10/2/21

شیراز ہند کا بیباک شاعر: وامق جونپوری - آفتاب عالم اعظمی



جونپور ضلع شمالی ہندوستان کا تاریخی شہر ہے جو دریائے گومتی کے کنارے آباد ہے۔اس کی بنیاد فیروز شاہ تغلق نے 1359 میں منیاح کے قریب رکھی۔مؤرخین کے نزدیک جونپور شہر جونا شاہ سے مشتق ہے جو تخت نشینی سے قبل محمد بن تغلق کا لقب تھا۔فیروز شاہ تغلق کے ہاتھوں تاسیس سے شیر شاہ سوری کے عہد تک جونپور ضلع علوم وفنون کا اہم مرکز رہا ہے۔اٹالہ مسجد یہاں کی نمایاں اور تاریخی مسجد ہے۔ مسجد سے متصل ایک قدیم مدرسہ ہے جو اب بھی قائم ہے۔ شیر شاہ سوری(فرید) کی تعلیم یہیں پر ہوئی۔ بعدازاں اس کی شہرت شیراز ہند کے طور پر ہوئی جس کی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے۔

اردو شعر وادب کی ترقی میں شیراز ہند جونپور منفرد حیثیت کا حامل ہے جو درجنوں ادبا وشعرا کی جائے پیدائش ہے۔بیسویں صدی میں شفیق جونپوری اور وامق جونپوری کی شخصیت بے حد نمایاں ہے۔شفیق نے روایتی شاعری کے علاوہ اسلامی موضوعات کوشاعری کا جزو بنایا اور تا عمر اس پر قائم رہے۔وامق نے بھی تا عمر شاعری کی مگر ترقی پسند تحریک کے بتائے ہوئے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ عوامی موضوعات ان کی شاعری کا جزو ہے البتہ بدلتے رجحانات کے ساتھ انھوں نے بھی موضوعات میں تنوع پیدا کیا۔ان کی خاص صفت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دل کی بات شاعری کے پیرائے میں بیباکانہ کہی جس کے نتیجے میں انھیں اپنی سرکاری نوکری چھوڑنی پڑی۔

وامق جونپوری کا نام احمد مجتبیٰ زیدی الواسطی ہے۔ ان کی ولادت 23؍اکتوبر1909 کو کجگاؤں (تیڑھواں) میں ہوئی۔مذہبی وابتدائی تعلیم کے بعد بی اے اور ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کی۔تعلیم سے فراغت کے بعد فیض آباد میں وکالت شروع کی لیکن جاگیر دارانہ ماحول میں پرورش کے سبب وہ جگہ راس نہ آئی۔نوکری کی تلاش میں دہلی کا رخ کیا۔ ترقی پسند تحریک کے نمائندہ رسالہ ’شاہراہ‘کی ادارت قبول کرلی۔چند عرصے بعد صوبائی محکمہ راشننگ میں اے آر او کے عہدے پر تقرر ہوا مگرتحریکی سرگرمیوں کے سبب یہ نوکری بھی سود مند ثابت نہ ہوئی۔تین سال بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ انجینئرنگ میں آفس کی ملازمت اختیار کرلی جہاں انھیں بہت سکون میسر ہوا۔ تقریباً چھ سال بعد ریجنل انجینئرنگ کالج سرینگر کشمیر میں اسسٹنٹ رجسٹرار کے عہدے پر تقرر ہوا۔ 1969 میں ملازمت سے سبکدوش ہوکر آبائی وطن کجگاؤں میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔نوکری سے فراغت کے بعد پابندی سے مشاعرے میں شریک ہونے لگے۔زندگی کے آخری تین سال بے خوابی میں گزارنے کے بعدشیراز ہند کا بیباک شاعر 21؍نومبر 1998 کو ابدی نیند سو گیا۔ ان کی زندگی اور شاعری کا احاطہ فاروق ارگلی نے اس انداز میں کیا:

