مخمور سعیدی کی شعری کائنات کا جائزہ پیش
کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون سے محرکات تھے جن کی وجہ سے سلطان محمد
خان مخمور سعیدی کے نام سے مشہورومعروف ہوئے۔ انسان اچانک شاعر نہیں بن جاتا اس کے
لیے مطالعہ، ماحول، شوق، تربیت اور مسلسل مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا ہی کچھ مخمور
سعیدی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ پہلا محرک یہ تھا کہ انھیں اپنے دادا اور والد جناب
احمد خان نازش سے شاعری کا ذوق ورثے میں ملا۔ گھر کا ماحول شاعرانہ تھا جس کی وجہ
سے انھوں نے چھوٹی عمر ہی میں شعر کہنے شروع کیے تھے۔ باپ کی سخت ناراضگی کے
باوجود انھوں نے شاعری کے شغف کو جاری وساری رکھا۔
دوسرا محرک شہر ٹونک(راجستھان) ہے جوادبی
لحاظ سے پہلے ہی مشہور تھا اورجہاں اختر شیرانی اور بسمل سعیدی جیسی عظیم شخصیتیں
اس وقت اردو شعروادب میں اپنا ایک مقام قائم کر چکی تھیں اور انھیں کی تربیت میں
مخمور سعیدی نے شعروادب کے فن کو نکھارنے اور سنوارنے کی کوشش کی ہے۔ اختر شیرانی
سے مخمورسعیدی کے والد کے مراسم کافی اچھے تھے۔ دونوںہم درس رہے ہیں اور جب لاہور
سے اخترشیرانی آتے تھے مخمور سعیدی کے یہاں ضرورجاتے تھے اور اپنے رسائل
’بہارستان ‘ اور ’رومان‘ جو وہ لاہور سے نکالا کرتے تھے ان کے یہاں ضرور چھوڑتے
تھے۔ بقول مخمور سعیدی ’’میں ان رسالوں کا دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کیا کرتا تھا‘‘
ان رسائل کو پڑھتے پڑھتے انھیں شاعری کا شوق پہلے سے زیادہ ہوگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ
بعد میں انھوں نے غالب،اقبال،میر، ذوق،جگر،حسرت وغیرہ کے دوادین پڑھنے شروع کیے۔
تیسرا اور آخر محرک رسالہ ’تحریک ‘ سے
وابستگی تھی۔ اس کے بعد مخمور سعیدی ایک شاعر کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔ ان کی
ابتدائی شاعری پر ’تحریک ‘ کے مدیر اور مالک جناب گوپال متل کا اثر بھی دکھائی
دیتا ہے جو اس وقت جدیدیت کا علم لے کر اکیلے کھڑے ہوگئے تھے۔
مخمور سعیدی نے اپنے والد کے کہنے پر بسمل
سعیدی کو اپنا استاد مقرر کیا۔ وہ بسمل سعیدی اور اپنے والد محترم سے علم عروض
حاصل کرچکے تھے کیونکہ مخمور پہلے ہی سے اردو کے علاوہ فارسی اور عربی سے واقف تھے
اس لیے انھیں علم عروض سیکھنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ ٹونک سے دلی آنے کے بعد
اپنے استاد کی صحبت میں رہے اور انھیں کی بدولت باقی عظیم شخصیتوں میں بھی بیٹھنے
کا موقع نصیب ہوا اور یہی وجہ تھی کہ جلد ہی ایک اچھے شاعر کی حیثیت سے سامنے
آئے۔
مخمور سعیدی ان سب محرکات کو ماننے کے
باوجود داخلی محرکات یعنی فطری ودیعت اور شوق کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ایک انٹرویو
کے دوران اس کا اعتراف خود کرتے ہیں:
’’میرے خیال سے داخلی محرکات کے تحت ہی شاعری وجود میں
آتی ہے اور شعر کہنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ بعض لوگ شوقیہ شعر کہتے ہیں تو یہ بھی
