9/6/20

رمز عظیم آبادی کی غزلیہ شاعری مضمون نگار: نسیم احمد نسیم





رمز عظیم آبادی کی غزلیہ شاعری
نسیم احمد نسیم

تلخیص
رمز عظیم آبادی بہت عمدہ معتبرشاعر ہیں۔ ان کی غزلیہ اور نظمیہ شاعری میں عمدہ اشعار کا تناسب زیادہ ہے۔ ان کی شاعری پر مختلف وقتوں میں مختلف رجحانات کے اثرات رہے ہیں لیکن عمومی طور پر ان کے یہاں اپنی سوچ اور اپنا انداز بیان حاوی ہے۔ رمز کے یہاں موضوعات میں بہت وسعت ہے اور وہ مختلف کیفات کو شعری قالب میں ڈھالنے میں مشاق ہیں۔ان کی شاعری میں کرب اور محرومی بھی ہے۔ وہ فن کے تقاضوں کو فراموش نہیں کرتے۔ ان کی شاعری فنی اور موضوعاتی دونوں سطحوں پہ پرکشش اور اثرانگیز ہے۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود انھیںنظرانداز کیا گیا۔ مفلوک الحالی اور تنگ دستی کی وجہ سے بھی تنقید نے ان پر توجہ کوئی خاص توجہ نہ دی اور اس میں ان کی کچھ بے نیازی بھی شامل رہی کہ وہ دانشور ادب نواز طبقے تک پہنچ نہیں سکے۔ رمز عظیم آبادی کا شعری سرمایہ قابل قدر ہے اور ضرورت ہے کہ ان کی شاعری کا مکمل تنقیدی محاسبہ کیا جائے۔ یہ مضمون اسی سمت میں ایک کوشش ہے۔

کلیدی الفاظ
تنوع، کیف عظیم آبادی، نغمہ سنگ، شاخِ زیتون، موضوعات، داخلی کیفیات، انسانی نفسیات، علامت، استعارے، جدیدیت، دبستانِ عظیم آباد، اشتراکیت، ادبی رجحانات، رمز و کنایہ، اشرافیہ، محنت کش، ذاتی کرب، تعلیم اور وصیت، کم مائیگی، ناداری، محرومی، شعریت، نغمگی، حلاوت۔
—————
رمز بنیادی طور پر نظموں کے شاعر ہیں، لیکن ان کی غزلیں بھی کم اہمیت کی حامل نہیں ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی غزلوں کے بغیر ان کا مطالعہ نامکمل اور ادھورا رہے گا تو یہ کچھ بیجانہ ہوگا۔ رمز کی غزلوں کے غائر مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے غزلیہ اشعار میں ان کی نجی کیفیات کی بہتر ترجمانی ہوئی ہے۔ سہل زبان میں موثر اور دیرپا اشعار کہنا بھی رمز کی قادر الکلامی اور فن کارانہ عظمت کی دلیل ہے۔ رمز کے متعلق سب کو معلوم ہے کہ انھوں نے بہت ہی مفلوک الحالی اور تنگ دستی میں زندگی گزاری، لیکن اس کے باوجود ان کے یہاں ایک اعلیٰ معیار کی سطح ہے اور وہ اس سطح سے کبھی نیچے نہیں گرتے۔ باوجود تمام محرومیوں اور نارسائیوں کے ان کے یہاں خوداعتمادی اور خود داری کا وصف نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ حالات کے جبر کا شکار ہوتے ہیں، تکلیف کا اظہار کرتے ہیں، شکوہ کناں بھی ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنی روایات اور اپنے فن پر نازاں بھی رہتے ہیں۔
رمز کے یہاں غزلوں کے موضوعات میں تنوع اور وسعت ہے۔ وہ زندگی کے ہر رنگ سے واقف ہیں اور کمال خوبی کے ساتھ تمام رنگوں کو ذاتی اور خارجی سطح پر ابھارنے میں حددرجہ کامیاب ہیں۔ اُن کو قدرت نے غضب کا طبع موزوں عطا کیا تھا۔ ساتھ ہی ان کی فکر کی وسعت اور ذوق سلیم کا کرشمہ بھی تھا جس نے انھیں اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔ گزشتہ سطور میں عرض کیا گیا کہ انھوں نے کئی اساتذہ کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا، لیکن کسی کے نقش قدم کی کلیتاًتقلید نہیں کی۔ انھوں نے اپنے موقف کے اظہار کے لیے خود اپنی راہ ہموار کی۔ اس لیے اگر یہ کہاجائے کہ رمز کے پاس جو کچھ تھا، ان کی کوششوں اور کاوشوں کا ثمرہ تھا، تو اس میں کوئی نامناسب بات نہیں ہوگی۔
اب آئیے ان کے پہلے شعری مجموعے ’نغمۂ سنگ‘ سے یہ اشعار دیکھیں    ؎
ناتراشیدہ صنم خواب سے چونک اٹھے ہیں
سنگ ہے منتظر تیشۂ فرہاد اے دوست
——
رمز شکستہ آئینے کا ہر ٹکڑا اک چہرہ ہے
شیش محل کو توڑ کے دیکھو سیکڑوں گھر بن جائیں گے
——
آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکیں نا ممکن ہے
نقش قدم کے مٹتے مٹتے راہ گذربن جائیں گے
ان اشعار کے متعلق رمز کے ایک بہت ہی مقرب شاگرد اور معروف شاعر کیف عظیم آبادی نے خدابخش لائبریری،  پٹنہ میں منعقدہ رمز کے ساتھ ایک شام میں مباحثے کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ:
’’رمز عظیم آبادی کے اس طرح کے سیکڑوں ایسے عظیم اشعار ہیں جو رمز نے کہے، جن کو سناگیا ہے۔ مگر ان پر کوئی کام نہیں کیا گیا ہے۔ یا کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ابھی تک یہ ہمارے بہار کے لیے بہت ہی افسوس ناک بات ہے، اور یہ معاملہ خاص کر کے بہار میں زیادہ ہے۔ اور انہی کے ساتھ نہیں بہت ایسے شاعر ہمارے گزرے ہیں اور ابھی ہیں جن پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اور ان کو کبھی مشاعروں کا شاعر کہہ کر ٹال دیاجاتا ہے۔ ’’کبھی یہ چھپتے نہیں ہیں‘‘ یہ بھی کہہ کر ٹال دیاجاتا ہے مگر جو ان کی اہمیت ہے، ان کے اشعار کی جو قدر و قیمت ہے، اس کو آپ بھلا نہیں سکتے، نظر انداز نہیں کرسکتے۔ آج نہیں تو کل رمز عظیم آبادی پر آپ کو توجہ کرنی ہوگی، آپ کو کام کرنا ہوگا، اور نئی نسل کو آگے آنا ہوگا۔‘‘1؎
مندرج بالا تاثر سے تین باتیں واضح ہوکر سامنے آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ رمز عظیم آبادی کے یہاں عمدہ اشعار کا تناسب زیادہ ہے اور ان کے سیکڑوں اشعار ایسے ہیںجنہیں ہم بہترین شاعری کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ رمزکی اس قدر عمدہ اور معیاری شاعری کی قدر نہیں ہوئی اور خاص طور سے بہار والے اپنے فنکاروں کی قدر نہیں کرتے بلکہ ان  پر طرح طرح کی تہمتیں دھر کے انھیں کم تر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی باہری فنکاروں کو یہاں سرپہ بیٹھایاجاتا ہے اور اپنے آریجنل فنکاروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کیف کے مطابق یہی کام رمز کے ساتھ ہوا ہے۔ تیسری بات یہ کہ آج رمز پر بھلے ہی اتنی توجہ نہیں دی جارہی ہے لیکن آنے والے وقتوں میں ان کی اہمیت و عظمت کا اعتراف ہوگا اور ان کے شاعرانہ مقام و مرتبے کا تعین ہوگا۔
اس اقتباس میں کیف صاحب نے رمز کے اس کمزور پہلو کی طرف شاید قصداً اشارہ نہیں کیا ہے جس کے سبب اس وقت کا خواص کا (Elite) طبقہ انھیں کم تر اور غیر تعلیم یافتہ تصور کرتا تھا۔ یعنی وہ مزدوری کرتے تھے، رکشہ چلاتے تھے اس لیے بھی ان کے معاصرین اور خاص طور سے بہار کے نام نہاد اعلیٰ اور اشرافیہ طبقے نے انھیں ہمیشہ کم تر آنکنے کی کوشش کی۔ اوپر کی سطور میں رمز سے منسوب جس شام کا ذکر کیا گیا ہے، اس میں رمز کے ساتھ ہوئی ناانصافی کے متعلق معروف شاعر صدیق مجیبی مرحوم نے بھی کچھ ایسی ہی باتیں کہی ہیں، ملاحظہ کریں اس مذاکرے کا یہ حصہ:
’’ابھی مظہر امام صاحب یا…کسی نے کہا کہ جوان کو (رمز کو) مقام ملنا چاہیے تھا اس کی طرف نہ نقادوں کی نظر گئی، نہ ہمارا کوئی قصور ہے۔ اور یہ بات بھی کہی کہ یہ ایسا کلام یہ رکشہ چلانے والا کیسے کہہ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ جس طرف ہماری نظر نہیں گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تصور تھا کہ اچھی شاعری اچھی زبان اور زبان دانی کا جو تعلق ہے، یہ تو اوپر کی سطح کے لوگوں کا ہے۔ ایلٹ(Elite) کیرکٹر کے لوگوں کا ہے، یہ ہائی، اعلیٰ نسبی کا تھا۔ یہ رکشہ چلانے والا جو ہے یہ اچھی شاعری کرنے، یہ اچھی زبان لکھ کیسے سکتا ہے؟ اس تصور نے ان کو بہت دور رکھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ عوامی شاعر جیسا کہ کہا اور صحیح معنوں میں ایک عوامی شاعر یہی نہیں، وامق جونپوری نے لکھا ہے کہ عوامی شاعر ہیں تو عوامی شاعر کی بدنصیبی یہ ہوتی ہے کہ آپ نے دیکھا کہ اتنا بڑا عوامی شاعر کی قسمت میں اس کے عہد میں شاید اُسے نہیں پہچانا جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ ابھی عہد کا مزاج بدلا نہیں ہے۔ جب یہ مزاج جائے گا تو ہم سمجھیں گے کہ سورج کی روشنی ذرّے کو کہاں چمکارہی ہے اور یہ کتنا تاباں ہے، کتنا معتبر ہے۔ دراصل اس تصور نے ایسے کتنے شاعروں کو قتل کیا ہے، کتنوں کو زندہ دفن کردیا ہے اور کتنے شاعروں کو ان کا حق نہیں ملا ہے...‘‘۔2؎
یعنی ایک طرف رمز صاحب کو نظرانداز کرنے کا رویہ تھا اور دوسری طرف انھیں مشاعرے کا یا قوالوں کا شاعر کہہ کر کنا رے لگانے کا بھی انتظام تھا۔ جس کا نقصان رمز صاحب کو بہرحال اٹھانا پڑا۔ صوبائی یا ملکی سطح پر ادب کی بڑی شخصیات اور ناقدین نے ان کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس میں ان کی کوتاہیوں کا بھی اچھا خاصا دخل تھا۔ وہ بے نیازی میں بہت کچھ چھوڑتے گئے۔ رسالوں میں کلام کی اشاعت سے پرہیز کرتے رہے۔ رمز صاحب اپنی کتاب ان اشخاص کو دیتے تھے جنھیں ادب سے کوئی شغف نہ تھا، اس لیے دانشور اور ادب نواز طبقے تک وہ نہیں پہنچ سکے اور سب سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے بڑی تعداد میں اپنا کلام دوسروں کو دے دیا اور خود بہت حدتک خالی ہوگئے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ وہ حددرجہ زود گو شاعر تھے اور انھوں نے بڑی تعداد میں نظمیں اور غزلیں کہیں۔ لیکن ان کے پاس صرف اتنی ہی چیزیں ملیں جو صرف دو مختصر کتابوں میں آکر سمٹ گئیں۔ تو پھر آخر ان کے بقیہ کلام کا کیا ہوا؟
آج رمز کی تصنیفات کے نام پر ان کی دوکتابیں ’نغمۂ سنگ‘ اور ’شاخ زیتون‘ موجود ہیں۔ ان کتابوں کے متعلق قبل میں بھی عرض کیا گیا ہے کہ دونوں کی ابتدا میں نظمیں ہیں اور اخیر میں غزلیں ہیں۔  ’نغمۂ سنگ‘ میں نظمیں زیادہ ہیں تو ’شاخِ زیتون‘ میں کم۔ یہی معاملہ کم و بیش غزلوں کا بھی ہے۔
رمز کے یہاں آج جو بھی شعری سرمایہ موجود ہے، وہ شمار میں تو ضرور کم ہے، لیکن اپنے معیار اور اپنی مقبولیت کے اعتبار سے بہت زیادہ ہے۔ یہاں بات ہورہی تھی ان کی غزلیہ شاعری کی تو اس سلسلے میں بہتیرے اہالیان ادب نے ان کی نظم نگاری کی طرح ان کی غزل گوئی کو بھی اہمیت دی ہے۔ بعض اہل علم کے مطابق وہ نظمیہ اور غزلیہ دونوں طرح کی شاعری پر مساوی دسترس اور قدرت رکھتے تھے۔ نیز یہ بھی سامنے آیا کہ رمز نے اپنی زیادہ تر نظموں میں خارجی دنیا کے سفید و سیاہ کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے، جبکہ ان کی ذات اور ان کے نجی احساسات ان کی غزلوں میں ہی زیادہ بہتر طور پر ظاہر ہوئے ہیں۔
اب آئیے ان کے کچھ اشعار دیکھیں۔ یہ ’نغمۂ سنگ‘ سے لیے گئے ہیں   ؎
جانے کیوں اب دوستوں سے مشورہ لیتا نہیں
لا اُبالی تھا مگر اتنا کبھی خود سر نہ تھا
——
حدتِ فن نے مجھے ضودی ہے، میں تابندہ ہوں
آج دنیا کچھ کہے، میں شاعرِ آئندہ ہوں
اے زمیں تو بھی سمجھتی ہے مجھے کیوں اجنبی
کیا میں کوئی دوسرے سیّارے کا باشندہ ہوں
——
اکیلا ہی میں غم گزیدہ نہ تھا
بدن دوستوں کا بھی نیلا ملا
——
پتھر پہ ابھرتا ہے وہی نقش کی صورت
جو گیت زمانہ کبھی گانے نہیں دیتا
——
اٹھا کے اپنے عقائد کی سیڑھیاں لے جا
مجھے زمین پہ کوثر تلاش کرنے دے
——
خبر یہ ہے کہ کِھلے ہیں گلاب صحرا میں
رسولِ فصلِ بہاراں برہنہ پا ہوگا
سب اپنے دائرہ فکر میں مقید ہیں
ہر ایک شخص کوئی بات سوچتا ہوگا
——
وقت بھی جیسے میرے گھر سے آگے جانا بھول گیا
کمرے میں ہے گھپ اندھیرا، باہر ہے طوفانی رات
——
کتنی سوندھی ہے مٹی ترے گاؤں کی، بھول جا یاد رکھنے سے کیا فائدہ
بے وطن کا سہارا ہے یہ میکدہ، محویت چھوڑ دے جام بھر اجنبی
یہاں جو اشعار نقل کیے گئے ہیں، وہ ان کے مقبول اشعار نہیں ہیں، اور انھیں حوالے کے طور پر بھی اکثر پیش نہیں کیا جاتا۔ لیکن بظاہر سادہ اور سہل دکھنے والے یہ اشعار اپنے اندر فنی اور معنوی دونوں سطحوں پر تہہ داری رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ رمز کے نجی تجربے اور ان کے ذاتی کرب کے ترجمان ہیں۔ ابھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ رمز کے ذاتی جذبات و احساسات ان کی غزلوں کے اشعار میں زیادہ موثر طریقے سے ظاہر ہوئے ہیں، تو اس بات کی تصدیق کے طور پر پہلا شعر ہی ملاحظہ کریں۔ اس شعر کی تہہ میں اترنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شاعر اب ان تمام لوگوں سے بد ظن اور بدگمان ہوگیا ہے جو کبھی اس کے بہت ہی مقرب اور عزیز تھے۔ ان کے مشورے مشعلِ راہ ہوا کرتے تھے اور ان سے روگردانی کرنا محال تھا۔ لیکن وقت اور حالات نے رفتہ رفتہ شاعر کو یہ بتا دیا کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے سب کچھ دھوکہ ہے، چَھلاوہ ہے۔ اس لیے کنارہ کشی لازمی ہے۔ دوسرے شعر میں شاعر نے تعّلی سے کام لیتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ جب تک فنکار کے اندر آگ موجود ہوتی ہے تب تک اس کا سفر جاری رہتا ہے اور وہ نئے نئے مرحلوں سے گزرتا رہتا ہے۔ لیکن جب فنکار کے اندرون کی حدت اور شعلگی ماند پڑجاتی ہے تو وہ دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے، اور اس کا فن بھی مرکر ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجاتا ہے۔ یہاں رمز نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان کے یہاں فن کی حدّت نے انھیں روشنی دے کر زندہ رکھا ہے اور یہ روشنی کم ہونے کے بجائے دن بہ دن اور ضوفشاں ہو رہی ہے۔ اس لیے وہ آنے والے وقتوں میں بھی اسی طرح قائم اور مستحکم رہیں گے اور آنے والی نسلیں انھیں مینارۂ نور تصور کرکے ان کے قریب تر آئیں گی اور ان کی روشنی سے اپنے ذہن و قلب کو منور کریں گی۔
تیسرے شعر میں شاعر کا نجی کرب ظاہر ہوکر سامنے آیا ہے۔ دنیا اسے بیگانہ سمجھتی اور اطراف کے لوگ اس سے اجنبی کی طرح سلوک کرتے ہیں۔ اس بے رخی اور بے مروتی کا سبب یہ ہے کہ شاعر کم مایہ ہوتے ہوئے بھی خود سر ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ یہاں شاعر نے خود کو دوسرے سیارے کا باشندہ کہہ کر نہ صرف یہ کہ لفظی سطح پر جدت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ خود کو سب سے الگ اور منفرد بھی باور کرانے کا جتن کیا ہے۔ یہاں بھی تعّلی ہے لیکن نہایت ہی خفی طور پر۔ چوتھے اور پانچویں شعر میں زمانے سے شکوہ ہے، لیکن یہ شکوہ کچھ اس طرح ہے کہ اس سے حوصلہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور عزم محکم بھی۔ یعنی زمانہ لاکھ کسی کو ستائے، نظرانداز کرے، مگر وہ ایک دن تابندہ سورج کی طرح پورے عالم پر محیط ہوجاتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے اندر حرارت ہو، شدت ہو اور جذبے کی صداقت ہو۔ یہاں شاعرنے یہ بھی توضیح کرنے کی کوشش کی ہے کہ صرف زمانے میں وہی مردم گزیدہ نہیں ہے بلکہ اس کی طرح کچھ اور لوگ بھی ہیں جن کے نقش کو وقت کے ظالم ہاتھوں نے مٹانے کی کوشش کی ہے۔
نغمۂ سنگ‘ کا شاعر خوابوں کی حسیں وادیوں میں تخئیل کے سہارے زندہ رہنے والا فنکار نہیں ہے بلکہ وہ حقیقت کی ٹھوس زمین پررہتا ہے اور تلخ حقائق سے ہمہ وقت نبرد آزما ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی جہد مسلسل اور جگر کاوی سے اسی زمین پراپنی فصلیں اگاتا ہے جس پر وہ ہر لمحہ سانس لیتا ہے۔ آگے کے چار اشعار میں کہیں انسان کے کرب ذات کا ذکر ہے تو کہیں اس کے اندر ون کے احساسات کا المیہ ہے۔ کہیں اس کی نامرادی اور بدنصیبی کا اظہار ہے تو کہیں دنیا سے سمجھوتا کرکے ہر حال میں خوش رہنے اور زندہ رہنے کی خواہش ہے۔ اس تفصیل کے قبل میں عرض کیا گیا کہ یہ رمز کے نمائندہ اشعار نہیں ہیں لیکن ان میں رمز کی ذات او ر خالص ان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہوئی ہے۔ اس لیے یہ مقبول عام نہ ہوتے ہوئے بھی خاصی اہمیت کے حامل اشعار ہیں۔
رمز نے چونکہ بہت سخت اور آزمائش بھری زندگی گزاری اس لیے ان کے یہاں اکثر خفگی اور درشتگی کے عناصر صاف طور پر جھلکتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی محرومیوں اور نارسائیوں کے باوجود فن کی حرمت اور زبان کی پاکیزگی کو قائم رکھنے میں کامیاب ہیں۔ وہ بہ یک وقت روایتی شاعری سے بھی مستفید ہوتے ہیں اور فکر کی جدت کے تجربے بھی کرتے رہتے ہیں۔
رمز کی مذکورہ خصوصیات کا اعتراف کرتے ہوئے اردو کے سرکردہ ناقد اور ادیب پروفیسر اعجاز علی ارشد نے لکھا ہے کہ:
’’... فرقہ پرستوں کی مخالفت، جنگ سے نفرت، روشن خیالی، امن پسندی، انسانیت سے پیار، عظمتِ انسانی پر اصرار، سرمایہ دارانہ طاقتوں سے بیزاری اور فنکاروں کی حرمت کا احساس، ان کی نظموں کے بنیادی فکری عناصر ہیں۔ ان میں سے بیشتر پہلو ان کی غزلوں میں بھی فنی رکھ رکھاؤ کے ساتھ پیش ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے فن کی ناقدری اور زندگی کی سخت کوشی بھی انھیں اکثر مضطرب رکھتی ہے، جس کے سبب ان کی بیشتر غزلوں میں ایک نہ ایک شعر ایسا دکھائی دیتا ہے جس میں اپنی محرومیوں کا شکوہ کیا گیا ہے۔ بہرحال شاعر کے بالیدہ شعری ذوق اور کلاسکی شاعری کے گہرے مطالعے کے سبب یہ اشعار بھی صرف حرفِ شکایت نہیں رہتے بلکہ اثر انگیز حرفِ سخن بن جاتے ہیں...‘‘۔
’’رمز کی بعض غزلوں میں عصر حاضر کی پیچیدہ زندگی اور انسانی نفسیات کے بدلتے ہوئے تیوروں کا بھی منظر ملتا ہے۔ مگر یہ منظر سپاٹ یا مبہم بیانات پر مبنی نہیں ہے بلکہ رمز نے غزل گوئی کے فن پر اپنی بہترین گرفت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ذاتی تجربوں کے پیکر میں عصری صداقتوں کو پیش کیا ہے...‘‘۔3؎
درج بالا اقتباس میں پروفیسر اعجاز علی ارشد نے رمز عظیم آبادی کی شاعری کی روح کو پکڑنے کی کوشش کی ہے۔ نیز ان کے موضوعات، شاعری کے محرکات اور ان کی فن پر گرفت کی بابت بہت مختصر لیکن جامع تبصرہ کیا ہے۔ رمز کے متعلق گزشتہ سطور میں بھی یہ عرض کیا گیا ہے کہ جو موضوعات ان کی نظموں کے ہیں تقریباً وہی موضوعات غزلوں میں بھی بانداز دگر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ مگر ایک فرق کے ساتھ۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ رمز نے اپنی غزلوں کے ذریعے اپنی داخلی کیفیات اور احساسات کو زیادہ موثر طریقے سے پیش کیا ہے۔ اب آئیے کچھ اور اشعار دیکھیں۔ یہ اشعار بھی’ نغمۂ سنگ‘ سے ماخوذ ہیں، اور یہ بھی رمز کے نمائندہ اشعار نہیں ہیں مگر ان کے مزاج و منہاج اور فکر و آگہی کی تفہیم میں حددرجہ معاون ہیں:
حادثوں سے ڈرنے والو ہے یہ میرا مشورہ
دائرے میں خود کو مرکزمان کر گھوما کرو
——
یہ کس مقام پہ چھوڑا ہے وقت نے لاکر
نہ زندگی کی تمنا، نہ زندگی سے فرار
——
وہ کسی موسم کا بھی محتاج ہوسکتا نہیں
پیڑ جو بنجر زمیں میں پھولتا پھلتا رہا
رمزؔ میری ہر غزل ہے زندگی کا آئینہ
شعر کے سانچے میں اک اک سانحہ ڈھلتا رہا
——
ذہن میں پیوست ہیں کتنے ہی حرفِ بے سند
شہر کا ماحول سنجیدہ ہے دشناموں کے بعد
——
رمز بغاوت کے گیتوں کی جب آواز بھی اٹھتی ہے
لفظوں میں شعلوں کی لپٹ ہے لہجہ بھی جھنکار کرے
——
اپنے شعروں کو تو اپنے شہر کی گلیوں میں پھینک
جو انھیں موتی سمجھ لے گا، اٹھالے جائے گا
——
نسلوں کو میرا نقش قدم خود بتائے گا
چلنے کا حوصلہ مری پسپائیوں میں تھا
——
کب شمع کی لَو پر گرتا ہے، الزام نہ دو دیوانے کو
یہ لیلیٔ شب کا عاشق ہے، پرکھو تو کبھی دیوانے کو
——
ساقی کی نشیلی آنکھوں کا یہ طنز ہے پینے والوں پر
ہے کون جو ہنس کر پی جائے اس زہر بھرے پیمانے کو
درج بالا اشعار رمز کی الگ الگ کیفیات کے غماز ہیں۔ لیکن ایک مخصوص فکر اور خاص دائرہ ہے جس کے اندر یہ اشعار ترسیل کے مرحلے طے کرتے ہیں۔ یہ بات قبل میں بھی عرض کی جاچکی ہے کہ رمز کے یہاں علامت اور استعارے کی دبیز تہیں نہیں ہیں۔ جو کچھ ہے  صاف اور بالکل واضح ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ رمز جس مزاج اور فکر کے شاعر تھے، ان کے لیے یہی  لب ولہجہ اور اسلوب مناسب تھا۔ اہالیان ادب واقف ہیں کہ رمز جدیدیت کے زمانے میں بھی خوب اشعار کہہ رہے تھے۔ ان کے گرد و پیش میں جدید شعراء کے مبہم اشعار بھی کثرت سے موجود تھے۔ ادبی ماحول پر تیزی سے جدت کا رنگ چڑھ رہا تھا۔ لیکن اس آپادھاپی کے دور میں بھی رمز نے اپنے آپ کو سنبھالے رکھا اور اپنی پرانی ڈگر پر مضبوطی سے قائم رہے۔
رمز کے یہ اشعار جیسا کہ کہا گیا کہ مختلف کیفیات کے آئینہ دار ہیں، لیکن مرکزی فکر تقریباً ایک ہی ہے۔ شاعر کے مطابق جو لوگ حادثوں سے خائف ہوکر منظر سے پس منظر کی طرف جانے لگتے ہیں اور حددرجہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ ہر حال میں حوصلہ اور ہمت کادامن نہ چھوڑیں اور خود اپنے آپ کو مرکزمان کر، اپنی ذات کو محور مان کر اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ دوسرے شعر میں اس بات کی توسیع کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ ہماری زندگی اکثر ہمارا امتحان لیتی ہے، کبھی کبھی ایسی صورتِ حال بھی پیدا ہوتی ہے کہ انسان نہ جی سکتا ہے اور نہ ہی مرسکتا ہے۔ اس حالت میں صحیح فیصلہ لے کر کامیاب ہونے میں ہمارا حوصلہ اور عزم محکم بہت ہی معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگلے دو اشعار میں شاعر اپنے بلند حوصلے کا ذکر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ حالات خواہ جیسے بھی ہوں ہمیں آگے بڑھنا ہے اور منزل مقصود کو حاصل کرکے ہی دم لینا ہے۔ شاعر کے مطابق اس کے اشعار ایسی ہی جدوجہد اور کوشش پیہم کا نتیجہ ہیں، اس لیے یہ صحیح معنوں میں زندگی کا آئینہ ہیں۔ آگے کے اشعار میں شاعر جہاں بغاوت کے گیتوں کی بات کرتا ہے تو وہیں شہر کے مزاج اور لوگوں کے رویے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ وہ اپنی خدما ت کے عوض ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا نہیں کرتا۔ اس کا موقف یہ ہے کہ جو قدردان ہیں وہ اس کی قیمت اور اہمیت سمجھیں گے اور انھیں اپنے ذہن و دل میں محفوظ رکھیں گے۔
قبل میں عرض کیا گیا کہ رمز کے غزلیہ اشعارمیں ان کی ذات واضح طور پر نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ آٹھویں شعر میں رمز نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ان کی نارسائیاں اور نامرادیاں انھیں پسپا نہیں کرتیں بلکہ حوصلہ عطا کرتی ہیں۔ اس لیے آنے والی نسلیں انھیں ایک مینارۂ نور تصور کرکے ان سے روشنی حاصل کریں گی، اور زندگی کا سفر بہ آسانی طے کریں گی۔نویں شعر میں شاعر نے اردو کی شعری روایت سے ہٹ کر ایک بالکل الگ طرح کی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے مطابق پروانہ شمع کی لَو پر گر کر جان نہیں گنواتا بلکہ وہ تو رات کی تاریکی کو پسند کرتا ہے۔ یعنی اصل میں وہ لیلیٔ شب کا عاشق ہے لیکن دنیا اسے پروانے کا عاشق سمجھتی ہے۔ اس سلسلے کے آخری شعر میں شاعر نے ایک ایسی کیفیت کا اظہار کیا ہے جس سے وہ ہردم گزرتا رہا ہے۔یعنی زمانہ اسے ستاتا رہا، اسے کم تر اور حقیر سمجھتا رہا۔ اس کے سامنے طرح طرح کی رُکاوٹیں بھی کھڑی کرتا رہا تاکہ وہ پست ہمتی کا شکار ہوکر شکست مان لے۔ لیکن اس نے کسی طور بھی ہار نہیں مانی اور ہر مشکل مرحلے کو بہ دقت تمام سر کرکے ہی دم لیا۔
نغمۂ سنگ‘ میں ان کے علاوہ بھی عمدہ اشعار موجود ہیں۔ بعض غزلیں بہت طویل ہیں اور بعض مختصر لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ان میں بھرتی کے اشعار بہت کم ہیں، یعنی جو ہیں وہ منتخب ہیں۔یہاں ہر شعر رمز کی شخصیت اور ان کے گرد و پیش کو پیش کرنے میں کامیاب ہے۔ رمز کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تلخ اور سخت باتیں بھی کرتے ہیں تو شعری تقاضوں کے التزام کے ساتھ۔ یعنی وہ فن کے تقاضے کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی غزلیہ شاعری فنی اور موضوعاتی، دونوں سطحوں پر حددرجہ پرکشش اور اثر انگیزثابت ہوتی ہے۔
نظموں کے حوالے سے ’شاخِ زیتون‘ کا ذکر ہوچکا ہے۔ اب یہاں ’شاخِ زیتون‘ میں شامل رمز کی غزلوں کی بابت کچھ عرض کرنا مقصود ہے۔ اس مجموعے کا آغاز ان کی جس غزل سے ہوتا ہے اس کے تین اشعار ملاحظہ فرمائیں:
مری زباں کی عبادت ہے گفتگو تیری
مرے فسانے کا عنواں ہے آرزو تیری
——
فریبِ نکہت گل سے بچا کے دامنِ دل
زبانِ خار سے سنتا ہوں گفتگو تیری
——
غرض ہے دیر سے مجھ کو، نہ فکر کعبہ سے
میں اپنے آپ میں کرتا ہوں جستجو تیری
اس غزل کو ’دبستانِ عظیم آباد‘ کے مرتب اور معروف ادیب سلطان آزاد نے اسے رمز کے ابتدائی دور کی غزل بتایا ہے۔ جبکہ رمز کے ہم عصر مقبول شاعر احمد تبسم نے اسے رمز کے ابتدائی دور کی تخلیق قرار دیا ہے۔ ان اشعار کو پڑھنے سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ابتدائی کلام ہوتے ہوئے بھی خیال اور اسلوب کے لحاظ سے نہ صرف پختہ ہے بلکہ ان میں روایتی شعری محاسن کا بطور خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ ان تینوں اشعار میں بھی رمز کے مزاج و منہاج کا عکس صاف جھلکتا ہے۔ رمز کی خود داری، خود پسندی اور اپنے خیال کی صداقت کی دلیل بھی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ یہاں بھی رمز کی ذات کا کرب اور محرومی بہت واضح ہے۔ یعنی رمز نے جس انداز میں اپنی غزلیہ شاعری کا آغاز کیا، وہ انداز اخیر تک قائم رہا۔ ہاں اس میں اتنا اضافہ ضرور ہواکہ موضوعات کی وسعت بڑھی۔ لب ولہجے میں مزید دھار پیدا ہوئی، اور رومانی اشعار (جوکہ پہلے ہی کم تھے) کی تخلیق میں مزید کمی آئی۔ اب آئیے رمز کی اسی غزل سے یہ رومانی اشعار بھی دیکھ لیں      ؎
حجاب میں بھی تجھے بے جواب دیکھ لیا
ہر ایک پھول میں چہرہ ترا ہے، بو تیری
——
رہا نہ پردہ سلامت جمال پردہ نشیں
گلوں نے کھینچ لی تصویر ہو بہو تیری
جو دیکھا رمز کی آنکھوں میں بعد مرنے کے
کھنچی تھی پتلی میں تصویر ہو بہو تیری
یہ اشعار گرچہ رومانی لگتے ہیں، لیکن انھیں عشق حقیقی کے زمرے میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ ایک بات یہاں غور طلب ہے کہ رمز صاحب عشقیہ اشعار بھی خوب کہتے ہیں۔ اگر واقعی وہ اس نوع کے اشعار کہتے تو بلاشک و شبہ اس میدان میں بھی وہ اپنے معاصرین میں نمایاں ہوتے، مگر جیسا کہ عرض کیا گیا کہ انھیں عشقیہ اور رومانی شاعری سے کچھ خاص رغبت نہیں تھی۔ ان کے اندر زمانے کی کڑواہٹ اتنی تھی کہ اسے ہی شعری قالب دینے میں ہمہ وقت مصروف رہے۔
رمز عظیم آبادی کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے مشاہیر نے طرح طرح کے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ کسی نے ان کے اشعار پڑھ کر اشتراکیت کا سراغ لگایا تو کسی نے جدیدیت کا، اور کسی نے ان تمام تحریکات و رجحانات سے مبرا قرار دیا۔ ’شاخ زیتون‘ میں شامل غزلوں کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ رمز نے اپنے عہد میں برپاہونے والے رجحانات و تحریکات کا جزوی یا خارجی اثر تو ضرور لیا لیکن بعد میں انھوں نے اپنے لیے خود اپنی راہ پیداکی۔ یہ ذکر پہلے بھی آچکا ہے کہ وہ پرویز شاہدی کی صحبت میں اشتراکیت کے قریب ہوئے تھے لیکن وہ بہت دنوں تک اس روش پر قائم نہ رہ سکے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ سماج کے دبے کچلے طبقے، مزدوروں اور محنت کشوں کی حمایت میں ضرور لکھتے رہے۔ اب ان کی غزلیہ شاعری کے متعلق چند مشاہیر کے تاثرات ملاحظہ کریں:
’’... رمز کی شعرگوئی کا آغاز اس وقت ہوا جب ترقی پسند شاعری کا شباب تھا، اس نئے اندازِ شاعری سے وہ متاثر ضرور ہوئے لیکن ترقی پسند شاعروں کے ہجوم میں انھوں نے اپنی الگ شناخت بنائی۔ ان کی شاعری میں عصری آگہی اور گرد و پیش کے مسائل سے واقفیت کے علاوہ کلاسکی شاعری کی شائستگی بھی ہے اور لفظوں کا رکھ رکھاؤ بھی۔ ندرتِ تخیل بھی ہے اور ندرتِ اظہار بھی۔ استعاروں کا حُسن بھی ہے اور تشبیہوں کی دل کشی بھی۔ انھیں خوبیوں نے رمز کو دنیائے شاعری میں انفرادیت بخشی 1960کے لگ بھگ جدیدیت کے شور شرابے کا آغاز ہوا،جس کی لپیٹ میں بعض اچھے شعرا بھی آگئے اور اپنی شناخت کھو بیٹھے لیکن رمز کی بالغ نظری نے اس شور شرابے کو ایک موج زود گزر سے زیادہ اہمیت نہ دی اور ان کی سلامت روی نے دستارِ فضیلت کو اخیر عمر تک سنبھالے رکھا‘‘۔4؎

’’کلکتہ کے قیام کے دوران انھوں نے پرویز شاہدی سے مشورۂ سخن کیا۔ یہیں وہ ترقی پسند تحریک سے بھی متاثر ہوئے اور ان کی شاعری میں اشتراکیت کے عنصر پائے جانے لگے۔ لیکن ان کا یہ رنگ انتہائی عارضی تھا۔ اور اسے انھوں نے بہت جلد ترک کردیا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ کسی ’’ازم‘‘ سے کبھی بھی وابستہ نہیں رہے...‘‘۔5؎

’’رمز عظیم آبادی بنیادی طور پر ترقی پسند فکر کے مالک ہیں۔ مگر اکثر ترقی پسند شاعروں کے یہاں جو پرشور احتجاج ملتا ہے، اس سے رمز نے دامن بچایا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے ترقی پسند فکر کو فنی آراستگی کے ساتھ اپنی شاعری میں جگہ دی...‘‘۔6؎

’’رمز جہاں اپنے کلاسکی مزاج کا پتہ دیتے ہیں، وہیں جدید حسیت ان کی میراث ہے۔ یہ صورتیں نظم میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں اور غزل میں بھی۔ ان کی نظمیں اور غزلیں ایک کہنہ مشق، حساس اور مُلتہت دل رکھنے والے شاعر کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا رمز اپنی رمزیت کے ساتھ روحانیت کا بھی سفر کرنے لگے۔ اشارے کنائے سے بھری ان کی غزلیں ایک طرف مادی استحصال کے خلاف آواز ہیں تو دوسری طرف روحانی ارتفاع کی داعی ہیں...‘‘۔7؎
درج بالا اقتباس کی روشنی میں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ رمز نے مختلف وقتوں میں مختلف ادبی رجحانات سے استفادہ کیا۔ لیکن آگے چل کر ان پر مذہبی رنگ غالب آگیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ خالصتاً روحانیت سے معمور اشعار کہنے لگے، اور وہ بھی کثرت کے ساتھ۔
اب آئیے ان تمام بیانات و تاثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے رمز کے چند اشعار (شاخِ زیتون سے) دیکھیں:
دائرے سب نے عقائد کے بنارکھے ہیں
ورنہ مخصوص نہیں کوئی ٹھکانہ تیرا
——
تم پسینہ مت کہو، ہے جانفشانی کا لباس
دھوپ میں چلتے ہوئے رکھتے ہیں پانی کا لباس
——
ہر نخل نو ہے تیز ہوا کے دباؤ میں
طوفان کا حریف پرانا درخت ہے
——
زندگی کی تلاش جاری رکھ
لوحِ تربت کو سنگ میل نہ کر
——
ہر آدمی کو یہاں دعویِ خدائی ہے
اکیلی جان ہے کِس کِس کا احترام کریں
——
وہ سکونِ دل ہے جو گھر میں کبھی ملتا نہیں ہے
اس گھٹن سے تنگ آکر میں نے تنہائی خریدی
——
بس اتنا دیکھو کہ انسانیت بھی ہے کہ نہیں
نہ خاندان، نہ مذہب، نہ قومیت دیکھو
——
اس صدی کا جب کچھی ختم سفر دیکھیں گے لوگ
وقت کے چہرے پہ خاکِ رہ گزر دیکھیں گے لوگ
——
جانے کس وقت بدل جائے سمندر کا مزاج
اپنی کِشتی سے جزیرے پہ قدم مت رکھنا
شاخِ زیتون‘ کی غزلوں سے لیے گئے یہ اشعار بھی ’نغمۂ سنگ‘ کی طرح رمزکے نمائندہ اور مشہور اشعار نہیں ہیں۔ لیکن ان کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ رمز کے افکار و نظریات اور جذبات و احساسات کے بہترین عکاس ہیں۔ گزشتہ سطروں میں یہ عرض کیا گیا کہ رمز کی شاعری پر مختلف وقتوں میں مختلف رجحانات کے اثرات رہے ہیں، لیکن عمومی طور پر ان کے یہاں اپنی سوچ اور اپنا انداز بیان حاوی ہے۔ اس انتخاب کا پہلا شعر ہی دیکھیں۔ پہلے مصرعے میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر آدمی اپنے اپنے خول میں سمایا ہوا ہے جس سے وہ باہر نہیں آنا چاہتا ہے اور اسے ہی کائنات سمجھ بیٹھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا اب کوئی چارہ نہیں ہے یعنی وہ مختلف نظریات کے حصار میں محصور رہتے ہوئے بھی کسی ایک مرکز پر نہیں ہے۔ دوسرے شعر میں شاعر نے مزدور کے پسینے کو محض پسینہ کہنے پر تعرض کیا ہے۔ اس کا یہ ماننا ہے کہ وہ دھوپ کے مسافر ہوتے ہوئے بھی راحت کا سامان اپنے پاس رکھتا ہے۔ یعنی جہد مسلسل اسے تھکاتا نہیں بلکہ کامیاب و کامران بنانے کا سبب ہوتا ہے۔ تیسرے شعر میں شاعر نے ندرت پیدا کرتے ہوئے ایک بالکل نئے نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے مطابق کمزور اور پسماندہ لوگ اکثر دبائے اور ستائے جاتے ہیں۔ ان کی کمزوری اور بے بسی سے فائدہ اٹھاکر انھیں کچلا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی کے مخالف نہیں ہیں اور جو مخالف ہے، وہ ہر طرح سے محفوظ اور آسودہ ہوتا ہے۔ وہ اس لیے کہ وہ حددرجہ مضبوط اور بااثر ہوتا ہے۔ چوتھے شعر میں بھی شاعر کے یہاں ندرت خیال کی رعنائی صاف جھلکتی ہے۔ شاعر کے مطابق کسی کا اتباع کرنا، اور آنکھ موند کر اس کے نقشِ قدم کو اپنا مقدر تصور کرنا عبث ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اپنے لیے کامیابیوں کے نئے راستے خود پیدا کرے۔
رمز عظیم آبادی کے یہ سلیس اور عام فہم اشعار گرچہ ظاہر میں یک رخے محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں بھی رمز اور ایمائیت کا التزام ہے، جسے محسوس کرنے کے بعد ہی شعر کی روح تک پہنچا جاسکتا ہے۔ چھٹے شعر کو دیکھیں، یہاں شاعر نے اپنی داخلی کیفیات کو اہمیت دیتے ہوئے یہ باور کرانے کی سعی کی ہے کہ وہ انجمن میں رہ کر، اجتماع میں بیٹھ کر خود کو اکثر تنہا محسوس کرتا ہے۔ وہاں اس کی ذات بے معنی اور بے وقعت نظر آتی ہے اس لیے بھیڑ سے الگ اسے تنہائی اور خود آگاہی کے ماحول میں زندگی بسر کرنی چاہیے تاکہ اس پر زندگی کے راز اور رموز کائنات منکشف ہوسکیں۔ ساتویں شعر میں شاعر نے ایک طرف جہاں انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی ہے وہیں اس نے ہر طرح کے قبیلے، عقیدے اور مذہبی حصار سے باہر آنے کی ترغیب دی ہے۔ آئندہ کے دو اشعار میں شاعر نے ایک طرف جہاں موجودہ عہد کے سفاک چہرے سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور آنے والے وقتوں میں اس کے کریہہ چہرے کی جھلک دکھلائی ہے۔ وہیں اس نے عوام کو باخبر کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وقت کہیں ٹھہرتا نہیں، تغیر اور تبدیلی اس کی فطرت ہے، اس لیے ذرا سے مفاد اور آسودگی کے لیے کوئی ایسا قدم نہ اٹھے کہ بربادی ہمیشہ کے لیے مقدر بن جائے۔
رمز کے یہاں مذکورہ اشعار کے علاوہ ایسے اشعا ر بھی کثرت سے ہیں جو اپنے موضوع، کیفیت اور اشارت کے سبب گہرے معنی اور افکار سے معمور ہیں۔ لیکن اس خاصے کے ساتھ کہ کہیں بھی بے جا علامت استعارے اور رمز و کنایے کا عمل دخل نہیں۔ یعنی رمز نے اپنی شاعری میں بطور خاص اس امر پر توجہ دی ہے کہ ابہام اور اغلاق معانی و مطالب کی ترسیل میں رکاوٹ نہ بنیں، نیز یہ کہ وہ جو پیغام معاشرے کے دبے کچلے اور اشرافیہ طبقے تک پہنچانا چاہتے ہیں، وہ بہ آسانی پہنچ جائیں۔ لیکن کمال یہ ہے کہ اس مقصدی شاعری کے دوران بھی وہ فن کی حرمت کو کبھی اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
رمز کی اس شاعرانہ خصوصیت کو پروفیسر مختارالدین احمد آرزو نے ظاہر کرتے ہوئے اسے اقبال کی شاعری کے قریب بتایا ہے۔ملاحظہ کریں آرزو صاحب کا یہ اقتباس:
’’رمز عظیم آبادی ایک غیر مبہم نقطہ نظر کے مالک ہیں اور اپنے شعروں کے ذریعے ایک واضح پیغام قارئین تک پہنچانا ان کا مقصد رہا ہے۔ ایک طرف تو وہ دبے کچلے ہوئے محنت کش کو بیدار ہونے اور اپنا حق بہ زورِ باز و حاصل کرنے کا درس دیتے ہیں تو دوسری طرف عام لوگوں کے دلوں میں اس طبقے کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ لیکن جو بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ رمزاپنے پیام کو پیروپگنڈہ نہیں بننے دیتے۔ اس طرح ان کا رشتہ علامہ اقبال سے جڑجاتاہے۔ اقبال کی طرح رمز نے بھی کبھی فکر کو فن پر حاوی نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ آداب شاعری کو ملحوظ رکھا، شعری وسائل سے رمز نے پوری طرح کام لیا...‘‘۔8؎
اس اقتباس کی روشنی میں دیکھیں تو اقبال کی طرح رمز کے یہاں اشعار میں ان کے ذاتی کرب کے ساتھ حالات کا جبر اور اس سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی  بدرجہ اتم ملتا ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں سپر ڈالنے کو تیار نہیں۔ وہ سنگین سے سنگین حالات میں بھی ہمت وحوصلہ اور تفخر و تفوق کے احساس سے معمور نظر آتے ہیں۔ یہ شاعر کی زندہ دلی اور سخت جانی ہے۔ ’شاخِ زیتون‘ سے کچھ اور  اشعار اور ملاحظہ کریں     ؎
لاکھ بے مایہ ہوں، اتنا بھی تہی دست نہیں
میری آنکھوں کے صدف ہیں، یہ گہر تیرا ہے
——
سخنوروں کے لیے ہے وراثت فردا
سنبھال کے مرا حسنِ بیان رکھ دینا
——
کھیلنے کی عمر ہی میں دنیا داری سیکھ لی
جانے کب رخصت مرا معصوم بچپن ہوگیا
——
تخم ریزی کررہاہوں میں اسی امید پر
پھولتے پھلتے ہوئے کل یہ شجر دیکھیں گے لوگ
——
تمام رات اندھیروں سے لڑتو سکتا تھا
یہ مت کہو کہ اکیلا چراغ کیا کرتا
——
فقیر شہر تو ہوں میں گدائے راہ نہیں
کرم کی بھیک نہ دے ایسی بے رخی سے مجھے
مرے جلو میں چلے گا سمندروں کا جلال
نہ روک پائے گا کوئی شناوری سے مجھے
——
جو انکشاف راز کا مظہر ہے دوستو
مصلوب ہے وہ حرف صلیبِ زبان پر
——
چراغ فن کو نئے خون کی ضرورت ہے
عظیم آباد کی گلیوں میں یہ صدا دینا
جو رمز کہتے ہیں، مانگے کی روشنی ہے کلام
مری غزل کا انھیں آئینہ دکھا دینا
مندرجہ بالا اشعار تقریباً ایک ہی موڈ اور کیفیت کے ترجمان ہیں۔ رمز کے یہاں تعلی اور نرگیسیت کا عنصر تو پایا جاتا ہے لیکن ان کی یہ تعلی اور خودستائی سچائی سے قریب محسوس ہوتی ہے۔ ایک طرف جہاں وہ اپنی کم مائیگی کا ذکر کرتے ہیں تو دوسری طرف اسے فخریہ طور پر لیتے ہیں۔ وہ اپنے بیشتر اشعار میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کم مائیگی، ناداری اور محرومی کے باوجود ان کے یہاں فن شاعری کا بیش بہا خزانہ ہے، جسے آنے والے وقتوں میں پورے طور پر سمجھا جائے گا۔ رمز خود کو ایک تنہا انسان نہیں بلکہ ایک انجمن تصور کرتے ہیں۔ اور پوری دنیا سے لوہا لینے کا عزم رکھتے ہیں۔ رمز کو ادب کے تازہ اذہان یعنی نئی نسلوں سے بہت امید ہے۔ کیونکہ یہی لوگ تمام ترتعصبات اور تحفظات سے اوپر اٹھ کر اصل فنکار کی شناخت کریں گے اور اس کے اصل مقام و مرتبے کا تعین کریں گے۔
اب اخیر میں رمز کے کچھ نمائندہ اور مقبول عام اشعار ملاحظہ کریں۔ یہ اشعار ان کے دونوں مجموعوں سے ماخوذ ہیں۔ پہلے یہ نعتیہ اشعار ملاحظہ کریں:
سرِ انسانیت کا مصطفیؐ کو تاج کہتے ہیں
عروج آدمیت کو شبِ معراج کہتے ہیں
——
یہ کائنات چودہ ورق کی کتاب ہے
ہر ہر ورق پہ نام رسالت مآب ہے
——
مدح رسول پاک سے حاصل ہے یہ شرف
ظلمت میں روشنی کا وسیلہ ہے ہر طرف
اب چند غزلیہ اشعار جو عوام و خواص میں مقبول ہیں:
جب تک تھکن نہیں تھی رہا میں حریف موج
احساسِ خستگی ہی تہہِ آب لے گیا
——
ملے تو اس سے محبت کی گفتگو سیکھو
تمھارے شہر میں ایک شخص بے زبان بھی ہے
——
بیچ کے ہم تقدیسِ غزل کو سوداگر کہلائیں گے
شیشے کا بیوپار کریں گے خود پتھر بن جائیں گے
——
آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکیں، ناممکن ہے
نقشِ قدم کے مٹتے مٹتے راہ گزر بن جائیں گے
——
جنابِ رمز ہے باہر ہجوم بے ہنراں
چھپائے بیٹھے رہیں دولت ہنر گھر میں
——
کبھی وہ میری گزر گاہ بن نہیں سکتی
رمانہ روند کے چلتا ہے جن زمینوں کو
——
زندہ رہنا ہے تو فن کا جائزہ لیتے رہو
شعر کہتے ہو تو لفظوں کی دعا لیتے رہو
——
مرے نہ ہونے کا غم دوست کو بجا و درست
سوال یہ ہے کہ دشمن کی آنکھ نم کیوں ہے
——
سلیقہ گفتگو کا جھوٹ کو بھی سچ بناتا ہے
تو پھر لفظ اب آب سے دھولے زبان معتبر کو
اوپر نقل کیے گئے اشعار کی پہلی قرأت سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ رمز کے یہاں موضوعات میں کس قدر وسعت ہے اور وہ مختلف کیفیات کو شعری قالب میں ڈھالنے میں کس قدر مشاق ہیں۔ رمز اپنے عہد کو بہت گہرائی سے سمجھتے ہیں اس لیے ان کے یہاں ان کے خالص اپنے تجربات بہت ہی حقیقی روپ لے کر عیاں ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں ایک بڑی خوبی فنکاروں اور ادب نوازوں کو باخبر کرنے کی بھی ہے۔ وہ ہر مقا م پر اصل فنکار کی شناخت پر زور دیتے ہیں۔ نیز وہ شاعری کو عبادت سمجھتے ہوئے لفظ کی حرمت اور فن کی قدر و منزلت کو ہمیشہ اولیت دیتے ہیں۔ ان کے مجموعے ’نغمۂ سنگ‘ اور ’شاخِ زیتون‘ میں شامل اکثر غزلیں اپنے گردو پیش اور اپنے عہد کو پورے طورپر منعکس کرنے میں کامیاب ہیں۔ ساتھ میں شعریت، نغمگی اور حلاوت ان کی شاعری کو تادیر زندہ رکھنے میں حددرجہ معاون ثابت ہوتی ہے۔
حواشی
.1           رمز عظیم آبادی: شخصیت اور فن، مرتب: محمد شمس الحق (سلسلہ پٹنہ، اپریل2000)، ص 80-81
.2            رمز عظیم آبادی: شخصیت اور فن: محمد شمس الحق ص84
.3           شاخ زیتون، مرتبین: سید فیاض الرحمن، معین کوثر (ادبی مرکز پٹنہ 1998)، حرفِ چند، اعجاز علی ارشد ص25-26
.4            شاخِ زیتون: بہزاد فاطمی ص18
.5           شاخِ زیتون: ہارون رشید ص24
.6           شاخِ زیتون: پروفیسر اعجاز علی ارشد ص25
.7           شاخِ زیتون: پروفیسر وہاب اشرفی ص19
.8           رمز عظیم آبادی: شخصیت اور فن ص28
.9           نغمہ سنگ، رمز عظیم آبادی (مہاراشٹر اردو اکادمی، پٹنہ 1988(
Naseem Ahmad Naseem
Near Mirshikari Toli Masjid Kali Bagh
Bettiah. 845438
Mob. 7011548240

سہ ماہی فکر و تحقیق، اپریل تا جون2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

دکنی ہندو اور اردو، ماخذ: دکنی ہندو اور اردو، مصنف: نصیرالدین ہاشمی

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 اب ہم ایسے دور کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جبکہ سرکار آصفیہ کی سرکاری زبان فارسی سے اردو ہوگئی تھی، اردو کے رسالے اور ا...