9/6/20

’ایک چادر میلی سی‘ کا تنقیدی مطالعہ مضمون نگار: پرویز شہریار



ایک چادر میلی سی‘ کا تنقیدی مطالعہ
پرویز شہریار


’’ایک چادر میلی سی کی رانو ایک مجبور اور مقہور لڑکی تھی جسے اس کے ماں باپ نے اپنے افلاس سے تنگ آکر روٹی کپڑے کے عوض تلو کے کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ تلوکے کے قتل کے بعد اسے اپنے دیور ’منگل‘ سے شادی کرنی پڑتی ہے۔ پھر اپنے نئے شوہر کو رام کرنے کے لیے اسے تریا چرتر کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ شراب سے وہ سخت نفرت کرتی تھی، آخر اسے ہی بروئے کار لاکر منگل کو جیتنا پڑتا ہے۔وہ ایک مطیع اور فرماں بردار شوہر بن جاتا ہے۔‘‘
 ’’مرد کتنی بھی بعاوت کرلے ’شکتی‘ یا ’مایا‘، اسے آلیتی ہے۔ رانو، ایک عام گوشت پوشت کی عورت، اپنے آپ کو Develop کرنے کے بعد، آخر میں دیوی ہوجاتی ہے۔‘‘(1)
اس ناول کی کہانی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والے بھاٹیہ پریوار کی خانگی پریشانیوں پر موقوف معلوم ہوتی ہے۔ حضورسنگھ اس خاندان کا ایک بزرگ اور ذمے دار فرد ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ضعیفی کی وجہ سے معذور ہے اور اس کی آنکھوں سے دکھائی بھی کم دیتا ہے۔ایک بوڑھی عورت ہے اور عورت سے زیادہ وہ ایک چڑچڑی اور نک چڑھی ساس ہے۔ وہ اٹھتے بیٹھتے بہو کو تنگ کرتی رہتی ہے۔ حضور سنگھ کے دو بیٹے تلوکا اور منگل ہیں۔ دونوں میں عمر کا بڑا فرق ہے۔ تلوکایکہ چلاتا ہے اور اس کی کمائی سے گھر کا خرچ چلتا ہے۔ منگل نہ کام کانہ کاج کا، دشمن اناج کا، مشٹنڈے کی طرح گھومتا رہتا ہے۔ تلوکا اور رانی کے چار بچے ہیں ایک لڑکی بڑی ہے دو جڑواں بیٹے بنٹے اور سنٹے ہیں۔ ایک سب سے چھوٹا بیٹا چموں ہے جو گود میں ہے۔ کوٹلہ جاتریوں کی جگہ ہے جو لوگ وشنودیوی کے درشن کو آتے ہیں تلوکا انھیں اچھے کھانے نرم گرم بسترکے بہانے سے لے جاکر مہربان داس کی دھرم شالہ میں چھوڑآتا ہے۔ یہ دھرم شالہ گاؤں کے چودھری بھائیوں کی ہے۔ تلوکے کو شراب کی لت لگی ہوئی ہے۔ وہ اس کے لالچ میں آکر کسی بارہ تیرہ سال کی اکیلی لڑکی کو مہربان داس کی دھرم شالہ میں چھوڑآتا ہے۔ اس رات دھرم شالہ میں اس لڑکی کے ساتھ جنسی زبردستی کی وجہ سے موت ہوجاتی ہے۔ اس لڑکی کے بھائی کو پتہ لگتے ہی وہ تلوکے کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ قاتل سمیت سبھی مجرموں کو جیل ہوجاتی ہے۔ تلوکے کی موت سے رانو کی دنیا اجڑجاتی ہے۔ گھر کی مالی حالت اس قدر خراب ہے کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی ہے۔ منگل یکہ سنبھال لیتا ہے۔ جنداں اپنی بیوہ بہو پر مصیبت کے پہاڑ توڑنے لگتی ہے۔ اس کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ اس کشمکش میں رانو کے پڑوس میں رہنے والی چنوں اسے منگل پر چادر ڈال لینے کی صلاح دیتی ہے۔ اس کے بعد یہ خبر پنچوں تک پہنچتی ہے اور سبھی اس صلاح سے اتفاق کرتے ہیں کہ گاؤں کی بہوگاؤں ہی میں رہ جائے تو بھلا ہے۔ بالآخر، رانو اور منگل کی چادر ڈال کر شادی کی رسم پوری کردی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ آگ اور پھونس میں بیرہوتا ہے۔ قدرت اپنے مقررہ وقت پر انھیں ازدواج کے بندھن میں باندھ دیتی ہے اب رانو امید سے ہوتی ہے اور نہ صرف یہ کہ اس کا گھر اجڑنے سے بچ جاتا ہے بلکہ اس کی لڑکی بھی جنداں کے ذریعے ساڑھے پانچ سو روپے میں بکنے سے بچ جاتی ہے۔ ادھر مقتولہ لڑکی کا بھائی جیل سے رہا ہوکر تلوکے کی بیٹی بڑی سے شادی کرکے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہے۔ یہ وشنودیوی کی بڑی پرکرپا کادن ہوتا ہے بھگتوں کا ہجوم اس لڑکے کے ساتھ ہوتا ہے اور دیوی ماں کی کرپا سے اور حضور سنگھ کے فطرت کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالنے کے پرخلوص مشورے سے رانو ’’ہاں‘‘ کہہ دیتی ہے۔ دم سادھے مجمع دیوی ماں کی بھینٹیں گانے لگتا ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ رانو کے ایک نہ کہنے سے پرلے آجاتا لیکن اب سبھوں کی دنیائیں بس گئیں۔
ایک بھری پوری عورت جس کی زندگی میں شوہر کے ازدواجی سکھ کے علاوہ کوئی سکھ میسر نہ ہو اور اچانک ایک دن اس شوہر کا قتل ہوجائے تو اس کی زندگی اپنے محور سے بالکل ہٹ جائے گی۔ رانو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہاں مسئلے کی نوعیت صرف جنسی سکھ سے وابستہ نہیں ہے بلکہ وہی شوہر اس کی زندگی کا کل اثاثہ بھی تھا۔ تلوکا اس کے بچوں کی زندگی کا بیمہ تھا، رانو کو اس گھر سے، اس کے سسر اورساس بلکہ اس گاؤں سے جوڑنے والی سماجی کڑی تھا۔ تلوکے کی بیوہ اپنے گھر اپنے گاؤں کے لیے پرائی ہے، جب تک کہ  اس کی شادی منگل سے نہیں ہوجاتی ہے۔ معاشی اعتبار سے رانو کو اس گھر اور اس گاؤں سے جڑے رہنے کے لیے منگل کے ساتھ اپنے اوپر ایک چادر ڈالنے کی رسم پوری کرنی ہوگی تبھی وہ اپنے بچوں کے ساتھ بھی رہنے کی حقدار بن سکے گی۔ یہاں اس کی ممتا بھی داؤ پر ہے۔
لیکن اخلاقی قدریں ابتدا میں اسے اس قدم سے دور رکھتی ہیں۔ جب وہ بیاہ کے آئی تھی منگل پانچ برس کا بچہ تھا وہ بچے کو دودھ پلاتی تو منگل وہیں پاس کھڑا اسے معصوم اور للچائی نظروں سے دیکھا کرتا تھا۔ وہ اسے ماں کہتا اور اپنی ماں کو تائی کہتا تھا ۔ رانو کی ایسی مامتا پر مبنی قدریں اور معاشی قدروں کے درمیان آویزش حائل ہوتی ہے۔ اس پر مستزاد، اس عمر کے اپنے جنسی تقاضے ہیں۔ چادر ڈالنے کے باوجود اگر وہ اسے جنسی طور پر آسودہ حال نہیں کرتی تو مرد اور عورت کو دنیا کی کوئی طاقت ایک چھت کے نیچے زیادہ دنوں تک روکے نہیں رکھ سکتی ہے۔ حتیٰ کہ شادی میں لیے گئے سات پھیرے اور منتر سب بے کار اور بے اثر ہیں۔ لہٰذا، پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دو وقت کی روٹی اور اپنی عزت ڈھانپنے کے لیے کپڑے اسے کون دے گا؟ اس کی ساس جنداں اسے گھر سے دھکے مار کے نکال دے گی۔دوسری طرف اخلاقی موانعات، گھر میں جوان ہوتی ہوئی لڑکی اور خود اس کی نظروں کے سامنے کل کا بچہ جس کے کان پکڑکے وہ اسے مارتی تھی جب وہ شرارتیں کرتا تھا۔ ان اخلاقی قدروں کے تصادم سے رانو کے اندر ہی اندر ایک مہابھارت چھڑجاتی ہے۔
اس ناول کا پلاٹ خونی منظر سے شروع ہوتا ہے۔ زنا اور قتل سے ابتدائی حصہ پوری طرح آلودہ ہے۔ المیہ واقعات سے شروع ہوکر سماجی مسائل پر ایک چادر میلی سی ڈالنے کے بعد اخلاقی اور جنسی آویزشوں سے بالیدہ ہوکر انجام کار پلاٹ ایک طربیہ منظر پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ان دو مناظر کے درمیان راجندرسنگھ بیدی کا اپنا نظریۂ حیات اور ان کا وژن یعنی کائنات کو دیکھنے سمجھنے کی بصیرت اور بصارت کی کرشمہ سازی اپنے سات سروں کے ساتھ نغمہ زن ہوتی ہیں۔ ناول مختصر ہے لیکن معنوی تہہ داری اور فلسفیانہ عظمت خیال، باریک بینی اور فنی چابکدستی اسے شاہکار بنادیتی ہے۔
بیدی نے اس ناول میں پلاٹ کی تنظیم اتنی باریکی اور مہارت سے کی ہے کہ اس میں کہیں بھی جھول نظر نہیں آتا ہے۔ پلاٹ چست اور ارتقا پذیر ۔واقعات زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ قصہ بوجھل نہیں ہے بلکہ سبک رفتاری کے ساتھ واقعات اور محاکات کے سہارے تیزی سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ علاوہ ازیں ، کوئی بھی واقعہ غیر فطری یا محیر العقول نہیں ہے۔
بیدی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور پریم چند کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے منکر بھی نہیں تھے تاہم بیدی نے حقیقت کے اظہار کے لیے معنوی تہہ داری اور دروں بینی سے بھی کام لیا ہے۔ نفسیاتی موشگافی اور فلسفیانہ بصیرت سے بھی کام لیا ہے۔ ان کے یہاں تاریخی بصیرت کے ساتھ ساتھ سماج کا اجتماعی شعور بھی جابجا جلوہ گر نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانی محض حضورسنگھ کے کنبے کی کہانی نہ رہ کرپورے گاؤں کا رزمیہ بن جاتی ہے۔ اس کے پلاٹ میں کئی ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں جن سے کسی فرد واحد کے بجائے پورے گاؤں کی قسمت و عزت وابستہ ہوتی ہے۔ مذکورہ تبصرے میں یہ بات بالکل درست ہے کہ یہاں دل سے دل اور گھر سے گھر جڑے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے دلوں کے بیچ کوئی دراڑ ہے اورنہ گھروں کے درمیان کوئی دیوار ہے۔ چھوٹا سا گاؤں معمولی سا واقعہ بھی جنگل کی آگ کی طرح اس سرے سے اس سرے تک آناً فاناً میں گشت کرنے لگتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک چادر میلی سی ایک پورے گاؤں کی زندگی کی کشمکش کی کہانی ہے ۔ اس میں ہندومسلم سکھ سبھی ہیں۔
 آمدنی کا اصل ذریعہ وہ جاتری ہیں جو وشنودیوی کے درشن کو مختلف گاؤوں سے آیا کرتے ہیں۔ جاتریوں کے رہنے اور کھانے پینے جیسی چھوٹی چھوٹی ضروریات پوری کرنے کے لیے لوگوں کے چھوٹے موٹے کاروبار ہیں۔ ٹھہرنے کے لیے دھرم شالائیں ہیں۔ ریل گاڑی سے اترکر جاتریوں کی سواریاں اسٹیشن سے بڑھتی ہیں تو وہ یکے اور تانگے پر بیٹھ کر اپنا آگے کا سفر طے کرتی ہیں۔ ان یکہ بانوں میں تلوکا بھی ہے جو اپنی روزی روٹی کے لیے اسٹیشن سے سواریاں بٹھاکر انھیں ان کی منزل تک چھوڑ آتا ہے۔
تلوکے کو یہ سب کچھ اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ اس کے گھر میں بزرگ ماں باپ ہیں۔ چھوٹا بھائی منگل ہے جو ابھی کمانے لائق نہیں ہوا ہے۔ تلوکاکی ایک ان پڑھ لیکن سمجھ دار بیوی ہے جس سے اس کے چار بچے ہیں۔ ایک لڑکی ہے بڑی جس کا نام بھی بڑی ہے۔ دو جڑواں بیٹے ہیں جن کا نام بنٹے اور سنتے ہے اور چھوٹا بچہ ایک سال کا گود میں ہے جسے وہ سب پیار سے چموں کہہ کر بلاتے ہیں۔ تلوکا کی یہی کل کائنات ہے۔ وہ ہنس مکھ ہے۔ صحت مند ہے اور گاؤں کی ہم عمر عورتوں کو مذاق سے بھپتیاں بھی کستا رہتا ہے۔
وہ دن بھر کی محنت کرنے کے بعد شراب پی لیتا تھا۔ لیکن اس کی اندر سے پکی بیوی رانو کو معلوم تھا کہ شراب ایسی سوت ہے کہ مرد اسے پینے کے بعد کسی کام کا نہیں رہتا ہے۔ اسے شراب سے نفرت تھی اور وہ اس کے لیے چودھری بھائیوں کو اس کا قصوروار سمجھتی تھی۔ انہوں نے ہی تلوکا کو اس کی بری لت لگادی تھی۔ مٹھے مالٹے کی بوتل اور ایک آدھ چاپ کے عوض وہ جاتریوں کو اچھے کھانے اور نرم اور گرم بستر کے لالچ میں چودھری مہربان داس اور اس کے بھائی گھنشیام کی دھرم شالہ میں لے آیا کرتا تھا۔
تلوکا سدا کا شرابی نہ تھا۔ کنبہ چھوٹا تھا آمدنی معقول تھی۔ افراد خانہ بڑھے اور ان کی عمریں بھی بڑھیں تو آمدنی خرچ کے حساب سے کم ہوتی چلی گئی تھی۔منگل بے کار اور بدکار، دن بھر اِسے چھیڑ، اُسے چھیڑ،بار بار تہہ بند کو کس… گھر آتا تو یوں کھانا مانگتا جیسے سب اسی کی کمائی کاہو اور بھابھی رانو اندر سے خوش،باہر سے غصے میں کہتی…’’دیتی ہوں مشٹنڈے!… تیرے ہی لیے تو سب پکاہے۔‘‘ رانی کے سسر حضورسنگھ کی آنکھوں میں موتیا بند اتر آیا تھا اور وہ ہمیشہ چارپائی پر بیٹھا کانوں سے دیکھنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ ادھر تلوکا ہفتے میں تین دن گھر میں ہی پڑا رہتا جس سے گھر میں خرچ چلانا مشکل ہونے لگا۔ معاشی مسائل ہی تمام برائیوں کی جڑ ہوتے ہیں۔ رانو کے دن بہت دکھ میں کٹنے لگے تھے۔ رانو کو اس بات کا بڑا دکھ تھا کہ اس کا آگاتو جیسا تیسا بھی ہے لیکن پیچھا کوئی نہیں۔ کبھی تو ایسا وقت آجاتا ہے جب عورت گر کر پیچھے کی طرف دیکھتی ہے اور جو نہ دیکھ سکے تو اسے آگے بھی نظر نہیں آتا۔ لیکن اسے وہ اچھے دن بھی یاد آتے ہیں۔ جب وہ مجیٹھا گاؤں سے بیاہ کر آئی تھی۔
رانو جانتی تھی کہ تلوکے کو بدمعاشی کی لت مہربان داس کے ہاتھوں لگی ہے اور جب گاؤں کی عورتوں سے تلوکے کے متعلق عجیب عجیب باتیں سنتی ہے تو اس کا ماتھا ٹھنکتا ہے۔ وہ اس کی بری عادت چھڑانے کے لیے تلوکے سے لڑتی بھی تھی۔ حتیٰ کہ تھک ہار کر اس نے تلوکا کو سدھارنے کے لیے باوا ہری داس سے ٹونا بھی لے آئی تھی۔ اس سائیں بابا سے کوئی بیٹا مانگتی، کوئی اٹھراکی دوائی… اکثر تو اپنے مردوں کو بس میں کرنے کے ٹوٹکے ہی پوچھنے آتیں۔ ابھی کچھ ہی مہینے ہوئے اس نے پورن دئی مصرانی کو ٹوٹکا دیا جس سے نہ صرف وہ پیٹ والی ہوگئی بلکہ گیان چند، اس کا مرد، پاگلوں کی طرح اس کے ارد گرد چکر کاٹنے لگا۔ لیکن رانو کی مجبوری یہ تھی کہ تلوکے نے کچا دودھ مانگا ہی نہیں تھا اور وہ اس انتظار میں تھی کہ تلوکا کچا دودھ مانگے اور وہ ٹونے کو اس میں گھول کر پلادے۔
آج شام ڈبو کے رونے کی وجہ یہ تھی، تلوکا اپنی پرانی بدمعاشی کی لت کے زیراثر تلوکا نے آج کسی معصوم سواری یعنی ایک بارہ تیرہ سال کی نوخیز اوراکیلی جاترن لڑکی کو چودھریوں کی دھرم شالہ میں چھوڑ آیا تھا۔ یہ جاترن لڑکی وشنودیوی کے درشن کے لیے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ گھر سے نکلی تھی لیکن گزشتہ کسی اسٹیشن میں اس کا بھائی کوئی چیز خریدنے کے لیے اترا اور ریل گاڑی چل پڑی تھی۔ تلوکا نے اس لڑکی کو سمجھا بجھاکر رات کی رات دھرم شالہ میں رہ جانے کے لیے رضامند کرلیا تھا۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تلوکا اس قسم کے گناہ کی دلدل میں پھنس چکا تھا۔ جس وقت اس نے معصوم لڑکی پر اپنی نیت بری کی تھی مصیبت اسی وقت سے اس کا پیچھا کررہی تھی۔ بلکہ تلوکا یہ نہیں جانتا تھا کہ اس لڑکی کی موت بھی ہوسکتی ہے۔ ڈبو کی چھٹی حس نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ موت اس کے سرپرناچ رہی ہے اور یہی وجہ تھی کہ ڈبو اس کے گھر کی طرف منھ اٹھا کر رو رہا تھا۔
شام کے وقت تلوکا شراب کی بوتل اور ٹماٹر اپنے اریب کرتے کی جیب سے نکال کر رانی سے کہتا ہے کہ اسے پیاز ڈال کر کاٹ دے تاکہ وہ سلاد کے ساتھ شراب نوشی کرسکے۔ لیکن شراب کے نام پر رانو بپھر جاتی ہے۔
رانو اور تلوکا میں اس شراب کی بری لت کو لے کر گھمسان جنگ چھڑجاتی ہے۔ افراد خانہ اس لڑائی سے پریشان ہوجاتے ہیں، بچے ڈر سے چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ سسر حضورسنگھ رانی کو تلوکا کی مار سے بچانے میں خود تنور پر گر کر جھلس جاتا ہے۔ ساس جنداں رانو کو کوسنے اور طعنے دینے لگتی ہے۔ تلوکا رانو کے کپڑے پھاڑ کر اسے مادرزاد ننگی کردیتا ہے اور گھر سے بھگانے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ خانگی جھگڑے کی حد سے تجاوز کرتی ہوئی آوازیں سن کر گاؤں کی عورتیں کوٹھے کوٹھے ہوتی ہوئی وہاں جمع ہوجاتی ہیں۔
تلوکا اور رانو کی خانہ جنگی کو اب تک منگل دور کھڑا دیکھ رہا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ میاں بیوی کی لڑائی میں کسی اور کو بولنے کا کوئی حق نہیں ہے لیکن تلوکا کی ظالمانہ حرکت جب اپنی حد کو تجاوز کرجاتی ہے تو اس سے برداشت نہیں ہوتا اور وہ لپک کر تلوکا کا اٹھا ہوا ہاتھ پکڑلیتا ہے اور موٹی سی ماں کی ایک گالی دیتے ہوئے کہتا ہے۔
’’لا… اب لا ہاتھ نیچے، کہ ایک عورت ہی پر ختم ہوگئی شہ ز روری…‘‘ ہل… ہل اب اپنے باپ کا ہے تو؟‘‘
تلوکا منگل کی اس جسارت پر حیران رہ جاتا ہے، لیکن راتو اس سے دکھ پہنچتا ہے وہ اس واقعے سے ناراض ہو کر میکہ جانے کو تیار ہو جاتی ہے۔
 منگل اپنی بھابھی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ جنداںاس پر طعنے کستی ہے۔حضورسنگھ اسے ’’رانیئے، دھیئے‘‘ کہہ کر منانے کی کوشش کرتا ہے لیکن آج تلوکا اس وقت تک اکڑا ہوا تھا۔ جب اس کا نشہ ہرن ہوا تو ایک یتیم لاوارث کی طرح وہ اندر سے آکر دروازے میں کھڑا ہوجاتا ہے اور اکھڑی ہوئی آواز میں کہتا ہے۔
’’جا… جا نہ، دیکھتا ہوں کہاں جاتی ہے؟‘‘
’’کہیں بھی جاؤں، تجھے اس سے کیا؟‘‘ رانو روتے ہوئے بولی۔
’’جہاں بھی جاؤںگی محنت مجوری کرلوںگی، اپنا پیٹ بھرلوںگی… دو روٹیوں کے لیے مہنگی نہیں گانوں بھر میں کوئی جگہ نہیں میرے لیے، دھرم شالہ تو ہے…‘‘
دھرم شالہ ’’تلوکا چونک اٹھا‘‘… ایک دم آگے بڑھتے ہوئے اس نے رانی کی ٹرنکی پکڑلی اور بولا۔ ’’چل… مڑ پیچھے۔‘‘
یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تلوکا دھرم شالہ میں ہونے والے کالے کرتوتوں سے انجان نہیں تھا۔ وہ وہاں ہونے والے گناہوں میں برابر کا شریک تھا۔ یہاں تلوکا کی معاشی بدحالی اور نجی دکھوں کے باوجود قاری کی ہمدردی اس کے ساتھ قائم نہیں رہ پاتی ہے، جب وہ دھرم شالہ میں پناہ لینے کی رانو کی بات پر بری طرح چونکتا ہے اور رانی کو گھر کے اندر واپس لے آتا ہے۔
دوسرے دن حسب معمولی تلوکا صبح سویرے اسٹیشن چلاجاتا ہے۔ وہاں سے واپسی میں دھرم شالہ سے اس جاترن لڑکی کے ساتھ کسی کولے کر اسپتال جارہا ہوتا ہے۔ چودھری مہربان داس نے تلوکا کو بے وقوف بنایا تھا یہ کہہ کرکہ اس جاترن کو مرگی کا دورا پڑا ہے اور وہ بغیر کسی شک وشبہ کے اسے بٹھاکر اسپتال کی سمت چل پڑتا ہے۔
ابھی دوپہر بھی نہ ہوپائی تھی کہ رانو نے دیکھا کہ گاؤں کے لوگ اس کے گھر کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اس کی طرف دیکھ کر چہ می گوئیاں کررہے ہیں۔ ان میں نواب اور اسمٰعیل اِکّے والے بھی ہوتے ہیں۔ رانو، دروازے پر کھڑی ان سب کے دیکھنے کو دیکھنے لگتی ہے۔ رانو حیرت سے چنوںسے پوچھتی ہے۔ ’’آج ان مردوں کو ہوا کیا ہے؟ سب کے سب اسی طرف دیکھ رہے ہیں۔‘‘ اس پر چنوں مذاق میں کہتی ہے۔ ’’رات مار کھاکے ہڈیاں تڑاکے تو اور بھی نکھرگئی نا۔‘‘ اسی لیے سب تجھے دیکھ رہے ہیں۔
لیکن حقیقت تو کچھ اور ہی تھی۔ رانو اصل واقعہ سے بے خبر جب چودھری مہربان داس اور اس کے بھائی گھنشیام کو ہتھکڑیاں لگے بازار سے گزرتے دیکھتی ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی ہے۔ لیکن ان کے ساتھ کسی اٹھارہ انیس برس کے ایک نوجوان لڑکے کو دیکھ کر وہ ششدر رہ جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے کپڑے خون سے تربتر تھے۔ اس کے منھ، سر اور ہر جگہ پر خون ہی خون دکھائی دے رہا تھا اور وہ بے ہوشی کے عالم میں حولدار جہان خان اور نمبردار تاراسنگھ کے سہارے آگے بڑھ رہا تھا۔ مہربان داس کا رنگ ایک دم سیاہ پڑگیا تھا اور گھنشیام کے ماتھے پر نیل دکھائی دے رہے تھے۔
تبھی تلوکا کی لاش لاد کر گورداس اس کا یکّہ ہانکتا ہوا چلا آتا ہے۔ لیکن رانو سمجھتی ہے کہ اس مرگی والی لڑکی کو کچھ ہوگیا۔ لیکن جب لاش پر سے کپڑا ہٹایا جاتا ہے تو ایک دم سے ایک چیخ مار کر چلاتی ہے ’’نہیں‘‘ اور پھر اندر کی طرف بھاگ جاتی ہے۔
تلوکے کا قتل ہوجاتا ہے۔ خانقاہ والے کنویں کے قریب اس نوجوان جاترن کے بڑے بھائی نے اسے پکڑلیاتھا اور اس کی شہ رگ میں دانت گاڑدیاتھا اور اس وقت چھوڑاتھا جب اس کے بدن میں خون کا ایک بھی نمکیں قطرہ باقی نہیں رہاتھا۔
جس وقت لوگ اسے پکڑتے ہیں وہ نوجوان وحشت کے عالم میں آنکھیں پھیلائے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھائے مندر کے کلس کی طرف دیکھتا ہوا ایک مذہبی غیظ وغضب، ایک جنون کے عالم میں چلارہا ہوتا ہے۔ لوگ اسے مارتے دھاڑتے لے جارہے ہوتے ہیں لیکن وہ پھر بھی بلند آواز میں دیوی کی بھینٹیںگارہا ہوتا ہے۔ وہ مندر کے قریب پہنچ کر کود کود کے اچھل اچھل کے، لپک لپک کے گانا شروع کردیتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا دیوی کی روح اس میں چلی آتی ہے اور ایک انتقامی جذبے سے اپنا روپ کروپ اور آنکھیں آگ بھبھوکا کیے، بھیروں یا تلوکا کی طرف دیکھ رہی ہے۔ بالآخر، وہ خود کو نمبردار تاراسنگھ کے حوالے کردیتا ہے۔ اس واقعے سے آس پاس کے پندرہ بیس گاؤں سناٹے میں آجاتے ہیں۔ حضورسنگھ کی آنکھوں میں روشنی آجاتی ہے۔ بیٹے کی لاش دیکھتے ہی جنداں غش کھاکر گرپڑتی ہے۔ رانی پاگلوں جیسی حرکت کرنے لگتی ہے۔
سب سمجھتے ہیں رانو پاگل ہوگئی ہے۔ ’رانو پاگل ہوگئی تھی اور نہیں بھی۔‘‘ آخرکار رانو کے بندھ ٹوٹ جاتے ہیں اور اس کی فلک شگاف بین ساتوں آسمانوں میں چھید کردیتے ہیں۔ رانو چلانے لگتی ہے۔
 ’’رانو بندلیے! تیرا پیچھا نہ آگا… ہائے رنڈیئے! تیری شکل تو اب باجار بیٹھنے والی بھی نہیں، اب تو پیشہ کرنے جوگی بھی نہیں…‘‘
تلوکا کی موت کے بعد گھر کی ساری ذمہ داریاں منگل پر آن پڑتی ہیں۔ لیکن منگل تلوکا کی زندگی میں ہی اکھڑ، بے پرواہ اور غیر ذمہ دار تھا لہٰذا وہ تلوکا کا یکّہ تو سنبھال لیتا ہے بگی پر سازلادنا تو سیکھ لیتا ہے لیکن خود پر گھر کی ذمہ داریوں کا جوانہیں پڑنے دیتا ہے۔ آمدنی پہلے سے بھی کم ہوجاتی ہے۔
بھوک کی شدت بھوک کی جبلت رانو کو کسی کے بارے میں سوچنے کا موقع نہیں دیتی ہے۔ وہ ساس سسر اور بچوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی بھوک مٹانے کی خاطر سارا کھاناکھاجاتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ دنیا میں اس کا کوئی نہیں ہے۔ ساس کے اٹھتے جوتا، بیٹھتے لات کے عمل میں رانو بھی اب یہی سمجھنے لگتی ہے کہ جس عورت کا پتی مرجائے اسے اس کے گھر میں رہنے کا کوئی حق نہیں، اس دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر ایک صبح چنوں اسے پیٹ بھر کھانا کھلانے کے بعد ایک مشورہ دیتی ہے۔
’’دیکھ بی بی! میں تجھ سے ایک بات کہتی ہوں جو مانے تو…؟‘‘
رانو نے چنوں کی طرف دیکھا۔
چنوں شروع ہوئی۔ ’’یہ جنداں بندی، ساس تیری تجھے جینے نہ دے گی۔ اس گھر میں بسنے نہ دے گی۔ یہاں رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے…‘‘
’’کیا طریقہ؟‘‘ رانو نے جاننے سے پہلے ڈھارس پاتے ہوئے کہا۔
’’وہ یہ کہ تو… منگل سے شادی کرلے، چادر ڈال لے اس پہ‘‘
’’نہیں‘‘ رانو ایک دم کھڑی ہوگئی۔‘‘ یہ تو کیا کہہ رہی ہے چنوں۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہی ہوں… جب بڑا بھائی پورا ہوجائے تو…‘‘
’’یہ نہیں ہوسکتا‘‘ رانو نے کہا اور اس پہ ایک لرزہ چھانے لگا۔ منگل… بچہ ہے۔ میں نے اسے بچوں کی طرح پالا ہے… عمر میں مجھ سے کچھ نہیں تو دس گیارہ سال چھوٹا ہے… نہیں نہیں، میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتی…‘‘
اور رانو گھربھاگ جاتی ہے۔اس واقعہ کے بعد سے وہ منگل کو عجیب نظروں سے دیکھنے لگتی ہے۔ اسے دیکھ کر گھبراسی جاتی ہے۔
اس واقعہ کے بعد چنوں پورن دئی سے بات کرتی ہے۔ پورن دئی اپنے شوہر گیان چند سے ، گیان چند سرپنچ تھا۔ لہٰذا وہ پنچایت اور حضورسنگھ کی بھاٹیہ برادری سے بات چیت کرتا ہے۔ گیان چند پورن دئی سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی رائے ظاہر کرتا ہے:
’’میں تو سمجھتا ہوں، اسے منگل کے ساتھ چادر ڈال ہی لینی چاہیے
یوں بھی گاؤں میں آئی ہوئی عورت باہر کیوں جائے۔ ادھر ادھر کیوں جھانکے؟… اس میں ہم سب مردوں کی بدنامی ہوتی ہے…‘‘ گیان چند سوچتا ہے۔ ’’ہمارے دیش پنجاب میں جہاں عورتوں کی کمی ہے، کیوں مردوں سے ان کا حق چھینا جائے؟ کیوں ایک عورت کو بے کار جلنے سڑنے دیا جائے۔‘‘
پھر وہ گاؤں کی پنچایت سے الگ اور حضور سنگھ کی بھاٹیہ برادری سے الگ ملنے کے لیے چلا جاتا ہے۔
بڑی کے رشتے کے بہانے جنداں اسے ہزار روپے سے شروع کرکے ساڑھے پانچ سو روپے میں ان تین آدمیوں کے ہاتھ بیچنا چاہتی ہے جو منگل کی غیر موجودگی میں آتے ہیں۔ بدقسمتی سے رانو بھی اس وقت گاؤں کی دوسری عورتوں کے ساتھ کپاس چننے گئی ہوئی ہوتی ہے۔ بڑی اتنی بڑی تو ضرور ہوگئی تھی کہ وہ ان لوگوں کی بری نیت پہچان جاتی ہے اور ماں سے آتے ہی جنداں کی شکایت کردیتی ہے۔ ساس جنداں رانو کو خوش کرنے کے لیے اس کی بغل میں اپنی بوڑھی جھریوں بھری بانہہ ڈالتے ہوئے کہتی ہے۔ ’’تو جنم جنمانتر کی بہو میری۔‘‘ اس پر رانو کا ماتھا ٹھنکتا ہے اور وہ کڑک مرغی کی طرح جو اپنے انڈے بچوں کو بچانے کے لیے شکرے اور باز پر بھی جھپٹ پڑتی ہے، اس طرح جنداں پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ اسے بہت افسوس ہوتا ہے اور وہ سوچتی ہے ہائے اب میں بیٹی کو بکتے دیکھوںگی۔ میں تو صرف کچھ لے کر نہیں آئی تھی تو یہ دُردشا ہوئی۔ یہ تو بِک جائے گی… اور وہ بات بات پر اس کی ہڈیاں توڑ دیںگے، نوچ نوچ کھائیںگے۔ کہیں گے تجھے ایسے ہی تو نہیں خریدکے لائے ہیں۔ دام دیے ہیں… تلوکے مرحوم کے زمانے میں آخر یہی حربہ تھا رانو کا… ’’دیا تو نہیں دیا… لیا تو کچھ نہیں؟ بیاہ کر لائے ہو کھرید کے تو نہیں لائے؟‘‘ اور یہ بیٹی میری بک جائے گی۔
عین اسی وقت گیان چند، کیسرسنگھ، جگو، دلا، کرم دین اور گاؤں کے دوسرے آدمی چلے آتے ہیں اور آکر حضور سنگھ کے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ جنداں کو بھی بلوالیا جاتا ہے اور رانی کے چادر ڈالنے کی بات یوں چھیڑ دی جاتی ہے جیسے یہ بھی کوئی جھگڑا ہے جس کا فیصلہ پنچایت کو کرنا چاہیے۔ حضورسنگھ سمجھتا ہے کہ اس عمر میں جب کہ وہ مرنے کے قریب ہے۔ پنچایت، برادری کے لوگ اس کی بے عزتی کرنے، اسے آخری ٹھوکر مارنے آئے ہیں۔ لیکن جنداں عورت کی سریع العقلی سے یکایک بات کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے بلکہ اس سے بھی کہیں دور آگے، بہت آگے نکل جاتی ہے۔ وہ سوچتی ہے۔ اتنا نزدیک، اتنے قریب کا خیال اسے پہلے کیوں نہ آیا؟ پھر اسے یاد آتا ہے کہ جب بڑی کتنی چھوٹی تھی۔ اب رانو پھر اس کی بہو ہوسکتی تھی اور بڑی اس کی پوتی۔
رانو تینتیس چونتیس برس کی بھرپور عورت تھی جس میں نسائیت انگڑائی لے کر جاگی تھی۔ اس میں نوعمر نوخیز لڑکی جیسی رعونت گونہ ہوسکتی تھی۔ البتہ عورت پنے کا پورا غرور تھا جو برسوں، صدیوں سے حالات کے ردّے در ردّے کے نیچے دب کر رہ گیا تھا اور اس وقت ابل کر اچھل کر نکلتا جب اوپر کی سطحیں کمزور ہوکر راستہ چھوڑ دیتیں… برخلاف اس کے منگل،چوبیس پچس برس کا جوان، گبھرو، شروع ہی سے دریا اور آخر دریا، جو منبع کا محتاج تھا نہ دہانے کا اور نہ کناروں کا۔
جب جنداں منگل سے بات کرنے کی کوشش کرتی ہے تو منگل الف ہوجاتا ہے۔ ’’نہیں یہ نہیں ہوگا۔ کبھی نہیں ہوگا۔ یہ تو کیا لاٹ ارون جارج پنجم بھی آجائے تو میں کبھی نہ کروں۔ میری ماں کی برابر اس کی عمر ہے۔‘‘ وہ گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔
ٖپنچوں کی مقررہ تاریخ آپہنچتی ہے۔ آنگن میں پینسی کی میلی سی چادر تنی ہوئی ہے۔ جس کے نیچے کچھ گھڑے رکھے ہوتے ہیں۔ منگل کو زبردستی پکڑ کرلایا جاتا ہے اور کھولی کے اندر چار پائی سے باندھ دیا جاتا ہے۔ جب اسے پروہت کے سامنے لانے کے لیے ڈھونڈا جاتا ہے تو وہ غائب ہوجاتا ہے۔ سات آدمی ہاتھ میں لٹھیں اور گنڈا سے لیے باہر لپکتے ہیں۔ چادر تلے بیٹھی اور روتی ہوئی رانو یہ سب دیکھتی ہے اور بے ہوش ہوجاتی ہے۔ منگل کپاس کے کھیت کے بغل میں ایک تنگ وتاریک ’’گڑھ‘‘ میں بیٹھا پھٹی پھٹی آنکھوں سے باہر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ لوگ آکر سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ منگل کوٹھری میں دوہاتھوں کے بل جھکا وحشت کے عالم میں سب کو دیکھتا ہوا سچ مچ ایک جنگلی سور معلوم ہوتا ہے۔ منگل کانرخرہ کانپنے لگتا ہے اور لوگوں کے دل دھک دھک کرنے لگتے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی ہے وہ لاٹھی اور جس کے ہاتھ میں جوتا ہوتا ہے وہ جوتا منگل کے اوپر برسانے لگتا ہے۔ منگل کو بالوں سے پکڑکر بیچ کھیتوں اور کھلیانوں کے گھسیٹاجاتا ہے۔ منگل کئی بار اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتا ہے لیکن آٹھ دس مضبوط بازوؤں کی جوڑیاں اپنے اردگرد پاکر وہ شرابی کی طرح ہنگارتا ہوا راستے پر ہولیتا ہے۔
جب منگل کو رانو کے ساتھ بٹھایا جاتا ہے تو وہ لہولہان ہوتا ہے اور رانو بھی بے ہوش ہوجاتی ہے لیکن سب عورتوں کو یقین تھا کہ آخر میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔
اس رات رانو ایک بہن، بیوی اور ماں کی طرح منگل کے زخموں پر سینک کرتی رہی تھی۔ صبح رانو اٹھتی ہے تو جنداں سے بھنڈارے کی چابیاں لیتی ہے تاکہ منگل کے زخموں پر لگانے کے لیے ہلدی لائے۔ برآمدے میں بچے آدھے ننگے آدھے ڈھکے ہوئے سورہے ہوتے ہیں۔ رانو باری باری سب کا منھ چوم لیتی ہے اور ان کے بازوؤں اور ٹانگوں میں اڑی ہوئی چادریں کھینچ کھینچ کر ان کے جسموں کو ڈھانپ دیتی ہے لیکن جب وہ بڑی کے پاس پہنچتی ہے تو بڑی جاگ رہی ہوتی ہے اور اس سے پہلے کہ رانو اس کے سرپر پیار سے ہاتھ پھیرتی بڑی اپنے بڑے بڑے ناخنوں سے ماں کا منھ نوچ لیتی ہے اور کہتی ہے۔ ’’جاتو… اسی سے منھ کالا کروا۔‘‘ رانو پر پہلے کیا کم گزری تھی کہ اس پر بیٹی نے بھی منھ نوچ لیا تھا۔ وہ تو بڑی کو یہ بھی نہیں کہہ سکتی ہے۔ ’’بیٹی تیرے ہی لیے تو میں نے یہ سب کیا ہے اور تو، اور توبھی؟‘‘
دوسرے دن صبح میں حسب معمول مندر جانے کے بجائے چنوں آکر رانو سے جب پوچھتی ہے کہ رات کچھ ہوا یا نہیں تو رانو کہتی ہے۔
’’تو جو کہتی ہے چنوں! مجھے اس کی ضرورت نہیں—میں تو تن ڈھانپنے کے لیے دوکپڑے مانگتی تھی بھینا… پیٹ میں ڈالنے کے لیے دو روٹیاں… پتہ نہیں واہگورو پر ماتما کو کیا منظور ہے۔ دیوی ماں کیا چاہتی ہے۔ وہ اب پھر چلاگیا ہے کہیں۔‘‘
ادھر منگل جب نصیبوں والے اڈے پر پہنچتا ہے تو گورداس، نواب اور اسمٰعیل اسے چھیڑتے ہیں اور اکثر پوچھتے ہیں۔ ’’کیوں پھر کیسی لگی؟‘‘ منگل کا چہرہ ایک دم لال ہواٹھتا۔
منگل نصیبوں والے اڈے سے لوٹ کر، سلامتی سے ملنے کے بعد چموں سے کھیلتا ہے، بڑی کی چوٹی بھی کھینچتا ہے اور ماں جنداں سے بڑی کے لیے ’’بابو‘‘ دیکھنے کی باتیں بھی کرتا ہے۔ اس بات سے پورا گھر چہک اٹھتا ہے۔ آج رانو اسے اچھی لگ رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رانو نے ابٹنا مل کر، بندی لگاکر، اخروٹ کی چھال ہونٹوں پر رگڑکر خود کو سنوارتی رہی تھی۔ رانو اپنا سب کچھ ایک ہی دم نہ دے دینا چاہتی تھی بلکہ کوئی بات تھی جو ابٹنے، بندی، اخروٹ کی چھال اور رس بھریوں سے اوپر ہوتی ہے جس کا تعلق عورت کی شکل وصورت سے نہیں ہوتا نہ اس کی نسائیت اور اس کی انتہا سے… وہ آہستہ آہستہ، روز بروز ایک ایک پردے اٹھانا چاہتی ہے اور اسے اس لمحے کا انتظار ہوتا ہے جہاں بے خودی میں عورت اپنا سب کچھ لٹادیتی ہے۔
رانو کی چھٹی حس بھانپ لیتی ہے کہ منگل اس سلامتی کے یہاں جانا چاہتا ہے جو اس سے کہیں زیادہ جوان ہے اور جسمانی کشش میں منگل کا برابری سے ساتھ دے سکتی ہے۔
یہاں وشنودیوی کی کرپا بھی ہے اور ایک رسی بسی عورت کا نجی تجربہ بھی۔ وہ یہ لمحہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی ۔ اس وقت وہ گھر پر آئی ہوئی ودیا کو بھی کہتی ہے ’’چلی جا… ودو… اس وقت چلی جا۔‘‘ منگل اپنی کرتی ڈھونڈنے کے لیے ٹرنک کھولتا ہے تو مٹھے مالٹے کی بوتل اس کے ہاتھ لگ جاتی ہے۔ اسے دیکھتے ہی منگل کی آنکھوں میں چمک دوڑجاتی ہے۔
پھر جیسا کہ رانو کو اندازہ تھا۔ جیسا کہ وہ منگل کو جانتی تھی۔ جیسا کہ وہ چاہتی تھی۔ منگل ایک دم بھنا کرکہتا ہے۔ ’’یہی ہے ناتم عورتوں کی بات… کھانے پینے سے بھی روکتی ہواپنے مردوں کو۔‘‘ اور وہ جھینپ جاتا ہے۔
لیکن رانو جسے کبھی شراب سے نفرت ہواکرتی تھی اور جو اس شراب کو اپنی سوت سے بھی بری شے سمجھا کرتی تھی۔ آج وہ اسی شراب کی منت کش ہوکر منگل کو رام کرنا چاہتی ہے۔ وہ خود بھی پیتی ہے اور منگل کو بھی پلاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح تلوکا پیا کرتا تھا۔ وہ پہلے تو چھینا جھپٹی میں چوٹ کھاتی ہے لیکن اس ہاتھا پائی میں اس کی سازش کارگر ہوجاتی ہے اور سلامتی کے یہاں جانے کا وقت جب ہوتا ہے یعنی جب مندر کے گھنٹے سنائی دیتے ہیں اور مسجد سے اذان کی آواز آرہی ہوتی ہے۔ تب رانو کا تریا چرتراپنے پورے شباب پر ہوتا ہے جسے منگل دیکھنے لگتا ہے۔
’’رانو کھڑی تھی۔ پونم کا چاند!… جوبے صبر ہوکر آدھے سے پورا ہوگیا تھا۔ اور بادلوں کے لحاف وتوشک کوچیرتے، پھاڑتے ہوئے، نیچے زمین پر اترآیا تھا۔‘‘
منگل اٹھ کھڑا ہوا اور سانس روک کر دیکھنے لگا۔ بہ مشکل تمام بولا۔ ’’تم… تم نے کپڑے کیوں پہنے ہیں؟‘‘
رانو نے اپنا پھٹا پرانا جالی کا دوپٹہ اٹھایا اور اسے اپنے اور منگل کے بیچ تانتے ہوئے بولی۔ ’’لو اتاردے۔‘‘ اور دوپٹے کو دواٹھے ہوئے ہاتھوں میں تھامے، رانو پہلو کی طرف مڑی… عورت کا حسن ثلاثہ منگل کے سامنے تھا، جس سے گیہوں کی روٹی کھانے والا کوئی بھی مرد انکار نہیں کرسکا… اور بیچ میں لطیف ساپردہ… پھر، اس حسن پر ایک انگڑائی ٹوٹی… منگل کے چہرے پر سرخیاں اور سیاہیاں دوڑگئیں۔ آنکھیں بند ہوگئیں۔ ’’…منگل نے اندھے کی طرح لپک کر، اندازے ہی سے رانو کو کلاوے میں لے لیا۔ پھر ایک لمحے میں وہ جسم کے تپتے ہوئے زعفران زاروں پہ تھے…‘‘
 اب رانو امید سے ہے۔ چنوں یہ خبر سن کر خوشی سے چلاتی ہوئی باہر کی طرف دوڑتی ہے تاکہ گاؤں کی دوسری عورتوں کو یہ خبر سنادے۔ جتنی تیزی سے چنوں باہر نکلتی ہے اتنی ہی تیزی سے منگل اندر آتا ہے، دروازے میں دونوں کی ٹکر ہوجاتی ہے اور وہ کچھ ہنستی ہوئی اور کچھ خفا ہوتی ہوئی کہتی ہے۔
’’اندھا!—دکھائی نہیں دیتا۔ پورا کوڑماہی دھرت راشٹوں کا ہے۔‘‘
منگل اپنی پگڑی پر سے گردجھاڑتے ہوئے ’’رانو!‘‘ کو پکارتا ہوا، اس کے پاس پہنچ جاتا ہے اور انتہائی راز دارانہ انداز میں پہلے بڑی کو وہاں سے چلتا کرتا ہے پھر کہتا ہے۔
’’سن رانو، کمال ہوگیا… حد ہوگئی…‘‘
رانو اندر ہی اندر مسکراتی ہے۔
’’منگل بولا…‘‘ جاتریوں میں ایک لڑکا آیا ہے، پچیس چھبیسبرس کا—گبھیرو، جوان… ڈسکے کے مصدّی کا بیٹا… زمینیں، مکان، دکانیں جائیداد… ’’وہ کہتا ہے، میں شادی کروںگا تو بڑی سے، دنیا کی کسی اور لڑکی سے نہیں؟‘‘
رانو کو منگل کی باتوں پر یقین نہیں آتا ہے۔ لیکن جب منگل رانو کی قسم کھاتا ہے تو اسے کچھ کچھ اپنی قسمت پر یقین ہوجاتا ہے
منگل اسے یقین دلانے کے لیے پنچوں کا حوالہ دیتا ہے کہ ان کی بھی یہی مرضی ہے۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ پنچوں میں پرمیشور ہوتا ہے۔ رانو پنچوں کے نام سے یقین کرلیتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے۔ ’’پنچوں میں پرمشیرنہ ہوتا تو میں آج کہاں ہوتی؟‘‘
’’بڑی کے لیے بر مل گیا!‘‘
بڑی جو دروازے میں کھڑی ہوتی ہے یہ سن کر مرچ کی طرح لا ل ہو کر اندر سٹک جاتی ہے۔
باہر کچھ اور ہی شور مچاہوا تھا یہ غول کا غول، جھرمٹ کا جھرمٹ کئی نئے رنگ پیدا کرتا، ایک دوسرے پرگرتا پڑتا دروازے پر، کوٹھوں کی منڈیروں پر کنویں کے من پر پہنچ جاتا ہے۔ یہ لوگ جاتری تھے جو سرجھکائے دیوی ماں کی بھینٹیں گاتے ہوئے آرہے تھے۔ ڈھولک پیٹتے، چھینے بجاتے ہوئے دیوی کی استتی گار ہے تھے۔ وہ سب کے سب اپنے اپنے گناہوں کا کفارہ کرنے چلے آئے تھے… گناہ، جو ہوچکے تھے… گناہ جو ہورہے ہیں… گناہ جو ہونے والے ہیں… وہ ناچ رہے تھے اور گاتے جاتے تھے۔
ماتارانی دے دربار، جوتاں جگدیاں
میارانی…… … … …… …
ہے میا! تسیں ستے بھیناگوریاں
ماتارانی دے دربار، جوتاں جگدیاں
سبھوں نے دیکھا چودھری مہربان داس اور اس کا بھائی گھنشیام سات سال کی قید کاٹ کر جاتریوں کے شور اور غوغے میں تائب اور شرمندہ چلے آرہے تھے۔ وہ خاموش تھے اور ان سب کے بیچ ایک لڑکا… پچیس تیس برس کا… گبھرو… جوان… خوب صورت… جو اس وقت بڑے آرام اور بڑے پیار، بڑی ہی محبت اور عقیدت سے دیوی ماں کی بھینٹیں گارہا تھا
جب ہی بھیڑ کو چیرتا ہوا، دھکے کھاتا اور دھکے دیتا ہوا منگل رانو کے پاس چلا آتا ہے۔ اسے کندھے سے پکڑ کر دیکھاتا ہے۔ ’’رانو!وہ ہے۔۔۔وہ ہے لڑکا۔‘‘ رانو دور سے اس خوبصورت لڑکے کی طرف دیکھتی ہے اور اس کی نگاہوں میں سوئمبررچ جاتا ہے۔ من ہی من میں وہ بڑی کی بانہوں کا ہاراس کے گلے میں پہنادیتی ہے۔
لیکن دفعتاً وہ لڑکا جب قریب آیا تو رانو اسے دیکھ کر چیخ پڑتی ہے۔
’’ہائے نی؟‘‘
’’میں مرگئی!‘‘
’’وہی… یہ تو وہی ہے جس نے میرے…‘‘
رانی ناگہانی صدمے سے بے ہوش ہوکر گرنے ہی والی ہوتی ہے کہ حضورسنگھ اسے گرنے سے تھام لیتا ہے۔ آج اس کی آنکھوں میں شاہین کی بلند پروازی کا شائبہ ہوتا ہے۔
’’نہیں نہیں باپو، یہ نہ ہوگا… ہائے میری بیٹی!… میں مرجاؤں گی، باپو…‘‘
اس وقت پرکرما کے لیے آئی ہوئی خلقت تھم چکی تھی اور رکے ہوئے سانسوں سے ایک عظیم فیصلے کا انتظار کررہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا رانو ہاں کہے گی تو دنیا میں بس جائیںگی اور نہ کہے گی تو پرلے آجائے گی۔پنچ پرمیشور کھڑے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگتے ہیں جن میں سیدھا سادا منگل بھی شامل ہوجاتا ہے۔ جب ہی رانو کو دلاسا دیتے ہوئے حضور سنگھ گویا ہوتا ہے۔
’’بیٹا! یہ سب کیا ہورہاہے؟… کیوں ہورہا ہے؟… اسے تو نہیں جانتی، نہ میں جانتا ہوں، نہ یہ لوگ جانتے ہیں… تو اسے سمجھنے کی کوشش بھی مت کر… ایک چپ، یہاں تو دم مارنے کی جگہ نہیں…‘‘
رانو جب مڑکر بڑی کی طرف دیکھتی ہے تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑرہی ہوتی ہیں اور وہ زبان حال سے کہہ رہی تھی۔ ’’ماں! یہ تو کیا کررہی ہے؟ تو نہ بولی تو میں بن بیاہی دھرتی کی طرح بانجھ رہ جاؤںگی۔‘‘ تبھی رانی سسر کے کاندھے پر سے اپنا سراٹھاتی ہے اور بولتی ہے۔
’’اچھا بابو، اچھا۔‘‘
رانو کے ایک ’ہاں‘ کہتے ہی ایک دم سے بھینٹیں شروع ہوجاتی ہیں۔ لوگ باگ پورے جوش وخروش کے ساتھ گانے بجانے، شور مچانے لگتے ہیں۔ جن کے بیچ رانو کھڑی مندر کی طرف منھ اٹھاکر دیکھتی ہے جہاں سنہرے کلسوں سے دیوی کا طلائی تبسم منعکس ہوکر رانی کے چہرے پر پڑنے لگتا ہے اور اسے منور بنادیتا ہے۔
وارث علوی کی اس رائے سے اتفاق کیاجاسکتاہے کہ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ کی تعمیر قصہ گوئی کے بظاہر سیدھے سادے طریقے سے ہوتی ہے لیکن اس میں مواد اور ہیئت کی تین تین یعنی کل چھ سطحوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔
پہلی سطح پر رانو، اس کا پریوار، اڑوس پروس کی عورتیں اور کوٹلہ گاؤں کا پس منظر ہے۔ اس خارجی دنیا یا سماجی پس منظر کا اسلوبی طریقہ کار حقیقت پسندانہ ہے۔
دوسری سطح پر رانو کا کردار ہے جو بظاہر معمولی عورت ہے۔ لیکن عورت ہونے ہی کے ناتے فطرت کی تخلیقی قوؤں کی آئینہ دار ہے۔ زندگی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے فرد شروع ہوتا ہے۔ بطور ایک فرد کے، ایک انسانی وجود کے، رانو اندر سے کیا ہے۔ اس کے جذباتی تقاضے اور احساسی رویے کیا ہیں۔ یہ جاننے کے لیے بیدی رانو کی فطرت کا مطالعہ عظیم فطرت کے آئینے میں کرتے ہیں۔ یہاں اسلوبی طریقہ کار استعاراتی ہے۔
تیسری سطح پر خارجی اور داخلی دنیا، انسانی فطرت اور عظیم فطرت سے بھی ماوراکائناتی طاقتوں کی روشنی میں زندگی کی لیلا کے مبہم اور پراسرار پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے مقامات پر فرد ٹائپ میں، ٹائپ پروٹوٹائپ میں اور پروٹوٹائپ آر کی ٹائپ میں گھلتا ملتا رہتا ہے۔ یہاں اسلوبی طریقہ کار اسطوری ہے۔
یہاں شروخیر کی آویزش وپیکار ایک طرفہ ہے۔ لیکن بیدی نے مہربان داس اور گھنشیام داس، بابا ہری داس اور تلوکا کی ملی بھگت سے گاؤں کی دوہری زندگی جینے والے ان بھیرؤں کو بے نقاب کیا ہے اور اصل تصادم کے لیے میدان تیار کیا ہے جہاں شراور گناہوں کا نمائندہ تلوکا دھرم شالہ کے زانیوں کے بداعمالیوں میں تخئیل کی سطح پر شامل ہوکر رانو جیسی دیوی کے ساتھ جبراً اپنی ہوس پوری کرنے میں خود کو سرخ روسمجھتا ہے۔
اس شر اور خیر کی جنگ میں ارتکاب گناہ کرنے والا اپنے کیفر کردار کو پہنچتا ہے۔ بیدی نے اس کوٹلہ میں ہونے والے گناہوں کو جوکہ حد سے تجاوز کرتے جارہے تھے، روکنے کے لیے آخرکار، اسی وشنودیوی کے جلالی روپ کو دعوت عمل دی ہے۔ وشنودیوی اس معصوم جاترن کے بڑے بھائی کے روپ میں پرکٹ ہوتی ہے اور تلوکا جیسے بھیروں کو پایاں کار، اپنی پاداش کے طورپر اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے یہی اس ناول کی حتمی آویزش ہے جس سے شرکا ستیہ ناس ہوتا ہے اور خیر میں لوگوں کا اعتماد بحال ہوجاتا ہے۔
دیوی، شیو، شکتی اور بھیروں کے جن اساطیر کا بیدی استعاراتی انداز میں ذکر کرتے ہیں ان کی تفسیر کرتے ہوئے پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں۔
’’’ایک چادر میلی سی‘ میں ایک بھیروں تو خود تلوکا ہے۔ جھگڑالو، غصیلا اور تشدد پسند… دوسرے بھیروں مہربان داس، گھنشیام داس اور باواہری داس ہیں جو سازش کرکے نوعمر جاترن دیوی کی عزت پر حملہ کرتے ہیں۔‘‘  (5)
پروفیسر نارنگ دیوی کی شانوں کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے مزید رقم طراز ہیں۔
’’دیوی کی دوشانیں ہیں۔ مثبت اور منفی۔ مثبت حیثیت میں وہ پاروتی ہے۔ اما یا گوری ہے۔ نسوانی حسن وجمال اور محبت ووفا شعاری کی تمثیل اورمادرانہ شفقت کا مرقع لیکن منفی شان میں وہ کالی ہے، درگا ہے اور بھوانی ہے، رنگت کی سیاہ، دیکھنے میں بھیانک اور ہیبت ناک، چہرے دانتوں اور ہاتھوں سے خون ٹپکتا ہوا اور بھیروں کی لاش کو پیروں تلے دبائے وہ وحشیانہ طور پر مسکراتی ہوئی نظرآتی ہے۔‘‘(6)
ناول نگار نے ابتدا میں جو سوال اٹھائے تھے۔ اس میں ایک بنیادی آویزش سے تناؤ بڑھتا جاتا ہے۔ شروخیر کی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی سے تجسس کی طنابیں کھنچتی چلی جاتی ہیں اور نقطہ منتہا (Climax) پر پہنچنے کے بعد ابتدا میں پیدا ہونے والے تمام کشاکش اور تناؤ کو خاطر خواہ ڈھیل مل جاتی ہے اور پایاں کار، گناہ اور خباثت پر تقدس اور انسانیت کی جیت ہوتی ہے۔
ناول پر خواہ معاشی، نفسیاتی، تہذیبی، مذہبی اور اخلاقی یا کسی دوسرے نقطہ نظر سے روشنی ڈالی جائے۔ راجندرسنگھ بیدی کا فکری منشور بیک وقت کئی جہتوں کو اپنے مختلف النوع رنگوں سے منور کرتا چلاجاتا ہے۔ رانو کے کردار کے ذریعہ افلاس کی ماری ایک ادھیڑ عمر عورت کے اندر بھوک کی جبلت سے اٹھنے والی بے حیائی اور خود غرضی کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب وہ کہتی ہے۔ ’’عزت کا سوال بعد میں آتا ہے، پہلے پیٹ ہے۔‘‘ وہ بھوک کی شدت کے عالم میں افراد خانہ کو خاطر میں نہیں لاتی ہے حتیٰ کہ خود ایک ماں ہونے کے باوجود اپنے جنے ہوئے بچوں کی طرف سے بھی لاپرواہ ہوجاتی ہے۔ اس کی مثال اردو کے پورے افسانوی ادب میں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی ہے
بیدی نے منگل کے نزدیک سلامتے کے پرکشش جسم میں اور رانو کے ڈھلتے ہوئے جسم کے درمیان تقابل پیدا کرکے ماجرے میں ایک نئی جہت کا اعلان کردیا ہے۔ان دونوں نسوانی کرداروں کے مخصوص پہلوؤں کے تخالف سے عورت کے نفسیاتی اور جنسی الجھنوں کی آویزش نمایاں ہوجاتی ہے جس سے ماجرے کے بشری محاکات مزید جاندار اور دلکش بن جاتے ہیں۔
شاستروں کا علم رکھنے والے بعض نقادوں نے سلامتے کی موجودگی کا ہندو دیومالا کی رتی سے موازنہ کیا ہے جو کام دیو کو لبھاتی ہے۔ اگر منگل کو چادر اڑھاتے وقت کے مناظر میں جس طرح سے بیان کیا گیا ہے شیومان لیں تو رانو کا کردار اس پاروتی جیسا معلوم ہوتا ہے جو ملن اور اتصال کی خواہش دل میں لیے آنکھیں بند کرکے شیو کی تپسیا کیا کرتی تھی۔ یہاںراجندرسنگھ بیدی نے مذہبی عقائد، اساطیر اور جادوئی حقائق کو یکجا کردیا ہے جس طرح شیو سرا کا جل پان کیا کرتے تھے، منگل کے لیے رانو شراب اور چانپ کا پہلے سے انتظام کرکے رکھتی ہے اور اسے اپنے ہاتھوں سے کھلاپلا کر خلوت کی اس رات میں اپنے حق میں موڑلیتی ہے۔
رانو اپنے تریاچرتر کو بروئے کارلاتی ہے۔ اس کے پاس پرماتما نے نسوں کا جال دیا ہے۔اس کے علاوہ اس پر وشنودیوی کی کرپا بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ، ’’لاجونتی‘‘ کے برخلاف جو ’بس گئی تھی پر اجڑگئی تھی‘ رانو اجڑگئی تھی پر بس جاتی ہے۔ تلوکا کے مرنے کے بعد جوکہ اصلاً بھیروں تھا، دیوی ماں کی کرپا سے اس کا گھر بس جاتا ہے۔وہ اس گھر میں پھرسے رس بس جاتی ہے۔ اسے شوہر کے روپ میں منگل سا گبھرو جوان مل جاتا ہے۔ حضورسنگھ کے روپ میں اسے آسمانی باپ مل جاتا ہے۔جنداں اسے پھر اپنی وہی اچھے دنوں والی پرانی ساس معلوم ہونے لگتی ہے، جو اسے ماں کی طرح پیار کرتی تھی۔ اسے بڑی کے دولہا کے روپ میں دولت مند داماد مل جاتا ہے جو اس کی بیٹی کو اپنے گھر کی رانی بناکر رکھے گا۔ اب اس کی راہ میں مہربان داس اور گھنشیام داس نہیں ہیں۔ سلامتے کی بھی اسے پرواہ نہیں ہے کیونکہ رانو کی گود ہری ہوچکی ہے اور آنے والی سنہرے مستقبل کے تصور سے ہی وہ خوش ہوجاتی ہے۔
راجندرسنگھ بیدی نے یوں تو ہر عمر کے کردار سے اس ناول کی تخلیق میں کام لیا ہے۔ ان میں دودھ پیتے بچے چموں سے لے کر قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے بوڑھے حضورسنگھ تک کے کردار موجود ہیں جن میں عورت، مرد، بوڑھے، بچے اور نوخیز لڑکیاں بھی ہیں۔
منفی رویے کے نمائندے مہربان داس اور گھنشیام، باوا ہری بھی موجود ہیں اور مثبت اقدار کے حامل حضور سنگھ اور منگل جیسے کردار بھی ہیں جو ناول میں چھوٹے بڑے لیکن انتہائی موثر اور برمحل کردارثابت ہوتے ہیں۔ ان میں بیشتر کردار نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو عموماً ان گڑھ اور ان پڑھ ہیں۔ لیکن زندگی جینے کی امنگ اور چاہت   ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
ڈاکٹر شمیم نکہت نے رانو کے کردار کا چند سدابہار نسوانی کرداروں میں شمار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’بیسویں صدی میں اردو ناول نے ہمیں جو چند سدابہار نسوانی کردار دیے ہیں۔ ایسے کردار جو ناول کے بے رنگ صفحات سے نکل کر ہمارے تخیل اور ہماری تہذیب میں ایک متحرک پیکر کی طرح رچ بس گئے ہیں، ایسے امر کرداروں میں دھنیا اور شمشاد کے ساتھ رانو کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے— انہیں موجودہ جمہوری عہد کے اساطیری کرداروں کا نام دیا جاسکتا ہے۔‘‘ (7)
جہاں تک نسوانی کرداروں پر مبنی ناول کا کردار ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم نام امراؤجان ادا کا بھی ہے جس کی زندگی تمام عمر حالات کی زد پر رہتی ہے اور اس کی قسمت کا فیصلہ مرد غالب سماج کے بااثر افراد کرتے ہیں خواہ ان میں طوائف کے کوٹھے چلانے والی بااثر عورت ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح، رانی کی زندگی بھی تمام عمر حالات کی زد پر رہتی ہے۔ بچپن میں ماں باپ جہاں چاہتے ہیں بیاہ دیتے ہیں۔ سسرال میں ساس سسر اور شوہر کے ہاتھوں وہ کھلونا بنی رہتی ہے۔ ٹوٹتی پھوٹتی ہے اور اپنی شخصیت کو بکھراؤ اور انتشار کے ہاتھوں سے چھین کر خود کو سمیٹتی ہے۔نامساعد حالات سے نبرد آزما ہوتی ہے اپنی قسمت خود لکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہاں اساطیرکے سائے کے پڑنے سے گوشت پوست کی رانوکی شخصیت دیوی جیسی ہوجاتی ہے اور وہ بھیروں کی شکل میں موجود ناسازگار حالات سے نبردآزما ہوتی ہے۔ دشمنوں کو ٹھکانے لگاتی ہے اور شرپر خیر کی فتح کی صورت میں زندگی کے سفر میں ہرپل ہردم نئی منزلوں کی طرف گامزن رہتی ہے۔ وہ دیوی سے بھیروی بنتی ہے اور بھیروی سے پھر دیوی بن جاتی ہے۔
بیدی اس بات کے معتقد تھے کہ ’’عورت ہی اس سرشٹی کا ادھار ہے۔‘‘ لیکن تلوکا جب رانو کو گھر سے مارپیٹ کر بھگارہا ہوتا ہے تو وہ سوچتی ہے۔
’’عورت ہونا ہی گناہ ہے۔ ’بیٹی تو کسی دشمن کے بھی نہ ہوبھگوان‘— ذرا بڑی ہوئی ماں باپ نے سسرال دھکیل دیا— سسرال والے ناراض ہوئے مائیکے لڑھکا دیا— ہائے یہ کپڑے کی گیند جب اپنے ہی آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہے تو پھر لڑھکنے جوگی بھی نہیں رہتی۔‘‘
رانو کا کردار بھی بظاہر ایک معمولی سی عورت کا ہے لیکن وہ جس طرح سے ریزہ ریزہ زندگی کو سمیٹتی ہے وہ ایک غیر معمولی عورت بن جاتی ہے۔ وہ جنّی ہے، خاندان کو پالنے والی ہے۔ اس طرح سے دیکھیں تو رانوایک عظیم ماں کے اسطور کی تجسیم معلوم ہوتی ہے۔ وہ بہت ہی دکھیاری ہے۔ شروع سے آخر تک ایک نچلے طبقے کی مجبور ومقہورعورت دکھائی گئی ہے تاہم ’’ایک چادر میلی سی‘‘ محض عورت کی بپتا کی کہانی نہیں ہے گو جیسی بپتا رانو پر پڑتی ہے کسی اور پر کیا پڑتی ہوگی۔ایک چادر میلی سی وارث علوی کے الفاظ میں نامساعدحالات اور حیات کش قوتوں کے خلاف ایک عورت کی جدوجہد کا افسانہ ہے۔ یہاں ایک ہی فضا اور ایک ہی ماحول میں جینے والے تلوکا اور رانو میں راکھشش اور دیوی کا فرق ہے۔ تلوکا بھیروں کا روپ ہے جس کے ہاتھوں دیوی ستائی جاتی ہے۔ اسی طرح، تلوکا اور منگل میں خارجی حالات اور عوامل کے یکساں ہونے کے باوجود منگل کا کردار فطری آدمی کا ٹائپ ہے جس میں فطری جبلتیں بہت شوریدہ سری مچاتی رہتی ہیں۔ جبکہ تلوکا کے کردار میں بھیروں کا آرکی ٹائپ جلوہ گر معلوم ہوتا ہے۔ اور اس کے برعکس منگل کا کردار شیو کا آرکی ٹائپ ہے یہی وجہ ہے کہ تلوکا میں تخریبی عناصر وافر مقدار میں پوشیدہ ہوتے ہیں اور موقع پاتے ہی رونما ہوجاتے ہیں۔ جبکہ منگل کے تفاعل میں شیو کی سندرتا ہے وہ تخلیق اور تعمیر کا منبع ہے۔ خیر کا نمائندہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ سلامتی جیسی لڑکی کے ساتھ بھی عشق کے کھیل میں کبھی تخریب کاری کا ارتکاب نہیں کرتا ہے۔ اس کے علی الرغم تلوکا اپنی ازدواجی زندگی میں بھی ذہنی طورپر جاترن لڑکی کے ساتھ ہونے والے جنسی زبردستی اور ہوسناکی میں شامل ہوتا ہے۔ تلوکا کے برخلاف منگل کی آویزش میں بدن کی بے حرمتی کہیں نہیںہوتی ہے۔ بلکہ اس کے جنسی رویے میں ارتقائے آدم اور افزائش نسل کا تخلیقی پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
اس ناول میں جو دنیا تخلیق کی گئی ہے اس کے باشندے جبلی سطحوں پر زیادہ جیتے ہیں اور ان کے جذبات میں شائستگی کے بجائے ایک اکھڑپن اور گنوارپن ہے۔ طرح طرح کے غیراخلاقی اعمال میں لوگ گھرے ہوئے ہیں۔ قتل کی واردات ہے۔ زنا بالجبر کا ماحول ہے۔ تشدد اور جرائم ہوتے ہیں۔ سستی شراب کے نشے میں دھت تلوکا کی بے دردانہ مارپیٹ ہے۔ گالی گلوچ ہے۔ طعنے کوسنے ہیں۔ خوف ودہشت کے سائے میں بچے سہمے ہوتے ہیں۔ منگل اور سلامتی ہیں، جہلم اراعین کی بیٹیاں ہیں جو بے راہ روی کی شکار ہیں۔ عورتوں کی ہنسی مذاق میں فحش اشارے پوشیدہ ہیں۔ عورتیں مردوں کو بس میں کرنے کے لیے ٹونے اور ٹوٹکے پر یقین رکھتی ہیں۔ لوہے کی لنگوٹ والے سائیں باوا ہری داس کے یہاں چوبیس گھنٹے اور آٹھوں پہر عورتوں کا جم گھٹا رہتا ہے لیکن اس پوری جنسی انار کی کوجوچیز قابو میں رکھتی ہے وہ وارث علوی کے قول کے مطابق شادی کا سماجی ادارہ ہے۔ ’’شادی یہاں بے سہارا عورت کا واحد سہارا‘‘ اور غیر محفوظ اور پر خطردنیا میں غریب عورت کا واحد تحفظ ہے… رانو اور تلوکا کے بیچ دلدر، دکھ اور ہوس رانی کی خلیج ہے۔ رانو اور منگل کے بیچ ازدواج الحرمین کی نفسیاتی خندقیں ہیں اور رانی کی بیٹی بڑی اور تلوکے کے قاتل لڑکے کے بیچ قتل کا بظاہر ناقابل عبور پہاڑ ہے۔ لیکن رشتے بنتے ہیں۔ بنتے اور بگڑتے ہیں اور پھر بنتے اور سنورتے ہیں کیونکہ یہاں دیوی کی استوتی اور بھینٹیں گائی جاتی ہیں۔ دیوی کی ہی کرپا سے رانو کا گھر اجڑکر دوبارہ بس جاتا ہے۔ پوری خلقت اس کام میں جٹ جاتی ہے۔
وارث علوی کا خیال ہے کہ
’’افسانے کا عنوان ہی اسے بیاہ کا افسانہ بناتا ہے اور بیاہ ایک سماجی ادارہ ہے۔ کلچر کا تخلیقی عمل جو مرد اور عورت کو نئے قسم کے رشتے میں باندھتا ہے— ایک ایسا رشتہ جسے جنسی تعلق جنم تو دیتا ہے لیکن جو جنسی تعلق کی طاقت پر نہیں بلکہ سماجی دباؤ اور معاہدے کی طاقت پر نبھتا ہے۔…‘‘
’’تمدن کو عام طور پر ایروز کا دشمن خیال کیا جاتا ہے…لیکن آپ کو حیرت ہوگی جب آپ فرائڈ کی شہرۂ آفاق تصنیف تمدن اور اس کی بے اطمینانیاں، میں یہ جملے پڑھیںگے— ’تمدن تو ایک ایسا عمل ہے جو ایروم کی خدمت میں لگا ہوا ہے جس کا مقصود یہ ہے کہ ایک تنہا انسانی وجود کو دوسرے تنہا انسانی وجود سے جوڑے‘ پھر خاندانوں، نسلوں، لوگوں اور قوموں کو ایک عظیم وحدت یعنی وحدت انسانی میں منسلک کرے– انسانوں کے یہ اجتماع ایک دوسرے کے ساتھ Libidinalرشتہ سے بندھے ہونے چاہئیں۔‘ اس طرح فرائڈ انسانی کنبہ یا انسانی برادری کے اخلاقی تصورات میں ایروز کی جبلت کی روح پھونک کر اس کے تعمیری تصور میں تخلیقی تصور کا اضافہ کرتا ہے۔ حسن ونشاط کا یہی عنصر معاشرے کو تہذیبی ڈائمنشن دیتا ہے اور تمدن کی میکانکی، مادہ پر ستانہ اور خشک اخلاقی اور زاہدانہ ساخت میں جمالیاتی عناصر کے نفوذ سے ایک توازن پیدا کرتا ہے۔‘‘ (9)
ایروز اپنے تہذیبی تفاعل میں چادر اڑھانے کی رسم ہے جو انسانی سماج کی بقا کی ضامن ثابت ہوتی ہے کیونکہ چادر اڑھانے کی رسم شادی پر توثیق کی مہر ثبت کرتی ہے اور شادی جنسی عمل اور افزائش نسل کے دروازے کھولتی ہے جس سے سماج کا ارتقا وابستہ ہوتا ہے۔
تلوکا اور منگل کے کرداروں میں بھی ایروز کے فرائڈین تجزیے کے مطابق حیوانی اور انسانی پہلوؤں سے غور کیا جاسکتا ہے۔ حیوانی ایروز انسان میں بہمیت پیدا کرتا ہے جس کی نمائندگی یہاں تلوکا کے کردار میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔ کیونکہ تلوکا کے پیار میں اس کے جنسی عمل میں بدن کی بے حرمتی اور روندنے کی سی کیفیت کو بیدی نے بہت ہی فنکاری سے ابھارا ہے۔ اس کے برعکس، منگل کے یہاں جو بدن کا احترام اور تقدیس ہے وہ ایروز کے انسانی پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ رانو کے یہاں بھی جو مادرانہ کیفیت ہے جو حیاداری اور پھولوں کی خوشبو کی طرح سمٹنے اور پھیل کر ہوا میں تحلیل ہوجانے کا عمل ہے۔ اس میں تخلیق کا پہلو مضمر ہوتا ہے۔ ایروم کا یہ انسانی وصف تہذیب کا بنیاد گزار ثابت ہوتا ہے۔ یہاں انسانی جنسی اعمال دراصل تہذیب کا عطیہ بن جاتے ہیں۔ بیدی نے رانو کے کردار کو وقفے وقفے سے ہردوایروز سے تعارف کرایا ہے لیکن اس کردار کی عظمت اور اس کا تعمیری اور اثباتی رخ یہ ہے کہ وہ مادریت کو بہمیت کی قیمت پر خریدنا نہیں چاہتی ہے بلکہ دونوں کے امتزاج سے اپنی تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لاکر اپنی زندگی اور گردوپیش کے ماحول میں حسن توازن پیدا کرنا چاہتی ہے۔
ناول میں بیدی کی فنکاری کا امتیازی وصف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس مختصر سے شہ پارے میں سماجیات، نفسیات، معاشیات اور روحانیات کو غایت درجہ توازن سے جگہ دی ہے اور اس بات کا بہت ہی فنکارانہ مہارت اور باریک بینی سے خیال رکھا ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی بھی پہلو دوسرے پہلو کے بارتلے دب کے نہ رہ جائے۔
وارث علوی نے بجا طورپر لکھا ہے کہ :
’’بیدی سماجیات کی قیمت پر نفسیات کی تعمیر نہیں کرتے، نہ ہی حیاتیات کی قیمت پر روحانیات کا سودا کرتے ہیں۔ ان کے کردار کا کوئی پہلو دوسرے پہلو سے دبتا نہیں۔ افسانہ ایسے سوالات پیدا کرتا نہیں جن کا جواب خود افسانہ میں موجود نہ ہو۔‘‘(10)
بیدی کے یہاں 1960کے بعد سے جنس ایک اہم موضوع بن چکا تھا جس کی عمدہ مثال ’’ایک چادر میلی سی‘‘ میں بھی موجود ہے۔ اس کا احساس خود بیدی کو بھی تھا۔ اسے انہوں نے مختلف طرح کے فلسفیانہ تاویلات سے درست قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ
’’واقعی جنسی جذبہ انسان میں نہیں مرتا۔ چاہے وہ کتنا ہی بوڑھا اور بے کارکیوں نہ ہوجائے۔ جنسی جذبہ کا براہ راست خالق سے تعلق ہے فادر! جو ایڑا، پنگلا اور سشمن ناڑیوں کی مدد سے نیچے بدن میں آتا ہے تو بچے پیدا کرتا ہے اور آنکھوں کے پیچھے تیسری آنکھ کے قریب آجاتا ہے تو افسانے۔‘‘
اسی طرح بیدی نے اپنے تخلیقی عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے بقول قمررئیس کہ گردوپیش کی عام اشیا اور روزمرہ کے بظاہر بے رنگ واقعات کس طرح ان کے وجود میں پچی کاری کرتے ہیں۔ زندگی کے کثیف مظاہر اور لطیف مناظر کس طرح ان کی روح کو لطافت یا ایک انجان احساس جمال سے معمور کردیتے ہیں۔ بیدی کا یہ اقتباس دیکھیں۔
’’میں پوری کائنات پر پھیل جاتا ہوں۔ جب میری شکل جاہن کی نہیں رہتی۔ میں وہ پرماتما بن جاتا ہوں جو ’اروپ‘ اور ’نراکار‘ ہے۔ مجھے خدا کی اس بے صفتی سے بے حد محبت ہے۔ کیونکہ اسی صفت سے ہم جو کہانیاں لکھتے ہیں اور تصویریں بناتے ہیں گنجائش پاتے ہیں جیسے ہم بھی اپنے طریقہ سے چھوٹے چھوٹے خدا ہیں۔‘‘(11)
پروفیسر آل احمد سرور نے بیدی کے یہاں جنس کی اہمیت اور اسطور سازی پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ :
’’بیدی کہانی لکھتے ہیں، نہ سیاست بگھارتے ہیں نہ فلسفہ چھانٹتے ہیں نہ شاعری کرتے ہیں، نہ موری کے کپڑے گفتے ہیں۔ عام زندگی، عام لوگ، عام رشتے، ان کے افسانوں کے موضوع ہیں مگر ان میں وہ ایسی طاقت اور توانائی، زندگی اور تابندگی، معنویت اور انفرادیت بھردیتے ہیں کہ ذہن میں روشنی ہوجاتی ہے۔ ان کے یہاں اسطور سازی اور جنس کی واقعی اہمیت ہے مگر اس سے زیادہ اہمیت زندگی کے ویژن کی ہے۔‘‘
جوگندرپال نے اپنے مضمون ’’گیان دھیان کا کتھا کار‘‘ میں بیدی کی دِبھ درشٹی اور عرفان ذات سے کائنات کے اسرار تک کے رموزونکات کو انتہائی انہماک سے دریافت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ کو تو اس نے کسی گرنتھ کی طرح گاگا کر لکھا ہوگا۔ یہاں بھی اس کا شعوری عمل ویسے ہی کارفرما ہے مگر شعور کے عین مرکز میں پہنچنے کے بعد اس نے عرفان کی منزلوں کی جانب منھ موڑ لیا۔
’’حضور سنگھ کی آنکھیں اس دنیا کے رشتوں اور بندھنوں میں کہیں رل گئی تھیں اور نظارے اس کی بے بسی پر رو رہے تھے۔ اب وہ خود نظارہ تھا اور خود ہی ناظر، آپ تماشا اور آپ ہی تماشائی—اس کے سرپہ گیروے رنگ کی پگڑی بندھی تھی جس کے پیچ کھل کھل جاتے تھے۔ اس وقت پلوسے وہ اپنی بھیگی ہوئی آنکھیں اور رکیک سی ناک پوچھتا ہوا کوئی جوگی، کوئی رمتا رام معلوم ہورہا تھا۔ وہ دنیا کو چھوڑ رہا تھا پر دنیا اسے نہیں چھوڑ رہی تھی— آج موت کے دروازے پر کھڑی اسے کوئی دبھ درشٹی مل گئی اور وہ دیکھنے لگا تھا…‘‘
اپنی داڑھی کھلی چھوڑ کر بدھ کے نروان کو محسوس کرتے ہوئے بیدی کو لگا ہوگا کہ یہ ساری واردات اسی پر بیتی ہے، وہ آپ ہی حضورسنگھ ہے— اگر وہ اپنا آپ حضورسنگھ کو سونپنے سے رہ جاتا تو عرفان کا یہ منظر اس پروانہ ہوتا۔‘‘ (12)
بیدی کی کردارنگاری کے اس بے مثال وصف کی قدرے صراحت کے ساتھ تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے لکھا ہے کہ:
’’بیدی کرداروں کے ذہن اور روح میں اترکر ان کے ایک ایک راز کو جاننے اور آشکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی رشتوں کی اوپری پرت اور ان کی اصل حقیقت کے درمیان امتیاز کا جیسا پختہ شعور بیدی کے یہاں نظر آتا ہے اردو کے کم کہانی لکھنے والوں کے یہاں ملے گا۔ ان کی نظریں ان بظاہر حقیر اور غیر اہم تفصیلات پر گڑکر رہ جاتی ہیں، جنہیں بہت سے لکھنے والے توجہ کے قابل بھی نہیں سمجھتے لیکن ان ہی تفصیلات کے تجزیے سے بہت سی حقیقتیں چشم زدن میں روشن ہوجاتی ہیں۔ ان ہی بے رس واقعات کو بیدی اپنے تخئیل کی گیمیاگری سے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ان سے انسانی فطرت کے بہت سے چھپے ڈھکے گوشوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ کہانی لکھنے والا اپنے تخلیقی کام میں ایک دوہرے عمل کا پابند ہوتا ہے۔ وہ جس صورت حال کو ہمارے روبرو پیش کرتا ہے، اسے ہم اپنے حافظے کی مدد سے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہ ہمارے سامنے ایک نئی بصیرت کا دروازہ بھی کھول دیتا ہے۔‘‘ (13)
اسلوب احمد انصاری کے مذکورہ قول کی آخری چند سطور کے پیش نظر حضورسنگھ کے اندرون میں اٹھنے والے تیاگ کے جذبے کی مدھم لہروں کو بیدی نے غایت درجہ فنکاری سے قارئین کی بصیرت پر روشن کردیا ہے۔بیدی نے اپنے موئے قلم سے چند آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر حضورسنگھ کے سراپے کی جزئیات مکمل کرلی ہے۔ اس کی گیروے رنگ کی پگڑے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھوگ ولاس کی زندگی سے اوپر اٹھ کر اب وہ تیاگ اوستھا میں جوگی بن کر جینے کی رسمیں پوری کرنا چاہتا ہے۔ ’’وہ رمتا رام معلوم ہورہا تھا۔‘‘لیکن انسان کی آرزوئیں اور تمنائیں آخری سفر تک ساتھ نہیں چھوڑتی ہیں۔ بیدی نے اس کردار کے ذریعہ اسلوب احمد انصاری کے مطابق ’’ایک نئی بصیرت کا دروازہ بھی کھول دیا ہے‘‘ جب وہ حضورسنگھ کی اس کیفیت کا بیان کرتے ہیں۔’’وہ دنیا کو چھوڑ رہا تھا، پردنیا اسے نہیں چھوڑ رہی تھی— آج موت کے دروازے پر کھڑی اسے کوئی دب ڈرشٹی مل گئی اور وہ دیکھنے لگا تھا۔‘‘
اس ناول میں جہاں ایک مفلوک الحال اور پسماندہ دیہاتی لوگوں کی اجتماعی زندگی بیان کی گئی ہے وہیں ان کے مذہبی عقائد کی پختگی کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ ان سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور گناہ کی سزا بھی پاتے ہیں اور گناہوں کا کفارہ بھی ادا کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد جینا ہے۔ وہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی زندگی سے فرار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ کوئی خودکشی نہیں کرتا کیونکہ ان کے سماج میں کوئی جھوٹا معیار، کوئی جھوٹی اخلاقیات نہیں ہے۔ ان کی زندگی کا کھردراپن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہتا ہے۔ وہ اندر باہر ایک سے ہوتے ہیں۔ مردوں میں اکھڑپن ہی ان کا پندار ہے اور یہاں کی عورتوں میں خود سپردگی میں ہی ان کی اناکی پاس داری ہوتی ہے۔ وہ مردوں سے ہار کر زندگی کی بازی جینا چاہتی ہیں۔ پرش اور پرکرتی کے تفاعل سے لاشعوری طور پر واقف ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ زمین رحم دل ہوتی ہے۔ ایک ماں کی طرح اس میں سبھوں کو اپنانے کی خوبی ہوتی ہے۔ اس مرد کو وہ مرد نہیں گردانتی جو اپنی عورت کو قابو میں نہ کرسکے۔ ان کے یہاں ارتقائے آدم خاکی کی نفی نہیں ہے۔ غیر موافق حالات سے نبردآزما ہونے کے لیے عورتیں سوجتن کرتی ہیں۔ وہ اپنے تریاچرتر کو بروئے کار لاکر مرد کا اتصال حاصل کرلیتی ہیں۔ یوں دیکھیں تو ایک معنی میں اس ناول میں خلق سماج میں عورت ہی زندگی کی تمام تر سرگرمیوں کی محور اور مقصود معلوم ہوتی ہے۔ عورت ماں ہے۔ عورت سیج کی بیسوا بھی ہے حرافہ بھی ہے۔ عورت مجبور ہے۔ عورت مقہور بھی ہے۔ عورت چنڈی بھی ہے جو بھیروں سے حساب بھی برابر کرتی ہے۔ عورت امبا بھی ہے۔ عورت بھیروی بھی ہے اور یہی عورت دیوی بھی ہے جس کی آشرواد سے پورا سماج خوشیوں سے ناچ اٹھتا ہے اور جھوم اٹھتا ہے یعنی عورت کلیان کاری بھی ہے۔ بیدی کی فنکاری اس بات میں مضمر ہے کہ عورت سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس ناول میں ہمیشہ ایک بہت ہی معمولی عورت رہتی ہے۔ وہ اپنی انسانی سطح اور انسانی خول کو کہیں بھی چھوڑتی نظر نہیں آتی۔ وہ ایسی ابلہ ناری ہے کہ جس کا نہ کوئی آگاہے نہ پیچھا۔ وہ کپڑے کی گیند سی ہے جو اپنے ہی آنسوؤں سے بھیگ کر لڑھکنے جوگی بھی نہیں رہ جاتی ہے۔ بچپن میں ماں باپ کے سہارے، جوانی میں سسرال کے حوالے اور بڑھاپے میں اپنی ہی اولاد اسے پالے۔
اس ناول میں وارث علوی نے رانو کی سب سے بڑی صفت کا ذکر ان لفظوں میں کیا ہے کہ اس کی سب سے بڑی صفت قبولیت ہے جو زندگی کا وصف ہے۔ استرداد نہیں بلکہ قبولیت رانو کو ایک ایسا اتھاہ سمندر بناتی ہے جس میں دکھ کے پہاڑ غرق ہوجاتے ہیں، غیر اپنا لیے جاتے ہیں اور بے بسی کی تنہا راتوں میں بہائے ہوئے آنسوؤں کے قطرے، حسن، تخلیق اور مسرتوں کے آبدار موتیوں کی صورت ساحل حیات پر بکھیردیے جاتے ہیں۔
ناول کا اختتام اپنی ابتدا کے برخلاف طربیہ ہے۔ رانو نے اپنے شوہر تلوکا کو کھودیا تھا لیکن پایان کار اس کی گود ہری ہوجاتی ہے۔ اس کی بیٹی کو دولہا اور خود اسے آج اپنے کھوئے ہوئے باپ کی جگہ کوئی آسمانی باپ مل جاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ پر کرتی کو سنسار چلانے کے لیے منگل کی شکل میں اس کا پرش مل جاتا ہے۔ اسی دم مندر میں گھنٹیوں کا غوغا مچتا ہے اور مسجد سے اذان کی آواز بلند ہونے لگتی ہے۔اس طرح، ناول طربیہ انداز کے ساتھ اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔

حواشی :
1۔          راجندر سنگھ بیدی، ہندوستانی ادب کے معمار سیریز، وارث علوی، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی، اشاعت
                1996، ص60
2۔           راجندر سنگھ بیدی ایک مطالعہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، اشاعت 2006، ص433
3۔          راجندر سنگھ بیدی نمبر، عصری آگہی، دہلی، اشاعت1982، ص89
4۔           محولہ راجندر سنگھ بیدی، ہندوستانی ادب کے معمار سیریز، وارث علوی، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی،
                ص62
5۔          ایضاً، ص62
6۔          رانو بیدی کا ایک امر کردار،راجندر سنگھ بیدی نمبر، عصری آگہی، دہلی، اشاعت1982، ص297
7۔          راجندر سنگھ بیدی ایک مطالعہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، اشاعت 2006، ص444
8۔          ایضاً، ص455
9۔          بیدی کا نظریۂ فن، راجندر سنگھ بیدی نمبر، عصری آگہی، دہلی، اشاعت 1982، ص122
10۔        گیان دھیان کا کتھا کار،  راجندر سنگھ بیدی نمبر، عصری آگہی، دہلی، اشاعت 1982، ص81
11۔       بیدی کا فن، ادب اور تنقید، اسلوب احمد انصاری، سنگم پبلشرز، الہ آباد، اشاعت 1968، ص294
n
پتہ :
Parvez Shaharyar
NCERT,
Publication Division, Aurobindo Road, New Delhi.

سہ ماہی ’ فکر و تحقیق‘ جولائی تا ستمبر 2010 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں