اکبر الٰہ
آبادی اور تعلیمِ نسواں
شہناز نبی
اکبر الٰہ آبادی کو کسی نے طنز و مزاح کا شہنشاہ قرار دیا
تو کسی نے مصلحِ قوم بتایا۔ اکبر کا زمانہ انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی
کی پہلی دو دہائیوں پر محیط ہے (1845-1921)۔ یہ زمانہ ہندوستان کی تاریخ میں اس
اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے کہ یہ دور دو تہذیبوں کے ٹکراؤ کا زمانہ تھا۔ بہت سارے
واقعات تیزی سے پیش آتے جا رہے تھے۔ ایک طرف انگریزوں کا بڑھتا ہوا اقتدار دوسری
طرف ہندوستانیوں کے دل میں کھوئی ہوئی زمین کی بازیافت کا ولولہ۔ کہیں انگریزوں کی
پالیسیوں کو ماننے کی ترغیب دی جا رہی تھی، ان کے نقشِ قدم کو اپنانے کا مشورہ دیا
جا رہا تھا، ان کی تہذیب و تمدن کے قصیدے پڑھے جا رہے تھے، ان کی زبان و ادب ، ان
کے طرزِ معاشرت کی خوبیاں گنوائی جا رہی تھیں تو کہیں ان کے خلاف بغاوت کی تیاریاں
ہو رہی تھیں، ان کا تختہ الٹنے کی سازشیں ہو رہی تھیں، ہندوستان کو ان کے ناپاک
وجود سے آزاد کرانے کے لیے جنگی قواعد اور مشقیں جاری تھیں۔ پورا ہندوستان گویا
دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔ کچھ لوگ انگریزوں کے وفادار تھے اور کچھ ان کے مخالف ۔
کسی کو مشرقی زبان و ادب اور ہندوستانیت سے لگاؤ تھا تو کوئی مغرب کی تقلید میں
فخر محسوس کر رہا تھا۔
جب ہم اکبر الٰہ آبادی کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو
ہمارے ذہن میں ایک ایسے شخص کا تصور ابھرتا ہے جو انگریزی تہذیب کا شدید مخالف ہے۔
اکبر کو نہ صرف انگریزی تہذیب بلکہ انگریزی زبان، انگریزی تعلیم اور انگریزی حکومت
سے بھی اللہ واسطے کا بیر تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سر سید ہی ہوں کیوں کہ
اکثر محققین کا خیال ہے کہ انھوں نے سر سید کی مخالفت میں ہر طرح کی آزادی اور
ترقی کی مخالفت کی۔ محمد حسن اس کی نفسیاتی توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
’’ان کے اندر
بھی ویسی ہی مقبولیت، ویسے ہی اعزاز و عظمت کی تمنا کروٹیں لیتی رہی جو ان کے ہم
عصر سر سید کو حاصل تھی۔ لیکن قوم و ملت نے سر سید کی جیسی قدر شناسی کی، مسلم
پبلک کے ایک بڑے تعلیم یافتہ اور سر بر آوردہ حلقے میں ان کی جیسی آؤ بھگت
ہوئی، اکبر الٰہ آبادی اس سے محروم رہے۔ سرکار برطانیہ نے بھی جس کے وہ نمک خوار
تھے جہاں سر سید کو ’سر‘ کے خطاب سے نوازا، انھیں صرف خان بہادری کے لائق سمجھا۔
ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ سر سید کے لیے رشک و عناد کے جذبات اکبر الٰہ آبادی کے
اندر پرورش پانے لگے۔ چنانچہ سر سید کی شاید واحد ذات ہے جسے انھوں نے بحیثیت ایک
فرد کے اپنی طنزیہ شاعری کا نشانہ بنایا ہے۔ سر سید کو ملعون و مطعون بنانے میں
انھوں نے کوئی کسر چھوڑ نہ رکھی۔‘‘
[بحوالہ: طنز یہ
ادب کی نفسیات اور اکبر الٰہ آبادی کی طنزیہ شاعری۔ سید محمد حسن، ص۔6-7]
ہو سکتا ہے کہ سر سید پر خاش کی یہ ایک بہت بڑی وجہ رہی ہو
لیکن سر سید کی مخالفت کی دھن میں اکبر نے ہندوستان کی ایک بہت بڑی آبادی کو شدید
نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی رجعت پسندی نے ہندوستانی مسلمانوں کو ترقی کی راہ پر آگے
بڑھنے سے روکنے کی بھر پور کوشش کی۔ ان کی تنگ نظری نے جہاں مردوں کو ایک عرصے تک
انگریزی تعلیم سے دور رکھا وہاں عورتوں پر تعلیم کے دروازے کو کھلنے ہی نہ دیا۔
انیسویں صدی کا یہ زمانہ مسلمان عورتوں کو ہندوستان کی دوسری غیر مسلم عورتوں کے
مقابل کھڑا کر سکتا تھا اور تعلیم کے میدان میں وہ اپنی دوسری بہنوں کے شانہ بہ
شانہ چل سکتی تھیں تاہم اکبر نے تعلیمِ نسواں کے خلاف آواز اٹھا کر پوری قوم کو
گمراہ کیا۔ انھوں نے عورتوں کی تعلیم کو عورت کی گمرہی بتانے کی کوشش کی اور تعلیم
یافتہ عورت کی ایسی مکروہ تصویر پیش کی کہ والدین نے اپنی لڑکیوںکو تعلیم سے دور
رکھنے میں ہی عافیت سمجھی۔ تعلیم ِ نسواں کی طرف سے سر سید کی لاپرواہی کا ایک سبب
اکبر کی مخالفتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ شاید سر سید تنقیدی بوچھاروں کا مقابلہ ایک حد
تک کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ تعلیمِ نسواں کے سلسلے میں سر سید کی بے توجہی خود
سر سید کی دور بینی اور دانش مندی پر ایک سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اگر سید محمود اور
جسٹس امیر علی نے عورتوں کی تعلیم کا لائحہ عمل تیار نہ کیا ہوتا تو شاید اس نیک
کام کی شروعات میں مزید تاخیر ہوتی۔ یہ سید محمود ہی تھے جنھوں نے لندن سے واپس
آنے کے بعد مسلمان عورتوں کی تعلیم پر خاص طور سے زور دیا اور 1892 کے ایک تعلیمی
کانفرنس میں مسلمان عورتوں کی جدید تعلیم کا تصور دیا۔ ان کے لیے الگ اسکول کھولنے
اور نصاب ترتیب دینے کی ضرورت کو محسوس کیا۔ گرچہ سر سید نے محمڈن ایجوکیشنل
کانفرنس 1886 میں ہی قائم کر دیا تھا تاہم اس میں کوئی ایسی شق شامل نہیں تھی جس
کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ سر سید تعلیمِ نسواں کا کوئی ٹھوس منصوبہ رکھتے تھے۔
الٹے سر سید نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ :
’’عورتوں کی
تعلیم کے لیے مدرسوں کا قائم کرنا اور پورپ کے زنانہ مدرسوں کی تقلید کرنا
ہندوستان کی موجودہ حالت کے لیے کسی طرح مناسب نہیں اور میں اس کا سخت مخالف
ہوں۔‘‘
[بحوالہ: مسلم
خواتین کی تعلیم۔ محمد امین زبیری،ایجوکیشنل کانفرنس، کراچی 1956، ص:95-96]
اب ایسے میں جب کہ قوم کے رہبرو رہنما ، ترقی یافتہ ذہن
رکھنے والے سالارِ کارواں ہی عورتوں کی تعلیم کے تعلق سے ایسی منفی باتیں کہنے
لگیں تو ان کا کیا نظریہ ہوگا جو عورتوں کی تعلیم کو پوری قوم، پورے ملک، پورے
معاشرے کی تباہی کا ذریعہ مان بیٹھے تھے اور جن کا خیال تھا کہ عورتیں تعلیم یافتہ
ہو کر بدکردار اور بد چلن ہو جائیں گی۔ تعلیم ِ نسواں کی ضرورت اور اہمیت پر کھل
کر بحث اس وقت ہوئی جب 1899 میں کلکتہ میں ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا
اور جسٹس سید امیر علی نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
’’میری رائے میں
لڑکیوں کی تعلیم لڑکوں کے متوازی چلنا چاہیے تاکہ سوسائٹی پر اس کا سود مند اثر
پڑے۔ جب تک ترقی کے دونوں جزو برابر تناسب سے نہ ہوں گے کوئی عمدہ نتیجہ نہیں ہو
سکتا۔‘‘
[مسلم خواتین کی
تعلیم،ص۔102]
اکبر نے اپنی شاعری میں جا بجا عورتوں کی تعلیم پر چھینٹے
کسے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ تعلیم خصوصاً انگریزی تعلیم عورتوں کو بے شرم بنا دے
گی۔ وہ گھر کی چار دیواری میں قید رہنے کے بجائے آزادانہ گھومتی پھرے گی۔ اکبر
صحیح معنوں میں ایک Male Chauvinist ہیں
جو عورت کو محکوم، مجبور، بے بس اور مرد
کا غلام دیکھنا پسند کرتا ہے۔ ان سے عورت کی خود اعتمادی اور اس کی آزادی برداشت
نہیں ہوتی:
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب ہے شمعِ انجمن، پہلے چراغ خانہ تھی
—
پردہ اٹّھا ہے ترقی کے یہ سامان تو ہیں
حوریں کالج میں پہنچ جائیں گی غلمان تو ہیں
—
حرم میں مسلموں کے رات انگلش لیڈیاں آئیں
پئے تکریمِ مہماں بن سنور کے بیبیاں آئیں
طریقِ مغربی سے ٹیبل آیا، کرسیاں آئیں
دلوں میں ولوے اٹھے، ہوس میں گرمیاں آئیں
امنگیں طبع میں ہیں، شوقِ آزادی کا بلوا ہے
کھلیں گے گل تو دیکھو گے، ابھی کلیوں کا جلوا ہے
اکبر اس واعظ کی طرح ہیں جو انسان کے دل میں ان ہونی کا خوف
پیدا کرتے رہتے ہیں اور عقبیٰ کا واسطہ دے دے کر دنیا سے بھی واقف ہونے نہیں دیتے۔
انھیں یہ تصور ہی لرزا دیتا ہے جب پڑھی لکھی لڑکیاں سڑک پر نکلیں گی تو منظر کیسا
دلخراش ہوگا :
گھر سے جب پڑھ لکھ کے نکلیں گی کنواری لڑکیاں
دل کش و آزاد و خوشرو، ساختہ پرداختہ
یہ تو کیا معلوم کیا موقعے عمل کے ہوں گے پیش
ہاں نگاہیں ہوں گی مائل اس طرف بے ساختہ
ان سے بی بی نے فقط اسکول ہی کی بات کی
یہ نہ بتلایا کہاں رکھی ہے روٹی رات کی
اکبر کے نزدیک تعلیم حاصل کرنا بے حیائی کی علامت ہے۔ وہ
روشن خیالی سے خوف زدہ ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ گریجویٹ ہونے والے صرف لیٹ کر ہی بات
کر سکتے ہیں:
میں بھی گریجویٹ ہوں، تو بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آکے لیٹ
دونوں نے پاس کر لیے ہیں سخت امتحاں
ممکن نہیں کہ اب ہو کوئی ہم سے بدگماں
بولی یہ سچ ہے علم بڑھا، جہل گھٹ گیا
لیکن یہ کیا خبر ہے کہ شیطان ہٹ گیا
اک پیر نے تہذیب سے لڑکے کو سنوارا
اک پیر نے تہذیب سے لڑکی کو سنوارا
پتلون میں وہ تن گیا، یہ سائے میں پھیلی
پاجامہ غرض یہ ہے کہ دونوں نے اتارا
صغریٰ مہدی نے اپنی کتاب میں بیگم خواجہ حسن نظامی سے لیے
گئے ایک انٹرویو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بقول بیگم خواجہ حسن نظامی، اکبر عورتوں
کی تعلیم کے مسئلے پر اکثر گفتگو کرتے تھے :
’’اکبر کہتے کہ
میں عورتوں کی تعلیم کا مخالف نہیں۔ انھیں تعلیم ملنی چاہیے۔ انھیں مذہب سے واقفیت
ہونا بھی ضروری ہے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں سے بھی انھیں واقف ہونا چاہیے۔ حساب کتاب
بھی آنا چاہیے اور اخلاقی اور سبق آموز کتابیں بھی ان کے مطالعے میں رہنی چاہئیں
تاکہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر سکیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ عورتوں کی
تعلیم کے تو مخالف نہیں تھے، مگر اس حق میں تھے کہ عورتوں کو وہی تعلیم حاصل کرنا
چاہیے جو امورِ خانہ داری، بچوں کی تربیت اور شوہر کی رفاقت میں معاون ثابت ہوں۔‘‘
]اکبر کی شاعری
کا تنقیدی مطالعہ۔ ڈاکٹر صغریٰ مہدی، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی۔ 1981 ، ص۔[74
روسو (Rousseau) اور اکبر کے خیالات ، زمانی بعد کے باوجود
ایک سے ہیں۔ عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں روسو کا کہنا تھا کہ :
"The first and most important quality of a woman is
gentleness. Made to obey a person as imperfect as man, often so full of vices,
and always so full of faults, she ought early learn to suffer even injustice,
and to endure the wrongs of a husband without complaint, and it is not for him
but for herself that she ought to be gentle.
[Rousseau's Emile, p:270., By William. H. Payne]
ایک دوسری جگہ روسو کہتا ہے کہ :
"Thus the whole education of women is ought to be relative
to men. To please them, to be useful to them, to make themselves loved, and
honored by them, to educate them when young, to care for them when grown, to
counsel them, to console them, and to make life agreeable and sweet to them
these- are the duties of women at all times, and what should be taught them
from their infancy."
[Rousseau's Emile., P:263]
اکبر کے خیالات اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ بھی روسو کی طرح
عورت کی زندگی کا مقصد مرد کی خدمت اور غلامی سمجھتے تھے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ :
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
دو اسے شوہر و اطفال کی خاطر تعلیم
قوم کے واسطے تعلیم نہ دو عورت کو
اکبر نے قدم قدم پر عورت کو پردے میں رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
ان کے خیال میں ایسے مرد بے وقوف ہیں جو
عورت کو پردے سے باہر نکالنا چاہتے ہیں:
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا وہ پردہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
پردہ اٹھ جانے سے اخلاقی ترقی قوم کی
جو سمجھتے ہیں یقینا عقل سے فارغ ہیں وہ
سن چکا ہوں میں کہ کچھ بوڑھے بھی ہیں اس میں شریک
یہ اگر سچ ہے تو بے شک پیرِنا بالغ ہیں وہ
خون میں باقی رہی غیرت تو سمجھے گا کبھی
خوب تھا پردہ، نہایت مصلحت کی بات تھی
اکبر اپنی شاعری میں دو طرح کی عورت کا تصور پیش کرتے ہیں۔
ایک مشرقی ، دوسری مغربی۔ مشرقی عورت قابلِ احترام ہے لیکن مغربی عورت مالِ مفت
ہے۔ وہ مشرقی عورت کو ستر پردے میں چھپا کے رکھنا چاہتے ہیں لیکن مغربی عورت کے
حسن سے آنکھیں سینکنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ مغربی عورت کو دیکھتے ہی ان کی رال ٹپک
پڑتی ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن کا مذاق اڑانے کے جوش میں انھوں نے مغربی عورت کا جو
تصور پیش کیا ہے وہ انتہائی چھچھوارا ہے:
ممکن نہیں اے مس ترا نوٹس نہ لیا جائے
گال ایسے پر یزاد ہوں اور کِس نہ لیا جائے
تھی مرے پیشِ نظر وہ بہت تہذیب پسند
کبھی وہسکی مجھے دیتی تھی کبھی شربتِ قند
رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں جو دو چار
ہائے وہ حسن، وہ شوخی، وہ نزاکت، وہ ابھار
زلفِ پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید
قدِ ر عنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید
آنکھیں وہ فتنۂ دوراں کہ گنہ گار کریں
گال وہ صبح درخشاں کہ ملک پیار کریں
تہذیبِ مغربی میں ہے بوسے تلک معاف
اس سے اگر بڑھو تو شرارت کی بات ہے
وہ مغربی عورتوں کو بد قماش اور بد کردار ثابت کرنے پر کمر
بستہ ہیں۔ انھیں ایسا لگتا ہے کہ ساری انگریز عورتیں دن رات ہوٹل میں تاش کی بازی
کھیلتی رہتی ہیں اور انھیں ہر وقت عاشقوں کی تلاش رہتی ہے:
لیڈیوں سے مل کے دیکھو ان کے انداز و طریق
ہال میں ناچو، کلب میں جا کے کھیلوان سے تاش
بادۂ تہذیب یورپ کے چڑھاؤ خم کے خم
ایشیا کے شیشۂ تقویٰ کو کردو پاش پاش
جب عمل اس پر کیا، پریوں کا سایہ ہو گیا
جن سے تھی دل کی حرارت کو سراسر انتعاش
سامنے تھیں لیڈیانِ زہرہ وش جادو نظر
یاں جوانی کی امنگ اور ان کو عاشق کی تلاش
غرض اس مالِ مفت پر اکبر کا دلِ بے رحم کوئی رعایت نہیں
کرتا اور سرِ عام ان عورتوں کو ننگا کر کے اکبر گویا انگریزوں سے ان کے ظلم و
استبداد کا بدلہ لیتے ہیں۔ وہ ہندوستانی مردوں تو کیا عورتوں کا بھی ان انگریز
عورتوں سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ اکبر نے پوری قوم کو انگریزی تہذیب، انگریزی تعلیم
اور انگریز عورت سے دور رہنے کا مشورہ دیا لیکن جب ان کی اولاد خود کسی موم کی
پتلی پر لٹو ہو جاتی ہے تو اکبر سوائے کفِ افسوس ملنے کے اور کچھ نہیں کرتے۔
’’نقوش ‘‘آپ
بیتی نمبر میں محمد عبد الرزاق کانپوری کے مطابق اکبر نے ظریفانہ شاعری اس لیے کی
تھی کہ وہ ’’اودھ پنچ ‘‘کی فرمائش پوری کرنا چاہتے تھے۔ کہتے ہیں:
’’میں نے سید
اکبر حسین سے ایک موقعہ پر سوال کیا کہ آپ جیسے مذہبی شخص نے ظریفانہ شاعری کیوں
اختیار کی اور سر سید اور کالج کے خلاف مضامین کس بنا پر لکھنا شروع کیے۔ ہنس کر
فرمایا کہ ’یہ رنگ اودھ پنچ کے مضامین کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور ظریفانہ مذاق
بھی اس زمانے کے ماحول کا نتیجہ تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ شہرت و ناموری کا ذریعہ اس
عہد میں اخباری مضامین ہی تھے۔ لہٰذا اکبر حسین سے جو غلطی ہوئی وہ معافی کے قابل
ہے اور مجھے بھی یہ خبر ہے کہ اخیر دور میں سید اکبر حسین کے احباب نے بھی ان کو
سر سید کی اور کالج کی مخالفت سے منع کیا تھا۔ چنانچہ ان کی شاعری کا رنگ اس کے
بعد بدل گیا تھا۔‘‘
[نقوش۔ آپ بیتی
نمبر، جون،1964 ، مدیر: محمد طفیل۔ لاہور۔ ص:428-429]
اگر عبد الرزاق کانپوری کی بات کو سچ مان لیا جائے تو ہم اس
نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اکبر نے ’’
اودھ پنچ ‘‘کے ذریعے مقبول ہونے کے لیے طنز و مزاح کا سہارا لیا، سر سید کی مخالفت
کی اور وہ مغربی تہذیب جس کے وہ بظاہر اتنے مخالف معلوم ہوتے ہیں، کا اس لیے مذاق
اڑایا کہ وہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین لکھ کر جلدی سے شہرت حاصل کر لینا چاہتے تھے
بھلے ہی اس کا خمیازہ ان معصوموں کو بھگتنا پڑے جنھوں نے اگر ملک و قوم کو آگے لے
جانے میں کوئی نمایاں رول ادا نہیں کیا تو اسے پیچھے گھسیٹنے کا جرم بھی ان پر
عائد نہیں کیا جا سکتا۔
پتہ:
شہناز نبی
Reader Deptt. of Urdu
University of Calcutta
87/1, College Street
Kolkata-700073
سہ ماہی ’ فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2009
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں