18/1/21

اردو نصاب ہندوستان کے مدرسوں میں: ایک جائزہ - مضمون نگار: محمد توقیر عالم راہی


 


نصاب نہ صرف ملک کے تعلیمی نظام سے متعلق ہوتا ہے بلکہ طلبا کی کامیابی اور ناکامی میں بھی اس کا کردار ہوتا ہے۔ دراصل وہی نصاب مفید اورکارآمد ثابت ہوسکتا ہے جو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔یہی وجہ ہے کہ ماہرین ِتعلیم کو فی زمانہ نصابی امور پر غور وغوض کرتے رہنا چاہیے تاکہ نصاب طلبا کے حق میں مفید رہے۔نصاب مادری زبان کا ہو یا پھر بیرونی زبان کا، عمدگی سے اسے ترتیب دینا اشد ضروری ہے۔ اس کے بغیر تدریس میں کامیابی ممکن نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ کامیاب تدریس ایک موزوں لائحۂ عمل پر مبنی ہوتی ہے جس کے تحت اغراض ومقاصد کا تعین کیا جاتا ہے۔ پھر ان مقاصد کے حصول کے لیے مناسب اقدامات کیے جاتے ہیں۔ انہی اقدامات میں نصاب بھی ایک اہم قدم ہے۔

 نصاب کی تیاری میں ماہرین تعلیم کی رائے کی اہمیت ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ زمانے کے نشیب وفراز پر نظر رکھتے ہیں۔ تغیر پذیر حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ پھر وہ لسانی مہارتوں،طلبہ کی ضروریات، دلچسپی، ماحول کے تقاضے اور قومی اقدار کے فروغ کو مدنظر رکھتے ہوئے اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ لیتے ہیں اور اس طرح کوئی پرکشش ومفید نصاب تیار ہوپاتا ہے۔مدارس کے اردو نصاب پر گفت وشنید سے قبل نصاب کی تعریف پر توجہ مرکوز کرنا مناسب ہے۔  

نصاب کی تعریف وتشریح مختلف ماہرینِ تعلیم نے مختلف طور پر کی ہے۔ ڈاکٹر صابرین نے نصاب کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے:

’’مطالعے کے لیے درسی کتب کے منظور شدہ خاکے کو نصاب سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔یا ایک ایسا تعلیمی منصوبہ، جس کی تکمیل مخصوص منظور شدہ کتب کے خاکے کے مطابق اپنی مقررہ مدت میں عمل میں آئے نصاب کہلاتا ہے۔ یا تعلیم کا ایسا نظام جس میں مطالعے کے لیے وقت اور کتب دونوں کا تعین کیا گیا ہو،نصاب سے منسوب کیا جاسکتا ہے، یا ایک ایسا تدریسی منصوبہ جو ایک خاص مدت پر مشتمل ہو، نصاب سمجھا جاتا ہے، یا یہ کہ اعلیٰ تعلیمی مقاصد کے حصول کے لیے مطالعے کا باقاعدہ منظور شدہ منصوبہ، نصاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک قسم کی تعلیمی منصوبہ بندی جس میں طلبہ کے ماضی اور حال کو نظر میں رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مستقبل پر بھی نظر رکھی گئی ہو، نصاب کہلاتا ہے‘‘۔

(ڈاکٹر محمد صابرین، یونیورسٹی درجات کے اردو نصابات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، دہلی ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ص37،1988)

ڈاکٹر صابرین نے نصاب کے مختلف پہلوؤں کو بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ مذکورہ اقتباس کی روشنی میں نصاب کا ایک خاکہ سامنے آجاتا ہے ۔ اس وضاحت کے بعد  ایک اچھے نصاب کے بنیادی ارکان کا تعین بھی تفہیم نصاب میں معاونت کرتاہے۔ اساسی طور پر اچھے نصاب کے چار ارکان ہیں:

.1        مقاصدِ تدریس

.2        مضامینِ تدریس (جن کی تدریس کے ذریعے مقاصد کی تکمیل ممکن ہوسکے۔)

.3        طریقۂ تدریس (تدریس کے لیے سوچا سمجھا طریقہ جس سے سیکھنے کا عمل آسان،دلچسپ اور مؤثر بن سکے)۔

.4          اندازۂ قدر  (Evaluation)  یہ معلوم کرنے کا عمل کہ طلبہ کو سیکھنے کے عمل میں کس حد تک کامیابی ملی ہے، نیز استاتذہ تدریس کے عمل میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ اس عمل میں استاد کے ذریعے ’سبق کی منصوبہ بندی‘ اور’طریقۂ تدریس‘ دونوں کی جانچ شامل ہے۔

مذکورہ چار ارکان کے تناظر میں ہندوستانی مدرسوں کے رائج اردو نصاب کا جائزہ لیا جاسکتاہے تاہم یہ وضاحت لازمی ہے کہ مدرسوں میں ذریعۂ تعلیم اردوہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس میں ایک طرف سیکولر اردو داخل نصاب ہے،وہیں اسلامیات کی تفہیم کے لیے اردو میں لکھی گئی کتابوں سے مدد لی جاتی ہے۔ گویا مدارس میں دو طرح کی اردو شامل ہے۔ سردست یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مدارس کی تعلیم کا بنیادی مقصد قرآن وحدیث کو مرکزی حیثیت دیناہے، نیز اس کی روشنی میں طلبہ کی شخصیت کی ہمہ جہت نشو ونما کرنا ہے اور شخصیت کی یہ نشو ونما محض ایک پہلو پر توجہ دینے سے نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دینی تعلیم کو بنیاد بناکر ہی نصابِ تعلیم، تدریسی مقاصد،تدریسی مضامین ، طریقۂ تدریس اور طریقۂ امتحان کا تعین کیا جائے تاکہ تعلیم سے فراغت کے بعد مدارس سے نکلنے والے افراد کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہ رہ جائے۔

بہرحال، ایک اچھا نصاب وہ ہے جس کی روشنی اور استاد کی رہنمائی میں متعینہ تجربات کی بنیاد پر طلبہ کی انفرادی ضروریات اور ملک کی اجتماعی ضروریات کی تکمیل کے لیے جملہ وسائل تعلیم کی مدد سے طلبہ کی شخصیت کی مکمل اور ہمہ جہت نشو ونما کی جائے۔

 رہی بات  مدرسہ بورڈوں میں اردو نصاب کی تو بہار اور اڑیسہ مدرسہ بورڈوں میں اردو زبان و ادب کی تعلیم تحتانیہ سے فاضل (پرائمری تا ایم اے) تک کے درجات میں دی جاتی ہے، جب کہ یوپی کے ملحقہ و امدادی مدارس میں ابتدائی درجات مولوی ؍منشی (مساوی ہائی اسکول ) اور عالم (مساوی انٹر میڈیٹ )کے درجات میں اردو نصاب کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے بر عکس آسام مدرسہ بورڈ کے ملحقہ مدارس میں ابتدائی درجات کے ساتھ ساتھ ثانوی درجات میں اردو نصاب شامل ہے۔ مغربی بنگال مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے مدارس میں پرائمری درجات کے ساتھ سیکنڈری درجات میں بھی اردو زبان و ادب داخلِ نصاب ہے۔

مدرسہ بورڈوں کے اردو نصاب کا یہ امتیازی پہلو ہے کہ وہاں ان ادبا اور شعرا کو شامل نصاب کیا جاتا ہے جن کی تخلیقات میں سیکولرازم کی روح بسی ہوئی ہو۔مذکورہ کتب پر غور وفکر کرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ نثری اور شعری دراصل وہی کتابیں مدرسہ بورڈوں میں پڑھائی جاتی ہیں جن سے شخصیت کی نشو ونماہوسکے۔ بہ استثنائے آسام مدرسہ بورڈ، جس میں غیر ملحقہ مدارس کے اردو نصاب کی طرح مذہبی رعایتوں کے ساتھ اردو کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی کتاب (اسمٰعیل میرٹھی) اور ’مسدس حالی‘ (حالی) وغیرہ بھی داخلِ نصاب ہیں۔ مذکورہ کتابوں کی روشنی میں یہ رائے قائم کرنا بھی مناسب ہے کہ مدرسہ بورڈوں میں سیکولراردو داخل نصاب ہے ۔

 غیر ملحقہ مدارس کے اردونصاب کی بات کی جائے تو اس کامزاج بورڈکے مدرسوںسے ذرا مختلف ہے۔ جیسا کہ مذکورہ سطور میں کہا گیا کہ مدارس کی تعلیم کا مقصد فروغِ اردو سے کہیں زیادہ اسلامیات کا فروغ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ایسی کتابوں کو شامل نصاب کیا جاتا ہے جن سے مذہبیات کی تفہیم ہوسکے یا پھر ایسی اردو کتابوں کو اہمیت دی جاتی ہے جو دینی مزاج کے ساتھ لکھی گئی ہوں یعنی ان مدارس میں ایسے ادبا و شعرانیز ایسے مضامین منتخب کیے گئے ہیں جن سے مذہبی رواداری کو کوئی ٹھیس نہ پہنچتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر ’رحمت عالم‘ اردو کی پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی (اسمٰعیل میرٹھی) داخل نصاب ہیں۔ اسی طرح حالی کی ’مسدس حالی‘ اوراقبال پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ مدرسوں میں اردو کے داخل نصاب ہونے سے اردو فروغ پاتی، تاہم فروغ اردو اور مدارس کے ضمن میں یہ کہنا لازمی ہے کہ وہاں ذریعۂ تعلیم عموماً اردو ہے۔ اس لیے اردو از خود مدرسوں کے ذریعے پروان چڑھتی رہتی ہے۔مشیر الحق کا خیال ہے:

’’دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت کے علاوہ اردوزبان کو بھی بر صغیر کے کونے کونے تک پھیلانے میںعربی مدارس کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ مدرسو ں کے اس پہلو پر ابھی تک کسی نے باقاعدہ نظر نہیں ڈالی ہے، لیکن یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اس پر پوری تحقیق ہونی چاہیے۔ باوجود یکہ نصابی کتابیں تقریباً سب کی سب عربی زبان میں ہوتی ہیں لیکن ہندوستان کے مذہبی مدرسوں میں اعلیٰ تعلیم اردو ہی میں دی جاتی ہے۔۔۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مدرسے کے طالب علموں کی راہ میں ملک کی جغرافیائی، لسانی اور تہذیبی حد بندیاں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ بغیر کسی مبالغہ کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بر صغیر کے اس کونے سے اس کونے تک جہاں کہیں بھی کوئی عالم ملے گا،وہ اردو ضرور جانتا ہوگا ۔۔۔ غیر ممالک کے طلبہ بھی جو علم دین کے حصول کے لیے یہاں]ہندوستان[ آتے ہیں، چونکہ ان غیر ملکی طلبہ کو بھی دیر یا سویر اردو زبان میں ہی اسباق حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی جلد از جلد روز مرہ کی اردو سیکھ لیتے ہیں۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو برصغیر کے باہر بھی اردو کا تعارف کرانے میں مدارس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔‘‘ 

(بحوالہ: پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، دہلی اسکولوں میں اردو نصاب کے مسائل، دہلی، اردو اکادمی، ص 120، 1967)

مشیر الحق کے علاوہ پروفیسر وہاب اشرفی نے بھی متعدد مقامات پر کھلے دل سے فروغ ِ اردو کے تناظر میں مدارس کا حوالہ دیا ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ کالجوں سے اردو غائب ہوتی جا رہی ہے۔ لہٰذا میں نے اردو کی عظمت اور زندگی کی جب بھی باتیں کی ہیں تو مجھے مدارس کی کارکردگی ضرور یاد رہی۔ ان کے علاوہ ممتاز ناقد شمس الرحمن فاروقی نے اس طرح مدارس کی اردو دوستی کا حوالہ دیا ہے ’’۔۔۔ہندوستان میں بہر حال تمام مدرسے زبانوں کی تعلیم دیتے ہیں۔ عربی فارسی کے علاوہ انگریزی بھی اکثر مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔کمپیوٹر کی بھی تعلیم کا اہتمام بہت سے مدارس میں ہے۔ اتر پردیش ، بہار، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں اردو کی بقا زیادہ تر مدرسوں کی مرہون منت ہے۔‘‘

( اردو نصاب اور مدارس، نئی دہلی، براؤن پبلی کیشنز، 2012، ص نمبر7)

حقیقت یہ ہے کہ مدارس دو سطحوں پر اردو کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اول:وہاں اردو ’ذریعۂ تعلیم ‘ ہے اور اردو کے ماحول میں ہی مدارس کے طلبا کی ذہنی نشو ونما ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑے مدارس میں زیر تعلیم بیرون ممالک کے طلبا بھی اردو سیکھ لیتے ہیں۔گو یا بیرون ممالک کے طلبا کے کندھوں پر سوار ہوکر اردو نے سرحدیں پار کیں۔

 دوم:بور ڈ سے ملحق مدرسوں کے ساتھ ساتھ غیر ملحقہ مدرسوں میں بھی اردو کتابوں کو شامل نصاب رکھا گیا ہے۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اہل مدارس دو سطحوں پر اردو کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مدارس میں اردو کتابوں پر مبنی جو نصاب شامل ہے،اس میں عصری تقاضوں کے مدنظر تبدیلی ضروری ہے ۔ساتھ ہی ساتھ راقم کا یہ بھی مفروضہ ہے کہ فروغِ اردو کے لیے کام کرنے والے اداروں کو بھی مدارس کے اردو نصاب میں تبدیلی لانے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اردو نصاب اور مدارس کے تنقیدی ڈسکورس سے یہ بات واضح ہے کہ عہدِ حاضر میں مدارس اور اردو کی حیثیت لازم و ملزوم کی سی ہوگئی ہے۔ مدارس کے بغیر اردو اور اردو کے بغیر مدارس کا تصور اب ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔ مدرسوں کے نصاب میں اردو کو کلیدی جگہ مل گئی ہے جو اردو زبان کی بقا کی ضمانت معلوم ہوتی ہے۔اس لیے مدارس کے اردو نصاب پر گہرائی سے غور وفکر کیا جائے اوراردو کا ایسا ہمہ گیر نصاب تیار کیا جائے جس میں اردو مذہبیات کی بھی گنجائش ہو اور’سیکولر اردو‘ کی بھی ، تاکہ فارغین ِمدارس نہ صرف زبان کی سطح پر اپنی انفرادیت درج کروائیں،بلکہ ادبی سطح پر بھی وہ مزید مستحکم ہوسکیں۔

Dr. Md. Tauqeer Alam Rahi

F-1/76, First Floor, Shaheen Bagh

New Delhi - 110025

 



3 تبصرے:

  1. بہت خوب زبردست اللہ تعالیٰ محمد توقیر عالم راہی صاحب کو دنیا و آخرت دونوں جہاں میں کامیابی عطا فرمائے مدارس کے نصاب کا بہت شاندار جائزہ لیا ہے دل خوش ہو گیا

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ خیرا الجزاءوأحسن الجزاء فی الدنيا و
      الآخرۃ مولانا محمد اسلم قاسمی وزیرآباد رام گھاٹ دہلی 110084

      حذف کریں
  2. آپ کی اس بات سے میں سو فیصد اتفاق رکھتے ہوئے کہ اُردو اور مدارس دونوں اب لازم و ملزوم بن چکے ہیں :برصغیر میں اُردو کے بغیر مدارس اور مدارس کے بغیر اُردو کا تصور محال ہے, میں کہنا چاہتا ہوں کہ اہل مدارس کو اُردو مذہبیات کے ساتھ سیکولر اُردو کو بطور مضمون اپنے یہاں آخری درجے تک شاملِ نصاب کرلینا چاہیے. محمد شاہ عالم مصباحی

    جواب دیںحذف کریں