3/2/21

سعودی میں ناول نگاری: ایک مختصر جائزہ - مضمون نگار: صہیب عالم

 



سعودی ناول نگار عالم عرب کی جدید عرب تحریکات اور تجربات خاص طور سے مصر کی عربی ناول نگاری سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے کئی وجوہات ہیں ان میںسب سے بڑی اور اہم وجہ مصر کا حجاز سے قریب ہونا اور مصر میں سعودیوں کا حصول تعلیم ہے۔  سعودی میں ناول نگاری کا آغاز عبد القدوس انصاری کے ناول التوأمان  جو کہ 1930 میں نشر ہوا ہے اس سے ہوتا ہے۔ یہ ناول سعودی تاریخ کا ایک بیانیہ اور ایک ثقافتی جدوجہد اور کشمکش کا منظر نامہ ہے۔ اس ناول کے بعد بہت سارے ناول پے در پے منظر عام پر آئے جو معاشرتی پہلووں پر مرکوز تھے۔ کچھ ناقدوں اور دانشوروں کاکہنا ہے کہ حامد دمنہوری کا ناول   ثمن التضحیۃ جو کہ 1959 میں شائع ہوا،یہی اس مرحلے کے اولین ناولوں میں سے ہے اور کچھ لوگ حامد دمنہوری کو سعودی ناول نگاری میں ایک بنیاد گزار مانتے ہیں۔ اس ناول میں فنکارانہ تکنیکی پہلو جامع طور سے نظر آتا ہے۔ پھر ابراہیم الناصر الحمیدان نے سعودی ناولوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ ان کے ناول ثقوب فی رداء اللیل 1961 میں اور سفینۃ الموتی 1969 میں منظر عام پر آئے جو جدید افسانوی فنی تکنیکی بنیادوں پر مبنی تھے۔ پھر یہی ناول 1989میں سفینۃ الضیاع کے نام سے منظرعام پر آیا۔ اس ناول کا پلاٹ سعودی دار الحکومت ریاض اور اس کے اسپتالوں کے گرد گھومتا ہے۔ جہاں تک ابراہیم الحمیدان کے ناول ثقوب فی رداء اللیل کا تعلق ہے یہ گاؤں اور شہر کے مابین کشکمش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناول سعودی تاریخ کا پہلا  افسانوی بیانیہ ہے جو گاؤں اور شہر کے مابین تقابلی رشتے پر روشنی ڈالتا ہے۔  اس موضوع کو ابراہیم الناصر نے اپنے ناول عذراء المنفن  جو کہ 1977 میں شائع ہوا کثرت سے پیش کیا ہے۔ اس ناول کی اشاعت سے پہلے خاص طور پر 1973میں ایک عظیم سعودی ناول نگار عبدالرحمن منیف کا ناول  ـالأشجار واغتیال مرزوق نے سعودی کے ادبی حلقوں میں ایک بڑا مقام بنایا اور خصوصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

1977 میں عبداللہ جمعان کا پہلا ناول  ـ القصاص شائع ہوا۔ اس کے بعد غالب حمزہ ابولفرج کا ناول  الشیاطین الحمر شائع ہوا۔ گذشتہ صدی کے ستر کی دکھائی کے ناول اکثر مرد اور عوت کے باہمی تعلقات اور خاندانی کشکمش کی عکاسی کرتے ہیں۔ دانشوروں اور محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسّی کی دہائی سعودی ناول نگاری کا ایک اہم موڑ ہے۔ اس کی وجہ سعودی معاشرے کی زندگی میں رونما ہونے والی متعدد تبدیلیاں ہیں جس کے نتیجے میں کئی ایک معیاری  ناول منظر عام پر آئے، اس عمل میں مشرقی اور مغربی ثقافتی لین دین، سعودیوں کا مغربی ممالک میں تعلیم کا حصول اور ان کے اندر نئے تخلیقی شعور کو تحریک دینا شامل ہے۔ 1980-89 کے مابین تقریبا 17 ناول شائع ہوئے۔ جن میں سب سے زیادہ مشہور محمد عبدہ یمانی، سلطان القحطانی، امل شطا، ابراہیم الناصرالحمیدان، عصام خوقیر، حمزہ بوقری، عبد اللہ جفری، عبد العزیزالصقعبی اور عبد العزیز مشری کے نام شامل ہیں۔ عبد العزیز نے شہر اور گاؤں کے درمیان کشمکش کی تصویر پیش کی ہے، جب کہ الصقعبی نے اپنا ناول رائحۃ الفحم کومنظوم تحریر کیا ہے۔ صحیح معنوں میں ان  ناولوں  کوسعودی عرب کے جدید ناول کا آغاز کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

دوسری خلیجی جنگ کے نتیجے میں ناولوں میں اقدار کی کمزوری، شناخت اور کچھ ان تلخ حقیقتوں کی عکاسی ملتی ہے جس نے سعودی معاشرے کو متاثر کیا ہے اور جس کے تلخ تجربے سے سعودی معاشرہ گذر رہا ہے۔ اوراس پس منظر میں سوالا ت کا ایک انبوہ جمع ہوگیا ہے، جس نے بہت سارے نوجوانوں کو متاثر کیا  اور یہ نوجوان جوابات کے متلاشی ہیں۔ اس مرحلے کی ابتداء غازی القصیبی کے ناول شقۃ الحریۃ اور ڈاکٹر ترکی الحمد کے ناول العدامۃ اور اس کے بعد عبدہ الخال کے ناولوں سے ہوئی ہے۔ اس دوران کچھ اور نوجوان ناول نگاروں کے نام سامنے آئے، خاص طور سے عبد الحفیظ الشمری، محمد المزینی، عبداللہ  التعزی، محمد حسن علوان، یوسف المحیمد کے نام پیش کیے جا سکتے ہیں۔اس فن میں مرد ناول نگار کے ساتھ ساتھ خواتین ناول نگار نے بھی طبع آزمائی کی جیسے رجا ء عالم، نورہ الغامدی، لیلی الجہنی،مھا الفیصل، نداء ابوعلی، رجاء الصانع، بدریہ البشر،امیمہ الخمیس ہیں۔ ان کے ناولوں میں اتحاداور فلسفہ حیات جیسے موضوعات ملتے ہیں۔ الشمری کا ناول فیضۃ الرعد کو ناقدوں نے دوسرے دور کا آغاز سمجھا۔ جس نے ناول کی ساخت اور ہیئت کے سابقہ تجربات کو مسترد کردیا ہے۔

11 ستمبر کے واقعے نے سعودی عرب کے ادبی منظرنامہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرنے میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ نوجوان اس واقعے سے جذباتی سطح پر متاثر ہوئے، ناول کے علاوہ دوسرے ادبی اصناف پر 11 ستمبر کے واقعات کا ایک نمایاں اور گہرا نقش پایا جاتا ہے۔ خالد الیوسف کا ناول ودیان الابریزی  اس کڑی کا ایک اہم ناول ہے، جس میں عشقیہ روداد کے علاوہ ایک حقیقت پسندی کا اظہار کیا گیا ہے۔ بے چین ضمیر اور ذہن ودماغ کی حالت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ انسانی نفسیاتی جذبات کو مربوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سعودی ناولوں میں یہ نئی خصوصیت اور ساخت کی موجودگی مضبوط طور پر نظر آتی ہے۔

اعداد وشمار کے مطابق 1930  سے 2010 کے دوران خالد الیوسف کے شائع شدہ ناولوں کی تعداد تقریبا 580 ہے۔  جب کہ دوسرے اعداد وشمار کے مطابق ناولوں کی تعداد 720 ہے۔ لیکن یہ بات قطعی طور پر یقینی ہے کہ مملکت سعودی عرب میں تعلیم کی شرح نمو اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور دیگر ثقافتوں کے ساتھ ان کالین دین اور جدید مواصلات سے رابطہ نے اس میدان میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ سعودی عرب میں ناول لکھنے کا ایک غیرمعمولی رجحان پیدا ہو ا ہے۔ محققین، دانشوروں اور نقادوں نے اس کے مندرجات، رجحانات، فنکارانہ طریقوں اور دوسرے مصنّفین کامطالعہ کرنے پر زور دیا ہے۔ سعودی عرب کی تاریخ میں ناولوں نے بہت سارے مسائل بھی کھڑے کیے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نوے کی دہائی کے آغاز سے ہی رومانوی تخیل کی برتری ان موضوعات میں سے ایک ہے جن پر سعودی قلم کاروںکی تخلیقات سامنے آئی ہیں، اس ادبی میدان میں بہت سارے سوالات اور مباحثات بھی جنم لیے ہیں۔

سعودی عرب کے ماہر، خالد الیوسف کے مطابق، سعودی عرب میں فکشن بہت تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ سنہ 2005 میں 26 ناولز اور 2006 میں 50 ناول میں شائع ہوئے ہیں۔ ایک عمدہ مثال نوجوان ناول نگارابراہیم بادی کا ناول حب فی السعودیۃ کی ہے جس میں اس نے بڑی دیدہ دلیری سے سعودی کے رومانوی موضوعات سے بحث کیا ہے۔ یہ ناول 2007 میں بیروت کے دار الآداب سے شائع ہوا تھا۔ لیکن عرب بیانیہ کی روایت میں اس ناول کا مغرب سے درآمد شدہ جدیدیت کے مخالفین اور اس روایت کے حامیوں نے خیر مقدم نہیں کیا ہے۔

غازی القصیبی کا ناول شقۃ الحریۃ جو ریاض سے 1994 میں شائع ہوا تھا، جس کے اب تک کئی ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں۔ اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ ترکی الحمد ایک مفکر اور سیاسی مصنف ہیں ان کا ایک ناول أظیاف الأزقۃ المھجورۃ 1998 میں بھی شائع ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں الحمد کاناول عصر حاضر کے سعودی ناول کی تاریخ میں ایک بنیادی مرحلہ کی عکاسی کرتا ہے اور ایک سماجی اور سیاسی نظریہ پیش کرتا ہے۔ یہ ناول نگار حقیقت پسندانہ انداز میں معاشرے کے تضادات کو پیش کرتا ہے۔نوجوان ادیب رجاء الصانع کا پہلا ناول  بنات الریاض ہے جو 2005 میں شائع ہوا تھا، جونسائی دنیا کے رازوںکوواشگاف کرتا ہے، جو اپنے اپ میں ایک سنگین امر تھا۔ یہ ناول پہلے کچھ سالوں میں 60 ہزار سے زیادہ فروخت ہوا۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیجیٹل انقلاب نے ادب کے میدان میں ایک بہت بڑا اثر ڈالا ہے۔1990 کی دہائی کے آخر سے آن لائن پریس، ویب سائٹس اور بلاگ عام ہو چکے ہیں، جس سے مصنّفین کو زیادہ موثر آسان  اور وسیع نیٹ ورک مہیا ہوا ہے۔ ہمیں انٹرنٹ اور چیٹنگ کی دنیا میں ترتیب پانے والے ناول  بنات الریاض میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اس میں ریاض کاایک نوجوان اپنے آن لائن گروپ میںاپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ ہر جمعہ کو ایک نوجوان سعودی خاتون اپنے دوستوں کی ایک ای میل بھیجتی ہے جس میں اس کی محبت کی زندگی اور اپنے تین دوستوں کی زندگی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔  اس ناول کے تئیں منفی ومثبت دونوں طرح کی آراء سامنے آئی ہیں۔

سعودی ناول کا نشو ونما کئی ارتقائی مرحلے سے گذرا ہے۔ اور ہر ایک مرحلے میں ایک فنی اور تکنیکی قدروں کا اضافہ ہوا ہے۔ سماجی ومعاشرتی ڈھانچے سے سعودی عربیہ کی ناول نگاری  مربوط ہے۔ ان ناولوں میں سماجی تغیرات اور ترقیات کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے۔  ابتدائی مرحلے کے ناول نگار جس کی ابتدا1930 سے ہوئی ہے اور اسی دوران سعودی عرب کا وجود میں آنا یہ ایک ایسا مرحلہ تھا جس میں قومی وحدت، وطن اور بادشاہی کی فکر اور سیاسی کشمکش نمایاں طور سے نظر آتی ہے، اس مرحلے کے ادبا نے نئی مملکت کے خط وخال اور اس کے نزاعی معاملے سے بحث کی ہے۔

 ناول کے ناقدوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں سعودی تأنیثی ناول نگاروں کا ظہور ہوا۔ اس میں سب سے زیادہ نمایاں نام سمیرہ خاشقجی کا ہے جو کہ سعودی کے باہر شائع ہوا۔ اور ساٹھ کی دہائی سے اسّی کی دہائی کے درمیان جو تأنیثی ناول سامنے آئے وہ سعودی معاشرے کے تعلیمی اور سماجی نتیجے کی پیداوار نہیں بلکہ شخصی تانیثی تجربے کی بنیاد پر تھے جو کہ سعودی معاشرے کے باہر ثقافتی اور تعلیمی تحریکات سے متأثر تھا، اس سلسلے میں سمیرہ خاشقجی کے علاوہ ہدی الرشید، ہند باغفار کے ناول ہیں جو اس دوران شائع ہوئے۔ ان کے بعد فوزیہ ابو خالد وشریفہ السمان کا نام آتا ہے  جنھوں نے دوسرے ماحول میں تعلیم اور ثقافت کو سیکھنے میں کافی محنت کی اور ان کے اکثر ناول غیر سعودی معاشرے کے ارد گرد گھومتا ہیں۔ جیسے کہ ذکریات دامعہ، بریق  عینیک، قطرات من الدموع  جوکہ سعودی کے باہر لکھے گئے۔ جس میں ناول نگاروں کا وطن سے دوری کا درد، روز رونما ہونے والے حادثات اور لوگوں کی پریشانی کے عکاس ہیں، یہ ناول سعودی معاشرے کے سماجی پہلوؤں کو نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں، اسی طرح سے ہند باغفار کا ناول  البراء ۃ المفقودۃ اورہدی الرشید کا ناول غدا سیکون الخمیس ہیں جوکہ ستر کی دہائی میں شائع ہوا، بیرون سعودی عرب کی دنیا کی عکاسی کرتا ہے، اس کے مقابل نوے کی دہائی کے تانیثی ناول جیسا کہ لیلی جھنی کا ناول الفردوس الیباب، نورہ الغامدی کا ناول(وجھۃ البوصلۃ) ہے،  یہ وہ اولیں ناول ہیں جو کہ سابقہ ناولوں سے ہٹ کر سعودی معاشرے کے اندرونی ثقافتی وسماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اور ان ناولوں کو شہرت بھی ملی۔ چونکہ ناول معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور زماں ومکاں سے جڑا ہوتا ہے، ان سارے تجربات جو سعودی میں ثقافتی اور تعلیمی بیداری کے بعدسامنے آئے ہیں اس میں نمایاں طور سے دکھا جا سکتا ہے۔ جس نے ایک الگ رجحان پیدا کیا۔ ان ناولوں میں أمل شطا کا ناول غدا أنسی! رجاء  العالم کا ناول ۴ صفر اور بھیہ بوسبیت کا ناول درۃ من الاحساء وصفیہ عنبر کا ناول وھج من بین رماد السنین وصفیہ بغدادی کا ناول ضیاع والنور یبھر، کا نمایاں طور سے ذکر کیا جاسکتا ہے۔

سیاسی، سماجی اور اقتصادی تغیرات کا سعودی ناول نگاروں پر کافی اثر پڑا ہے جیسے کہ نوے کی دہائی کے ناولوں میں امریکہ کا عراق پر حملہ، اور خلیجی ممالک کا جنگ میں چلے جانا اور اس کا سیاسی، عسکری اور اقتصادی اثر آج تک محسوس کیا جاسکتا ہے۔

غازی القصیبی کے ناولوں میں شقۃ الحریۃ، العصفوریۃ،اور(7) وغیرہ  کافی اہم ہے۔ نوے کے دور میں کچھ نمایاں ناولوں کا ذکر کرنا مناسب ہوگا اس میں عبد اللہ التعزی کا ناول الحفائر تتنفس، محمد حسن علوان کا ناول سقف الکفایۃ ویوسف المحیمد کا ناول فخاخ الرائحۃوعبد الحفیظ الشمری کا ناول فیض الرعد اور ابراہیم شحی کا ناول أنثی تشطر القبیلۃ ہے۔ محمد عزیز العرفج کا ناول الدور الأعلی، عبد الرحمن منیف کا ناول مدن المل، بدریہ البشر کا ناول غرامیات شارع الأعشی، ترکی الحمد کا ناول  الکرادیب، العدامۃ اور الشمیسی،  رجاء العالم کا ناول طوق الحمام، عبدہ الخال کا ناول مدن تأکل العشب،  عبد اللہ نائب کا ناول مکان موجف، فھد شقیق، وجہ النائم، موسی العلوی کا ناول زریاب مقبول، محمد المزینی کا ناول  حکومۃ الظل، منذر القبانی، ضرب الرمل،  وصلاح قرشی کا ناول بنت الجبل، ساق الغراب، فرح العمامی کا ناول مدینۃ النجوم  و یوسف المحیمد کا ناول الحمام لا یطیر فی بریدہ اور رجاء عالم کا ناول  ستر ہے۔ سلطان طاہر عیاض کا ناول انسان وشیطان بین الاقوامی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا ہے۔

سعودی ناول نگاروں کو رائٹرز ایوارڈ، گریٹ وومن ایوارڈ، قومی اور بین الاقوامی جیسے متعدد انعامات واکرامات سے نوازا گیا ہے۔ اس سلسلے میں عبدہ الخال کا ناول ترمی بشرر،رجا العالم  کا ناول طوق الحمام اور محمد حسن علوان کا ناول موت صغیر کا ذکر کرنا مناسب ہے جسے 2010، 2011 اور 2017 میںبوکر ایوارڈ عطاکیاگیا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ریتاج الحازمی کو دنیا کی کم عمر ناول نگاری کی حیثیت سے گنیز بک آف ریکارڈز میں شامل کرنے کے لیے نامزد کرلیا گیا ہے۔ اور اس کم عمر مصنفہ کے دو ناول شائع ہوچکے ہیں اور دوناولوں پر کام کررہی ہیں۔ انھوں نے ایک ناول بچوں کے لیے بھی لکھا ہے۔ ان کا پہلا ناول تراث البر المفقود اور دوسرا ناولPortal of Hidden World ہے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی ناولوں نے عالم عرب کے ادبی حلقوں میں ایک نمایاںاور اہم مقام بنایا ہے۔ کچھ ناولوں کا کئی عالمی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ بعض عالمی ادب کے ناقدوں نے ان کی کوششوں اور کاوشوں کی ستائش بھی کی ہے۔ سعودی کے رومانوی وتخیلاتی ناولوں کو کافی شہرت ملی ہے، سعودی ناول نگاروں نے مکمل آزادی کے ساتھ اپنے احساسات اور جذبات کا بے باکانہ اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ناول حکایۃ الحب اور ألف امرأۃ فی جسدی، کفن الحبہے۔ سعودی ناولوں کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اعلی ذوق، زمان ومکان کی مضبوط بناوٹ اورادبی ساخت کی تنسیق اور ہم آہنگی ہے۔

اس مضمون کی تیاری میں  مندرجہ ذیل مقالات سے استفادہ کیا گیا ہے:

.1        سلون المیمان، الروایۃ السعودیۃ المعاصرۃ وتحدیات(عربی ترجمہ: خدیجہ حلفاوی)، 2017

.2         حسن النعمی، مراحل تطور الروایۃ السعودیۃ، مجلۃ الجسرۃ الثقافیہ، 2020

.3         محمد عبداللّٰہ المزینی، الروایۃ السعودیۃ: تاریخھا وتطورھا، الجزیرۃ، شمارہ نمبر 14210، 2011۔


Dr. Suhaib Alam

Asst Prof. Dept of Arabic

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

   



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں