11/2/21

ن م راشد اور اقبال - مضمون نگار: رئیسہ پروین


 


ن م راشد کا شمار ان چند نظم نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے آزاد نظم کو عروجِ کمال تک پہنچادیا۔ یوں توانھوںنے پابند نظموں میں بھی طبع آزمائی کی لیکن انھیں شہر ت آزاد نظم سے حاصل ہوئی۔ اور وہ آزاد نظم کے بانی ٹھہرے۔ ان کی ذہنی تربیت میں اقبال کو بڑا دخل حاصل ہے۔ راشد کے بچپن کا زمانہ اقبال کی شاعری کے عروج کا زمانہ تھا ہر خاص وعام اقبال کے شاعرانہ جوہر کا قائل تھا ایسے میں راشد جیسے حساس شاعر کا اس طرف متوجہ ہونا فطری عمل تھا۔ اقبال سے ذہنی ہم آہنگی کے تحت راشد نے اپنی شاعری کی اساس انھیں عناصر پر قائم کی جن کو اقبال نے جلا بخشی تھی۔ اورانھوں نے اقبال کے خیالات وتصورات کو وسیع پیمانے پر اپنی شاعری میں برتا۔ اسی کے زیراثران کے کلام میں قدیم فنی روایات سے انحراف کا رجحان ملتا ہے۔ یہ انحراف مواد، ہیئت دونوں اعتبار سے پایا جاتاہے۔ راشد نے اقبا ل کے فکروفن اورفلسفے سے استفادہ کے ساتھ اپنی انفرادی فکر کوبھی قائم رکھا اوراردو شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے اس طرح شاعری کی ساخت کو یورپی شاعری کے دوش بدوش لاکھڑا کیا۔

راشد کے ابتدائی شعری مجموعہ ’ماورا‘ میں آزاد اور پابند دونوں قسم کی نظمیں پائی جاتی ہیں۔ ابتدائی نظموں میں عشق ورومان چھایا ہواہے شاعراپنی تمام آرزوؤں کو چھپا کر رکھنا چاہتا ہے۔ ان نظموں میں جنسی جذبات کی فراوانی ہے لیکن یہ بیمار ذہن کی اپج نہیں بلکہ اس کا رشتہ انسان کے بنیادی جذبات اور سرگزشت سے گہراہے۔ ان کی شاعری میں داخلیت کے ساتھ اجتماعی اورسماجی زاویۂ نظر اور انفرادی نفسیات، اجتماعی نفسیات کے اہم پہلوؤں کی عکاسی ملتی ہے۔ دونوں شعرا کے یہاں انسان خاص طورپر مزدور اور دبے کچلے طبقے کی حالتِ زار کا درد نمایاں ہے اورسماج میں صالح اقدار کے مٹنے کی کسک احتجاجی لے بن کر ابھرتی ہے۔ راشد اپنی نظم درماندہ میں مشرق کی زبوںحالی کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مغرب نے ایشیا والوں کو اپنے آگے بھکاریوں کا سا درجہ دے رکھا ہے یورپی اپنے علم وحکمت اور سائنسی ترقی کے بل بوتے پر ایشیا کو اپنا غلام بنا کررکھنا چاہتے ہیں اور ان کی محنت کا صلہ انھیں بھیک کی طرح ادا کرتے ہیں اس ذلت کی زندگی پر دونوں شعر اخون کے آنسو بہاتے ہیں اور ایشیا کو اس ذلت بھری زندگی سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ البتہ وہ ایشیا کی بدحالی سے دکھی ضرورہیں لیکن نا امید نہیں ہیں انھیں یقین ہے کہ وہ سنہرا دور ضرور آئے گا جس کی انھوںنے تمنا کی ہے۔ لیکن اس کے لیے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا راشد کے لہجے کی رجائیت اور خود اعتمادی ملاحظہ کیجیے          ؎

رہی ہے حضرتِ یزداں سے دوستی میری

رہاہے زہد سے یارانہ استوار مرا

گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری

دل اہرمن سے رہا ہے ستیزہ کارمرا

کسی پہ روح نمایاں نہ ہوسکی میری

رہا ہے اپنی اُمنگوں پہ اختیار میرا

اقبال کے اسلوب وآہنگ اورطرز بیان کی چھاپ راشدکے کلام میں جابہ جا نظر آتی ہے نظم ’شاعر درماندہ‘ میں کہتے ہیں        ؎

زندگی تیرے لیے بستر سنجاب وسمور

اورمیرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری

فتنۂ فکرِ معاش

پارۂ  نان جویں کے لیے محتاج ہیں ہم

اقبال نے اپنے عہد کی سامراجی طاقتوں کے جو رواستبد اداور اس کی تباہ کاریوں کو ہدفِ ملامت بنایا۔ اوران نامساعد حالات سے نبرد آزما ہونے کا نسخہ ہائے کیمیا سے قوم کو آگاہ کیا ہے وہیں راشد نے ایران کی خستہ حالی کو  موضوع سخن بنایا۔ دونوں شعرا کے یہاں غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کی تلقین ملتی ہے۔ اقبال نے اپنے کلام میں فلسطین اور شمالی افریقہ کی تباہ حالی پر نظمیں لکھیں ان کی نظم’ فلسطین عرب سے‘ اور ن م راشد کی نظم ’تیل کے سوداگر‘ اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔

اقبال اور راشد کے کلام میں مغربی تہذیب سے نفرت بدرجہ اتم موجودہے۔ چونکہ دونوں شعراکو کم وبیش ایک ہی طرح کے سیاسی،سماجی ومعاشی مسائل تھے اس کے زیراثرانھیں سماج میں انسان کی تباہی اورطبقاتی ناہمواری کا شدت سے احساس تھا وہ اس نظام زندگی کو بدل دینا چاہتے تھے جس کے لیے وہ لوگوں میں صالح اقدار پیدا کرنے کے متمنی تھے۔ تاکہ ان کی خودی بیدار ہوسکے اور ان میں عظمت کا احساس پیدا ہو اسی عظمت کے تحت انسان کواشرف المخلوقات کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں شعرا انگریزی سامراج کی سیاسی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ راشد کے مجموعہ کلام ’ماورا ‘ اور ’ایران میں اجنبی‘ کی بیشتر نظموں میں ہندوستان اور باہر کے ممالک میں انگریزی حکومت کی سیاسی چالبازیوں سے پیدا شدہ تباہی اور انسان کے ذہنی اورجسمانی استحصال کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ مشرق میں روح کی آسودگی کی اشد ضرورت ہے مشرق کی نجات کا دار ومدار عملی جدوجہد اور اتحاد میں مضمر ہے۔ اسی جذبے کی تسکین کے لیے دونوں کے یہاں اسلاف کے شاندار ماضی کا ادراک ہوتا ہے۔ اورانسانی زندگی کی ترقی اوررفعت کو پانے کے لیے اسلاف کی زندگیوں کا مشاہدہ کرنے کی تلقین ملتی ہے۔جن کی زندگیاں کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوئیں۔ راشد کی نظم ’حسن کوزہ گر‘ میں کہتے ہیں      ؎

توچاہے توبن جاؤں میں پھر

وہی کوزہ گرجس کے کوزے

تھے ہرکاخ وکواور ہر شہر وقریہ کی نازش

تھے جن سے امیر وگدا ساکن درخشاں

توچاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان کو زوں کی جانب

معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب

کہ میں اس گل ولاسے اس رنگ وروغن

سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے

دلوں کے خرابے ہوں روشن

اقبال کے کلام میں اسلاف کے روشن میناروں سے اپنے چراغ روشن کرنے کی سعی کا مل کاپختہ احساس ملتاہے ان کی نظرمیں اسلاف کے تجربات کی روشنی میں انسان ان غلطیوں سے گریز کرسکتاہے جن پر چل کر اسلاف کوزوال سے دوچار ہونا پڑا۔ اس لیے وہ اسلاف کے ان صالح اقدار اورشاندار ماضی کواپنانے کی ترغیب دیتے ہیں جس پر چل کر ان کی زندگیاں رفعت وعظمت سے ہمکنار ہوئیں اقبال اسی صبح وشام کو پھر دیکھنے کے متلاشی ہیں کہتے ہیں       ؎

ہاں دکھادے اے تصور پھر وہ صبح وشام تو

دوڑپیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

پچھلے زمانے کی طرف لوٹ جانے کی آرزو اقبال کے اس ذہنی کرب کو ظاہر کرتی ہے جس کے تحت وہ موجودہ دور کے زوال کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں انھیں اس بات کا کامل یقین تھا کہ قومیں مرکر دوبارہ زندہ ہوسکتیں ہیں اس کے لیے صرف سعی پیہم اور جدوجہد درکار ہے لیکن راشد کا معاملہ اس کے برعکس ہے ان کے یہاں بظاہر ماضی کی اقدار اور اسلاف سے چھٹکارا پانے کا رجحان ملتا ہے۔ یہ غالباً اس لیے ہے کہ ان کے کلام میں مذہب،جنس اور روایات سے بغاوت کا گہرا شعور کا رفرما ہے لیکن اس ظاہری گریزکے باوجودراشداپنے اشعارمیں قدم قدم پر اسلاف کے تہذیبی عناصر اور روایات سے خوشہ چینی کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر تبسم کا شمیری اس ضمن میں رقمطراز ہیں۔

’’ماضی کی نفی کرنے والا یہ شاعراپنے تہذیبی حوالوں کے بغیربمشکل ہی چل سکتا ہے۔ اپنے حال کے مسائل کے اظہار کے لیے وہ قدم قدم پر اپنے تہذیبی پس منظر کی طرف رخ کرتاہے۔ اقبال کے بعد کوئی ایسا شاعر مشکل سے ہی مل سکے گا جو راشد سے زیادہ اپنے تہذیبی حوالے سے مستفیض ہواہو۔‘‘

(حوالہ ’لا= راشد، ص22،لاہور1994)

مندرجہ ذیل اشعار میں راشد ماضی کی نفی کے باوجود اپنی پرانی روایت سے رشتہ استوار کرتے نظرآتے ہیں۔  ملاحظہ کیجیے        ؎

اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں

ایک افلاس کا مارا ہوا ملائے حزیں

ایک عفریت... اُداس

تین سوسال کی ذلت کانشاں

ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداواکوئی

راشدکے یہاں یہ تین سوسال کا تصور غالباً اقبال کے اس مصرعے کی دین ہے جس میں اقبال نے کہا ہے کہ تین سوسال سے ہیں ’ہند کے میخانے بند‘ یعنی اس تین سوسال کے عرصے میں کسی ایسے مرد کامل کا ظہور عمل میں نہیں آیا جو انسان کو اس زوال سے نکال کر عظمت سے ہمکنار کرتا۔ دونوں شعراماضی سے تقویت حاصل کرکے حال کو بہتر بنانے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اقبال نے اسلاف کے شاندار ماضی سے رشتہ استوار کرکے تہذیب کا مربوط تسلسل پیش کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے          ؎

زلزلے جس سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے

بجلیوں کے آشیانے جن کے تلواروںمیں تھے

ایک جہانِ تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور

کھا گئی عصرکہن کو جن کی تیغ ناصبور

مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا

آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا

راشد اوراقبال کے کلام میں انسان کی فلاح اور بہبود گی کواولیت حاصل ہے۔ سماج میں انسان کی محرومیوں اور نارسائیوں کے ساتھ طبقاتی کشمکش کو ختم کرنے کا شدید جذبہ کارفرماہے۔ اقبال کا تمام کلام ان عناصر کی تفسیر ہے۔ اسی طرح راشد کے مجموعہ کلام ’ماورا‘، ’ایران میں اجنبی‘ اور لاانسان میں بھی یہ تصورات اپنے ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ دونوں شعرا زندگی کے ہر پہلو میں مساوات کے قائل ہیں کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ایک صالح سماج کی تعمیر ممکن ہے انسان مکمل آزادی کی فضامیں سانس لے سکتاہے۔ اورراشد کے کلام میں کائناتی وژن مفکرانہ اسلوب، فکر کا وسیع وبسیط تناظر، مابعد الطبیعاتی مسائل وموضوعات اقبال سے ہی اخذ کیے گئے ہیں۔ اقبال کا خودی کا تصوران کے یہاں کشف ذات کے روپ میں ابھرتاہے راشد بھی انسان کو خودآگاہ اور بے باک دیکھنا پسند کرتے ہیں اسی لیے وہ اردو شعر وادب میں ایک باغی شاعر کے روپ میں ابھرتے ہیں ایک زمانے میں راشد خاکسار تحریک ملتان سے منسلک رہے لیکن بعدمیں ان کے خیالات میں تبدیلی رونما ہوئی اوروہ انسان دوستی کے سیکولر تصور کو فوقیت دینے لگے۔ اقبال کی طرح وہ بھی عمل جدوجہد اور حرکت کے علمبردار تھے لیکن سماجی اور دینی روایت سے رشتہ توڑچکے تھے۔ جس کے تحت ان کے کلام میں شرعی اصولوں سے انحراف پایاجاتاہے البتہ اقبال کے یہاں الحاد اورتشکیک کی یہ صورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ رد عمل بے زاری، شکوہ شکایت، شوخی اور طنز کا ساانداز لیے ہوئے ہے۔ اقبال نے نطشیے سے مرد کا مل کا تصور مستعار لیا وہ زندگی کے کسی بھی پہلو کومذہب اور روحانیت سے الگ کرکے دیکھنے کے قائل نہیں تھے کیونکہ مذہب اور روحانیت جیسے صالح عناصر میں ہی انسانی زندگی کی ترقی اور بقا کا راز پوشیدہ ہے۔ لیکن راشد نے نطشیے سے جوتصور اخذ کیا تھااس کے پیش نظر وہ خدا کے منکر نظرآتے ہیں۔

یورپ کی عملی اور جدوجہد سے بھری زندگی کے مقابلے میں ایشیا کے لوگ بے عملی اور جمود کا شکار تھے۔ یہ بے عملی تصوف کے ان کی ہماری زندگیوں میں گھر کرگئی تھی جس نے انسان سے اس کی خودی چھین لی اور اسے کاہل اور جمود کا شکار بنادیا اس لیے دونوں شعرا کے کلام میں خانقاہی زندگی کی نفی ملتی ہے۔ کیونکہ تصوف کی تعلیم انسان کومجبور محض تصورکرتی ہے جس کے نتیجے میں ا نجمادِ ذہنی کے گہرے غار میں گرتا چلا گیا۔ راشد کہتے ہیں      ؎

ہم تصوف کے نہاں خانوں میں بسنے والے

اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے

ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا

(راشد:نظم تصوف)

یہ ذکر نیم شبی یہ مراقبے یہ سرور

تری خودی کے نگہباں نہیں توکچھ بھی نہیں

(اقبال:نظم تصوف)

اقبال اور اشد دانش گاہوں سے بھی مطمئن نہیں کیونکہ وہاں بھی بے عمل اور بے علم معلموں کا غلبہ ہے۔ جو انسانوں کی ذہنی اورسماجی تربیت کے اہل نہیں۔ اقبال کا کہنا ہے      ؎

شیخ مکتب کے طریقوں سے کشادہ دل کہاں

کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ

 

مرے کدوکو غنیمت سمجھ کہ بادۂ ناب

نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے

راشد نظم اے وطن اے جان، میں یوں گویا ہیں        ؎

خاک چھانی میں نے دانش گاہ کی

اور دانش گاہ میں بے دست وپادرویش حسن وفہم کے جو یا ملے

جن کومیری طرح ہر دستگیری کی طلب

لیکن اپنے علم ودانش کا ثمر اس کے سوا کچھ بھی نہ تھا

سرتہی نقلی خدا تھے خیر و قوت کے نشان

اورانسان اہل دل انسان شریر وناتواں

موت کے بعدایک نئی زندگی کا ظہورعمل میں آتاہے دونوں کے کلام میں موت سے ہراساں ہونے کے بجائے اس اٹل حقیقت کو تسلیم کرنے کارجحان ملتا ہے ان کی نظرمیں موت صرف ایک وقفہ کانام ہے کیونکہ کسی زندگی کے مٹ جانے کے باوجودبھی زندگی اپنی گونا گوں مظاہر کے ساتھ رواں دواں رہتی ہے       ؎

موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے

خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

(اقبال:نظم، والدہ مرحومہ کی یادمیں)

راشدکا کہنا ہے       ؎

یہ بجا ہے کہ ہست ہزار رنگ کے جلوہ گر

مگراک حقیقت آخر میں

یہی آستانۂ مرگ ہے

تواے زائرو

کبھی ناوجدکی چوٹیوں سے اتر کرتم

اسی اک نگاہ میں کودجاؤ

نئی زندگی کا شباب پاؤ

دونوںشعرافطرت کی آغوش میں سکون حاصل کرتے ہیں راشد کی نظمیں ’فطرت‘ اور ’عہد نو کا انسان‘ میں وہ انسان اور فطرت کے مکالموں کے ذریعے اپنا نظریۂ حیات وکائنات کو پیش کرتے ہیں یہ اندازِ تکلم انھوں نے اقبال سے سیکھا ہے۔

راشد کے عہد کا مطالعہ کریں توظاہر ہوتاہے کہ ان کے دور میں مشرق کا سیاسی وسماجی ڈھانچہ اقبال کے عہد سے  مختلف تھا۔ اس لیے راشد جب مشرق کا ذکرکرتے ہیں تواقبال کی طرح ان پر جذباتیت طاری نہیں ہوتی۔ وہ مغرب کوصرف اس لیے رد نہیںکرتے کہ اس کی بنیاد خالص مادی اصولوں پر استوار ہے۔ اس مختلف ردعمل کا بڑاسبب یہ ہے کہ اقبال سیاست کے ساتھ ہمیشہ اپنی تہذیبی جڑوں کی تلاش میں سرگرداں رہے ہیں ان کی نظرمیں مشرقی تہذیب کے مقابلے میں مغربی تہذیب بے روح اوربے جان ہے لیکن راشد صرف سیاسی پس منظر کے تحت ہی مغرب کو ہدف ملامت کرتے ہیں۔ راشد نے اقبال سے اثرضرورقبول کیا لیکن وہ اقبال کی دینی اساس کونہیں اپنا سکے۔ البتہ انھوںنے روایت پرستی سے پرہیزکیا اورزندگی میں نئے میلانات کو ترجیح دی۔ اقبال نے اپنے کلام میں مشرق ومغرب کا موازنہ پیش کرکے اس تصادم کوظاہر کیاہے جو دونوں تہذیبوں کے ٹکراؤسے پیدا ہواتھا۔ اس لیے بعض اوقات اقبال ماضی پرست نظر آتے ہیں راشد کے کلام میںبھی اس کرب کی پرچھائیاں مل جاتی ہیں۔ لیکن راشدپوری طرح ماضی پرست نہیں ہیں۔اقبال مغرب کی خالص مادی زندگی سے اس لیے بیزار ہیں کہ اس سے انسان کی مکمل ترقی ممکن نہیں۔وہ مادیت کے ساتھ روحانیت کی آمیزش کوضروری سمجھتے تھے کم وبیش راشد کا نظریہ حیات بھی اسی خمیر سے اٹھاہے لیکن ان کے یہاں روحانیت کی پرچھائیاں مدھم ہیں۔ اقبال مغرب کی برکتوں سے فیض حاصل کرنے کو بُرا نہیں سمجھتے لیکن ان کی تہذیب سے دور رہنے کی تلقین ان کے کلام میں جابہ بجانظر آتی ہے۔

اقبال وراشد کا فن بتدریج ارتقائی منازل طے کرتا ہوا اپنی انتہا کو پہنچتا ہے۔ ان کا یہ شعری سفر کسی مرحلے پر بھی جمود کا شکار نہیں ہوتا۔ راشد کے مجموعہ کلام ’ماورا‘ کی نظموں میں پابند نظم کا آہنگ باقی ہے لیکن ’ایران میںاجنبی‘ تک آتے آتے ان کے یہاں فنی پختگی، ایمائیت اورعلامات کی تہہ داری نمایاں ہے اس میں راشد کا انفرادی رنگ بھی جھلکتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اقبال کے اثر سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں’لا انسان‘ تک آتے آتے ان کا فن ایک نئی منزل کی طرف گامزن نظر آتا ہے۔  وہ مشرق کی حدود کو پارکرکے آفاقیت کی طرف سفر کرتے ہیں۔ ان نظموں میں فکر کا نیا تصور ملتا ہے۔

راشدنے موضوعات کے ساتھ اقبال کی لفظیات سے بھی بھرپور استفادہ کیا ہے کہ ان کے اسلوب پر اقبال کا گہرا اثرنمایاں ہے۔ غالب اور اقبال کی طرح راشد کا اسلوب بھی فارسی آمیز ہے اسلوب کی یہ ظاہری شکل ان کے کلام کو اقبال کے اسلوب سے قریب کرتی ہے۔ راشد نے شاعری میں فنی جدت نگاری سے کام لیتے ہوئے آزاد نظم کو منفرد اسلوب عطا کیاہے۔ اس کے ساتھ زبان وبیان، تشبیہات واستعارات میں بھی ندرت پیدا کی۔ انھوں نے اقبال کی مانند پرانے الفاظ کو نئے معنی ومفہوم عطا کیے لہٰذا فنی میلان میں بھی وہ اقبال کے مقلد ٹھہرے۔ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ راشد کی وضع کی ہوئی تراکیب اوربند شیں اکثر اوقات اجنبی سی لگنے لگتی ہیں جبکہ اقبال کے اسلوب میں ابہام کی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ البتہ اس بات کا اعتراف ممکن ہے کہ غالب اور اقبال نے ہماری سوچ میں ایک ایسا تموج پیدا کردیا تھا۔ جس نے ہمیں جدید فکر کے منہج پر لاکھڑا کیا۔ ان کے بعد راشد نے اس فکر کو آگے بڑھایا۔ لہٰذا وہ نئی نظم کے معمار ہی نہیں بلکہ غزل کے مدمقابل نظم کا ذوق پیدا کرنے میں وہ اقبال کے پس روہیں۔


Dr. Raisa Parveen

Satyawati College, Ashok Vihar

Delhi - 110052

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں