سفر
نامے کے تکنیکی لوازم
ضیا
الدین
انسانی زندگی کے ہمہ جہت او
ربوقلموں پہلوؤں سے صحیح معنوں میں اگر روشناس ہونا مقصود ہوتو سفر اختیار کیجیے۔
حیات و کائنات کے سربستہ رازوں پر انسان اسی کے ذریعے کمند ڈالتا ہے، جس سے انسانی
سماج کی بقا کے راستے کھلتے ہیں انسان خود اپنی بقا کو اسی سے مستحکم کرتا ہے۔
چنانچہ انسانی زندگی کی ترقی
کے لیے سفر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ سفر چاہے دنیاوی ہو یا باطنی۔ جتنی سچ اور
اہم بات یہ ہے اتنی ہی سچ اور اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ سفر کرنا ہر انسان کے بس کی
بات نہیں۔ اس کے لیے جہاں جسمانی طاقت، سفر کے اخراجات اور ذمے داریوں سے فراغت کی
ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی مناسبت ماحول اور رسل و رسائل کی سہولیات کی بھی ’’سفر کرنا
ہر انسان کے بس کی بات نہیں‘‘ اسی حقیقت نے سفرناموں کی تحریر کے لیے جو از بلکہ
قوی جواز فراہم کیا او ران لوگوں کے لیے بھی ان تجربات میں شریک ہونے کے امکانات
پیدا کردیے جن میں بصورت دیگر وہ کسی طرح بھی نہ تو شریک ہوسکتے تھے نہ اس علم سے
بہرہ ور جو باقاعدہ سفر کرنے والے کو حاصل ہوتا۔ چنانچہ جس طرح خط کو آدھی ملاقات
قرار دیا جاتا ہے اسی طرح سفرنامے کے ذریعے کسی کے تجربات میں شریک ہونے کو آدھا
سفر گردانا جاسکتا ہے۔ میرا خیال ہے سفرنامے کی اہمیت کا اس سے بہتر اور کوئی ثبوت
نہیں ہوسکتا۔
ایک زمانہ وہ تھا جب نہ تو سفر
کرنا آسان تھا اور نہ سفر کی روداد کو دوسروں تک پہنچانا۔ آج جہاں ایک طرف رسل و
رسائل کی سہولیات حاصل ہوگئی ہیں وہاں سفر کی روداد کو دوسروں تک پہنچانا بھی
اشاعت و طباعت کی سہولیات کی وجہ سے آسان ہوگیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جانہ ہوگا
کہ سفرناموں کی تحریر کی آج جس قدر افادیت ہے دوچار صدی پہلے ہرگز نہ تھی۔ شاید
اسی وجہ سے اب سفرناموں کی اشاعت کی رفتار بھی پہلے کے مقابلے میں بہت تیز ہوگئی
ہے۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
طباعت و اشاعت کی جس قدر زیادہ سہولیتیں میسر آتی ہیں انسانی ذہن نئے نئے تجربے
شروع کرتا ہے اور وہی عمل جو ابتدا میں سیدھا سادہ ہوتا ہے وہ پیچیدہ ہوتے ہوئے
ایک آرٹ، ایک فن کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ یہ اسی حقیقت کا مظہر ہے کہ سفرنامہ
اب ادب میں ایک صنف کا درجہ حاصل کرگیا ہے ۔ جس کے اپنے تکنیکی لوازم ہیں جن کی
پیروی کرنا ہر سفرنامہ نگار کے لیے ضروری ہوگیا ہے پیچیدگی کا یہ عالم ہے کہ آج
سفرنامہ، ایک کہانی بھی ہے، ایک روداد بھی، سوانح بھی، اور ایک تاریخ بھی۔ جب تک سفرنامہ
نگار ایک کہانی کار ہونے کے ساتھ ہی ساتھ سوانح نگار اور تاریخ نویس نہیں ہے،جب تک
وہ ان اصناف کے فنی لوازم سے آشنا ہونے کے ساتھ ہی ساتھ ان کے امتیازات کو بھی
نہیں سمجھتا وہ اچھا سفرنامہ نگار ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ:
’’سفرنامہ
لکھنا تو آسان ہے اس کا حق ادا کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت کم
سفرنامے ایسے ہیں جنھیں دادوتحسین حاصل ہوسکی ہے۔ ایک بامعنی اور پُرلطف سفرنامہ
تحریر کرنے کے لیے مؤلف میں بہت سی خصوصیات کا ہونا لازمی ہے۔ مثلاً جہاں اس کا
خود ادیب و فن کار ہونا ضروری ہے وہیں اس کے پاس اس نظر کا ہونا بھی اہم ہے جو
قدرت نے کسی مصوّر کو عطا کی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کا صرف ادیب ہی نہیں مصوّر ہونا
بھی ضروری ہے۔ اسی طرح اس کے پاس تاریخی شعور اور عمرانی و ثقافتی نظر کا ہونا بھی
ضروری ہے۔ وہ پھولوں، پھلوں، پتوں کا پارکھ اور بدلتی ہوئی ہواؤں، اُمڈتی ہوئی
لہروں کا نباض ہوتا ہے۔ وہ قوموں کے دلوں کی دھڑکنیں جانتا ہے۔ ان کے محسوسات و
مدرکات کو پہچانتا ہے۔ ان کے افکار و خیالات ، ایقان و اعتقادات کے لمس کو محسوس
کرتا ہے۔ اس لیے جب وہ کسی خطّے سے گزرتا ہے تو وہاں کی ہر ایک شے کی تصویریں
اتارتا چلا جاتا ہے۔ ذہنی خصوصیات، ماحولیاتی عناصر، تہذیبی و تمدنی آثار،
دریاؤں، وادیوں، جھرنوں کے نغمے، آداب و اطوار، رنگ و نسل، دین دھرم، لباس و
خوراک، پیداوار ومصنوعات، افکار و خیالات ، رسومات و تیقنات، توہمات واساطیر وغیرہ
سب کا ذکر کرتا جاتا ہے اور اس طرح وہ صرف سفرنامہ نہیں ایک تاریخی، ثقافتی،
عمرانیاتی، مذہبی نظریہ، ماحولیاتی، موسمیاتی حیواناتی و نباتاتی تاریخ بھی مرتب
کرتا ہے۔ انسانوں کے ایک مخصوص گروہ کے تشخص کو ابھارتا اور انھیں عالمی تاریخ کا
حصہ بناتا ہے۔ اس کا تخلیق کردہ سفرنامہ ایک ادبی فن پارہ بھی ہوتا ہے ایک علمی و
معلوماتی صحیفہ بھی، ایک تاریخی و عمرانیاتی دستاویز بھی اور ایک انسانی گروہ کے
سیاسی سفر کی روداد بھی۔‘‘(1)
فنی اعتبار سے ایک اچھا اور
کامیاب سفرنامہ جن لوازم کا تقاضا کرتا ہے انھیں یوں پیش کیا جاسکتا ہے:
سیاح کے اپنے ہاتھ کی تحریر:
حقیقی سفرنامہ اسی تحریر کو
قرار دیا جاسکتا ہے جو سفر کرنے والے شخص کے اپنے ہاتھ کی تحریر ہو۔ کسی اور کے
ہاتھ کا لکھا ہوا سفرنامہ چاہے سفیر نے ہی محرر کو اپنے سامنے بٹھا کر اور خود بول
کر ان سے لکھوایا ہو سفرنامہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیوں کہ یہ ایک واضح حقیقت ہے
کہ مصنف جب خود اپنے ہاتھ میں قلم لے کر اس سے گفتگو کرتا ہے تو وہ اسے ایسے ایسے
رازوں سے آشنا کرتا ہے جو کسی دوسرے انسان کے سامنے وہ زبانی طور پر بیان نہیں
کرسکتا۔
کسی دوسرے شخص سے لکھوائے جانے
والے سفرنامے کی اہمیت ایک اور وجہ سے بھی کم ہوجاتی ہے۔ سفر کے دوران بہت سے
تجربات ایسے بھی حاصل ہوتے ہیں جو نتائج اخذ کرنے سے پہلے غوروخوض کا تقاضا کرتے
ہیں۔ لکھواتے وقت وہ باتیں ذہن سے محو ہوجاتی ہیں یا پھر ان کی طرف گہرائی سے
سوچنے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے وہ اہم نکات محض چھونے کی حد تک بیان ہوپاتے
ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اہلِ دانش نے اچھی تحریر کے لیے تنہائی کو لازمی
شرط قرار دیا ہے۔ ورڈز ورتھ نے تو اسے اچھی شاعری کی پہچان ہی قرار دے دیا ہے۔ وہ
کہتا ہے:
"Poetry
is the spontaneous overflow of powerful feelings recollected in tranquality/"
.2 سفرنامے
کی مختلف ہئتیں:
سفرنامے جن مختلف اصناف کے روپ
میں لکھے گئے ہیں ان میں ڈائری، خط، ٹیبل ٹاک، جرنل، رپورتاژ، یادداشت اور
روزنامچہ قابل ذکر ہیں۔ یہ سبھی ہئتیں اپنی اپنی جگہ منفرد ادبی اصناف کا درجہ بھی
رکھتی ہیں جس کی وجہ سے ایسے سفرنامے مختلف ادبی اصناف کی اقدار کا مجموعہ بن گئے
ہیں جن کو انھیں سمجھنے اور تجزیہ کرتے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ہمیں ان اصناف
میں لکھے گئے سفرناموں کو سفرناموں کے طور پر بھی قبول کرنا ہوگا او ران کی مخصوص
ہئیت کے طور پر بھی۔ مثلاً ڈائری کی شکل میں لکھا گیا سفرنامہ وسیع معنوں میں
سفرنامہ بھی ہوگا اور ڈائری بھی۔ اس کا تجزیہ کرتے وقت اسے سفرنامے کے طور پر بھی
دیکھنا ہوگا اور ڈائری کے طور پر بھی۔ مجھے ان لوگوں سے قطعی اتفاق نہیں جو ان
شکلوں میں لکھے سفرناموں کو سفرنامے کی حدود سے قطعی خارج قرار دیتے ہیں۔
.3 خوب سے
خوب تر کی تلاش:
سفرنامہ پڑھنے سے قاری کو نہ
صرف زندگی کی بوقلمونی اور وسعت کا احساس ہونا چاہیے بلکہ اس کی معنوی جہتوں تک
رسائی حاصل کرنے میں مدد بھی ملنی چاہیے۔ زندگی محض سانس لینے کا نام نہیں نہ یہ
محض روٹی کھانے اور پیٹ بھرنے کا نام ہے۔ آدمی جب سفرکرتا ہے تو وہ اپنے ساتھ
اپنا کلچر، اپنا تمدن، اپنی روائتیں اپنے آداب و اطوار، اپنے احساسات و مدرکات
اور افکار و نظریات بھی لے کر چلتا ہے۔ نئے لوگوں سے ملتے اور نئی زمینوں سے گزرتے
وقت اسے اپنے دنیاوی و دینوی وجود پر ازسرِ نو نظر ڈالنے کا موقع ملتا ہے جو اس
میں احساسِ تفاخر بھی پیدا کرسکتا ہے او راحساسِ ندامت بھی۔ دونوں صورتوں میں
نتیجہ سودمند ہی ہوتا ہے۔ خود کو بہتر یا خوب سے خوب تر بنانے کی تحریک ملتی
ہے۔دوسروں کو سمجھنے کے ساتھ ہی ساتھ خود کوسمجھنے بلکہ بہتر طور پر سمجھنے کی
صورت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے ہمارے کچھ ناقدین سفر کو خوب سے خوب تر کی تلاش بھی
قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ سفرنامہ خوب سے خوب تر کے اس سفر میں اگر قاری کی معاونت
نہیں کرتا تو اسے تحریر کرنا بے سود ہے۔ دنیا اپنے سیاسی و سماجی، علمی و ادبی او
رمعاشی و اقتصادی طور طریقوں میں جتنی بھی بہتری آج تک لاسکی ہے وہ قوموں کے اسی
سفر کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ پہلے قومیں ایک دوسرے ملک تک جاکر، خواہ یہ جانا ان
پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ہی ہوا ہو، یہ کام کرتی تھیں۔ مثلاً انگریزوں یا دوسری
یورپی اقوام کے ہندوستان پر غلبے سے ہمیں بہت سے نقصانات بھی اٹھانے پڑے پر بہت سے
فائدے بھی حاصل ہوئے۔ بجلی، ٹیلی فون، گراموفون، ریل، کیمرہ، وائرلیس او ربہت ساری
دوسری سائنسی برکتوں سے ہم انھی کے زمانے میں متعارف ہوئے۔ جاگیردارانہ اور سامنتی
نظام سے جمہوریت تک کے سفر کا سلسلہ اسی زمانے میں شروع ہوا۔ اب زمانہ گلوبلائزیشن
کا ہے۔ میڈیا نے دنیا کو ایک گاؤں میں بدل دیا ہے۔ اب یہ سفر میڈیا کے ذریعے ممکن
ہوتا ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم اور اخبار کے ذریعے ہمیں چشم زدن میں ہر نئی
تحقیق، ایجاد اور پیش رفت کا پتا چلتا ہے او رہم اسی راہ کو اختیار کرتے چلے جاتے
ہیں۔ یہی کام سفرنامے کو بھی کرنا چاہیے۔
.4 گہرائی و
تفاصیل:
یہ بات صحیح ہے کہ کسی ایک
سفرنامے سے ہم ہر طرح کی معلومات حاصل ہوجانے کی توقع نہیں کرسکتے۔ کیونکہ مسافر
سفر کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے اختیار کرتا ہے۔ یہ مقصد محض سیروسیاحت بھی
ہوسکتا ہے یا پھر تجارت، تعلیم و تربیت، تلاشِ روزگار، سیمیناریا کانفرنس میں
شرکت، تمدنی و سیاسی لین دین وغیرہ۔ ایسے درجنوں مقاصد کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔
کسی ایک سفر کے دوران مسافر ان سبھی مقاصد کو نہ تو حاصل کرسکتا ہے او رنہ اس کی
ضرورت ہی ہوتی ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ سفر جس مقصد کے لیے کیا گیا ہو اس کی
ساری تفصیلات پوری گہرائی کے ساتھ آپ کے سفرنامے میں موجود ہونی چاہئیں۔ اگر ایسا
نہیں ہے تو آپ کی کوشش اور محنت قاری کے لیے تضیع اوقات کا باعث ہوںگی۔ اس سے اگر
روشنی حاصل نہیں ہوتی اور ہمیں اپنی کمیوں کو دور کرنے میں مدد نہیں ملتی تو
سفرنامہ بے کار ہے۔ مثلاً آپ اگر کسی بین الاقوامی کانفرنس یا سیمینار میں شریک
ہونے کے لیے کسی بیرونی ملک میں گئے ہیں اور واپسی پر آپ اپنے تجربات کو سفرنامے
کا روپ دیتے ہیں تو اس میں کانفرنس یا سیمینار کے موضوع کے بارے میں جتنے نکات پیش
کیے گئے ہیں اور جن نکات پر بحثیں ہوئی ہیں ان حضرات کے ناموں کے ساتھ درج ہونی
چاہئیں جنھوں نے اپنے مقالوں میں یا مباحث میں حصہ لیتے ہوئے انھیں پیش کیا ہے۔ مجموعی اعتبار سے کانفرنس یا سیمینار نے
کیا نتائج مخصوص موضوع کے بارے میں اخذ کیے ہیں ان کی تفصیلات پوری مصروفیت کے
ساتھ درج ہونی چاہیے تاکہ قاری کو بھی بصیرت حاصل ہوسکے اور وہ سفیر کی سیاحت میں
پوری یک سوئی کے ساتھ شرکت کرسکے۔
.5 اسالیب:
جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ
سفرنامہ ڈائری کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے او رخطوط، رپورتاژ یادداشت اور روزنامچے
کی صورت میں بھی تو پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا کوئی ایک اسلوب ہوگا یا
ہوسکتا ہے۔ وہ ان اسالیب کو الگ الگ بھی برت سکتا ہے اور مجموعی اعتبار سے بھی۔
کسی ایک سفرنامے میں اوپر پیش کی گئی اصناف میں سے کچھ ہئیتوں کو استعمال میں لاکر
سفرنامے میں دلچسپی کے سامان پیدا کرسکتا ہے۔ البتہ وہ اپنا سفرنامہ چاہے کسی بھی
صورت میں لکھے بیانیہ کے بغیر اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی، اگرچہ منہ کا مزا
بدلنے کے لیے وہ کبھی کبھی بیانیہ کے ساتھ ساتھ ڈرامائی اسلوب بھی برت لیتا ہے۔
تاہم اس کا بنیادی اسلوب بیانیہ ہی ہے۔ منظوم سفرناموں میں بیانیہ کے ساتھ ساتھ
شعری محاسن کا بھی التزام کیا جاتا ہے جس سے ان کی قدروقیمت بڑھ جاتی ہے اور وہ
شان پیدا ہوتی ہے جو انھیں تخلیقی ادب کے دائرے میں لے آتی ہے۔ سفرنامے میں
تخلیقی جوہر پیدا کرنا برا نہیں ہے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے مبالغے سے اجتناب ضروری
ہے کیونکہ مبالغہ سفرنامے کے لیے موت کے مترادف ہے۔ شاعر چونکہ مبالغے سے بچ نہیں
سکتا اس لیے سفرنامے کے لیے نثری اسالیب کو ہی بہتر قرار دیا گیا ہے۔
سفرنامے میں بے شک معروضیت کا
ہونا بہت ضروری قرار دیا گیا ہے پر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ
سفرنامہ نگار جن واقعات یا تجربات کو پیش کرتا ہے وہ کسی اور کے نہیں خود اس کے
اپنے تجربات ہوتے ہیں۔ وہ خود ان سے گزرا ہوتا ہے اس لیے اس سے یہ توقع کرنا کہ
خود پر بیتے تجربات کو سائنسی معروضیت کے ساتھ وہ بیان کردے شاید ممکن نہیں ہے۔
لاکھ کوشش کے باوجود کہیں نہ کہیں موضوعیت ضرور پیدا ہوگی اور ہونی بھی چاہیے
بشرطیکہ وہ حقائق کو دھندلا نہ کرتی ہو ۔ اگر وہ حقائق کو دھندلا کردیتی ہے تو یہ
معیوب ہے۔ ’’اردو میں سفرنامے کا ارتقا‘‘ کی مصنفہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ:
’’تاریخ نویس
جو کچھ لکھتا ہے اس سے اکثر و بیشتر وہ خود گزرا نہیں ہوتا لہٰذا اس کے لیے بے لاگ
اور غیر شخصی رویہ اختیار کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں سفرنامہ نگار جو
کچھ تحریر کرتا ہے اس سے وہ خود گزرا ہوتا ہے۔ وہ صرف اشیا کا مشاہدہ ہی نہیں بلکہ
انھیں محسوس بھی کر چکا ہوتا ہے۔ اس لیے
اس کی تحریر میں تخئیل، احساس اور ذاتی محسوسات و مدرکات کے عناصر کا شامل ہوجانا
لازمی امر ہے۔ چنانچہ سفرنامہ نگار سے بے لاگ فوٹو گرافی کا تقاضا کرنا مناسب
نہیں۔ البتہ یہ شرط ضروری ہے کہ سفرنامے کے معلوماتی پہلوؤں کو لکھتے وقت وہ
حقیقت نگاری کا حق ادا کرے۔ معلوماتی پہلوؤں کا صحیح او ربلاواسطہ فوٹوگرافی کی
مانند ہونا ضروری ہے۔ دوسری جگہوں پر اس کے تخئیل کو کھل کھیلنے کی آزادی دی
جاسکتی ہے۔ مثلاً لوگوں کے تہذیب و تمدن ان کے اعتقادات و رسومات، رنگ و نسل تعلیم
و تربیت، پیشوں، علاقوں، زبانوں وغیرہ سے متعلق صحیح اعداد وشمار پیش کرنا ضروری
ہیں۔ یہاں شاعری کرنے کی آزادی نہیں دی جاسکتی۔ لیکن جہاں تک وادیوں اور ویرانوں،
پہاڑوں اور گھاٹیوں، کھیتوں اور کھلیانوں، گلیوں اور بازاروں، دریاؤں اور جھرنوں،
حسنِ صورت اور حسنِ فطرت کا تعلق ہے ان کے بیان میں حقیقت نگاری کے ساتھ ہی ساتھ
تخئیل طرازی کی بھی اجازت دی جاسکتی ہے۔‘‘ (2)
اوپر پیش کیے اقتباس میں بیان
کیے گئے عناصر کو واضح کرنے کے لیے مقالہ نگار نے جو اقتباسات دو سفرناموں سے پیش
کیے ہیں انھیں بھی یہاں پیش کرنا بے جانہ ہوگا۔ ان سے یہ بات سمجھنے میں آسانی
ہوگی کہ سفرنامہ نگار کو کہاں حقیقت نگاری کا ثبوت دینا ہے اور کہاں اسے تخئیل
طرازی کی چھوٹ ہے۔ پہلا اقتباس حقیقت نگاری کو پیش کرتا ہے دوسرا تخئیل طرازی کو۔
’’ہماری کار
جب کربلائے معلی کے شہر میں داخل ہوئی تو سرخ آفتاب مغرب میں ڈوب رہا تھا۔ جوں
جوں یہ تاریخی بستی قریب آرہی تھی ہمارے دل اندر سے دھڑک رہے تھے اور اشک رواں
تھے۔
’’مجھے اپنے
بچپن کا وہ سفر بھی یاد آرہا تھا جب میں اپنی اماں کے ساتھ یہاں آئی تھی اس یاد
کا دھندلا عکس اب ذہن میں واضح ہوتا جارہا تھااور اس عظیم المیہ کی یاد جو 60ھ میں
اس سرزمین پر پیش آیا جس کی نظیر دنیا میں نہ پہلے ملی تھی نہ بعد میں مل سکی۔
امام حسین کا سفر، قیام، شہادت کے واقعات اپنی ساری جزئیات کے ساتھ ذہن میں گردش
کررہے تھے اور میں تصور کررہی تھی اس وقت کا جب میرے مولا حسین اور میری آقا زادی
زینب نے اس سرزمین پراپنے خیام نصب فرمائے ہوں گے۔‘‘ (3)
’’آخر
آفتاب اُفق سے جاملا، رخصت ہونے والی آخری کرنیں درختوں کی پھنگیوں اور پہاڑوں
کی چوٹیوں پر گئیں اور وہاں تک پہنچ کر اوپر ہی اوپر آسمان پر پہنچ گئیں اور
آسمان کے منہ پر شفق کا غازہ ملنے لگیں۔ سرخیِ ا فق سے تیرگی کی ایک چادر نمایاں
ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف پھیل گئی۔ آسمان پر تاروں نے اپنی آنکھیں
جھپکا جھپکا کر کھولنا شروع کیں جن کا جواب صفحہ زمین پر یوں دیا گیا کہ مکانوں
میں دھندلی روشنی کے چراغ روشن ہوئے اور گاؤں اور جنگلوں میں دہقانوں نے
الاؤروشن کیے۔‘‘ (4)
.6 کہانی پن:
بیانیہ کے ساتھ ہی سفرنامے میں
کہانی پن کا ہونا بھی لازمی ہے او ریہ کہانی پن کو منطقی ربط کی شکل اختیار کرنا
چاہیے تاکہ کہانی کی فسوں کاری اس میں وہ جادوئی کیفیت پیدا کرے جو قاری کو اسے
پڑھنے کے لیے مجبور کردے۔ کہانی پن کی یہی خصوصیت سفرنامے کو اس سے منسوب دوسری
اصنافِ ادب سے جدا اور منفرد بناتی ہے۔ کہانی پن سے مراد یہاں پلاٹ کا ہونا ہے
اگرچہ اس پلاٹ کا نہ تو مرکز ہونا ضروری ہے نہ تصادم۔ مرکز اور تصادم وہاں لازم
ہوتے ہیں جہاں آپ کو معلوم ہو کہ کہانی کوکس انجام تک پہنچانا ہے۔ سفیر کو یہ
کہاں معلوم ہوتا ہے کہ اسے کون کون سے تجربات سے واسطہ پڑے گا جنھیں بعد میں وہ
سفرنامے میں بیان کرتا ہے۔ سفر کے دوران واقعات جس ترتیب سے رونما ہوتے ہیں انھیں
اسے اس ترتیب سے بیان کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ان واقعات کی ترتیب بدل کر ان میں کسی
طرح ارتقا لانے کی کوشش کرتا ہے یا تصادم و مرکزیت کا کوئی شائبہ پیدا کرتا ہے تو
سفرنامے کی روح کے مجروح ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے جو اس کی موت کا باعث
ہوسکتا ہے۔ اس لیے سفرنامے کی کہانی سے افسانے یا ناول کی کہانی کے مرکز یا
کلائمکس اور تصادم کا تقاضا نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس میں بیانیہ کوکہانی پن کی
شکل ضرور اختیار کرنا چاہیے۔
سفرنامے میں کہانی پن یا
افسانوی اسلوب کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے جناب مسعود انور اپنے مضمون میں جو
’’اوراق‘‘ لاہور کے جنوری، فروری 1978 کے شمارے میں شائع ہوا تھا، لکھتے ہیں:
’’میری رائے
میں سفرنامے کا سب سے اہم جزو اس کا افسانوی عنصر ہے۔ کہانی سننے کی عادت بہت
پرانی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ قدرت نے جب انسان کو بنایا تو اس کے وجود کو تراشتے
وقت سینے میں چپکے سے داستان کی دیوی کی محبت کو بھی بٹھا دیا چنانچہ داستان گوئی
کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسان کی تاریخ۔‘‘ (5)
مرزا عوض علی بیگ کے سفرنامے
آئینہ حیرت، سے ایک ا قتباس ملاحظہ کیجیے جس سے آپ کو اس بات کا اندازہ ہوجائے
گا کہ سفرنامے میں کہانی پن کے عناصر کی کس حد تک گنجائش موجود ہے۔
’’…ایک
کنویںپر عجیب لطف دیکھا کہ ہزارہا تصویریں عورتوں کی سنگین گرد اس کے تھیں۔ لوگوں
کی زبانی سنا کہ ابتدائے فتح اسلام دین ایک درویش یہاں آیا اور قلعہ میں اس نے
اذان دی، جس کان میں وہ آواز پہنچی سب پتھر کے ہوگئے، چنانچہ خود عورتیں اس کنویں
پر پانی بھرنے آئی تھیں پتھر کی ہوکر یہیں رہ گئیں اور واقعی صورت ان تصویروں کی
یہ تھی کہ کسی کے سر پر گھڑا رکھا، کوئی کمر پر لیے ہے۔ کوئی جھکی ہوئی اٹھا رہی
ہے۔ کوئی ہنستی تھی۔ کوئی مسکرا رہی تھی۔ عجیب طرح کی حیرت ہوئی۔ کہتے ہیں کہ عہدِ
سلطنت گور کاینہ میں جس امیر پر بادشاہ کا عتاب ہوتا تھا وہ اس کنویں میں قید کیا
جاتا تھا۔‘‘ (6)
.7 قصہ در
قصہ پلاٹ:
اوپر پیش کیا گیا افسانوی عنصر
اس وقت تک کسی تحریر میں پیدا نہیں ہوتا۔ جب تک اس میں واقعات کی ترتیب سے کوئی
روداد متشکل نہیں ہوتی۔ سفرنامے میں پلاٹ تو ضرور ہوتا ہے پر وہ قصہ در قصہ کہانی
کی صورت اختیار کرتا ہے۔ جس طرح داستان میں ہر قصہ اپنے وجود میں مکمل و منفرد بھی
ہوتا ہے اور مجموعی داستان کا حصہ بھی اسی طرح سفرنامے میں مختلف واقعات و تجربات
کا بیان قصہ در قصہ کہانی کا روپ اختیار کرتا ہے۔ ہر قصہ اپنی تاثراتی انفرادیت
بھی رکھتا ہے لیکن سارے قصے مل کر کوئی مجموعی تاثر نہیں ابھارتے جیسا داستان میں
ہوتا ہے۔ یہاں سفرنامہ مختلف تاثرات کا مجموعہ بن کر تاثراتی رنگارنگی سے ایک نئی
قوسِ قزح کو جنم دیتا ہے جو قاری کو متاثر کرتی ہے۔
.8 کردار
نگاری:
سفرنامے کے پلاٹ میں کردار تو
ہوتے ہیں پر یہاں کردار نگاری کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ ہاں سفر کے دوران پیش
آنے والے تجربات و واقعات سے سفرنامہ نگار کی شخصیت پر تھوڑی بہت روشنی پڑتی ہے
اور قارئین اس کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں کی جھلک ضرور دیکھتے ہیں۔ بقیہ کردار سایوں
کی طرح آتے اور گزرتے جاتے ہیں۔ کچھ متاثر کرتے ہیں کچھ متاثر نہیں کرتے اور کچھ
دیر کے بعد قاری کے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں ۔سفرنامہ نگار کو کردار نگاری کی شعوری
کوشش نہیں کرنا چاہیے۔
.9 مشروط
موضوعیت:
اوپر یہ بات کہی گئی ہے کہ
سفرنامہ کے لیے اگرچہ ضروری ہے کہ وہ واقعات و تجربات کے بیان میں زیادہ سے زیادہ
معروضی اسلوب اختیار کرے لیکن اس سے یہ تقاضا کرنا کہ وہ اپنی ذات سے کلی طور
پرنفی کرکے واقعات کو بیان کردے شاید ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جو کچھ بیان کرتا ہے
وہ اس کی آپ بیتی ہوتی ہے۔ اس کی آنکھ نے سفر کے دوران جو کچھ دیکھا ہے جو اس کے
دل نے محسوس کیاہے وہ اسی کو بیان کرتا ہے، کسی اور پربیتی ہوئی واردات بیان نہیں
کرتا۔ چنانچہ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے، یہ ممکن نہیں کہ اس کے بیان میں موضوعیت
پیدا نہ ہو۔ اگر یہ بات نہ ہوئی تو سفر کا بیان ایک روکھا پھیکا بیان بن جاتا جس
میں کسی کو دل چسپی نہ ہوتی، اس میں دلچسپی تو اس کی ذات، اس کی آنکھ پیدا کرتی
ہے۔ اس کی ذات نے سفر کے دوران کیا محسوس کیا ہے، اس کی آنکھ نے کیا پایا ہے، ان
کا بیان ہی اس کو انفرادیت عطا کرتا ہے اس لیے اس سے اجتناب ممکن نہیں۔ ہاں البتہ
اس شرط کا احترام ضروری ہے کہ یہ موضوعیت حقائق کو دھندلا کرنے کا باعث نہ بنے۔
آج موضوعات کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ ہر ملک کے جغرافیائی،تمدنی، اقتصادی حالات
پر ہزاروں کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ ان حالات کو جاننے کے لیے سفر کرنے یا وہاں
تک جانے کی ضرورت نہیں۔ ضرورت اس تجربے کی ہے جو سفیر حاصل کرتا ہے، یہی تجربہ او
راس کا بیان بصیرت کے نئے چراغ روشن کرتا ہے اور ہمیں اپنے لیے نیا لائحہ عمل
ترتیب دینے کے قابل بناتا ہے۔ البتہ اس موضوعیت میں شاعرانہ موضوعیت کے مقابلے
سائنسی موضوعیت زیادہ ہوتی ہے ۔ شاعرانہ موضوعیت میں مبالغے کو زیادہ دخل ہوتا ہے
جب کہ سائنسی داخلیت میں حقائق کو۔
.10 معاشرتی
و تمدنی حالات کا بیان:
جب بھی کوئی انسان کسی علاقے
کے سفر کا قصد کرتا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ، کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا
ہے۔ ایک مقصد وہاں کے تمدنی و معاشرتی حالات سے نہ صرف خود واقف ہونا بلکہ واپس
آکر ان حالات سے اپنے ہم وطنوں کو واقف کرانا بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کے سفروں کی ہر
دور میں ضرورت رہی ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ جس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر شے میں
تبدیلی آتی ہے، اسی طرح تہذیب، تمدن اور معاشرتی و سماجی حالات میں بھی تبدیلی رونما
ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً انیسویں صدی کے ہندوستان کو دیکھنے والا اگر اکیسویں صدی میں
ایک بار پھر اسے دیکھنے کے لیے آئے (اگر اسے لمبی عمر نصیب ہو) تو شاید وہ ا سے
پہچان بھی نہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر ایک ہی جگہ، ایک ہی تمدن اور ایک ہی
معاشرتی و سماجی نظام سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بار بار ملنے کی ضرورت ہمیشہ
باقی رہتی ہے۔چنانچہ سفرنامہ نگار کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ جس علاقے سے بھی گزرے
اس کے عوام ان کے رہن سہن، تمدن و معاشرت، سیاسی و سماجی حالات کا بغور مطالعہ
کرکے معلومات اپنے قارئین تک پہنچائے۔ ان ممیزوں اور امتیازوں کا خصوصاً ذکر کرے
جو اسے اپنے اور ان کے حالات میں نظر آئیں۔ یہ تقابل انسانی فطرت کو سمجھنے میں
بنیادی کردار اداکرتا ہے اور انسانی سماج کی ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔ امتیازات
بھی کثرت میں وحدت کے عمل کو ممکن بناتے ہیں۔ جس سے اقوام کے درمیان افہام و تفہیم
کی راہیں کھلتی ہیں۔ فنونِ لطیفہ کی روح تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے جس سے اپنے ہاں
کی ادبی و فنی روایتوں کو مزید ترقی دینے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
آج جو ہمیں دنیا کے مختلف
ممالک کے تہذیبی و تمدنی اور ادبی و لسانی حالات میں کچھ اقدار مشترک نظر آتی ہیں
یہ انھیں اسناد کی دین ہیں جواقوامِ عالم قدیم زمانے سے مختلف مقاصد کے تحت اختیار
کرتی رہی ہے۔ انسانی ضرورتوں کے تحت آج بھی ملکوں کی سرحدیں ٹوٹ رہی ہیں اور دنیا
ایک بڑے گاؤں کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے ۔ دنیا ایک کرنسی، ایک معاشی و تجارتی
نظام کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ انھیں کوششوں کا ثمرہ ہے جوانسان قدیم
زمانے سے ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے کرتا رہا ہے۔ سفر کے ذریعے اقوام عالم میں
دائمی رشتے پیدا ہوتے ہیں جن میں دنیا آج بندھی ہوئی نظر آتی ہے۔ پروفیسر جگن
ناتھ آزاد کے سفرنامے ’’پشکن کے دیس میں‘‘ کے اقتباس سے اس بات کو سمجھنے میں
مزید مدد ملے گی:
’’میں نے
پوچھا سگما‘‘ تم نے جلسہ گاہ میں کہا تھا کہ لٹویا میں ہندوستان کی مقبولیت کا سبب
میں آپ کو بتاؤں گی۔ اس کے بارے میں کچھ بتاؤ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ
آج میری اتنی زیادہ پذیرائی کیوں ہوئی۔
’’اب سگما کی
گل افشانی گفتار شروع ہوئی۔ اس نے لٹویا کی تاریخ گیارھویں صدی سے شروع کی جب
لٹویا مختلف قبیلوں سے آباد تھا اور اس سے پہلے کے دور پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا
کہ قبائلی دور سے پہلے لٹویا کا ہندوستان کے ساتھ ایک روحانی اور مذہبی تعلق رہا ہے۔
ہندوستانی دھرم یعنی ویدک دھرم (ویدک دھرم کا لفظ خود سگما نے استعمال کیا) سے
لٹویا صرف متاثر نہیں تھا بلکہ یہاں اس دھرم کا پوری طرح عمل دخل تھا۔ یہاں کے
دیوتا ویدک دھرم کے دیوتا تھے یا ان کی مثل تھے۔ کسی peshons دیوی کا ذکر کرتے ہوئے سگما نے بتایا یہ وہی
دیوی ہے جسے ویدک دھرم میں اندرا کہا گیا ہے۔ اس طرح سے اور متعدد دیوی دیوتاؤں
کے نام اس نے گن سنائے۔ لکشمی دیوی اور لکشمی تہوار کا ذکر کرتے ہوئے اس نے بتایا
کہ یہ تہوار سیگواتہوار کے نام سے آج بھی لٹویا میں منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار ہر
سال ہم اپنی ترقی، خوش حالی اور مسرت کے لیے 23جون کو مناتے ہیں۔ شام کو ہم لوگ
آگ جلاتے ہیں یہ آگ ہون ہی کی ایک صورت ہے اور یہ صبح تک جلتی رہتی ہے۔ اس دن ہم
اپنا قومی لباس پہنتے ہیں ہلکی شراب پیتے ہیں۔ یہ وہی ہے جسے وید میں سوم رس کہا
گیا ہے او رپنیر کھاتے ہیں۔‘‘ (7)
ایک اچھے سفرنامے کی یہ اہم
ترین خصوصیت ہے کہ وہ ان مشابہتوں کو ڈھونڈ نکالے جو قوموں کو ایک دوسرے کے قریب
لانے کا کام انجام دیتی ہیں تاکہ انسان کو، جو کبھی کسی ایک قبیلے سے بچھڑ کے بھٹک
گیا تھا اسے واپس لاکر اپنے قبیلے سے ملا دیا جائے۔
.11 جادو رقم
قلم:
سفرنامہ نگار کے پاس ایک جادو
نگار موئے قلم ہونا بھی ضروری ہے پھر یہ صلاحیت بھی کہ وہ جوچیز جس طرح دیکھے اسے
اسی طرح دوسروں کو بھی دکھائے۔ یہ ہنر اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک زبان پر
پوری دسترس حاصل نہ ہو۔ سفرنامہ نگار کو لفظوں کا پارکھ یا نباض ہونا چاہیے تب
کہیں جاکے اس کو یہ ہنر حاصل ہوتا ہے کہ وہ آنکھ کو آئینہ دکھا سکے۔ اسی ہنرمندی
کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے:
’’بادل کی
کڑک، بجلی کی چمک، ہوا کا شور، زمانہ تیرہ و تار، جنگل بے پناہ، خیموں میں ٹخنوں
تک پانی، طنابیں ٹوٹنے لگیں۔ میخیں اکھڑنے لگیں، خیمے گرنے لگے، آدمی دبنے لگے۔
کیمپ میں طلاتم۔ کوئی کہتا ہے چلو نکلو خیمہ گرتا ہے۔ کوئی پکارتا ہے بھاگو اگر
بھاگنے کا راستہ نکلے۔ کوئی چوبِ خیمہ تھامے اپنی حالت کانوحہ خواں۔ ہوا کہتی ہے
آج میرے زور وقوت کا امتحان ہے کمی کیوں کروں۔ ابر گرج کر کہتا ہے آج میری بن
آئی ہے۔ جل تھل کیوں نہ پھروں۔ میرے خیمے کے شامیانے میں ٹخنے ٹخنے پانی، میخیں
اکھڑیں طنابیںڈھیلی ہوئیں شامیانہ گرا تو میرے خیمے کے پہلو میں یا مظہر العجائب
’’چوبیں اور طنابیں معہ فرنیچر غائب۔‘‘ (8)
.12 صیغۂ
واحد حاضر متکلم و ماضی
یہ سوال اکثر ذہن میں ابھرتا
ہے کہ سفرنامہ صیغۂ واحد حاضر متکلم میں لکھا جائے یا صیغۂ واحد میں غائب متکلم۔
اس سوال کے جواب میں کوئی ایک حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔ سفرنامہ نگار پر اس کا
انحصار ہے کہ وہ اسے کس زمانے کی شکل دینا چاہتا ہے۔ البتہ یہ مشورہ ضرور دیا
جاسکتا ہے کہ ا گر وہ سفر کے دوران ہی بات کرے اور اگر وہ سفر کے دوران صرف نوٹس
لیتا ہے اور سفر کے اختتام پر انھیں سفرنامے کی صورت دیتا ہے تو پھر بہتر یہ ہے کہ
وہ ماضی کا صیغہ برتے یعنی صیغۂ واحد غائب متکلم میں بات کرے۔
.13 اصلاحی
مقاصد
سفرنامہ کبھی کبھی اصلاحی
فرائض بھی انجام دیتا ہے۔ جن زمینوں کی وہ سیاحی کررہا ہوتا ہے وہاں اگر اسے کوئی
ایسی بات نظر آتی ہے جس کو وہ انسانیت کے لیے اچھا نہیں سمجھتا تو اس کا اظہار وہ
بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کردیتا ہے۔ اسی طرح وہاں اگر اسے کوئی ایسی بات نظر آتی ہے
جو اس کی نظر میں قابلِ تقلید ہے اور اس کے اپنے ہاں وہ بات نہیں ہے تو وہ اپنی
قوم کی نہ صرف کڑی تنقید کرتا ہے بلکہ انھیں اس کی تقلید کرنے کا مشورہ بھی دیتا
ہے۔ یہ دونوں صورتیں ہمیں اپنے سفرناموں میں جابجا بکھری ہوئی ملتی ہیں۔ وضاحت کے
لیے ایک مثال ملاحظہ کیجیے:
ڈاکٹر شکیل الرحمان ’’قصہ میرے
سفر کا‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’کسٹم پر
کوئی ڈسپلن نہیں ہے ہر شخص چاہتا ہے اُسے پہلے آزادی ملے۔ جو صاحب معائنہ فرما
رہے ہیں وہ اس طرح کام کررہے ہیں جیسے اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوں۔ اپنے
ساتھیوں سے ذاتی گفتگو میں مصروف ہیں، کام کی طرف توجہ ہے جیسے ان کے ڈرائنگ روم میں
فون کی گھنٹی بار بار بج رہی ہو اور وہ جھنجلا کر ریسیور اٹھا رے ہوں۔ ساڑھے نو
بجے روسی جہاز ایروفلوٹ کی پرواز کا وقت ہے اور اس وقت 9بج کر 15منٹ ہوچکے ہیں۔
کیو میں ہر شخص ایک دوسرے پر سوار ہے اور چھوٹے شہروں کے سینما گھر کے ٹکٹ کاؤنٹر
کا منظر آنکھوں کے سامنے ہے۔ جو ہوشیار اور طاقتور ہے وہ اطمینان سے کیو کے ڈسپلن
کو توڑ کر کامیاب ہورہا ہے۔ کسٹم افسر کی توجہ اس بات کی طرف نہیں ہے، وہ کسی ہاتھ
میں بندھی ہوئی گھڑی کا نمبر نوٹ کررہا ہے۔ کسی کے فوٹو کیمرے کا نمبر نوٹ کر رہا
ہے۔ کسی کا سوٹ کیس کھلوا رہا ہے، کسی پر خفا ہورہا ہے کبھی ایئرپورٹ کے ملازموں
سے بیکار باتیں کررہا ہے۔ اس ہجوم میں مجھے رضیہ آپا (محترمہ رضیہ سجاد ظہیر) نظر
آتی ہیں 9بج کر 20منٹ! ہجوم کا وہی عالم ہے جس رفتار سے کام ہورہا ہے مجھے اندازہ
ہے کہ ابھی مزید ایک گھنٹہ اور درکار ہے۔ کون جانے کے پھر یہ کہا جائے کہ جہاز
اپنے وقت پر روانہ ہوگیا آپ واپس جائیے۔ ایئرپورٹ کی یہ ڈسپلن اپنی قومی زندگی کی
تصویر نظر آرہی ہے۔ میں خاموش ہوں۔ نام نہاد کیو میں آہستہ آہستہ آگے بڑھتا
جارہا ہوں۔
اقبال کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
فیض نظر کے لیے ضبطِ سخن چاہیے
حرف پریشاں نہ کہہ اہلِ نظرِ
کے حضور
اچانک ایئرپورٹ سے ایک صاحب
تشریف لائے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اب وقت نہیں ہے جلدی کرو اور پھر...پھر صاحب ہم
اس طرح کاؤنٹر سے گزر کر آگے بڑھ رہے ہیں جیسے یہاں کھڑے رہنے کی ضرورت ہی نہ
تھی۔ فوراً مہریں لگ گئی ہیں، سب کام مکمل ہوگیا ہے۔ ایئرفیلڈ کی بس تک جانے سے
قبل ایک اور کاؤنٹر ہے۔ ایک صاحب مسافروں کے ہینڈ بیگ کا جائزہ لے رہے ہیں کچھ اس
طرح جیسے صرف ہینڈ بیگ کا چھونا اُن کا کام ہو۔ میری باری آگئی ہے۔ سردار صاحب
مجھ سے پوچھ رہے ہیں اس بیگ میں کیا ہے؟ میں جواب دے رہا ہوں ’’شیو کا سامان
اور... جائیے جائیے‘‘ میری بات غالباً انھیں ناگوار گزری ہے۔ میں دوسرے مسافروں کے
ساتھ ایئرفیلڈ کی بس پر بیٹھ گیا ہوں یہ بس ہمیں روسی جہاز ’’ایئر و فلوٹ‘‘ تک لے
جائے گی۔ اس بس میں وہی بدنصیب مسافر ہیں جن کی ٹانگیں میری طرح کسٹم کے کیو پر
جھنجھنا چکی ہیں۔ ان میں اکثر غیر ملکی ہیں۔‘‘ (9)
.14 واقعات
کا انتخاب
ایک اچھے ادیب کی پہچان یہ
قرار دی جاتی ہے کہ وہ زندگی کے ذخیرۂ واقعات سے صرف ان کا انتخاب کرتا ہے جو اس
کے فن پارے کو ندرت عطا کرسکتے ہیں۔ اگر اس کے پاس درست واقعات و تجربات کے انتخاب
کے لیے ضروری نظر نہیں ہے تو وہ کوئی مؤثر فن پا رہ تخلیق نہیں کرسکتا۔
یہ شرط سفرنامہ نگار پر بھی
پوری طرح عائدہوتی ہے۔ اس کے پاس وہ نظر ہونا ضروری ہے جو ضروری اور غیر ضروری
واقعات و تجربات میں فرق پیدا کرسکے۔ یہی نظر اسے غیر ضروری واقعات کے بیان میں
اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے سے بچاتی ہے اور ان صلاحیتوں کو ضروری واقعات و تجربات کے
بیان میں صرف کرکے انھیں زیادہ مؤثر بناتی ہے۔ غیر ضروری تفصیلات میں اُلجھنے سے
فن پارہ یا سفر نامہ
دل چسپی کے جوہر سے عاری ہو
جاتا ہے۔ پھر قاری اسے چھونے سے بھی پرہیز کرتا ہے۔ ضروری واقعے یا تجربے کی پہچان
کے سلسلے میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ قاری کو مسرت و بصیرت
دونوں کے سامان فراہم کرتا ہے۔ جس میں یہ خوبی نہ ہو یا پیدا کی جاسکے وہ غیر
ضروری ہے۔
.15 بے باکی
و بے تعصبی
سفرنامے میں ہی نہیں سفرنامہ
نگار میں بھی بے باکی و بے تعصبی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر یہ دونوں خصوصیات اس
میں نہیں تو اس کا سفرنامہ مؤثر نہیں ہوسکتا نہ اس سے پڑھنے والے کو بصیرت ہی
حاصل ہوسکتی ہے۔ حقائق کو بیان کرنے کے لیے جہاں ایک طرف بے باکی کام آتی ہے وہاں
بے تعصبی سفرنانہ نگار کے بیان کو مصلحت اندیشی یا ذاتی پسند و ناپسند کے منفی
رویے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ جو کچھ بھی کہا جائے اسے پورے شواہد کے ساتھ پیش کیا
جائے تاکہ کسی کو اس بیان کی صداقت پر شک نہ ہو۔ تاہم اس بات کا خیال رکھنا ضروری
ہے کہ جو کچھ کہا جائے اس کے پس پشت تعمیری ذہن کارفرما ہونہ کہ تخریبی ذہن۔
.16 طنزومزاح
طنزومزاح کی چاشنی سفرنامے کو
دل چسپ بناتی ہے لیکن ایسا صرف اسی وقت کیا جانا چاہیے جب اس کی ضرورت و گنجائش
ہو۔ بے موقع مزاح پھکڑ پن اور طنز، ہجو کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ جو سفرنامے کے
لیے سم قاتل ثابت ہوتا ہے۔ ان دونوں کا مثبت استعمال ہی سودمند ہوتا ہے۔ ان دونوں
عناصر کے بہترین استعمال کے نمونے ابنِ انشا کے سفرناموں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
.17 شگفتہ
اسلوب
سفرنامے کے بیانیہ میں شگفتگی
کا عنصر جس قدر زیادہ ہوگا اس کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی روشن ہوں گے۔ اسلوب
میں شگفتگی سادہ زبان، واقعات کی مؤثر مناسب ترتیب، تخیئل کی ہلکی سی آمیزش،
شعری لب و لہجے اور کبھی کبھی لطائف و اشعار کے برمحل استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔
شگفتگی کا تعلق خیال کی لطافت اور زبان کے تخلیقی برتاؤ سے ہوتا ہے۔ جو سفرنامہ
نگار اس پر دسترس حاصل کرلیتا ہے اس کا سفرنامہ یادگار بن جاتا ہے۔ نیچے ابنِ انشا کے سفرنامے ’’ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں‘‘
سے ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے جس سے اسلوب کی شگفتگی کا تو پتا چلے گا ہی ساتھ
ہی طنزومزاح کے صحیح استعمال کا بھی پتا چلے گا۔
’’اے صاحبو!
پاک وطن کے رہنے والو! دیکھو دوسرے ملکوں میں گدھے کی کتنی مانگ ہے کتنی عزت ہے۔
امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان ہی گدھا ہے اور پھر ہم میں اپنے ملک میں گدھوں
کی کماحقہ‘ قدر نہیں کرتے۔ بعض لوگ تو گدھوں کو جو ہمارے ہاں ہر شعبۂ زندگی میں
بھرے ہیں تحقیر سے بھی دیکھتے ہیں اور اکثر تو گدھے–گھوڑے کی تمیز بھی اٹھا دیتے
ہیں۔ دونوں کو ایک لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ حالانکہ گھوڑا صرف وکٹوریہ کھینچنے اور
ریس میں دوڑنے کے کام آتا ہے۔ سووکٹوریہ ختم ہورہی ہے اور ریس کو ہم خود ختم کرنا
چاہتے ہیں۔ گدھا اس کے مقابلے میں مجموعہ صفات ہے۔ معصوم، نیک دل، بردبار، لدو۔ جن
صاحب نے ہمیں یہ گفتگو سنائی ان سے ہم نے کہا گدھوں کو تو ہم خود باہر بھیجتے ہی
رہتے ہیں۔ بلکہ ہمارے ملک سے باہر جانے والوں میں اکثر گدھے ہی ہوتے ہیں۔ ان صاحب
نے کہا۔ جاپانی وزیر کی مراد واقعی چار ٹانگوں والے سچ مچ کے گدھے سے تھی۔ جاپان
میں گدھے نہیں ہوتے۔ یہ گدھا چڑیا گھر میں رکھا جائے گا۔ جاپانی بچے اسے ذوق و شوق
سے دیکھیں گے اور پوچھیں گے کہ یہ کہاں پایا جاتا ہے؟ جواب ملے گا پاکستان میں!...
اور یوں وہ پاکستان سے روشناس ہوجائیں گے اور یاد رکھیں گے کہ پاکستان بھی ایک ملک
ہے وہ ملک جس میں گدھے پائے جاتے ہیں اور افراط سے پائے جاتے ہیں۔‘‘ (10)
اوپر پیش کیے سفرنامے کے فنی
لوازم سے یہ بات یقینا واضح ہوچکی ہوگی کہ سفرنامہ جہاں ایک ادبی صنف ہے وہیں وہ
ایک بہت ہی پیچیدہ فن بھی ہے۔ اس پر کماحقہ‘ دسترس حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ
سفرنامہ نگار ان تمام فنی لوازم کو برتنے کا نہ صرف ہنر جانتا ہو بلکہ ان میں
طرفگی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ اسی ہنرمندی سے اسے کامیابی کی ضمانت مل
سکتی ہے۔
حواشی:
.1 ہنس راج
گھائل، اردو میں سفرنامے کا ارتقا، غیر مطبوعہ مقالہ
.2ڈاکٹر
قدسیہ قریشی، اردو میں سفرنامے کا ارتقا، ص 86-
.3 صالحہ
عابد حسین، سفر زندگی کے لیے سوزوساز (مکتبہ جامعہ نئی دہلی۔ بار اوّل (1982، ص
109-
.4 راجہ
سرکشن پرشاد، سفرشادنگر (مسلم یونیورسٹی
انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ۔ بار اوّل (1922، ص 26-
.5 مسعود
انور، سفرنامہ کیا ہے۔ ص 30-
.6 مرزا عوض
علی بیگ، آئینہ حیات، ص 492-
7۔جگن ناتھ
آزاد، پشکن کے دلس میں۔ ص۔54
8۔ کشن
پرشاد، سفر شاد نگر، ص۔88
9۔ڈاکٹر شکیل
الرحمن۔ قصہ میرے سفر کا ۔ ص۔21-22
10۔ابنِ
النشا، ابن بطوطہ کے تعاقب میں۔ ص۔68-69
پتہ:
ضیا الدین
Deptt.
of Urdu,
Jammu
University,
Jammu,
(Jammu & Kashmir)
سہ ماہی ’ فکر و تحقیق‘ اپریل تا جون 2010
ماشاءالله
جواب دیںحذف کریںبہت ہی پرمغزمضمون۔پڑھ کرمزہ آگیا۔