11/2/21

پیغام آفاقی کی فکشن نگاری - مضمون نگار: محمد شارب

 



صوبہ بہار کی زرخیز زمین نے کئی ایسے نامور سپوتوں کو جنم دیا، جنھوں نے اپنی تخلیقی کاوشوں اور اعلیٰ کارناموں سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی اور اس ریاست اور ملک کانام روشن کیا۔ میرا خصوصی اشارہ اس ریاست کے ضلع ’سیوان‘ کی جانب ہے جہاں سے پہلے صدر جمہوریہ ہندڈاکٹرراجندر پرشاد، معروف مجاہد آزادی لوک نائک جے پرکاش نارائن، ہر دلعزیز شاعرسیدکاظم علی جمیل مظہری، معروف خاکہ نگاراحمدجمال پاشا، عالمی شہرت یافتہ ظریفانہ نظم نگار رضانقوی واہی، مشہور فکشن نگار، سریل ہدایت کاراور دہلی کے محکمۂ پولیس میں اہم عہدے پر فائز پیغام آفاقی (10 جنوری، 1956، 20 اگست 2016) جیسی شخصیات کی جانب ہے۔ان تمام سپوتوں نے اپنے اپنے عہدمیں اپنے مقام ومرتبے پرقائم رہ کر ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جنھیں کبھی فراموش نہیں کیاجا سکتا۔

بیسویں صدی کے نصف آخر میں جن چند قلم کاروں اورکہانی نویسوں نے اپنی مخصوص کہانیوں سے اردو فکشن کی دنیا میں اپنی شناخت قائم کی ان میں پیغام آفاقی کا نام بلا تامل لیاجا ئے گا۔ان کا شمار ان فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اوروں کی تقلید سے انحراف کرتے ہوئے فکشن نگاری کی دنیا میں اپنی راہ الگ بنائی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج افسانے اور ناول پر ہونے والی تقریباًہر گفتگو اور تحریر میں انھیں حوالے کے طور پر ضرور شامل کیا جاتا ہے۔ یعنی آفاقی اردو فکشن کی تاریخ کا ایک ناگزیرحصہ بن چکے ہیں۔ ان کو گزرے آج چار برس ہو چکے ہیں لیکن جب اردو ادب اوراس کے صاحب طرزادیبوں پر گفتگو ہوگی،ناول اورافسانے پرمذاکرہ ہوگا اور اس میدان میں ان کی آمداوران کے مخصوص لب ولہجے اوران کے مزاج پرمباحثہ ہوگاتو احتجاج کی صدا گونج پیدا کرے گی، ہم آفاقی کو یاد کرتے رہیں گے۔وہ ہر دل عزیز فکشن نگار تھے جو ہم سب کو جلد چھوڑ کر مالک حقیقی سے جا ملے۔ ایک اچھے فکشن نگار کے ساتھ ساتھ وہ ایک آئی پی ایس افسر بھی تھے مگر غرور،گھمنڈاورتکبران میں نہیں تھا۔ علی گڑھ جیسی ادبی فضا میں غضنفر، طارق چھتاری جیسے دوست ملے تو ان کے اندر کا فنکار بھی جاگا جس کے تناظر میں کہانیاں لکھیں، نظمیں کہیں، اور پہلے ناول ’مکان‘ سے ہی اہل علم کے درمیان موضوع گفتگو بن گئے۔ ا کثر دیکھا گیا ہے کہ بعض فکشن نگاروں نے کم لکھا اور زیادہ مشہور ہوئے ٹھیک یہی صورت حال آفاقی کی تخلیقی زندگی پر بھی صادق آتی ہے کہ انھوں نے اپنے کم و بیش پچیس سالہ تخلیقی سفر میں محض دوناولوں(’مکان‘ اور’ پلیتہ‘ )، ایک افسانوی مجموعہ(مافیا) کے بوتے فکشن کی دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ آفاقی کا تیسرا ناول ’دوست‘ان کی رحلت کے دوسال بعد ان کی شریکئہ حیات رضیہ سلطانہ کے توسط سے شائع ہو کرمنظر عام پر آچکا ہے۔ آفاقی بنیادی طور پرناول نگار ہیں اور ناول نگاری کے فن میں پوری مہارت رکھتے ہیں۔ناول نگار کی حیثیت سے ان کی انفرادیت واہمیت مسلم ہے کیونکہ ’مکان‘ اور ’پلیتہ‘دونوں ناول موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے اردو فکشن کی دنیا میںایک اہم اضافہ ثابت ہوئے ہیں۔ ناول ’مکان‘کاموضوع استحکام (Establishment)،صنعتی کلچر(Trade culture)  کی بے ضمیری اور محکمئہ پولیس کا ناروا سلوک ہے۔اس موضوع کو بیان کرکے مصنف نے پورے پولسیہ نظام کو Expose کیا ہے۔ آفاقی نے اپنے ناولوں میں زندگی کے حقائق کی غیر مشروط جستجواور شناخت پر توجہ مرکوز کی ہے۔ انھوں نے نئی نسل کی ذاتی سوچ اور نجی مجبوری کوسیاسی اور سماجی نظام سے ہم آہنگ کر کے اسے ایک تخلیقی جہت عطا کی اور عصر حاضر میںزندگی کے تیزی سے تبدیل ہوتے نظام کو سمجھنے اور اس کو فنی شعور کے ساتھ قاری تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔یہ بات کسی حد تک ان کے پہلے ناول ’مکان‘سے مطابقت رکھتی ہے جو 1989 میں شائع ہواجس کی مقبولیت کے پیش نظر ان کو ’اردواکیڈمی یوپی فرسٹ ایوارڈفاربک‘ اور ’ اردو اکیڈمی آف دہلی: ایوارڈفار کونٹربیوشن ٹو فکشن‘ 1997 میں اعزازات سے نوازا گیا۔ اس کی اشاعت دوم 2004 میں ہوئی جس میں ڈاکٹر مولا بخش نے ساٹھ صفحات پر مشتمل تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر احمدصغیر اس ناول کی ورق گردانی کرنے کے بعد کچھ یوںبیان کرتے ہیں:

’’پیغام آفاقی کا ناول ’مکان‘ دراصل اسٹیبلشمنٹ سے جوجھنے کی کہانی ہے۔نیرا میڈکل کالج کی طالبہ ہے۔وہ اپنی ماں کے ساتھ اپنے مکان میں رہتی ہے۔مکان کا ایک حصہ اس نے کرایے پر دے رکھا ہے۔ کرایہ دار مکان چھین لینا چاہتا ہے۔اس کے لیے وہ ہر ہتھ کنڈے استعمال کرتا ہے جو قانونی اور غیر قانونی دونوں ہیں۔وہ پولس کو اپنے سرمایے اور اثرورسوخ سے اپنے حق میں کر لیتا ہے۔‘‘ 

(بہار میں اردو فکشن،ص45، ڈاکٹر صغیر احمد، ایجوکیشنل  پبلشنگ ہاؤس دہلی،2014)

ڈاکٹراحمد صغیر کے اس خیال سے میں متفق ہوں کہ ’مکان‘کا مطالعہ اس بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ’مکان‘واقعی استحکام سے جوجھنے کی ہی کہانی ہے۔

ناول کی ہیروئن نیرانے اپنے مکان میںایک کرایہ دار کمار کو رکھا ہے جو اسے تنہا اور بے سہارا سمجھ کر مکان کو ہڑپنا چاہتا ہے۔اس کے ساتھ ہی کرایہ دار کا رویہ اس قدر ظالمانہ ہے کہ وہ جلدبازی میں کچھ نہیں کرتا بلکہ وہ نیرا کو دھیرے دھیرے کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اس مسئلے کو وبال جان سمجھنے لگے اور مکان چھوڑ کر بھاگ جائے۔ پولس بھی کرایہ دار سے مل جاتی ہے اور رشوت لے کر نیرا کے خلاف سازش میں شامل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے کہانی میں دو سمتی ہولناکی پیدا ہو جاتی ہے اور نیرا قاری کی نظر میں زیادہ مظلوم نظرآنے لگتی ہے۔ نیرا کے ساتھ جو زیادتیاں اور نا انصافیاں ہوتی ہیں اس میں کرایہ دار اور پولیس دونوں برابر کے شریک ہیں۔

دوسرا ناول ’پلیتہ‘ (2011) بھی نئی زندگی اور نئی Sensibility کا ناول ہے جس میں مصنف نے تاریخی،جنسی، نفسیاتی، معاشرتی پیچیدگیوں اور جذباتی کیفیتوں کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ قاری کو اس کی اپنی کہانی معلوم ہوتی ہے۔آفاقی کی تخلیقات کا کینوس وسیع اور متنوع ہے۔ وہ اپنے عصر کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور بڑی معروضیت کے ساتھ اپنے مشاہدات کو اپنی تخلیقات میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ آفاقی نے نہ صرف اسلوب پر محنت کی ہے بلکہ ماضی اور حال کے تصادم سے ایک نئی بستی یا ایک نئی دنیا آباد کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔اور اس دنیا میں ہر وہ مسئلہ ناول کا حصہ بنتا ہے جو ہمارے آج کے عہد سے وابستہ ہے۔ یہ ناول اپنے طرز و اسلوب کا منفرد ناول ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آفاقی اپنی پہلی ہی جست میں جس مقام تلک پہنچے تھے، اسے برقرار رکھ سکے ہیںیا ان کی شناخت مجروح ہوئی ہے ؟  تانثیت، مارکیٹ اکانامی، گلوبلائیزشن، کرپشن، انسانی ولسانی حقوق،  کارپوریٹ کلچر، ولڈ وار یا ولڈ وار کی طرف بڑھتے قدم، پولرائیزشن، اور ان کے مابین حیات انسانی کے فلسفوں کی تلاش نہ صرف اس ناول کے مطالعے کے لیے مجبور کرتی ہے بلکہ بنیادی مغالطوں سے بھی باہر کا راستہ دکھاتی ہے کہ اردو ناول میں بڑے موضوعات شامل نہیں کیے جارہے ہیں۔ آفاقی نے آج کے عہد کی بد نظمی، لاقانونیت، بد امنی اور دیوالیہ پن کی جو تصویر ہمارے سامنے رکھی ہے وہیں سے ایک نئے معاشرتی و سیاسی نظام کا چہرہ بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔اور شاید اس لیے کہ سچا ادیب امید ویقین کے سورج پر نگاہیں مرکوز رکھتا ہے اور وہ اپنی تحریروں سے اس تاریکی کو بدلنے کا ہنر جانتا ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے عہد، ماحول اور عہد کے تضادات و تصادمات کو ایسے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں افسانوی انفرادیت کے ساتھ ساتھ فکشن کی نئی جمالیات بھی شامل ہیں۔ اس طرح ان کا فن ان کے معاصر لکھنے والوں میں خاص طور پر ممتاز اور مختلف نظرآتا ہے۔

آفاقی نے اپنے ہم عصر ہندوستان کی تہذیب، ثقافت، سیاست اور آزادی سے قبل کی مختلف حقیقتوں کو جس بے باکی اور ہنرمندی سے پیش کیا ہے قابل نظیر ہے۔اس عہد کی زندگی اور معاشرت کا کوئی بھی گوشہ ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکا۔ ایک سچے فنکار کی طرح صداقت پسندی اور بیباکی کو اپنا شعار تصور کر کے انھوں نے اس تہذیب ومعاشرت کے قبیح و صبیح دونوں پہلوئوں کو بڑی سفاکی اور معروضیت کے ساتھ آشکارا کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ’پلیتہ‘ اس عہد کی تہذیب کا مکمل مرقع بن گیا ہے جس میں سیاسی، سماجی، معاشی، ثقافتی اور اخلاقی، غرض زندگی کا ہر پہلواور ہر رنگ سمٹ آیا ہے۔

   اس ناول کی ہئیت کے متعلق ڈاکٹر سید نجمی ظفر رقمطراز ہیں کہ:

’’یہاں صورت حال یہ ہے کہ مرکزی کردار خاموش ہے، ساکت ہے اور غائب بیانیہ اپنے مکالموں سے قاری کو روشناس کرا رہا ہے اور یہ ’ناول نویسی‘ کو داستان گوئی کی طرح ’ناول گوئی‘ بنا دینے جیسی ایک بات ہے جو ایک مرتبہ پھر یہ سوال سامنے لا دیتی ہے کہ ’’پلیتہ‘‘ کو ناول کہا جائے یا داستانچہ سمجھا جائے یا نیم ناول یا نیم داستان، جیسی کوئی قبا اس قامت فن کے لیے تجویز کر لے اس کے دوش پر نئے تجربہ کا کوئی چیستانی نقش و نگار والا رومال ڈال کر اطمینان و مسرت کی سانس لی جائے اور اسے عصری بصیرت کے انوکھے یا انجانے فیضان سے منسوب کر دیاجائے۔‘‘

(ڈاکٹر سید نجمی ظفر،  رسالہ ’آج کل‘ ص6،شمارہ، دہلی، اپریل 2017)

جب ہم ’پلیتہ‘کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیںتویہ ناول ’نیم داستان ‘معلوم پڑتا ہے۔اس کا ہیرو خالد سہیل ہے جسے زمانے کی ٹھوکروں اور معاشرے کی بے حسی نے اس کے Career کومسمار کردیاہے۔اب وہ اپنے اجدادکی وراثت کو حاصل کرنے اور ان پر چلے مقدمے کی تہہ تک جانا چاہتا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ آخر کس جرم میں اس کے پردادا کو حوالات میں قید کرکے پھانسی دی گئی لیکن ان سبھی واقعات کاپتہ قاری کو اس کے مرنے کے بعد اس کے کمرے میں ملی ڈائری اور اس کی قبر کے مجاور کی زبانی ہی ہوپاتا ہے۔اس میں مصنف نے حسین بیانیہ پیرائہ اظہاراور تاریخی واقعات سے حسین امتزاج پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جتنی شہرت آفاقی کو ان کے پہلے ناول ’مکان‘کو حاصل ہوئی اتنی اسے حاصل نہ ہوسکی پھر بھی اس ناول میںقاری کوایک منفرد کردارنگاری کاطرز، رنگ اوراسلوب دیکھنے کو ملتا ہے جسے ہم ناول نگار کے معراج فن سے تعبیر کر سکتے ہیں۔مرکزی کردار بالکل بے عمل اورساکت ہے۔جگہ جگہ غیر ضروری طوالت نے بھی قاری کوتھکایا ہے پھر بھی مصنف کی فنی مہارت کا کئی جگہ ہمیں کمال دیکھنے کو ملتا ہے کیوں کہ ناول بنیادی طور پربیانیہ صنف ہے اور اس میں جزویات کے ذریعے مفصل طور پرمسائل ومعاملات کی عکاسی ہوتی ہے۔لہٰذاناول ہی واحد صنف ہے جس میں زندگی کے مسائل ووسائل کا تفصیلی بیان تمام تر پہلوؤں کے ساتھ اجاگر ہو سکتا ہے، انہی خیالات کے پیش نظرمیں نے اس مقالے میں آفاقی کے فکشن کی فنکارانہ عظمت کا احاطہ کیا ہے۔

آفاقی کے دونوں ناول’مکان‘ اور ’پلیتہ‘ فکشن گوئی سے متعلق ادبی سرمایہ ہیںجن کی قرأ ت سے فکشن کا قاری کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا۔ دونوں ناولوں میں کرداروں  کے ذریعے جا بہ جا’خودکلامی ‘ کا استعمال بڑے ہی سلیقے سے کیا ہے ساتھ ہی’ علامت نگاری ‘ سے بھی کام لیا ہے جو ان کا خاصہ ہے۔ ان کے ناولوں کامطالعہ کرنے کے بعدقاری کو اس بات کا اندازہ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ ناول نگار کی پرواز تخیل اور فکری بصیرت بدرجئہ اتم ہے۔

 ’’جب مجھے خطرہ محسوس ہوتا ہے، میری روشنیوں کے دائرے میں کوئی جانور گزر جاتا ہے تو میں چیختی ہوں لیکن جیسے ہی وہ چلا جاتا ہے میں اس کو مطمئن کرلیتی ہوں۔ میں عموماً یوں ہی اپنے الائو کی روشنی میں قید رہتی ہوں۔ میری تنگی، میرا چھوٹا پن ہی میرے ذہن کی زنجیر بن گئے ہیں۔ میں واقعات کو بغور تجزیہ کرنے اورتجزیے کے ذریعہ دوردور تک دیکھنے کے شعور سے محروم ہو گئی ہوں... اور اب میں اپنے چاروں طرف کے ماحول کو صاف صاف اس لیے دیکھ رہی ہوں کہ میں نے نگاہیں اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیا ہے یوں کہ جو کچھ دکھائی دیتا ہے اسے بلا روک ٹوک دیکھتی ہوں۔ اور روشنی میرے اندر سے یوں پھوٹ رہی ہے جیسے۔۔ ٹیوب ویل سے پانی نکلتا ہے۔ کیا چیزوں کو جاننے اور پہچاننے پہچاننے میں فرق ہے؟ کیا علم کے کئی روپ ہیں ؟ اور علم کا سب سے پختہ روپ براہ راست زندگی خود ہے؟۔‘‘ 

(ناول’مکان‘، ص75، اضافہ شدہ ایڈیشن، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، 2004)

آگے بڑھنے سے قبل میں ’خود کلامی ‘کی تفہیم ضروری سمجھتا ہوں،یہ خو کلامی ادب کا ایسا طرز تحریر ہے جس میں راوی کابیان خود اپنے آپ سے گفتگو کرنے سے مشابہ ہوتا ہے اسی انداز کو ’خود کلامی ‘ (Soliloquy اور Monologue ) کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خود کلامی کے دوران تخلیق کار کے لیے کچھ ضروری نہیں کہ اس کا سامع موجود ہو۔ وہ تنہا کردار کے ذریعے تخلیقی حسیت کے حصے کے طور پر خود کلامی کو کہانی پن میں اس طرح پیوست کرتا ہے کہ تخلیقی خود کلامی کا وصف کہانی، پلاٹ، کردار اور زمان ومکاں سے آزاد نہیں ہوتا بلکہ بیانیہ کی کیفیت کا کام انجام دیتا ہے۔ اس عمل کے لیے اردو میں خود کلامی کی اصطلاح مروج ہے۔         

ناول ’مکان‘ کاجائزہ لیتے ہوئے میں نے یہ دکھایاہے کہ مصنف کو اس ناول نے کس طرح فکشن کی دنیا میں آفاقی شہرت عطاکی اور ایک کامیاب فکشن نگار کی فہرست میں لا کھڑا کیاساتھ ہی یہ بھی جائزہ لیا ہے کہ اس ناول میں وہ کون سے محرکات ونظریات ہیں جن کے بوتے ناول نگار نے اپنا کامیاب سفر طے کیا۔اس ناول کی اسلوب نگاری،کردارنگاری ومنظرنگاری کا اگرتجزیہ کرتا ہوں تو پاتا ہوں کہ اس میں جدت و ندرت دونوں بیک وقت موجود ہیں جن سے آفاقی کو حیات جاویدانی نصیب ہوئی۔میں یہ کہنا موزوںسمجھتا  ہوں کہ اس ناول نے دیگر فنکاروں کوجہاں ایک نیا ذہن عطا کیا ہے وہیں تخلیقی شعوروبصیرت بھی عطاکی ہے۔اس کا کلیدی(مرکزی) کردارایک کمزور ومجبور لڑکی نیرا تنیجاہے جودہلی شہر کے کسی فرینڈس کالونی میں اپنی بیوہ بوڑھی ماںکے ساتھ رہ کر میڈیکل کی تیاری میں لگی ہوئی ہے لیکن اس کا کرایہ دار کمارکی بد نظر اس کے اس مکان پر ہے اور وہ اسے ہتھیانا چاہتا ہے کیونکہ۔’’نیرا کا یہ مکان بیچ شہر میں تھااور اس شہر کے پھیلاؤ اور ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے مکان کی قیمت دن دونی رات چوگنی بڑھتی جارہی تھی۔‘‘ (مکان، ص65) اور اس عمل میں اس کا ساتھ چند پولیس اہلکار بھی دیتے ہیں کیونکہ کمار نے انہیں رشوت دے کر ان کے ضمیر کاسودا کر لیا ہے مگر اپنے حق کو ہر حال حاصل کرنے کے لیے نیرا خوداعتمادی اور حوصلہ مندی سے مقابلہ کرتی اور آہنی ارادوں سے لیس آگے بڑھتی اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی ہے جس کے پس منظر میں وہ قاری کے سامنے ایک مثالی (Ideal)کردار بن کر نمودار ہوتی ہے اور اس کی ہمدردی بھی حاصل کرتی ہے۔اس طرح اس ناول کو اگر تانثیت (Feminism) سے تعبیر کیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔یہاں پر غور کرنے والی بات یہ ہے کہ آفاقی نے اس کا مرکزی کردار ایک لڑکی کو بنایا ساتھ ہی اسے کمزور اور مجبورطبقے کی نمائندگی کرنے والے کے طور پر پیش کیا مزید یہ کہ اسے عصری تعلیم سائنس اور میڈیکل کی طالبہ بھی بنایاتاکہ استحصال زدہ سماج اور معاشرہ اپنی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے عصری تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہو جائے اور اس کی روشنی میں اپنے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جائے۔

 ناول’ مکان‘ کو بعض اہل قلم علامتی (Symbolic) بھی مانتے ہیںاور کچھ کو ’پلیتہ‘ میں بھی اس کے گوشے نظر آتے ہیں، ا سی تسلسل سے میں یہ کہوںگا کہ دنیا کے سارے فنون لطیفہ علامت کے بغیر ادھورے ہیں۔ علامت انسان کے اظہار کا ایک ایسا مددگار ذریعہ ہے جو اظہار کے خارجی پہلو تک ہی محدود نہیںبلکہ اس کی ذات کے اندر کے معنی کوبھی باہر نکال لاتا ہے۔ یہ صرف اظہار کا وسیلہ ہی نہیں بلکہ ادراک کی ایک کامیاب صورت بھی ہے۔ ہمارے ادب میں علامت، ایمائیت، اشاریت، رمزیت ایک دوسرے کے مترادف (Synonymous) کے طور پر استعمال ہوتے ہیں انیسویں صدی  میں یوروپی ادبیات میں علامت  پسندی (Symbolism)کو فن پاروں میں برتنے کی روایت کا آغاز ہوا۔ژاںمورتیس نامی مشہور مفکر نے انیسویں صدی کے اواخر میں علامت پسندی اشاریت کی تحریک کاآغاز کیا۔ ژاںمورتیس نے ایک منشور کے ذریعے توجہ مبذول کی کہ ادبیات میں رومانیت اور واقعیت کی تحریکیں ختم ہوئیں، اس کے بجائے فنی اظہار میں علامت پسندی یا اشاریت کا آغاز ہوتا ہے۔ ’’آخری لمحے میں اس کو یقین ہوگیا تھاکہ آج کی مافیائی قوتیںمعاشرے پر اس قدر حاوی ہیں کہ لوگوں کی رائیں اپنے مشاہدے سے نہیں بلکہ ترسیل وابلاغ کے ذرائع سے بنتی بگڑتی ہیں اور دنیا اب سامنے سے لڑائی نہیں کرتی بلکہ خاموشی سے مختلف بہانوں سے اور مختلف شکلوں میں سازشوں کے ذریعے امن کے پاسبانوں اور مجاہدوں پر حملہ کرتی ہے تاکہ جس پر حملہ ہورہاہے اس کے ہمدرد بھی گمراہ ہو کر اس سے متنفر ہو جائیں۔‘‘(پلیتہ، ص24)۔ ہمارے ادب میں طویل عرصے تک حسن و عشق کے اظہار پر توجہ دی جاتی رہی جس کے تحت ماورائی عشق، زمینی عشق کے علاوہ مجازی اور حقیقی عشق کی نمائندگی پر زور دیاجاتا رہا ہے۔ مرداور عورت کے مثالی عشق کے علاوہ جنس زدگی اور جنس سے انحراف کوبھی رومانیت کے اظہار میں شامل کیا گیا۔

 مذکورہ بالاتحریروں سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ پیغام آفاقی کو فکشن نگاری کے ہنر سے بلاکی واقفیت تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے معاصرین میں نمایاں نظرآتے ہیں۔ان تاویلوں کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک کامیاب فکشن نگار، مضمون نگار، مفکر، فلسفی، سیریل ہدایت کار اور سب سے بڑھ کر ایک حساس ذہن کے مالک تھے۔ ان کی ذات اور شخصیت کے متعدد پہلو ہیں۔ انھوں نے ہر راہ میں اپنے نمایاں نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کے کارنامے ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی علمی وادبی صلاحیت کا ایک زمانہ معترف رہا ہے۔ ان کے قدردانوں میں اپنے وقت کے جید سے جید ناقدین و دانشوران ہیں۔ قاضی عبدالستاراور پروفیسر وہاب اشرفی جیسی عظیم شخصیات نے بھی ان کی تخلیقی صلاحیت کو سراہااور قدر کی نگاہوں سے دیکھا ہے۔

Dr. Md Sharib

Upgrade High School

Tendowa, Harihar

Palamun - 822131 (Jharkhand)

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں