5/2/21

بوکر انعام یافتہ ناول نگار: عبدالوہاب عیساوی - مضمون نگار: جسیم الدین

 



الجزائرکی سرزمین حالیہ دنوں میں عربی ناول نگاری کے لیے زرخیز ثابت ہورہی ہے ، یہاں مرد ناول نگاروں کی جہاں بڑی تعداد ہے ، وہیں خواتین ناول نگاربھی نہ صرف اپنی موجودگی درج کرارہی ہیں ، بلکہ ناول نگاری میں مردوں کے شانہ بہ شانہ چل رہی ہیں۔ حال ہی میں جزائری ناول نگار عبد الوہاب عیساوی کو ان کے تاریخی ناول ’الدیوان الاسبرطی‘ پر انھیں  بوکر پرائز سے سرفراز کیاگیا۔عبد الوہاب عیساوی پہلے جزائری ناول نگار ہیں ،جنھیں  پرائز2020 سے سرفراز کیا گیا ہے۔ 1985 میں جزائر کے’ الجلفہ‘ ریاست کے’ حاسی بحبح‘ شہر میں پیدا ہونے والے اس نوجوان عربی ناول نگار کے اشہب قلم سے ’سیرا دی مویرتی‘ (تاریخی ناول)، ’سینما جاکوب‘، ’الدوائر والابواب‘، ’سفر اعمال المسیین‘، اور ’الدیوان الاسبرطی‘ جیسے شہرۂ آفاق ناول منظر عام پر آکر شرف قبولیت حاصل کرچکے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پیشے سے الکٹرانک انجینئر عیساوی نے نہایت قلیل مدت میں ایسے ادبی سرمایے قوم کو دیے کہ آج الجزائر عربی ناول نگاری میں سر فہرست ہے۔یہاں ایک سے بڑھ کر ایک ناول نگار اپنے فکر وفن سے ادبی سرمایے میں غیر معمولی اضافہ کررہے ہیں۔واسینی الاعرج، احلام مستغانمی، آسیا جبار، امل بوشارب، عائشہ بنور وغیرہ کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ تاریخ اقوام کے لیے قیمتی اثاثہ ہے اور تاریخی ناول اس اثاثے اور سرمائے کی حفاظت کا بہتر اور مؤثر ذریعہ۔ کسی بھی کہانی میں کردار وں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگرہیرو کسی بھی ناول کا اہم، مرکزی اور اولیت و مقبولیت رکھنے والا کردار ہوتاہے۔ تاریخی ناولوں میں ہیرو کے کردار کی اہمیت دو چند ہوتی ہے۔ ادبی اعتبار سے دیکھا جائے تو ناول نگاری ادب کی ایک ایسی صنف ہے جو ماضی و حال کی تاریخی روش و مقاومتی تحریکوں سے آشنائی میں کافی موثر رہی ہے۔ تاریخی واقعات کو ایک کہانی کے روپ میں پرویا جائے تو فکر و نظر پر چھا جاتی ہے۔تاریخی واقعات کو ناول کے سانچے میں ڈھالنا ایک ادبی روش رہی ہے۔ ’الدیوان الاسبرطی‘ بھی تاریخی ناول ہے۔جسے بوکر پرائز کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ادب خواہ کسی زبان کا ہو ،وہ سماج کاآئینہ ہوتاہے، ادب سے ہی انسان کی امیدیں اورخواب آشکارا ہوتے ہیں، ادب کا کام ہی سماجی مسائل کو پیش کرناہے۔ادب اور ادبا کی قدر دانی کا معیار کوئی بڑا سے بڑا انعام نہیں ہوتا،بلکہ یہ قابل قدر خدمات کے اعتراف کا ایک وسیلہ ہے۔الگ الگ زبانوں میں ادبا اپنے گرد وپیش کے سماجی ، انسانی ومعاشرتی مسائل کو اپنا موضوع بناتے ہیں ، دنیا کے دیگر علوم وفنون کی طرح ادب بھی ایک فن ہے جس کے واضح اثرات دیگر تمام علوم پر پڑتے ہیں اور اس کا تعلق براہ راست سماج اور اس کے روز مرہ مسائل سے ہوتاہے۔

نوبل پرائز کے بعد بوکر پرائزعالمی سطح کا دوسرا سب سے بڑا ادبی انعام ہے، جو عربی ادبیات کے لیے مختص ہے۔2007  میں الجائزۃ العالمیۃ للروایۃ العربیۃ (انٹرنیشنل پرائز فار عربک فکشن) کے نام سے عالمی سطح کا ایوارڈ مقررکیا گیا، جس کا انتظام وانصرام حکومت متحدہ عرب امارات کی وزارت سیاحت وثقافت اور ’مؤسسۃ جائزۃ بوکرالبریطانیۃ‘(برٹش بوکر پرائز فاؤنڈیشن)کے ذمہ ہے۔ اس کا مرکزی دفتر ابوظبی میں واقع ہے۔رواں سال سے متصل سال میں لکھے گئے کم ازکم 100 ناول کو بوکر پرائز کے لیے ابتدائی مرحلے میں قبول کیا جاتاہے ، بعد میں جیوری کمیٹی (جو عرب ممالک کے ناقدین، ناول نگار اور ماہر تعلیم پر مشتمل ہوتی ہے) کے کئی مراحل سے گزر کر آخری مرحلے میں 6 ناول کو منتخب کیا جاتاہے۔ جن میں سب سے اول نمبر پر رہنے والے ناول کو پچاس ہزار ڈالر بطور انعام دیا جاتاہے، جب کہ باقی پانچ کو دس دس ہزار ڈالر دیے جاتے ہیں۔یہ اتفاق ہے کہ بوکر پرائز کے لیے 2020 میں ایک سوپینتیس ناول نگاروںکی امیدواری کو قبول کیا گیا۔امیدوارناول نگاروںکی اولین فہرست میں چار ناول نگار کا تعلق الجزائر سے تھا اور اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ سعید خطیبی اور عبد الوہاب عیساوی پہلی بار امیدوا ر کی حیثیت سے شامل ہوئے اور ’الدیوان الاسبرطی‘ کو بوکر پرائز 2020 کے لیے منتخب کیا گیا۔رواں سال بوکر پرائز کے لیے جن چھ ناول کا انتخاب کیا گیا ، ان میں عالیہ ممدوح عراقی کا ’التانکی‘، سعید خطیبی جزائری کا ’حرب سراییفو،‘خلیل الرز سیریا کا ’الحی الروسی‘، یوسف محمد احمد زیدان مصری کا ’فردقان اعتقال الشیخ الرئیس‘، جبور الدیہی لبنانی کا ’ملک الھند‘ اور عبد الوہاب عیساوی جزائری کا ناول ’الدیوان الاسبرطی‘  شامل تھے۔

یہاں مناسب معلوم ہوتاہے کہ ’الدیوان الاسبرطی ‘ پر بھی بات کی جائے۔’اس  میں ناول نگار نے جزائر کی انیسویں صدی کی صورتحال اور فرانسیسیوں کے ظالمانہ سلوک کو بتایاہے،یہ ناول عمدہ اسلوب اور مختلف آہنگ کے ساتھ قاری کوالجزائر کے سیاسی، معاشرتی ابعاد کے ساتھ ماضی کی تاریخ سے روشناس کراتاہے۔یہ ناول قاری کو جہاں جزائریوں پر ہونے والے فرانسیسی مظالم کو بتاتا ہے ،وہیں نسل نو کو اس بات پر ابھارتاہے کہ اپنے پرکھوں کی ہمت وحوصلہ سے سبق لے کر اب بھی ظلم وزیادتی کے خلاف صف بستہ ہونا پڑے تو اس میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔ناول کے مرکزی کردار میں ایسے پانچ اشخاص کو پیش کیا گیا ہے جو الجزائر کے شہر المحروسۃ میں ، 1815 سے 1833 کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ سب سے پہلا کردار صحافی ’ڈیبن ‘کا ہے ، جو ایک رپورٹر کی حیثیت سے الجزائر کے خلاف صلیبی جنگ کے دوران آئے تھے اور  دوسرا کردار ’کافیار‘ کا ہے ، جو نپولین کی فوج میں سپاہی تھے ، پھر اس مہم کی منصوبہ بندی کی۔ الجزائر کی تین شخصیات جن کے عہدے مختلف ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ انقلاب ہی موجودہ نظام کی تبدیلی کا واحد راستہ ہے۔ جہاں تک پانچویں کردار کا تعلق ہے تووہ ’دوجۃ‘ نام کی دوشیزہ ہے، جس کا کردار صرف اتنا ہے کہ وہ’ المحروسہ‘ کی تبدیلیوں کو دیکھتی ہے اوراپنی بہتر زندگی کی طلب میں آزادانہ مزاج کے ساتھ جینا چاہتی ہے،لیکن جبری طور پراسے ’المحروسۃ‘ میں رہنا پڑتاہے اور اس شہر کی شرائط کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ ناول پڑھ کر جہاںجزائر کی ایک صدی کی تاریخ سے آشنائی ہوتی ہے، وہیں جزائر کی سماجی ، تہذیبی اور تاریخی زندگی سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔ناول کا مرکز ومحور جزائر کی ظلم وجبر سے بھری تاریخ کا اعادہ ہے، عیساوی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جہاں جزائر کی غیور قوم کی روشن تاریخ کو بیان کرتے ہیں ، وہیں نوجوان نسل کو اپنی روشن تاریخ سے سبق لے کر میدان عمل میں کودنے کی تلقین بھی کرتے ہیں، انھوں نے نہ صرف حالات وواقعات بیان کیے ہیں ،بلکہ نامناسب رسم ورواج، ناموزوں طریقوں پر تنقید بھی کی ہے اور جزائری عوام کے لیے نئی روشنی اور نئی فکر پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ پانچ ابواب پر مشتمل 388 صفحات کے ناول کی اشاعت دار میم الجزائر کی طرف سے ہوئی ہے۔

الجزائر (عربی) جسے انگریزی میں الجیریا (Algeria) بھی کہتے ہیں، شمالی افریقہ میں واقع ایک ملک ہے۔ رقبے کے اعتبار سے بحیرۂ روم پر واقع، عرب دنیا اور افریقی براعظم میں سوڈان کے بعد سب سے بڑا ملک ہے۔ دنیا میں اس کا 11واں نمبر ہے۔ الجزائر کے شمال مشرق میں تیونس، مغرب میں مراکش، جنوب مغرب میں مغربی صحارا، موریتانیا اور مالی ہیں۔ جنوب مشرق میں نائیجیریا جبکہ شمال میں بحیرہ روم واقع ہیں۔ اس کا رقبہ تقریباً 24 لاکھ مربع میل جب کہ آبادی 3 کروڑ 57 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ الجزائر کے دار الحکومت کا نام بھی الجزائر ہے۔الجزائر عرب لیگ، اقوامِ متحدہ اور اوپیک کا رکن ہے۔الجزائر کو خیرالدین بربر اور اس کے بھائی عروج نے 1517 میں سلطنتِ عثمانیہ سے جوڑ دیا تھا۔ 1541 میں رومن سلطنت کے بادشاہ چارلس پنجم نے الجزائر پر 65 بحری جنگی جہازوں اور 23 ہزار فوجیوں کی مدد سے حملہ کر دیا۔ اس فوج میں دوہزار گھڑ سوار بھی شامل تھے۔ تاہم انھیں بدترین شکست ہوئی اور الجزائر کے رہنما حسن آغا کو قومی رہنما مان لیا گیا۔ الجزائر بہت بڑی فوجی قوت بن کر ابھرا۔

عثمانیوں نے الجزائر کی موجودہ سرحدیں شمال میں قائم کر دیں۔ عثمانی جہادیوں کے لیے الجزائر کے ساحل پڑاؤ کا کام کرنے لگے۔ 17ویں صدی میں عثمانیوں کے امریکی بحری جہازوں پر حملوں کی وجہ سے پہلی اور دوسری بربر جنگیں ہوئیں۔ دونوں اطراف کی فوجیں دشمنوں کو پکڑنے کے بعد غلام بنا لیتی تھیں۔ان لوگوں کے گہرے اثر و رسوخ کی بنا پر اس علاقے کو بربری ساحل کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ اکثر یورپی ساحلوں پر حملہ کر کے مسیحیوں کو غلام بنا کر ترکی، مصر، ایران، الجزائر اور مراکش کے بازاروں میں بیچ دیتے تھے۔ رابرٹ ڈیوس کے مطابق 16ویں سے 19ویں صدی کے دوران دس لاکھ سے ساڑھے بارہ لاکھ یورپیوں کو غلام بنا کر بیچا گیا۔ ان لوگوں کی اکثریت اٹلی، سپین اور پرتگال کی ساحلی بستیوں کے علاوہ فرانس، انگلینڈ، آئرلینڈ، ہالینڈ، جرمنی، پولینڈ، روس، سکینڈے نیویا، آئس لینڈ، ہندوستان، جنوب مشرقی ایشیا اور شمالی امریکا سے پکڑی گئی تھی۔ان حملوں کا اثر تباہ کن تھا۔ فرانس، انگلینڈ اور سپین کے ہزاروں بحری جہاز تباہ ہوئے اور سپین اور اٹلی کے ساحلوں کا بہت بڑا حصہ غیر آباد ہو گیا۔ 19ویں صدی تک انہی بحری قزاقوں کی وجہ سے ساحلی علاقے غیر آباد رہے۔بعد میںاپنے سفیر کی بے عزتی کے پیشِ نظر فرانسیسیوں نے 1830 میں حملہ کر کے الجزائر پر قبضہ کر لیا۔ یہ جنگ بہت طویل تھی اور بہت خون خرابا ہوا۔ 1830 سے 1872 تک مقامی آبادی جنگوں اور بیماریوں کی وجہ سے ایک تہائی کم ہو گئی۔1825 سے 1847 تک پچاس ہزارسے زیادہ فرانسیسی الجزائر منتقل ہوئے۔ تاہم یہ منتقلی بہت آہستگی سے ہوئی کیونکہ مقامی آبادی نے اس کے خلاف بہت جہد و جہد کی۔

قبضے کے بعد فرانس نے ہر ممکن کوشش کر کے الجزائر کو فرانس کا اٹوٹ انگ بنایا۔ فرانس، سپین، اٹلی اور مالٹا سے ہزاروں کی تعداد میں آبادکار الجزائر منتقل ہوئے اور الجزائر کے ساحلی میدانوں پر کاشتکاری کے علاوہ شہروں کے اہم حصوں پر بھی قابض ہو گئے۔ ان آبادکاروں کو حکومتِ فرانس کی پشت پناہی حاصل تھی۔19ویں صدی کے اواخر سے الجزائر میں آباد یورپی النسل افراد اور الجزائری یہودیوں کو فرانس کا شہری تسلیم کر لیا گیا۔الجزائر کی 1962 میں آزادی کے بعد یہاں یورپی النسل افراد کو کالے پیروں والے کہا جانے لگا کیونکہ آبادکار کالے بوٹ پہنتے تھے۔ تاہم یہ نام محض ہتک کے لیے لیا جاتا تھا۔ تاہم مسلمان الجزائری باشندوں کی بہت بڑی اکثریت کو بشمول پرانے فوجیوں کے، فرانسیسی شہریت اور ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔

الدیوان الاسبرطی ‘ میں عیساوی نے جنوبی فرانس میں واقع شہر’طولون‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ’طولون کا نقشہ خوشی کے ایک تہوار کے طور پرذہن کے نگارخانے میں گشت کرنے لگتاہے، چند مانوس چہرے نمودار ہوتے ہیں اورچند دیگر نامانوس چہرے سڑکوں پر نظر آتے ہیں، تاحد نگاہ لشکرکی صفیں ہیں، بوجھل قدموں کے ساتھ بندرگاہ کی طرف رواں دواں ہیں، ہر شخص اس مقدس جنگ کا حصہ بننے کا متمنی ہے،جواپنے پرکھوں کی عظمت رفتہ کی بازیابی چاہتاہے،ہر کوئی آسمانی بحری قزاق کو مٹانا چاہتا ہے جو عیسائیوں کو غلام بناتا ہے۔ ہر شخص ترکوں کی ظالمانہ علامت کو ختم کرنے کا خواب دیکھتا ہے،لیکن آج کا طولون کس حال میں ہے؟ کیا تمھیں خبر ہے کہ خوشی کی بازگشت عنقریب سنوںگا، لشکروں کے نشان قدم پر چلوںگا؟ یا لوگوں نے اپنے روز وشب کے معمول میں سرگرداں ہوکرماضی کی اپنی تمام امیدوں کو پس پشت ڈال دیا ہے، یقینا صورت حال ایسی ہی ہے،کیا اس شہر کا خاتمہ نہیں ہوا جس نے سبھوں کو دہشت زدہ کیا اور ترکوں سے روم کی تولیت میں آگیا۔

اس ناول پرعرب متدین ادبا کی جانب سے تنقید کا بھی سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔جزائر میں فرانس کے خلاف لڑنے والے نوجوانوں نے اس ناول کی حقیقت وواقعیت پر ہی سوال کھڑے کردیے کہ اسے بوکر پرائز صرف اس لیے دیا گیا کہ اس ناول میں ترکوں کو جزائر کی تعمیر وترقی میں ناکامی کے لیے ذمے دار ماناگیاہے ، جب کہ فرانس کو ہر معاملے میں کلین چٹ دی گئی ہے۔اس ناول کے چار عظیم کرداروں میں دوجزائری کے کردار کو مشتبہ طور پر پیش کیا گیا ہے ،جب کہ فرانس کے دو افسران کے کردارکو اچھا بناکر پیش کیا گیا ہے ، یہی اس ناول کی حقیقت ہے اور اسے ترکوں کے تئیں حقد  وحسد کی وجہ سے بوکر پرائز کا حقدار مانا گیا ہے۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ الجزائر کے ادباعربی ادبیات کے عالمی منظرنامے پر اپنی نمایاں موجودگی درج کرارہے ہیں، جو کہ قابل تقلید اقدام ہے۔ عبد الوہا ب عیساوی کو بوکر پرائز سے قبل بھی متعدد قومی وبین الاقوامی اعزازات سے نوازا جاچکا ہے، جن میں ناول ’سینما جاکوب‘ پر 2012میں رئیس الجمہوریۃ علی معاشی ایوارڈ، شارٹ اسٹوری ’حقول الصفصاف‘ پر 2013 شارجہ ایوارڈ، ناول’سییرا دی مویتری‘ پر2015 میں آسیا جبار ایوارڈ، ناول ’الدوائر والابواب‘ پر2017 میں سعاد الصباح ایوارڈ، ناول’سفر اعمال المنسیین‘ پر 2017 میں کتارا ایوارڈ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔


Dr. Jaseemuddin

Dept of Arabic

Delhi University - 110007

Mob.: 9711484126

Email.: jasimqasmi@gmail.com

 

 






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں