15/2/21

زیرِ لب : صفیہ اختر کی ایک سرگوشی جو گونج اٹھی - مضمون نگار : محبوب ثاقب

 



خط بے ریا تحریر اور منضبط دستاویزی حوالے کا نام ہے۔یہ ایک اضطراری تحریر ہے جو اہتمام سے بے نیاز ہوتی ہے۔خط مرسل کے دلی جذبات کا نمائندہ اور اس کی شخصیت و سیرت کا آئینہ ہو تا ہے۔خطوط ہمارے شب وروزکے حادثات و واقعات، کلیات و جزئیات اورشمائل و خصائل کے عکاس ہوتے ہیں۔خط کی سادگی، بے تکلفی اور بے آمیزی نے اسے ادبی صنف کا درجہ عطا کیا ہے۔ آج فنِ مکتوب نگاری غیر افسانوی ادب کی غیر معمولی صنف بن گئی ہے۔یہ دو افراد کے مابین وہ تحریری گفتگو ہے جو نہ صرف ترسیل ِ خیال کا بہترین وسیلہ ہے ‘بلکہ یہ ایک ایسا آئینہ بھی ہے جس میں صاحبِ تحریر کی شخصیت غیر محسوس طریقے سے اُجاگر ہوتی ہے۔

خط نویسی جب دواہل زبان اور ذہین و طباع افراد کے درمیان ہو تو زبان و ادب کا سرمایہ بن جاتی ہے۔ اس کی اہمیت و افادیت میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے مطالعے سے ان کے فن اورشخصیت کی گتھیاں سلجھتی ہیں جو قاری کے لیے مسرت اور بصیرت کا موجب بنتا ہے۔خط کی اہمیت کا ا ندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں خط نگارکے باطنی افکار و خیالات،مسائل و حالات،عادات و اطوار،نظریے و آرا، ہنر و فن،ان کی زندگی کی جذباتی و جمالیاتی کیفیات اور تلخ و شیریں لمحات بھی محفوظ ہوتے ہیں۔دور ان ِمطالعہ فن کاروں کے حقیقی مزاج و منہاج اور باہمی رشتے بھی مترشح ہوتے ہیں۔ کچھ خطوط تو ان فن کاروں کی نجی زندگی کے بعض ایسے گوشوں سے پر دہ ہٹاتے ہیں جن کا کسی اور تخلیق یا کسی اور ذریعے سے ظاہر ہونا ممکن نہیں ہوتاہے۔اس لیے سید سلیمان ندوی نے خط کو دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارِ حیات کا صحیفہ قراردیا ہے۔مکتوباتی ادب کے معروف ناقد خورشید الاسلام تو اچھے خط کو ادبی کارنامہ قرار دیتے ہیں:

’’اچھے خط ادبی کارنامے ہوتے ہیں... خط چھوٹی چھوٹی باتوںسے بُنے جاتے ہیںاور چھوٹی چھوٹی باتوں میں دنیا کا لطف ہے۔‘‘ 

(تنقیدیں،خورشیدالاسلام، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ص9)

اچھا خط افسانہ یا غزل کے فن کی طرح اختصار میں جامعیت کا حسن رکھتا ہے اور جذبہ و احساس،سادگی و بے تکلفی اور سچائی و خلوص کی آئینہ داری کرتا ہے۔جس طرح ہم افسانہ،ناو ل یا ڈراما، دلچسپی سے پڑھتے ہیں اسی طرح مکتوب کا مطالعہ بھی توجہ اور انہماک سے کرتے  ہیں کیونکہ ان میں ناول کی انہماکی، افسانے کی یکسوئی اور ڈرامے کی لطف اندوزی پائی جاتی ہے۔اس سلسلے میںاردو کے حوالے سے’خطوطِ غالب، غبارِ خاطر، لیلیٰ کے  خطوط، مجنوں کی ڈائری، حرف آشنا اور  زیر لب بطورِ مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔

زیرِ لب ‘ صفیہ اختر کے خطوط کا وہ مجموعہ ہے‘ جسے جاں نثار اختر نے صفیہ اختر کی وفات کے بعد ترتیب دیا۔ 321 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں فراق، رضیہ سجاد ظہیر اور کرشن چندر کی آرا کے ساتھ ساتھ جاں نثار اختر کی دو نظمیں ’خاکِ دل‘ اور ’ خاموش آواز‘ شامل ہیں۔ اول الذکر نظم 1953 میں صفیہ اختر کی موت پر لکھنؤ سے جاتے ہوئے لکھی گئی تھی جبکہ موخر الذکر پہلی برسی پر 1954 میں جنوری کی ایک چاندنی رات میں صفیہ اختر کی مزار پر لکھی گئی ہے۔ کتاب (222) خطوط پر محیط ہے۔یہ خطوط22 دسمبر 1949 سے 29دسمبر1953 کے دوران صفیہ اختر نے جاںنثار اختر کے نام لکھے تھے۔جاں نثار اختر نے صفیہ اختر کی وفات کے دو سال بعد 1955میں ان خطوط کو یکجاکر کے شائع کیا۔

زیرِ لب‘ میں شامل صفیہ اختر کے خطوط میں ان کی شخصیت اور فن دونوںاُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ ان کی مکتوب نگاری حدیثِ دیگراں سے گزر کر حدیثِ زندگی کی عقدہ کشا بن گئی ہے۔ ان خطوط میں صفیہ اختر کی سلیقہ شعاری‘ شگفتگی، بلند نظری، اعلیٰ ظرفی‘ بلند حوصلگی‘ ادب فہمی اور تنقیدی شعور صاف طورپر دیکھے جا سکتے ہیں۔یہی نہیںان میں زندگی اپنی تمام تر جولانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ رواں دواں نظر آتی ہے۔صفیہ اختر کا اسلوب سادہ سلیس اور دلکش ہے۔ ظاہری تصنع اور تکلف کو برطرف رکھ کرانھوں نے نثر میں اپنا ایک علیحدہ رنگ پیدا کیا  ہے‘ جو حسین، دلنشین اور نرالا ہے۔

صفیہ اختر اور جاں نثار اختر علی گڑھ میں زیرِ تعلیم تھے اسی دوران جاں نثاراختر کی ایک دوست اورغم گسار فاطمہ زبیر نے صفیہ کو جاں نثاراختر سے متعارف کروایا تھا۔صفیہ پہلی ہی نظر میں جاں نثار اختر کے عشق میں ایسی گرفتار ہوئیں کہ زندگی بھر اس کے حصارسے باہر نہ نکل سکیں۔جاں نثار نے نہ صرف صفیہ کو پسند کیا بلکہ ان کے والدین کے پاس نکاح کا پیغام بھی بھیجا۔صفیہ کا تعلق متمول اورادبی گھرانے سے تھا۔وہ  اسرار الحق مجاز کی بہن تھیں۔مجاز کو یہ رشتہ پسند نہیں تھا لیکن بہن کی ضد کے آگے انہوں نے سرِ تسلیم خم کیا۔

25دسمبر 1943 کو صفیہ اور جاں نثار اختر رشتۂ ازدواج میں بندھ گئے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک نے ادبی دنیا میں ہل چل مچادی تھی۔جاں نثار اختر بھی اس تحریک سے متاثر تھے اور شاعری میں اپنی شناخت بنا چکے تھے۔شادی کے بعد جاں نثار چار برس تک گوالیار میں اور صفیہ اختر علی گڑھ میں ملازمت کرتے رہے۔دونوں کو اپنی نو سالہ ازدواجی زندگی ایک ساتھ بسر کرنے کے بہت کم مواقعے ملے۔ 1947 میں گوالیار کے حالات خراب ہوئے تو وہ دونوں بھو پال چلے آئے۔ حمیدیہ کالج، بھوپال میں دونوں کو ملازمت ملی۔ان کی شادی کے بعد کا یہی ایک عرصہ تھا ‘جس میں ان دونوں کودو سال تک ایک دوسرے کی قربت حاصل رہی اور ازدواجی زندگی خوشگوار گزری۔1945 میں جاویداختر اور 1946میں اویس اختر جیسے دو’ پھول‘ ان کے’ گھر آنگن ‘ میں کھِلے۔زندگی آرام و آسائش سے گزرنے لگی تھی‘ کہ اسی دور میں حکومت کی جانب سے ترقی پسندوں پر کڑی نظر رکھی جارہی تھی اور ان کی گرفتاریاں عمل میں آرہی تھیں۔جاں نثار اختر ان حالات سے پریشان ہوگئے تھے۔ساتھ ہی اپنی ملازمت سے بھی مطمئن نہیں تھے۔اس وقت بمبئی میں ترقی پسندوں کا بڑا گروہ آباد تھا اور یہ شہر اشتراکی نظریہ رکھنے والوں کی آماجگاہ بن گیا تھا۔اس لیے جاں نثار اختر کو بمبئی میں کشش نظر آئی۔لیکن یہ وہ شہر ہے جہاں ’چلی تو چاند تک ورنہ شام تک ‘ کے مصداق مستقبل بنتا ہے یا پھر بگڑتا ہے۔اپنے مستقبل کو بنانے کے لیے انھوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔اسے پورا کرنے کے لیے 1949 میں و ہ ملازمت سے استعفیٰ دے کر اکیلے بمبئی آگئے۔غمِ روز گار سے پریشان جاںنثار اخترصفیہ اختر کو تنہائی کے سمندر میں چھوڑ کر تلاشِ معاش میں بمبئی تو آگئے لیکن‘ ابتدائی برسوں میں مایوسی اور ناکامی سے دوچار رہے۔اْدھر صفیہ اختر‘ جاں نثاراختر کے ہجر میں تڑپتی رہیں۔وہ جاں نثاراختر کو دل کی گہرائیوں سے چاہتی تھیں۔ان کے پاس جاں نثار اختر سے ہم کلامی کا موثر ذریعہ تھا ‘مکتوب نگاری۔اس لیے انھوں نے مکتوب نگاری کو اپنا وسیلہ ٔ اظہار بنایا اور خطوط کے وسیلے سے اپنے دل کے غبار کوسپرد ِ قلم کرتی گئیں۔ اتنے خطوط لکھے کہ جب انھیں یکجا کیا گیا تو دو کتابیں بن گئی۔جو ’حرف آشنا ‘ اور ’ زیرِ لب‘کے عناوین سے منصہ شہود پر آئیں۔

 صفیہ اختر ہر دو تین روز بعد ایک خط جاں نثاراختر کو لکھا کرتیں اور ان کے جوابی خط کا بڑی بے قراری سے انتظار کرتی تھیں۔ ادھر جاں نثار اختراپنے خواب کوحقیقت میں بدلنے میں اتنے مصروف ہوگئے تھے کہ کبھی صفیہ اخترکے کسی خط کا جواب دے دیا کرتے اور کبھی کبھی کئی کئی دنوں تک کوئی جواب نہیں لکھتے تھے۔ صفیہ اختر تڑپ کر رہ جاتی تھیں لیکن وہ نہایت شاکر و صابر اور متین و امین بیوی ثابت ہوئیں۔ خط کا جواب ملا تو شکر ادا کیا ورنہ صبر۔ گویا ایک طرف شدت تھی دوسری جانب بے نیازی۔صفیہ اختر‘ اپنے شریکِ حیات کی پل پل کی خبر لینا چاہتی تھیں۔ زندگی کی ہر چھوٹی بڑی خوشیوں میں جاں نثار کو شریک کرنا چاہتی تھیں۔ ایک خط میں نئے سال کا جشن منانا چاہتی ہیں تو شوہر کو لکھتی ہیں :

’’ یہاں ایک اداسی اور افسردگی کا دورہ ہے۔۔آج تو میں نے تمہاری یاد کو نئے سال کی آمد سے سنوارنا چاہا۔آخر یہ سوگواری کاہے کی؟میں نے سوچا ’’وہ آئیں نہ آئیں   پر سجنی ‘ گھر ہم کو آج سجانا ہے‘‘ مگر سچ جانویہ دل تو بڑا ہی سرکش ہے کب قابو میں آنے والاہے۔‘‘

(زیر لب،صفیہ اکادمی، حیدرآباد1955، ص 91)

مندرجہ بالا اقتباس کے اس جملے ’’ مگر سچ جانویہ دل تو بڑا ہی سرکش ہے کب قابو میں آنے والا ہے۔‘‘   میں صفیہ اختر کی تنہائی، شدیدبے چینی اور بے چارگی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔اس میں ایک خاموش پیغام ہے۔بلا کا درد و کرب ہے۔صفیہ اخترزندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں شوہر سے اجازت طلب کرتی ہیں۔گویا اس بات کا پورا پورا خیال رکھتی کہ جاں نثاراختر پر ان کی کوئی بات گراں نہ گزرے اوران کی ازدواجی زندگی میں تلخیاں جگہ نہ بنالیں۔ایک خط میں گرمی کی تعطیلات میںجاں نثار اختر سے لکھنوآنے کی ضد کرتی ہیں لیکن وہ مصروفیت کے باعث منع کردیتے ہیں تو کسی طرح ان کی جدائی کے درد کو کم کرنے اور اپنے بچوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے وہ جاں نثار اختر کی ایک رشتہ دار کے ساتھ نینی تال جانے کی اجازت طلب کرتی ہیں:

’’ جون میں حمیدہ وغیرہ نینی تال کا پروگرام بنا رہے ہیں تم اجازت اور خرچ  دے سکوگے تو میں انھیں لوگوں کے ساتھ چلی جاؤں گی۔‘‘

(زیر لب، صفیہ اکادمی، حیدرآباد،1955، ص 40)

عورت کی یہ فطرت ہے کہ اسے اپنے شوہر کی کمائی سے خرچ کرنے میں ایک طرح کا اطمینان ہوتا ہے۔ حالانکہ مذکورہ مقام کی سیر کے لیے صفیہ اختر کی پاس خود کی کمائی کے پیسے ہونگے کیوں وہ خود ملازمت کیا کرتی تھیں‘ لیکن شاید شوہر کی کمائی سے خرچ کرنا ایک الگ طرح کی خوشی اور شان مہیا کرتا ہے۔اس خط کے جواب میں جب جاں نثار اختر نے ناراضگی کا اظہار کیا تو اسی سلسلے میں اگلے خط میں لکھتی ہیں:

’’ تم کتنی آسانی سے اپنا جی کڑھا لیتے ہو دوست  !  میرا پروگرام وہی ہو سکتا ہے جو تم بناؤ گے نہ کہ میرا اپنا بنایا ہوا۔‘‘ ’’ اگر تم نینی تال آنے پر راضی ہوئے‘ تو جاؤںگی ورنہ ہر گز نہیں جاؤںگی،لکھنو میں رہوں گی تاکہ تم میرے پاس آکر کچھ دن اور گزار سکو۔‘‘ 

(زیر لب، صفیہ اکادمی، حیدرآباد، 1955، ص 40)

صفیہ اختر ایک ہندوستانی عورت کے ایثار و قربانی کی عمدہ مثال تھیں۔فلمی دنیا میں جب جاں نثار اختر ابتدائی دنوں میں ناکام رہے تھے،ایسے وقت میں صفیہ اختر انھیں حوصلہ عطا کرتی رہتی تھیں۔ان کی بلند حوصلگی اور اعلیٰ ظرفی کی ایک مثال زیرِ لب کے ایک خط سے یہاں پیش کی جاتی ہے :

’’ میں تم سے علاحدگی کے دن پوری ہمت اور پورے استقلال سے گزارلوں گی۔ کالج کی دنیا اور گھر کی دنیا سبھی کچھ تو میرے لیے اجڑ گیا، مگر اختر بہت سے لوگ توہم سے بھی زیادہ پریشانیاں اٹھا رہے ہیں۔ہمیںتو ان کی طرف دیکھنا ہوگا۔اپنے غم کو میںطول نہیں دوں گی۔‘‘

(زیر لب، صفیہ اکادمی، حیدرآباد، 1955، ص 61)

صفیہ اختر کے خطوط کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں جذبات نگاری کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔خط لکھنے کا انداز بھی نرالا ہے۔ حد درجہ بے تکلفی اور سادگی میں ہنر مندی ان خطوط کا خاصہ ہے۔جذبات نگاری حقیقی ہو تو اس میں دل کشی اور دل نشینی آہی جاتی ہے۔صفیہ اختر کے خطوط میں یہ کہیں بھی بے حیائی نہیں بنتی۔انھوں نے اس طرح کی تحریر لکھی ہے کہ قاری کو ان سے ہمدردی ہوجاتی ہے۔جاں نثاراختر سے ان کی بے پناہ محبت ان کے ان خطوط میں کئی جگہ قاری کو غمگین بنا دیتی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کاش۔۔۔ان کی یہ دوری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی !  ان کی جذبات نگاری کو ان دو مثالوں سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔

’’ آو ٔ تمھاری پیشانی پر ایسا پیار کرلوں جس میں ماں کی شفقت، بہن کا فخر، بیوی کا ایثاراور دوست کی ملائمت سبھی شامل ہو۔میری جان! اف ‘‘ 

(زیر لب، صفیہ اکادمی، حیدرآباد، 1955، ص 13)

دوسری مثال بھی دیکھیے:

’’ تمھیں پاکر پھر مجھے زندگی میں کسی کی بھی ضرورت باقی نہ رہی، کتنی بھٹکی ہوئی زندگی، کتنے متلاشی جذبات کو پناہ مل گئی۔ اختر !  ‘‘ 

(زیر لب، صفیہ اکادمی، حیدرآباد، 1955، ص 66)

صفیہ اختر کا ادبی شعور نکھرا ہوا تھاجس کی جھلک ان کے خطوط میں دیکھی جا سکتی ہے۔ترقی پسند و ں کی ادبی محفل میں ایک مرتبہ کرشن چندر اور مہدی نے جاں نثار اختر کی نظم ’ستاروں کی صدا ‘ پر اپنے تاثرات میں توہم پرستی کا الزام لگایا تو صفیہ اختر سے رہا نہ گیا انھوں نے نہ صرف جاں نثار کی اس نظم کی حمایت کی بلکہ کرشن چندر کے افسانے کا حوالہ دیتے ہوئے اس میں توہم پرستی کو ہوا دینے والی کیفیت کی نشاندہی بھی کی۔ملاحظہ فرمائیں ان کے ادبی شعور کی یہ مثال:

’’  تمھاری نظم پر کرشن اور مہدی کا اعتراض جو تم نے لکھا ہے میری سمجھ میں نہیں آیا۔ بعض وقت انجمن میں عجیب الٹی سیدھی بحثیں ہوتی ہیں۔کرشن اور مہدی کا اعتراض تمھاری نظم پر کسی طرح صادق نہیں آتا... تم نے اوہام پرستی کو بنیاد ضرور بنایا ہے لیکن اس کا غلط استعمال نہیں کیابلکہ اوہام کو یہ توڑتی ہے۔کرشن کو میں بڑا افسانہ نگار مانتی ہوںلیکن اس کی سخن فہمی کی میں قائل نہیں اور اختر تم کرشن سے ضرور پوچھنا کہ ان کے افسانے’ بت جاگ گئے ہیں‘ سے توہم پرستی پھیلتی ہے یا نہیں ‘‘ 

(زیر لب، صفیہ اکادمی، حیدرآباد، 1955، ص 99,100)

جاں نثار اختر نے جب ان خطوط کو شائع کیا تو تاثرات و اعتراضات کے لیے دروازے کھل گئے۔جاں نثار اختر نے اپنے ہم عصروں کی آرا کو بھی خطوط کے اس مجموعے میں شائع کیا ہے۔جن فنکاروں کی آرا اس مجموعے میں شامل ہیں وہ جاں نثار اختر کے قریبی احباب ہیں۔ ان میں خصوصی طورپر یہاں،رضیہ سجاد ظہیر، کرشن چندر، اور فراق گورکھ پوری کی آرا اہمیت کی حامل ہیں۔ فراق نے صفیہ اختر کے اسلوبِ بیان،ظرافت، ان کی نیک مزاجی اور صداقت و خلوص ‘ کو قدرِ اول کی چیزیں قرار دیا ہے :

’’ذاتی تعلقات اور گھریلو زندگی سے متعلق شوہر کے نام بیوی کے خطوط میں انسانیت کی اتنی قدریں‘ مانوسیت و ہم آہنگی کی اتنی پاکیزہ مثالیں ‘ اسلوب بیان کی بے تکلفی‘ خلوص و صداقت ‘ نیک مزاجی اور بلند کرداری کی اتنی جھلکیاں ‘ ظرافت کا نمک ‘صحیح معنوں میں جیون  ساتھی کا لب و لہجہ‘ جس طرح یہ قدر ِ اول کی چیزیں اس کتاب میں موجود ہیں شاید ہی اردو یا کسی بھی زبان میں شوہر کے نام بیوی کے خطوط کے کسی دوسرے مجموعے میں نظر آسکیں‘‘   (زیر لب، صفیہ اکادمی، حیدرآباد، 1955، ص 4)

رضیہ سجاد ظہیر نے صفیہ اختر کو شہید کا درجہ دیا ہے۔ ازدواجی زندگی کی چار دیواری میں رہ کر یہ فن کارہ جس طرح حیات و ممات کی کشمکش کا شکار ہو کر اپنی جان کھو بیٹھیں‘ وہ دعوت ِفکردیتا ہیـ۔زیرِ لب میں شامل ان کا یہ تاثر ملاحظہ فرمائیں:

’’ مجھے معلوم ہے صفیہ ان حالات کا شکار ہوئی جن میں ابھی زندگی کی رگیں کھینچ رہی ہیں۔ سانس پھول رہی ہے جسم پسینہ پسینہ ہے لیکن زندہ جاوید ہیں وہ لوگ جنہوں نے موت اورحیات کی اس کشمکش میں حیات کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کے واسطے اپنا خون دیا۔ صفیہ بھی ان گمنام ان گنت شہیدوں میں سے ایک ہے۔‘‘ 

(زیر لب، صفیہ اکادمی، حیدرآباد، 1955، ص 7)

کرشن چندر اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ اگر آج صفیہ اختر زندہ ہوتی تو عصمت اور ہاجرہ کی طرح ہمارے ادب کے ماتھے کا دلنواز جھومر ہوتی۔ان کہنا ہے کہ انہوں نے ان خطوط کے مطالعے کے بعد محسوس کیا کہ صفیہ اختر میں ایک سچا فن کار تھا جو اپنے جذبات کی عکاسی میں مہارت رکھتا ہے۔وہ اس سلسلے میں رقم طراز ہیں :

’’ ان خطوط میں ایک ہندوستانی گھرانے کی تصویر ملتی ہے۔  یہاں بچوں کا ذکر ہے اور نوکروں کا  ‘ گاؤ تکیوں اور فرش پر بچھی ہوئی چاندنیوں کا‘  تخت پوشوں کا‘ سرخ  بلاؤزوں کا اور سفید ساڑھیوں کا۔ ان خطوط میں جاوید اور اویس کی معصوم شرارتیں ہیں اور ایک مہجور شوہر پرست بیوی کے متلاطم جذبات ہلکورے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘‘    (زیر لب، صفیہ اکادمی، حیدرآباد، 1955، ص 11)

اسی خط میں کرشن چندر نے جاںنثار اختر کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے آگے لکھا ہے  :

’’  صفیہ کے خطوط کو پڑھ کر پہلا احساس یہ ہوا ‘ کہ کس قدر خوش نصیب ہو تم اور پھر یہ جان کر کہ صفیہ اب اس جہاں میں نہیں ہے ‘ فوراََ یہ احساس ہوا کہ کس قدر غم نصیب ہو تم کہ صفیہ ایسی جاں نثار بیوی تم سے جداہوئی۔‘‘ 

(زیر لب، صفیہ اکادمی، حیدرآباد، 1955، ص 10)

صفیہ اختر کے ان خطوط کی اشاعت پر مختلف اعتراضات بھی کیے گئے ہیںکہ ان میں نجی اور ذاتی زندگی کی باتیں ہیں ان راز و نیاز کی باتوں کو شائع کر کے اس طر ح اجاگر نہیں کرنا چاہیے تھا۔چند برس قبل صفیہ اختر کی برسی کے موقعے پر انتظار حسین صاحب کا ایک مضمون نظر نواز ہو ا جس میں انھوں نے صفیہ اختر کی سہیلیوں کے تاثرات مقتبس کیے ہیں۔ اس میں صفیہ اختر کی قریبی سہیلی سلما شان الحق لکھتی ہیں :

’’ یوں محسوس ہوتا ہے وہ کسی انسان سے نہیں دیوار سے مخاطب ہے۔وہ غیور لڑکی اپنے دل کے داغ کسی کو کیوں دکھاتی۔یہ تو یوں کہیے کہ ایک خود کلامی کی کیفیت ہے جسے عالم ِ خیال میں وہ سپرد قلم کرتی گئی ہے۔‘‘

(مضمون ’صفیہ اختر کی سہیلی کیا کہتی ہے‘انتظار حسین،نیوز ایکس پریس، مورخہ 23مئی 2014)

اسی مضمون میں انتظار حسین نے صفیہ اختر کی ایک اور سہیلی سعیدہ قدوائی کے قول کو مقتبس کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں یہ اقتباس:

’’  اتنے دن سے اس کے مزار ہی کی تو تیاری ہورہی تھی۔سو وہ پوری ہو گئی۔مزید کسی تکلف کی ضرورت نہیں۔جائیے جایئے۔۔اٹھا لے جائیے۔‘ یہ کتاب میں ہر گز نہیں خریدوں گی‘ ہر گز نہیں پڑھوں گی۔‘‘ 

(مضمون ’صفیہ اختر کی سہیلی کیا کہتی ہے‘انتظار حسین،نیوز ایکس پریس،  مورخہ ۳23مئی 2014)

یہ اس طرح کے اعتراضات ہیں جنھیں ہم غصے اور غم کی حالت میں زبان سے نکلے ہوئے جذبات سے تعبیر کر سکتے ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ ’زیرِ لب ‘ کے مطالعے کے بعد جو نتیجے اخذ کیے جاسکتے ہیں وہ دلچسپی سے خالی نہیں ہیں۔ ان خطوط میں ہندوستان کے ’گھر آنگن ‘ کی ایک وفاشعار عورت اپنی سچی لگن اورحقیقی تڑپ کے ساتھ جلوہ گرہے۔ ان میں گھریلو زندگی کا سکھ دکھ،باہمی رفاقت،شکوے شکایتیں، روٹھنا منانا، روز مرہ کی مصروفیتیں، بچوںکی شرارتیں، ان کی خوبیاں، مستقبل کے تعلق سے اندیشے، گھر کے نوکروں کی شکایتیں،صفیہ اختر کے کالج کے پروگرامس،ان کی بیماری، علاج، محبت کا فطری انداز،ہجر کی تڑپ، ازدواجی زندگی کے متنوع رنگ،اعجاز و انکسار سب کچھ موجود ہیں۔علاوہ ازیںان خطوط میں صفیہ اختر کا ادبی شعور اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں اورخطوط نگاری میں ان کی فنی مہارت بھی جلوہ گر ہوتی ہے۔

n

Dr.Shaikh Maheboob (Maheboob  Saqib )

H.No.5494, Khair Nagar

Udgir-413517 (MS)

maheboobskn@rediffmail.com

 

 


1 تبصرہ: