ایک ذہنی تحریک نے عملی صورت اختیار کی۔
 میر انیس کا ارشاد یہ تھا کہ اگر صرف روایات صحیحہ اور تاریخی واقعات تک مرثیہ کو محدود کر دیا جائے تو وہ موثر نہ ہوگا۔ ایسی فرمائش آسان ہے، لیکن اس طرح دس بند بھی نظم کرنا ممکن نہیں۔ میر انیس کی طرح میر خورشید علی نفیس بھی کچھ ایسا ہی سمجھتے تھے، لیکن 1889 میں جب شاد  نے اپنا مذکورہ مرثیہ میر نفیس اور ان کے نواسے میر عارف کو سنایا تو انھیں شاد کی صلاحیت اور نظریاتی صلابت کا قائل ہونا پڑا اور شاد کی عملی کاوش پر یک گونہ مہر پزیرائی ثبت ہوئی۔ آئیے آگے بڑھنے سے پہلے شاد کے اس مرثیہ کا دو بند یکھتے چلیں     ؎
بچوں کو تین دن سے تھی جو انتہا کی پیاس
بیٹھے ہوئے تھے ماؤں کے پہلو میں سب اداس
بازار موت گرم تھا، اور سب کے دل اداس
لیکن یہ کیا مجال کہ ظاہر کریں ہراس
رونے کو اضطراب کو ٹالے ہوئے تھے وہ
سیدانیوں کی گود کے پالے ہوئے تھے وہ
بس روک لو قلم نہ لکھو عامیانہ بین
کچھ کم ہے یہ کہ ذبح ہوئے شاہ مشرقین
اس بین سے نہ صبر میں آجائے فرق بین
کافی ہے بس یہ بیت پئے ماتم حسین
چوں خلق ز حلق تشنہ او بر زمیں رسید
طوفاں بر آسماں ز غبارش ہمیں رسید
ظاہر ہے کہ یہاں پہلے بند میں اہل بیت کا، بلکہ یوں کہا جائے کہ کم سن بچوں کا مثالی ثبات و قرار دکھایا گیا ہے جو بہ آسانی یہ بتا دیتا ہے کہ جب ان نونہالوں کا صبر و ضبط اس درجہ پر تھا تو ان کے بڑوں کی سنجیدگی و شکیبائی کا عالم کیا ہوگا اور پھر دوسرے بند میں شاد نے اپنا نظریہ ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ قدما کا خیال یہی تھا کہ محض تاحد فصاحت و صداقت، مبالغہ آرائی کے بغیر اور بلاغت سے عدم احتراز کی صورت میں اثر آفرینی ممکن نہیں، لیکن شاد کے مذکورہ بند اس خیال کو، محض ایک مفروضہ ثابت کردینے میں یقینا کامیاب ہیں۔ شاد کے پیغام ’بس روک لو نہ لکھو عامیانہ بین‘سے بہار میں جدید اردو مرثیہ کی عملاً ابتدائی صورت سامنے آتی ہے۔ یہ اصل میں بیان مصائب میں تکرار اور آہ و بکا میں غلو کو بیان سیرت میں استحکام اور ضبط اظہار میں کمال استواری سے بدل دینے کا عمل ہے اور اس رُخ سے دیکھیں تو اندازہ ہو سکتا ہے کہ سفارش حسین رضوی نے یہ غلط نہیں لکھا ہے کہ:
”مرثیہ گوئی میں شاد کو اپنے دور کا انیس کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے مرثیہ کے قلب میں نئی روح پھونکی، نیا انداز بیان عطا کیا۔“    (اردو مرثیہ، 1965، ص399)
بلاشبہ شاد نے مرثیہ نگاری کے آئین و اصول اور اس کے فن کی طرف جس طرح توجہ دلائی ہے، وہ تاریخ ارتقا کے اعتبار سے بہار میں جدید اردو مرثیہ کے اقدار عالیہ کی تعین روشن ہو جاتی ہے      ؎
ہو جس میں ابتذال وہ مضموں نہ باندھنا
ہو پست و پائمال وہ مضموں نہ باندھنا
عقلاً ہو جو محال وہ مضموں نہ باندھنا
ہو جس پہ قیل و قال وہ مضموں نہ باندھنا
باتیں وہ کیا کہ جان سخن جن میں کچھ نہ ہو
مضموں کی جس میں ڈھانچ ہو باطن میں کچھ نہ ہو
داخل مبالغہ بھی محاسن میں ہے مگر
اتنا نہ ہو کہ نفس مطالب کا ہو ضرر
باتیں وہ ہوں پسند جن کو کریں ذی ہنر
آنکھوں کے آگے عین صداقت ہو جلوہ گر
اظہار مدعا میں کسی جا خلل نہ ہو
مطلب وہ کیا کہ جس کا کوئی ماحصل نہ ہو
حضرت شاد کا واقعی یہ تاریخی احسان ہے کہ جس طرح ان کی کاوشوں سے غزل میں دبستان دہلی اور لکھنو کی خلیج پاٹ دی گئی، اسی طرح ان کی فکر اور ان کی مرثیہ گوئی کی بدولت اردو مرثیہ میں اور خصوصاً بہار کے حوالے سے اردو مرثیہ میں اصلاح فکر و فن کی نئی راہ متعارف ہوئی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شاد مرثیہ میں بین کے نہیں بلکہ ’عامیانہ بین‘ کے مخالف ہیں اور ان کے نزدیک تبلیغ ناروا نہیں بلکہ غلو اورا غراق داخل معائب ہے۔
 شاد نے ہمیں یہ شعور بخشا کہ مرثیہ میں مبالغہ’اتنا نہ ہو کہ نفس مطالب کا ہو ضرر‘ اور کہنا چاہیے کہ یہیں سے مرثیہ نگاری کو جدید انقلابی ذہن ملا اور اس کی نئی سمت نے تعین پایا۔ شاد کے معاصرین میں صفیر، فضل حق آزاد، میر فدا حسین بحر، بہار حسین آبادی، سید علی اکبر کاظم عظیم آبادی اور منظر عظیمی جیسے مرثیہ نگار ان بہار کا نام آتا ہے اور ذرا تکلف سے سہی، مگر یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ شاد کی انقلابی فکر کا اثر کسی نہ کسی طرح ان شعرا نے بھی قبول کیا ہے اور چونکہ ان میں سے بعض سرحد پار بھی چلے گئے، اس لیے ان اثرات کا دائرہ علاقائی تاریخ مراثی کے لحاظ سے مزید وسیع بھی ہوا ہے۔مثال کے لیے علی اکبر کاظم کا مرثیہ بہ عنوان ’پالی کا علم‘ پیش کیا جا سکتا ہے، جس میں علی نگر پالی کے امام بارگاہ میں علم محترم کے نصب کیے جانے اور اس تعلق سے ہونے والے مناقشاتی واقعات کی پوری تاریخ بیان کردی گئی ہے۔ مرثیہ میں علاقائی تاریخی واقعات کی شمولیت یقینا ایک ایسی بات ہے جو جدید رجحان کا پتہ دیتی ہے۔
 شاد مرثیہ نگاری کے باب میں نری روایت پرستی اور روایت پسندی پر اپنی سنجیدہ و شدید ضرب لگا چکے تھے اور کامیابی ان سے قریب ہونے لگی تھی،یہاں تک کہ بیسویں صدی کا وسطی زمانہ آتے آتے، قدرت نے اردو مراثی کو جوش ملیح آبادی اور آل رضا کے ساتھ ساتھ  بہار کے جمیل مظہری جیسے فن کار سے بھی نواز دیا جن کی بدولت یہاں جدید مرثیہ کا منظر نامہ پوری طرح روشن ہوگیا۔ جہاں تک علامہ جمیل مظہری کا تعلق ہے، یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ بہار کے حوالے سے اگر شاد جدید اردو مرثیے کے موسس ہیں تو علامہ جمیل مظہری، اسے بہمہ طور آگے بڑھانے والے سب سے کامیاب اور بزرگ فن کار کا درجہ رکھتے ہیں، جنہوں نے اردو مرثیہ سے قومی اصلاح اور بیداری کا کام لیا۔
 شاد کی مساعی سے مرثیہ اس سمت پر آچکا تھا اور آگے بڑھنے لگا تھا کہ ”باتیں وہ ہوں پسند جن کو کریں باہنر“ اور جمیل مظہری نے اسے مزید اس سمت سے بھی قریب کر دیا کہ باتیں وہ ہوں، پسند جن کو کریں ذی نظر ”یعنی تقاضائے وقت کے بموجب مرثیہ صرف مذہبی نہ ہو ملی بھی ہو اور تشکیک و جمود کی فضا میں کربلا کا پیغام عزم و یقین اور ایثار و ثبات عام لوگوں تک پہنچتا رہے اور یہ دیکھا اور دکھایا جائے کہ امام عالی مقام صرف روحانیت کے پیکر ہی نہیں انسانیت کا ملہ کے نمونہ بھی ہیں۔
 شاد کی مرثیہ نگاری کا عہد 1924 میں تمام ہوتا ہے اور اس کے محض چھ سال بعد 1930 میں مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریر سے متاثر ہوکر جمیل مظہری کا مرثیہ ’عرفان عشق‘ سامنے آتا ہے جس میں بقول خویش انہوں نے باقاعدہ طور پر مرثیہ کا رشتہ قومی شعور سے جوڑا ہے۔ آئیے آگے بڑھنے سے پہلے اس مرثیہ کے فلسفہ بداماں پیامی بند دیکھتے چلیں     ؎
نبض جاں تیز رہے مقصد فطرت ہے یہی
دل دھڑکتے رہیں سینوں میں محبت ہے یہی
آدمی غم سے نہ گھبرائے شجاعت ہے یہی
دل پہ قابو رہے، شرط بشریت ہے یہی
نشہ ہو بیخودی شوق میں ہشیاری کا
زندگی نام ہے، جذبات کی بیداری کا
صبح منزل کی تمنا ہے سر شام عمل
کس قدر گرم تخیل ہے سبک گام عمل
اے خوشا بیخودی نشہ خود کام عمل
غور کیجیے تو شکستیں بھی ہیں پیغام عمل
وہ شکستیں جو نتائج کو اثر خیز کریں 
عشق شوریدہ طبیعت کا جنوں تیز کریں 
بعد ازیں 1935 میں جمیل مظہری کا مرثیہ ’پیمان وفا‘ اُس وقت سامنے آتا ہے جب ماہ عزا کا احترام بالائے طاق رکھتے ہوئے، فرنگی حکمرانوں نے جارج پنجم کی جوبلی کے موقع پر امام بارگاہ میں چراغاں کا حکم دیا تھا۔ اس مرثیہ میں ابن زیاد کی حامیان حسین کو دھمکیوں کے تاریخی پس منظر سے خصوصی غذا لی گئی ہے اور وسیع تر شعور و آگہی کے ساتھ سیاسی بصیرت یوں جلوہ گر ہوتی چلی گئی ہے کہ صبر و استقامت کی پوری تاریخ سامنے آجاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ برجستہ للکار کی ایک عجیب سی فضا چھا جاتی ہے جو یقینا غیرت و حمیت کو تازیانے لگانے کے لیے کافی ہے      ؎
کہیں زنجیروں کی دھمکی تھی، کہیں بارش زر
کام کرنے لگا ہر سمت حکومت کا اثر
سن کے یہ غل کہ چلا آتا ہے شاہی لشکر
عورتیں لے گئیں مردوں کو قسم دے دے کر
یوں ہی ایماں کی طرف خوف مکیں ہوتا ہے
دل میں راسخ ہو غلامی تو یوں ہی ہوتا ہے
آج بھی جب کہ ہے ماضی سے کہیں بہتر حال
حاکم شہر کے بگڑے ہوئے تیور کا خیال
کتنے ایمانوں کو کر سکتا ہے دم بھر میں نڈھال
جوبلی ماہ عزا میں ہوئی خود اس کی مثال
کیوں، جہاں ہو علم شاہ شہیداں اے قوم
جوبلی میں اسی پھاٹک پہ چراغاں اے قوم
اتنا ہی نہیں بلکہ اس مرثیہ میں جمیل مظہری نے حضرت زینب کا کردار بھی جس رُخ سے دکھایا ہے، وہ نہایت ہی اہم ہے۔ جسے ہم بلاشبہ ہمت و ولولہ کا اشاریہ کہہ سکتے ہیں      ؎
یہ چاہتی ہوں حق کا علم سرنگوں نہ ہو
بھائی کا خون ہو پہ صداقت کا خوں نہ ہو
چرچا ثبات و عزم کا نزدیک و دور ہو
ہے فیصلہ مرا کہ لڑائی ضرور ہو
حاضر رسن کے واسطے میرا گلا بھی ہے
پرچم کا کام دے تو یہ کہنہ ردا بھی ہے
 جدید اردو مرثیے کو سمت و رفتار عطا کرنے میں یقینا جمیل مظہری کا حصہ ناقابل فراموش ہے کہ انھوں نے مرثیہ کو بخوبی تمام تاریخ امروزہ سے پیام تہور کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور اس طرح گویا ایک بڑا ملی تقاضا پورا کیا ہے۔
بہار کے شعرائے مراثی میں بدر عظیم آبادی، نتھونی لال وحشی، احسن رضوی، ہوش عظیم آبادی، دانش عظیم آبادی، زار عظیم آبادی، مرتضیٰ اظہر رضوی، شہزاد معصومی، نقی احمد ارشاد، صابر آروی اور فردوس عظیم آبادی کے نام بلاتکلف لیے جاسکتے ہیں، ان میں بدر عظیم آباد اور نتھونی لال وحشی ہمارے وہ مرثیہ گوہیں جنھوں نے جمیل مظہری کے اثرات بہت قریب سے قبول کیے ہیں اور یقینا ان شعرا کی روایتوں کے بہترین اثرات آج اکیسویں صدی میں بھی ہمیں بخوبی تمام نواز رہے ہیں۔

Dr. Md. Arman
Kashinath Colony, Katari Hill Road
Opposite Ghanta Kothi
Gaya-823001 (Bihar)
Mob: 9931441623

ماہنامہ اردو دنیا،نومبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے





6/11/19

ڈپٹی نذیر احمد اور تعلیمِ نسواں مضمون نگار: محمد عامر



ڈپٹی نذیر احمد اور تعلیمِ نسواں

محمد عامر

ڈپٹی نذیر احمد ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، وہ بیک وقت مترجم، ناول نگار، خطیب، مصلح قوم، تعلیم اور تربیتِ اولادکے شیدائی تھے۔ ان کا پسندیدہ موضوع تعلیم، تربیتِ اولاد اور اصلاح معاشرہ تھا جیسا کہ ان کی بیشتر تصانیف کے مطالعے سے عیاں ہوتا ہے۔ وہ ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے تھے، ابتدائی تعلیم والد محترم اور اپنے زمانے کے نامور استاد ڈپٹی نصراللہ سے حاصل کرنے کے بعد دہلی آئے، جہاں انھیں حصول علم کے مختلف مواقع ملے۔ نذیر احمد بچپن ہی سے تعلیم کے تئیں سنجیدہ اور فکر مند تھے۔ دہلی کالج میں نذیراحمد کاداخلہ ان کی قابلیت، محنت ولگن کابین ثبوت تھا۔ انھوں نے اپنا تعلیمی سفر غربت اور مفلسی کے سائے تلے شروع کیا۔ دلی کالج میں داخلہ ان کی زندگی کا وہ اہم موڑ تھا جہاں ان کی قابلیت کو چار چاند لگا، کیونکہ مناسب وقت پر صحیح رہنمائی ان کو میسر تھی۔ تکمیل تعلیم کے بعد تلاش معاش کے سلسلے میں انگریزی سرکار میں بغرض ملازمت مختلف شعبوں میں بھی رہے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں نے آزادی کا بگل بجایا تھامگر اس میں انھیں ناکامی ہاتھ لگی۔نذیر احمد دوراندیش، دوربیں اور مستقبل شناس تھے یہی وجہ ہے کہ اس ناکامی کاتجزیہ انھوں نے بہت جلد کرلیاتھا۔ انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوچکاتھاکہ جدید علوم وفنون کے بغیر معاشرے کو کوئی بھی طاقت پستی سے نہیں نکال سکتی۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے تعلیم اور اصلاح معاشرہ پر زیادہ زور دیا۔ یہی وہ دور تھا جب ہندوستانی مسلمان ناامیدی کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے جن کو باہر لانے کے لیے سرسید جیسے رہنما اصلاحی تحریک لے کر ان کے بیچ آئے۔
سرسید نے پہلے پہل مسلمانوں کے اندر تعلیمی بیداری اور اصلاحی پہلوؤں پر زوردیا۔ ہندوستان میں1857 کے انقلاب سے قبل اپنی قوم کے تئیں اصلاح معاشرہ کی تحریک راجہ رام موہن رائے شروع کرچکے تھے۔سرسید اس اصلاحی تحریک سے کہیں نہ کہیں متاثر تھے۔ انھوں نے بھی قوم کی اصلاح کی غرض سے تعلیمی بیداری اور معاشرتی اصلاح پر خصوصی توجہ صرف کی۔ سرسید مسلمانوں کے لیے روایتی تعلیم کوناکافی اور بے کار تصور کرتے تھے اسی لیے انھوں نے اپنی قوم کو جدید تعلیم سے روشناس کرانے کی حتی الامکان کوشش کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی( محمڈن اورینٹل کالج) اس کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ سرسید کی یہ اصلاحی تحریک جس میں تعلیمی بیداری کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل تھی صرف مردوں کے لیے نہیں تھی بلکہ ان کے نزدیک تعلیم کا جوتصور تھا وہ عمومی نوعیت کا تھا لیکن واضح طور پر تعلیم نسواں کی بابت سرسید کا موقف پوری طرح ظاہر نہیں ہوتا، جہاں ایک طرف وہ اپنے زمانے کی تعلیم یافتہ عورتوں کو دیکھ کر عش عش کرتے تھے وہیں دوسری طرف ان کا خیال تھا کہ اگر ہمارے قوم کے مرد تعلیم یافتہ ہوجائیں گے تو عورتیں خودبخود تربیت یافتہ ہوجائیں گی کیوں کہ ہمارے سماج میں عورتیں مرد کے تابع ہیں۔ تعلیم نسواں کے تعلق سے سرسید کا نظر یہ کچھ یوں ہے:
”مسلمان عورتوں کی پوری تعلیم اس وقت تک نہ ہوگی جب تک کہ اس قوم کے اکثر مرد پورے تعلیم یافتہ نہ ہوجائیں گے۔ اگر ہندوستان کے مسلمانوں کی سوشل حالت پر غور کیا جائے تو اس وقت جو حالت مسلمان عورتوں کی ہے وہ ہ میری رائے میں خانگی خوشی کے واسطے کافی ہے۔ جب کہ مسلمانوں کی موجودہ نسل بخوبی تعلیم وتربیت یافتہ ہوجائے گی تو مسلمان عورتوں کی تعلیم پر اس کا ضروربالضرور ایک زبردست ’گوخفیہ‘ اثر پہنچے گا۔“ 
(لاہوری: ضیاءالدین (مرتب)، افکار سرسید، کراچی، فضلی سنز لمیٹڈ 1998، ص 212)
1857کے انقلاب کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔وہ ہر موڑ اور ہر سطح پر ظلم وستم کا شکار تھے، تعلیمی لحاظ سے مسلما ن وقت اور حالات کے تئیں کافی پیچھے تھے اور ان کے اندر جو تعلیم تھی وہ بھی محض روایتی تھی جو کہ حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکافی تھی، اسی لیے سرسید نے جدید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی قوم کو فکر مند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سوتے جاگتے انھوں نے اپنی قوم کو اس پست حالت سے نکالنے کی ہر ممکن تعبیریں کیں لیکن جب مسلمان عورتوں کی تعلیم کا مسئلہ آیا تو انھوں نے اپنی سماجی حالت کا موازنہ کرتے ہوئے یوروپی عورتوں کی مثال دی جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی تعلیم یافتہ تھیں۔ سرسید نے اس کا جواز کچھ اس طرح پیش کیا کہ وہاں کے مرد پہلے تعلیم یافتہ ہوئے پھرانھوں نے اپنی عورتوں کو اس کی ترغیب دی چوں کہ سرسید نے دوران سفریوروپ کی تہذیبی وسماجی زندگی کا مشاہدہ قریب سے کیا تھا۔ وہاں کی تعلیمی صورت حال کے بارے میں لکھتے ہیں:
”اس وقت ہم تمام یوروپ کے تعلیم یافتہ ملک کی ہسٹری دیکھتے ہیں اور پاتے ہیں کہ جب مرد لائق ہوجاتے ہیں عورتیں بھی لائق ہوجاتی ہیں، جب تک مرد لائق نہ ہوں عورتیں بھی لائق نہیں ہوسکتیں۔ یہی سبب ہے کہ ہم کچھ عورتوں کی تعلیم کاخیال نہیں کرتے، اسی کوشش کو لڑکیوں کی تعلیم کا بھی ذریعہ سمجھتے ہیں۔“ (ایضاً، ص 211)
درج بالا اقتباس سے صاف طور پریہ واضح ہوجاتا ہے کہ سرسید نے عورتوں کی تعلیم کے مسئلے کو مرد کی تعلیم کے تابع رکھا۔ انھوں نے عورتوں کی جدید تعلیم کے لیے باضابطہ طور پر کوشش نہیں کی۔اس مضمون میں سرسید کے نظریۂ تعلیم نسواں پر بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ اس بات کی طرف توجہ مرکوز کرانا ہے کہ اس عہد میں تعلیم نسواں کے موضوع پر بھی بحث کی جارہی تھی۔ سرسید جیسے رہنما تعلیم نسواں کے لیے روایتی تعلیم کے قائل تھے چوں کہ ان کے زمانے میں مردوں کے اندر ہی تعلیمی فقدان تھا ایسی صورت میں اگر وہ عورتوں کے لیے جدید تعلیم کی حمایت کرتے تونہ جانے ان کی تحریک کا رخ کس جانب ہوتا۔ ابھی تومرد کی تعلیم پر بات کرنے سے مختلف قسم کی رنجشوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا اگر وہ تعلیم نسواں کی بات کرتے تو شاید ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔کسی حدتک سرسید کا یہ نظریہ درست تھاکہ اگر معاشرے میں مرد تعلیم یافتہ ہوجائیں گے تو عورتوں کو تعلیم یافتہ بنانے میں دیر نہیں لگے گی۔ انھوں نے تعلیم نسواں کی مخالفت تو نہیں کی مگر سوچنے کا انداز اوروں کے مقابلے مختلف تھاچوں کہ سرسید کی تعلیمی بیداری اجتماعی حیثیت کی حامل تھی اس لیے ان کوہر پہلو پر نظر رکھنا ضروری تھا۔
 ڈپٹی نذیر احمد کا شمار سرسید کے فعال رفقا میں ہوتا ہے۔ تعلیم کے نشیب وفراز سے وہ بخوبی واقف تھے۔ ایک مدت تک شعبۂ تعلیم میں ملازمت بھی کرچکے تھے۔ زمانے کے بدلتے حالات سے بھی بخوبی آشنا تھے۔ اس عہد میں نذیراحمد وہ واحد شخص تھے جنھوں نے تعلیم نسواں اور ان کے مسائل کو لے کر غوروفکر کیا۔ سرسید احمد خاں کی طرح تعلیم نسواں کے تئیں غیر واضح طور پر نہیں بلکہ واضح طور پر اپنی آرا کا اظہار کیا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کی۔تعلیم نسواں کی کمی کا انھیں شدت سے احساس تھاکیوں کہ جب ان کی اولاد حصولِ تعلیم کے قابل ہوئی تو اس زمانے میں ان کی نظر مروجہ نصابی کتب پر گئی۔ انھیں کوئی ایسی معیاری کتاب نہیں ملی جسے وہ اپنی لڑکیوں کو پڑھانے میں معاون پاتے۔ انھوں نے خود اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ’مرأة العروس ‘ کے دیباچہ میں لکھاہے:
”خاندان کے دستور کے مطابق میری لڑکیوں نے بھی قرآن شریف اور اس کے معنی، قیامت نامہ، راہ نجات وغیرہ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے اردوکے رسالے گھر کی بڑی بوڑھیوں سے پڑھے۔گھر میں رات دن پڑھنے لکھنے کا چرچا تو رہتا ہی تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ ہم مردوں کی دیکھا دیکھی لڑکیوں کوبھی علم کی طرف ایک خاص رغبت ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی مجھ کو یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ نرے مذہبی خیالات بچوں کی حالت کے مناسب نہیں۔ اور جومضامین ان کے پیش نظر رہتے ہیں ان سے ان کے دلوں کو افسردگی ان کی طبیعتوں کو انقباض اور ان کے ذہنوں کو کُندی ہوتی ہے۔ تب مجھ کو ایسی کتاب کی جستجو ہوئی جو اخلاق ونصائح سے بھری ہوئی ہو اور ان معاملات میں جوعورتوں کو زندگی میں پیش آتے ہیں اور عورتیں اپنے توہمات اور جہالت اور کجرائی کی وجہ سے ہمیشہ مبتلائے رنج و مصیبت میں رہا کرتی ہیں۔ اُن کے خیالات کی اصلاح اور ان کے عادات کی تہذیب کرے اور کسی دلچسپ پیرایہ میں ہو جس سے اُن کا دل نہ اکتائے طبیعت نہ گھبرائے مگر تمام کتب خانہ چھان مارا۔ایسی کتابوں کاپتہ پر نہ ملا تب میں نے اس قصے کا منصوبہ باندھا۔“ 
(ڈپٹی نذیر احمد: مرأة العروس، لکھنؤ، تیج کمار، 1978، ص 1-2)
درج بالا اقتباس طویل تو ضرورہے مگر اس کے بغیر پوری بات واضح نہیں ہوپاتی۔ دراصل یہ وہی محرکات تھے جس نے نذیر احمد کو تعلیم نسواں کے تئیں سنجیدہ ہونے پر مجبور کیا۔ تعلیم نسواں کے تعلق سے1857 کے ہنگامہ خیز انقلاب کے بعد یہ پہلی شعوری اور انفرادی کوشش بھی تھی۔ نذیر احمد نے حصول تعلیم کے لےے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیاتھا نیز وہ اعلیٰ درجے کی علمی بصیرت اورذوق سلیم رکھتے تھے۔ انھیں جب تعلیم نسواں کے لیے کتابوں کی ضرورت پڑی تو سارے کتب خانے چھان مارے لیکن نتیجہ بے سود رہا۔ کیوں کہ زمانے کے تقاضے کے مطابق انھیں کوئی ایسی کتاب ملی ہی نہیں جو ان کے نقطۂ نظر کی پاس دار ہو۔ دراصل وہ روایتی نصاب تعلیم سے مطمئن نہیں تھے، جیسا کہ درج بالا اقتباس میں اس کا انھوں نے اعتراف بھی کیا ہے۔یہ اقتباس اس عہد میں تعلیم نسواں کی خستہ حالی کی طرف بھی اشارہ کرتاہے۔ انقلاب کے فوراً بعد کا زمانہ سیاسی، سماجی اور معاشرتی سطح پر زوال پذیر تھا۔ایسے حالات میں قوم کو سیاسی اور معاشرتی زوال سے باہر نکالنے کے لیے اس وقت کے ادیب ومفکر اس بات پر متفق تھے کہ قوم کی تعلیمی بیداری اور معاشرتی بگاڑ کے اصلاح پر دھیان دیاجائے۔ بعض مفکرین نے حصول تعلیم کی کھل کر حمایت کی اور کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی۔ تعلیم نسواں کے تئیں سنجیدہ ہونے کے پس پشت نذیر احمد کی منشایہ تھی کہ اگر عورتیں تعلیم یافتہ اور باشعور ہوجائیں گی تو وہ امور خانہ داری کی ذمے داری کے علاوہ اپنی آنے والی نسلوں کی صحیح اور بہتر رہنمائی بھی کرسکیں گی۔ تعلیم نسواں کے لیے نذیراحمد صرف فکر مند ہی نہیں تھے بلکہ اس کے لیے انھوں نے عملی قدم بھی اٹھایااور بڑی بے باکی سے اس مسئلہ پر اظہار خیال کیا۔ ان کی پہلی تخلیقی کاوش ”مرأةالعروس“ جسے’ اردو ادب کا پہلا ناول ہونے کا شرف بھی حاصل ہے‘ تعلیم نسواں کے خلاکو پر کرنے کے لیے ہی وجود میں آیا تھا۔ دراصل یہ کتاب نذیراحمد نے اپنی لڑکیوں کو پڑھانے کی غرض سے تصنیف کیاتھا۔ اس کتاب میں انھوں نے ایک فرضی قصے کے ذریعے عورت کے اندر تعلیم نہ ہونے کے نقصانات کے ساتھ تعلیم یافتہ عورت کی خوبی کی داستان مرتب کی ہے۔بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ کتاب خواندہ اورناخواندہ عورت کے تقابل پر مبنی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب تعلیم نسواں کے طریقۂ کار کے تمام ترتقاضوں کا خاکہ بھی پیش کرتی ہے۔ ’مرأة العروس‘ کو نذیراحمد نے تعلیم نسواں کے فروغ اور ضرورت کے لیے رقم کیا تھا جس میں دو بہنوں کے فرضی قصے کے ذریعے تعلیم نسواں کی اہمیت وافادیت کواجاگر کیا گیا ہے۔اس میں اکبری کا کردار جو کہ بڑی بہن ہے جس کی تعلیم وتربیت نہ ہونے کی وجہ سے شادی کے بعد اپنے افعال سے سسرال کو اجیرن بنادیتی ہے۔ اس کے بالمقابل اصغری کا کردارہے جس کی تعلیم وتربیت پر بچپن سے دھیان دیا گیا تھاوہ گھر کو جنت بنادیتی ہے۔اس ناول میں اکبری کے کردار کو مختصراً بیان کیا گیا ہے جب کہ اصغری کے کردار کے تمام پہلوؤں کی تصویر کشی وضاحت سے کی گئی ہے۔ بلکہ یہ کہنامناسب ہوگاکہ اصغری کے کردار سے نذیر احمد نے تعلیم نسواں کے تئیں اپنے نظریات کااظہار کیاہے۔ ایسانہیں ہے کہ نذیراحمد صرف لڑکیوں کی تعلیم کے قائل تھے بلکہ وہ لڑکوں کے لیے بھی تعلیم کو ضروری تصور کرتے تھے۔ جیساکہ ان کے مکاتیب کے مجموعہ ’موعظہ حسنہ‘ کے بیشتر خطوط سے واضح ہوتا ہے، لیکن نذیر احمدنے تعلیم نسواں پر زور دے کر ’تعلیم حاصل کرو مہد سے لحدتک‘ پر عمل کیا ہے کیوں کہ ایک انسان کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ماں اگر ناخواندہ ہوگی تو انسان اپنی پہلی درس گاہ میں کس نوعیت کی تعلیم حاصل کرسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ نذیراحمد تعلیم نسواں پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’مرأةالعروس‘ میں لکھتے ہیں:
”عورتوں کو اپنی اولاد کی تہذیب کے واسطے بھی لیاقت حاصل کرنے کی بہت ضرورت ہےپس اے عورتو! اولاد کی اگلی زندگی تمہارے اختیار میں ہے چاہو تو شروع سے ان کے دلوں میں وہ ارادے اور وہ اونچے خیال بھردو کہ یہ بڑے ہوکر نام ونمود پیداکریں اورتمام عمر آسائش میں بسرکرکے تمھارے شکرگزار رہیں اور چاہوتو ان کی افتاد کو ایسا بگاڑ دو کہ جوں جوں خرابی کے لچھن سیکھتے جائیں اور انجام تک اس کا تاسف کیا کریں۔“ (ایضاً، ص 25-26)
درج بالا اقتباس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورتوں کے لیے تعلیم اور لیاقت کیوں اور کتنی ضروری ہے۔ لیکن عہد نذیر احمد سے موجودہ دور تک نہ جانے کیوں تعلیم نسواں کے سلسلے میں ہمارا سماج بے راہ روی کا شکار رہا ہے۔ ویسے بھی ہندوستان میں ہماری سماجی وتعلیمی حالت دن بہ دن خستہ ہوتی جارہی ہے اور آج بھی سماج میں کچھ افرادموجود ہیں جو تعلیم نسواں کو فضول اور غیر سماجی گردانتے ہیں۔ ہرزمانے میں یہ کہہ کر تعلیم نسواں کے فروغ کو روکا گیا کہ اگر عورتیں تعلیم حاصل کریں گی تو سماج میں فحاشی اور برائی کا چلن عام ہوگا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علم بے حیائی کو روکتا ہے۔ جو لوگ تعلیم نسواں کی مخالفت کرتے ہیں ان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ عہد حاضر ایڈوانس ٹکنالوجی کا عہدہے۔ بہت ساری ضروریات زندگی کل کے مقابلے آج ایسی ہیں جن کی حاجت مرد اور عورت کو یکساں ہے۔ عہد حاضر میں جدید علوم کی طرف مرد تو پہلے کے مقابلے میں کچھ بہتر کررہے ہیں مگر عورتوں کو جس لائق ہونا چاہیے تھا اس کو دیکھ کربڑی مایوسی ہوتی ہے۔ آج دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم اسی میں الجھے ہوئے ہیں کہ تعلیم نسواں سماجی برائی کاباعث بنے گی۔ یاد رہے بے حیائی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بے حیائی تو وہاں بھی ہے جہاں پر تعلیم نسواں کا کوئی چلن نہیں ہے تو اس کو کیا نام دیا جائے۔
 1857 کا عہد ایک ایسا عہد تھا جہاں مرد ہی بے راہ روی اور جہالت کے شکار تھے۔ اصلاحی تحریکوں کے ذریعے سماجی اور تعلیمی بیداری کی کوششیں کی گئیں مگر آج ہمیں جس سطح پر ہونا چاہیے اس سے کوسوں دور ہیں۔ نذیر احمد مرد کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں کے قائل اس لیے تھے کہ ہماری گھریلو زندگی بھی بہتر ہوسکے، جس کے لیے ہمیں اپنے گھروں کی عورتوں کو تعلیم یافتہ بنانا بے حد ضروری ہے۔ جیسا کہ ’مراةا لعروس ‘ کے قصے سے ظاہر ہوتا ہے۔ نذیراحمد اپنے زمانے سے قبل اور خوداپنے زمانے کی مشہور ومعروف تعلیم یافتہ عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے ’مراة العروس‘ میں تعلیم نسواں کی اہمیت وافادیت کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
”جو لڑکیاں اپنا وقت گڑیاں کھیلنے اور کہانیاں سننے میں کھوتی ہیں وہ بے ہنری رہتی ہیں اور جن عورتوں نے وقت کی قدر پہچانی اور اس کو کام کی باتوں میں لگایا وہ مردوں کی طرح دنیا میں نامور اور مشہورہوئی ہیں جیسے نورجہاں بیگم، زیب النسا بیگم یا ان دنوں نواب سکندر بیگم یا ملکہ وکٹوریہ، یہ وہ عورتیں ہیں جنھوں نے ایک چھوٹے سے گھر یا کنبے کا نہیں بلکہ ملک اور جہاں کا بندوبست کیا۔“ (ایضاً، ص 15)
 نذیراحمد نے تعلیم نسواں کے موضوع پر جس بے باکی سے لکھا وہ بے باکی اس عہد کے دیگر مفکرین کے یہاں نظر نہیں آتی۔ انیسویں صدی کے ہندوستان کی سماجی و تہذیبی صورت حال پر اگر نظرڈالی جا ئے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس عہد میں عورتوں کے تقدس اور احترام کے تو سبھی قائل تھے مگر ان کی انفرادی شناخت کا حامی کوئی نہیں تھا۔ اس عہد میں عورتوں کی تعلیمی صورت حال بہتر نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ ان کی سماجی صورت حال ابتر تھی، جس کی وجہ سے طرح طرح کے ظلم وستم ان پر ڈھائے جاتے تھے۔اس سنجیدہ مسئلے پر کسی نے آواز بلند کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس عہد میں یہ خیال عام تھا کہ عورت گھر کی زینت ہے اور اسے چہاردیواری میں رہنا چاہیے۔ مگر یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا چہار دیواری کے اندر ان کے حقوق کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوتی؟ سماجی آزادی کا فقدان، انفرادی حقوق کی پامالی، رحمِ مادر میں بچیوں کا قتل اور بیوہ کی دوسری شادی نہ ہوناوغیرہ ایسے مسائل ہیں جن سے طبقۂ نسواں کے تئیں مرداساسی سماج کی جہالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تعلیم نسواں اوران کے حقوق سے متعلق نذیر احمد کے موقف کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک ایسے عہد میں جو مرداساس معاشرہ تھاوہاں انھوں نے حقوق نسواں کی آوازاٹھائی۔ اسی لیے انھوں نے تعلیم نسواں کی حمایت تو کی مگر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ معاشرتی حالات میں عو رتوں کواپنا حق حاصل کرنا آسان تو نہیں ہے اس لیے انھیں چاہیے کہ پہلے مناسب تعلیم حاصل کریں۔ نذیراحمد ایک جگہ لکھتے ہیں:
” پڑھنا سیکھو کہ پردے میں بیٹھے ہوئے تمام دنیا کی سیر کرلیا کرو۔ علم حاصل کرو کہ اپنے گھر میں زمانے بھرکی باتیں تم کو معلوم ہواکریں۔“ (ایضاً، ص 25)
نذیراحمدتعلیم نسواں کے طرف دار اس لیے بھی تھے کہ عورتیں خانگی اور ذاتی زندگی میں اپنی کمیوں کا ازالہ کرکے تعلیمی و معاشرتی اعتبار سے حسن خلق جیسی نعمتوں سے مزین ہوسکیں۔ عصر حاضر میں اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ عورتوں میں تعلیم کی ضرورت اس لیے ہے کہ ان کی زندگی میں اولاد کی تعلیم وتربیت کا مرحلہ بھی آتا ہے۔ بچوں کی تربیت کی ذمے داری والدین کے سر ہوتی ہے، خاص طور پر ایک ماں اس سلسلے میں زیادہ سنجیدہ ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اس کے اندر تعلیم اور تربیت اولادکی اچھی صلاحیت نہ ہوتو وہ بچوں کی رہنمائی کیسے کرسکتی ہے۔ ’مرأة العروس ‘میں اس نفسیاتی نکتہ کا تجزیہ کرتے ہوئے نذیراحمد کچھ یوں رقم طراز ہیں:
”لڑکے مدرسے میں بیٹھنے کے بعد بھی مدتوں تک بے دلی سے پڑھا کرتے ہیں اور کہیں بہت دنوں میں ان کی استعداد کو ترقی ہوتی ہے۔ اس تمام وقت میں ان کو ماؤں سے یقینا بہت مدد مل سکتی ہے۔ اول تو ماؤں کی سی شفقت اور دل سوزی کہاں؟ اور دوسرے رات دن کا برابر پاس رہنا جب ذراطبیعت متوجہ دیکھی جھٹ کوئی حرف پہچنوادیا،یا کچھ گنتی ہی یاد کرادی، کہیں پورب پچھم کا امتیاز بتادیا۔مائیں تو باتوں باتوں میں وہ سکھا سکتی ہیں جو استاد برسوں کی تعلیم میں بھی نہیں سکھا سکتا۔“ (ایضاً، ص 26)
نذیراحمد کے نظریۂ تعلیم نسواں کی عکاسی ان کے خطوط میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ خواتین کی تعلیم اور ان کی تربیت کے تعلق سے کہتے تھے کہ یہ مردو ں کی ذمے داری ہے کہ اپنے گھروں میں عورتوں کو خو د تعلیم دیں اور اسے اس قابل بنائیں کہ وہ آنے والی نسلوں کی اچھی تربیت کرسکیں۔ ان کے یہاں گھر سے باہر نکل کر عورتوں کوتعلیم حاصل کرنے کا تصور اس لیے نہیں ملتا کہ اس عہد میں عورتوں کی عفت کا مسئلہ اورتحفظ کا ڈر تھا۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ گھر کے اندر ہی عورتوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ نذیراحمدکی گھروں میں تعلیم حاصل کرنے کی وکالت کامیاب بھی ہوئی۔ خود انھوں نے اپنے گھر میں اس بات کی تاکید کی۔ اپنی بہو کی تعلیم وتربیت کے متعلق بیٹے کوایک خط میں لکھتے ہیں:
”تاکید کروکہ تمھاری بی بی لکھنا سیکھے، اور اس کے پڑھنے کی کتابیں جمع کرو اور اس کی مدد کامل طور پر کی جائے۔ اگر فرمایشوں کی نوبت آئے تو اس کو حقارت کے ساتھ روک دینا کہ ہماری تمھاری حالت پر اماںکو نظر ہے اور اس قدر بس کرتاہے، جو ان کو مناسب معلوم ہوگا خود کریں گی۔ کچھ تھوڑا سا روپیہ دے کر دیکھو کہ کیا کرتی ہے؟ اگر وہ سودے سلف یا عارضی نمایش کی چیزوں میں اٹھا ڈالے تو جانو کہ احمق اور ناعاقبت اندیش ہے، اور اگر زیور یا دوسرے عمدہ مصرف میں لگائے تو البتہ خوشی کی بات ہے۔ تم کو ایک مدت تک بی بی کو تعلیم کرنا پڑے گا۔“ 
(ڈپٹی نذیر احمد: موعظہ حسنہ، مرتبہ: ثوبان سعید، نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی 2015، ص 167)
تعلیم نسواں کے سلسلے میں نذیراحمد کا یہ موقف رہا ہے کہ ان کو صرف اتنی تعلیم دی جائے کہ گھریلو کام کاج، اولاد کی تربیت اور اپنے حقو ق کو جان سکیں۔ انھوں نے عورتوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کی وکالت نہیں کی۔ ان کا ماننا تھاکہ عورتوں کو بنیادی تعلیم دینا ہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ جب بنیاد ہی نہیں ہوگی تو عمارت کا انحصار کس پر ہوگا۔ انیسویں صدی میں تعلیم نسواں کے سلسلے میں کوئی بہتر انتظام نہیں تھا جب کہ عصر حاضر میں تعلیم نسواں کے باب میں اسلامی ادارے قائم کےے گئے ہیں، جہاں لڑکیوں کی تعلیم کی بابت اچھا بندوبست کیا گیا ہے۔ جن میں ان کی تعلیم سے لے کر تربیت پر بھی خاص دھیان دیا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں عورتیں پردے میں رہ کر ہر وہ تعلیم حاصل کررہی ہیں جن کو پہلے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں عورتوں کی تعلیم کا تصور بھی نہیں تھا اور اس وقت ایسے ادارے بھی نہیں تھے جہاں پر ان کی عزت وعفت کی کوئی ضمانت لیتا۔ اس لیے اس عہد میں عورتوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا۔ عصر حاضر میں اس کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ عورتوں کی تعلیم کے لیے باقاعدہ مدارس اور ہاسٹل کا انتظام کیا گیا ہے جہاں پر ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عفت کی حفاظت بھی کی جاتی ہے۔ انیسویں صدی میں جو لوگ اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ پردہ کے رواج کی وجہ سے مسلمان عورتیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ کاسبب بنتی ہیں اس لیے وہ اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں۔ اس مسئلے پر نذیراحمد کا جو موقف ہے وہ قابل تعریف ہے۔ جس سماج میں عورتوں کی تعلیم کاکو ئی تصور ہی نہ ہو ان سے اچانک اعلیٰ تعلیم کی بات کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک کلووزن اٹھانے کی سکت رکھنے والے کو اچانک دس کلو دے دیا جائے۔کچھ لوگوں کا کہناہے کہ مسلم معاشرے میں جورسم وروا ج ہیں اس سے عورتیں ترقی نہیں کرسکتیں، نذیراحمد اس دلیل کو باطل قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات سے بالکل واقف تھے کہ پردہ کسی بھی طرح ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہیں بنتا ہے۔ انھوں نے ایک خط میں کچھ یوں لکھا ہے:
”مگر خوب سمجھ رہوکہ مجھ کو اس میں ذرا بھی کلام نہیں کہ ہندوستان کی عورتوں کو ان کی حالت کے مناسب تعلیم کرنا نہایت ضروری ہے۔ مگر ساتھ ہی رواج پردہ کی موقوفی کا میں سخت مخالف ہوں۔ اول تو میں انگریزوں کا کوئی کارنمایاں ایسا نہیں دیکھتا جس کو میں سمجھوں کہ پردہ اس میں حارج ہوسکتا ہے۔ اور اگر ہوبھی تو بے پردگی کے خراب نتیجے اخباروں میں پڑھتے پڑھتے کلیجا پک گیا ہے۔“ (ایضاً، ص 209)
جہاں پر تعلیم نسواں کا کوئی تصور ہی نہ ہو وہاں پر اچانک اعلیٰ تعلیم کی بات کرنا احمقانہ سی بات لگتی ہے۔ اس زمانے کے روشن خیالوں کو پہلے عورتوں کے لیے مناسب تعلیم کی بات کرنی چاہیے تھی جیسا کہ نذیر احمد نے کی۔ درج بالا اقتباس اس بات پر دال ہے کہ نذیراحمد عورتوں کو مناسب تعلیم دینے کے حق میں تھے۔ نذیراحمدبھی اگراس عہد میں اعلیٰ تعلیم کی بات کرتے تو سماج ان کو بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھتا۔لیکن انھوں نے پہلے عورتوں کے لیے مناسب تعلیم کی بات کی اور یہی وقت کی ضرورت بھی تھی۔ تعلیم نسواں کے متعلق نذیراحمد کے نظریات وخیالات کی عکاسی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ انھوں نے پہلے اپنے گھر کی عورتوں کو مناسب تعلیم دینا فرض سمجھا۔ ’مرأة العروس‘ اس کی ایک اہم کڑی ہے۔ ان کے خط کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
” خدا کی قسم ایک ہمارے گھر کی عورتیں ہیں کہ ہر طرح کی عمدگی ان میں ہے۔ پاک دامنی، دین داری، ہنر خانہ داری، شوہروں کی اطاعت گزاری،نیک دلی، کفایت شعاری:اور ان باتوں کے ساتھ اس قدر پڑھنا لکھنا جوہماری سوسائٹی کی حالت موجودہ کے لحاظ سے عورتوں کو ضروری ہے۔ کیا ہے جو ان میں نہیں ہے۔“ 
(ایضاً، ص 51)
تعلیم کے ساتھ عورتوں کو زمانے کی ضرورت کے مطابق ہنر بھی حاصل کرنا چاہیے۔کیوں کہ انسانی زندگی میں حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ اس لیے یہ صرف مردوں کے لیے خاص نہیں ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنراور لیاقت بھی حاصل کریں۔ مستقبل میں ایک انسان پروقت اور حالات کیسے ہوں گے یہ بات کسی کو نہیں معلوم۔ عورتوں کی زندگی ہمارے سماجی نظام میں مرد کے تابع ہے اور اس کے نان ونفقہ کی ساری ذمے داری مردوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور مرد ہی ہمارے سماج میں معاشی واقتصادی حالات کا ذمے دار ہوتاہے اس کے برعکس عورت کو امور خانہ داری کی ذمے داری سونپی جاتی ہے۔ مرد تلاش معاش میں ہروقت گھر پر نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے عورت پر امور خانہ داری کے علاوہ بچوں کی دیکھ ریکھ بھی واجب ہوتی ہے چوں کہ یہی ہمارا سماجی نظام ہے،اس لیے عورت کو تعلیم کے ساتھ لیاقت اورہنرحاصل کرنابھی ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ عین جوانی میں اگرشوہر کا انتقال ہوجائے یاکوئی حادثہ پیش آجائے تو اس کی بیوی کس در پر اپنے بچوں کو لے کر جائے گی۔ ایسی حالت میں اگر عورت تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ہنر مند ہوگی تو وہ گھر بیٹھے چھوٹے موٹے کام کرکے بھی اپنے اور اپنے بچوں کی باقی زندگی کا بیڑا پار کرسکتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر عورت میں تعلیم یا کوئی ہنر نہیں ہوگا تو اس کی بقیہ زندگی مصیبت زدہ ہوجائے گی۔ اس لیے ہمارا یہ سماجی فریضہ ہے کہ وقت اور حالات کی مناسبت سے ہم عورتوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ مصیبت پڑنے پر کسی کی محتاج نہ رہیں۔ ’مرأة العروس ‘ میں نذیر احمد اس مسئلے کی طرف توجہ مرکوز کراتے ہوئے لکھتے ہیں: 
”لکھنے پڑھنے کے علاوہ سینا پرونا کھانا پکانایہ دونوں ہنر ہر ایک لڑکی کو سیکھنے ضروری ہیں۔ کسی آدمی کو یہ حال معلوم نہیں ہے کہ آئندہ اس کو کیا اتفاق پیش آئے گا۔ بڑ ے امیر اور بڑے دولت مند یکایک غریب اور محتاج ہوجاتے ہیں اگر کوئی ہنر ہاتھ میں پڑا ہوتا ہے تو ضرورت کے وقت کام آتا ہے۔ یہ ایک مشہور بات ہے کہ اگلے وقتوں کے بادشاہ باوجود دولت و ثروت کے ضرور کوئی کام سیکھ رکھا کرتے تھے تاکہ مصیبت کے وقت کام آئے۔“
(ڈپٹی نذیر احمد: مرأة العروس، لکھنؤ، تیج کمار 1978، ص 18)
ڈپٹی نذیر احمد کا نظریۂ تعلیم نسواں پوری طرح واضح ہے۔وہ تعلیم نسواں کو وقت اور حالات کی ضرورت تسلیم کرتے ہوئے اس کے حق میں تھے کیونکہ وہ اس بات سے باخبرتھے کہ ہماری تہذیبی وسماجی ترقی تعلیم نسواں کے تصورکے بغیرمکمل نہیں۔ انھوں نے تعلیم نسواں کی شروعات اپنے گھر سے کی اور اپنی بچیوں کو پڑھانے کے لیے خود ہی کتابیں تصنیف کیں جن میں ’مرأةالعروس‘ اور ’بنات النعش‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اتنا ہی نہیں ان کی دیگر تصانیف جن میں ’توبة النصوح‘ اور ’مؤعظہ حسنہ‘ کا نام خاص طور پر لیا جاسکتا ہے یہ بھی تعلیم اور تربیت اولاد کے موضوع پر مبنی ہیں۔ تعلیم نسواں کے تئیں نذیراحمد کے افکارونظریات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کی تعلیم کے علاوہ اپنی اکلوتی بہو کو بھی تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنانا چاہتے تھے۔آج بھی ہمارے سماج میں ایسا بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ بہو کو تعلیم دینے کی بات کی جاتی ہو۔اس سوچ سے بھی نذیراحمدکے نظریۂ تعلیم نسواں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بہر حال اتنا تو واضح ہے کہ نذیر احمد وقت اور حالات کے مطابق تعلیم نسواں کو ضروری مانتے تھے۔جس کی زندہ مثال ان کی متعدد تصانیف ہیں جوآج بھی تعلیم نسواں کی اہمیت اور افادیت کوواضح کررہی ہیں۔تقریباً ڈیڑھ صدی کا عرصہ گزر جانے کے بعدبھی ان کی تصانیف مشعل راہ ہیں اور اردوادب میں اعلیٰ مقام کی حامل ہیں۔


Mohammad Amir
Room No: 002, Narmada Hostel
Jawaharlal Nehru University
New Delhi - 110067
Mob: 9868561984
Email.: mohdamir56@gmail.com



ماہنامہ اردو دنیا،اکتوبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے