دبستانِ
رامپور اور حیدرآباد، چند مشترک باتیں
محمد الیاس
دبستان رامپور اپنی ادبی خدمات کے لیے مشہور ہے لیکن حیدرآباد کا نام ادبی خدمات کے سلسلے میں رامپور سے بھی پہلے لیا جاتا ہے اردو کے ان عظیم مراکز کے درمیان بہت کچھ تاریخی حقائق مشترک ہیں۔فصیح الملک نواب مرزا خاں داغ کا رامپور سے حیدرآباد جانا اور وہاں ان کی قدردانی کی بہت سی روایات مشہور ہیں اور داغ کے انتقال کے بعد امیر مینائی کے شاگرد رشید جلیل القدر حافظ جلیل مانکپوری کا نظام حیدرآباد کے یہاں شرف استاذی سے سرفراز ہونا اردو ادب کا ایک اہم باب ہے۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نوابین حیدرآباد کو دو اساتذہ رامپور سے ہی حاصل ہوئے۔حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ رامپور ایک چھوٹی سی ریاست تھی یہاں کی چہار دیواری میں رہ کر داغ کو وہ شہرت نہیں ملی جتنی حیدرآباد جاکر ملی۔اسی طرح جلیل مانکپوری کو بھی حیدرآباد جاکر بڑی قدر و منزلت حاصل ہوئی جو نظام حیدرآباد کی اردو نوازی اور اساتذہ کی قدر شناسی کی ایک مثال ہے۔ان کو حیدرآباد کے دو فرمانرواؤں (میر محبوب علی خاں اور میر عثمان علی خاں) کی استاذی کا شرف حاصل ہوا۔ اردو شاعری میں امیروداغ کا زمانہ اردو شاعری کا جزوِ لا ینفک دور ہے ان کے بعد تلمیذ امیر، جلیل مانکپوری نے ان دونوں اساتذہ کی روایات کوآگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیااور دکن میں اردو شاعری کے ساتھ اردو صحافت کے فروغ میں ان کا ہم ترین حصہ رہا۔
امیر وداغ کے درمیان انتہائی دوستانہ تعلقات تھے،دونوں ایک دوسرے کے بے حد قدر شناس اور مداح تھے اگر چہ رامپور میں داغ کا رنگ زیادہ پسندیدہ تھا۔ ایک طرف تو داغ کی رنگین مزاجی اور دوسری طرف ان کی فصاحت لہٰذا عوام و خواص دونوں ان کے دلدادہ تھے۔ داغ کے کلام میں لوگوں کو اپنے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی تھیں اسی وجہ سے لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے میں وہ داغ سے آگے بڑھ گئے۔
امیر رامپور میں لکھنوی زبان کی نمائندگی کرتے تھے،جبکہ داغ کا دعویٰ تھا کہ اردو جس کانام ہے اسے صرف ہم دلّی والے ہی جانتے ہیں لہذا یہ دونوں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بھی کوشش کرتے تھے اور اس مسابقت میں ایسے اشعار اردو کے دامن میں آگئے جو اردو کے لیے تو عظیم سرمایہ ہیں ہی دبستان ِ رامپور کے لیے بھی باعثِ فخر ہیں،جیسے ؎
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اس میں ’ہمیں‘سے مراد دلی والے اور ’ہماری زبان‘سے مراد دلی میں استعمال ہونے والی زبان سے ہے لیکن اب شعر کے معنی و مفہوم میں بھی وسعت آچکی ہے اور اس کو ایک آفاقی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور اس کے مصرعہ ثانی کو لوگ اس طرح پڑھتے ہیں۔
”سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے“
اس شعر کے جواب میں امیر مینائی نے کہا تھا ؎
دعویٰ زباں کا لکھنؤ والوں کے سامنے
اظہارِ بوئے مشک غزالوں کے سامنے
داغ کے چار دواوین میں سے دو یعنی ’گلزارِ داغ‘اور ’آفتاب داغ‘رامپور کے زمانہ قیام کی تصنیف ہیں مثنوی فریاد داغ بھی رامپور کی یادگار ہے۔’ماہتاب داغ‘اور ’یادگارِ داغ‘ کے کلام میں وہ چاشنی نہیں جو ان کے کلام کا طرہئ امتیاز ہے۔رام بابو سکسینہ نے چار شعرا کو رامپور کے قصرِ شاعری کا ستون قرار دیا ہے۔امیر، داغ، جلال اور تسلیم۔ان چاروں کے کلام منفرد انداز کے ہیں۔داغ کو حیدرآباد میں جن خطابات سے نوازا گیا ان میں سے ایک ’جہاں استاد‘ بھی تھا لیکن رامپور میں ان کی حیثیت جہاں استاد کی نہیں تھی کیونکہ جس قصر شاعری کے وہ ایک ستون تھے،امیر ،جلال اور تسلیم بھی تو اس قصر شاعری کے ستون ہی تھے جبکہ حیدرآباد میں ان کے ہم پلہ کوئی شاعر نہیں تھا۔ تمام ناقدین نے لکھا ہے کہ داغ کے کلام میں حیدرآباد جانے کے بعد وہ تأثر باقی نہیں رہا جو رامپور کے زمانہ قیام کے دوران تھا۔داغ نے خود کہاتھا ؎
”جتنے تجربات مجھے رامپور کے زمانہئ قیام میں ہوئے کبھی نہیں ہوئے،رامپور نے میری شخصیت کو سانچے میں ڈھال دیا اور میرے سارے کس بل نکال دیے۔“ 1
شاید اسی وجہ سے حیدرآباد جانے کے بعد حسرت بھرے لہجہ میں داغ نے کہا تھا ؎
اے داغ بہت دور ہے دکن سے رامپور
ملتے امیر احمد و سید جلال سے
جبکہ دوسری طر ف رامپور میں امیر بھی داغ کی جدائی سے غمزدہ تھے ؎
کہاں ہم اے امیر اور اب کہاں داغ
وہ جلسے ہو چکے ’خلد آشیاں‘ تک
(خلد آشیاں سے نواب کلب علی خاں کی تاریخ وفات نکلتی ہے)
رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے :
”ان کا بہترین زمانہ ان کے قیام رامپور کا زمانہ کہا جا سکتا ہے جب سے کہ وہ حیدرآباد گئے اور وہاں ثروت و عیش ان کو نصیب ہوا شاعرانہ جگر کاوی اور محنت کے وہ عادی نہ رہے،مگر سچ یہ ہے کہ آخری فیصلہ کن چیز اس معاملہ میں نقاد کا رنگِ طبیعت اور رجحانِ مذاق ہے۔“ 2
23 مارچ 1887 کو نواب رامپور کلبِ علی خاں کا انتقال ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی رامپور میں اردو شعر وادب کے عہدِ زریں کا اختتام ہو گیا۔اس عہد میں کاملان فن جس طرح ریاست رامپور کا رخ کیا کرتے تھے اسی طرح یہاں شعر و ادب کی محفلوں کی رونقیں رفتہ رفتہ کم ہونے لگیں۔یہ عہدِ زریں ان کے والد نواب یوسف علی خاں کے مسند نشین ہونے یعنی 1855 سے شروع ہو کر 1887 میں ختم ہو گیا اور یہاں کے شعراو ادبا پھر ادھر ادھر بھٹکنے لگے۔رئیسِ رسولپور مولوی مہدی حسن شاداب کے نام ایک خط میں 19جولائی 1888 کو امیر مینائی نے لکھا تھا۔
”نواب مرزاخاں داغ سے کارخانہ اصطبل پہلے نکل گیا تھا فراش خانے کی موجودات وہ خود سمجھا کر مستعفی ہوئے۔استعفیٰ نا منظور اور رخصت دوماہ کی منظور ہوئی،کئی روز ہوئے کہ وہ بھی چلے گئے احتمال آنے کا ضعیف ہے،میں بھی نہایت دل برداشتہ ہوں۔معمولی وقت پر حسب حکم سرکار تسلیم گاہ میں جاکر تسلیم بجا لاتا ہوں۔“ 3
داغ اس کے بعد رامپور نہیں آئے کچھ دنوں بعد نظام حیدرآباد میر محبوب علی خاں نے ان کو اپنے یہاں بلا لیا اور وہ ان کی دعوت پر حیدرآباد چلے گئے۔نصیر الدین ہاشمی نے لکھا ہے۔
”اس دور میں سلطنت آصفیہ نے اردو کی سرپرستی اس طرح بھی فرمائی کہ ہندوستان کے مشہور شعرا اور مصنّفین کو اپنے ملک میں طلب کر لیا ان کو ماہوار و منصب جاری فرمادی تاکہ یہ ارباب کمال اردو کے خزانے کو مالا مال کرتے جائیں۔اس زمرے میں سب سے پہلے جہاں استاد فصیح الملک،بلبل ہندوستان مرزا داغ دہلوی ہیں جو رامپور کو خیرباد کہہ کر یہاں متوطن ہو جاتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت غفران مکان آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں کی استادی کی عزت حاصل ہوئی اور خطاب فصیح الملک،بلبل ہندوستان،جہاں استاد سے بجا طور پر مفتخر کیے گئے،دوہزار روپیہ ماہوار تنخواہ قرار پائی ہے۔“3
جلیل مانکپوری، مضافات اودھ مانکپور کے رہنے والے تھے۔ امیر مینائی کے چہیتے شاگرد تھے۔امیر مینائی کی ’امیر اللغات‘کی تدوین میں حتی الوسع امیر کا ساتھ دیا اور امیر نے اس سلسلے میں بیرون رامپور کے جو سفر کیے تھے ان میں بنارس اور بھوپال کے سفر میں امیر کے ساتھ رہے اور رامپور میں جو دفترامیر اللغات کی ترتیب کے لیے قائم کیا گیا تھا اس میں بھی ادارت کا فرض انجام دیا۔اس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ وہ نواب کلب علی خاں کے دور میں (1865 تا 1887)رامپور آئے تھے کیونکہ اسی دوران امیر نے بنارس اور بھوپال کے سفر کیے تھے اور والی بھوپال نواب شاہجہاں بیگم نے امیر اللغات کے لیے ان کی معاونت بھی کی تھی۔امیر نے داغ کو خطوط کے ذریعے اس طرف متوجہ کیا کہ وہ نظام حیدرآباد کے دربار میں ان کی رسائی کے لیے راہ ہموار کریں۔
اتفاق سے جنوری 1900 میں نظام حیدرآباد میر محبوب علی خاں نے کلکتہ کا سفر کیا۔داغ بھی ان کے ساتھ تھے۔راستے میں بنارس میں قیام کے دوران داغ کی وساطت سے امیر نے نواب میر محبوب علی خاں سے ملاقات کی۔نواب صاحب کی شان میں ایک مسدس جو انھوں نے بنارس جاتے وقت راستے میں ہی کہا تھا،ان کو سنایا۔میر محبوب علی خاں نے امیر سے ساتھ ہی حیدرآباد چلنے کے لیے کہا تو امیر نے موسم گرما میں حیدرآباد پہنچنے کا وعدہ کر لیا لیکن وہ برسات کے موسم میں حیدرآباد جا سکے بھوپال ہوتے ہوئے 5 ستمبر 1900 کو حیدرآباد پہنچے۔ ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے لطیف احمد اور مسعود احمد، جلیل، تین دیگر افراد خاندان اور تین خدمت گار تھے۔ان کے بیٹے محمد احمد صریر رامپور میں ہی رہے۔وہ نواب حامد علی خاں کے استاد اور مصاحب خاص تھے۔لہذا رامپور میں ایک محلہ کوچہئ مینائیاں کے نام سے مشہور ہے جہاں امیر کے خاندان کے افراد سکونت پذیر رہے۔حیدرآباد پہنچنے پر امیرکی توقع سے زیادہ پذیرائی ہوئی۔حیدرآباد ریلوے اسٹیشن پر ان کا شاندار خیر مقدم کیا گیا۔آہ کو ایک خط میں امیر نے لکھا تھا:
”بھائی صاحب! 5 ستمبر کو 5 بجے شام حیدرآباد پہنچے۔یہاں پیشتر سے بذریعہ اشتہار ورود کی اطلاع ہو گئی تھی۔تمام اسٹیشن استقبال کرنے والوں سے بھراہوا تھا۔ اس درجہ مقبولیت کا ہر گز خیال نہ تھا جو ثابت ہوئی۔ مہاراجہ بہادر(بشن پرشاد)پیشکار، وزیر، افواج کی گاڑیاں لیے ہوئے،پنڈت رتن ناتھ سرشار موجود تھے۔“ 5
حیدرآباد کے سفر کے دوران امیر نے کہا تھا ؎
اب کے سفر وہ ہے کہ نہ دیکھوں گا پھر وطن
یوں تو میں لاکھ بار غریب الوطن ہوا
کیسی گھڑی تھی،گھر سے جو نکلا تھامیں غریب
پھر دیکھنا نصیب نہ مجھ کو وطن ہوا
لیکن امیر چونکہ رامپور سے ہی شدید علالت کی حالت میں روانہ ہوئے تھے بالآخر حیدرآباد پہنچنے کے 39 دن بعد 13/ اکتوبر 1900 کو انتقال ہو گیا۔ امیر کی زندگی کے 43 سال رامپور میں گزرے لیکن حیدرآباد کی خاک ان کا مقدر بنی۔زندگی کی تمام ترکوششوں کے باوجود 1886 میں مفید عام پریس آگرہ سے امیر اللغات کا نمونہ شائع ہوا تھا جس کو لے کر امیر نے بہت سے شہروں کا دورہ کیا اور اہل علم حضرات سے ملے تھے۔اور 1891 اور 1892 میں الف مقصورہ اور الف ممدودہ پر مشتمل دو جلدیں شائع ہو سکیں باقی یہ سارا ادبی سرمایہ ضائع ہو گیا۔ جبکہ امیر نے 8 جلدوں میں امیراللغات کو مکمل کر دیا تھا۔ حیدرآباد جاکر ان کے انتقال کے بعداس کی اشاعت کی رہی سہی امیدوں نے بھی دم توڑ دیا۔اس کا مسودہ بھی یکجا نہیں رہ پایا وہ بھی منتشر ہو گیا۔
ان کے علاوہ حیدرآباد جانے والوں میں مولوی احسن اللہ ثاقب، ممتاز علی آہ، وسیم خیرآبادی اور مضطر خیرآبادی تھے۔ آہ حیدرآباد کے ہی رہنے والے تھے اور استاد کے بلانے پر رامپور چلے گئے تھے لیکن جب خود امیر حیدرآباد آئے تو آہ بھی حیدرآباد آ گئے اور امیر کے انتقال کے بعد انھوں نے حیدرآباد میں ہی امیر مینائی کی یادگار کے طور پر ایک کتاب’امیر مینائی‘ شائع کی تھی جس کے زیادہ تر صفحات میں امیر اور رامپور کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے اور غالب کی رامپور آمد کا بھی ذکر کیا گیا ہے یہ کتاب ادبیات رامپور کی ایک اچھی یادگار ہے۔1889 سے 1895 تک ممتاز علی آہ دفتر امیر اللغات کے سکریٹری رہے اور 1895 سے 1900 تک یعنی امیر کے قیام رامپور کے اختتام تک جلیل دفتر کے سکریٹری رہے۔
حیدرآباد میں مہاراجہ کشن پرشاد شاد (تلمیذ داغ) مدار المہام کی سرکار سے جلیل کے لیے سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر ہو گیا۔ 1905 میں جب داغ کا انتقال ہو گیا تو جلیل کو نظام حیدرآباد میر محبوب علی خاں کی استادی کا شرف حاصل ہوا اور ماہانہ وظیفہ سو روپے سے بڑھ کر پانچ سو روپے ہو گیا۔جلیل القدر کا خطاب عطا ہوا۔جب میر عثمان علی خاں آصف جاہ مسند نشین ہوئے تو ان کے استاد بھی جلیل ہی رہے اور انھوں نے اپنے استاد کو ’فصاحت جنگ بہادر‘ کے خطاب سے نوازا اور’امام الفن‘ کا لقب عطا کیا۔ ان کے علاوہ وہاں کے حکمراں خاندان کے افراد جو شاعری کا ذوق رکھتے تھے جلیل سے ہی اصلاح لیتے تھے۔ ریاض،مضطر اور وسیم، تلامذہ امیر نے ان کو جانشین امیرقراردیا۔
نور الحسن ہاشمی نے لکھا ہے ؎
”جلیل القدر نواب فصاحت جنگ بہادر جلیل جانشین حضرت امیرمرحوم کو ایک زمانہ جانتا ہے۔آپ کا کلام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 1365ھ میں آپ کا حیدرآباد میں انتقال ہوا۔آپ کی شاعری نے دکن میں اردو کی ترقی میں جو کام کیے ہیں ان کے مد نظر آپ کے ذکرخیر کے بغیر یہ مضمون مکمل نہیں ہو سکتا۔“ 6
نظام حیدرآباد میر محبوب علی خاں کی سرپرستی میں ’محبوب الکلام‘نام سے ایک ماہانہ گلدستہ شائع ہوتا تھا اور اس کے بعد(میر عثمان علی خاں کے) دورِ آصفی میں ’دبدبہ آصفی‘کے نام سے ایک ماہنامہ نکلتا تھا ان دونوں کی ادارت جلیل کے ذمے رہی۔رامپور میں نواب کلب علی خاں نے دبدبہ سکندری کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالنا شروع کیا تھا اور جب امیر اور جلیل نے رامپور سے رخت سفر باندھا جب بھی دبدبہ سکندری نکلتا تھا ممکن ہے اسی کے نام پر حیدرآباد سے دبدبہ آصفی نکالا گیا ہو۔ باضابطہ طور پر جلیل کو جانشین قرار دیا گیا لیکن داغ کے انتقال کے بعد اردو شاعری کے لیے جلیل کی بیش بہا خدمات رہیں اور خاندان شاہی کے علاوہ بے شمار شعرا نے ان سے اکتساب فن کیا اور اردو شاعری کو عروج کی راہ پر گامزن رکھا۔ نصیر الدین ہاشمی کے علاوہ تمام مؤرخین نے جلیل کی شعری خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ 6 جنوری 1946 کو حیدرآباد میں ہی جلیل کا انتقال ہوا۔ امیر، داغ اور جلیل مانکپوری کے علاوہ مولوی احسن اللہ ثاقب،ممتاز علی آہ، ریاض خیرآبادی اور مضطر خیرآبادی، یہ وہ جواہر تھے جو ریاست رامپور میں اپنے فن پاروں کی ضو بکھیرنے کے بعد حیدرآباد کے حصے میں آئے۔ باقی ماندہ زندگی یہیں گزاری اور یہیں پیوند خاک ہوئے۔
حواشی
1؎ بزم داغ: رفیق مارہروی ص 209، سنہ شاعت درج نہیں
2؎ تاریخ ادب اردو: رام بابو سکسینہ ص 376، مطبع تیج کمار لکھنؤ 1986
3؎ خطوط منشی امیر احمد: مولوی احسن اللہ ثاقب، ص 309 اردو پریس علی گڑھ 1910
4؎ دکن میں اردو: نصیر الدین ہاشمی، ص547، سپرپرنٹر دہلی 1985
5؎ خطوط منشی امیر احمد:احسن اللہ ثاقب ص211، اردو پریس علی گڑھ 1910
6؎ دکن میں اردو:نصیر الدین ہاشمی ص631، سپرپرنٹر دہلی 1985
Dr. Mohd Ilyas
385, Peetal Basti
Moradabad - 244001 (UP)
Mob.: 9412838085
ماہنامہ اردو دنیا،نومبر 2019
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں