تحقیق انسانی ارتقا کا ایک اہم
جز وہے۔ اسی لیے انسان اپنی کھوج، تلاش اور جستجو سمندر کی اتھاہ گہرائیوں سے لے
کر کائنات کے ذرے ذرے میں پنہاں قدرت کے پوشیدہ رازوں پر سے پردہ ہٹا تا ہے، فطرت
سے ہم کلام ہوتا ہے، تاریخ کے گرد آلود اوراق سے حقائق دریافت کرکے ایک نئی تاریخ
رقم کرتا ہے، انّی اورسرے کی جوڑ لگاتا ہے گویا کائنات کو مسخر کر نے کی طاقت
رکھتا ہے۔
تحقیق حکم خداوندی بھی ہے اللہ
رب العزت نے حق کی تلاش و بازیافت، کھوج اور جستجو پر زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں
جگہ جگہ تحقیق کا ذکر ملتا ہے۔ اللہ رب العزت ـــ
’سورۃ الحجرات‘ کی آیت نمبر 6 میں فر ماتا ہے:
’’
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق
آدمی تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں
نادانی سے کسی قوم کو ضرر پہنچادو اور پھر اپنے کیے پر پشیماں ہو جائو ‘‘
قرآن کریم میں اور بھی بہت سے
مقامات پر تحقیق کے متعلق اشارے مو جود ہیں۔ علم حدیث کے لیے بھی جو اصول و ضوابط
مقرر کیے گئے ہیں اس میں بھی تحقیق کے اصول و ضوابط کو خاص اہمیت دی گئی اور داخلی
شہادتوں پر زور دیا گیاہے۔ یہاں تک کہ راوی کی شخصیت اور کردار ہی کے پیش نظر
تحقیق کا معیار مقرر ہوا۔ تحقیق ہی کی بازیافت کے لیے ’ علم الرجال ‘ کی داغ بیل
پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان محققین نے علم حدیث کے دائرے سے ہٹ کر حیرت انگیز
تحقیقی کا ر نامے انجام دیے،جن میں علم و ادب، تاریخ، سفر نامے وغیرہ قابل ذکر
ہیں۔
اردو ادب میں تحقیقی روایت کا
پتہ تذکروں کے ذریعے چلتا ہے۔ اردو کے ابتدائی دستیاب تذکروں میں گردیزی کا
تذکرہ ’ریختہ گویاں ‘ قائم کا ’ مخزن نکات ‘ اور میر کا ’نکات الشعرا ‘ قابل
ذکر ہیں۔ یہ تذکرے 1165ھ تا 1208 کے
درمیان لکھے گئے جن میں میر کے تذکرے کواولیت حاصل ہے۔ اردو ادب میں تحقیق کے جدید
رجحان کے علمبردار سر سید احمد خاں، مولوی چراغ علی، محسن الملک، مولانا شبلی،
مولانا حالی، مولو ی ذکاء اللہ، مولانا محمد حسین آزاد اور مولوی عبد الحق ہیں۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کی
تمام زندگی اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت اور اردو زبان کو جائز مقام دلا نے
کی جدو جہد میں گزر گئی۔ انھوں نے اپنے تحقیقی کا رناموں سے ان شاعروں اور ادیبوں
کے ناموں کا افشا کیا جو تاریخ کے گرد آلود اوراق میں اپنی گم نامی کا ماتم منا
رہے تھے۔
مولوی عبد الحق نے نو جوانی ہی
میں اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ سرسید جنھیں جدید اردو نثر کا بانی
کہا جاتا ہے انھوں نے اردو تحقیق کی جو داغ بیل ڈالی تھی اس کو خواجہ الطاف حسین
حالی، شبلی نعمانی، مولوی چراغ علی، محسن الملک، ذکاء اللہ اور محمد حسین آزاد نے
پروان چڑھا یا اور بابائے اردو نے ان اساتذہ کی تحقیقی روایات کونہ صرف آگے بڑھا
یا بلکہ اسے ایک نئی جہت بھی عطا کی۔ مولوی عبدالحق سے قبل اردو تحقیق مذہب و
تاریخ ہی تک محدود تھی لیکن بابائے اردو نے اس حصار کو توڑ کر لسانی اور ادبی
تحقیق کی ایک نئی داغ بیل ڈالی۔ جانچ پرکھ کے جدید پیمانے وضع کیے، قیاس آرائیوں
کے بجائے حقائق کی چھان بین، مستند داخلی و خارجی شہادتوں پر زور دیا اور اردو
تحقیق کو جدید مغربی تحقیق کے ہم پلہ بنا دیا۔
مولوی عبدالحق نے شعراے اردو
کے تذکرے مرتب کرکے شائع کیے ان پر مقدمات لکھے تذکرہ نویسوں کے متعلق حقائق کی
کھوج، متن اور املا کی غلطیوں کی درستی میں بڑی دیدہ ریزی اور عرق ریزی سے کا م
لیا۔ان کی تحقیقی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ ایک مضمون میں پیش کر نا دشوار
ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ اسی لیے سر سری ذکر کرتا چلوں۔
بابائے اردو نے جو تذکرے مرتب
کیے اور جن پر مقدمات لکھے ان کی ترتیب اشاعت کے اعتبار سے اس طرح ہے:
1
تذکرہ گلشن عشق 1906
2 چمنستان شعرا 1928
3 مخزن نکات 1929
4 تذکرہ ریختہ گویاں1933
5 مخزن شعرا1933
6 تذکرہ ہندی 1933
7 عقدثریا1934
8 ریاض الفصحا1934
9 نکات الشعرا 1935
10 گل عجائب 1936
تذکروں کی اہمیت کے متعلق
ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:
ـ’’ اردو شعرا کے تذکروں کو ادبی تنقید، سوانح اور تاریخ کی
اساس خیال کرنا چاہیے۔ ان تذکروں کو نظر انداز کر کے نہ ہم اردو زبان و ادب کی
ارتقائی منزلوں کا سراغ لگا سکتے ہیں اور نہ اس کے ماضی، حال اور مستقبل میں کوئی
رشتہ قائم کر سکتے ہیں۔ چناچہ کلاسیکی شاعری اور ادب دونوں کے متعلق ہم آج جو کچھ
جانتے ہیں، ان ہی تذکروں کے توسط سے جانتے ہیں اور آئندہ بھی ادبی تاریخ یا تحقیق
و سوانح نگاری کا کوئی کام ان قدیم ماخذ سے یکسر بے نیاز رہ کر نہیں کیا جاسکتا۔
تذکروں کی یہی وہ اہمیت ہے جو کسی ادیب یا ناقد کو ان کے تفصیلی مطالعہ پر اکساتی
ہے اور مجبور بھی کرتی ہے ‘‘
(
اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ
نویسی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری،نگار پاکستان،تذکروں کا تذکرہ نمبر،کراچی 1964،ص 7 )
گلشن ہند: مولوی عبد الحق نے
شعرا کے تذکروں کا تحقیقی سفر ’ گلشن ہند ‘ سے شروع کیا۔ گلشن ہند کے دیباچے میں
بابائے اردو لکھتے ہیں:
’’
گلشن ہند مشہور شعرا اردو کا
ایک تذکرہ جس کو مرزا علی متخلص بہ لطف نے بعہد مارکونس آف ویزلی گورنر جنرل اردو
کے مشہور سرپرست جان گل کرسٹ کی فرمائش پر علی ابراہیم خاں کے فارسی تذکرے ’گلزار
ابراہیم ــ‘ سے مع اضافوں کے اردو زبا ن میں جو آج سے پانچ سو سال
کی سادہ اردو نثر کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ 1801 میں تصنیف کیا اور 1906میں شمس العلما
مولوی شبلی نعمانی کی تصحیح و تحشیہ اور مولوہ عبدالحق صاحب بی اے کے ایک عالمانہ
مقدمے کے ساتھ اردو زبان کی خدمت کے لیے عبداللہ خاں نے حیدرآباد دکن سے شائع کیا
اور دار الاشاعت پنجاب کی رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور میں چھپا ‘‘
(گلشن ہند میرزا علی لطف، لاہور، رفاہ عام اسٹیم پریس
1906، سر ورق)
مولوی عبدالحق نے گلشن ہند کے
مقدمے میں اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ اس تذکرے میں مولوی عبدالحق نے مرزاعلی لطف
کے حالات کلام کی داخلی شہادتوں کی روشنی میں بڑی ہی محنت و جستجو سے رقم کیے ہیں۔
واضح رہے کہ صاحب تذکرہ نے اپنے حالات نہیں لکھے تھے، دیباچے میں بھی ذکر نہ تھا،
جب شعرا کا تعارف پیش کیا تو دیگر شعرا کے مقابلے اپناتعارف بہت ہی کم پیش کیا ہے۔
آگے میر تقی میر، فورٹ ولیم کالج وغیرہ کے متعلق بہت سے انکشا فات کیے ہیں۔
چمنستان شعرا : مولوی عبدالحق
نے لالہ لچھمن داس شفیق کے تذکرے چمنستان شعرا کو 1928 میں مرتب کیا۔ بابائے اردو
نے اس تذکرے میں نہ صرف مقدمہ تحریر کیا بلکہ محنت و مشقت سے ان کے خاندانی پس
منظر، حالات زندگی اور ادبی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔ اصل ماخذ کی کتب سے متن کی
غلطیاں درست کیں۔ شعرا کے اصل دیوانوں اور بیاضوں سے ڈھونڈ کر مشکو ک اشعار کی
اصلاح کی، جو حقائق اخذ نہ ہو سکے یا ان کی صحت نہ ہوسکی ان پر قیاس آرائیوں کے
بجائے سوالیہ نشان لگادیا تاکہ آئندہ محقق کے لیے راہ نمائی ہو سکے۔
چمنستان شعرا ریختہ گو شعرا کا
تذکرہ ہے جس میں 213 شعرا کا تذکرہ شامل ہے۔ اس تذکرے میں شعرا کا کلام اردو میں
ہے جب کہ حال احوال تعارف وغیرہ فارسی میں ہیں۔ یہ تذکرہ سراج الدین آرزو سے شروع
ہوتا ہے۔
سید
معراج نیر کی تصنیف ’بابائے اردو ڈاکٹرمولوی عبدالحق فن اور شخصیت ‘ کے مطابق
مولوی صاحب نے ’چمنستان شعرا ‘ میں حسب ذیل شعرا کا اضافہ کیا ہے۔ میر عبدالوہاب
افتخار، محمد رضا قزلباش خاں، مرزا علی نقی ایجاد، میر یوسف خاں بسمل، آقا
امین،میر عبدالحیی وقار، نواب ذوالفقار الدولہ بہادر جنگ، نور الدین علی رنگین اور
مولوی محمد باقر شہید۔ جن شعرا کے کلام اور حالات میں اضافہ کیا ہے وہ ہیں میر
سراج الدین سراج، سید عبدالولی عزلت، عارف الدین خاں عاجز، نور محمد عاصی، فیض
الدین نقش بندی، فضلی اور شیخ احمد فدا۔
مخزن نکات : مولوی عبدالحق نے
1929 میں محمد قیا م الدین قائم چاندپوری کا تذکرہ ’ مخزن نکات‘ انجمن ترقی اردو
کے تعاون سے شائع کیا۔ اس تذکرے میں کل 119 شعرا کے حالات رقم کیے گئے ہیں،جن میں
قابل ذکر نام حضرت امیر خسرو، حضرت شیخ سعدی، سلطان عبداللہ قطب شاہ، شاہ مبارک
آبرو،سراج الدین علی خاں آرزو، خواجہ میردرد، میر تقی میر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اس تذکرے کو قائم نے طبقہء اول، دوم اور سوم میں منقسم کیا ہے۔ طبقۂ اول حضرت
سعدی شیرازی سے شروع ہوکر میر جعفر پر ختم ہوتا ہے۔ طبقۂ دوم شاہ مبارک سے شروع ہو کر کمتران پر ختم
ہوتا ہے اور طبقۂ سوم میر شمس الدین فقیر سے شروع ہوکر مصنف کے ذکر پر ختم ہوتا
ہے۔
مذکورہ تذکرے میں کثیر تعداد
میں شمال و جنوب کے شعرا ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں۔ بابائے اردو نے اپنے مقدمے
کے ساتھ قائم کے تذکرے کو جامع شکل میں شائع کرکے اولیت حاصل کی ہے۔ بابائے اردو
کے بعد کچھ اساتذہ نے بھی اس تذکرے کو مرتب کیا ہے۔
تذکرہ ریختہ گویاں : بابائے
اردو نے اپنے تحقیقی مقدمے کے ساتھ مرتب کرکے 1933 میں اورنگ آباد سے شائع کیا۔
اس تذکرے کو فتح علی حسینی گردیزی نے 1156ھ میں لکھنا شروع کیا تو 1166ھ میں مکمل
کیا۔ اپنے تذکرے میں گردیزی نے حروف تہجی کے اعتبار سے شعرا کے نام ترتیب دیے
ہیںاور 99 شعرا کے مختصر حالات و کلام کا تذکرہ کیا ہے، ان میں 72سے زائد ایسے
شعرا ہیں جن کا ذکر میر تقی میر کے تذکرے نکات الشعرا میں بھی ملتا ہے۔ مولوی صاحب
نے اس تذکرے کے مقدمے میں گردیزی کے حالات زندگی اور خاندانی پس منظرپر تفصیلی
روشنی ڈالی ہے،مقدمہ میںلکھتے ہیں کہ گردیزی نے اپنا تذکرہ ایسے زمانے میں لکھا جب
کہ ریختہ گو شعرا کے چند ہی تذکرے لکھے گئے تھے نیز میر کے تذکرے نکات الشعرا سے
گردیزی کے اس تذکرے کا موازانہ کرتے ہوئے گردیزی کے تذکرے کی خصوصیات کا بھی
اعتراف کیا ہے۔مثلا گردیزی کے تذکرے سے ہمیں بعض ایسے شاعروں کے احوال سے آگاہی
ہوتی ہے جن کا ذکر میر کے تذکرے میں نہیں ملتا۔
مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ
بابائے اردو نے اس تذکرے کو تین مختلف نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے اور متن کے
حواشی، مختلف نسخوں کے اختلاف متن اور املا کی غلطیوں کی نشاندہی بڑی ہی دیدہ ریزی
سے کی ہے۔
اس تذکرے میں گردیزی نے اپنے
عہد کے تذکروں سے بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تصنیف و تالیف، علت نمائی،
معاصرین سے ستم ظریفی اور اپنے ہم عصروں کی خوردہ گیری جیسے الزامات عائد کیے لیکن
مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمے میں یہ ثابت کیا کہ گردیزی کی پہنچ اپنے عہد کے تذکروں
تک نہیں تھی اور نہ ہی کہیں ان تذکروں کے حوالے ملتے ہیں، گویا گردیزی نے اس عہد
کے اہم تذکرے میر کے ’نکات الشعرا ‘ کو راست ہدف تنقید بنا یا ہے جب کہ اسی تذکرے
سے اس نے استفادہ بھی کیا ہے۔
مخزن الشعرا: مخزن الشعرا قاضی
نور الدین حسین خاں فائق کا شعراے گجرات پر مبنی تذکرہ ہے جس میں انھوں نے 111
گجراتی اردو شعرا کا ذکر کیا ہے۔ اس تذکرے کو مولوی عبدالحق نے 1933 میں اورنگ آ
باد سے شائع کیا۔ یہ تذکرہ اس لحاظ سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے آخر میں
14؍جولائی 1896 میں لکھا گیا غالب کا ایک مکتوب شامل ہے۔ مولوی صاحب نے اس تذکرے
کو دو نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے، ایک نسخہ جو خود فائق کے پوتے نے انھیں دیا
تھا اور دوسرا ممبئی یونی ورسٹی کے کتب خانے کی ملکیت تھا۔ مذکورہ تذکرے کو بابائے
اردو نے تین حصوں میں منقسم کیا ہے۔ پہلے حصے میں گجرات کا تاریخی پس منظر اور اس
خطے سے مسلمانوں کے تعلق پر تحقیقی مواد پیش کیا ہے۔ دوسرے حصے میں مسلمان فاتحین
کی لشکر کشی کے نتیجے میں معاشرتی و لسانی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ان صوفیائے کرام
اور شعرا کا ذکر کیا ہے جو ’گجراتی اردو ‘ میں لسانی خدمات انجام دے رہے تھے۔
تیسرے حصے میں صاحب تذکرہ کے احوال کو بڑی ہی کھوج اور جستجو کے بعد یکجا کرکے پیش
کیا ہے ۔
سید
معراج نیر اپنی کتاب ’ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق فن اور شخصیت ‘ میں لکھتے
ہیں کہ مولوی صاحب نے گجرات میں زبان کی اجمالی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت قطب
عالم ( متوفی 850ھ ) حضرت شاہ عالم ( متوفی 922 ھ) شاہ علی جیوگام ( متوفی 972ھ)
میاں بخش حسینی ( متوفی 1023ھ) اور سید شاہ غلام ہاشمی (متوفی 1059ھ) کا ذکر کیا
ہے اور ثابت کیا کہ یہ حضرات اپنی زبان کو عربی و عجمی،گجراتی کہتے تھے جس کے معنی
قدیم گجراتی اردو کے ہیں۔ بابائے اردو کی تحقیق اور مخزن الشعرا کے متن سے یہ بات
واضح ہو جاتی ہے کہ سب سے پہلے اردو کی نشوونما گجرات میں شروع ہوئی چنانچہ اس وقت
گجرات بھی اردو کا ایک اہم مرکز تھا۔
مولوی عبدالحق نے مصحفی کے تین تذکرے مرتب کر کے شائع کیے۔
عقد ثریا: اس تذکرے کو مولوی
عبدالحق نے نسخہ خدابخش خاں اور نسخہ رام پور کی مدد سے مرتب کرکے 1933 میں شائع
کیا۔ یہ تذکرہ فارسی گو شعرا کا ہے، جس میں شعرا کو تین حصوں میں منقسم کیا گیا
ہے۔ اول شعراے ایران جو کبھی ہندوستان نہیں آئے، دوسرے وہ شعرائے ایران جو
ہندوستان آئے اور تیسرے فارسی گو ہندوستانی شعرا۔
تذکرہ ہندی : مصحفی نے اس
تذکرے کو 1209ھ میں لکھا،جس میں 188 شاعروں کے علاوہ 5 شاعرات کا بھی ذکر کیا ہے۔
اس طرح شعرا کی تعداد 193 ہے۔ مولوی عبدالحق نے تذکرہ ہندی کی تدوین ایشیا ٹک
سوسائٹی بنگال کے نسخے کی مدد سے کی ہے اور اس کا موازنہ کتب خانۂ خدابخش پٹنہ اور
کتب خانۂ ندوہ کے نسخوں سے کیا ہے اور اختلاف کی نشاندہی بھی کر دی ہے۔
ریا ض الفصحا : اس تذکرے کو
مصحفی نے 1221ھ میں لکھا اور اس میں 323 شاعروں کا ذکر شامل ہے۔ بابائے اردو نے اس
تذکرے کو خدابخش لائبریری پٹنہ کے قلمی نسخے کی بنیاد پر مرتب کیا ہے۔ مصحفی نے اس
تذکرے میں بالخصوص ان شعرا کا ذکر کیا ہے جو اس سے پہلے کے تذکروں میں رہ گئے تھے
اور کچھ ایسے شاعر بھی ہیں جو پہلے تذکروں میں بھی شامل رہے گویا ریاض الفصحا
مذکورہ بالا تذکروں کا تکملہ کہا جاسکتا ہے۔
نکات الشعرا : مولوی عبدالحق
نے اس تذکرے کو 1935 میں سید عبدالحیی کے قلمی نسخے کی مدد سے مرتب کیا۔ محققین نے
اس تذکرے کا سنہ تالیف 1165ھ لکھا ہے اور یہ اردو کا پہلا تذکرہ تسلیم کیا جاچکا
ہے۔ میر سمیت اس تذکرے میں 101شاعروں کا ذکر ملتا ہے جن میں اکثریت دہلوی شعرا کی
ہے جب کہ دکن کے چند ہی شاعر شامل کیے گئے ہیں۔
مولوی صاحب نے اپنے مقدمے میں
نہ صرف اس تذکرے کی علمی و ادبی اہمیت منوائی ہے بلکہ بہت سے تاریخی، تحقیقی و
تنقیدی گوشو ں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ جس سے حقائق کی نشاندہی ہوتی ہے۔
گل عجائب: مولوی عبدالحق نے
1939 میں اسد اللہ خاں تمنا کے تذکرے کو مرتب کر کے انجمن ترقی اردو اورنگ آباد
سے شائع کیا ہے۔ بابائے اردو نے اس تذکرے کو بڑی ہی عرق ریزی سے خراب و خستہ حالت
میں کتب خانۂ آصفیہ میں موجو د قلمی نسخے کی مدد سے مرتب کیا ہے۔ مولوی صاحب اس
تذکرے کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ اس کی ترتیب میںہمیںبہت دقت اٹھانی پڑی کیوں کہ
کاتب نے کئی غلطیاں کی تھیں۔ اکثر املا کی بھی غلطیاں تھیں۔ اشعار غلط نویسی کے
سبب وزن اور بحر سے خارج ہو چکے تھے۔ چنانچہ انھوں نے دوسرے تذکروں اور دیوانوں کے
سیاق و سباق کی مدد سے درست کیا ہے۔
مذکورہ تذکرے میں 51شاعروں کا
ذکر ملتا ہے، جن میں اکثریت تمنا کے ہم وطن ہیں۔ ان شعرا کا تفصیلی ذکر پیش کیا
گیا ہے اور بعض شعرا کا سرسری ذکر ملتا ہے۔ گل عجائب کی تدوین اور مقدمہ بابائے
اردو کا تذکرہ نویسی پر آخری کام تھا۔
n
Mohd
Nazeer Ahmed
Head,
Dept. of Urdu
Usmania
University College for Women
Kothi,
Hyderabad - 500095 (Telangana)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں