27/10/22

شہر آہن کا شیشہ گر: رونق سیمابی


 ادبی اعتبار سے ہندوستان میں ایسے خطے بھی موجود ہیں جن پر نہ کبھی سحاب کی ایک بوند ٹپکی اور نہ جن کی طرف کبھی کوئی نہرِ شاداب بھٹکی۔ ایسے علاقوں میں اردو کے وہ شعرا جو اپنے خونِ دل و جگر سے شعر و ادب کی آبیاری کرتے ہیں، واقعی لائقِ صد تحسین ہیں۔ ایسے شعرا میں رونق دکنی سیمابی کا بھی ذکر آتا ہے جنھوں نے آندھرا کے غیرادبی علاقے وشاکھاپٹنم میں پیدا ہوکر اسی ماحول سے اپنی فطری جودت و فطانت کے ذریعے اردو شعر و ادب کے اعلیٰ اقدار کا عرفان حاصل کیا ہے۔ ان کا اصل نام محمد عظیم خاں اور سنہ پیدائش 1902 تھا۔ اس اعتبار سے وہ ترقی پسندوں کے پیش رو مثلاً احسان دانش، حفیظ میرٹھی، فیض، جمیل مظہری وغیرہ کے ہمعصر ہیں اور ان کا ذہن و شعور بھی انہی سماجی سیاسی اور ادبی نشیب و فراز سے دوچار ہوا ہے جن سے دانش،  حفیظ، فیض یا جمیل مظہری کا ذہن و شعور متاثر ہوا تھا۔

رونق 18 سال کی عمر میں بہ سلسلۂ ملازمت جمشیدپور منتقل ہوگئے اور اسی شہرِ آہن کو اپنا وطنِ ثانی بنا لیا۔ موصوف نے اس آہنی شہر میں پہلی بار 1920 میں مشاعروں کی داغ بیل ڈالی۔ پہلے پہل نکڑ کی روشنی میں مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے سیماب لٹریری سوسائٹی کی بنا ڈالی جس کے زیراہتمام جمشیدپور میں بڑے بڑے یادگار مشاعرے منعقد ہوئے۔ ان مشاعروں میں وقتاً فوقتاً جوش ملیح آبادی، سیماب اکبرآبادی، جمیل مظہری، مجروح سلطانپوری جیسے اکابرِ شعر و ادب نے شرکت فرمائی۔  جمشیدپور میں مسلسل ادبی خدمات انجام دیتے ہوئے 4 نومبر 1984 کو 82 سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا اور وہیں ساکچی قبرستان میں پیوند خاک ہوئے۔ زندگی کے آخری ایام میں ’متاع ہنر‘ کے نام سے ایک شعری مجموعہ 1983 میں نکھار پبلی کیشنز، مئوناتھ بھنجن (یوپی) کی جانب سے اور ان کے انتقال کے بہت بعد ’کلیاتِ رونق دکنی سیمابی‘ کے نام سے ایک غزلیہ مجموعہ 2020 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی کی جانب سے شائع ہوا۔

علامہ سیماب کے بے شمار شاگردوں میں رونق دکنی کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، اس لیے بھی کہ علامہ کو ان سے کافی رغبت تھی۔ سب سے پہلے رونق دکنی نے حضرت عار بارکپوری کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔

1938 میں عار بارکپوری کے انتقال کے بعد عبدالرشید داد صدیقی سے تحریک پاکر انھوں نے اپنا کلام علامہ سیماب کے پاس بھیجا مگر علامہ نے اصلاح دینے سے اس لیے صاف انکار کردیا کہ رونق کی شاعری قدیم رنگ کی روایتی شاعری تھی۔ اس اطلاع سے رونق دکنی کی رگِ حمیت پھڑک اٹھی۔ انھوں نے عہد کرلیا کہ وہ علامہ سیماب کا نظریہ بدل کر ہی رہیں گے۔ اس لیے انھوں نے 20 مئی 1938 کو دبستانِ آگرہ کے مخصوص رنگ میں غزل کہہ کر علامہ کے پاس بھیجی، تو علامہ کو کہنا پڑا ’’مجھے یقین ہے کہ آپ نے ذرا توجہ سے کام لیا تو آپ بہت جلد فکرِ صحیح پر قابو پالیں گے۔‘‘ اس کے بعد سلسلۂ اصلاح سات سال تک جاری رہا۔ بالآخر 1945 میں انھیں ’فارغ الاصلاح‘ کی سند مل گئی۔

رونق دکنی کا قلم نظم، غزل، رباعی، مسدس، آزاد نظم غرض تقریباً ہر مانوس صنف سخن میں گلکاریاں کرتا رہا ہے۔ انھیں اساتذہ میں سیماب، فانی اور معاصرین میں جگن ناتھ آزاد اور غلام ربانی تاباں بہت پسند ہیں۔ راقم الحروف کے خیال میں رونق دکنی نے فانی کا سا دل اور سیماب، آزاد اور تاباں کا سا دماغ پایا ہے۔ دماغ سے مراد ان اصحاب کا وہ ذہنی رویہ جس سے انھوں نے کلاسیکیت اور رومانیت ان دونوں سطحوں کو پگھلا کر ایک سطح بنا دیا ہے۔ دراصل کلاسیکیت اور رومانیت ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ بقول والٹر پیٹر ’’کلاسیکیت حسن میں تنظیم کا نام ہے اور رومانیت حسن میں استعجاب کا۔‘‘ دراصل تنظیم اور استعجاب دونوں حسن کی خصوصیات میں سے ہیں جو ایک ہی سکے کے دو رخ کی طرح عمل پیرا ہوتے ہیں۔ رونق دکنی کے کلام میں کلاسیکل شعرا کی طرح فنی پابندی بھی ہے اور رومانی شعرا کی طرح فکر و خیال کی آزادی بھی۔ ان کی شاعری صاف ستھری مہذب قسم کی شاعری کی عمدہ مثال ہے جو دبستانِ آگرہ کا خاصہ ہے۔

جہاں تک نظموں میں بھوک اور افلاس کا تعلق ہے، رونق ترقی پسند تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں، لیکن ان کی روش ترقی پسندوں کی عام روش سے ہٹ کر ہے، کیونکہ یہ افادیت کا لیبل لگا کر اصلاح پسندی تک نہیں پہنچتی بلکہ سماج کو صاف و شفاف آئینہ دکھانے کا کام کرتی ہے۔ مثلاً نظم ’بھوک‘ میں فرماتے ہیں       ؎

ہوش ہوجائے معطل آگہی دے دے جواب

تازگی کی روح ہوجائے حجاب اندر حجاب

مسترد کردے نظام دل جب آئینِ دماغ

جب دماغ و دل کے گل ہونے لگیں روشن چراغ

فطرتاً یہ کیفیت ہے، ترجمانی بھوک کی

جاگتی ہے لے کے انگڑائی جوانی بھوک کی

یہاں شاعر موجودہ نظامِ حیات کا مصلح یا مسیحا نہیں بلکہ ایک مصور کی طرح اس کے رستے ہوئے زخموں کا ترجمان نظر آتا ہے۔

مادی علم و دانش کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ دورِ جدید کے انسان میں ملحدانہ  ذہنیت فروغ پانے لگی ہے۔ نظم ’بیگانۂ فردا‘ اس ملحدانہ ذہنیت کے خلاف ایک زبردست ضرب ہے۔ اس نظم میں فرشتے ان الفاظ میں ’جدید انسان‘ کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں          ؎

یہ مشتِ خاک بھی آمادۂ بغاوت ہے

اسے ہے زعم کہ ہے ذمہ دارِ بست و کشود

قصورِ فہم کی جدت طرازیاں توبہ

یہ کہتے ہیں تری قدرت کو کوششِ بے سود

یہی ہے حاصلِ تحصیلِ علم تو اک دن

بکھر ہی جائے گا شیرازۂ قیام و قعود

قادرِ قیوم کا جواب سنیے    ؎

بہ زعمِ علم مری ذات کے نہیں قائل

دلوں سے جوہرِ ایماں بھی ان کے ہے مفقود

غرض یہ ہے کہ سلیم الخیال و دانا ہیں

بہ ایں شکوہ یہ نا آشنائے فردا ہیں

یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ انسان جتنی بھی ترقی کرجائے، اس کا مستقبل اس سے ہمیشہ تاریک رہے گا، اور یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر آئنسٹائن اور ملنے جیسے سائنس دانوں کو بھی قادرِ مطلق پر ایمان لانا پڑا تھا۔ مذکورۂ بالا نظم کے  اسلوب و اندازِ بیان میں، ممکن ہے اقبال کے تتبع کا گمان گزرے، لیکن اقبال کی خوبیوں کو اپنانا بھی تو ایک کمال ہے۔

رونق دکنی موجودہ تہذیب کی مادی ترقیوں سے مطمئن نہیں ہیں، کیونکہ اس مادی ترقی کے ساتھ ساتھ دورِ جدید کا انسان روحانی تنزل کا شکار ہوچلا ہے اور اس مادی ترقی کے ہاتھوں خود اپنی ہستی کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں      ؎

چاند تاروں کی خبر کے لیے کوشاں ہے بشر

اپنی عظمت سے مگر بے خبری آج بھی ہے

ان کا یہ شعر معنوی اعتبار سے امجد نجمی کے اس شعر کے بہت قریب معلوم ہوتا ہے      ؎

چرخ پر اڑ کے بھی بے بال و پری باقی ہے

مل گئی چشم تو کیا بے بصری باقی ہے

حادثے، ادارے، تاثر، سکون وغیرہ رونق کی بہت ہی کامیاب نظمیں ہیں۔ نظم ’حادثے‘ اس نازک ردعمل کی ترجمان ہے جسے شاعر نے ’بت احساس شعور کے ٹوٹنے‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ بت رومان، امید، آرزو، شوق، ارادہ، زعم کسی کا بھی بت ہوسکتاہے ،کیونکہ انہی عناصر سے ’شعور‘ مرکب ہے اور قاری کا ذہن ان عناصر میں سے کسی کی طرف مبذول ہوسکتا ہے۔ اس طرح ہمارے ذہن میں گوناگوں تصویریں ابھرتی ہیں جو ہمیں جمالیاتی نشاط عطا کرتی ہیں۔ اس نظم میں ایسے خوبصورت پیکر استعمال ہوئے ہیں، جن میں تازگی، انوکھاپن اور قوتِ ترسیل تینوں صفتیں موجود ہیں۔ مثلاً کثرتِ نور سے ایوانِ خیال کا درخشاں ہونا، دل افسردہ کا اشک شبستانِ مجال بننا، بالیدگیِ روح کا انگڑائی لینا، خوابیدہ محبت کے ایاغ کا چھلکنا، بلندیِ فلک سے تارا ٹوٹنے کی طرح یا کسی بدبخت کے جینے کا سہارا ٹوٹنے کی طرح بتِ احساس شعور کا ٹوٹنا وغیرہ۔ خیال، دل، روح، محبت، احساسِ شعور، جیسے مجرد (Abstract) اشیا ذہن شاعر کو جس وجدانی کیفیت سے آشنا کرتی ہیں، اس کا پرخلوص ابلاغ مذکورۂ بالا پیکروں کی مدد سے بخوبی عمل میں آتا ہے۔

نظم ’ارادے‘ دو آوازوں پر مشتمل ہے۔ پہلی آواز دورِ حاضر کی مایوسی، ناکامی اور ناامیدی کی بازگشت ہے۔ دوسری آواز میں شاعر کے عزم عمل کی شمعیں فروزاں ہیں۔ یہ آواز دراصل شاعر کے ضمیر کی آواز ہے جو اس مصرع کے اردگرد گھومتی ہے۔

آدمی کو ابھی انسان بنانا ہوگا

اس نظم میں طاقِ غم میں ارمان کے چراغ کا سسکنا، جبینوں میں ناامیدی کا غبار مسلط ہونا، میکدۂ شوق کا ویراں ہونا، خونِ امروز سے فردا کے ایاغ کا چھلکنا جیسے بہت ہی کامیاب پیکر استعمال ہوئے ہیں جو جدید انسان کی ظاہری و باطنی کشمکش کو بہ حسن و خوبی واضح کررہے ہیں۔

نظم ’سکون‘ ایک ایسی آزاد نظم ہے جس کا آزاد فارم مرکزی خیال کی مناسبت سے فطری طور پر ابھر آیا ہے۔ اس طرح کا آزاد فارم کم ازکم رونق دکنی کے ہمعصر کسی شاعر سے متوقع نہیں ہے۔ حضرتِ سیماب سے شرفِ تلمذ حاصل کرنے کے بعد رونق دکنی کی نظموں اور غزلوں میں حسن و عشق کی روایتی روداد ایک طرح سے مفقود نظر آتی ہے۔ پھر بھی وہ اشارے کنایے میں حسن و عشق کی بہت سی گہری داستانیں کہہ جاتے ہیں۔ مثلاً ان کا یہ شعر لیجیے       ؎

باعثِ تزئینِ رنگ و بو نہیں ان کا وجود

پھر بھی کانٹوں کا چمن میں حقِ پیدائش تو ہے

کانٹوں کا عشق کی صعوبوں سے اور تزئینِ رنگ و بو کا حسن کی آرائش و زیبائش سے رشتہ جوڑا جاسکتا ہے کہ نہیں؟

وارداتِ قلبی جو وہم، یاس و حسرت، غم، ارمان، ناامیدی، شوق، مجبوری، درد، محرومی، عقیدت، انبساط جیسی مابعدالطبیعی کیفیات سے مرکب ہیں یا پھر عناصر نفسی مثلاً تصور، غرور، خیال، شعور، احساس ان سب کے ردعمل کی شاعرانہ عکاسی ان کے کلام میں مل جاتی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے       ؎

1وہم نے ڈال دی ہے روئے حقیقت پہ نقاب

2شدتِ یاس سے بوجھل ہے فضا

3وہ جو اک حسرتِ ناکام ہے گردش کی شکار

جنبشِ چشم فسوں ساز تک آپہنچی ہے

4طاقِ غم میں یہ سسکتے ہوئے ارماں کے چراغ

5ناامیدی کا جبینوں پہ مسلط ہے غبار

6لذتِ کش مکشِ شوقِ فراواں نہ رہے

بات دل کی اگر اظہارِ بیاں تک پہنچے

7وفا کی اف رے مجبوری کہ ذکرِ دردِ دل کو بھی

بہ عنوانِ حدیثِ دیگراں کہنا ہی پڑتا ہے

8نقاب اٹھا نہ سکے روئے انبساط سے ہم

کچھ اس میں سازشِ محرومیِ حیات بھی تھی

9سو عبادتوں پہ حاوی، سو ریاضتوں پہ غالب

مرا جذبۂ عقیدت جو ہے تجھ سے والہانہ

10کچھ خبر ہے تجھے نامحرمِ فیضِ شبِ غم

اک سحر اور بھی ہوتی ہے سحر سے پہلے

11وہ تصور کی حدوں سے ہوگئے جب بے نیاز

اک حجابِ بے حجابی درمیاں بنتا گیا

12مٹ گیا حسنِ تصور کا گراں مایہ غرور

کثرتِ نور سے رخشاں ہوا ایوانِ خیال

14پھر سے بالیدگیِ روح نے لی انگڑائی

ٹوٹ کر رہ گیا آخر بتِ احساسِ شعور

بعض موقعوں پر رونق دکنی کے کلام کی سادگی میں بھی بڑی پرکاری نظر آتی ہے۔ ایسی والہانہ شاعری میں کچھ نہیں ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ مثلاً        ؎

جابجا ہونے لگے اہلِ خرد میں تذکرے

لکھ دیا کس نے یہ دیواروں میں دیوانے کا نام

پڑ سکے غنچۂ دل پر نہ خزاں کے سائے

آشیاں جس پہ تھا، وہ شاخ ہری آج بھی ہے

ان کی غزلوں میں جدید شاعری کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں۔ مثلاً           ؎

کسی عمیق تصور میں چپ ہوں یوں رونق

کھڑا ہو جیسے سرِ رہ گزر شجر تنہا

کسی کلاسیکل  غزل گو شاعر کے نزدیک ’شجر‘ کا اس طرح استعمال راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزرا۔ یہاں شاعر نے ایک کامیاب مصور کی طرح تنہائی کے عالم کی ذہنی کشمکش کی تصویر کھینچ دی ہے، لگے ہاتھوں ایسے موقع میں غالب کا یہ شعر بھی سن لیجیے          ؎

ہے آدمی بذاتِ خود اک محشرِ خیال

ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

اخیر میں رونق دکنی کی غزلیہ شاعری کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے جن میں پختگی، شستگی، سنجیدگی اور فکری بالیدگی اپنے عروج پر نظر آتی ہے        ؎                

مری پلکیں ہیں چٹکتی ہوئی کلیوں کی نمود

صبح دم چاہو تو ان کلیوں سے شبنم لے لو

خود داریِ نفس کا وہ معیار ہے بلند

اظہارِ حالِ دل کی اجازت بھی اب نہیں

دیتا رہا بصیرتِ تابانیِ حیات

وہ قطرہ خونِ دل کا مژہ کی نمی میں تھا

شکستِ دل کو مقدر سمجھ لیا ہم نے

اب اور صبر ہم اس سے زیادہ کیاکرتے؟

نگارخانۂ ہستی کا ساتھ دو رونق

خوشی کے سامنے تصویرِ داد بن جاؤ

کیوں بخت کو الزام بہ ہرگام دیا جائے

اک موڑ تجھے کوششِ ناکام دیا جائے

محبت جرم بھی ہے اور سزا بھی؟

محبت میں روا کیا، ناروا کیا؟

ارضِ دکن میں پیدا ہونے کی وجہ سے انھیں تہذیبِ دکن پر ناز ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں          ؎

میں کہ پروردۂ تہذیبِ دکن ہوں رونق

میری ہر سانس میں ہے ارضِ دکن کی خوشبو

واقعی شہرِ آہن کا یہ جادوگر ہمہ وقت شیشہ گری کی تلاش میںسرگرداں رہا، جیسا کہ اس کے اس شعر سے ظاہر ہے     ؎

بنا کر شیشۂ دل توڑنا ہم کو نہیں آتا

فنِ آہن گری لے لو، ہمیں شیشہ گری دے دو

Prof. Karamat Ali Karamat

Rahmat Ali Building

Dewan Bazar

Cuttack - 753001 (Odisha)

Mob.: 9861579171

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں