2/12/19

فوارہ آبپاشی سے پانی کی بچت اور بہتر کاشت کاری مضمون نگارـ محمد اویس



فوارہ آبپاشی سے پانی کی بچت اور بہتر کاشت کاری
محمد اویس

زراعت اور گلّہ بانی (Animal Husbandry) کے لیے پانی ایک اہم پیداوار ی عنصر ہے اوران کی ترقی کے لیے پانی بہت معاون ہے۔ملک میں موجود کل پانی کا تقریباً 78 فیصد حصہ زراعت میں آبپاشی کی شکل میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن پانی کی کم ہوتی دستیابی، ماحولیاتی تبدیلی اور معیشت کے دیگر شعبہ جات کی بڑھتی مانگ، مستقبل میں پانی کی گھٹتی دستیابی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ایک تخمینہ کے مطابق سال 2050  تک زراعت میں پانی کی موجودگی گھٹ کر 68   فیصد تک آنے کے امکان ہیں۔ نیتی آیوگ کی تازہ رپورٹ میں ملک میں پانی کے بحران سے آگاہ کیا گیا ہے اور سائنسی حقائق کی بنا پر زراعت میں پانی کی کھپت کو 50 فیصد سے کم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ زراعت میں آبپا شی  کے لیے زمینی پانی کا تقریباً ایک تہائی حصّہ استعمال کیا جاتا ہے اور زمینی پانی کے اندھا دھند استعمال کی وجہ سے اس کی سطح میں گراوٹ ہو رہی ہے۔ آبپاشی کے روایتی طریقے میں زیادہ پانی کے استعمال اور نقصان کی وجہ سے بھی پانی کی کمی محسوس کی جارہی ہے کیونکہ اس سے کم رقبہ میں آبپا شی  ہو پاتی ہے۔ اس کے علاوہ آبپا شی  کے شعبے میں سبھی معیاروں (سرکاری اور ذاتی) پر مسلسل کوششوں کے باوجود ابھی ملک کے کل مزروعہ رقبہ کے آدھے سے کم (49  فیصد) حصے میں آبپا شی کی سہولیات مہیا کی جا سکی ہیں اور باقی زیر کاشت رقبے کی قسمت ما نسونی بارش پر منحصر ہے۔ تبدیلیِ موسم کا بارانی علاقوں پر سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے اور ایک مطالعے کے مطابق بارانی فصلوں سے حاصل سالانہ آمدنی ا ٓبپا شی  والے علاقوں کے بہ نسبت 25 - 30  فیصد کم ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں آبپا شی کے بہتر طریقوں (فوارہ اور قطرہ قطرہ) کے تحت زیادہ سے زیادہ زرعی رقبہ شامل کرنے کی ضرورت ہے جس سے کہ موجودہ پانی کا مناسب اور منافع بخش استعمال ہو سکے اور فی قطرہ زیادہ پیداوار اور آمدنی حاصل کی جا سکے۔
ان حالات میں پانی کی دستیابی بنائے رکھنے،زیادہ رقبہ میں آبپا شی کرنے اور لاگت میں کمی لانے کے لیے فوارہ ا ٓبپا شی طریقہ اناج فصلوں کے لیے ایک اچھا متبادل ہے۔ اس آبپا شی میں پانی کو چھڑکاؤ کی شکل میں فصلوں کو دیا جاتا ہے جس سے پانی پودوں پر بارش کی بوندوں کی طرح پڑتا ہے اور کھیت میں پانی کا بھراؤ بھی نہیں ہوتا ہے۔ اس طریقے سے ا ٓبپا شی  زمین کے ڈھلان کے مطابق کی جا سکتی ہے اور مٹی کا کٹاؤ بھی نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ پودوں کو برابر مقدار میں پانی ملتا ہے جس سے ان کی نشوو نما یکساں ہونے سے زیادہ پیداوار ملتی ہے۔اناج فصلوں کے علاوہ دلہن اور تلہن فصلوں کے لیے بھی یہ طریقہ بہت فائدہ مند ہے کیونکہ ان فصلوں میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
خرد آبپا شی کی ترقی اور سرکاری اقدام  
نظامِ خردآبپا شی(Microirrigation)   پانی کا مناسب استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ رقبے میں آبپا شی  کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس نظام میں دو طریقے فوارہ (Sprinkler)اور قطرہ قطرہ(Drip) رائج ہیں۔ پانی کی کم ہوتی موجودگی اور دیگر شعبہ جات کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے خرد آبپا شی کو حکمت عملی کے طور پر سال 2005-06  میں مرکزی حکومت کے ذریعے اسکیم کی شکل میں شروع کیا گیا تھا۔ اس اسکیم کا جائزہ کرنے والی کمیٹیوں نے وقتاً فوقتاً اس میں بدلاؤ کیا۔ سال 2010  میں اس اسکیم کو National Mission on Microirrigation  اور سال 2014  میں پھر اسے National Mission on Sustainable Agriculture کے تحت ”کھیت میں پانی کا نظام“ کی شکل میں شروع کیا گیا۔ موجودہ وقت میں خرد آبپاشی اورآبپا شی کی دیگر اسکیموں کو وزیر اعظم زرعی آبپاشی اسکیم (2015) کے تحت شامل کر دیا گیا ہے جس کا خاص مقصد ’ہر کھیت کو پانی‘ اور’فی قطرہ مزید فصل‘ حاصل کرنا ہے۔ وزیر اعظم زرعی آبپاشی اسکیم کے شروع ہونے کے بعد کے سالوں میں خرد آبپاشی کے رقبے میں پرکشش توسیع ہوئی ہے اور اس کے تحت کل رقبہ بڑھ کر 11.58  لاکھ ہیکٹیئر ہو گیا ہے۔ جس میں قطرہ قطرہ 5.75 لاکھ ہیکٹیئر اور فوارہ کا 5.83 لاکھ ہیکٹیئررقبہ شامل ہے۔

خرد آبپاشی کی صوبہ وارانہ پیش رفت  

خرد آبپاشی خاص طور سے حکومت کے ذریعے اضافی امدادکے ساتھ اپنائی جا رہی ہے۔اس نظام ِآبپاشی کے تحت سب سے بڑا حصہ راجستھان میں (%19.4) تیار کیا گیا ہے اس کے بعد مہاراشٹرا  (%15.3)، آندھرا پردیش (%15.2)، گجرات(%12.4) اور کرناٹک (%11.4) آتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر ریاستوں ہریانہ (%6.3)، مدھیہ پردیش (%5.2)، تملناڈو (%4.3) اور چھتیس گڑھ (%3.10)نے بھی خرد آبپاشی کے تحت رقبہ پوشی کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مندرجہ بالا ریاستوں میں خرد آبپاشی کے تحت کل رقبہ کا تقریباً 93 فی صد حصہ محیط ہے۔ ان ریاستوں میں راجستھان کو خرد آبپاشی کے شعبے میں قیادت کرنے کا فخر حاصل ہے، جہاں نظام فوارہ کے تحت تقریباً ایک تہائی حصہ (%33) موجود ہے۔ تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہریانہ، گجرات اور کرناٹک وغیرہ ریاستوں میں فوارہ طریقہ کو اپنانے میں زیادہ دلچسپی ہے جبکہ آندھرا پردیش‘ مہاراشٹرا اور تملناڈو قطرہ قطرہ طریقے کو اپنانے کی جانب زیادہ متوجہ ہیں۔

فوارہ آبپاشی  کے فوائد  
جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ اس طریقہ کار میں پانی کو فوارہ کی مدد سے فصل یا مخصوص پودوں پر بارش کی شکل میں برسایا جاتا ہے۔ فصل کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف قسم کے فوارے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس نظام کو چلانے کے لیے بڑے پمپ کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ پانی کا دباؤ بنایا جا سکے۔ یہ نظام زیادہ تر روایتی فصلوں میں استعمال کیا جاتا ہے جس میں پانی کے پائپ زمین پر بچھانا مشکل یا  نا ممکن ہوتا ہے۔ اس طریقے میں زمین میں نمی بنی رہتی ہے اور پودوں کو برابر پانی ملتا رہتا ہے۔ اس میں آبپاشی کے ساتھ کیمیاوی کھاد، حشرات کش ادویات وغیرہ کا چھڑکاؤ بھی آسانی سے ہو جاتا ہے۔ایسا کرنے پر پانی کی بربادی نہیں ہوتی ہے۔فصلوں کے علاوہ گھاس کے میدانوں، پارکوں و سجاؤٹی پودوں میں بھی فوارہ آبپاشی کی جا سکتی ہے۔ شروعاتی دور میں ضمنی طور پر فوارہ کا استعمال  صرف چائے، کافی، سونف اور ڈھالدار کھیتوں میں اگائی گئی فصلوں میں کیا جاتا تھا۔

جدول1 :  فوارہ آبپاشی کے تحت پانی کی بچت اور پیداوار میں اضافہ

      فصل کا نام                     پانی کی بچت(%)                            پیداوار میں اضافہ (%) 
1       گندم                                   35                                                      24
2        جو                                   56                                                      16
3      باجرا                                  56                                                      19
4      کپاس                                   36                                                      50
5     چنا                                      69                                                      57
6     جوار                                     55                                                      34
7   سورج مکھی                            33                                                       20 
 پانی کی کمی والے علاقوں میں یہ طریقہ آبپاشی بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے جس کے ذریعے پانی کی تقریباً  30-50 فیصد تک بچت کی جا سکتی ہے۔ موجودہ وقت میں تقریباً 3 ملیئن ہیکٹیئر زمین میں فوارہ کا استعمال ہو رہا ہے۔ 
حدود و قیود  
ان سب فوائد کے علاوہ اس کے کچھ حدود و قیود بھی ہیں جن کا ذکر حسبِ ذیل ہے:
1 -   یہ نظام تمام اقسام کی فصلوں کے لیے ایک جیسے نتائج نہیں دیتے ہیں۔
-2  فصلوں کے حساب سے ان کی استعداد کار میں تبدیلی آتی ہے۔
-3  اس نظام کی سب سے اہم ضرورت توانائی ہے اور اس کی تنصیب سے پہلے کاشتکار کے پاس بجلی کا کنکشن، جنریٹر یا شمسی توانائی کا ہونا ضروری ہے۔
-4  ہوا کی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے پانی صحیح طریقے سے تقسیم نہیں ہو پاتا ہے۔ چکنی مٹی اور گرم ہوا والے علاقوں میں اس نظام سے آبپاشی نہیں کی جا سکتی ہے۔
-5  پانی کھارا نہ ہو، صاف ہو اور اس میں ریت،کنکر اور کوڑا کرکٹ نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم زرعی آبپاشی اسکیم  

(PMKSY)
اس اسکیم کے اہم مقاصد میں کھیتوں کی سطح پر آبپاشی کے سلسلے میں سرمایہ کاریوں کا انضمام حاصل کرنا ہے یعنی آبپاشی (ہر کھیت کو پانی)کے تحت قابلِ کاشت رقبہ میں اضافہ کرنا، پانی کے ضیاع کو کم کرنے کے لیے کھیتوں میں پانی کے استعمال کی اثر پزیری کو بہتر بنانا، مناسب آبپاشی اور پانی کی بچت کی دیگر ٹیکنالوجیاں اپنانے میں اضافہ کرنا اور آبی ذخائر کی دوبارہ بھرائی میں اضافہ کرنا۔ اس کے علاوہ محیطی شہری کاشت کاری کے لیے میو نسپل پر مبنی صاف کردہ پانی کا دوبارہ استعمال کرنے کے قابل عمل ہونے کا پتہ لگا کر پانی کی بچت کے پائدار طریقے شروع کرنا اور آبپاشی کے نظام میں زیادہ سے زیادہ نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔ اس طریقے کو اپنا نے سے 40-50  فیصد پانی کی بچت کے ساتھ 35-40  فیصد پیداوار میں اضافہ اور فصل کے معیار میں بہتری ممکن ہے۔ اس اسکیم کا فائدہ سبھی زمرہ کے کسان اُٹھا سکتے ہیں۔  اس اسکیم کو حاصل کرنے کے لیے کسان کے پاس اپنی زمین اور پانی کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ایک کسان کو اُسی زمین پر دوبار ہ سات سال بعد اسکیم کا فائدہ لینے کی اجازت ہے۔فطری طور سے یہ اسکیم پانی کی بچت اور آبپاشی کے لیے ایک پائدار ماڈل کا باعث بن سکتی ہے۔ نیز آگے چل کر دیہی اور زرعی ترقی یقینی موجب ہو سکتی ہے۔

وزیر اعظم زرعی آبپاشی اسکیم کے تحت گرانٹ 
خواہش مند کسان اپنا رجسٹریشن اپنے صوبہ کے شعبہ زراعت اور باغبانی پر آن لائن درخواست جمع کر سکتے ہیں اور اس اسکیم کا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ رجسٹریشن کے لیے کسان کے پاس شناخت کے لیے آدھار کارڈ، زمین کے لیے کھتونی اور گرانٹ کی رقم منتقلی کے لیے بینک پاس بک کے صفحہ اوّل کی نقل ہونا لازمی ہے۔
قطرہ قطرہ اور فوارہ آبپاشی تنصیب کرنے والی رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے کسی بھی فرم سے کسان اپنے مطلوبہ طور پر فراہمی/ تنصیب کاری کرانے کے لیے آزاد ہے۔کمپنی یا  اس کے ڈیلر کو BIS معیار کے مطابق سسٹم کے اجزاء کی فراہمی کرنا لازمی ہے اور فروخت کے بعد کم از کم 3 سال تک مفت سروس کی سہولت مہیا کرنا بھی کمپنی کی ذمہ داری ہے۔
قطرہ قطرہ اور فوارہ آبپاشی کے لیے چھوٹے و حاشیہ دار کسان کو یونٹ لاگت کی 90 فیصدگرانٹ سرکار کی طرف سے دی جاتی ہے۔ اس میں 50  فیصد مرکزی حکومت و 40   فیصد ریاستی حکومت کا حصہ شامل ہے۔ 10  فیصد لاگت کسانوں کو لگانی ہوتی ہے۔ دیگر زمرہ کے کسانوں کو یونٹ لاگت پر 80 فیصدگرانٹ دی جاتی ہے۔ باغبانی،زرعی اور گنّا فصلوں میں قطرہ قطرہ و فوارہ آبپاشی کو فروغ دینے اور زیادہ معیاری فصل پیدا کرنے کے لیے کسانوں کو حکومت اتر پردیش نے 35  فیصد اضافی امداد دینے کا نظم کیا ہے۔ حکومت اترپردیش نے سال 2018-19  میں  198.74 کروڑ روپیہ کی اسکیم میں درج فہرست اقوام /قبائل کسانوں کے لیے 42.74  کروڑ  روپیہ کا خصوصی بندوبست کیا ہے۔تنصیب کار کمپنیوں / فرموں کی مجوزہ قیمت کی بِنا پر حکومتِ ہند کے ذریعے تعین شدہ یونٹ لاگت کے مطابق ضلع کمیٹی کے تصدیق کرنے کے بعد گرانٹ کی رقم ڈائرکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (DBT) سے براہ راست کسان کے کھاتے میں منتقل کی جاتی ہے۔
خلاصہئ کلام 
زرعی فصلوں کی پیداواربڑھانے میں پانی ایک کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔پانی کی عدم موجودگی اور زراعت میں پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فوارہ آبپاشی ایک مناسب نظام ہے۔ اس نظام کے تحت آبپاشی کرنے سے زیادہ رقبے میں آبپاشی کی جا سکتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور صنعت کاری کی وجہ سے زراعت میں پانی کی دستیابی مستقبل میں ایک سنگین چیلنج ہو سکتا ہے۔اس لیے فوارہ نظام کو جامع سطح پر اپنانے کی ضرورت ہے۔

Dr. Mohd Awais
ICAR-National Insititute of Agrcultural Economics & Policy Research,
DPS Marg, Pusa, New Delhi - 110012
E-mail: drmohdawais@gmail.com
Mob.: 9319324585



ماہنامہ اردو دنیا،نومبر 2019

 قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں