18/1/21

اردو نصاب ہندوستان کے مدرسوں میں: ایک جائزہ - مضمون نگار: محمد توقیر عالم راہی


 


نصاب نہ صرف ملک کے تعلیمی نظام سے متعلق ہوتا ہے بلکہ طلبا کی کامیابی اور ناکامی میں بھی اس کا کردار ہوتا ہے۔ دراصل وہی نصاب مفید اورکارآمد ثابت ہوسکتا ہے جو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔یہی وجہ ہے کہ ماہرین ِتعلیم کو فی زمانہ نصابی امور پر غور وغوض کرتے رہنا چاہیے تاکہ نصاب طلبا کے حق میں مفید رہے۔نصاب مادری زبان کا ہو یا پھر بیرونی زبان کا، عمدگی سے اسے ترتیب دینا اشد ضروری ہے۔ اس کے بغیر تدریس میں کامیابی ممکن نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کامیاب تدریس ایک موزوں لائحۂ عمل پر مبنی ہوتی ہے جس کے تحت اغراض ومقاصد کا تعین کیا جاتا ہے۔ پھر ان مقاصد کے حصول کے لیے مناسب اقدامات کیے جاتے ہیں۔ انہی اقدامات میں نصاب بھی ایک اہم قدم ہے۔

 نصاب کی تیاری میں ماہرین تعلیم کی رائے کی اہمیت ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ زمانے کے نشیب وفراز پر نظر رکھتے ہیں۔ تغیر پذیر حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ پھر وہ لسانی مہارتوں،طلبہ کی ضروریات، دلچسپی، ماحول کے تقاضے اور قومی اقدار کے فروغ کو مدنظر رکھتے ہوئے اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ لیتے ہیں اور اس طرح کوئی پرکشش ومفید نصاب تیار ہوپاتا ہے۔مدارس کے اردو نصاب پر گفت وشنید سے قبل نصاب کی تعریف پر توجہ مرکوز کرنا مناسب ہے۔  

نصاب کی تعریف وتشریح مختلف ماہرینِ تعلیم نے مختلف طور پر کی ہے۔ ڈاکٹر صابرین نے نصاب کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے:

’’مطالعے کے لیے درسی کتب کے منظور شدہ خاکے کو نصاب سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔یا ایک ایسا تعلیمی منصوبہ، جس کی تکمیل مخصوص منظور شدہ کتب کے خاکے کے مطابق اپنی مقررہ مدت میں عمل میں آئے نصاب کہلاتا ہے۔ یا تعلیم کا ایسا نظام جس میں مطالعے کے لیے وقت اور کتب دونوں کا تعین کیا گیا ہو،نصاب سے منسوب کیا جاسکتا ہے، یا ایک ایسا تدریسی منصوبہ جو ایک خاص مدت پر مشتمل ہو، نصاب سمجھا جاتا ہے، یا یہ کہ اعلیٰ تعلیمی مقاصد کے حصول کے لیے مطالعے کا باقاعدہ منظور شدہ منصوبہ، نصاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک قسم کی تعلیمی منصوبہ بندی جس میں طلبہ کے ماضی اور حال کو نظر میں رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مستقبل پر بھی نظر رکھی گئی ہو، نصاب کہلاتا ہے‘‘۔

(ڈاکٹر محمد صابرین، یونیورسٹی درجات کے اردو نصابات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، دہلی ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ص37،1988)

ڈاکٹر صابرین نے نصاب کے مختلف پہلوؤں کو بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ مذکورہ اقتباس کی روشنی میں نصاب کا ایک خاکہ سامنے آجاتا ہے ۔ اس وضاحت کے بعد  ایک اچھے نصاب کے بنیادی ارکان کا تعین بھی تفہیم نصاب میں معاونت کرتاہے۔ اساسی طور پر اچھے نصاب کے چار ارکان ہیں:

.1        مقاصدِ تدریس

.2        مضامینِ تدریس (جن کی تدریس کے ذریعے مقاصد کی تکمیل ممکن ہوسکے۔)

.3        طریقۂ تدریس (تدریس کے لیے سوچا سمجھا طریقہ جس سے سیکھنے کا عمل آسان،دلچسپ اور مؤثر بن سکے)۔

.4          اندازۂ قدر  (Evaluation)  یہ معلوم کرنے کا عمل کہ طلبہ کو سیکھنے کے عمل میں کس حد تک کامیابی ملی ہے، نیز استاتذہ تدریس کے عمل میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ اس عمل میں استاد کے ذریعے ’سبق کی منصوبہ بندی‘ اور’طریقۂ تدریس‘ دونوں کی جانچ شامل ہے۔

مذکورہ چار ارکان کے تناظر میں ہندوستانی مدرسوں کے رائج اردو نصاب کا جائزہ لیا جاسکتاہے تاہم یہ وضاحت لازمی ہے کہ مدرسوں میں ذریعۂ تعلیم اردوہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس میں ایک طرف سیکولر اردو داخل نصاب ہے،وہیں اسلامیات کی تفہیم کے لیے اردو میں لکھی گئی کتابوں سے مدد لی جاتی ہے۔ گویا مدارس میں دو طرح کی اردو شامل ہے۔ سردست یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مدارس کی تعلیم کا بنیادی مقصد قرآن وحدیث کو مرکزی حیثیت دیناہے، نیز اس کی روشنی میں طلبہ کی شخصیت کی ہمہ جہت نشو ونما کرنا ہے اور شخصیت کی یہ نشو ونما محض ایک پہلو پر توجہ دینے سے نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دینی تعلیم کو بنیاد بناکر ہی نصابِ تعلیم، تدریسی مقاصد،تدریسی مضامین ، طریقۂ تدریس اور طریقۂ امتحان کا تعین کیا جائے تاکہ تعلیم سے فراغت کے بعد مدارس سے نکلنے والے افراد کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔

بہرحال، ایک اچھا نصاب وہ ہے جس کی روشنی اور استاد کی رہنمائی میں متعینہ تجربات کی بنیاد پر طلبہ کی انفرادی ضروریات اور ملک کی اجتماعی ضروریات کی تکمیل کے لیے جملہ وسائل تعلیم کی مدد سے طلبہ کی شخصیت کی مکمل اور ہمہ جہت نشو ونما کی جائے۔

 رہی بات  مدرسہ بورڈوں میں اردو نصاب کی تو بہار اور اڑیسہ مدرسہ بورڈوں میں اردو زبان و ادب کی تعلیم تحتانیہ سے فاضل (پرائمری تا ایم اے) تک کے درجات میں دی جاتی ہے، جب کہ یوپی کے ملحقہ و امدادی مدارس میں ابتدائی درجات مولوی ؍منشی (مساوی ہائی اسکول ) اور عالم (مساوی انٹر میڈیٹ )کے درجات میں اردو نصاب کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے بر عکس آسام مدرسہ بورڈ کے ملحقہ مدارس میں ابتدائی درجات کے ساتھ ساتھ ثانوی درجات میں اردو نصاب شامل ہے۔ مغربی بنگال مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے مدارس میں پرائمری درجات کے ساتھ سیکنڈری درجات میں بھی اردو زبان و ادب داخلِ نصاب ہے۔

مدرسہ بورڈوں کے اردو نصاب کا یہ امتیازی پہلو ہے کہ وہاں ان ادبا اور شعرا کو شامل نصاب کیا جاتا ہے جن کی تخلیقات میں سیکولرازم کی روح بسی ہوئی ہو۔مذکورہ کتب پر غور وفکر کرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ نثری اور شعری دراصل وہی کتابیں مدرسہ بورڈوں میں پڑھائی جاتی ہیں جن سے شخصیت کی نشو ونماہوسکے۔ بہ استثنائے آسام مدرسہ بورڈ، جس میں غیر ملحقہ مدارس کے اردو نصاب کی طرح مذہبی رعایتوں کے ساتھ اردو کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی کتاب (اسمٰعیل میرٹھی) اور ’مسدس حالی‘ (حالی) وغیرہ بھی داخلِ نصاب ہیں۔ مذکورہ کتابوں کی روشنی میں یہ رائے قائم کرنا بھی مناسب ہے کہ مدرسہ بورڈوں میں سیکولراردو داخل نصاب ہے ۔

 غیر ملحقہ مدارس کے اردونصاب کی بات کی جائے تو اس کامزاج بورڈکے مدرسوںسے ذرا مختلف ہے۔ جیسا کہ مذکورہ سطور میں کہا گیا کہ مدارس کی تعلیم کا مقصد فروغِ اردو سے کہیں زیادہ اسلامیات کا فروغ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ایسی کتابوں کو شامل نصاب کیا جاتا ہے جن سے مذہبیات کی تفہیم ہوسکے یا پھر ایسی اردو کتابوں کو اہمیت دی جاتی ہے جو دینی مزاج کے ساتھ لکھی گئی ہوں یعنی ان مدارس میں ایسے ادبا و شعرانیز ایسے مضامین منتخب کیے گئے ہیں جن سے مذہبی رواداری کو کوئی ٹھیس نہ پہنچتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر ’رحمت عالم‘ اردو کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی (اسمٰعیل میرٹھی) داخل نصاب ہیں۔ اسی طرح حالی کی ’مسدس حالی‘ اوراقبال پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ مدرسوں میں اردو کے داخل نصاب ہونے سے اردو فروغ پاتی، تاہم فروغ اردو اور مدارس کے ضمن میں یہ کہنا لازمی ہے کہ وہاں ذریعۂ تعلیم عموماً اردو ہے۔ اس لیے اردو از خود مدرسوں کے ذریعے پروان چڑھتی رہتی ہے۔مشیر الحق کا خیال ہے:

’’دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت کے علاوہ اردوزبان کو بھی بر صغیر کے کونے کونے تک پھیلانے میںعربی مدارس کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ مدرسو ں کے اس پہلو پر ابھی تک کسی نے باقاعدہ نظر نہیں ڈالی ہے، لیکن یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اس پر پوری تحقیق ہونی چاہیے۔ باوجود یکہ نصابی کتابیں تقریباً سب کی سب عربی زبان میں ہوتی ہیں لیکن ہندوستان کے مذہبی مدرسوں میں اعلیٰ تعلیم اردو ہی میں دی جاتی ہے۔۔۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مدرسے کے طالب علموں کی راہ میں ملک کی جغرافیائی، لسانی اور تہذیبی حد بندیاں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ بغیر کسی مبالغہ کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بر صغیر کے اس کونے سے اس کونے تک جہاں کہیں بھی کوئی عالم ملے گا،وہ اردو ضرور جانتا ہوگا ۔۔۔ غیر ممالک کے طلبہ بھی جو علم دین کے حصول کے لیے یہاں]ہندوستان[ آتے ہیں، چونکہ ان غیر ملکی طلبہ کو بھی دیر یا سویر اردو زبان میں ہی اسباق حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی جلد از جلد روز مرہ کی اردو سیکھ لیتے ہیں۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو برصغیر کے باہر بھی اردو کا تعارف کرانے میں مدارس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔‘‘ 

(بحوالہ: پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، دہلی اسکولوں میں اردو نصاب کے مسائل، دہلی، اردو اکادمی، ص 120، 1967)

مشیر الحق کے علاوہ پروفیسر وہاب اشرفی نے بھی متعدد مقامات پر کھلے دل سے فروغ ِ اردو کے تناظر میں مدارس کا حوالہ دیا ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ کالجوں سے اردو غائب ہوتی جا رہی ہے۔ لہٰذا میں نے اردو کی عظمت اور زندگی کی جب بھی باتیں کی ہیں تو مجھے مدارس کی کارکردگی ضرور یاد رہی۔ ان کے علاوہ ممتاز ناقد شمس الرحمن فاروقی نے اس طرح مدارس کی اردو دوستی کا حوالہ دیا ہے ’’۔۔۔ہندوستان میں بہر حال تمام مدرسے زبانوں کی تعلیم دیتے ہیں۔ عربی فارسی کے علاوہ انگریزی بھی اکثر مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔کمپیوٹر کی بھی تعلیم کا اہتمام بہت سے مدارس میں ہے۔ اتر پردیش ، بہار، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں اردو کی بقا زیادہ تر مدرسوں کی مرہون منت ہے۔‘‘

( اردو نصاب اور مدارس، نئی دہلی، براؤن پبلی کیشنز، 2012، ص نمبر7)

حقیقت یہ ہے کہ مدارس دو سطحوں پر اردو کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اول:وہاں اردو ’ذریعۂ تعلیم ‘ ہے اور اردو کے ماحول میں ہی مدارس کے طلبا کی ذہنی نشو ونما ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑے مدارس میں زیر تعلیم بیرون ممالک کے طلبا بھی اردو سیکھ لیتے ہیں۔گو یا بیرون ممالک کے طلبا کے کندھوں پر سوار ہوکر اردو نے سرحدیں پار کیں۔

 دوم:بور ڈ سے ملحق مدرسوں کے ساتھ ساتھ غیر ملحقہ مدرسوں میں بھی اردو کتابوں کو شامل نصاب رکھا گیا ہے۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اہل مدارس دو سطحوں پر اردو کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مدارس میں اردو کتابوں پر مبنی جو نصاب شامل ہے،اس میں عصری تقاضوں کے مدنظر تبدیلی ضروری ہے ۔ساتھ ہی ساتھ راقم کا یہ بھی مفروضہ ہے کہ فروغِ اردو کے لیے کام کرنے والے اداروں کو بھی مدارس کے اردو نصاب میں تبدیلی لانے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اردو نصاب اور مدارس کے تنقیدی ڈسکورس سے یہ بات واضح ہے کہ عہدِ حاضر میں مدارس اور اردو کی حیثیت لازم و ملزوم کی سی ہوگئی ہے۔ مدارس کے بغیر اردو اور اردو کے بغیر مدارس کا تصور اب ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔ مدرسوں کے نصاب میں اردو کو کلیدی جگہ مل گئی ہے جو اردو زبان کی بقا کی ضمانت معلوم ہوتی ہے۔اس لیے مدارس کے اردو نصاب پر گہرائی سے غور وفکر کیا جائے اوراردو کا ایسا ہمہ گیر نصاب تیار کیا جائے جس میں اردو مذہبیات کی بھی گنجائش ہو اور’سیکولر اردو‘ کی بھی ، تاکہ فارغین ِمدارس نہ صرف زبان کی سطح پر اپنی انفرادیت درج کروائیں،بلکہ ادبی سطح پر بھی وہ مزید مستحکم ہوسکیں۔

Dr. Md. Tauqeer Alam Rahi

F-1/76, First Floor, Shaheen Bagh

New Delhi - 110025

 



14/1/21

سیمیں دانشور ’سووشون‘ کے آئینے میں - مضمون نگار: مہدیہ نژاد شیخ


 

دنیائے فکشن کے عروج و ترقی  میں مرد و خواتین دونوں کا اہم رول رہا ہے، خواہ مغربی ادب ہو یا ایشیائی ادب۔ ادب کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مرد و عورت کے باہمی تعاون و اشتراک سے ہی فکشن نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ جبکہ ادبی کلامیہ(لٹریری ڈسکورس) میں بہت دنوں تک عورتوں کے بارے میں یا عورتوں کے ذریعے لکھی گئی تحریروں کو ثانوی حیثیت دی گئی،اسے یا تونظرانداز کیا گیا یا پھر اسے قابل اعتنا ہی نہیں سمجھا۔مگر ایک وقت ایسا بھی آیا جب خواتین فکشن نگاروں نے اپنی تخلیقی صلاحیت کا لوہا منواتے ہوئے دنیائے ادب میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔ انھوں نے عورتوں کے مسائل ومشکلات،ان کی نفسیاتی اورجنسی پیچیدگیاں اور سماجی و سیاسی حیثیتوں کا جائزہ  لیتے ہوئے انھیں فکشن کے بنیادی کردار کی حیثیت عطا کی۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلے مرد فکشن نگار عورتوں کے مسائل کو اپنی تحریروں کا موضوع  نہیں بناتے تھے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ عورتوں کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور ان  کے دیگر مسائل کو اس حد تک بیان نہیں کرسکتے تھے جس حد تک ایک خاتون فکشن نگار کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ خواتین فکشن نگاروں نے صرف عورتوں کی زندگی اور ان کے مسائل تک ہی اپنے موضوع و مواد کو محدود نہیں رکھا بلکہ دنیا اور دنیا کے دیگر مسائل کو بھی اپنے فکشن کا موضوع بنا دیا۔

فارسی فکشن کی ترقی اور فروغ  میں بھی  جتنا مرد فنکاروں کا حصہ ہے اتنا ہی خواتین کا بھی ہے۔ سیمیں دانشور(متوفی2012) جدید فارسی ادب کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے فارسی فکشن نگاری کی جانب توجہ کی۔ اس طرح جہاں انھوں نے براہ راست فارسی فکشن کو عورت کے مسائل و مشکلات سے آشنا کیا وہیں انھوں نے خاتون فکشن نگاروں کے لیے فارسی ادبیات کا در وا کیا اور ِاسی کے ساتھ انھوں نے ادب کو جانچنے اور پرکھنے کا ایک نیا معیار بھی عطاکیا۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی ادبیات کی تاریخ میں سیمیں دانشور نمایاں مقام و مرتبہ رکھتی ہیں۔ انھوں نے جہاں ایک طرف چند اہم ناول لکھے ہیں تو دوسری طرف ان کے افسانے قارئین کے درمیان کافی مقبول ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے مغربی ادب کے کئی شہ پاروں کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ یہاں ضروری معلوم ہوتاہے کہ سیمین دانشور کے حالات زندگی کا اجمالی جائزہ لیا جائے۔

سیمیں دانشور 28/ اپریل1912 میں شیراز میں پیدا ہوئیں- شیراز ابتدا سے ہی فارسی شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ان کی پرورش و پرداخت نہایت ہی علمی و ادبی گھرانے میں ہوئی۔ان کے والد، محمدعلی دانشور (متوفی 1941) جن کا لقب احیاء السلطنہ تھا شیراز کے ایک مشہور و معروف طبیب تھے۔ ان کی والدہ، قمر السلطنہ حکمت،کو آرٹ سے حد درجہ دلچسپی تھی اور دنیائے مصوری میں  ان کو بلند مقام حاصل تھا۔ سیمیں دانشور کی تعلیم (1927-1937) شیراز کے ایک اسکول، مہر آئین  میں ہوئی جہاں فارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی کی بھی تعلیم دی جاتی تھی اور بچوں کو زیادہ تر انگریزی زبان میں  ہی پڑھایا جاتا تھا جبکہ ایران میں انگریزی زبان کو اس وقت زیادہ اہمیت  نہیں دی جاتی تھی۔ لہٰذا انگریزی زبان و ادب سے  وہ اپنے بچپن میں ہی متعارف ہوگئی تھیں۔ 1938 میں  ان کے والد نے اعلی تعلیم کے لیے انھیں تہران یونیورسٹی بھیجا  جہاں انھوں نے فارسی زبان و ادب کو بطور مضمون ایم اے کے لیے انتخاب کیا۔ اس دور میں والدین کے لیے لڑکیوں کو گھر سے دور رکھ کر تعلیم دینا  ایک نہایت ہی مشکل اور انقلابی قدم مانا جاتا تھا جو اس وقت تک ایرانی سماج میں رائج نہیں تھا۔سیمیں دانشور اس معاملے میں بے حد خوش نصیب تھیں کہ ان کے والدین اعلی تعلیم یافتہ،  مہذب اور علم دوست تھے۔اس لیے انھوں نے بغیر کسی صنفی تفریق کے اپنی لڑکیوں کو اعلی تعلیم سے روشناس کرایا۔

1941 کے بعد انھوں نے عملی طور پر صحافت اور ادب کے میدان میں قدم رکھا چنانچہ انھوں نے 1942 میں  ریڈیو ’تہران‘ اور 1943 میں ’ایران‘ اخبار کے لیے مضامین لکھنا  شروع کیا۔ 1950 میں  وہ فارسی کے مشہور افسانہ نگار  جلال آل احمد (متوفی1969) سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ 1952 میں انھیں امریکہ کی جانب سے فل برائٹ(Fulbright)  اسکالرشپ ملی اور وہ امریکہ چلی گئیں۔ جہاں انھوں نے دو سال رہ کر جمالیات (Aesthetics) کی تعلیم حاصل کی۔ وہیں انھوں نے کلیفورنیا کے  اسٹنفورڈ  یونیورسٹی (Stanford University)   میں ایک سال کے لیے افسانہ نویسی کی تربیت  بھی حاصل کی۔ 1952 میں وہ  ایران واپس آئیں جس کے بعد انھوں نے فارسی ادبی رسالہ ’نقش و نگار‘ کی ادارت کی ذمے داری سنبھالی، جس کے 7 شمارے  شائع ہوئے۔ 1959میں وہ بحیثیت لکچرر تہران یونیورسٹی سے منسلک ہوئیں۔ 8 مارچ 2012 کو وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں اور تہران میں ہی انھیں سپرد خاک کیا گیا۔

سیمیں دانشور کو فارسی ادب میں سب سے پہلی خاتون  افسانہ نگار ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ 1948 میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’آتشِ خاموش‘ (خاموش آگ) شائع ہوا جو کسی ایرانی خاتون کا پہلا افسانوی مجموعہ تھا۔ 1961 میں ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’شہری چوں بہشت‘ (ایک شہر بہشت جیسا)، 1980میں تیسرا مجموعہ ’بہ کی سلام کنم‘(کسے سلام کروں) اور 1997 میں ان کا آخری افسانوی مجموعہ ’از پرندہ ہای مہاجر بپرس‘ (مہاجر پرندوں سے پوچھو) شائع ہوا۔ 1969 میں سیمیں دانشور کا شہرہ آفاق ناول ’سَووشون‘ شائع ہوا۔ ان کے دیگر ناول ’جزیر سرگردانی‘ 1993میں اور’ساربان سرگردان‘ 2001 میں شائع  ہوئے۔ اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے  کئی اہم مغربی ادب پاروں  کا  فارسی  زبان میں ترجمہ کیا  جیسے  انتون  چخوف  کی متعدد  کہانیوں  کا  ترجمہ کر کے ’دشمنان‘  نامی مجموعے (تہران 1953) کی صورت  میں  پیش  کیا۔  اسی  طرح  انتون  چخوف  کا  ہی  ڈرامہ 'The Cherry Orchard' کا فارسی ترجمہ ’باغ  آلبالو‘ (تہران  1968) کے نام سے شائع  کیا۔  علاوہ  ازیں، الن پیتون (Alan Paton) کے ناول 'Cry, the Beloved Country' کا ترجمہ ’بنال وطن‘(تہران1972) کے نام سے کیا۔ (مزید تفصیل کے لیے رجوع کریں: عبدالٰہی، ص 203-06)

جب ہم سیمیں دانشور کے فکشن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں ایرانی معاشرہ جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔ بالخصوص انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں عورتوں کی صورت حال کے مختلف پہلوؤں کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ وہ اپنے ملک کی صورت حال اور وہاں کی عورتوں کے دکھ درد اور مسائل سے بخوبی واقف تھیں۔ اسی لیے انھوں نے ان عورتوں کے احساسات و جذبات کی عکاسی اور ان کے معاشی و معاشرتی مسائل کو اپنے فکشن کا موضوع بنایا۔ ان کی تخلیقات میں اس عہد کے لوگوں کی تہذیب و روایات اور رسم و رواج کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔ یہاں ہم سیمیں دانشور کے مشہور زمانہ ناول ’سو و شون‘ کے حوالے سے ان کے فکر و فن کا جائزہ لیں گے۔

موضوع و اسلوب کے لحاظ سے سیمیں دانشور کی تخلیقات میں  ’سو و شون‘ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ’سووشون‘ کا شمار فارسی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے ناولوں میں کیا جاتا ہے۔ لفظ ’سووشون‘ ایک شیرازی اصطلاح ہے جس کامعنی ’سوگ سیاوش‘ ہے۔ سیاوش شاہنامہ فردوسی کا وہ اساطیری کردار ہے جسے افراسیاب کے حکم سے ناحق مارا گیا۔ اسی کی یاد میں شیراز میں جو سوگ منایا جاتا ہے اسے ’سوگ سیاوش‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سیمیں دانشورنے  اپنے ناول میں سو و شون  کا خلاصہ اس طرح بیان کیا ہے:

’’زری از یوسف می پرسد: تو میدانی سو و شون چیست؟ یوسف می گوید: یک نوع عزاداری است..... یعنی سوگ سیاوش۔‘‘(دانشور، ص272)

(ترجمہ: زری یوسف سے پوچھتی ہے:تمھیں پتا ہے سو و شون کا کیا مطلب ہے؟  یوسف جواب دیتا ہے: ایک قسم کی عزاداری ہے۔............ یعنی سوگ سیاوش۔)

یہ ناول مختلف ادبی اور فنی زاویوں سے اہمیت کا حامل ہے۔  اس مضمون میں ہم اس ناول کی اہم ترین خصوصیتوں پر نظر ڈالیں گے۔ سب سے پہلے بات کریں گے موضوع و نقطہ نظر کی۔

موضوع و نقطہ نظر:

اس ناول میں سیمیں دانشور  نے دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں ایران کے اجتماعی حالات و واقعات کی تصویرکشی کی ہے جس میں ایران کے جنوبی علاقے  بالخصوص فارس کے پر آشوب ماحول اور عدم تحفظ کے اجتماعی احساس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ جب پوری دنیا دوسری جنگ عظیم کی آگ میں جل رہی تھی اور ہر طرف قتل و غارتگری  کا بازار گرم تھا، انسانی زندگی کی کوئی اہمیت باقی نہ  رہ گئی تھی اور اس وقت کا انسانی معاشرہ افراتفری کے ماحول سے جوجھ رہا تھا، ایران بھی اس ماحول سے خود کو الگ نہیں رکھ پایا۔ اتحادی قوتوں (Allied Forces) نے ایران کو اپنے قابو میں لے رکھا تھا جس کی وجہ سے وہاں کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی نظام میں ابتری پھیل گئی تھی اور مختلف رجحانات وہاں تیزی سے جنم لینے لگے تھے۔ سیمیں دانشور نے ایران پر بیرونی قوتوں کا قبضہ اور اس کے منفی نتائج کا احاطہ اس ناول میں کیا ہے۔ سو و شون سیاسی اور تاریخی ناول کے  ساتھ ایک علامتی ناول بھی ہے۔ تاریخی اور سیاسی اس لیے کہ اس میں 1941 کے بعد ایران کے صوبہ فارس کو جن مصائب و مشکلات سے گزرنا پڑا اس کی کہانی بیان کی گئی ہے اور ناول نگار نے اس کے بیان میں علامتی اسلوب نگارش کو اختیار کیا ہے۔حسن میر عابدینی نے   اس ناول کے بارے میں یوں لکھاہے:

’’سو و شون ایک علامتی اور سیاسی ناول ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کے ظاہری حصے میں زری اور اس کے خانوادہ پر گزرے ہوئے واقعات بیان ہوئے ہیں جو 1943میں ہو رہے تھے۔ زری چاہتی ہے اپنے ملک ایران میں اپنے آپ کواس دور کے آشوب، مصائب،  بیماری، قحط اور موت سے بچا ئے لیکن جنگ اور دیگر مسائل سے ان کا گھر بھی دوچار ہوتا ہے۔ اس ناول میں علامتی حصے اور ظاہری حصے  کو دیکھ سکتے ہیں۔ زری کاگھر پورے ایران کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے جبکہ زری ایران کی عورت اور یوسف ترقی پسند فکر کے حامل لوگوں کی تمثیل ہے۔ اور جن حالات سے ان کا خاندان اورگھرگزر رہا ہے پورا ایران  و پورے ایران کی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ ’’(میرعابدینی، ص138)

سیمیں دانشور سیاسی و سماجی مسائل کو اپنے اس ناول میں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس علاقے اور اس دور کی عورتوں کی بھی تصویرکشی کرتی ہیں۔ سو و شون میں صنف نسوان کے جتنے بھی کردار ہیں وہ کسی نہ کسی اعتبار سے سماج میں صنف نازک پر ہونے والے ظلم و ستم کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسی طرح سیمیں دانشور اس دور کی عورتوں کی بے بسی، لاچارگی، مفلسی، ان کے صبر و تحمل اور ان کی نفسیاتی کشمکش کو دکھانے میں کامیاب ہوتی نظر آتی ہیں چنانچہ سید علی سراج  اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

’’سب سے وسیع موضوع جو اس ناول میں بیان ہوا ہے عورتوں پر استحصال اور ظلم و ستم ہے۔اس ناول کی تمام خواتین کردار-چاہے وہ  زری ہی کیوں نہ ہو  جو ایک تعلیم یافتہ اور مالدار خاتون ہے-  خوف،  توہم پرستی اور خانہ نشینی سے دوچار ہیں۔’’(سراج، ص81)

پلاٹ: 

جہاں تک اس ناول کے پلاٹ کا تعلق ہے تو ناول کے آغاز میں ہی دوسری جنگ عظیم کے دوران ایران کے سیاسی و سماجی حالا ت کا پتہ چل جاتا ہے۔ایران اس وقت انگریزی طاقتوں کے قبضے میں تھا۔ جنگ اپنے ساتھ آشوب،  بھکمری، قحط اور بیماری لائی تھی۔ یوسف ایک جوان زمیندار ہے جو اپنی  بیوی(زری) اور بیوہ بہن (فاطمہ خانم) اور اپنے بچوں کے ساتھ فارس کے ایک گاؤں میں رہتا ہے۔ اس کے گاؤں کا حاکم انگریزوں کی کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔ اس علاقے کے  بڑے بڑے زمیندار انگریزوں کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک چکے تھے اور ایرانی پیداوار کا زیادہ تر حصہ ملک سے باہر بھیجا جا رہا تھا جس کی وجہ سے وہاں کے غریب اور مفلس عوام قحط کی وجہ سے بھوکوں مر رہے تھے۔

یوسف واحد ایسا زمیندار تھا جو انگریزوں کے خلاف برسرپیکار تھا اور ہر طرح سے مزدوروں کی حمایت کر رہاتھا۔ یوسف کا بھائی ابوالقاسم خان بھی انگریزوں کے ماتحت اور ان کی غلامی کرنے پر مجبورہوگیا تھا۔

اس ناول میں سیمیں دانشور نے زری نام کی ایک خاتون کو اہم کردار بنایا ہے اور اسی کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ہر قسم کے مسائل کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے چنانچہ زری  اپنے گھر کو فتنے سے بچا ئے رکھنے کی سعی کرتی ہے۔جب وہ اپنی آنکھوں سے شہر کوٹائیفائیڈ اور عدم تحفظ کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں کو برباد ہوتے ہوئے  دیکھتی ہے تو سہم جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں بھی وہ اپنے گھر کو سنبھالنا چاہتی ہے لیکن  اس کا گھر بھی ان حالات و حادثات سے محفوظ نہیں رہ پاتا ہے۔ زری کے گھر میں بھی افرا تفری اسی وقت سے شروع ہوتی ہے جب حاکم کی بیٹی کی شادی میں حاکم کی بیوی زری کے کان کی بالیوں کو ادھار  لے کر لوٹاتی نہیں ہے۔ یہ وہی بالیاں ہیں جن کو یوسف نے اسے تحفے میں دیا تھا۔ اس کے بعد حاکم ان کے بیٹے کے گھوڑے کو اپنی بیٹی کی خواہش کو پوری کرنے کے لیے چھین لیتا ہے اور آخر میں حاکم کے سپاہی  اس کے شوہر کو قتل کردیتے ہیں کیونکہ یوسف اپنی زمین کی پیداوار انگریزوں کے حوالے کرنے سے انکار کردیتا ہے اور اس کے برعکس دوسرے غریب مزدوروں کو کھانا پانی پہنچاتا ہے۔ یوسف کی موت کا زری کی شخصیت پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ زندگی کے بارے میں اس کا نظریہ ہی بدل کے رہ جاتا ہے اور وہ اپنے شوہر کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے مقابلہ آرائی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتی ہے۔ سیمیں دانشور نے زری کے اندر پیدا ہوئے انقلاب کو یوں بیان کیا ہے:

’’نہ یک ستارہ، ہزار ستارہ در ذہنش روشن شد دیگر می دانست کہ از ہیچ کس و ہیچ چیز در این دنیا نخواہد ترسید‘‘

(دانشور، ص285)

(ترجمہ:ایک ستارہ نہیں، اس کے ذہن میں ہزار ستارے روشن ہوئے، اب اس کو پتہ تھا کہ اس دنیا میں کوئی شخص یا کسی چیز سے نہیں ڈرے گی۔)

کردار نگاری:

اس ناول میں مختلف قسم کے  کردار موجود ہیں  جن کی نہایت ہی باریک بینی کے ساتھ تصویرکشی کی گئی ہے۔  ان میں سے ہر ایک سماج کے کسی نہ کسی خاص گروہ  کی نمائندگی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔اس  ناول میں دو کردار کلیدی ہیں: یوسف اور اس کی بیوی، زری۔

جہاں تک ضمنی کرداروں کا تعلق ہے ان میں عمہ خانم، عزت الدولہ، ابولقاسم خان، مک ماہوں، سرجنت زینگر،  سودابہ خانم، خدیجہ، ملک رستم،ملک سہراب، مسٹر فتوحی،  خسرو، خانم حکیم و غیرہ  کا شمار ہوتا ہے جن کا ضمنی ہونے کے باوجود کہانی سے بہت گہرا ربط ہے۔

یوسف ایک ترقی پسند فکر کا حامل ہے جس کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوتا ہے اور وہ بڑی حد تک جدید عہد کی باریکیوں اور اس کے حقائق سے باخبر ہوتا ہے۔ اس کی سوچ و فکر سماج کے دوسرے افراد سے مختلف ہے۔ وہ پرامن بقائے باہم پر یقین رکھنے والا انسان ہے اور باہمی تعاون اور سماج میں عدل و انصاف کی حکمرانی کا خواب دیکھنے والا دردمند دل رکھتا ہے۔ وہ مجبوروں اور بے بسوں کا حامی ہے۔ ملک کی بھلائی اور خیرخواہی اس کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ وہ ہرقسم کی بدی اور شیطانی طاقت سے برسرپیکار ہے  اور ان طاقتوں کے سامنے سر جھکانا اس کی شان کے خلاف ہے۔ وہ اکیلا دو محاذوں پر دشمنوں سے نبردآزما ہے۔ ایک طرف استعماری طاقتیں سرزمین ایران کی طرف پھن پھیلائے کھڑی ہوئی ہیں تو دوسرے محاذ پر اس کو اندرونی غداروں، بے ایمانوں اور ایمان فروشوں کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔

اس ناول میں دوسرا کلیدی کردار زری کا ہے جو ایک تعلیم یافتہ خاتون ہے۔ وہ اس گاؤں کی وہ واحد خاتون ہے جو انگریزی زبان سے آشناہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کو گاؤں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ناول کے ابتدائی حصے میں اس کو ایک نرم مزاج اور امن پسند انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے لیکن جیسے جیسے ناول آگے بڑھتا ہے اور زری اپنے ملک کی پرخطر صورت حال اور بدامن فضا کا مشاہدہ کرتی ہے اس کے مزاج میں نرمی کی جگہ سختی اور ٹھہراؤ کی جگہ انقلابی کروٹیں جنم لینے لگتی ہیں چنانچہ وہ اپنے شوہر کی موت پر احتجاج اور مظاہرے کو اپنی جنگ کا وسیلہ بناتی ہے۔

زبان و بیان:

سیمیں دانشور کی زبان سلیس اور عام فہم ہے۔ اس میں پختگی اور شفافیت کے ساتھ ساتھ روانگی کا بھرپور دخل ہے۔ اسی طرح ان کی زبان ابہام اور پیچیدگی سے مکمل طورپر پاک ہے۔ جیسا کہ مشہور ایرانی نقاد داریوش صبور ان کے طرز نگارش  پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’سیمیں دانشور کی نثر  بے تکلف،  رواں، صاف، عام بول چال سے نزدیک  اور  پیچیدگی سے بالکل محفوظ ہے’’(صبور، ص429)

سیمیں دانشور کے ناول میں  اصل کردار عورت ہے اور کہانی کی پیشکش بھی عورتوں کے ہی فکری زاویے سے کی گئی ہے اسی وجہ سے اس میں عورتوں کی روزمرہ کی بات چیت کا انداز، ان کی بول چال کا سلیقہ، اٹھنے بیٹھنے کی روش اور عورتوں کی زندگی کے مخفی احوال نہایت ہی سادگی اور لطافت کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں عورتوں کے درمیان گفتگو کی رائج اصطلاحیں اس ناول میں جگہ جگہ موجود ہیں جیسے:  ’لچک بہ سر‘۔ یہ اس ضعیف عورت سے کنایہ ہے جس کی مرداساس معاشرے  میں کوئی قدر اور مقام نہیں ہے۔

’’خدایا  چرا  مرا  لچک بہ سر  آفریدی؟  اگر  مرد  بودم  نشان میدادم  کہ  مردانگی  یعنی چہ؟‘‘(دانشور، ص250)

(ترجمہ:اے اللہ مجھے لڑکی کیوں بنایا؟ اگر میں مرد ہوتی تو سب کو دکھا دیتی کہ مردانگی کیا ہوتی ہے؟)

اس طرح کے سیکڑوں محاورے اور مثالیں ناول میں ملتی ہیں جواس کے حسن و جمال میں اور بھی اضافہ کرتی ہیں۔

الغرض سیمیں دانشور جدید فارسی ادب کی خواتین فکشن نگاروں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے فکشن کے میدان میں اس وقت قدم رکھا جب ایران میں یہ بات معمول کے خلاف سمجھی جاتی تھی کہ کوئی خاتون افسانہ یا  ناول لکھ کر چھپوائے۔ وہ پہلی ایرانی خاتون تھیں جنھوں نے خواتین کے لیے فکشن کے میدان کی راہ ہموار کی۔ یہ ان کی بلند فکر اور دوراندیش نگاہوں کا ہی نتیجہ تھا کہ اپنے سماج میں عورتوں کی حالت زار کو بھانپنے اور سمجھنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرتے ہوئے فکشن نگاری کو اپنا آلہ کار بنا کر عورتوں کے سماجی، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور نفسیاتی حقوق دلوانے کے لیے میدان عمل میں اتر پڑیں۔ مذکورہ ناول ’سو و شون‘ بھی ان کی اصلاحی کاوشوں کا ایک بہترین ماحصل ہے اور ایک ایسا ادبی شاہکار ہے جس میں ایک طرف فنی رعایت اور ادبی حسن و کمال کی جلوہ نمائی پائی جاتی ہے تو دوسری جانب ایسے حساس ترین سماجی اور سیاسی پہلوؤں اور مسائل کو پیش کیا گیا ہے کہ قاری نہ صرف فنی و ادبی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ سماج کی مخفی حقیقتوں اور پوشیدہ سچائیوں سے بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ روبرو ہوتاہے۔ یہ غیرمعمولی فنی اور اصلاحی امتزاج ’سو و شون‘ کو ایک جامع ترین فنی شہ پارے کی حیثیت عطا کرتا ہے۔

کتابیات:

w      عبدالٰہی، مہناز، ’سالشمار سیمیں دانشور‘ مشمولہ ادبی رسالہ بخارا،  شمارہ 75،  فروردین-تیر  1389ھ ش   

w      دانشور، سیمیں، سو و شون، تہران: انتشارات خوارزمی، 1349ھ ش

w      میرعابدینی، حسن،  ’’تاریخ نویس دل آدمی‘ مشمولہ  بر ساحل جزیرہ سرگردانی (یادنامہ سیمیں دانشور)، مرتب: علی دہباشی، تہران:انتشارات سخن، 1383ھ ش   

w      صبور، داریوش، از کاروان حلہ:دیداری با نثر معاصر فارسی، تہران: انتشارات سخن 1384ھ ش

w      سراج، سید علی، گفتمان زنانہ: روند تکوین گفتمان زنانہ در آثار نویسندگان زن ایرانی، تہران:انتشارات روشنگران و مطالعات زنان، 1394ھ ش

Mahdiya Nazad Shaikh

Ph.D Urdu Scholar, JNU

New Delhi - 110067



12/1/21

رشید اختر ندوی اور ان کی ناول نگاری - مضمون نگار: محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

 



ندوۃ العلما کسی ادارے کانام نہیں؛ بلکہ یہ ایک ہمہ گیرعلمی، ادبی، دینی، اصلاحی اورتعلیمی تحریک کانام ہے، جس کاقیام 1894 میں لکھنؤ میں ہوا۔

بانی ندوہ مولانامحمدعلی مونگیریؒ کے نظام تعلیم و تدریس خاکہ میں یہ بات درج تھی کہ دارالعلوم میں جن علوم وفنون پرخاص توجہ دی جائے گی، ان میں تاریخ وادب بھی ہے؛ چنانچہ جب ہم وہاں کے فارغین کی فہرست پرنظرڈالتے ہیں توعلوم شرعیہ پردسترس کے ساتھ ساتھ احسان وسلوک، تاریخ وفلسفہ اور ادب وصحافت پربھی دستگاہ رکھنے والوں کے نام پاتے ہیں، علامہ سید سلیمان ندوی، عبدالرحمن کاشغری ندوی، عبدالسلام قدوائی ندوی، شاہ معین الدین ندوی،مولاناعبدالباری ندوی، ابوالجلال ندوی، ریاست علی ندوی، سید ابوظفر ندوی، مسعودعالم ندوی،رئیس احمدجعفری ندوی، محمدناظم ندوی، ابوالحسن علی ندوی، ڈاکٹرعبداللہ عباس ندوی، پروفیسر محمداجتبا ندوی، ڈاکٹرعبدالحلیم ندوی، مولانارابع حسنی ندوی، مولاناواضح رشید ندوی، ڈاکٹرسعیدالرحمن اعظمی ندوی، پروفیسریٰسین مظہرصدیقی ندوی، سیدرضوان علی ندوی، سیدضیاء الحسن ندوی، پروفیسرمحسن عثمانی ندوی اور مولانانذرالحفیظ ندوی وغیرہم ادبا، مؤرخین اور صحافیوں کی اس طویل فہرست میں شامل ہیں، اسی طویل فہرست کا ایک نمایاں نام’رشید اخترندوی‘ بھی ہے۔

رشیداخترندوی کی پیدائش13/جنوری 1918 کو دہلی میں ہوئی، ابتدائی تعلیم دہلی میں ہی ہوئی، پھر دارالعلوم ندوۃ العلما کارخ کیااوروہاں سے سندفضیلت حاصل کی، ندوہ سے فراغت کے بعدجامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لیااوروہاں سے بی اے کیا، وہ خود لکھتے ہیں: ’’اسے ایک پاکستانی مصنف کاخط ہندوستانی بھائیوں کے نام تصورکرلیجیے یاایک اس شخص کاایک طویل سلام بنام وطن سابق قراردیجیے، جس کاخمیرہندوستان کی پاکیزگی سے اٹھا، جودہلی میں پیداہوا، جس نے دہلی ولکھنؤ میں تعلیم پائی اورجوبمبئی(ممبئی)کے ماحول میں زندگی کی سچی مسرتوں اورکامرانیوں سے آشناہوا‘‘(تشنگی، دیباچہ، ص: 7)

دہلی، لاہور اورپشاور کے متعددروزناموں کے نیوز ایڈیٹر اورچیف ایڈیٹررہے، 1973 میں ادارۂ معارف ملی (اسلام آباد) کے سکریٹری مقرر ہوئے، 21/جولائی 1992میں مری(پاکستان) میں وفات پائی اورمرکزی قبرستان اسلام آبادمیں تدفین عمل میں آئی۔ (وفیات اہل قلم، از: ڈاکٹرمحمدمنیراحمدسلیج، ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان2008، ویکیپیڈیا:  رشیداخترندوی)

رشیداخترندوی عجیب وغریب شخصیت کے مالک تھے، مولوی ضرورتھے؛ لیکن نرے مولوی نہیں تھے، وہ ندوی ضرورتھے؛ لیکن ندوی سے بڑھ کربھی تھے،ہمارے برصغیرکے مولویانہ معاشرہ میں دومیدان کافی مبغوض رہے ہیں، ایک سیاست کا میدان اوردوسراپردۂ سیمیں کا میدان، رشیداخترندوی کشت زارپردۂ سیمیں کے کیچڑسے بھی لت پت ہوئے ہیں، جس کاذکرکرتے ہوئے وہ خودلکھتے ہیں: ’’فلمی دنیابھی ایک عجیب دنیاہے اور میں نے ڈیڑھ سال یہاںرہ کربہت کچھ سیکھا اوربہت کچھ پایاہے، یہاں کی ہرچیزہماری دنیا سے مختلف ہے، کردار، اخلاق، سمجھ بوجھ اوریہاں تک کہ چہرے مہرے اورکبھی کبھی تومجھے بعض آدمیوں کودیکھ کرایسامحسوس ہوا، جیسے یہ آدمی کسی اورآدم کی اولادہیں، یہاں کا ہرآدمی ایک بڑا فرعون ہے، مطلق العنان اورخودمختارفرعون، میراجی توبہت چاہاکہ ان فرعونوں کے قلمی چہرے تیارکروں؛ مگردماغ نے دل کی یہ بات رد کردی اوربہت سی باتوں سے ڈرادیا۔(نسرین، یک حرف، ص5-6)

  وہ بیک وقت کئی میدانوں کے شہسوارتھے، وہ ایک کامیاب مؤرخ بھی تھے، ایک اچھے صحافی بھی تھے، عمدہ مترجم بھی تھے اورایک مایہ ناز ادیب بھی، ترجمہ نگاری کے شاہکارکے طورپرہم ’تزک بابری‘ اور’ہمایوں نامہ‘ کوپیش کرسکتے ہیں، ان دونوںکوانھوں نے فارسی سے اردو زبان میں منتقل کیاہے۔

تاریخ نگاری میں سوانحی تاریخ رشیداخترندوی کی حددرجہ پسندیدہ قسم تھی، جس کی ابتدا سیرت سے ہوتی ہے، ’ محمدرسول اللہ‘ سیرت پران کی ایک منفرد کاوش کہی جاسکتی ہے؛ لیکن اس کے بعض مندرجات پراعتراض ہونے؛ بلکہ اس کی وجہ سے ’گستاخ رسول‘کے لقب سے ملقب کرکے مقدمہ درج کیے جانے کی وجہ سے اس میں حک واضافہ کرکے ’محمدسروردوعالمؐ‘ کے نام سے اسے دوبارہ شائع کیاگیا، خلافت راشدہ، عمربن عبدالعزیز، محمدبن ابی عامر،صلاح الدین ایوبی، حیدرعلی،اورنگ زیب، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

تاریخ کے ساتھ ساتھ چمنستانِ ادب کو بھی انھوں نے وردویاسمین اورسوسن ونسرین سے مالامال کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے اورانھوں نے تقریباً دودرجن کے قریب تاریخی، معاشرتی، نفسیاتی اوررومانی ناول لکھے،وہ جس طرح ایک کامیاب تاریخ نویس تھے، اسی طرح ایک کامیاب ناول نگاربھی اورجس طرح ان کی تاریخ نویسی نے لوگوںکواپنی طرف متوجہ کیا، اسی طرح ان کے ناولوں نے بھی لوگوں کواپنی طرف کھینچا،اوراس زورسے کھینچاکہ ایک ایک ناول کو ایک سال کے عرصے میں متعددبارپریس کی زیارت سے شرف یاب ہوناپڑا،رشید اختر ندوی کے قلم کی طاقت نے نہ صرف یہ کہ عام پڑھے لکھے لوگوں کے دل موہ لیے؛ بلکہ اہل قلم نے بھی خوب سراہا۔

 ان کے ناولوںکی مقبولیت کااندازہ اس سے ہوسکتا ہے، جوان کے ناشرنے ’عرض ناشر‘ کے طورپر دوسرے اورتیسرے ناول پر تبصرہ کیاہے، ظہیرصاحب ان کے دوسرے ناول’سوزدروں‘ پرلکھتے ہیں: ’’مولانا رشید اخترندوی کا پہلاناول ’سازشکستہ‘ توقع سے زیادہ مقبول ہوا، جمہورنے تواسے پسندہی کیا؛ لیکن ملک کے مستنداہل قلم نے بھی سازشکستہ کوسراہا اوراسی کومصنف کاایک ادبی شاہ کار بتایا، ’سوزدروں‘ مصنف کا دوسرا ناول ہے، جو پہلے ناول کی اشاعت کے بہت تھوڑے دن بعد چھپا اور ملک میںاس قدر پسند کیاگیاکہ اس کی مثال نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ موصوف کایہ ناول کاغذکی اس گرانی اورقحط کے دور میں دوبارہ شائع کیاجارہاہے‘‘(سوزدروں،عرض ناشر، ص4)

سودائی‘کے ’عرض ناشر‘ میں لکھاہے کہ: ’’یہ رشید اخترندوی کاتیسراناول ہے، رشیداخترکے ناول ’سازشکستہ‘ کاموضوع اتنااچھوتا اور طرز بیان اس قدردلچسپ تھاکہ اردوادب سے دلچسپی رکھنے والوں کومصنف سے غیرمعمولی دلچسپی ہوگئی، مصنف کے دوسرے ناول’سوزدروں‘ سے یہ دلچسپی اور بھی بڑھ گئی اورہم سے تقاضے پرتقاضے ہونے لگے کہ مصنف کاکوئی اورناول جلدسے جلدچھاپیں، مصنف نے یہ ناول سودائی لکھا اوراس کی مقبولیت کایہ عالم ہواکہ ایک سال کے اندراندرہمیں اسے دوبارہ چھاپنا پڑا اوراب یہ پانچویںبارچھپ رہا(یہ 1949 کی بات ہے)،  مصنف کے پہلے دونوںناول چوتھی چوتھی بارچھپے ہیں اوراردوکہانی کی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہے کہ کسی ناول نویس کواتنی مقبولیت حاصل ہوئی ہو‘‘۔

(سودائی، عرض ناشر، ظہیر، ص4)

ناشرکی اس بات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ناول نگاراپنی ناول نگاری کے فن میںکمال درجہ کوپہنچے ہوئے تھے؛ چنانچہ انھوںنے جب اپنا پہلا ناول ’سازشکستہ‘ اردو کے نامور شاعر، صحافی اور افسانہ نگار عبدالمجید سالک کے پاس مقدمہ کے لیے بھیجا تو انھوں نے اس طرح اظہار خیال کیا: ’’مولانارشید اخترندوی نے جب اپنے اس افسانے کامسودہ مجھے مقدمہ کی تحریرکے لیے دیا تو میںنے اپنے دل میںیہ نیت کرلی کہ اگرافسانہ معیاری اعتبار سے پست ہو اتواس عزت واحترام کے باوجود، جو مولانا کے فضل وکمال کے متعلق میرے دل میں جاگزیں ہے، میں مقدمہ لکھنے سے صاف انکار کردوںگا؛ لیکن افسانے کو سرسری نظرسے دیکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ مصنف صرف ندوۃ العلما کامولوی ہی نہیں؛ بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہے اوراس تحریر میں کامیاب افسانہ نگاری کے تمام عناصرموجودہیں اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگرچہ اس افسانے کاپس منظررومانوی ناولوںکی طرح ایک نواب کا خاندان اور کشمیر کے مناظر ہیں؛ لیکن نقطۂ نگاہ کافی ترقی پسندہے اورمولاناکے نزدیک افسانہ خالص تفریحی صنف ادب نہیں؛ بلکہ سماج کی بعض دکھتی ہوئی رگوں کو چھیڑنا بھی اس کے مقاصد میں شامل ہے‘‘

(سازشکستہ، ص6)

مولاناکے ناولوںکی مقبولیت عوام خواص میںاتنی کیوں تھی؟ اس کوواضح کرتے ہوئے ظہیرصاحب لکھتے ہیں: ’’مولانارشیداخترندوی کے برسوں کے صحافتی اور تصنیفی تجربے نے آپ کی نگاہ کودوربین بنادیاہے، ان کا ادبی مطالعہ بہت وسیع ہے اورزندگی کامطالعہ اس سے بھی زیادہ وسیع، انسانی نفسیات، گناہ وثواب کی کشمکش، ہوس ومحبت کی دبی ہوئی خواہشیں، سچے عشق کی پاکبازیاں اورغلط راہ پرپڑکراس کی بے عنوانیاںان مسائل کوبیان کرنے میں مولانا کو بڑا عبورحاصل ہے، مولانابہت صا ف زبان لکھتے ہیں، ان کے ناول کے کرداروںکے مقالات زندہ اشخاص کی باتیں معلوم ہوتی ہیں، جووہ ہمارے سامنے کرتے نظرآتے ہیں‘‘۔ (سوزدروں، عرض ناشر، ص4)

رشید اخترندوی کی ناول نگاری اجزائے ترکیبی کے اعتبارسے پورے اترتے ہیں، ایسانہیںہے کہ ان کے مولوی اورمؤرخ ہونے کی وجہ سے ناول اپنی سطح سے کچھ نیچے گرگئے ہوں، ان کے ناولوںمیںجوبھی قصہ، پلاٹ، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، منظرکشی اورنقطۂ نظرہیں، سب اپنی جگہ پرفکٹ ہیں، عبدالمجیدسالک اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’افسانے کے سب سے زیادہ اہم اجزا اس کے کردارہیں اورجب سے ادب کی یہ صنف پیداہوئی ہے، اس وقت سے آج تک اس کی تنقید کا ایک نمایاں معیار یہ رہاہے کہ مصنف نے جن کرداروںکاتعارف کرایاہے، وہ کیسے ہیں؟ آیاحقیقی زندگی میں ایسے کردار پائے جاتے ہیں؟ آیامصنف کے ذہن میں ان کرداروں کی خصوصیات منظم ومنضبط طریق پرموجودہیں؟ اورآیا افسانے میںاس نے ان سب کو پوری طرح نباہ دیاہے یانہیں؟ اس افسانے کے پڑھنے والوں کو معلوم ہوگاکہ نواب ہو، یانجمیٰ، سلمیٰ ہویاللی، سب کے سب کردارجیتے جاگتے انسانوںکے ہیں اورجن طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی خصوصیات کی نمائندگی بوجہ اتم کرتے ہیں‘‘(ساز شکستہ، ص 7)

رشید اخترندوی کا پہلا ناول’سازشکستہ ‘ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے شروع ہونے والی کہانی ہے، جہاں سلیم اورنواب زادہ محمودکی ملاقات ہوتی ہے، جیل انگریزوں سے بغاوت کے جرم کی سزاکے طورہوئی ہے، دونوں میں گرچہ دولت وثروت کے لحاظ سے فرق مراتب ہے؛ لیکن جیل کی فضا میں چونکہ اس کالحاظ نہیں، جس کی وجہ سے دونوںمیںخوب دوستی ہوجاتی ہے، جو وہاں سے باہرآنے کے بعدبھی برقراررہتی ہے؛ بلکہ یہ دوستی گھریلو تعلقات میں بدل جاتی ہے؛ لیکن پھر دولت اپنی اوقات بتاہی دیتی ہے، ساحرنے ٹھیک ہی کہاہے: ’’ایک شہنشاہ نے دولت کاسہارا لے کر، ہم غریبوںکی محبت کااڑایاہے مذاق‘‘ ،یہاں بھی سلیم کی غربت کامذاق اڑایاجاتاہے اوران تمام احسانات کوبھلادیاجاتاہے، جوسلیم نے نواب زادہ محمود صاحب پرکی تھیں اورجن کی بدولت نواب صاحب معاشرہ اوراپنے ہم پلہ لوگوں میں باوقار  اورایک مصنف کی حیثیت سے معروف تھے، پھریہ مذاق بھی اس اخلاص اور احسان کے بدلے میںتھا، جوسلیم نواب صاحب کی چھوٹی بہن سلمیٰ پرکرناچاہتے تھے، ’ساز شکستہ‘ کا آخری حصہ پڑھیے اوران تمام چیزوںکو درد اور کسک کے ساتھ چشم تصورسے محسوس کیجیے، جوسلیم نے محسوس کیاتھا:

’’مجھے صحیح نہیں معلوم کہ نوجوان کتنی دیربعدواپس لوٹے؛ لیکن یہ یادہے کہ جب وہ نکلے توان کے پیچھے نواب زادہ اکرام بھاگ رہے تھے، اکرام کے ہاتھ میں پستول تھااوروہ اسے نوجوان پرداغناچاہتاتھا؛ لیکن مجھے عین سامنے پاکروہ اپنے ارادہ میںناکام رہااورنوجوان صاحب بھاگ نکلے، یہ داستان عام ہوگئی اورنواب صاحب کے کانوں تک بھی جاپہنچی، وہ بڑے پریشان ہوئے، انتہائی پریشان، ان کی پریشانی میںنجمیٰ کے شوہرنے سلیمان مرزاکا قصہ کہہ کر اور اضافہ کردیا، انھوں نے سلمیٰ پر شاید عمر میں پہلی بارہاتھ اٹھایا اور اتنا ماراکہ سلمیٰ بے ہوش ہوگئی، دوسرے دن یہ ساری داستان سلمیٰ نے مجھ سے کہی، وہ زاروقطاررورہی تھی، اس کی خوبصورت آنکھیںروتے روتے سرخ ہوچکی تھیں، وہ کہہ  رہی تھی اب میںبدنام ہوگئی، میری زندگی تباہ کردی گئی، مجھ سے اب کون بیاہ کرے گا؟ میںنے دیکھاسلمیٰ زندگی کی خوشی بیاہ میںسمجھتی ہے، سماج کے ظاہری بندھن میں بندرہ کروہ مطمئن ہوجائے گی تومیرے دل میںایک لہر پیدا ہوئی، عمرمیں پہلی باراورغیرمحسوس طورپرزبان پریہ الفاظ آگئے:

’’سلمیٰ! تم سے میںشادی کروں گا؛ لیکن اس وقت، جب کوئی اورشادی نہ کرے‘‘۔

سلمیٰ کے آنسورک گئے اوربولی:

’’آپ سچ کہتے ہیں؟‘‘۔

میںنے کہا:

’’سچ، بالکل سچ‘‘۔

’’تونواب صاحب سے پھرکہیے گا؟‘‘۔

سلمیٰ یہ کہہ کرخوش خوش چلی گئی، میں نے سلمیٰ سے یہ بات کہہ تودی؛ لیکن بعدمیںسوچاکہ نواب صاحب کے حضورمیں ایک سائل کی حیثیت سے میں کیسے جاسکوںگا؟ اورآخرمجھے جاناہی پڑا، اظہارمدعاپرنواب صاحب نے پیشانی پربل ڈال کرمیری طرف دیکھا، میں سمجھاوہ مجھے نگل جاناچاہتے ہیں اور سچ مچ ان کی خواہش یہی تھی، اس کاانھوں نے اظہاربھی کردیا، بولے:

’’تم نے آج میرے سینے میں چھری چبھودی، تم نے نہیں سوچامیرا اورتمھارا معیارزندگی کتنامختلف ہے، سلمیٰ میری بہن ہے، ایک بڑے نواب کی بہن، اس کے لیے موٹرچاہیے اوراعلیٰ درجے کامکان بھی، اس کے لیے اچھے سے اچھے لباس اورکھانے کی ضرورت ہے اورتم ایک معمولی اخبارنویس ہو، محض دال روٹی پرگزرکرنے والے‘‘۔

دفعتاً ان کی آواز تیز ہوگئی اورفرمانے لگے:

’’اب تم نے یہ بات کہہ دی، مجھے تم بہت عزیزہو؛ لیکن اس کی کیاضمانت کہ میری بہن کی زندگی تمہارے ساتھ اچھی کٹے گی، نہ رہنے کومکان، نہ موٹر اورنہ کوئی اورجائداد، آخرآپ کس برتے میری بہن سے شادی کرناچاہتے ہیں؟ آپ کویہ کہتے شرم نہ آئی‘‘۔

اس کے بعدحضورنواب صاحب بہت کچھ بکتے رہے، ایسی ایسی باتیںان کی زبان سے نکلیں، جنھیں میری غیرت کبھی سن نہ پائی تھی؛ مگرمیں سنتارہا اورجب وہ انتہائی  رذالت پراترآئے تومیں نہ رہ سکااورکہہ اٹھا:

’’نواب صاحب! یہ میری نہیں، سلمیٰ کی خواہش ہے اوراس لیے ہے کہ اسے ڈرہے کہ شایددنیامیں کوئی سوداگراس داغ دار موتی کوخریدنانہ چاہے‘‘۔

نواب صاحب کاغصہ کچھ دھیماہوا؛ مگرصرف تھوڑی دیرکے لیے، وہ ایک معلم اخلاق کی حیثیت سے بولے:

’’تم اس کمزوری سے ناجائزفائدہ اٹھاناچاہتے ہو، یہ تم لوگوںکی فطرت ہے، رذیل اورکمینی فطرت؛ مگرتمھیں نہیں معلوم دولت ہرعیب کودھوسکتی ہے اورسلمیٰ کایہ عیب بھی دولت دھودے گی‘‘۔

میں نے نواب صاحب کے چہرے کی طرف دیکھا اورمجھے ایسے آثارنظرآئے کہ مجھے یقین ہوگیاکہ دولت سچ مچ ہرعیب دھودیتی ہے، یہ غربت ہی ہے، جس میں نیکی بھی عیب دکھائی دیتی ہے اورجب غربت داغ دارہوجاتی ہے تواسے کوئی نہیں دھوسکتا، میں نے سلمیٰ سے ہمدردی کرنی چاہی تھی، اس کی زندگی کوخوش رکھناچاہاتھا اور اخلاص اورسچی محبت کے سرمایہ پربھروسہ کیاتھا، یہ میری بھول تھی، بہت بڑی بھول، دنیااخلاص کو نہیں دیکھتی، اس کی نگاہ ظاہر پر پڑتی ہے اوریہ اس کی پرانی ریت ہے، ناقابل تبدیل ریت‘‘۔ (سازشکستہ، ص157-160)

ناول کے اس آخری حصے سے آپ کو قصہ، پلاٹ، کردارنگاری، مکالمہ نگاری، منظرکشی اورنقطۂ نظرساری چیزیںمعلوم ہوگئی ہوں گی اورآپ نے  رشید اخترندوی کے اس پہلے ناول سے یہ نتیجہ اخذکیاہوگاکہ ان کے قلم میں بہترین ناول نگاری کاجوہرموجودہے، ساتھ میںیہ بھی دیکھاہوگاکہ سلاست وروانی کے ساتھ ساتھ ان کی زبان نہایت سہل اورآسان ہے، نہ تعقید لفظی ہے اورناہی تعقید معنوی، نیزرنج وغم اورحزن والم کاتلاطم خیز، بے کراں اوراتھاہ سمندربھی پائے گا، جوان کے ناولوںکی عمومی خصوصیات میں سے ہے۔

بعض حضرات نے رشیداخترندوی پریہ الزام عائد کیاہے کہ ان کے ناول مقصدیت سے خالی ہوتے ہیں؛ لیکن یہ بات عقل وقیاس سے بعیدہے؛ کیونکہ ایک مصنف جب کچھ لکھتاہے تواس کے پیچھے کچھ نہ کچھ مقصد ہوتا ہے، اگرکسی تحریرکے پیچھے مقصد نہ ہو تو وہ تحریرمقبول بھی نہیں ہوگی، جبکہ پیچھے یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ رشیداخترکے ناول مقبول ہوئے ہیں؛ بلکہ ایک ایک ناول کوچندہی سالوں کے اندرپانچ پانچ مرتبہ بھی چھاپنے کی نوبت آئی ہے۔

رشیداخترندوی کاایک ناول ’نسرین‘ کے نام سے ہے، یہ ایک معاشرتی ناول ہے، وہ خوداس ناول کی تحریرکامقصدواضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ہوسکتاہے میرے اس ناول سے ان نوجوان لڑکیوں کوکچھ روشنی ملے، جوفلمی دنیامیں آنے کے لیے تڑپ رہی ہیں اورخداکرے اس لائن میںوہ اس طرح نہ آئیں، جیسے کہ یہاں اکثر لڑکیاں لائی جاتی ہیں... اوریہ سب کچھ کیوںہوتاہے اورمیں نے اس موضوع کوکیوں ناول کی صورت دی ہے؟ محض اس لیے کہ ہمارے وطن کامعاشرتی نظام انتہائی ناپاک اورمکروہ ہے اورضرورت ہے کہ اس نظام کوبدل دیاجائے اورجب تک یہ نظام نہیں بدلے گا، اس وقت تک ہزارنسرین، ہزاربیگم ساڑی اورہزارثروت جاہیں اس  ہندوستان کے ہرگلی اورہرکوچے میں ماری ماری پھرتی نظرآئیں گی اورانھیں ہرگھڑی اورہرآن ہزاردھوکے دیے جاتے رہیں گے‘‘(نسرین، ص7)

ان کا ایک شاندار ناول ’تشنگی‘ ہے، تین سوتیرہ صفحات پرپھیلاہواہے، اس کے پڑھنے کے بعدان کے بقیہ ناولوںکوپڑھنے کی تشنگی دوچند ہوجاتی ہے، یہ ناول خودبھی تشنگی کوبڑھاتارہتاہے اورجب تک قاری ختم نہیںکرلیتا، اس وقت تک اضطرابی کیفیت سے دوچار رہتا ہے،  اوربقول نعمان منظور: ’’یہ ناول اردوناول نگاری میں اس مقام پرجلوہ گرہوا، جب کہ اردوناول نگاری گھٹنوں کے بل چل رہی  تھی۔‘‘

(https://dunya.com.pk/index.phd/special-feature/2014-05-22/9198)

اس ناول کے لکھنے کااصل مقصدکیاہے؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے خودمصنف اس کے دیباچے میں لکھتا ہے:’’یہ ’’تشنگی‘‘، جس کے پہلے حرف سے لے کر آخر حرف تک ہرحرف میرے لیے ننگی، بھوکی روح کاسچا ترجمان ہے، مجھے اپنے سارے ناولوں میں سب سے زیادہ پیاراہے… یہ ناول اس وقت کی تصنیف ہے، جب ہندوستان غلام تھا اورانگریزوں کے جابروظالم پنجے نے ہندوستانیوں کے گلے گھونٹ رکھے تھے، اس وقت میری روح ایک ایسے سماج اورایک ایسے نظام کے لیے تڑپی، جس میں آدمی نہ ہندوہوتانہ مسلمان، نہ پارسی ہوتانہ عیسائی، اس ناول کاہیرومحسن، اس ناول کی ہیروئن میری اور اجیت، سب ہی ننگے، بھوکے اورمحتاج تھے، سب کا مذہب ننگے آدم کامذہب تھا، سب کے نام گومختلف تھے؛ مگرسب کاعقیدہ ایک تھا، آدمی صر ف آدمی رہے اورآدمی رہ کرہی اپنا منصب پہچانے، اگر’تشنگی‘ کے پڑھنے والے ان ’آدمیوں‘ کی تشنہ روحوں کوسمجھ لیں، جواس ناول کے اندربھاگتے وگرتے اورسوچتے ہیں تورشیداخترندوی،اس کاتشنہ روح مصنف بڑاسکون پائے گا۔‘‘ (تشنگی، دیباچہ، ص8)

رشیداخترندوی کایہ ناول ملک کی آزادی سے پہلے کاہے، جیساکہ انھوں نے خودلکھاہے؛ لیکن اس کوپڑھ کرمحسوس ہوتاہے کہ اس کے کردار آج کے چلتے پھرتے نمونے ہیں۔

تاہم یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ ہرمصنف کی طرح ان کے بھی بعض ناولوںکے کردارمیںکچھ جھول بھی ہے اوریہ مصنف کے لیے عیب کی بات نہیں؛ کیونکہ مصنف انسان ہے اورانسان ہونے کے ناطے ایسا ہونا فطری بات ہے، دنیاکے کسی بھی مصنف کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیاجاسکتاکہ اس کی تمام تصنیفات گرفت اورمواخذہ سے باہرہیں؛ چنانچہ ان کے ایک ناول ’بادوباراں‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے مس حبیب اللہ خاں، لالہ موسیٰ اسٹیشن ایک خط میں ان کولکھتی ہیں:  ’باد و باراں‘ میں جنگلی قوم کی سردارعورت کاکردارکہانی کی پختگی میں کمی پیداکرتاہے، اگراس کے بدلے میں منورکوکسی اورقسم کی تکلیف پہنچتی تو’بادوباراں،‘ ’سوزدروں‘سے بھی سبقت لے جاتا۔‘‘ (پہلی کرن، ص 415)

خلاصہ یہ کہ مولانارشیداخترندوی ایک اردوکے سچے خادم، ادیب،مؤرخ، قابل اوراچھے ناول نگارتھے؛ لیکن افسوس کہ ان کی ادبی خدمات کاجس طرح تعارف ہوناچاہیے، اس طرح تعارف نہیںپیش کیاجاسکا، وجہ خواہ کچھ بھی ہو(یوں بھی اپنی بعض تحریروں کی وجہ سے وہ معتوب ہوئے تھے؛ بلکہ ان پر مقدمہ بھی دائرکیاگیاتھا؛ لیکن قبل ازوقت ضمانت مل گئی تھی)، اورنئی نسل توشایدہی ان کی ادبی خدمات سے واقف ہو، ان پرکام کرنے کی ضرورت ہے، اللہ کسی کوپیداکرے، آمین!

جی چاہ رہا ہے کہ یہاں پررشید اخترندوی کے ناولوں کے نام بھی درج کردوں؛ تاکہ پڑھنے والے پڑھیں اورمحظوظ ولطف اندوز ہوں، سیکھنے والے سیکھیں اور ادب حاصل کریں اورجائزہ لینے والے جائزہ لیں اور جانچیں پرکھیں اورادبی دنیامیں ان کاجومقام ومرتبہ ہوناچاہیے، ان کووہ دلانے کی کوشش کریں، نام یہ ہیں: سازشکستہ، سوزدروں، سودائی، یروشلم، حیدرعلی، غرناطہ، یہ جہاں اور ہے، تشنگی، یلغار، نسرین، نشان راہ، کانٹوںکی سیج، تلخیاں، بادوباراں، نشیمن، گل رخ، ایک پہلی، پندرہ اگست، مردکوہستاں، محمدبن ابی عامر، پہلی کرن، نسیم (ہرجائی

n

Md Jamil Akhtar Jaleeli Nadwi

Vill + P,O: Pochari

Distt: Dhanbad - 828306 (Jharkhand)

Mob: 08292017888, 9576971884