’’وامق بنیادی طور پر عوام کے شاعر تھے اور نصف صدی سے زائد مدت تک ہندوستان کے دلوں پر چھائے رہے۔ان کی شاعری عام فہم زبان میں سرمایہ داری اور اجارہ داری کے عفریت کے ہاتھوںکمزوروں کے استحصال، ظلم، نابرابری اور ناانصافی کے خلاف ایسی طاقتور آواز ہے جس پر غریبوں،محنت کشوں اور مظلوموں کو بجا طور پر درویش صفت اس عہد ساز شاعر پر فخر ہے۔‘‘ 

(ص4،دیباچہ کلیات وامق جونپوری)

اس عہد ساز شاعرنے شاعری میں کبھی کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی۔بچپن ہی سے وہ اپنے وطن کے جلسہ محرم میں دیگر شعرا کے کلام پڑھتے رہے جس سے فطرتاً ان کا مزاج شاعرانہ ہوگیا۔طالب علمی کے زمانے میں خود اشعار کہتے اور ساتھی شعرا سے مجلسوں میں پڑھواتے۔ اس طرح یہ سلسلہ برسوں چلتا رہا۔تعلیم سے فراغت کے بعد فیض آباد میں وکالت سے منسلک ہوئے تو وہاں شعرا کی ادبی محفلوں میں شریک ہونے لگے۔مہمل اشعار نظم کرکے ساتھی شعرا کو دے دیتے جس پر انھیں داد وتحسین سے نوازا جاتا۔قریبی دوستوں کے اصرار پر وامق اپنا کلام خود پڑھنے لگے۔1940 کے مشاعرے میں ایک طرحی غزل سامعین کی نذر کی۔اس طرح وہ اچانک شاعر ہو گئے جس کا اظہار انھوں نے اس انداز میں کیا:

’’میری ذات سے وابستہ دو حادثوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ایک یہ کہ میں 1909 میں پیدا ہوا کہ زندگی بھر اپنے وجود کا خمیازہ بھگتا کروں،دوسرا حادثہ 1940  میں یہ ہوا کہ میں ایک دم سے شاعر ہوگیا کہ اندر ہی اندر کڑھتا اور سلگتا رہوں۔‘‘ (ص33ماہنامہ آجکل فروری1999)

وامق جونپوری کی پہلی طرحی غزل نے ہی شعری ذوق رکھنے والوں کے دلوں کو موہ لیا اور ان کا شمار بحیثیت شاعر ہونے لگا۔1941 میں گورکھپور کے ایک مشاعرے کا دعوت نامہ موصول ہوا۔انھوں نے باقاعدہ شرکت کی اور سامعین کے سامنے جو غزل پڑھی اس کا مطلع ہے:

آہ کہ نارسائیاں نہ گئیں

آسماں تک دہائیاں نہ گئیں

اس کے بعد ہی وامق میں خود اعتمادی اور حوصلہ پیدا ہوا۔اس مشاعرہ میں سلام مچھلی شہری بھی تھے۔جب انھوں نے کالج کی لڑکیوں سے متعلق نظم پڑھنا شروع کی تو صدر مشاعرہ کو اعتراض ہوا۔اعتراض اتنا شدید تھا کہ ناظم مشاعرہ کومشاعرہ ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ترقی پسند تحریک سے منسلک نوجوان شعرا نے سامعین کی خواہش پر دوسرے دن کالج سے باہر مشاعرے کا انعقاد کیا۔ اس میں وامق بھی بحیثیت شاعر شریک ہوئے اور یہ قطعہ پڑھا       ؎

دریا میں تلاطم برپا ہے،کشتی کا فسانہ کیا معنی

گرداب سے  جب لڑنا ہے تمھیں،تنکہ کا سہارا کیا معنی

یہ نوحۂ کشتی بند کرو،خود موجۂ طوفاں بن جاؤ

پیروں کے تلے ساحل ہوگا،ساحل کی تمنا کیا معنی

یہیں پر انھو ںنے تحریک کی باقاعدہ رکنیت اختیار کی گویا وامق نے شاعری کے ذریعہ اپنا مقصد تلاش کرلیا۔حسب روایت انھوں نے بھی شاعری کی ابتدا غزل سے کی لیکن ان شاہکار نظموں، تقسیم پنجاب، مینا بازار،بھوکا بنگال،بول رے ساتھی بول، میر کارواں،نیلا پرچم، زمین، فن، آنکھیں،  وقت، غزل در غزل،سفر ناتمام اور کالعدم۔کن فکاں نے انھیں ہر خاص وعام میں مقبول بنایااوروامق کو عوامی شاعر کہا جانے لگا۔

وامق جونپوری نے اپنی شاعرانہ زندگی میں چار مجموعے ’چیخیں،جرس،شب چراغ،سفر ناتمام  اور ایک خود نوشت ’گفتنی ناگفتنی‘کا ادب اردو کے ذخیرہ میں اضافہ کیا نیز بچوں کے لیے نظمیں، گیت، تنقیدی مضامین، دیباچے اور تبصرے بھی لکھے جو رسالوں وکتابوں کی گرد میں روپوش ہیں انھیں بھی ادب کا حصّہ بنانے کی ضرورت ہے۔

چیخیں: یہ گیارہ نظموں کا مجموعہ کلام 1948 میں شائع ہوا۔ اس میں شامل سبھی نظمیں تقسیم ہند کے دوران رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے موضوع پر ہیں۔ اس کی اہم نظم ’ پنجاب ‘ ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

ہٹ گئے ہوش کے محور سے تمدن کے قدم

زندگی برسوں کی بیمار نظر آتی ہے

یوم آزادی کا ہر لمحہ جھکائے ہوئے سر

جس کی ہر سانس میں مدقوق تعفن لرزاں

داد خواہی کے لیے پھر سوئے مغرب ہے رواں

جل رہی ہے سرِ بازار چتا غیرت کی

موت اور زیست کے دوراہے پہ پہرا دینے

اہرمن اپنے جہنم سے نکل آیا ہے

جرس: یہ مجموعہ کلام 1950 میں شائع ہواجوچالیس نظموں، چند غزلوں،قطعات اور متفرق اشعار پر مشتمل ہے۔اس مجموعہ کلام کی اہم نظمیں زویا تانیا،رات کے دو بجے،ر وزن کی آڑ سے،مائٹی ایٹم،رقص بسمل،جنتا کی لڑائی، مزدوروں کا کورس، بول رے ساتھی بول،بھوکا بنگال اور مینا بازار ہیں۔بھو کا بنگال قحط بنگال کے موضوع پر 1944 میں لکھی۔ انھوں نے قخط بنگال کا مشاہدہ بذات خود کیا ہے۔ اس موضوع پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ متعدد شعرا نے نظمیں لکھیں لیکن وامق کی یہ نظم کافی مقبول ہوئی اور اس کے ذریعے سماجی کارکنوں نے قحط بنگال کے متاثرین کے لیے بے شمار روپیہ اور غلّہ وصول کیا۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:

پورب دیس میں ڈگی باجی پھیلا سکھ کا تان

دکھ کی اگنی کون بجھائے،سوکھ گئے سب تال

جن ہاتھوں نے موتی رولے آج وہی کنگال

آج وہی کنگال

بھوکا ہے بنگال رے ساتھی بھوکا ہے بنگال

ندّی نالے گلی ڈگر پر لاشوں کے انبار

جان کی ایسی مہنگی شے کا الٹ گیا بیوپار

مٹھی بھر چاول سے بڑھ کر سستا ہے یہ مال رے ساتھی

سستا ہے یہ مال

بھوکا ہے بنگال رے ساتھی بھوکا ہے بنگال

 نظم مینا بازار(1945) وامق کی شاہکار نظم ہے جو اردو کی پہلی سٹائر(Satire)غنائیہ نظم کہلاتی ہے۔ انھوں نے تشبیہات واستعارات اور علامتوں کے ذریعے بنارس کے طوائفی ماحول کی عکاسی کی ہے۔صنف نازک خاص موضوع ہے جن کو معاشرے نے خود جنم دیا اور پھر اسے الگ چھوڑ دیا۔ سماجی حقیقت نگاری اور مقصدیت کا امتزاج اس کی نمایاں خصوصیت ہے۔

شب چراغ: وامق کایہ مجموعہ کلام 1978 میں الہ آباد سے شائع ہواجو چودہ نظموں کے علاوہ غزلوں، قطعات، رباعیات اور چند متفرق اشعار پر مشتمل ہے۔میر کارواں، نیلا پرچم،فن،آنکھیں،وقت اور زمین شاہکار نظمیں ہیں جس کی اشاعت پر انھیں اعزازات سے نوازا گیا۔تقسیم ہند کے بعد گاندھی جی کا قتل کسی عظیم سانحے سے کم نہ تھا۔ پورے ملک کی عوام میں سوگوار ی اور ہمدردی کی کیفیت طاری تھی یہی کیفیت وامق کے دل میں بھی پیدا ہوئی اور ’میر کارواں‘ جیسی شاہکار نظم تخلیق کی۔ اس نظم کے ذریعے انھوں نے گاندھی جی کو خراج عقیدت اور ہندوستانیوں کو اتحاد کا پیغام دینے کی کوشش کی۔وامق نے یہ نظم ’مکتی‘ کے نام سے لکھی جس کو بعد میں ’میر کارواں‘ کے نام سے اپنے مجموعہ کلام میں شامل کیا۔ میر کارواںان کی آزاد نظموں میں بہترین نظم شمار کی جاتی ہے۔یہ نظم گویا گاندھی جی کا مرثیہ ہے اگرچہ وامق نے مرثیہ کے اجزائے فن کو ملحوظ نہ رکھا ہو مگر احساسات وجذبات کی مصوری فنکارانہ انداز میں کی ہے جس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

وہ بوڑھی سوکھی ہڈیوں کا اک کانپتا بدن

مگر اسی میں اس قدر جواں لہو تھا موجزن

کہ جس کی بوند بوند میںبسی تھی اُلفتِ وطن

لہو وہ آج بہ گیا

وہ بوڑھا جسم مر گیا

مگر وہ کام کر گیا

’زمین‘ وامق کی طویل نظم ہے جس میں انھوں نے طربیہ انداز اختیار کیا ہے اور زمین کی خصوصیات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات اور سائنسی حقائق کو بھی واضح کیا ہے۔ وامق نے اردو میں اس نوعیت کی پہلی اوڈ (Ode) تخلیق کی  جس کے بارے میں انگریزی پروفیسر محمود حسین نے کہا تھا کہ’’انگریزی کی کوئی اوڈ زبان وبیان واسلوب اور سجاوٹ کے اعتبار سے ’زمین‘ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ در اصل وامق نے تشبیہات واستعارات کی مددسے اپنے فکر وفن کی اساس کا عمدہ تجربہ کیا ہے۔اس طرح وامق کی نظم فنی اعتبار سے منفرد حیثیت کی حامل ہے جس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

اے مری پیاری زمیں/کتنی جواں اور حسیں/ نوع بشر کی امیں

نورس وناز آفریں/گلبدن ومہ جبیں/ خاک تری دلنشیں

ترے چمن زار پر/ دامن کہسار پر/ہر درو دیوار پر

حسن کی سرشاریاں/عشق کی چنگاریاں/فکر کی گلکاریاں

فکر کی مہمیز پر/برق سے بھی تیز تر/فن کو ملا ہے اثر

فن سے تو جنت نشاں/چتر ترا آسماں/ مانگ تری کہکشاں

سفر ناتمام: یہ مجموعہ کلام 1990 میں لکھنؤ سے شائع ہوا جوسترہ نظموں، چند غزلوں اور قطعات پر مشتمل ہے۔اس میں شامل کلام وامق نے دو اقسام کے لوگوں کے لیے تخلیق کیں ایک دانشور طبقے کے لیے دوسرے درمیانی اور نسبتاً کم تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے۔غزل در غزل، ہم بزدل ہیں،ایک دو تین،سفر ناتمام اور کالعدم-کن فکاں ان کی شاہکار نظمیں ہیں۔ سفر نا تمام ایسی نظم ہے جس میں وامق نے اپنی زندگی کا نچوڑ پیش کیا جس کی بنیاد پر انھوں نے مجموعے کانام ’سفر ناتمام‘ رکھا۔وامق کے فکر وفن کی گہرائی اس میں نمایاں ہے اور زبان وبیان، علامتوں وترکیبوں سے کلام میں دلکشی اور رعنائی پیدا کی۔ فنّی وفکری بصیرت کا امتزاج اس کا خاص وصف ہے جس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں        ؎

زندگی کون سی منزل پہ رکی ہے آکر

آگے چلتی بھی نہیں/راہ بدلتی بھی نہیں

سست رفتار ہے یہ دور عبوری کتنا

سخت وبے جان ہے وہ پیکر نوری کتنا

چاند اک خواب جو تھا/شہر امید تہ آب جو تھا

حسن کے ماتھے کا ننھا ٹیکا/پائے آدم کے تلے آتے ہی

اُ ترے چہرے کی طرح ہوگیا کتنا پھیکا

وامق کی اہم نظم ’وقت‘ ہے اگرچہ یہ نظم مجموعہ’ شب چراغ‘ میں شامل ہے لیکن وقت اور سفر ناتمام دونوں نظمیں وامقؔ نے ریٹائر منٹ کے بعد تخلیق کیں۔ان دونوں نظموں کی تخلیق کے بعد ہی سے وامق کو اردو اور ہندی میں تلاش کیا جانے لگااورتب ان کی شخصیت کو اردو شاعری میں نمایاں مقام حاصل ہوا۔’وقت‘ وامق کی طویل نظم ہے جس میں انھوں نے مفکرانہ انداز کا نیا تجربہ کیا اور اپنے تخیّلات وتفکرات میںامتزاج پیدا کرکے تصوّر وقت کی بہترین عکاسی کی۔ وقت کو انھوں نے کبھی پانی کی لکیر سے تشبیہ دی تو کبھی انقلاب سے لیکن وقت کا تصور ہر دور میں باقی رہے گا۔اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

وقت کا کوئی کنارہ ہے نہ اس کی کوئی تھاہ

اس کی ہر موج ہزاروں صدیاں

جزر ومد اس کے تواریخِ جہانِ گزراں

وقت رفتار ہے لمحات کا اک دھارا ہے

وقت دلدار وجہاندار وجہاں آرا ہے

وقت دوّار ہے/تخلیق کا گہوارہ ہے

وقت فنکار ہے/تہذیب کا فوارہ ہے

نظموں کے علاوہ وامق جونپوری نے بہترین غزلیں بھی کہیں۔ان کا شمار ترقی پسند تحریک کے فعال اور نمایاں شعرا میں ہوتا ہے۔ تحریک کے وجود سے پہلے وامق رومانی شاعری کا ایک دور عبور کرچکے تھے۔اس عمر میں رومانی خیالات اور عشقیہ جذبات کا آنا فطری بات ہے جو ان کی شاعری میں بھی نمایا ں ہے لیکن انھوں نے اپنے عشقیہ جذبات کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ وہ دوسروں پر ظاہر نہ ہو سکے اور مقصد بھی حاصل ہوجائے۔اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظ ہوں          ؎

 کھویا کھویا سے پاکے ہمیں وہ دل کی باتیں جان گئے

ان کا تجاہل دیکھتے ہی ہم ان کی نظر پہچان گئے

سازوں میں رہے نغمہ بن کر،رگ رگ میں اٹھا ہے درد اکثر

پردوں میں چھپے تم لاکھ مگر ہم جان گئے پہچان گئے

قریب تھے تو قیامت کا لطف آتا تھا

 ہوئے جو دور تو یادوں کا حشر برپا ہے

ہم جب محبت کی قسم کھا گئے

ان کے حسیں چہرے پہ رنگ آگئے

رومانی دور کے بعد وامق کی شاعری انقلابی دور میں داخل ہوئی۔ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ تھا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادبا وشعرا نے ہندوستانیوں میں انقلابی روح پھونکی اورحصول آزاد ی کے لیے انقلاب کا نعرہ بلند کیا لیکن وامق کی شاعری میں ایسا نہیں ہے ان کی شاعری میں انقلابی موضوعات داخل تو ہوئے لیکن اپنی مخصوص لے اور نغمگی کے سہارے انھوں نے انقلاب کی منزل طے کی اور ہندوستانیوں کے ذہن و روح دونوں کے لیے تابناک مستقبل کی بشارت دی اس کام کو انجام دینے کے لیے انھوں نے مختلف طریقے اپنائے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

زنجیر ٹوٹنے کی صدا سن رہے تم

کس نے کہا ہماری فغاں میں اثر نہیں

پیغام زندگی جو نہ ہو وہ فنا ہی کیا

تاروں سے جو نہ جھلکے وہ رنگ سحر نہیں

کبھی کتاب کبھی انقلاب لائے ہیں

 بدل بدل کے سبو ہم شراب لائے ہیں

انھیں سلام کرو ان کا احترام کرو

فلک سے توڑ کے جو ماہتاب لائے ہیں

انقلاب کے بعد انگریز تو ملک چھوڑ کر چلے گئے لیکن جنگ کی تباہی سے روزگار کے مواقع یکسر ختم ہوگئے اور لوگوں کو بنیادی ضرورت مہیا نہ تھی۔ ان مسائل سے نوجوان شعرا بھی نبرد آزما تھے جن لوگوں نے اس اہم موضوع کو  اپنی شاعری کا جزو بنایا ان میں وامق بھی تھے۔زمینداری ختم ہوچکی تھی اور فکر معاش کا مسئلہ فکر جاناں اور انقلاب پر غالب تھا۔اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں         ؎

وہ عہد مسرت کی باتیں وہ وقت سہانا بھول گئے 

جب سے غم دوراں یاد آیا سب لطف زمانہ بھول گئے

اندوہ کی ماری دنیا میں کچھ اپنی زباں سے کہہ نہ سکے

اوروں کے فسانے سن سن کر ہم اپنا فسانہ بھول گئے

آزادی کے بعد جب حالات سازگار ہوئے اور فکر معاش کا مسئلہ ختم ہوا تو شاعری میں بھی نمایاں تبدیلی آئی۔ نوجوان شعرا میں کلاسیکی رجحان بڑھا اس سے وامق کی شاعری میںبھی تبدیلی رونما ہوئی۔انھوں نے مختلف موضوعات کو شاعری میں جگہ دی اورہیئت ومواد،لہجہ اور زبان وبیان میں جدت پیدا کرکے غزل کو جمالیاتی حسن سے آشنا کیا۔ اس طرح انھوں نے نظم کے ساتھ غزل میں بھی ترقی کے منازل طے کیے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں        ؎

چل دیے وہ چھیڑ کے اک ساز نو

دل کا سکوں لے گئے وہ کیا گئے

پابندیوں میں تھے تو دکھاتے تھے معجزے

آزادیوں میں شعبدہ گر ہو کے رہ گئے

صحیح وقت پر جب داد فن ملی وامق

ہمارا ہوگیا نیلام ایک بولی میں

یہ مانا حسن کی فطرت بہت نازک ہے اے وامق

 مزاج عشق کی لیکن نزاکت اور ہوتی ہے

وامق دو دھاری تیغ ہے وہ لہجۂ جدید

نغمے تمام خون میں تر ہو کے رہ گئے

اس دور ترقی کا اک معجزہ یہ بھی ہے

مجرم نظر آتے ہیں جب کام نہیں ہوتا

گفتنی وناگفتنی:-یہ (خود نوشت) 1993 میں پٹنہ سے شائع ہوئی جو 434 صفحات، چودہ ابواب اور چند عکسی خطوط پر مشتمل ہے جس میں سوانحی باب خاص اہمیت کا حامل ہے۔وامق کی شاعری اور نجی زندگی کو جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بے حد مفید ہوگا۔عمومی جائزہ کے بعدیہ کہا جاسکتا ہے کہ وامق کا یہ شعر ان کی زندگی اور شاعری دونوں پر یکساں صادق آتا ہے        ؎

آہن نہیں کہ، چاہے جب موڑ دیجیے

شیشہ ہوں، مڑ تو سکتا نہیں، توڑ دیجیے

Dr. Aftab Alam Azmi

M M K Degree College

Mungrawan

Azamgar - 276001 (UP)

Mob.: 9452411642

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں