29/10/22

علی گڑھ تحریک، انجمن پنجاب اور جمالیات: دانش کمال

 

علی گڑھ تحریک کے بانی سرسید احمد خان تھے، جبکہ ان کے رفقا میں مولانا حالی، مولانا شبلی، ڈپٹی نذیر احمد، محسن الملک اور آغا خان وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس تحریک نے مسلمانوں کی علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی بیدار ی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اگرچہ سرسید سے بہت سارے امور میں اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اس تحریک کے اثرات کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس تحریک نے تعلیم کے میدان میں تو جو کارنامے ادا کیے سو کیے، ادبی سطح پر بھی اس تحریک نے بہت فعال کردار ادا کیا اور اردو ادب کے ایک کافی طویل دورانیے کو متاثر کیا۔ اسی تحریک کی ابتدائی شکل ہمیں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کی صورت میں نظر آتی ہے جس کا بنیادی مقصد انگریزی زبان سے اعلیٰ علمی اور سائنسی کتابوں کا ترجمہ تھا۔ یہ تراجم اس لیے بھی ضروری تھے کہ ہندوستانی ماحول میں اکثریت انگریزی زبان سے ناواقف تھی، اوربہت حد تک سرسید اور ان کے حامیوں کا یہ خیال تھا کہ موجودہ حالات میں انگریزی زبان اور اس سے متعلقہ علوم ہی ترقی کا واحد زینہ ہیں۔ چنانچہ اس سوسائٹی نے بہت ساری کتابیں شائع کیں۔ مولوی عبدالحق نے تو سوسائٹی کی جانب سے شائع شدہ کتابوں کی تعداد 40 بتائی ہے لیکن اصغر عباس کی تحقیق کے مطابق سائنٹفک سوسائٹی سے کل 15کتابیں ہی اشاعت پزیر ہوئی تھیں بہرحال اس وقت اور ماحول میں جبکہ تراجم کا کوئی خاص اہتمام نہ تھا اتنی کتابوں کا ترجمہ ہوکرشائع ہوجانا اپنے آپ میں اہمیت کا حامل ہے۔ اسی تحریک کے چلتے علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم کی بنیادرکھی گئی جو بعد میں محمڈن اے او کالج اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوگیا۔

اس تحریک کے بنیادی مقاصد تو نئے علوم کا حصول، مذہب کی عقلی تفہیم، سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترویج و ترقی تھے۔ لیکن اس تحریک نے اردو ادب کو جس انداز سے متاثرکیا، اس کے اثرات بہت دیر پا ثابت ہوئے۔ چنانچہ اسی تحریک کے زیر اثر حالی نے سوانحی سلسلہ شروع کیا اور یادگار غالب، حیات سعدی اور حیات جاوید جیسی جاوداں کتابیں تصنیف ہوئیں۔ شبلی نے ہیروز آف اسلام کے منصوبے کے تحت الفاروق، المامون، النعمان اورالغزالی جیسی کتابوں کی تصنیف کا بیڑا اٹھایا۔ ڈپٹی نذیر احمدنے ناول نویسی کی طرف قدم بڑھائے اور اردو میںناول نگاری کا پہلا خاکہ پیش کیا۔ اس طرح اس تحریک نے اردو میںکئی ایک اہم اصناف کی جانب پیش رفت کو تیز کردیا۔اسی کے ساتھ ساتھ اردو نثر و نظم کی تہذیب میں بھی اس تحریک نے نمایاں کردار ادا کیا۔ سرسید اپنی ان کوششوں کے بارے میں خودکہتے ہیں

’’جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کے علم و ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں کے ذریعے سے کوشش کی۔ مضمون کے ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ جہاں تک ہماری کج مج زبان نے یاری دی،الفاظ کی درستی،بول چال کی صفا ئی پر کو شش کی۔ رنگینیِ عبارت سے جو تشبیہات اور استعاراتِ خیالی سے بھری ہوتی ہے اور جس کی شوکت، صِرف لفظوں ہی میں رہتی ہے اور دِل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا، پرہیز کیا۔تک بندی سے جو اس زمانے میں مقفیٰ عبارت کہلاتی تھی، ہاتھ اٹھایا۔ جہاں تک ہو سکا سادگیِ عبارت پر توجہ کی۔ اِس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو، وہ صرف مضمون کی اَدا میں ہو۔ جو اَپنے دِل میں ہو، وہی دوسرے کے دِل میں پڑے، تاکہ دِل سے نکلے اور دِل میں بیٹھے۔‘‘(ہماری خدمات)

اگرچہ اردو ادب میں سادہ زبان کے استعمال کا آغاز مرزا غالب کے خطوط سے ہی ہوچکا تھا، مقفی اور مسجع نثر کی روایت ختم ہونے کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے تھے لیکن اس نظریے کو فروغ دینے اور اسے پوری طرح رائج کرنے میں سرسید کی کوششوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سرسید اور ان کے رفقا کے لیے سادہ نثر کو اختیار کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ انھوں نے جو بھی تخلیقات پیش کیں وہ ادب برائے ادب نہیں بلکہ افادی مقاصد کے تحت لکھی گئی تھیں۔ اس افادی مقصدکے تحت ان تخلیقات کے مخاطب ادبی طبقات تو کم کم ہی تھے، ان کا مخاطبہ عوام سے زیادہ تھا اس لیے ضروری بھی تھا کہ ایسا سادہ اور ہلکا پھلکا اسلوب اپنایا جائے جسے سمجھنے میں عوام کو کوئی دشواری نہ ہو۔

اس کے بعد انجمن پنجاب کی تشکیل ہوئی اور جدید اردو نظم کی بنیاد اسی کے مناظموں سے پڑی۔ انجمن پنجاب کا خصوصی تعلق علی گڑھ تحریک سے اس لیے بھی جڑتا ہے کیونکہ سرسید کے سب سے قریبی رفقا میں خواجہ الطاف حسین حالی کا بھی شمار ہوتا ہے جو انجمن پنجاب کے زیر انتظام ان مناظموں کے انعقاد میں پیش پیش تھے۔ڈاکٹر عبادت بریلوی انجمن پنجاب کے تعلق سے رقم طراز ہیں

’’اردو شاعری اس منزل سے اس وقت روشناس ہوئی جب 57 کے انقلاب کے بعد زندگی میں نئے حالات پیدا ہوئے اور ان نئے حالات کے نتیجے میں جب نیا احساس بیدار ہوا،نئے شعور نے آنکھ کھولی اور نئے معاملات و مسائل وجود میں آئے۔ایک نئی دنیا پیدا ہوئی، ایک نیا نظام قائم ہوا،ایک نئے معاشرے کی بنیاد پڑی اور ایک نئی تہذیب کی جھلکیاں نظر آنے لگیں،یہ تبدیلی ہماری زندگی کی بہت اہم تبدیلی تھی۔ چنانچہ اس نے زندگی کے ہر شعبے میںایک نیا انداز پیدا کیا۔شاعری بھی اس نئے انداز سے بچ نہ سکی۔اس کے موضوعات بدلے اور ان موضوعات کو پیش کرنے کے لیے نئے سانچے بنائے گئے۔اس تبدیلی کی جھلک سب سے پہلے انجمن پنجاب کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ان مشاعروں میں نظر آتی ہے جنھیں لاہور میں اسی مقصد سے ترتیب دیاگیاتھا اور جن میں حالی اور آزاد پیش پیش تھے۔‘‘ 

(عبادت بریلوی،جدید شاعری، ایجوکیشنل بک ہائوس،علی گڑھ، 2005، ص11,12)

انجمن پنجاب کے ان مناظموں میں موضوعاتی نظموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور ان میں خاص طور پر اس بات پر توجہ مرکوز رکھی گئی کہ نیچرل شاعری کو فروغ دیا جائے اور فطرت، مظاہر فطرت وغیرہ پر خصوصی طور پر نظمیں لکھی جائیں۔ چنانچہ اس ضمن میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں

’’انجمن پنجاب کے مشاعرے آزاد یا حالی کے کہنے پر شروع نہ ہوئے تھے۔وہ کسی بھی صورت میں مشاعرے کے محرک نہیں تھے۔حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے لفٹنینٹ گورنر نے مدارس کی درسی کتب کے لیے فطرت کی شاعری پر مشتمل نظمیں لکھوا کر نصاب میں شامل کرنے کے لیے ہالرائیڈ کو خصوصی ہدایات بھیجی تھیں اور ہالرائیڈ نے منصوبہ بندی کرکے آزاد اور حالی کی معاونت حاصل کی تھی۔‘‘ 

(ڈاکٹر تبسم کاشمیری،آزاد انجمن پنجاب اور جدیدیت،مشمولہ آزاد صدی مقالات،شعبہ اردو،پنجاب یونیورسٹی،اورینٹل کالج، لاہور، 2010، ص 88)

کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں حالی اور آزاد نے اس سلسلے میں بھرپور کوششیں کیں، دراصل یہاں بھی وہی فکر کام کررہی تھی کہ انگریزی ادب سے استفادے کے بغیر ہم بالکل ہی کورے ہیں۔ چونکہ انگلش قوم اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تصور کی جاتی تھی لہٰذا یہ خیال عام تھا کہ تہذیبی، ثقافتی اور ادبی سطحوں پر اس قوم کی برابری کرنے کے لیے یہ لازم ہے کہ انہی کی اتباع و پیروی کی جائے۔ دوسری جانب زمینی سطح پر اس صداقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ انگلش قوم اس وقت علوم و فنون اور ادب میں ایک مخصوص بلندی پر فائز تھی اور بہت ساری قابل استفادہ چیزیں ان کے پاس موجود تھیں۔ لہٰذا ایسی صورت میں اس قوم سے استفادہ کرنا کچھ ایسا برا بھی نہ تھا۔ چنانچہ حالی و آزاد کی کوششوں سے ایک عمومی فضا بننی شروع ہوگئی۔ آزاد نے اس سلسلے میں بہت سارے لکچر دیے جن میں انھوں نے قدیم شعری جمالیات کو مکمل طور پر ترک کردینے کی سفارشیں پیش کیں۔ ان کے شعری خیالات کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے

’’شعر سے وہ کلام مراد ہے جو جوش و خروش خیالات سنجیدہ سے پیدا ہوا ہے۔اوراسے قوت قدسیہ الٰہی سے ایک سلسلہ خاص ہے۔خیالات پاک جوں جوں بلند ہوتے جاتے ہیں مرتبۂ شاعری کو پہنچتے جاتے ہیں۔

ابتدا میں شعر گوئی حکما اور علمائے متبحر کے کمالات میں شمار ہوتی تھی اور ان تصانیف میں اور حال کی تصانیف میں فرق بھی زمین و آسمان کا ہے۔البتہ فصاحت و بلاغت اب زیادہ ہے مگر خیالات خراب ہو گئے۔سبب اس کا سلاطین و حکام عصر کی قباحت ہے۔انھوں نے جن جن چیزوں کی قدر دانی کی۔لوگ اس میں ترقی کرتے گئے۔ ورنہ اسی نظم و شعر میں شعرا ئے اہل کمال نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں جن کی بنا فقط پند پر ہے اور ان سے ہدایت ظاہر و باطن کی حاصل ہوتی ہے۔چناچہ بعض کلام سعدی و مولوی روم و حکیم سنائی و ناصر خسرواسی قبیل سے ہیں۔‘‘

(نظم آزاد،مرتبہ آغا محمد باقر، شیخ مبارک علی تاجر کتب لوہاری بازار، لاہور، 1929، ص 22,23)

ظاہر سی بات ہے آزاد شاعری کے افادی پہلوؤں پر خاصا زور صرف کررہے تھے، وہ معاملات حسن و عشق اور تفریح و تفنن طبع کے لیے تخلیق شعر کے قائل نظر نہیں آتے بلکہ انتہائی سختی کے ساتھ شعر کے افادی پہلوؤں کو اجاگر کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے کلام خسرو و سعدی، مولانا روم اور حکیم سنائی وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ’بعض‘ کا لاحقہ لگاکر ان کے عشقیہ کلام کو بھی نشان زد کردیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک تخلیق شعر کااصل مقصد تفریح طبع اور تسکین احساس جمال نہیں بلکہ قوم کی تعمیر و ترقی ہے۔ ظاہر سی بات ہے جب کلام میں صرف افادی پہلوؤں پر زور دیا جانے لگے گا تو ایسی صورت میں جمالیاتی پہلو کا دب جانا فطری ہے۔

محمد حسین آزاد نے بذات خود ’محنت کرو، حب وطن، میری پیاری اماں‘ جیسی نظمیں تخلیق کیں۔ ان نظموں میں جمالیاتی قدروں کا وہ پیمانہ ہی نہیں ہے جس سے ہم عمومی ادب کو جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ مثال کے طور ان کی نظم حب وطن کے چند اشعار دیکھیں          ؎

بن تیرے ملک ہند کے گھر بے چراغ ہیں

جلتے عوض چراغوں کے سینوں میں داغ ہیں

کب تک شب سیاہ میں عالم تباہ ہو

اے آفتاب ادھر بھی کرم کی نگاہ ہو

عالم سے تا کہ تیرہ دلی دور ہو تمام

اور ہند تیرے نور سے معمور ہو مدام

حب وطن اپنی جگہ ایک جمالیاتی تجربہ ضرور ہے کہ یہ انسانی فطرت میں داخل و شامل ہے، لیکن اس تجربے کا اظہار جس انداز سے کیا گیا ہے ظاہر سی بات ہے وہ کسی تصنع، تکلف اور ملمع کاری سے عاری ہے۔ یہ سادگی اور صفائی ضرور ہے لیکن اس میں قاری و سامع کو اپنی جانب کھینچنے اور ملتفت کرنے کا وہ ملکہ نہیں جس سے قاری ایک ہی نظر میں شکار ہوجائے اور کسی سحر میں گرفتار کھنچاچلا آئے۔ دوسری طرف اس طرح کے کلام میں اگرچہ سادگی پر بہت زیادہ زور دیا گیا اور لفظی صناعی سے دانستہ گریز کیا گیا لیکن اس کے باوجود مذکورہ پہلے شعر کے دوسرے مصرع میں ’’عوض چراغوں کے‘‘ کے اندر جو لفظی تعقید ہے وہ اہل نظر کی نظر سے مخفی نہیں ہے۔ اس تحریک سے جڑے ہوئے شعرا کے کلام کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ یہ سادگی بذات خود کہیں کہیں تصنع کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ یعنی وہ تراکیب و تعبیرات جو کسی مقام پر بالکل برجستہ سما سکتی تھیں، سادگی کے نام پر انھیں بھی تج دیا گیا اوریہ کلام بالکل ہی سیدھا اور سپاٹ نظر آنے لگا۔

اس سے قبل مقدمہ شعر و شاعری میں مولانا الطاف حسین حالی نے بھی کلام کی سادگی کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا؛

’’سادگی ایک اضافی امر ہے، وہی شعر جو ایک حکیم کی نظر میں محض سادہ اور سمپل معلوم ہوتا ہے اور جس کے معنی اس کے ذہن میں بمجرد سننے کے متبادر ہوجاتے ہیں اور جو خوبی اس میں شاعر نے رکھی ہے اس کو فورا ادراک کرلیتا ہے۔ ایک عام آدمی اس کے سمجھنے اور اس کی خوبی دریافت کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک عامیانہ شعر جس کو سن کر ایک پست خیال جاہل اچھل پڑتا ہے اور وجد کرنے لگتا ہے ایک عالی دماغ حکیم اسی کو سن کر ناک چڑھالیتا ہے اور اس کو محض ایک سخیف اور رکیک و سبک تک بندی کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔ ہمارے نزدیک ایسی سادگی جو سخافت اور رکاکت کے درجہ کو پہنچ جائے سادگی کا اطلاق کرنا گویا سادگی کا نام بدنام کرنا ہے۔ ایسے کلام کو سادہ نہیں بلکہ عامیانہ کہا جائے گا۔‘‘ 

(مولانا الطاف حسین حالی، مقدمہ شعر و شاعری، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 2002، ص58,59)

ظاہر سی بات ہے سادگی اور صفائی، سلاست و روانی، لوازم شعر اور دیگر تمام متعلقات کے لیے سارے اصول خودساختہ تھے ایسی صورت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ انجمن پنجاب کے زیر انتظام جو بھی شاعری پیش کی گئی وہ ایک مستحکم منشور کے تحت تخلیق کی گئی تھی۔ لہٰذا اس ضمن میں عمومی رجحان کا خیال رکھنا، قاری و سامع کے احساس جمال کی تشفی کا سامان فراہم کرنا وغیرہ ضروری نہیں سمجھا گیا بلکہ ایک بندھے ٹکے اصول کے تحت اپنے مقصود و مفہوم کو صرف شعری قالب میں ڈھال کر عوام کے سامنے رکھ دیا گیا۔ اسی تناظر میں اگر ہم مولانا حالی کی شاعری کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ خود مولانا حالی اپنے شعری نظریات کی وضاحت اپنے اشعار ہی کے ذریعے کردیتے ہیں          ؎

اے شعر! دل فریب نہ ہو تو، تو غم نہیں

پر حیف تجھ پہ ہے جو نہ ہو دل گداز تو

یعنی حالی کے نزدیک شعر کا دل گداز ہونا لازمی اور ضروری ہے، جبکہ اس کی دل فریبی ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اس طرح دیکھا جائے تو حالی نے فنی جمالیات کا گلا تو پہلی ہی فرصت میں گھونٹ ڈالا، نیچر پر مبنی شاعری کی بات کی جائے تو بوزان کے اور اس کے ہم نواؤں نے مظاہر فطرت کو جمالیاتی دائرے سے پہلے ہی باہر نکال رکھا تھا، یہاں صرف ایک ہی بحث باقی تھی کہ مظاہر فطرت کی ادبی یا شعری عکاسی میں چونکہ ادیب و شاعر کا شعور شامل ہوجاتا ہے اس لیے ان ادبی کاوشوں پر جمالیاتی بحثوں کی گنجائش بہرحال باقی رہتی ہے۔ حالی کے اس قول کی روشنی میں ادیب و شاعر کی فنی جمالیات کا راستہ بھی مسدود ہوجاتا ہے۔ حسن و عشق کے معاملات کو حالی و آزاد شاعری کا حصہ رکھنا نہیں چاہتے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟ بقول مولانا حالی

’’… انسان کی روحانی اور پاک خوشیوں کو اس کے اخلاق کے ساتھ ایسا صریح تعلق ہے جس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین و تربیت نہیں کرتا لیکن ازروئے انصاف اس کا علم اخلاق کا نائب مناب قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔ اسی بنا پر صوفیہ کرام کے ایک جلیل القدر سلسلہ میں سماع کو جس کا جزو اعظم اوررکن رکین شعر ہے وسیلۂ قرب الٰہی اور باعث تصفیہ نفس و تزکیہ باطن مانا گیا ہے۔‘‘  

(مولانا الطاف حسین حالی، مقدمہ شعر و شاعری، اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 2002، ص15)

لفظی صناعی اور فکری سطح پر حسن و عشق کو ممنوع گرداننے کے بعد ظاہر سی بات ہے اب صرف اخلاقی موعظت ہی باقی رہ جاتی ہے جو اشعار میں کسی قدر جمالیاتی قدروں کی موجودگی کا سراغ دے سکتی ہے۔ افادی اور مقصدی ادب کا سب سے بڑا ا ور واضح نقصان یہی رہا ہے کہ یہاں جمالیاتی قدروں نے دم توڑ دیا ہے اور فکری اور موضوعاتی سطح سے لے کر فنی اور اسلوبیاتی سطح تک ایک ہموار اور مسطح راستہ بنادیا ہے جہاں کوئی بھی نشیب و فراز نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بغیر کسی نشیب و فراز کے، بغیر کسی فنی شعبدہ گری کے، صرف سادگی و صفائی کی بنیاد پر شعر کس قدر دل پزیر بن سکتا ہے! حقیقت کی ترجمانی کچھ الگ شے ہے، خاص طور پر مولانا حالی عربی و فارسی کے جن شعرا کا حوالہ دے رہے ہیں اگر ان کی شعری جمالیات کا جائزہ لیا جائے توبات تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ ان کے یہاں کذب و افترا کا ماحول نہیں ہے، وہ جھوٹی باتیں نہیں کرتے، ان کے یہاں جمالیات کا ایک مخصوص پیمانہ و معیار پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم زہیر ابن ابی سلمی جیسے عظیم الشان شاعرکے معلقہ کی بات کریں جو سماجی اخلاقیات کی بہت زیادہ تلقین کرتا ہے        ؎

فلا تکتمن اللّٰہ ما فی نفوسکم

لیخفی و مہما یکتم اللہ یعلم

یؤخر فیوضع فی کتاب فیذخر

لیوم الحساب او یعجل فینقم

اس طرح کی باتیں کرنے والا شاعر بھی اپنے قصیدے میں آخرکار ایک تخیلاتی منظر میں عورتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ ہی بیٹھتا ہے         ؎

و فیہن ملہی للطیف و منظر

انیق لعین الناظر المتوسم

یعنی شاعری معاملات حسن و عشق سے مکمل طور پر عاری ہوہی نہیں سکتی، کسی نہ کسی سطح پر حسن و عشق شاعری میں جگہ پا ہی جاتے ہیں کیونکہ یہ فطرت انسانی میں داخل ہیں۔ اگر ان سے دانستہ پہلو تہی کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ایسا نہیں ہے کہ یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی لیکن اتنا ضرور ہوگا کہ شعر بالکل سپاٹ اور بے جان ہوجائے گا اور پھر وہ اپنی جانب قارئین کو کھینچ پانے میں ناکام ہوجائے گا۔ اصلاحی، تعمیری، افادی اور مقصدی شاعری میں بھی ہمیں یہ بات ملحوظ رکھنی ہوگی کہ اس شاعری میں اتنی تو جاذبیت بہرحال موجود رہے کہ لوگ اسے سننے اورپڑھنے پر آمادہ ہوسکیں کیونکہ جب سامعین و قارئین اسے سننے اور پڑھنے پر آمادہ ہی نہیں ہوں گے تو آپ کے مقاصد کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔

علی گڑھ تحریک اور انجمن پنجاب کی عمومی خدمات سے انکار کرنا ممکن نہیں اور یہ تقاضا انصاف کے بھی مخالف ہے لیکن اس کے باوجود اس حقیقت کا اعتراف بھی ہونا چاہیے کہ اگر ان کی جانب سے جمالیاتی اقدار پر اس قدر سخت بندش نہ لگائی گئی ہوتی تو شاید اس زمانے میں تخلیق کیا گیا ادب بھی ایک جمالیاتی معیار کا حامل ہوتا۔ ہاں اسی کے ساتھ ساتھ اس تحریک کی عقلیت پسندی اور افادی پہلوؤں پر حد سے زیادہ زور دینے کا جو رد عمل سامنے آیا وہ اردو کو جمالیاتی خزانوں سے معمور کرگیا۔

n

Danish Kamal  (Danish Asari)

H.No. 167/A, Behind Ayesha Masjid,

Bulaqui Pura, Mau Nath Bhanjan

Mau - 275101 (UP)

Mob.: 9236741905, 7007809510

E. mail. dkamal2011@gmail.com

 

 

 

 

 

 

 

 


28/10/22

تحریک آزادی کا جلی عنوان اردو زبان: مضمون نگار عقیلہ


 ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو زبان و ادب نے انتہائی اہم رول ادا کیا ہے۔ یاد رہے کہ زبان کا تعلق کسی مذہب یا کسی قوم سے نہیں ہوتا۔ انگریزوں سے مقابلہ کرنے کے لیے جس زبان نے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کو ایک صف میں کھڑا کردیا وہ اردو زبان ہی تھی۔ اس زبان کے شعرا صحافی اور ادبا نے اپنی ذمے داری کوسمجھتے ہوئے اسے ادا کرنے کی کوشش بھی کی۔ شعرا بھی ملک و قوم کی بدتر ہوتی ہوئی حالت سے بے خبر نہ تھے۔ جب انھوں نے ملک میں غیر کو حاکم بنے دیکھا تو کف افسوس ملتے رہ گئے۔ یہ دور اردو غزل کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ ایسے میں شعرا نے تغزل کے پردے میں انگریزی حکومت کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا۔ اس زمانے میں بعض شعرا نے انگریزوں کو گلچیں اور صیاد کا نام دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ بطور مثال سودا کا شعر ملاحظہ فرمائیے        ؎

صبا سے ہر سحر مجھ کو لہو کی باس آتی ہے

چمن میں آہ! گلچیں نے کس بلبل کا دل توڑا

اسی طرح مظہر جان جاناں بھی ملک کی حالت دیکھ کر تڑپ گئے۔ وہ اپنے دل کا حال کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں         ؎

یہ حسرت رہ گئی کس کس مزے سے زندگی کرتے

اگر ہوتا چمن اپنا، گل اپنا، باغباں اپنا

شاعروں نے غلامی اور اس سے پیدا ہونے والی گھٹن کو بہت پہلے ہی محسوس کر لیا تھا۔ اپنے انھیں احساسات و محسوسات کو شاعری کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں میر کے یہ چند اشعار پیش ہیں           ؎

دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

آگے چل کر یہ رنج و غم بغاوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے اب شعرا میں اتنا حوصلہ آگیا کہ وہ برطانوی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات کہہ سکیں۔ جب ہندوستانیوں نے اس بات کو محسوس کر لیا کہ یہ حاکم نہیں لٹیرے ہیں اور ہمارے ملک کو تباہی و بربادی کے راستے پر گامزن کر رہے ہیں تو ظالم حکمراں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اب ڈھکے چھپے لفظوں کی جگہ للکار نے لے لی۔ 1857 کے بعد ہندوستانی عوام نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ غیر ملکی اقتدار کو اپنے ملک سے بھگانا ہے اور کسی بھی طرح آزادی حاصل کرنی ہے۔ پہلی جنگ آزادی ناکام ضرور ہوگئی تھی مگر اس ناکامی نے لوگوں کو جوش اور حوصلے سے بھردیا تھا۔ انگریزی حکومت بھی اس بات سے باخبر ہوگئی تھی کہ جب تک ہندو مسلم کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں، اس ملک پر حکومت کرنا نا ممکن ہے۔ لہٰذا انھوں نے ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ادھر ہمارے ملک کے دانش مند حضرات ان کے ناپاک منصوبے کو ناکام کرنے کے لیے قومی یکجہتی پر زور دینے لگے۔ اس طرح اردو شاعری میں فلسفیانہ نظریات،عشقیہ تصورات اور دیگر موضوعات کی طرح قومی یکجہتی کے تصورات بھی شامل ہوگئے۔

انجمن پنجاب لاہور میں ہونے والے جلسوں اور مشاعروں نے قومی یکجہتی کے نظریات کوایک نئی رفتار اور قوت بخشی۔ اس سلسلے میں محمد حسین آزاد،  شبلی نعمانی، چکبست اور مولانا الطاف حسین حالی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس انجمن میں ایسی نظمیں پڑھی گئیں، جن کی بنیاد حب الوطنی اور قومی یکجہتی تھی۔ حالی کی نظم ’حب وطن‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ جو حالی کی وطن سے غیر معمولی محبت اور انسیت کا پتہ دیتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ       ؎

جان جب تک نہ ہو بدن سے جدا

کوئی دشمن نہ ہو وطن سے جدا

اسی طرح چکبست کی شاعری اپنے وقت کے سیاسی موضوعات سے لبریز تھی۔ حب الوطنی کے جذبات و خیالات کو انھوں نے بڑے ہی مؤثر انداز سے پیش کیا۔ انھوں نے ان سیاسی لیڈروں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا، جو برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے رہے اورکبھی ہار نہیں مانی۔ بال گنگا دھرتلک سے چکبست خاص متاثر تھے۔ ان کی موت سے پورے ملک میں غم کی لہر دوڑ گئی تھی۔ چکبست انھیں کچھ اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں       ؎

تھا نگہبان وطن دبدبۂ عالم ترا

نہ ڈگیں پاؤں یہ تھا قوم کو پیغام ترا

نیند سے چونک پڑے سن لیا جو نام ترا

بندۂ رسم جفا چین سے اب سوئیں گے

انقلابی شاعری کی بات ہو اور جوش ملیح آبادی کا ذکر نہ ہو کیونکہ جوش کے لب و لہجے میں وہ گھن گرج ہے جو جنگ کے میدان میں سپاہی کی آواز میں ہوتی ہے۔ جوش صرف برطانوی حکومت کو للگارتے نہیں ہیں بلکہ اپنے ہم وطنوں کو بغاوت کے لیے اور آزادی حاصل کرنے کے لیے اکساتے بھی ہیں۔

شاید جوش کے انھیں خیالات کی بنا پر انھیں شاعر انقلاب کا لقب دیا گیا۔ ان کے یہاں ایسی نظموں کی کثرت ہے جو عوام میں جوش اور ولولہ بھردے۔ زنداں، ’شکست زنداں کا خواب‘،  ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں کے نام اور انقلاب اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ جو ش کی نظم کے کچھ اشعار جو اس موقعے پر مجھے یاد آرہے ہیں۔ جس میں وہ نہ صرف برطانوی حکومت کو ملک چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہیں بلکہ صاف صاف لفظوں میں انھیں دھمکاتے بھی ہیں اشعار ملاحظہ ہوں           ؎

خیر اے سوداگرو اب ہے تو بس اس بات میں

وقت کے فرمان کے آگے جھکادو گردنیں

اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی

جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمھارے خون کی

علامہ اقبال بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہیں۔ ان کے ابتدائی دور کی نظمیں حب الوطنی، ہندومسلم اتحاد اور قومی یکجہتی کی بہترین مثالیں ہیں۔ انھوں نے آنے والے خطرے سے ہندوستانیوں کو باخبر کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ تمہاری فلاح اتحاد میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ   ؎

نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو

تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

علامہ اقبال کو اپنے وطن ہندوستان سے بہت محبت تھی۔ ان کے پہلے مجموعۂ کلام ’بانگ درا‘ میں ایسی نظمیں کثیر تعداد میں موجود ہیں جو خالص وطن کی محبت میں لکھی گئیں۔ وہ اپنے ملک کی حالت زار دیکھ کر آنسو بہاتے ہیں ’تصویر درد‘ میں ان کے یہ آنسو دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’ترانہ ہندی‘ لکھ کر اقبال نے قومی شعرا کی فہرست میں اپنا نام درج کیا۔ ’ترانۂ ہندی‘ کو آج بھی قومی گیت کی حیثیت حاصل ہے۔ اسے خاص موقعے پر بڑی شان سے پڑھا جاتا ہے۔

ان شعرا کے علاوہ ایسے کئی شعرا ہیں جنھوں نے اپنی جان کی فکر نہ کرتے ہوئے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش  کی اور انھیں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی تاکیدبھی کی حسرت موہانی، مجاز لکھنوی، علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، مخدوم وغیرہ یہ ایک لمبی فہرست ہے جن کے نام اور کارنامے ان چند صفحات میں پیش نہیں کیے جاسکتے۔ بعض شعراکو باغیانہ شاعری کی بدولت قید وبند کی صعوبتیں بھی اٹھانی پڑیں۔ لیکن ان کا حوصلہ کبھی کم نہ ہوا۔

نظم کی طرح عوام کو بیدار کرنے میں اردو نثر نے بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ ادیبوں نے ایسی کہانیاں تحریر کیں جنھیں پڑھ کر عوام نے غیر کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ایسے ناولوں اور افسانوں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔ جو عوام کے خون کو گرما دے۔ منشی پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ، سوز وطن جو 1908 میں شائع ہوا۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی تھی جسے انگریزی حکومت نے ضبط کیا۔ لیکن پریم چند کے حوصلے اس حادثے کے بعد مزید بلند ہوئے اور انھوں نے اپنا کام جاری و ساری رکھا۔ جس کے نتیجے میں میدان عمل اور چوگانِ ہستی جیسے ناول وجود میں آئے۔ ان کے علاوہ اردو ڈراموں نے بھی انگریزوں کے ظلم و ستم کی داستانیں بیان کیں۔

اسی طرح اردو اخبارات نے حوصلہ اور جوش پیدا کردیا کہ وہ انگریز کے سامنے اپنی بات کہہ سکے۔ ہندوستانیوں کو احساسِ کمتری سے نکالنے والے یہ اخبارات ان کا سب سے طاقتور ہتھیار بھی بنے۔ انگریز حکومت کو اس کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا اس لیے وہ اسلحے کو دبانا اور کچلنا چاہتے تھے۔ مگر ایسا کر نہ سکے۔ کئی صحافیوں کو قیدوبند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں، کچھ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور بعض کو ایسی دردناک سزائیں دی گئیں کہ سن کر روح کانپ جائے۔ لیکن یہ آزادی کے متوالے تھے اپنی دھن میںپکے، سزا اور اذیتیں برداشت کیں مگر راستہ نہ بدلا۔ انھیں نہ موت کا خوف تھا نہ پکڑے جانے کی فکر، انھوں نے اپنا مقصد حیات آزادی مقرر کرلیا اور پھر سکون سے نہ بیٹھے۔ ڈنکے کی چوٹ پر حکومت سے بغاوت کی۔ ان صحافیوںنے خبروں کی آڑ میں ہندوستانیوں میں غیرت جگائی، ان میں وہ جوش اور ولولہ پیدا کر دیا کہ وہ سر کٹانے کے لیے تیار ہوگئے ’کلکتہ کا جام جہاں نما‘ اردو کا پہلا اخبار تھا۔ جس نے ملک کی سرگرمیوں سے باخبر کیا۔ اس کے بعد اردو زبان میں اخباروں کا سلسلہ جاری ہوا۔ جنھوںنے چنگاری کو آگ میں تبدیل کرنے کا کام انجام دیا۔ دہلی کا ’اردو اخبار‘ حسرت موہانی کا ’اردوئے معلی‘’مولانا ابوالکلام آزاد کا ’الہلال‘ اور ’البلاغ ‘ پیسہ اور زمیندار وغیرہ بھی اہم اخبارات تھے۔ جس کے ذریعے عام آدمی تحریک آزادی میں شامل ہوتا گیا اور اس تحریک میں جان ڈالتا گیا۔

1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کے ظلم کا پہاڑ صحافیوں پر بھی ٹوٹا تھا۔ محمد حسین آزاد کے والد محمد باقر جو انقلاب زمانہ میں سچی اور حقیقی رپورٹنگ کر رہے تھے۔ انگریزوں کے عتاب کا نشانہ بنے۔ اسے اردو زبان کا شرف سمجھیے کہ محمد باقر اس زبان سے وابستہ تھے اور اپنا فرض ادا کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ پہلے ہندوستانی صحافی تھے جنھوں نے ملک کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔

پیسہ اخبار‘ بھی اردو صحافت میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے مدیر محبوب عالم انگریزوں سے سخت ناراض تھے اور ان کے خلاف بے خوف لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسرے اخبارات زمیندار، ہمدرد زمانہ وغیرہ اخبارات بھی اپنی ذمے داری اچھی طرح نبھا رہے تھے۔ مولانا حسرت موہانی کا نام بھی اس سلسلے میں اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اردو کے مشہور شاعر، کامیاب مجاہد آزادی اور ذمے دار صحافی تھے۔ 1903 میں علی گڑھ سے حسرت موہانی نے ’اردوئے معلی‘ نکالا۔ یہ رسالہ ادبی اور سیاسی اعتبار سے بہت اہم تھا۔ وہ انگریزوں سے پوری طرح آزادی چاہتے تھے۔ مولانا چاہتے تھے کہ آزادی اور وطن سے متعلق جو جذبات انھیں بے چین رکھتے ہیں وہی جذبات  ان کے ہم وطنوں میں بھی منتقل ہو جائیں اس کے لیے انھوں نے صحافت کا راستہ اختیار کیا اور کئی بار جیل بھی گئے۔1908 میں ’اردو ئے معلی‘ میں ’مصرمیں انگریزوں کی پالیسی‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا حالانکہ یہ مضمون مولانا حسرت نے نہیں لکھا تھا۔ اس کے باوجود انھیں دو سال کی قید اور پانچ ہزار جرمانے کی سزا ہوئی۔ لیکن مولانا کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ جرمانہ ادا کرسکیں۔ لہٰذا حکومت نے ان کا کتب خانہ نیلام کر دیا۔ اتنا کچھ برداشت کرنے کے بعد بھی مولانا حسرت کی ہمت میں ذرّہ برابر کمی نہ آئی۔ بلکہ انگریزوں کے خلاف نفرت اور غصے میں مزید اضافہ ہوگیا۔ رہائی کے بعد ایک بار پھر مولانا نے ’اردوئے معلی‘ نکالا۔  لیکن مالی تنگی اور حکومت کی ناراضگی کے سبب اسے جلد بند کر دیا گیا۔ مولانا حسرت موہانی انگریزی حکومت کے خلاف جلسوں میں پرجوش تقریریں بھی کرتے تھے۔ جس کی بدولت انھیں قید بھی ہوئی بہرحال انھیں کئی مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آزادی کی تحریک میں وہ برابر شریک رہے۔

تحریک آزادی میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اہم رول ادا کیا۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اگر مولانا آزاد نہ ہوتے تو ملک کو آزادی نہیں ملتی لیکن ہاں! اتنا ضرور ہے کہ اس تحریک کی رفتار اور سرگرمیوں کو کچھ کمی ضرور واقعہ ہوتی۔ مولانا آزاد کی خدمات تحریک آزادی میں سنہری حرفوں سے لکھنے کے لائق ہیں۔ ان کی بدولت مسلمانوں نے جنگ آزادی میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیا۔سرسید کی طرح مولانا آزاد بھی قوم کے خیرخواہ تھے۔ لیکن انھوں نے سر سیداحمد خاں کی طرح مسلمانوں کو انگریزی حکومت کا وفادار بننے کی صلاح نہیں دی۔ بلکہ انھیں اس حکومت کے خلاف کھڑا ہونے کا درس دیا۔ مولانا آزاد کو اپنے ملک و قوم سے بہت ہمدردی تھی اور یہی جذبہ انھیں کم عمری میں ہی صحافت کی طرف لے آیا۔ محض بارہ سال کی عمر میں ’’گلدستہ نیرنگ عالم‘‘ شائع کیا۔ ان کا تعلق تقریباً ایک درجن اخبارات سے رہا۔ ان کے سب سے مشہور و مقبول رسالے ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ بھی اہم ہیں۔ الہلال 1912 میں شائع ہوا لیکن جلد ہی اسے بند کرنا پڑا۔ 1915 میں البلاغ نکالا لیکن یہ اخبار محض پانچ مہینے بعد بند ہو گیا۔ 1927 میں الہلال ایک بار پھر جاری کیا۔ دراصل مولانا آزاد ان رسالوں کے ذریعے تحریک آزادی کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی مدد سے قومی تحریکات کی وضاحت کی اور اس بات سے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ وطن سے محبت ایمان کا لازمی جز ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ہندوؤںاور  مسلمان مل کر آزادی کی تحریک میںحصہ لیا۔یہی وجہ تھی کہ انگریزی حکومت کو ان اخبارات سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ انھوں نے اس پر طرح طرح کے جرمانے اور پابندیاں عائد کیں اور آخر 1927 میں ہمیشہ کے لیے بند کرنا پڑا۔

مختصر یہ کہ تحریک آزادی میں اردو زبان نے قربانیاں دیں۔ ’انقلاب زندہ باد‘، ’ سر فروشی کی تمنا‘، جیسے پرجوش ولولہ خیز اور خون کو گرما دینے والے نعرے اسی زبان کی دین ہیں۔ جنگ آزادی میں حصہ لینے کی بدولت اردو کے کئی صحافیوں، شعرا اور ادیبوں کو طرح طرح سے ستایا گیا، انھیں اذیتیں دی گئیں۔ کئی لوگوں کو کالا پانی کی سزا ہوئی اور بعض لوگوں کو جلاوطن کر دیا گیا۔ اس کے باوجود بھی ان مجاہدین نے ہار نہیں مانی۔

اردو میں ایسی لاتعداد تحریریں موجود ہیں جن میں عام آدمی کو آزادی کی جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ غرض اس زبان میں مولانا ابوالکلام آزاد جیسے آزادی کے متوالے بھی موجود ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ قید میں گزارا اور محمد باقر جیسے جانباز بھی موجود ہیں۔ جنھوں نے حق کی خاطر اپنی جان نچھاور کردی۔

 

Aqeela

Research Scholar, Dept of Urdu

Delhi University

Delhi - 110007

 

 

 

 

 

 

 

 

27/10/22

شہر آہن کا شیشہ گر: رونق سیمابی


 ادبی اعتبار سے ہندوستان میں ایسے خطے بھی موجود ہیں جن پر نہ کبھی سحاب کی ایک بوند ٹپکی اور نہ جن کی طرف کبھی کوئی نہرِ شاداب بھٹکی۔ ایسے علاقوں میں اردو کے وہ شعرا جو اپنے خونِ دل و جگر سے شعر و ادب کی آبیاری کرتے ہیں، واقعی لائقِ صد تحسین ہیں۔ ایسے شعرا میں رونق دکنی سیمابی کا بھی ذکر آتا ہے جنھوں نے آندھرا کے غیرادبی علاقے وشاکھاپٹنم میں پیدا ہوکر اسی ماحول سے اپنی فطری جودت و فطانت کے ذریعے اردو شعر و ادب کے اعلیٰ اقدار کا عرفان حاصل کیا ہے۔ ان کا اصل نام محمد عظیم خاں اور سنہ پیدائش 1902 تھا۔ اس اعتبار سے وہ ترقی پسندوں کے پیش رو مثلاً احسان دانش، حفیظ میرٹھی، فیض، جمیل مظہری وغیرہ کے ہمعصر ہیں اور ان کا ذہن و شعور بھی انہی سماجی سیاسی اور ادبی نشیب و فراز سے دوچار ہوا ہے جن سے دانش،  حفیظ، فیض یا جمیل مظہری کا ذہن و شعور متاثر ہوا تھا۔

رونق 18 سال کی عمر میں بہ سلسلۂ ملازمت جمشیدپور منتقل ہوگئے اور اسی شہرِ آہن کو اپنا وطنِ ثانی بنا لیا۔ موصوف نے اس آہنی شہر میں پہلی بار 1920 میں مشاعروں کی داغ بیل ڈالی۔ پہلے پہل نکڑ کی روشنی میں مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے سیماب لٹریری سوسائٹی کی بنا ڈالی جس کے زیراہتمام جمشیدپور میں بڑے بڑے یادگار مشاعرے منعقد ہوئے۔ ان مشاعروں میں وقتاً فوقتاً جوش ملیح آبادی، سیماب اکبرآبادی، جمیل مظہری، مجروح سلطانپوری جیسے اکابرِ شعر و ادب نے شرکت فرمائی۔  جمشیدپور میں مسلسل ادبی خدمات انجام دیتے ہوئے 4 نومبر 1984 کو 82 سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا اور وہیں ساکچی قبرستان میں پیوند خاک ہوئے۔ زندگی کے آخری ایام میں ’متاع ہنر‘ کے نام سے ایک شعری مجموعہ 1983 میں نکھار پبلی کیشنز، مئوناتھ بھنجن (یوپی) کی جانب سے اور ان کے انتقال کے بہت بعد ’کلیاتِ رونق دکنی سیمابی‘ کے نام سے ایک غزلیہ مجموعہ 2020 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی کی جانب سے شائع ہوا۔

علامہ سیماب کے بے شمار شاگردوں میں رونق دکنی کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، اس لیے بھی کہ علامہ کو ان سے کافی رغبت تھی۔ سب سے پہلے رونق دکنی نے حضرت عار بارکپوری کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔

1938 میں عار بارکپوری کے انتقال کے بعد عبدالرشید داد صدیقی سے تحریک پاکر انھوں نے اپنا کلام علامہ سیماب کے پاس بھیجا مگر علامہ نے اصلاح دینے سے اس لیے صاف انکار کردیا کہ رونق کی شاعری قدیم رنگ کی روایتی شاعری تھی۔ اس اطلاع سے رونق دکنی کی رگِ حمیت پھڑک اٹھی۔ انھوں نے عہد کرلیا کہ وہ علامہ سیماب کا نظریہ بدل کر ہی رہیں گے۔ اس لیے انھوں نے 20 مئی 1938 کو دبستانِ آگرہ کے مخصوص رنگ میں غزل کہہ کر علامہ کے پاس بھیجی، تو علامہ کو کہنا پڑا ’’مجھے یقین ہے کہ آپ نے ذرا توجہ سے کام لیا تو آپ بہت جلد فکرِ صحیح پر قابو پالیں گے۔‘‘ اس کے بعد سلسلۂ اصلاح سات سال تک جاری رہا۔ بالآخر 1945 میں انھیں ’فارغ الاصلاح‘ کی سند مل گئی۔

رونق دکنی کا قلم نظم، غزل، رباعی، مسدس، آزاد نظم غرض تقریباً ہر مانوس صنف سخن میں گلکاریاں کرتا رہا ہے۔ انھیں اساتذہ میں سیماب، فانی اور معاصرین میں جگن ناتھ آزاد اور غلام ربانی تاباں بہت پسند ہیں۔ راقم الحروف کے خیال میں رونق دکنی نے فانی کا سا دل اور سیماب، آزاد اور تاباں کا سا دماغ پایا ہے۔ دماغ سے مراد ان اصحاب کا وہ ذہنی رویہ جس سے انھوں نے کلاسیکیت اور رومانیت ان دونوں سطحوں کو پگھلا کر ایک سطح بنا دیا ہے۔ دراصل کلاسیکیت اور رومانیت ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ بقول والٹر پیٹر ’’کلاسیکیت حسن میں تنظیم کا نام ہے اور رومانیت حسن میں استعجاب کا۔‘‘ دراصل تنظیم اور استعجاب دونوں حسن کی خصوصیات میں سے ہیں جو ایک ہی سکے کے دو رخ کی طرح عمل پیرا ہوتے ہیں۔ رونق دکنی کے کلام میں کلاسیکل شعرا کی طرح فنی پابندی بھی ہے اور رومانی شعرا کی طرح فکر و خیال کی آزادی بھی۔ ان کی شاعری صاف ستھری مہذب قسم کی شاعری کی عمدہ مثال ہے جو دبستانِ آگرہ کا خاصہ ہے۔

جہاں تک نظموں میں بھوک اور افلاس کا تعلق ہے، رونق ترقی پسند تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں، لیکن ان کی روش ترقی پسندوں کی عام روش سے ہٹ کر ہے، کیونکہ یہ افادیت کا لیبل لگا کر اصلاح پسندی تک نہیں پہنچتی بلکہ سماج کو صاف و شفاف آئینہ دکھانے کا کام کرتی ہے۔ مثلاً نظم ’بھوک‘ میں فرماتے ہیں       ؎

ہوش ہوجائے معطل آگہی دے دے جواب

تازگی کی روح ہوجائے حجاب اندر حجاب

مسترد کردے نظام دل جب آئینِ دماغ

جب دماغ و دل کے گل ہونے لگیں روشن چراغ

فطرتاً یہ کیفیت ہے، ترجمانی بھوک کی

جاگتی ہے لے کے انگڑائی جوانی بھوک کی

یہاں شاعر موجودہ نظامِ حیات کا مصلح یا مسیحا نہیں بلکہ ایک مصور کی طرح اس کے رستے ہوئے زخموں کا ترجمان نظر آتا ہے۔

مادی علم و دانش کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ دورِ جدید کے انسان میں ملحدانہ  ذہنیت فروغ پانے لگی ہے۔ نظم ’بیگانۂ فردا‘ اس ملحدانہ ذہنیت کے خلاف ایک زبردست ضرب ہے۔ اس نظم میں فرشتے ان الفاظ میں ’جدید انسان‘ کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں          ؎

یہ مشتِ خاک بھی آمادۂ بغاوت ہے

اسے ہے زعم کہ ہے ذمہ دارِ بست و کشود

قصورِ فہم کی جدت طرازیاں توبہ

یہ کہتے ہیں تری قدرت کو کوششِ بے سود

یہی ہے حاصلِ تحصیلِ علم تو اک دن

بکھر ہی جائے گا شیرازۂ قیام و قعود

قادرِ قیوم کا جواب سنیے    ؎

بہ زعمِ علم مری ذات کے نہیں قائل

دلوں سے جوہرِ ایماں بھی ان کے ہے مفقود

غرض یہ ہے کہ سلیم الخیال و دانا ہیں

بہ ایں شکوہ یہ نا آشنائے فردا ہیں

یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ انسان جتنی بھی ترقی کرجائے، اس کا مستقبل اس سے ہمیشہ تاریک رہے گا، اور یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر آئنسٹائن اور ملنے جیسے سائنس دانوں کو بھی قادرِ مطلق پر ایمان لانا پڑا تھا۔ مذکورۂ بالا نظم کے  اسلوب و اندازِ بیان میں، ممکن ہے اقبال کے تتبع کا گمان گزرے، لیکن اقبال کی خوبیوں کو اپنانا بھی تو ایک کمال ہے۔

رونق دکنی موجودہ تہذیب کی مادی ترقیوں سے مطمئن نہیں ہیں، کیونکہ اس مادی ترقی کے ساتھ ساتھ دورِ جدید کا انسان روحانی تنزل کا شکار ہوچلا ہے اور اس مادی ترقی کے ہاتھوں خود اپنی ہستی کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں      ؎

چاند تاروں کی خبر کے لیے کوشاں ہے بشر

اپنی عظمت سے مگر بے خبری آج بھی ہے

ان کا یہ شعر معنوی اعتبار سے امجد نجمی کے اس شعر کے بہت قریب معلوم ہوتا ہے      ؎

چرخ پر اڑ کے بھی بے بال و پری باقی ہے

مل گئی چشم تو کیا بے بصری باقی ہے

حادثے، ادارے، تاثر، سکون وغیرہ رونق کی بہت ہی کامیاب نظمیں ہیں۔ نظم ’حادثے‘ اس نازک ردعمل کی ترجمان ہے جسے شاعر نے ’بت احساس شعور کے ٹوٹنے‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ بت رومان، امید، آرزو، شوق، ارادہ، زعم کسی کا بھی بت ہوسکتاہے ،کیونکہ انہی عناصر سے ’شعور‘ مرکب ہے اور قاری کا ذہن ان عناصر میں سے کسی کی طرف مبذول ہوسکتا ہے۔ اس طرح ہمارے ذہن میں گوناگوں تصویریں ابھرتی ہیں جو ہمیں جمالیاتی نشاط عطا کرتی ہیں۔ اس نظم میں ایسے خوبصورت پیکر استعمال ہوئے ہیں، جن میں تازگی، انوکھاپن اور قوتِ ترسیل تینوں صفتیں موجود ہیں۔ مثلاً کثرتِ نور سے ایوانِ خیال کا درخشاں ہونا، دل افسردہ کا اشک شبستانِ مجال بننا، بالیدگیِ روح کا انگڑائی لینا، خوابیدہ محبت کے ایاغ کا چھلکنا، بلندیِ فلک سے تارا ٹوٹنے کی طرح یا کسی بدبخت کے جینے کا سہارا ٹوٹنے کی طرح بتِ احساس شعور کا ٹوٹنا وغیرہ۔ خیال، دل، روح، محبت، احساسِ شعور، جیسے مجرد (Abstract) اشیا ذہن شاعر کو جس وجدانی کیفیت سے آشنا کرتی ہیں، اس کا پرخلوص ابلاغ مذکورۂ بالا پیکروں کی مدد سے بخوبی عمل میں آتا ہے۔

نظم ’ارادے‘ دو آوازوں پر مشتمل ہے۔ پہلی آواز دورِ حاضر کی مایوسی، ناکامی اور ناامیدی کی بازگشت ہے۔ دوسری آواز میں شاعر کے عزم عمل کی شمعیں فروزاں ہیں۔ یہ آواز دراصل شاعر کے ضمیر کی آواز ہے جو اس مصرع کے اردگرد گھومتی ہے۔

آدمی کو ابھی انسان بنانا ہوگا

اس نظم میں طاقِ غم میں ارمان کے چراغ کا سسکنا، جبینوں میں ناامیدی کا غبار مسلط ہونا، میکدۂ شوق کا ویراں ہونا، خونِ امروز سے فردا کے ایاغ کا چھلکنا جیسے بہت ہی کامیاب پیکر استعمال ہوئے ہیں جو جدید انسان کی ظاہری و باطنی کشمکش کو بہ حسن و خوبی واضح کررہے ہیں۔

نظم ’سکون‘ ایک ایسی آزاد نظم ہے جس کا آزاد فارم مرکزی خیال کی مناسبت سے فطری طور پر ابھر آیا ہے۔ اس طرح کا آزاد فارم کم ازکم رونق دکنی کے ہمعصر کسی شاعر سے متوقع نہیں ہے۔ حضرتِ سیماب سے شرفِ تلمذ حاصل کرنے کے بعد رونق دکنی کی نظموں اور غزلوں میں حسن و عشق کی روایتی روداد ایک طرح سے مفقود نظر آتی ہے۔ پھر بھی وہ اشارے کنایے میں حسن و عشق کی بہت سی گہری داستانیں کہہ جاتے ہیں۔ مثلاً ان کا یہ شعر لیجیے       ؎

باعثِ تزئینِ رنگ و بو نہیں ان کا وجود

پھر بھی کانٹوں کا چمن میں حقِ پیدائش تو ہے

کانٹوں کا عشق کی صعوبوں سے اور تزئینِ رنگ و بو کا حسن کی آرائش و زیبائش سے رشتہ جوڑا جاسکتا ہے کہ نہیں؟

وارداتِ قلبی جو وہم، یاس و حسرت، غم، ارمان، ناامیدی، شوق، مجبوری، درد، محرومی، عقیدت، انبساط جیسی مابعدالطبیعی کیفیات سے مرکب ہیں یا پھر عناصر نفسی مثلاً تصور، غرور، خیال، شعور، احساس ان سب کے ردعمل کی شاعرانہ عکاسی ان کے کلام میں مل جاتی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے       ؎

1وہم نے ڈال دی ہے روئے حقیقت پہ نقاب

2شدتِ یاس سے بوجھل ہے فضا

3وہ جو اک حسرتِ ناکام ہے گردش کی شکار

جنبشِ چشم فسوں ساز تک آپہنچی ہے

4طاقِ غم میں یہ سسکتے ہوئے ارماں کے چراغ

5ناامیدی کا جبینوں پہ مسلط ہے غبار

6لذتِ کش مکشِ شوقِ فراواں نہ رہے

بات دل کی اگر اظہارِ بیاں تک پہنچے

7وفا کی اف رے مجبوری کہ ذکرِ دردِ دل کو بھی

بہ عنوانِ حدیثِ دیگراں کہنا ہی پڑتا ہے

8نقاب اٹھا نہ سکے روئے انبساط سے ہم

کچھ اس میں سازشِ محرومیِ حیات بھی تھی

9سو عبادتوں پہ حاوی، سو ریاضتوں پہ غالب

مرا جذبۂ عقیدت جو ہے تجھ سے والہانہ

10کچھ خبر ہے تجھے نامحرمِ فیضِ شبِ غم

اک سحر اور بھی ہوتی ہے سحر سے پہلے

11وہ تصور کی حدوں سے ہوگئے جب بے نیاز

اک حجابِ بے حجابی درمیاں بنتا گیا

12مٹ گیا حسنِ تصور کا گراں مایہ غرور

کثرتِ نور سے رخشاں ہوا ایوانِ خیال

14پھر سے بالیدگیِ روح نے لی انگڑائی

ٹوٹ کر رہ گیا آخر بتِ احساسِ شعور

بعض موقعوں پر رونق دکنی کے کلام کی سادگی میں بھی بڑی پرکاری نظر آتی ہے۔ ایسی والہانہ شاعری میں کچھ نہیں ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ مثلاً        ؎

جابجا ہونے لگے اہلِ خرد میں تذکرے

لکھ دیا کس نے یہ دیواروں میں دیوانے کا نام

پڑ سکے غنچۂ دل پر نہ خزاں کے سائے

آشیاں جس پہ تھا، وہ شاخ ہری آج بھی ہے

ان کی غزلوں میں جدید شاعری کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں۔ مثلاً           ؎

کسی عمیق تصور میں چپ ہوں یوں رونق

کھڑا ہو جیسے سرِ رہ گزر شجر تنہا

کسی کلاسیکل  غزل گو شاعر کے نزدیک ’شجر‘ کا اس طرح استعمال راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزرا۔ یہاں شاعر نے ایک کامیاب مصور کی طرح تنہائی کے عالم کی ذہنی کشمکش کی تصویر کھینچ دی ہے، لگے ہاتھوں ایسے موقع میں غالب کا یہ شعر بھی سن لیجیے          ؎

ہے آدمی بذاتِ خود اک محشرِ خیال

ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

اخیر میں رونق دکنی کی غزلیہ شاعری کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے جن میں پختگی، شستگی، سنجیدگی اور فکری بالیدگی اپنے عروج پر نظر آتی ہے        ؎                

مری پلکیں ہیں چٹکتی ہوئی کلیوں کی نمود

صبح دم چاہو تو ان کلیوں سے شبنم لے لو

خود داریِ نفس کا وہ معیار ہے بلند

اظہارِ حالِ دل کی اجازت بھی اب نہیں

دیتا رہا بصیرتِ تابانیِ حیات

وہ قطرہ خونِ دل کا مژہ کی نمی میں تھا

شکستِ دل کو مقدر سمجھ لیا ہم نے

اب اور صبر ہم اس سے زیادہ کیاکرتے؟

نگارخانۂ ہستی کا ساتھ دو رونق

خوشی کے سامنے تصویرِ داد بن جاؤ

کیوں بخت کو الزام بہ ہرگام دیا جائے

اک موڑ تجھے کوششِ ناکام دیا جائے

محبت جرم بھی ہے اور سزا بھی؟

محبت میں روا کیا، ناروا کیا؟

ارضِ دکن میں پیدا ہونے کی وجہ سے انھیں تہذیبِ دکن پر ناز ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں          ؎

میں کہ پروردۂ تہذیبِ دکن ہوں رونق

میری ہر سانس میں ہے ارضِ دکن کی خوشبو

واقعی شہرِ آہن کا یہ جادوگر ہمہ وقت شیشہ گری کی تلاش میںسرگرداں رہا، جیسا کہ اس کے اس شعر سے ظاہر ہے     ؎

بنا کر شیشۂ دل توڑنا ہم کو نہیں آتا

فنِ آہن گری لے لو، ہمیں شیشہ گری دے دو

Prof. Karamat Ali Karamat

Rahmat Ali Building

Dewan Bazar

Cuttack - 753001 (Odisha)

Mob.: 9861579171