ایک شغل ہے۔ ہمارے یہاں شرفا کے کئی مشاغل تھے ان میں ایک مشغلہ شعر کہنا بھی تھا۔
جب خود نہیں کہتے تھے تو کسی سے کہلواتے تھے اور مشاعروں اور نشستوں میں سنایا
کرتے تھے۔‘‘
(راشدانورراشد ’مخمورسعیدی سے گفتگو‘ مشمولہ ’بھیڑ
میں اکیلا‘ ص270)
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات عیاں ہوجاتی
ہے کہ صرف گھر کا ماحول اور صحبت شاعری کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ بذات خود شوق
ہونا بہت ضروری ہے جو مخمور سعیدی میں بدرجۂ اتم موجود تھا۔ یہی وہ محرکات تھے جن
کی وجہ سے مخمور ایک اچھے شاعر بن کر سامنے آئے اور آج اپنی شاعری کی بدولت
لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔
یوں تو شاعر اپنا کلیات،دیوان اور شعری
مجموعے کی شروعات حمد، نعت،منقبت وغیرہ سے کرتے ہیں لیکن مخمور سعیدی نے اس میں
بھی غالب کی طرح ایک الگ ہی انداز سے کام لیا ہے۔ انھوں نے براہِ راست اپنی شاعری
کا آغاز غزل اور نظم سے کیا۔
مخمور سعیدی کا پہلا شعری مجموعہ ’گفتنی‘
(1960) کو منظر عام پر آیا۔ دوسرا مجموعہ ’سیہ برسفید‘ (1969) میں شائع ہوا اور
بعد میں ’آواز کا جسم‘ (1972)، ’سب رنگ‘ (1975)،
’واحد متکلم ‘(1979)، ’آتے جاتے لمحوں کی صدا‘ (1979)، ’بانس کے جنگلوں سے
گزرتی ہوا ‘ (1983)، ’دیوارودر کے درمیاں‘ (1994)
اور آخری مجموعہ ’راستا اور میں ‘(2003) میںمنظر عام پر آئے ہیں۔
مخمور سعیدی کا کلیات ’عمر گزشتہ کا حساب‘
دوجلدوں پر مشتمل 2000 کو منظر عام پر آیا ہے۔ اس کلیات میں آٹھ مجموعے شامل
ہیں۔ آخری مجموعہ ’راستا اور میں ‘اس میں شامل نہیں ہے۔ اس کی پہلی جلد میں غزلیں
اور دوسری جلد میں نظمیں ہیں۔ پہلی جلد میں تقریباً 296 غزلیں شامل ہیں اور مجموعہ
’راستا اور میں ‘ میں 60 غزلیں ہیں۔ کل ملا کر ان کے یہاں 356 غزلیں ملتی ہیں۔
مخمور سعیدی نے اپنی غزل گوئی کی شروعات
انیسویں صدی کی پانچویں دہائی کے آخر میں کی ہے اور یہ غزل کی روایت رہی ہے کہ جب
بھی کوئی شاعر شاعری کی شروعات کرتا ہے تو پہلے حسن وعشق جیسے موضوعات سے کام لیتا
ہے۔ ایساہی کچھ مخمور کے پہلے مجموعہ ’گفتنی‘ میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس
مجموعے کی پہلی غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
قدم قدم پہ نگاہوں کی جستجو تیری
نفس نفس میں سمائی ہے آرزو تیری
نہ پوچھ آہ کچھ ان بازوؤں کی ویرانی
کھلی نہ جن پہ کبھی زلفِ مشک بو تیری
مخمور کو اپنے ماضی سے بے انتہا محبت تھی
لیکن اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ وہ روایت پسند تھے۔ وہ ماضی کوحال کے آگے مائل ہونے
نہیں دیتے۔لیکن اپنے ماضی سے محبت اوراپنی تہذیب سے دور جانے کاغم انھیں ہمیشہ رہا
ہے۔ رشید حسن خاںنے بھی مخمورکی شاعری میں اس کی یوں نشاندہی کی ہے وہ لکھتے ہیں:
’’اس مخمور کو ماضی سے محبت ہے۔ اس کے مٹنے کا غم بھی ہے
وہ اس پر گہرے دکھ کا اظہار بھی کرتا ہے لیکن وہ حال سے بیزار نہیں ہے، وہ زندگی
کے نئے آداب کو جانتا ہے اور ان پر اصرار بھی کرتا ہے اور جہاں بھی وہ یہ محسوس
کرتا ہے کہ ماضی حال کے راستے کا پتھر بن جاتا ہے وہاں اس سے واضح اختلاف کا اظہار
کرتا ہے۔‘‘
(رشید حسن خان، بحوالہ شین،کاف نظام ’مخمورسعیدی ایک
کولاژ‘ ایوان اردو،دہلی(جلد33)شمارہ بارہ 2010،ص10)
مخمور سعیدی کی شاعری اگرچہ ان کے ذاتی
تجربات ومشاہدات اور ذہنی وجذباتی کیفیات کی دین ہے مگر اس میں جگ بیتی بھی ہے۔
بقول مخمور ’’ میں سماج میںزندہ ہوں اور سماج مجھ سے زندہ ہے۔‘‘ یعنی جس طرح سے
میر کی شاعری کو پڑھنے کے بعد ہمیں میر کے غم اپنے معلوم ہونے لگتے ہیں اسی طرح
مخمور کی شاعری کو پڑھنے کے بعدایسا ہی تاثر پیدا ہوجاتا ہے۔
مخمور کو اپنے شہر کے حالات سے آگہی
تھی۔ملک تو آزاد ہوگیا تھا لیکن جاتے جاتے ایک اور الم چھوڑ گیا تھا یعنی ملک
تقسیم ہوگیا تھا جس کے باعث فرقہ وارانہ فسادات،جبر لوٹ مار، خون ریزی انتہا کو
پہنچ چکی تھی۔ اس وقت ایک شاعر کے خاموش رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ چند
اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
یہ ڈر ہے یہاں اب کھیتیوں میں بس موت ہی اگ
سکے گی
زمینوں میں لاشوں کوبونے کا منظر میرے سامنے
ہے
کسی نے پھونک نہ دی ہوں جو بستیاں تھیں ادھر
ندی کے پار یہ اٹھتا ہوا دھواں کیا ہے
کچھ لوگ جو پھر رہے ہیں در در
کس نے انھیں کردیا ہے بے گھر
یہ چند اشعارہیں جواس دور کی عکاسی کرتے ہیں
کہ کس طرح سے لوگوں کو بے گھر کردیاگیا تھااور بستیوں کی بستیاں کیسے راکھ کے ڈھیر
میں منتقل کردی گئیں تھیں۔ انسانی زندگی بے وقعت ہوگئی تھی جہاں مخمور رمزیت اور
اشاریت کے انداز اختیار کرتے ہیں ؎
ہمارے شہراے مخمور مقتل بنتے جاتے ہیں
بدل کربھیس چنگیز اور نادر لوٹ آئے ہیں
شبنم کی جگہ آگ کی بارش ہے فضامیں
خوابوں کی یہ بستی تھی چمن زار،مگراب!
مخمور کو اس کا علم ہوگیا تھا کہ موجودہ
صورتِ حال تباہ کاری کی صورت حال ہے، صارفیت نے اپنی جڑوں کو بہت زیادہ مضبوط کیا
ہے، انسان کے چاروں طرف مسائل ومشکلات کی یلغار ہے۔ اب صرف انسان کواپنا غم اور
تنہائی پریشان نہیں کرتی ہے بلکہ انسان ایک دوسرے سے کٹ گیا ہے۔ ماضی کا وہ بھائی
چارہ،ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آنا، انسانیت اورمشترکہ تہذیب وغیرہ سے اب
موجودہ انسان کافی دور نظر آتا ہے۔ شاعر کو بھی ان سب کا بے حد رنج وملال ہے
انھیں یہ غم کھائے جارہا تھا کہ آخر سماج میں یہ بکھراؤ کیوں آگیا ہے،انھیں
رشتوں کی پامالی، خاندانوں کا شیرازہ بکھر جانے پر بے حد افسوس ہورہا ہے اور انھیں
چیزوں کا کرب مخمور کے ان اشعار سے واضح ہوجاتا ہے ؎
کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں
گھر کہیں گم ہوگیا دیوارودرکے درمیاں
پھیلتی جاتی تھیں شہروں میں عجب ویرانیاں
ٹوٹتے جاتے تھے سب رشتے گھروں کے درمیاں
دونوں طرف ٹوٹتے رشتوں کی گھٹن ہے
آنگن میں کھڑی ہوگئی دیوار،مگر اب!
مخمور سعیدی کو دوزندگیوں کا تجربہ تھا
گاؤں کا بھی اور شہر کا بھی۔ جس سماج میں مخمور نے آنکھیں کھولی اور جہاں ان کا
بچپن گزرا، وہاں بھی اب رشتوں میں دراڑیں پڑگئی ہیں اور جس شہر یعنی دلی میں وہ
رہتے تھے وہاں بھی کوئی کسی کا نہیں تھا۔ اس طرح سے انھیںزندگی اجنبی لگنے لگی تھی
جس کی وجہ سے وہ باربار ماضی میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔انھیں ماضی سے بے حد عقیدت
تھی بقول رشید حسن خاں:
’’مخمور سعیدی کی شاعری اپنے عہد سے زیادہ شاعر کے احساس
اور اس کے ماضی وحال کی آئینہ دار ہے۔ یہ اس کے ذہنی سفر کی داستان ہے۔ اس کی
محرومیوں کی کہانی ہے اور اس کے عقیدوں کی ترجمانی ہے... اس کی شاعری میں اس کے
ماضی وحال کو دیکھ سکتے ہیں۔ جو بدلتے ہوئے حالات کے داستان سراہیں۔ اس میں شخص کا
فسانہ زیادہ اور دنیا کا افسانہ اس کے ذیل میں بیان ہوا ہے یہ خیالات کی داستا ںکم
ہے تاثرات کی کہانی زیادہ ہے۔‘‘
(رشیدحسن خان ’ذہن کاسفر‘مشمولہ ’مخمورسعیدی ہمہ جہت فن
کار‘ ص40)
مخمور سعیدی کی شاعری میں راستا، شہر،سفر،
گھر، وقت جیسے بلیغ استعارے اور علامتوں کا استعمال ہوا ہے۔ راستا اور وقت علامت
ہے زندگی، جو دریا کی طرح بہتی ہے، کبھی تھمنے کا نام نہیں لیتی ہے۔ سفر امید اور
یقین کا استعارہ ہے،شہر موجودہ حالات کی علامت ہے اور گھر سماجی بکھراؤ اور ماضی
کا استعارہ ہے ؎
ماندگی کا کٹھن مرحلہ اور میں
طے نہ ہوتا ہوا راستا اور میں
اک رستہ طے ہوجائے تو کتنے رستے دیں آواز
ختم سفر کی حسرت لے کر منزل بھٹکوں میں
وقت ہر راہ میں دیوار کھڑی کردے گا
وقت کی قید سے گھبراکے جدھر جاؤگے
راستے شہر کے سب بند ہوئے ہیں تم پر
گھر سے نکلو گے تو مخمور کدھر جاؤ گے
مخمور کو زبان وبیان پر باضابطہ دسترس تھی۔
انھوں نے کبھی جدیدیت کی یلغار میں آکرمشکل ومبہم علامتیں اور استعارات استعمال
نہیں کیے بلکہ صاف اور سلیس اور بامحاورہ الفاظ میں اپنی بات کو قارئین تک پہچانے
کی کوشش کی ہے۔
مخمور کی غزل اردو غزل میں اپنا ایک منفرد
مقام رکھتی ہے۔ جہاں انھوں نے ایک طرف روایت کی قدر کی ہے وہیں دوسری طرف ترقی
پسند اور جدیدیت کے اہم پہلو کو بھی سراہا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ایک توازن
برقرار رکھا ہے۔ نہ کسی تحریک کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کی اورنہ کوئی علیٰحدہ
تحریک یا انجمن بنانے کی کوشش کی۔
مخمور نے کلاسکیت، ترقی پسند،جدیدیت اور
مابعدجدیدیت کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی ہے اور کافی حد تک اس میں وہ کامیاب
نظر آتے ہیں۔بقول ملکہ نسیم:
’’مخمور سعیدی کی غزل کلاسکی طرزِ ادا کا اقرار بھی ہے اور
اقرار اور انحراف کے حسن ویقین کا اظہار بھی۔ان کی غزل اپنے عہد کے تفکر کی پاسدار
ہے لیکن اسے کسی عہد تک محدود کردینا سخت ناانصافی ہوگی ان کے شعر کی مجموعی تاثیر
آپ بیتی اور جگ بیتی میں کوئی حد فاصل قائم نہیں کرتی۔‘‘
(ملکہ نسیم ’مخمورسعیدی اور ان کافن‘مشمولہ
’بھیڑمیںاکیلا‘ص216)
مخمور کی غزلوں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ
ان کی غزلیں عام سے عام قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں دوسری طرف دلی جذبات
واحساسات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنی غزلوں کے ذریعے ایسا راستہ ہموار کیا
ہے جہاں سے آگے ہمارے شاعروں کو چلنے میں آسانی ہوتی ہے اور انسان کو
نامساعدحالات میں بھی جینے کا حوصلہ مل جاتا ہے۔مخمور کا کہنا بالکل صحیح معلوم
ہوتا ہے کہ ؎
عمر کتابوں کی مخمور سواہے ہم سے
ہم نہ رہیں گے، حرف ہمارا رہ جائے گا
مخمورسعیدی نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم کو بھی
وسیلہ اظہار بنایا۔ حالاں کہ یہ ایک بہت مشکل کام ہے کہ شاعرغزل اورنظم میں یکساں
مقبول ومشہور ہو۔ مخمورکے تقریباً ہر مجموعے میںغزلوں کے ساتھ ساتھ نظمیںبھی خاصی
تعداد میںملتی ہیں۔ ان کے کلیات’عمر گزشتہ کا حساب‘ میں تقریباً 187 نظمیں شامل
ہیں۔جن میں پابند نظمیں ہونے کے ساتھ ساتھ آزاد، معریٰ اور نثری نظمیں بھی شامل
ہیں۔ جس طرح سے مخمور نے غزل میں ایک نیا انداز اختیار کیا ہے اسی طرح انھوں نے
نظم میں اپنی ایک الگ راہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے ان کی اسی
خصوصیات پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے:
’’مخمور سعیدی کے بارے میں میرا خیال تھا کہ ان کی غزل میں
جوپختہ کارانہ رنگ روپ، مفکرانہ ٹھہراؤ اوراستعاراتی کیفیت ہے وہ ان کی نظم میں
نہیں۔ ’دیوار و در کے درمیاں‘ نے میرا خیال غلط ثابت کردیا ہے۔ مخمور سعیدی کی نظم
میںاب وہ ارتکاز، کم گوئی میں کثیرالمعنویت اورشدت احساس کے ساتھ ساتھ بالواستگی
نظر آنے لگتی ہے جو جدید نظم گو کوگذشتہ نسل کی نظم سے الگ کرتی ہے۔‘‘
( شمس
الرحمن فاروقی’مفکرانہ ٹھہراؤ اوراستعاراتی کیفیت‘(کلیات عمر گزشتہ کا حساب)ص 327)
مخمور سعیدی کی نظمیہ شاعری میں ’لفظ‘کو ایک
خاص مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انھوں نے ’لفظ‘ کے تخلیقی اظہار کو مختلف صورتوں میں پیش
کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجموعہ’آواز کا جسم‘ کے منظوم پیش لفظ میں انھوں نے لفظ کی
اہمیت کو اس طرح سے اجاگر کیا ہے ؎
لفظ آواز کا جسم ہے/ لفظ کو اپنے احساس کے
گرم ہونٹوں سے چھو/ ذہن کی نرم بانہوں میں بھراور محسوس کر/لمس آوازکا/ قرب خاموش
لمحوں کے دمساز کا
مخمور سعیدی جس طرح سے غزل میں روایت کی قدر
کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نظم میں بھی انھوں نے مٹتی ہوئی تہذیب،رشتوں کا ٹوٹنا،
گھریلوحالات اورسماجی تبدیلیاں جیسے موضوعات کو پیش کیا ہے۔ ان کی ایک علامتی نظم
’لفظوں کا المیہ‘کاایک بند مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ؎
نئے نئے لفظ شور کرتے بڑھے چلے آرہے ہیںاور
میں/ ہجوم پر شور میں،اکیلا/ یہ دیکھتا ہوں/ جہاں جہاں کل پرانے لفظوں نے ڈال رکھے
تھے اپنے ڈیرے/ وہاں نئے لفظ آکے آباد ہوگئے ہیں/ مکاں اگرچہ اجڑنہ پائے،مکین
برباد ہوگئے ہیں/ پرانے لفظوں کے ساتھ ہی اک پرانی دنیابھی کھوگئی ہے/ خموشیوں کے
سیاہ زنداں میں جاکے روپوش ہوگئی ہے
اس نظم میں ایک طرف سے لفظوں کا ماتم دکھائی
دے رہا ہے اور دوسری طرف ماضی کا مٹ جانا۔ شاعرکو اس کا احساس ہوگیا تھا کہ ہمارا
ماضی ہم سے دورہوتا چلاجارہا ہے اور نئے رنگ وڈھنگ بہت تیزی سے ہماری زندگی میں
شامل ہورہے ہیں۔
مخمور کی ابتدائی نظموں میں علامہ اقبال،فیض،مجید
امجداور خاص طور اخترالایمان کا اثر صاف جھلکتا ہے۔
مخمور سعیدی نے اپنی زندگی میں بہت سے
واقعات وحادثات دیکھے ہیں۔ دلی آنے کے بعد انھیں بہت سارے ایسے حالات کاسامناکرنا
پڑا جن کا اثران کی شاعری پر صاف دکھائی دیتا ہے۔ نظم ’آخری بس‘ ایک بہترین نظم
ہے جس میں مخمور نے ایک انسان کے احساسات کی تصویر کشی کی ہے جو گاؤں سے شہر کسب
معاش کے لیے آجاتا ہے لیکن یہاں رہ کروہ اپنے ماضی سے کٹ جاتا ہے۔ اپنے اسلاف سے
بہت دور چلاجاتا ہے۔پہلے پہل انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کے ساتھ
آباواجداد کے عقیدے ہیں لیکن وقت گزرجانے کے بعد ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا ہے۔
اس لیے شاعر گاؤں سے شہر آنے والے ہر مسافرکو ترغیب دیتا ہے کہ واپس اپنے اسلاف
کے پاس چلے جاؤ۔ یہاں آپ اپنی میراث سے بہت دور ہوجاؤگے۔ وہاں ہی آپ کوئی
چھوٹا ساکام کرلوجہاں پرآپ اپنے اسلاف کی اقدار اور عقائد کو آنے والی نسلوںکے
لیے بچائے رکھ سکواور شاعرآخرمیں بس کاوقت بتاتاہے اورآخری بس میں جانے
کوکہتاہے،پیش ہے نظم آخری بس کا ایک بند
؎
لیکن میرے دل کے کسی گوشے میں ابھی تک/
بوسیدہ بے کارعقیدے/پرکھوںکی میراث پرانی/ بچی کھچی کچھ پڑی ہوئی ہے/ اس کی حفاظت
کی خاطر تم سے کہتاہوں/ تم واپس جاناچاہوتو/ گیارہ بج کر بیس منٹ پرآخری بس ہے
اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مخمور کوماضی سے
اپنے اسلاف کی اقداراورعقائد سے کس قدر والہانہ محبت تھی۔
مخمور کے یہاں رومانی نظموں کی تعداد خاصی
کم ہیں۔ایسالگتا ہے کہ حسن وعشق کی داستان مخمور کی نظمیہ شاعری میں بس آٹے میں
نمک کے برابر ہے۔ ان کی بہترین رومانی نظموں میں ’’خاک وباد سے آگے، لمحے کا حسن،
شکست، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔نظم ’شکست ‘ سے چندشعربطورمثال پیش ہیں ؎
ترا ہنستا ہوا چہرہ/ غزل گاتی ہوئی آنکھیں/
میں اس چہرے کو جب ہاتھوں میں لے کر چوم لیتا ہوں/ تولگتا ہے/ اترآتی کنواری
روشنی صبح ازل کی/ میرے سینے میں…
مختصر یہی ہے کہ مخمور سعیدی نے منہ کا
ذائقہ بدلنے کے لیے نظمیں نہیںکہیں بلکہ ان کا تخلیقی مزاج نظم کے فطری آہنگ سے
مانوس نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ غزلیہ شاعری کے ساتھ ساتھ انھوں نے نظمیہ شاعری
کو یکساں سنجیدگی اور احتیاط کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ہے۔
مخمور نے غزل اور نظم کے علاوہ دوسری شعری
اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ انھوں نے قطعہ، رباعی، دوہے، وغیرہ میںبھی اپنی
صلاحیتوںکے جوہر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ جس میں وہ کسی حدتک کامیاب بھی نظر آتے
ہیں۔
مخمور سعیدی کی شاعری کا جائزہ لینے سے یہ
بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ان کی شاعری کا کینوس بہت بڑا ہے۔ جس میں انھوں نے روزمرہ
کے حالات وواقعات کو بہترین انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے زندگی کا
مطالعہ کافی باریک بینی سے کیا تھا اور اپنے جذبات واحساسات کی عکاسی جس انداز سے
کی تھی اس میں وہ کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔زندگی نے انھیں کافی مایوس کیا
ہے لیکن پھر بھی ان کے یہاں جینے کاحوصلہ ملتا ہے۔زندگی سے مایوسی کے باوجود آگے
بڑھانے کاحوصلہ وہ اپنے قاری کوبھی دیناچاہتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور شاعری کے
مطالعے سے یہی اندازہ ہوتاہے کہ مخمورسعیدی نہ صرف ایک اچھی شخصیت کے مالک تھے
بلکہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔
Irfan Rasheed
Dept of Urdu
Kashmir University
Dargah Hazrat Bal
Srinagar - 190006
Tel.: 9622701103
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں