اکبر، اقبال اور حسن نظامی
قمر جہاں
اکبر نے اپنی شاعری کے دور شباب ہی میں ملک گیر شہرت حاصل
کر لی تھی۔ ان کے اصحاب اور معتقدین ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ ان میں
سے بیشتر لوگوں سے خطوط کے ذریعے اخلاص و اتحاد کے روابط قائم ہوئے جنھیں اکبر تا
زندگی پوری مستعدی کے ساتھ نبھاتے رہے۔ انھوں نے اپنے دوستوں ، عزیزوں، شاگردوں
اور ہم عصروں کو جو خطوط لکھے ہیں ان کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے۔ یہ خطوط علمی
اور ادبی اہمیت کے حامل ہیں۔ اعزہ کے نام لکھے گئے خطوط کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔
حتیٰ کہ عشرت حسین کے کیمبرج میں سات سالہ قیام کے دوران انھیں جو خطوط لکھے گئے
ان کا ایک بڑا حصہ تلف ہو گیا۔ اخبارات و رسائل کے ایڈیٹر کے نام بیشتر خطوط بھی
ضائع ہو گئے۔ صرف کچھ ممتاز اشخاص اور صاحبانِ علم و ذوق کو ان کے خطوط کی اہمیت
کا احساس ہوا اور وہ انھیں تاریخی ترتیب سے جمع کرتے رہے۔ اس ادبی اتلاف کے باوجود
اردو کے بہت کم ادیبوں اور شاعروں کے خطوط اتنی بڑی تعداد میں دستیاب اور شائع ہو
سکے ہیں۔
اکبر کے مکتوب الیہم میں مولانا عبد الماجد دریابادی، خواجہ
حسن نظامی، سید سلیمان ندوی ، علامہ
اقبال ، مرزا سلطان احمد، مولانا محمد علی جوہر، شیخ عبد القادر (مدیر مخزں)، میاں
بشیر الدین، منشی دیا نرائن نگم، صفدر
مرزا پوری، ریاض خیر آبادی، حکیم برہم، مولوی قمر الدین بدایونی، عزیز لکھنوی،
ملا واحدی، مولانا حسرت موہانی، مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد، سید افتخار حسین بی.اے.
،حبیب الرحمن خاں شروانی، محشر لکھنوی، ممتاز حسین جونپوری، نور الحسن نیّر
کاکوروی، خان بہادر احمد حسن خاں مذاق (اکبر کے سمدھی) قائم دانا پوری، احسن
مارہروی، صاحب زادہ آفتاب احمد خاں، امجد علی خاں عظیم آبادی، پنڈت پدم سنگھ
شرما، دلگیر اکبر آبادی، حکیم محمد صالح، ظفر علی خاں، ڈاکٹر سید محمود، ابو
الکلام آزاد، محمد عبد الرزاق کانپوری، علی حیدر طباطبائی، سر سید احمد خاں اور
مہاراجہ محمود آباد وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ تمام حضرات ممتاز اور نمایاں
مرتبے کے مالک ہیں۔
ان کے ایسے بے شمار خطوط نظروں سے اوجھل ہیں جو انھوں نے
منشی سجاد حسین، نواب سید محمد آزاد،
پنڈت رتن ناتھ سر شار اور اپنے دوسرے معاصر مزاح نگاروں کو لکھے ہوں گے اور جن میں
اکبر کی جولانی ِطبع کی پھلجھڑیاں اور فطری شوخی کی آتش بازیاں اپنا جلوہ دکھاتی
ہوں گی۔ آپ بیتی، آشفتہ سری، کھل کھیلنے اور اسرار سے پردے ہٹنے کے نہ معلوم
کتنے منظر ہوں گے۔
یہاں پر اکبر کی مکتوب نگاری سے بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ
ان تعلقات کا اعادہ کرنا ہے جن کا واحد ذریعہ اب یہ خطوط رہ گئے ہیں اور وہ بھی
نہایت کمیاب اور نارسا۔ اکبر کے معاصرین سے تعلقات کے سلسلے میں یہ بتا دینا ضروری
معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ملازمت سے سبک دوش ہونے سے پہلے کے خطوط کی عدم موجودگی سے
اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ان کی تمام تر خط و کتابت اور معاصرین سے تعلقات،
ملازمت سے سبک دوشی حاصل کرنے کے بعد وجود میں آئے۔ 1903 میں پینشن لینے کے بعد
انھیںفرصت اور اطمینان کی گھڑیاں نصیب ہوئیں۔ اس زمانے میں اخبار و رسالے اور
مختلف علوم کی کتابیں کثرت سے زیر مطالعہ ر ہتی تھیں۔ مذہب، فلسفہ اور تصوف سے
لگاؤ بہت بڑھ گیا تھا۔ مطالعے کے بعد اکثر اپنے تاثرات قلم بند کیا کرتے تھے یا
کتاب کے صفحات پر نوٹ لکھا کرتے تھے۔اخبار و رسائل میں جو چیزیں پسند آتی تھیں،
اس کے مصنف کو ایڈیٹر کی معرفت یا براہ راست خط لکھتے تھے۔ مولانا عبد الماجد، حسن
نظامی، اقبال اور سلطان احمد وغیرہ کے لکھے گئے خطوط میں اکثر ان کے کلام یا
مضامین کی تعریف کی گئی ہے۔ نظریاتی اختلاف کے بھی بہت سے موقعے نظر آتے ہیں لیکن
یہ وہ دو ر تھا جب اکثر اختلافات، نزاعی صورت اختیار نہیں کرتے تھے، ان موضوعات پر
نرم مگر مستحکم لہجے میں گفتگو کی جاتی تھی۔ اخلاقی اقدار اتنی مضبوط تھیں کہ بات
بات پر بھڑک اٹھنا یا ہر قیمت پر اپنی بات منوانے کا جنون سر نہ اٹھاتا تھا۔
اکبر کے تقریباً تمام ہم عصروں کے ساتھ ملاقات سے قبل
مراسلت رہی۔ بعض لوگوں کے ساتھ سرسری خط کتابت رہی، ایڈیٹروں کے ساتھ کاروباری
مراسلت رہی اور جن لوگوں کے انداز فکر، میلانِ طبع اور خیالات میں ہم رنگی پائی ان
سے دیر پا تعلقات استوار ہوئے۔
ان کے ہم عصروں کی تحریروں سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ
اکبر کی شخصیت میںبلاکی دل آویزی تھی۔ مطالعہ وسیع تھا اور تحریر میں تہذیب و
شائستگی کا حد درجہ خیال رکھتے تھے۔ بحث کرنے میں تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے
دیتے تھے۔ معاصرانہ چشمک، تلخ کلامی، عیب جوئی اور گالی گلوج سے ان کا دامن پاک
رہا۔ یہ ان کی وسیع القلبی اور فراخ دلی کا ثبوت ہے ورنہ اکثر ادیب اور شاعر خود
نمائی، خود ستائی اور احساس برتری جیسی کمزوریوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ اکبر کی
شخصیت ان سطحی باتوں سے بلند تھی۔ انھی خصوصیات کی بنا پر ان کے مخالفین بھی تلخ
کلامی سے گریز کرتے تھے۔ یہی سبب تھا کہ رشتۂ اتحاد و دوستی جس کے ساتھ ایک بار
قائم ہوا، تا حیات بر قرار رہا۔ ان کے ہم عصروں نے ان کی خوش کلامی، شگفتہ طبعی،
برجستہ گوئی ، حاضر جوابی اور فقرے بازی کا ذکر کیا ہے۔ شخصیت اور ذہانت کی کشش
بار بار لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی۔ ایک بار ان کی صحبت سے فیض اٹھانے کے
بعد لوگوں کے قدم بار بار عشرت منزل کی طرف اٹھتے تھے۔ قمر الدین احمد نے ان کی
شخصیت کی تصویر کشی کسی حد تک غیر جانب داری سے کی ہے۔ عبد الماجد دریابادی اور
خواجہ حسن نظامی کی رایوں پر عقیدت اور ارادت مندی غالب ہے۔بہرحال ان کے تمام
معاصرین کی نظروں میں انھیں عزت، وقعت، عقیدت اور محبت حاصل تھی۔ موضوع کی حد بندی
کے پیش نظر یہاں صرف دو حضرات کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کا ذکر مقصود ہے،
یعنی علامہ اقبال اور خواجہ حسن نظامی۔
اقبال اور اکبر:
اکبر اور اقبال کی شخصیت اور فکر ی عناصر کا جائزہ لیا جائے تو بعد
المشرقین نظر آتا ہے۔ اکبر قدامت پرست تھے تو اقبال ترقی پسند۔ اکبر انگریزی
تعلیم و تہذیب کے مخالف تھے، اقبال ان کے دل دادہ۔ اکبر عملی سیاست سے کوسوں دور
اور اقبال سیاست میں سر گرم عمل۔ اکبر تصوف کو خدا تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے تھے
اور اقبال اسے بے عملی اور زندگی سے فرار گردانتے تھے اور اکبر جھنجھلا کر ان پر
شیعہ ہو جانے کا الزام لگا دیتے تھے۔ دونوں کی عمر میں بھی تقریباً تیس سال کا فرق
تھا۔ ان اختلافات اور تضادات کے باوجود جس چیز نے دونوں میں قربت پیدا کی اور دس
برس تک تعلقات استوار رکھے وہ ان کی مشرق پرستی اور اسلام سے سچی محبت اور
مسلمانوں کی تباہی کی ٹیس تھی۔ دونوں وحدانیت کے عاشق، مغربی سیاست سے دونوں
نالاں، یورپی تہذیب کے مضر اثرات سے دونوں فکر مند اور وطن و ہم وطنوں کی محبت سے
دونوں سرشار تھے۔
اکبر کی شاعری کے عروج کا زمانہ ہندوستان میں سیاسی بیداری
اور بے چینی کا دور تھا۔ اقبال کے دور تک یہ انتشار، بد امنی اور ہیجان کی صورت
اختیار کر چکا تھا۔ عام طور پر قدامت پرست لوگ مغرب کی تقلید کو مشرق سے قطع تعلق
کا نام دیتے تھے۔ اکبر ایسے ہی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر اقبال کی نظر عالمی
سیاست پر بہت گہری تھی۔ اکبر تصنع اور طنز و مزاح کے پردے میں اپنا پیغام دے رہے
تھے مگر اقبال کی شاعری سنجیدگی سے لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دے رہی تھی۔
اکبر کی شاعری وطن اور اہل وطن تک محدود تھی مگر اقبال کی
شاعری کی آفاقیت نے انھیں یورپی ممالک میں وہی مقبولیت عطا کی جو انھیں ہندوستان
میں حاصل تھی۔ بہر حال فکری ہم آہنگی نے انھیں بعض معاملات میں ایک دوسرے کا ہم
نوا بنا دیا تھا۔ یہی ہم آہنگی دونوں کی قربت اور مراسلت کا باعث بنی۔
شواہد کے ساتھ یہ نہیں معلوم ہوتا کہ دونوں کی مراسلت اور
ملاقات کب اور کن حالات میں ہوئی لیکن اکبر الہٰ آبادی اپنے ایک خط میں خواجہ
صاحب کو لکھتے ہیں :
’’انجمنِ حمایت
ِاسلام کے جلسے میں وہ (اقبال) مجھے اصرار و شوق سے مدعو کرتے ہیں۔ میری اسیری اور
معذوری کے حالات سے وہ آگاہ نہیں۔ خدا مسبب الاسباب ہے۔ شاید نجات پا جاؤں۔‘‘
[29 فروری،
1912]
اس خط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابتدائی مراسلت محض رسمی
تھی۔ شاعری ایک مشترکہ رشتہ بن کر دونوں کو قریب لا رہی تھی۔ اکبر کے ایک مداح
مرزا سلطان احمد بھی اقبال کے مداحوں میں تھے۔ انھوں نے ایک کتاب ’فنون لطیفہ‘
اقبال کے نام معنون کی۔ اکبر نے 24 دسمبر،1912 کے خط میں اپنی خوشی کا اظہار کیا اور اقبال کی علمی
لیاقت میں تعریفی جملے لکھے۔ اسی خط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ 1912 کے اختتام تک
دونوں کی ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔ 1913 میں دونوں پہلی بار ملے۔ سلطان احمد کو
لکھتے ہیں :
’’ڈاکٹر اقبال
نے بڑی زحمت اٹھائی۔ صرف چند گھنٹوں کے لیے مجھ سے ملنے الہٰ آباد تشریف لائے
تھے…ڈاکٹر اقبال صاحب بلحاظ جملہ حالات اس وقت اس حلقے میں آیات الہٰی میں سے
ہیں۔ آپ نے بجا ان کی مدح کی ہے۔‘‘
[24 جنوری،1913]
اکبر کی زندگی کے آخری زمانے میں اقبال شہرت کے نصف النہار
پر تھے۔ یہ ناممکن تھا کہ اکبر ان کی طرف سے چشم پوشی کرتے۔ عبد الماجد دریابادی،
سلطان احمد اور خواجہ حسن نظامی، اقبال و اکبر کے مشترک دوست تھے۔ ان لوگوں کے نام
خطوط میں اکبر نے بار ہا اقبال کی تعریف و توصیف کی اور ان کی شاعرانہ عظمت کو
سراہا ہے۔ اسلامی ممالک کی کروٹوں پر ان کی گہری نگاہ تھی اور ہندوستانی مسلمانوں
کی حالت پر افسوس اور غم و غصہ ان کا نصیب تھا۔ اپنے اپنے طور پر یہ سب قوم کی
اصلاح اور مشرقی اقدار کی پاسبانی پر کمر باندھے ہوئے تھے۔
شاعری اور فلسفہ اکبر و اقبال کی دل چسپی کے خاص میدان تھے
مگر اکبر تصوف کے جس قدر حامی تھے، اقبال کسی قدر سخت مخالف ۔ اقبال کا فعال’ مرد
مومن ‘تصوف کو فرار سے تعبیر کرتا ہے اپنے خیال کے اظہار کے لیے انھوں نے مثنوی
’اسرار خودی‘ شائع کی جس میں خودی کو مٹانے والے فلسفے کی مخالفت کی جس کا مشرقی
دنیا میں بہت چرچا رہا ہے۔ اس کی اشاعت سے ادبی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔
تائید و تردید کے محاذ تیار ہو گئے۔ دلی کے نامور کانگریسی لیڈر مولانا عارف نے
ملا واحدی کے اخبار ’خطیب‘ میں اقبال کی اسرار خودی کے خلاف اور تصوف کی حمایت میں
ایک مضمون لکھا جس میں اکبر کے اعتراضات کا ذکر تھا۔ اکبر اپنی تعریف سے خوش بھی
تھے اور مضمون کی اشاعت سے ڈرتے بھی تھے۔ 25 ستمبر،1915 کے خط میں خواجہ حسن نظامی
کو لکھتے ہیں :
’’آپ کی دانش
مندی ، حفظ مراتب، محبت و ہمدردی کا شکر گزار ہوں… عارف صاحب نے نیک دلی سے قلم
اٹھایا۔ میں ان کا مشتاق و ممنون ہوں لیکن ان کو کیا معلوم کہ میری کیا پوزیشن ہے
اور کیا حالات ہیں۔ کس قدر غلط فہمیاں،بد گمانیاں دراندازیاں ہو رہی ہیں… اس وقت
زیادہ تحسین کچھ نہیں تو رشک انگیز ہو سکتی ہے۔‘‘
بہر حال مضمون کی اشاعت سے اقبال کی شہرت کو دھکا لگا ۔اپنے
خیال کی وضاحت کے لیے وہ بھی ایک مضمون لکھنے پر تیار ہوئے۔ یہ قلمی جنگ بڑھتی
گئی۔ مرزا سلطان احمد بھی اسرارِ خودی کے خلاف قلم اٹھانے پر آمادہ ہو گئے تھے ۔
نظریاتی اختلاف کے باوجود اکبر کے دل میں اقبال کے لیے عزت اور محبت تھی اور وہ اس
اختلاف کو ادبی معرکہ نہیں بنانا چاہتے تھے۔
اسی زمانے میں خواجہ حسن نظامی مسجد کانپور کے جھگڑے کی بنا
پر حکومت کے معتوب تھے۔ کئی سال تک دلی سے باہر جانے کی اجازت نہ ملی تو خواجہ
صاحب کی تصنیفات کی تعداد بڑھنے لگی۔
’’محرم نامہ ‘‘بھی اسی زمانے کی یادگار ہے۔اہل تشیع تصوف کے خلاف ہیں۔
علامہ تصوف کے مخالف تو پہلے ہی تھے، اب مسئلہ امامت کو بھی تسلیم کر لیا۔ گویا
اقبال کی شیعیت مسلم ہو گئی۔ اکبر کے ذہن میں یہ بات گھر کر گئی۔ خواجہ صاحب کے
نام ایک خط میں نہایت طنزیہ انداز میں لکھتے ہیں :
’’اقبال صاحب نے
تو مجھ کو خط میں لکھا ہے کہ مسئلہ امامت کو انھوں نے مان لیا لیکن یہ نہیں اقرار
کیا کہ میں شیعہ ہو گیا۔ خانہ ساز عقائد سے دوسرا مذہب تو قائم نہیں ہو سکتا، شغل
زندگی سمجھیے۔‘‘
[23نومبر،1916]
یہ اعتراض کرتے وقت اکبر یہ بھول گئے تھے کہ ان کا مذہب بھی
خانہ ساز ہے۔ان کے اجداد شیعہ تھے اور ان کے والد بھی عرصے تک شیعہ رہے جس کی بحث
اکبر کے مذہب اور عقائد کے عنوان سے کی جا چکی ہے لیکن اکبر کی یہ بہت بڑی خوبی
تھی کہ وہ نظریاتی اختلاف کو ذاتیات سے بہت دور رکھتے تھے۔ ڈاکٹراقبال کو وہ بہت
بڑا شاعر ، فلسفی، عالی خیال انسان، اسلامی جماعت کا ترقی خواہ اور غیور انسان
سمجھتے تھے۔ اسی سال اکبر نے اقبال کے لیے الٰہ آباد سے لنگڑا آم بھیجا جس کا
ذکر اقبال نے نیاز الدین خاں کے نام ایک خط میں کیا اور اکبر کو آموں کی رسید
لکھی :
اثر یہ تیرے اعجاز مسیحائی کا ہے اکبر
الٰہ آباد سے لنگڑا چلا، لاہور تک پہنچا
28 جولائی، 1917
کو نیو ایرا (New Era )میں تصوف کے خلاف ڈاکٹر اقبال کا مضمون
شائع ہوا۔ اکبر کو اقبال کے خیال سے شدید اختلاف پیدا ہوا۔ حسن نظامی کو لکھتے ہیں
:
’’میں نہیں
جانتا وہ کون سا اسلامی مقہور تصوف ہے جو انسان کو دنیا میں سعی سے روکتا ہے۔ بہر
حال پڑھے لکھوں کا یہ پرانا شغل زندگی ہے۔ انسان کو ضرور مرادنگی سے کام لینا
چاہیے۔ لیکن کالج کی پروفیسری عرب کی مردانگی نہیں ہے جس کا وعظ کیا جاتا ہے۔
اعمال نیک اور تقویٰ میں مردانگی ہے۔‘‘
[03، اگست، 1917]
یہ سلسلہ 1915 میں شروع ہوا تھا اور 1918 تک جاری رہا۔ سوال
جواب ، مراسلات اور مضامین کا طویل دور رہا مگر ادبی معرکے کی نوبت نہیں آئی۔
بلکہ حریف نرم اور متوازن لہجے میں اظہار ِ خیال کرتے رہے۔ یہ ضرور ہوا کہ اکبر کے
دل میں اقبال کی طرف سے میل آ گیا۔ وہ اقبال کی عظمت، وسیع مطالعہ اور اسلام
دوستی سے بہت خوش تھے مگر اس بحث نے دونوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل کر دی کہ
دلی تعلق جاتا رہا۔ خواجہ صاحب کو لکھتے ہیں :
’’اقبال صاحب
مراسلت کرتے ہیں۔ ان کا آنر کیوں نہ کروں، لیکن دلی ذوق جاتا رہا۔ شریعت سے کس کو
انحراف ہے لیکن یہ رنگ کہاں کہ :
حلقۂ پیر مغانم زازل دو گوش است
برہما نیم کہ بودیم وہما خواہد بود
قرآنِ مجید نے بھی اہلِ دل پر نظر فرمائی ہے۔ڈاکٹر صاحب
صرف اسی کو دل مانتے ہیں جو آنکھ سے پک سکتا ہو۔‘‘
[14، اگست،1917]
لیکن اقبال نے اس معاملے میں زیادہ فراخ دلی اور وسعت قلب
کا ثبوت دیا۔1918 کو وہ ایم.اے. کا زبانی امتحان لینے کے لیے اور یہ ممتحنی صرف اس
لیے منظور کی کہ اکبر کی زیارت اور ملاقات کا بہانہ بن جائے۔
اسی سال اکبر کی نظم’’ ملا اور صوفی ‘‘معارف ،میں شائع
ہوئی۔ اقبال نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اکبر نے اپنی صفائی میں حسن نظامی
کو لکھا کہ وہ نظم بلا اجازت چھاپی گئی ہے اور اس میں کسی کی حمایت نہیں۔
اقبال سے ملاقات اور ان کی طرف سے مسلسل اظہارِ عقیدت مندی
اور خلوص میں اکبر کی مخالفت کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیا۔ ان کی اعلیٰ ظرفی نے
اکبر کو سابقہ تعلقات استوار کرنے میں مدد دی۔ آخر ی بار 29 فروری،1920 کو اقبال
الہٰ آباد گئے اور تین دن اکبر کی معیت میں گزارے۔ یعنی اکبر کے انتقال سے
تقریباً ڈیڑھ سال قبل دونوں کی آخری ملاقات ہوئی تھی۔
عشرت حسین کے نام تعزیتی خط میں علامہ اقبال لکھتے ہیں :
’’ابھی ابھی
’زمیندار‘ سے آپ کے والد ( اور میرے مرشد معنوی) کے انتقال پر ملال کی خبر معلوم
ہوئی… ہندوستان اور بالخصوص مسلمانوں میں مرحوم کی شخصیت ہر حیثیت سے بے نظیر تھی اور اسلامی ادیبوں میں تو شاید
آج تک ایسی نکتہ رس ہستی پیدا نہیں ہوئی اور مجھے یقین ہے کہ تمام ایشیا میں کسی
قوم کے ادبیات کو اکبر نصیب نہیں ہوا۔ زمانہ سیکڑوں سال گردش کرتا رہتا ہے جب اسے
اکبر ہاتھ آتا ہے۔‘‘
[انوارِ اقبال
–مرتبہ رشید احمد ڈار،ص۔197]
ان اشعار میں اقبال نے اکبر کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا
ہے :
دریغا بحق از جہاں بست اکبر
حیاتش بحق بود روشن دلیلے
سرِ ذرّۂ طورِ معنی کلیمے
بہ بت خانۂ دورِ حاضر خلیلے
[مطبوعۂ نقیب، بدایوں
،شمارہ ،اپریل و مئی، 1922]
اکبر اور خواجہ حسن نظامی : اکبر کے ہم عصروں میں سب سے
گہرے ، قریبی اور دلی تعلقات خواجہ حسن نظامی کے ساتھ رہے۔دونوں کی معاشرت ایک،
طرز فکر ایک اور مسلک ایک تھا۔ تصوف اور مذہب سے دونوں کو گہرا شغف تھا۔ روحانیات
کے دونوں دل دادہ تھے۔ اکبر عمر میں خواجہ صاحب سے 36 برس بڑے تھے مگر فکری
یکسانیت کے سبب عمر کا بُعد دونوں کے درمیاں حائل نہ ہوا۔
1910 تک دونوں
ایک دوسرے کے صرف نام سے آشنا تھے۔ اسی سنہ میں اکبر دلّی آئے اور حکیم اجمل خاں
نے اوکھلا نہر پر انھیں چائے پارٹی دی۔ اسی موقعے پر اکبر اور خواجہ صاحب کی پہلی ملاقات
ہوئی۔ جذب دل نے ایک دوسرے کو کھینچا اور یہ قربت بڑھتے بڑھتے روحانی تعلق بن گئی۔
یہ تعلق ان دونوں کی ذات تک محدود نہ رہا بلکہ دونوں گھرانوں کے افراد میں ایسا
اخلاص قائم ہوا کہ اکبر کی حیات تک قائم رہا۔
خواجہ صاحب خود پیر زادے، عاشق رسول، وحدانیت سے سر شار،
اسلام کے سچے پیرو اور خلق اللہ کے خادم تھے۔ ان کے انھی اوصاف نے اکبر کو متاثر
کیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب اکبر اپنی عمر کی آخری منزلوں میں قدم رکھ چکے تھے۔ مذہب
اور تصوف سے لگاؤ روز افزوں تھا۔ ایک ایسا شخص جو فقیری میں بادشاہت کرتا ہو، جسے
بڑے بڑے راجہ مہاراجہ اپنے برابر نشست دینے میں فخر محسوس کرتے ہوں، جو خود اعلیٰ
درجے کا ادیب اور انشا پرداز ہو، وہ اکبر کا کتنا ادب کرتا تھا، اس کا بیان ملّا
واحدی کے الفاظ میں دیکھیے :
’’خواجہ صاحب کو
خوردانہ ملتے ہوئے میں نے بس اکبر ا لہٰ آبادی کے ساتھ دیکھا۔ بڑے بھائی خواجہ
حسن علی، ماموں زاد بھائی اور خسر پیر زادہ سید محمد صادق اور مخلص خاص منشی غلام
نظام الدین عرف خاکسار عالم کی بزرگی کا بھی لحاظ کیا جاتا تھا مگر حضرتِ اکبر کا
خواجہ صاحب ادب کرتے تھے… اپنے گھر میں اور میرے گھر میں خواجہ صاحب ہمیشہ حضرت
اکبر کے سامنے چھوٹوں کی طرح بیٹھتے تھے۔ حضرت اکبر مسند پر گاؤ تکیے سے پیٹھ
لگائے ہوتے تھے اور خواجہ صاحب مسند کے کنارے پر رہتے تھے، بلکہ مسند سے باہر۔
[سوانح عمر
،خواجہ حسن نظامی، ص۔136]
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :
’’حضرت اکبر
جیسی عزت خواجہ صاحب نے کی ہوگی تو اپنے پیروں کی ، کی ہوگی۔‘‘
[ایضاً ، ص۔137]
خواجہ صاحب اپنے بعض معاملات میں اکبر سے مشورے طلب کرتے
تھے اور اکبر ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ دونوں کے مابین جس کثرت سے مراسلت رہی، اتنے
خط اکبر نے کسی اور کو نہیں لکھے۔ افسوس کہ بعض ذاتی اور سیاسی مصلحتوں کی بنا پر
خواجہ صاحب تمام خطوط شریک اشاعت نہ کر سکے۔
ابھی دونوں کے تعلقات کی ابتدا ہی ہوئی تھی کہ 1913میں مسجد
کانپور کے وضو خانے کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ حسن نظامی کانپور جاتے ہوئے اکبر
سے ملاقات کی غرض سے الہٰ آباد میں ٹھہرے۔ کانپور میں حالات تلخ سے تلخ تر ہوتے
گئے۔ حسن نظامی انگریزی حکومت کے مخالف قرار پائے اور الہٰ آباد کے قیام کو بھی شبہہ کی نگاہ سے
دیکھا گیا۔ یو.پی. کے لفٹننٹ گورنر سرجیمس مسٹن نے الہٰ آباد جانے پر پابندی لگا
دی۔ ان کا خیال تھا کہ حسن نظامی اور اکبر سازش کر کے حکومت کے خلاف انقلاب پیدا
کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عرصہ اکبر پر شدید تکلیفوں اور مصائب کا تھا۔ دنیوی نعمتوں اور
خوشیوں سے دامن جھاڑ کر تو بیٹھے ہی تھے، حکومت کے خوف نے نیم جاں کر دیا۔ حکومت
کے خلاف زہر اگلنا بند کرنے کی تنبیہ نہ صرف انھیں بلکہ ان کے بیٹے عشرت حسین کو
بھی مل چکی تھی کہ اپنے باپ کو روکیں۔ اب خواجہ صاحب سے تعلقات کی بنا پر یہ نیا
خرخشہ پید اہو گیا۔ دونوں طرف سے زور و شور کی کوششیں شروع ہوئیں کہ حکومت کی غلط
فہمیوں کو رفع کیا جائے۔ یہاں پر ان تفصیلات کا ذکر فضول ہے۔ مختصراً ان واقعات کا
ذکر کیا جاتا ہے جس سے ان کے خلوص ، صداقت، بے لوثی اور مستقل مزاجی کا حال معلوم
ہوتا ہے۔ دونوں کو یہ احساس تھا کہ وہ ایک دوسرے کی تکلیفوں کا باعث بنے ہیں۔ ایسے
قریبی تعلقات کے بعد کئی سال تک ملاقات موقوف رکھنا کچھ آسانی نہ تھا مگر
’المکتوب نصف الملاقات‘ سے کام چلاتے رہے اور ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے رہے۔ یہی
سبب ہے کہ سب سے زیادہ خطوط خواجہ صاحب کو لکھے گئے۔ ایک خط میں خواجہ صاحب کو
لکھتے ہیں :
’’آپ کی ذات
خاص کو چنداں تعلق نہیں ہے۔ میری آتش بیانیاں مبالغے کے ساتھ ذہن نشیں ہو کر ان
کے قلوب وحشت انگیز ہیں۔ میری احتیاطیں اخلاقی کمزوری کے سبب سے نہیں بلکہ میرا یہ
مصرع ہے :
اور ہم نے یہ دل میں ٹھانی ہے
یا دل کی کہیں، یا کچھ نہ کہیں‘‘
[03،اگست، 1915]
آخر تقریباً تین سال کی دوڑ دھوپ ، سعی و سفارش اور کئی
آدمیوں کی کوششوں سے مسٹر برن، سکریٹری گورنمنٹ یو.پی. نے حسن نظامی کو یو.پی.
میں داخلے کی اجازت دی۔
اکبر کا خاص میدان نظم تھا۔ خواجہ صاحب انشائیہ نگار اور
شگفتہ تحریر پر قادر تھے۔ خود اکبر کی نثر ان کی شاعری کی طرح شگفتہ اور دلچسپ
ہوتی تھی مگر وہ خواجہ صاحب کے اسلوب کا لوہا مانتے تھے، ان کے مضامین اور تحریروں
کی داد دیتے تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’ہمدم میں چڑیا
چڑے کا مضمون عرش دلکشی پر پر واز مار رہا ہے۔ میں نے کہا میں ایسا کیوں نہیں لکھ
سکتا۔ مختصر مگر معنی خیز– جواب ملا کہ تم حسن نظامی نہیں ہو۔‘‘
[07 دسمبر،
1916]
خواجہ صاحب بہت زود نویس تھے۔ تقریباً پانچ سو چھوٹی بڑی
کتابیں تصنیف کیں۔ محرم نامہ اور ’’یزید نامہ ‘‘وغیرہ کے مواد اور انداز بیان سے
اکبر کو اختلاف ہوا اور اس کا انھوں نے اظہار بھی کیا مگر دوسری طرف وہ مذہبی
رواداری اور ہندو مسلم اتحاد و اتفاق پیدا کرنے والی تصنیف ’کرشن بیتی‘ کی تعریف
کرتے نہیں تھکتے۔ بار بار اس کا ذکر کرتے ہیں :
’’میں نے لڑکپن
میں اپنے والد ماجد صاحب قدس اللہ سِرّہ سے جناب کرشن کا جو ذکر سنا تھا اس نے
مجھے آمادہ کر دیا تھا کہ اس مجلس میں آپ کا جام قبول کروں۔ آپ کی تحریر کا کیا
پوچھنا ہے۔ دلّی کی زبان، چشت کا دل، حسن کی ذات، جو کچھ بھی ہو، تھوڑا ہے۔‘‘
[29جنوری، 1917]
ایک اور خط میں منظوم تاثرات پیش کیے ہیں :
خوب ہے اردو میں لکھے جس نے حالاتِ کرشن
اس مصنف کو مگر دلّی ہی پیدا کر سکی
وہ بگولہ خاکِ خسرو ہی کے پہلو سے اٹھا
جس کی گردش طبع اکبر کو جنوں سے بھر سکی
یہ امنگ آخر نظام الدین سے اٹھی کہ جو
با سلیقہ ہاتھ ساز عشق حق پر دھر سکی
[27جولائی، 1917]
اکبر سے خواجہ صاحب کی عقیدت، محبت اور ارادت اس درجہ افزوں
تھی کہ شاید ان کے مرید بھی ان سے اتنی ارادت نہ رکھتے ہوں گے۔ ’’آپ بیتی‘‘ میں
خواجہ صاحب مصلحوں کے ذکر میں لکھتے ہیں:
’’تیسرے مصلح
حضرت اکبر الٰہ آبادی ہیں۔ ان کی خد مت میں میری حاضری اتنی زیادہ ہوئی ہے کہ
شاید ان کا کوئی دوسرا نیاز مند اس کثرت سے ان کے پاس نہ گیا ہوگا۔ ان کی صحبت نے،
ان کی گفتگو نے، ان کی نصیحت نے، ان کی خط کتابت نے، ان کے کلام نے اور ان کے
باطنی اثر نے، جو ہر وقت میرے ساتھ رہتا ہے اور جس کو میں ہر وقت اپنے ساتھ سمجھتا
ہوں، میری زندگی کو ذرّہ سے آفتاب بنا دیا۔ اب میں ان کی زبان سے بولتا ہوں، ان
کے دماغ سے سمجھتا ہوں، ان کے دل سے میری خواہش پیدا ہوتی ہے، ان کی آنکھ سے
دیکھتا ہوں اور ان کے احساس سے ہر شے کو محسوس کرتا ہوں۔ میری امید ان میں ہے، ان
کی نوید مجھ میں ہے۔ آج ان کا جسم الہٰ آباد کی عشرت منزل میں ہے اور کل وہ وجود
میری قبر کے سرہانے مدفون ہوگا۔ اگر قدرت کے نوشتہ نے اجازت دی تو میں قیامت تک
درگاہِ حضرت محبوب الٰہی کے گوشے میں درویش خانۂ حلقہ المشائخ کے شمال میں حضرت
اکبر الہٰ آبادی کی پائنتی قبر بنا کر آرام کروں گا تاکہ میری ابدی زندگی اس ازل
کے حرف سے وابستہ رہے۔
معنوی اور روحانی قوتیں میرے عقیدے کے موافق انسانوں کی
زندگی مرتب کرتی اور ان کی رہنما بنتی ہیں۔ میری زندگی کی تربیت اور خیالات و اعمال
کی رہنمائی و اصلاح کا ایک بڑا حصہ حضرت اکبر الہٰ آبادی کی روحانی و معنوی قوتوں
سے ہوا ہے اور خدا نے میری طبیعت میں ایک غیبی اور ازلی مناسبت ان کے خیالات و
جذبات و احساسات سے دی ہے کہ جو ان کے دل میں پیدا ہوتا ہے، بغیر ان کے اظہار و
اعلان کے میرے دل میں خود بہ خود وہی لہر ظاہر ہوتی ہے اور میں اس کی رہنمائی میں
تقریر و تحریر کا عمل کرتا ہوں۔
’’میں ان کی ہر
باطنی نعمت کا وارث ہوں اور وہ میری اکثر ظاہری و باطنی حالتوں کے مورث ہیں۔‘‘
[آپ بیتی،ص۔98]
اسی زمانے میں خواجہ صاحب نے اکبر کا ایک شعر پڑھا جس کا
مطلب یہ تھا کہ تو چراغ کی روشنی میں راستہ چل۔ چراغ دکھانے والے کو نہ دیکھ کہ وہ
اچھا ہے یا برا کیوں کہ چراغ کے آس پاس تاریکی رہتی ہے— خواجہ صاحب لکھتے ہیں :
’’اس شعر نے
میرے مشاہدے کے رخ کو بدل دیا اور میں نے بزرگوں کی عقیدت کو ذاتیات سے ہٹا کر اس
ارشاد پرمتوجہ کر لیا ۔‘‘
[ایضاً، ص۔113]
اس محبت اور ہمدردی کی بنا پر اکبر حضرت نظام الدین اولیا
کے مزار مقدس کے اطراف میں دفن ہونا چاہتے تھے۔ ان کی یہ خواہش تو پوری نہ ہو سکی
مگر آخر وقت خواجہ صاحب کی قربت نصیب ہو گئی اور انھی کی آواز میں خلّاق دو عالم
کا نام سنتے سنتے جان، جاں آفریں کے سپرد کی۔ حالت بگڑتے ہی خواجہ صاحب کو تار
دیا گیا۔ 09 ستمبرکو گیارہ بجے وہ بھی الہٰ آباد پہنچ گئے مگر اس وقت تک زبان بند
ہو چکی تھی، نزع کا عالم تھا۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں :
’’اس وقت حضرت
کے فرزند عشرت حسین کے سوا کوئی اور احباب و اقربا میں موجود نہ تھا۔
’’حضرت گاؤ
تکیے کے سہارے لیٹے تھے۔ آنکھیں نیم باز تھیں۔ پتلیاں اوپر کو چڑھ چکی تھیں، ناک
کا بانسہ ڈھل گیا تھا، آخری پسینہ آ رہا تھا۔ پا ؤں سمیٹے ہوئے تھے۔ قریب بیٹھا
تو عشرت میاں نے کہا ’’خواجہ صاحب دلی سے آ گئے ہیں۔‘‘اس کا جواب نہ دیا۔ میں نے
ہاتھ اٹھا کر چوما اور آنکھوں سے لگایا جب بھی بظاہر ان کو خبر نہ ہوئی۔ اس کے
بعد حزب البحر آواز سے پڑھنے لگا اور جب یہ فقرہ پڑھا: نعم الرب ربی و نعم الحسب
حسبی (اچھا خدامیرا خدا اور اچھا ٹھکانہ میرا ٹھکانہ) ۔ عین اللہ ناظرۃ الینا (خدا
کی آنکھ ہماری طرف دیکھ رہی ہے) تو اسی طرف ہاتھ کر دیا اور میں نے کئی بار تکرار
کی۔ حزب البحر کے بعد میں کلمہ پڑھنے لگا
اور جب میں نے پڑھا۔ لا موجود الا اللہ تو حضرت کے ہاتھ میں رعشے کی جنبش ہوئی اور
میں نے دیکھا ہونٹوں کو بھی جنبش ہے، کچھ پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح رفتہ رفتہ سانس
ہلکی ہونے لگی اور تین بجنے میں تین منٹ باقی تھے کہ سانس ختم ہو گئی اور زندگی
پوری ہو گئی۔ انا لللہ و انا الیہ راجعون۔‘‘
[اکبر الہٰ
آبادی۔ از طالب الہٰ آبادی،ص۔469]
پتہ:
قمر جہاں
A-45, ADS
Mirza Ali Khan Compound
Husainabad, Lucknow-226003
سہ ماہی ’ فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2009
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں