5/6/20

کلامِ اکبر کا قومی کردار مضمون نگار: فضیل جعفری




کلامِ اکبر کا قومی کردار
فضیل جعفری
1857 میں انگریزوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ آزادی کے ڈیڑھ سو سالہ یادگاری جشن کے سلسلے میں اکبر الہٰ آبادی پر خود ان کے وطن میں منعقد ہونے والا یہ سیمینار ہماری رائے میں قومی اہمیت کاحامل واقعہ ہے۔ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ سید اکبر حسین اکبر الٰہ آبادی (1846-1921) جتنے بڑے شاعر ہیں اتنے ہی بڑے دانشور اور مفکر بھی ہیں۔ یہاں میرا مقصد نہ تو اس تاریخی جنگ کی نا کامی کے اسباب کی تفصیل میں جانا ہے اور نہ ہی اکبر کے سوانح حیات سے بحث کرنا ہے۔ زیادہ تر لوگ ان چیزوں سے واقف ہیں۔ جنگ آزادی کی تاریخ کے عالمِ اور طالب علم دونوں اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ 1857 کے بعد ہندوستان کا سیاسی نقشہ ہی نہیں، معاشی تہذیبی ، ثقافتی اور بڑی حد تک مذہبی نقشہ بھی بدل گیا۔ اردو شعر و ادب کی حد تک اکبر ان تبدیلیوں  کے سب سے بڑے مبصر بھی ہیں اور مفسر بھی۔ انھیں اردو میں ٹھیٹ قومی شاعری کا پیشرو بھی کہا جا سکتا ہے۔
اکبر الہٰ آبادی کی شاعری کا ابتدائی زمانہ وہ ہے جب سید احمد خاں المعروف بہ سر سید کی انگریز پرست تحریک کا آغاز ہو چکا تھا اور آل انڈیا کانگریس پارٹی وجود میں نہیں آئی تھی۔ اکبر کی شاعری اور شخصیت پر جو عمومی اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں ان سے کچھ بحث ہم آگے چل کر کریں گے۔ فی الحال عرض خدمت یہ ہے کہ بجنور کے صدر امین سید احمد خاں جو نہایت ہی قدامت پسند مذہبی آدمی تھے، جنھیں بنگالیوں کے انگریزی پڑھنے اور بابو گیری کرنے پر سخت اعتراض تھااورجو             10 مئی،1857 تک جو ادا الدولہ عارف جنگ بہادر ہوا کرتے تھے، راتوں رات ایسے بدلے کہ انھیں ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں میں ہی نہیںاسلام میں بھی کیڑے ہی کیڑے نظر آنے لگے۔ عتیق احمد صدیقی نے اپنی تحقیقی کتاب ’’سر سید –ایک سیاسی مطالعہ ‘‘ میں لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی تصنیف ’’تاریخِ سرکشیِ بجنور‘‘ (مطبوعہ 1858) ’’ میں جا بجا قومی رہنماؤں، آزادی کے جاں نثاروں‘ ضلع کے مقتدر اور با اثر حضرات اور قابل احترام شخصیتوںکو حرام زادہ، بد معاش، مفسد، بدذات ، نمک حرام اور کمبخت جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے جب کہ انگریز حکام کے لیے صاحب بہادر آقا دام اقبالہم   جیسے القاب استعمال کیے گئے ہیں‘‘ انگریز حکومت نے اگر اس قوم دشمن وفاداری کے عوض سید احمد خاں کو صدر امین بجنور کے عہدے سے ترقی دے کر صدر الصدور مراد آباد مقرر کر دیا تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
’’اسباب بغاوت ہند ‘‘ میں بھی سید صاحب اپنے آپے سے باہر نظر آتے ہیں۔ بقول ان کے :
’’جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا، ایسے خراب اور بد رویہ اور بد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خوری اور تماش بینی اور ناچ رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا۔ یہ بات (جہاد ) ان کی حرام زدگیوں میں سے ایک حرام زدگی تھی۔‘‘
واضح رہے کہ صدر الصدور مراد آباد جن جہادیوں کو منتخب ترین مغلّظات سے نواز رہے ہیں وہ موجودہ دور کر کے پیسے لے کر فتوے جاری کرنے والے مولوی صاحبان نہیں بلکہ تحریک ولی اللٰہی کے وارث اور سید احمد شہید بریلوی کے پیر و تھے۔ ان میں وہ علمائے کرام بھی شامل تھے جنھیں اپنی نو جوانی میں، اس عظیم مجاہد آزادی کے رفیق کار ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ اس سلسلے کو مزید طول نہ دیتے ہوئے ہم نہایت ہی اختصار کے ساتھ یہ عرض کر دیں کہ اگرچہ سید احمد خاں کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کے بارے میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ 1857کے ہنگاموں سے وہ اس حد تک گھبرا گئے تھے کہ انھوں نے اقوام عالم کی تاریخ پر بھی نظر ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی بصورت دیگر انھیں معلوم ہوتا کہ دنیا میں کسی بھی نظام یا طاقت کو ثبات دوام حاصل نہیں ہوتا۔
سید احمد خاں نے خود کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ انگریز ہندوستان سے واپس جانے کے لیے نہیں آئے ہیں۔چنانچہ انھوں نے ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں کو نہ صرف سیاسی بلکہ مذہبی اعتبار سے بھی انگریزوں کا وفادار اور مطیع و فرما ں بردار بنانے کی جی توڑکوششیں شروع کر دیں۔’’ تاریخ ِسر کشیِ بجنور‘‘ اور ’’اسباب بغاوت ہند ‘‘کی تصنیف کے علاوہ 1864میں ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ کا قیام اور 1866 میں انسٹی ٹیوٹ گزٹ کا اجرا سید احمد خاں کی ایسی ہی کوششوں کے عوامی مظاہر تھے۔ 1869 میں وہ تقریباً ڈیڑھ سال کے لیے انگلستان روانہ ہوئے۔ اس دوران انگریزوں نے ان کے دماغ کی صفائی (Brain Washing) بھی کی اور انھیں سی.ایس. آئی (Companion Star of India) کے خطاب سے بھی نوازا۔
ادھر ہندوستان میں جب یہ خبر پہنچی تو کچھ لوگوں نے انگریزی سے نا واقفیت کی بنا پر اور کچھ منچلوں نے ازراہِ تفنن طبع یہ افواہ اڑا دی کہ انگلستان جا کر سید احمد خاں عیسائی ہو گئے۔ اکبرالہٰ آبادی نے اپنے ایک شعر میں اس واقعے پر یوں روشنی ڈالی ہے :
فضلِ خد ا سے عزت پائی آج ہوئے ہم سی.ایس.آئی
شیخ نہ سمجھے لفظ انگریزی بولے ہوئے ہیں عیسائی
اس پر آشوب دور میں جب قوم پرستی کی اصطلاح بھی رائج نہیں ہوئی تھی اکبر نے کس کٹر قوم پرستی کا ثبوت دیتے ہوئے صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ تمام ہندوستانیوں کو مغرب کی اندھی تقلید سے دور رکھنے کی جو انتھک کوشش کی اور اتحاد باہمی کی تلقین کی وہ ہمارا بیش قیمت شعری ہی نہیں، تاریخی، تہذیبی اور قومی سرمایہ بھی ہے۔ اکبر کے قوم پرستانہ کردار کی تشکیل و تعمیر میں ان کے فطری میلان طبع کے ساتھ ساتھ جن دو اثرات نے اہم اور نمایاں کردار ادا کیا ان میں ایک سید جمال الدین اسد آباد الافغانی اور دوسرا سید محمد عبدہ کی وہ تحریک تھی جو ’’پان اسلامک تحریک ‘‘کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تحریک بنیادی طور سے ایک سیاسی اور قوم پرست تحریک تھی جس کا مقصد ایشیائی ممالک کو مغربی طاقتوں کے  چنگل سے آزاد کرانا تھا۔ یہ تحریک آگے چل کر خلافت تحریک کی شکل میں سامنے آئی جو ہندو مسلم اتحاد کا سب سے زیادہ کار گر وسیلہ ثابت ہوئی۔
جمال الدین افغانی 1857 کے خونیں دور میں ہندوستان میں ہی مقیم تھے۔ وہ یہاں 1865 تک رہے۔ افغانی 1869 میں جب دوسری بار ہندوستان کے تین سالہ دورے پر آئے اس وقت تک ایم.اے. او. کالج کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔ پروفیسر مشیر الحسن نے اپنی کتاب "Nationalim and Communal Politics in India" میں لکھا ہے کہ افغانی سر سید اور ان کی تحریک کے سب سے زیادہ سخت اور سب سے زیادہ تلخ نوا نقاد تھے۔ ان کا ایقان تھا کہ سر سید کا تعلیمی پروگرام  انگریزوں کی غلامی کو بسرو چشم قبول کر لینے والے ان کے سیاسی پروگرام کا تابع تھا۔ اکبر وہ پہلے شاعر اور مفکر ہیں جو افغانی کے خیالات سے متاثر ہوئے۔ آگے چل کر جن اصحاب ِ فکر نے ’’پان اسلامک تحریک ‘‘سے گہرے اثرات قبول کیے ان میں علامہ اقبال اور مولانا آزاد کے نام سر فہرست ہیں۔ اقبال خود اکبر سے اس حد تک متاثر تھے کہ وہ اپنے آپ کو ان کا شاگرد معنوی کہتے تھے۔ اقبال نے مختلف سطحوں پر اکبر سے بہت استفادہ کیا۔ مثال کے طور پر بقول پروفیسر مشیر الحسن ،اقبال کے یہاں ’ملّا‘ کا جو کردار ملتا ہے وہ اکبر کے ’شیخ‘ کا ہی بدلا ہوا نام ہے۔ مولانا آزاد بھی اکبر کے بڑے معترف اور مداح تھے اور اصرار کر کے ان سے ’الہلال‘ کے لیے مضامین نظم و نثر لکھواتے تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مولانا آزاد نے اپنی متعدد تحریروں اور تقریروں میں سر سید تحریک، انگریزی تعلیم اور علی گڑھ کے بارے میں بیسویں صدی میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ بجنسہ وہی تھے جنھیں اکبر الہٰ آبادی انیسویں صدی کے آخر میں ہی پیش کر چکے تھے۔
اکبر کی شخصیت اور شاعری کے قومی کردار میں افغانی کی تحریک کے علاوہ خو دالٰہ آباد کے مقامی سیاسی اور سماجی ماحول نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ 1857 کے فوراً بعد یعنی مغل حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی کشمیری پنڈتوں کے کئی ایسے اہم اور با اثر خاندان مثلاً نہرو، کٹھ، سپرو اور کنز رو وغیرہ جو انگریزوں سے زیادہ میل جول بڑھا نا نہیں چاہتے تھے ،دہلی سے نقل مکانی کر کے مستقلاً الہٰ آباد آ گئے تھے۔ پھر انڈین ہائی کورٹ ایکٹ 1861 کے تحت آگرہ کی صدر دیوانی کو ختم کر کے 1866 میں     الٰہ آباد میں ہائی کورٹ قائم کیا گیا۔ بقول ایک انگریز مؤرخ سی.اے.بیلی ہائی کورٹ کی وجہ سے   الٰہ آباد میںجو نیا کھاتا پیتا اور با شعور طبقہ پیدا ہوا وہ بنیادی طور پر انگریزوں کا وفادار نہیں بلکہ قوم پرست تھا۔ 1877 میں میور سنڑل کالج اور 1887 میں الہٰ آباد یونیورسٹی کے قیام سے مغربی تعلیم کا فروغ ہوا اور لوگ مغربی خیالات و افکار سے واقف ہونے لگے۔ ایک طرف یہ سب ہو رہا تھا اور دوسری طرف ضلع کی مختلف تحصیلوں مثلاً کراری، کڑا، چائل اور مئو آئمہ کے مسلمان زمیندار ، شہر کے بہت سے متموّل کائستھ، کھتری اور برہمن خاندان ہندوؤں کی مختلف سبھائیںاور مسلمانوں کے دائرے اپنے اپنے طور سے مذہبی، سماجی اور سیاسی اصلاحات میں تندہی کے ساتھ مصروف تھے۔ یہ سبھی تنظیمیں اور افراد مختلف راستوں سے ایک ہی منزل یعنی آزادی کی طر ف قدم بڑھا رہے تھے۔
1885 میں جب کانگریس قائم ہوئی اور آزادی کی تحریک نے دھیرے دھیرے زور پکڑنا شروع کیا تو الہٰ آباد میں موتی لال نہرو، جگت نرائن ملّا، مدن موہن مالویہ اور پنڈت الاّ رام کے ساتھ ساتھ نواب عبد المجید ، سید عبد الرؤف ، سید حیدر رضا، فیاض علی خاں، دائرہ شاہ اجمل کے سید محمد فاخر اور مشہور عالم دین مولانا عبد الکافی بھی قومی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے تھے۔ انھی دنوں بہار کے سچدا نند ، فتحپور کے ڈاکٹر رنجیت سنگھ اور گورکھپور کے ایشورن وغیرہ نے بھی الہٰ آباد میں سکونت اختیار کر لی اور وہ بھی محبّان آزادی کی صف میں شامل ہو گئے۔ ان میں سے بیشتر کے ساتھ اکبر کا ملنا جلنا اور اکثر کے ساتھ دوستانہ رشتہ تھا۔
یہی وہ ماحول تھا جس نے اکبر کی قوم پرست طبیعت کو ثیقل کر کے انھیں انگریزوں اور ملک پر ان کے غاصبانہ اقتدار کا کٹر مخالف بنا دیا۔ وہ سر سید تحریک اور مسلمانوں کے درمیان ایک آہنی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ بعض نقادوں نے اکبر کو یہ کہہ کر مطعون کیا ہے کہ وہ انگریزوں اور انگریزی کے تو مخالف تھے مگر انھیں سرکاری ملازمت سے گریز نہیں تھا۔ واضح رہے کہ اکبر کی سرکاری ملازمت کا زمانہ وہ تھا جب ہندوستان کے سیاسی افق پر نہ تو مہاتما گاندھی کا ظہور ہوا تھا اور نہ ہی قوم پرستی کے جذبے نے با قاعدہ تحریکِ آزادی کی شکل اختیار کی تھی۔ مثال کے طور پر جسٹس بدر الدین طیب جی 1887 میں کانگریس کے مدراس اجلاس کی صدارت کر نے کے باوجود اپنی موت 1906 تک ججی کے عہدے پر فائز رہے۔
اکبر کو اگر سرکاری ملازمت کا لالچ ہوتا تو وہ 1903 میں ہی قبل از وقت ریٹائرمنٹ نہ لیتے۔ وہ بڑی آسانی سے ہائی کورٹ کے جج بن سکتے تھے مگر بقول ان کے :
زمانے نے مرے آگے بھی دنیا پیش کر دی تھی
مگر میں نے تو اپنا فائدہ انکار میں دیکھا
ہم اگر اکبر کو ایک بڑا شاعر ہی نہیں مفکر بھی تسلیم کرتے ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ جس زمانے میں پوری ہندستانی قوم افراتفری کی شکار اور منزل کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی تھی، اکبر کے پاس قوم کا ایک واضح اور حقیقت پسندانہ تصور تھا۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو جس کو اکبر کے نقاد اپنی سہولت کی خاطر نظر انداز کر نے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں : 
ہے قوم جسم سلطنت اس میں ہے مثل روح
جب یہ نہیں تو قوم نہیں بلکہ لاش ہے
کیا اکبر بالکل وہی نظریہ نہیں پیش کر رہے ہیں جسے آگے چل کر گاندھی اور دوسرے قومی رہنماؤں نے ’سوراج ‘کا نام نہیں دیا یہاں ہم برسبیل تذکرہ یہ بھی لکھ دیں کہ سر سید کو جو لاش عزیز تھی، اکبر اس میں از سر نو روح پھونکنے کے آرزو مند تھے۔ اس حقیقت کو کہ اکبر الہٰ آبادی بجائے خود سر سید، علی گڑھ اور انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں تھے، اتنی بار بیان کیا جا چکا ہے کہ اب یہ کلیشے بن چکی ہے مگر کلیشے کی معنویت اب بھی بر قرار ہے۔ اکبر در اصل ان معاشرتی لعنتوں کے مخالف تھے جو انگریزوں کی اندھی تقلید اور انگریزی زبان کے توسط سے ہندوستانی سماج میں در آئی تھیں۔ اکبر کو در اصل یہ شکایت تھی کہ :
رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھّا قائم
رنگِ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے
مغربی تہذیب میں کس کو میں سمجھوں مستند
اس تماشا گاہ میں جو بھی ہے صاحبزادہ ہے
اکبر کے ان خیالات کی تشریح و توثیق ، ان کے انتقال کے برسوں بعد مولانا ابو الکلام آزاد کے اس خطبے میں مل جاتی ہے جو انھوں نے 21 دسمبر ،1947 کو پٹنہ یونیورسٹی کے کانووکیشن ہال میں دیا تھا۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’انگریزوں نے تعلیم کاجو طریقہ رائج کیا وہ ہماری زندگی اور ہماری قوم کی ضرور توں کے قطعاً منافی تھا …ہندستانیوں کی زبان ہی نہیں ان کے دماغ بھی بدل گئے۔ ان کے سوچنے کا طریقہ بدل گیا۔ ابھی بہت عرصہ نہیں گذرا جب ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ مغرب کا اندھا مقلد بن کر رہ گیا تھا۔ ہمارے نوجوانوں نے صرف زبان، لباس،اورعادات و اطوار میں (Manners) ہی میں انگریزوں کی تقلید نہیں کی بلکہ وہ اپنے صدیوں پر انے ورثے کو بھی بھول گئے۔ ‘‘
قارئین کرام اب خود یہ فیصلہ کریں کہ کیا مولانا آزاد لفظ بہ لفظ وہی بات نہیں کہہ رہے جو اکبر 1870 کے بعد سے مسلسل قوم کے کانوں تک پہنچا رہے تھے ۔ مولانا آزاد نے مغرب کی اندھی تقلید اور مغربی تہذیب کی لعنتوں کے تعلق سے جن جذبات کا اظہار کیا ہے ان کی ترجمانی اکبر نے اپنے مخصوص اور دھاردار انداز میں یوں کی ہے :
کیا کہوں اس کو میں بد بختیِ نیشن کے سوا
اس کو آتا نہیں اب کچھ امیٹیشن کے سوا
شیخ کو وجد میں لائی ہیں پیانو کی دھنیں
پیچ دستارِ فضیلت کے کھلے جاتے ہیں
اس سے قبل کہ ہم اکبر الہٰ آبادی کی قوم پرست شاعری کے بعض دوسرے پہلوؤں پر کچھ روشنی ڈالیں ،دو تین ایسے نقادوں کا ذکر ضروری ہے جن کی تنقیدی اہمیت تو مسلم ہے لیکن جنھوں نے اکبر کی شاعری کی مذمت کرنے کے عمل میں اچھی خاصی دریدہ ذہنی اور کوتاہ ذہنی کا ثبوت دیا ہے۔ صغریٰ مہدی نے اپنی کتاب ’’اکبر کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ’’اکبر کے نقادوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک عبد الماجد دریا بادی اور دوسرے آل احمد سرور‘‘۔ ساتھ ہی صغریٰ مہدی نے اکبر کے بارے میں کئی دوسرے نقادوں کی آرا بھی پیش کی ہیں جو ہمارے پیش نظر ہیں۔ جہاں تک دریا بادی کا تعلق ہے وہ نقاد کم مولانا زیادہ تھے۔ اکبر کے ساتھ ان کے گہرے ذاتی مراسم رہے تھے۔ ’’بزم اکبر‘‘ کے مصنف قمر الدین احمد کے مطابق نوجوان عبد الماجد کو الحاد کے راستے سے ہٹا کر ایمان کی طرف لانے میں بھی اکبر کا بڑا ہاتھ تھا۔ مولانا دریا بادی نے اپنی کتاب ’’اکبر نامہ ‘‘ اور متعدد مضامین میں اپنے ممدوح کی تعریف میں یوں تو دریا بہا دیے ہیں مگر ان کا مرکزی نقطۂ نظر بہرحال اسلامی اور ذاتی ہی رہتا ہے۔
آل احمد سرور کا بنیادی تھیسس یہ ہے کہ اکبر کو ہر پرانی چیز عزیز تھی اور وہ ہر نئی چیز سے نفرت کرتے تھے۔سرور صاحب کے نزدیک اکبر کی حریت پسندی، ان کے جذبۂ آزادی اور انگریزوں سے ان کی نفرت کو زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہیے؟ آخر کیوں، کیا محض اس لیے کہ آل احمد سرور ان کو اہمیت نہیں دیتے ؟ سرور صاحب نہایت ہی شائستگی کے ساتھ اکبر کی شاعری کو یکسر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ ان کے خیالات سے آپ خواہ متفق نہ ہوں مگر ان کے اشعار پڑھ کر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘‘ ہم کلام اکبر کے مطالعے سے جس نتیجے پر پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ اکبر کی شاعری کا مقصد نہ تو پروفیسر صاحبان کا ہنسانا ہے اور نہ ہی انھیں مسکرانے کا موقع عطا کرنا۔ یہ سرے سے ہی ہنسنے ہنسانے والی شاعری نہیں ہے۔ اکبر کی شاعری کا حقیقی مقصد ایک ایسی قوم کو جو محض با بو گیری کے چکر میں بے غیرتی کا لبادہ اوڑھتی جا رہی تھی، غلاظت کے دلدل سے نکالنا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ اپنے سینوں میں ان کی طنزیہ نشتروں کی کسک کو محسوس کریں اور خود کو قوم فروشی، ملت فروشی اور آخر میں ذات فروشی کی کھائی میں نہ گرنے دیں۔
سرور صاحب کے شاگرد رشید خلیل الرحمن اعظمی نے تو اکبر پر لکھتے ہوئے تنقیدی شائستگی کا بھی کچومر نکال کر رکھ دیا ہے اور اکبر پر نہایت ہی رکیک حملے کیے ہیں۔ ان کے نزدیک اکبر محض انگریزوں کے قصیدہ خواں تھے۔ اگر غلطی سے ان کے قلم سے کوئی ایسا جملہ نکل جاتا جس سے انگریز حکومت پر شہ پڑتی اور ان کی ملازمت کے خطرے میں پڑنے کا امکان پیدا ہو جاتا تو وہ فوراً آکر معافی مانگ لیتے تھے۔ اکبر کے کسی نقاد نے کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں لکھا جس سے خلیل الرحمن اعظمی کے دعوے کی تصدیق ہوتی ہو۔ الٹا قمر الدین احمد نے ایک ایسا واقعہ ضرور نقل کیا ہے جو اکبر کی بے خوفی او ر باضمیری کی روشن مثال ہے۔ بقول صاحبِ’’ بزم اکبر‘‘ ایک مقدمے میں اعلیٰ انگریز حکام چاہتے تھے کہ ملزمین کو سزا ہو جائے۔ اکبر تک یہ پیغام پہنچا بھی دیا گیا تھا مگر انھوں نے وہی کیا جو انصاف کا تقاضا تھا یعنی انگریز حکام کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملزمین کو باعزت بری کر دیا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سرور صاحب اور اعظمی صاحب جیسے پڑھے لوگ اکبر کی شاعری کو سمجھنے کے اہل نہیں تھے ؟ اہل تھے مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سر سید اور علی گڑھ پر معمولی سی تنقید کو بھی کسی مقدس چیز کی توہین (Sacripege) سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک اکبر، شاتم سر سید ہیں جن کے خلاف لکھنا ادبی ثواب دارین کی حیثیت رکھتا ہے۔
جہاں تک اکبر الہٰ آبادی کا سوال ہے انھوں نے آنکھ بند کر کے علی گڑھ پر تنقید نہیں کی۔ سر سید اور ان کے چہیتے پرنسپل تھیوڈر بیک (Theodre Beck) کے انتقال کے بعد یونیورسٹی ایک طرف مسلم لیگی سیاست کا اڈہ بن گئی (جس سے اکبر کو قطعاً کوئی دلچسپی نہیں تھی )تو دوسری طرف یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان طلبہ کا وہ گروہ بھی سامنے آیا جو سر سید کی حکمت عملیوں کا مخالف اور کٹر قوم پرست تھا۔
حسرت موہانی، علی برادران، خلیق الزماں، راجہ غلام حسین ، شعیب قریشی وغیرہ کے علاوہ ولایت علی بمبوق کا پورا گروپ جس میں رفیع احمد قدوائی بھی شامل تھے، سارے کے سارے لوگ انگریزوں کے دشمن اور قومی تحریک کے سرگرم کار کن تھے۔بقول مشیر الحسن، یہ لوگ اکبر کی شاعری سے بے حد متاثر تھے اور عام جلسوں نیز نجی محفلوں میں اکبر کے ان اشعار کو پڑھتے رہتے تھے جن میں انگریز سامراج کو بڑی بے رحمی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اکبر نے یہ قطعہ ان قوم پرست علی گرئینز کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھا ہے :
ظاہر میں اگر چہ رازِ سربستہ ہے
مضمونِ لطیف و خوب برجستہ ہے
پودا نہیں پھول کا علی گڑھ کالج
گلدان میں مسلموں کا گلدستہ ہے
واضح رہے کہ 1923 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام بجائے خود اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کے تعلق سے سر سید کا نظریہ غلط اور اکبر کا رد عمل با لکل صحیح تھا۔
اس سلسلے کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم ایک عدد جملہ معترضہ یہ بھی لکھتے چلیں کہ اکبر قوم پرستی کے معاملے میں اتنے متشد د تھے کہ جہاں انھوں نے سر سید اور علی گڑھ پر پے در پے سخت سے سخت تر حملے کیے اور جہاں انھوں نے مسلم لیگ پر یہ کہہ کر طنز کیا کہ :
ممبر لیگم مسلمانی مرا درکار نیست
جان بیمہ ہو چکا ہے حاجت غمخوار نیست
وہیں انھوں نے اپنے مداح اورشاگرد معنوی علامہ اقبال کو بھی نہیں بخشا۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں علامہ اقبال نے اپنے حب الوطنی والے دور میں وہ ’’ ترانۂ ہندی‘‘ لکھا جو آزاد ہندوستان میں قومی ترانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آگے چل کر جب اقبال کے نظریات میں تبدیلی آئی تو انھوں نے ’’ترانۂ ملّی‘‘ لکھا۔ اب اس پس منظر میں اکبر کے یہ دو شعر ملاحظہ ہوں :
کالج میں ہو چکا تھا جب امتحاں ہمارا
سیکھا زباں نے کہنا ہندوستاں ہمارا
رقبے کو کم سمجھ کر اکبر یہ بول اٹھے
ہندوستان کیسا، سارا جہاں ہمارا
یہ اور ایسے دوسرے صدہا اشعار محض اکبر کی حبّ الوطنی اور قوم پرستی کے مظہر نہیں ہیں۔ ایسی روایتی اصطلاحات اکبرکی شخصیت اور ان کی شاعری کے جملہ تلازمات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ انھیں اپنی مٹی، قدیم روایات، مشترکہ تہذیب کے مظاہر، ملک کی آب و ہوا، مذہبی رسومات، تیج تہوار، آداب و اطوار سبھی چیزوں سے محبت اور انسیت تھی۔
انھیں اس بات کی بڑی فکر تھی کہ ان کے ہم وطن انگریزوں کی تقلید میں خود انگریز بن جانے کی کوشش کرنے کے بجائے ان راستوں پر چلیں جن پر گامزن ہو کر اقوام عالم نے ترقی کی منزلیں سر کی  ہیں۔ اکبر نے اپنی شاعری میں مزاح سے بھی کام لیا ہے اور طنز سے بھی لیکن وہ عام معنی میں یعنی سید محمد جعفری، سید ضمیر جعفری، فرقت کا کوروی اور دلاور فگار جیسے مزاحیہ اور طنزیہ شاعر نہیں ہیں۔ وہ سماج کے نقاد اور نظریہ ساز ہیں ۔ انھوں نے طنز و مزاح کا استعمال قومی شعور کو کچو کے لگانے، اسے بیدار کرنے اور مضبوط بنانے کے لیے کیا ہے۔
اگر ہمارے بیشتر نقاد سطح سے نیچے اتر کر کلام اکبر کی تہداری تک نہیں پہنچ سکے تو اس کے لیے  ’’لسان العصر‘‘ کو قصور وار ٹھہرانا نا مناسب ہے۔ اگر سرور صاحب کو اکبر کی شاعری میں صرف مجہول رومانیت دکھائی دیتی ہے یا اگر پروفیسر احتشام حسین یہ سمجھتے ہیں کہ ’’اکبر نے مغربی علوم اور سائنس کی مخالفت کر کے ہندوستان پر معاشی ترقی اور نئے سیاسی شعور کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی تو اسے اردو تنقید کی بد قسمتی اور متعلقہ نقادوں کے حسنِ ظن کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔
کلیم الدین احمد جو سرور صاحب اور احتشام صاحب وغیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی تنقیدی توپ ہیں ، کلام اکبر کے معرو ضی اور قطعاً غیر جانب دار مطالعے کے بعد بجا طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں :
’’ وہ ترقی کے خلاف نہیں تھے، ترقی کی طرف قدم اٹھے اور ضرور اٹھے لیکن ذرا سوچ سمجھ کر ۔نئی چیزیں اچھی ہیں، پرانی چیزیں بری ہیں یہ نقطۂ نظر عام ہو چلا تھا۔ وہ (اکبر) اس بے عقلی کے مخالف تھے۔‘‘
[اردو شاعری پر ایک نظر، بحوالہ صغریٰ مہدی و اکبر کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ]
احتشام صاحب نے اکبر پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ان کی مغرب دشمنی کا واحد مقصدمشرق بمعنی اسلام کی برتری کو ثابت کرنا ہے۔ اکبر کی اسلام پسندی کے سلسلے میں دورائے نہیں ہو سکتی۔ اس کے سماجی اور عصری پس منظر پر ہم آگے چل کر کچھ روشنی ڈالیں گے۔ اکبر عظیم شاعر ہونے کے باوجود یقینا اقبال کے مرتبے کے شاعر نہیں ہیں لیکن مذہب کے سلسلے میں ان کے یہاں وہی وسیع النظری ملتی ہے جو غالب کے یہاں ملتی ہے۔ وہ’’ جدا ہو دیں سیاست سے تورہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ والے نظریے کے قائل نہیں تھے ان کا مسلک تو یہ تھا کہ :
اگر مذہب خلل انداز ہو ملکی مقاصد میں
تو شیخ و برہمن پنہاں رہیں دیرو مساجد میں
کیا یہ شعر اس حقیقت کا واضح ثبوت نہیں ہے کہ اکبر نے مذہب کو قوم پر ترجیح نہیں دی۔ وہ مادی اور سائنسی ترقیوں کے بھی مخالف نہیں ہیں۔ اپنی ایک نظم میں ملک کے نوجوانوں کو صاف لفظوں میں تلقین کرتے ہیں کہ :
وہ باتیں جن سے قومیں ہو رہی ہیں نامور، سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو
بڑھاؤ تجربے، اطرافِ دنیا میں سفر سیکھو
خواصِ خشک و تر سیکھو، علومِ بحر و بر سیکھو
کیا ان اشعار کے خالق پر کسی بھی طرح روایت پسند، رجعت پسند اور ماضی پرست ہونے یا پھر سائنس اور ارتقا سے خوفزدہ ہونے کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نہیں ! اکبر دیکھ رہے تھے کہ صنعتی انقلاب کے بعد اور اس کے نتیجے میں مغربی اقوام تو غیر معمولی ترقی کر رہی ہیں جب کہ اکابرین بغیر سرکاری ملازمتوں کے توسط سے پوری قوم کو انگریزوں کا ذہنی غلام بنانے کی ہر ممکن تدبیر کر رہے ہیں۔ اکبر مندرجۂ بالا بند میں نوجوان طبقے کو ایک طرف اگر نئی نئی صنعتوں سے بہرہ ور ہونے اور ان سے عملی استفادہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں تو دوسری طرف علم کیمیا (Chemistry) پر بھی دسترس حاصل کرنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ خواص خشک و تر اور ’علوم بحر وبر ‘ کے لغوی معنی وہی ہو سکتے ہیں جو ہم نے بیان کیے ہیں۔ اکبر جانتے تھے کہ عربوں کے دور عروج میں یہ علوم مشرق کی ہی دریافت اور ایجاد ہوا کرتے تھے۔ دھیرے دھیرے انھیں پہلے یونان اور پھر یورپ نے اپنی ملکیت بنا لیا۔ اس حد تک کہ یورپ نے ابن سینا اور دوسرے مشرقی سائنس دانوں کے نام بھی تبدیل کر دیے ۔آگے بڑھنے سے پہلے اکبر کا ایک اور شعر ملاحظہ ہو :
تکمیل میں ان علوم کے ہو مصروف
نیچر کی جو طاقتوں کو کر دیں مکشوف
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اکبر کی آنکھیں دور بیں ہی نہیں ’’صدی بیں ‘‘ بھی تھیں۔ انھوں نے فطرت کے جن راز ہائے سر بستہ سے پردہ اٹھانے کی تلقین انیسویں صدی میں کی تھی ان کی تشریح و تعبیر بیسویں صدی کا طرّہ ٔ امتیاز بن گئی۔ اکبر بلاشبہ اسلام پسند تھے۔ انھوں نے جا بجا مسلمانوں کو اپنے مذہب پر قائم رہنے کی ہدایت کی ہے لیکن ان کا مقصد مذہب کی تبلیغ نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے درجنوں اشعار میں مذہب کا استعمال بھی قوم کے سیاسی شعور کو بیزار اور اسے صحیح سمت عطا کرنے کے لیے کیا ہے۔
جب ہم اس زمانے کے بہت سے کانگریسی لیڈروں اور سماجی مصلحین کے اعمال و افکار کے پس منظر میں کلام اکبر کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری نظروں میں اس کی قدر و قیمت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں ، دوسری جنگ آزادی کے دوران یعنی 1858 اور 1947 کے درمیانی عرصے میں فرقہ وارانہ یکجہتی، قوم پرستی کے تصور میں ریڑھ کی ہڈی والی حیثیت رکھتی تھی۔ کانگریس نے 1888 میں اپنے الٰہ آباد اجلاس کے وقت طے کیا تھا کہ پارٹی نہ تو کوئی ایسا کام کرے گی اور نہ ہی کوئی ایسا بیان دے گی جس کا تعلق صرف ہندوؤں یا صرف مسلمانوں سے ہو اور جس سے ہندو مسلم اتحاد میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہو۔
بہت سے محب وطن کانگریسی لیڈر اس پالیسی پر عمل نہیں کر سکے اور مذہبی احیا پسندی کا شکار ہو گئے۔ لوک مانیہ بال گنگا دھر تلک اور لالہ لاجپت رائے وغیرہ کا کہنا تھا کہ ہندو مذہب ، تہواروں اور اساطیر کے ذریعے ہی ہندو اکثریت کو انگریزوں کے خلاف متحد کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ تلک نے ہندوؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے مہاراشٹرا میں گنپتی کا تہوار شروع کیا۔ لاجپت رائے نے پنجاب ہندو سبھا نامی تنظیم قائم کی۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی تصورات ایک دوسرے سے اس حد تک مختلف ہیں کہ مستقبل قریب میں ان کے درمیان اتحاد پیدا کر سکنا نا ممکنات میں سے ہے۔
مدن موہن مالویہ آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے لیڈر ہونے کے علاوہ پر یاگ ہندو سماج کے بھی بانی تھے۔ الٰہ آباد کے ہی رام چرن داس نے جو کانگریس کی کئی کمیٹیوں کے رکن تھے ہندو مہا سبھا اور گئو رکشک سمیتی کی بھی کمان سنبھال لی تھی۔ پنجاب کے سارے گئو رکشک کانگریسی تھے۔دل میں سر فروشی کی تمنا رکھنے اور برطانوی سامراج کے زور بازو کو چیلنج کرنے والے مشہور مجاہد آزادی رام پرشاد بسمل ’’شدھی سبھا ‘‘کے روح رواں تھے۔ دوسری طرف سر سید انگریزوں کے تخت و تاج کے سب سے بڑے مسلم محافظ بن کر ابھرے۔ انھوں نے نہ صرف کانگریس کو گالیاں دیں بلکہ مسلمانوں کو تحریک آزادی سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
اکبر الٰہ آبادی اسی ماحول اور اسی سماج میں سانس لے رہے تھے مگر انھوں نے تمام اشتعال انگیزیوں کے باوجود اپنے پائے ثبات کو اکھڑنے نہیں دیا۔ ان کے مذہبی خیالات قوم پرستی اور فرقہ وارانہ اتحاد کے راستے کا پتھر نہیں بن سکے۔ وہ بجا طور سے برطانوی سامراج کو ہی ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا سب سے بڑا اور مشترکہ دشمن سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ انگریز سیدھے سیدھے تقسیم کر و اور حکومت کرو، والی پالیسی پر عمل کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ 1857 سے پہلے ملک میں ہندو مسلم فسادات کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ یہ سلسلہ انگریزوں کے تسلط کے بعد اور ان کی ایما پر شروع ہوا اور جو بد قسمتی سے آج بھی جاری ہے۔ اکبر سیاست داں نہیں تھے کہ وہ گھوم گھوم کر ہندو مسلم اتحاد کے موضوع پر تقریر یں کرتے مگر وہ اپنے قلم کے ذریعے باہمی اتحاد پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کرتے رہے۔ اگرچہ کہ انھیں احساس تھا کہ اتحاد باہمی اس ملک میں آساں نہیں۔ کوئی سر سید ہے کوئی با بو آشو توش ہے لیکن اکبر نے بھی مہاتماگاندھی اور مولانا آزاد کی طرح شکست تسلیم نہیں کی اور قوم کو مسلسل یکجہتی اور ہم آہنگی کی راہ دکھاتے رہے۔ کچھ ٹھوس مثالیں پیش خدمت ہیں :
کہتا ہوں میں ہندو مسلماں سے یہی
اپنی اپنی روش یہ تم نیک رہو
لاٹھی ہے ہوائے دہر پانی بن جاؤ
موجوں کی طرح لڑو مگر ایک رہو
اختلاف باہمی سے چاہیے قطع نظر
 ورنہ دخل غیر سے ہر گز نہ پاؤگے مفر
 مل کے باہم کیجیے اغیار سے بحث وجدال
بے نتیجہ باہمی تکرار رہنے دیجیے
یہاں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے اس بیان سے اختلاف کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے جس میں اکبر پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ الگ قومیں سمجھتے تھے، فی بطن شاعر جو کچھ بھی تھا اس کا اندازہ لگانے اور اکبر کے نظریے کو سمجھنے کے لیے ان کا یہ قطعہ کافی ہے :
ہندو و مسلم ایک ہیں دونوں
یعنی دونوں ہی ایشیائی ہیں
ہم وطن، ہم زبان و ہم قسمت
کیوں نہ کہہ دوں کہ بھائی بھائی ہیں
اکبر کی شاعری میں خواہ آل احمد سرور کو’’ مجہول رومانیت‘‘ نظر آتی ہو اور احتشام حسین ان کے تصور انقلاب کو ایک زوال پذیر صوفی کا تصور سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ کلام اکبر میں جا بجا ایسے واضح اشارے مل جاتے ہیں جن میں اجتماعی ترقی کے علاوہ سماجی اور معاشی مساوات پر زور دیا گیا ہے اور جو آزاد ہندستان کے سوشلسٹ جمہوری ڈھانچے کے عین مطابق ہیں :
عہدے جو سو پچاس کو اچھے ملے تو کیا
قائم نہ ہوگی قوم کبھی سو پچاس سے
لاکھوں کو مٹا کر جو ہزاروں کو ابھارے
اس کو تو میں دنیا کی ترقی نہ کہوں گا
دوسرا شعر تو اکبر کی شاعری کو پیغمبری کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے۔ اکبر الہٰ آبادی علامہ اقبال کے لفظوں میں ’’نیست پیغمبرو لیکن در بغل دارد کتاب ‘‘ والے کارل مارکس کے جو نئر ہم عصر تھے۔ انھوں نے مارکسزم کا مطالعہ نہیں کیا تھا لیکن زیر تبصرہ شعر میں انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں بالکل وہی کہا ہے جو ان سے بہت پہلے مارکس اپنی کتاب ’’"The German Ideology  میں لکھ چکا تھا۔ مارکس کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا مقصد پوری دنیا کو ایک واحد بازار (United Market) میں تبدیل کر دینا ہے۔ گلوبلائزیشن ، اسی سرمایہ دارنہ نظام کا دوسرا اور نیا نام ہے۔
گلو بلائزیشن کے موجودہ دور میں یعنی 1991 سے اب تک 100 کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے ہندستان میں 83 ہزار افراد یا خاندان تو ایسے ہیں جو ارب پتی اور کھرب پتی بن چکے ہیں جب کہ 70 کروڑ افراد آج بھی خط ِ غربت سے نیچے کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ایسے حالات میں یو.پی. اے. حکومت کا یہ دعویٰ کہ ملک کی معاشی ترقی کا گراف (G.D.P.Growth)  9 اور 10  فی صد تک پہنچ گیا ہے، کروڑوں عام شہریوں کے نزدیک محض ایک بے معنی اصطلاح ہے۔ اکبر کے یہاں ایک نہیں ایسے سیکڑوں اشعار مل جاتے ہیں جو عصری معنویت سے مملو ہیں۔ بڑے شاعر کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کی عصریت ہر دور میں زندہ رہتی ہے۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ اکبر کے بہت سے اشعار مثلاً:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
کو تو ہر روز سیکڑوں بار دہرایا جاتا ہے جب کہ جوش ملیح آبادی جیسے شاعروں کا ایک مصرعہ بھی کسی کو یاد نہیں آتا۔ اسی طرح آج کی دنیا میں میڈیا کی طاقت کا بجا طور سے بڑا شہرہ ہے۔ میڈیا کی آواز پر حکومتیں اپنے فیصلے بدلنے اور عدالتیں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کر نے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اکبر نے  اس صورت حال کو انیسویں صدی میں ہی بھانپ لیا تھا۔ ان کا مشہور شعر ہے :
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
ایک سچے اور کھرے قوم پرست شاعر کی حیثیت سے اکبر کی دور بینی اور گہری بصیرت ہر لحاظ سے قابل داد ہے۔ انھیں اس حقیقت کا بخوبی علم تھا کہ کوئی بھی قوم محض سرکاری ملازمت کے سہارے دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی۔ وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ کس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے راستے سے ہندوستان میں داخل ہوئی اور پھر پورے ملک پر قابض ہو گئی۔ اسی لیے اکبر نے جہاں بے شمار شعر سرکاری ملازمت کی مخالفت میں کہے اور اس کا مذاق اڑایا وہیں تجارت اور صنعت و حرفت کی پر زور وکالت بھی کی :
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر خوشی سے پھول جا
زوال قوم کی تو ابتدا وہی تھی کہ جب
تجارت آپ نے کی ترک نوکری کر لی
کچھ صنعت و حرفت پہ بھی لازم ہے توجہ
آخر یہ گورنمنٹ سے تنخواہ کہاں تک
انجینئری نہ آئے تو ایجاد کیا کریں
قائم عروجِ قوم کی بنیاد کیا کریں!
بعض متعصب اور بد دیانت قسم کے نقادوں نے اکبر پر دیگر الزامات کے علاوہ یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ تحریک آزادی کے حامی نہیں تھے۔ اس بے سرو پا الزام کی صد اقت یا عدم صداقت کو پرکھنے کے لیے ’’کلیات اکبر‘‘ کے علاوہ ’’گاندھی نامہ‘ کا مطالعہ بھی ضروری ہے جو ان کی موت کے برسوں بعد 1946 میں ان کے پوتے محمد مسلم رضوی کی کوششوں سے شائع ہوا۔’’ گاندھی نامہ ‘‘میں اکبر نے یقینا گاندھی جی کی بعض پالیسیوں سے اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں اختلاف رائے کا اظہار کیا ہے مگر مہاتما کی ہر بات سے اتفاق کرنا کبھی بھی حب الوطنی اور قوم پرستی کی شرط نہیں رہی۔ اکبر کا یہ شعر ان کی قوم پرستی کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی کا بھی ثبوت ہے :
مدخولۂ گورنمنٹ اکبر اگر نہ ہوتا
اس کا بھی نام ہوتا گاندھی کی گوپیوں میں
لفظ ’’گوپیوں‘‘ کا استعمال کر کے اکبر نے مہاتما کو سری کرشن کے مماثل ٹھہرا دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اکبر کے نزدیک گاندھی جی حق و انصاف کی لڑائی میں وہی کردار ادا کر رہے تھے جس کا بہترین اور مکمل ترین نمونہ سری کرشن کے حوالے سے مہا بھارت میں نظرآتا ہے۔ اکبر الہٰ آبادی کو یہ کہہ کر بھی مطعون کیا جاتا ہے کہ انھوں نے گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون سے متاثر ہو کر بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح خان بہادری کا خطاب واپس نہیں کیا۔ بات سچ ہے مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ گاندھی جی نے اس تحریک کا اعلان مئی 1921 میں میرٹھ خلافت کانفرنس میں کیا۔ تین ماہ بعد ہی اکبر کا انتقال ہو گیا۔ اکبر نے اپنے متعدد اشعار اور خطوط میں اس بات پر تاسف کااظہار کیا ہے کہ وہ بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے جنگ آزادی میں عملی طور سے حصہ نہیں لے سکے لیکن انھوں نے قوم کے نوجوانوں اور نونہالوں کو گاندھی جی کی پیروی اور تقلید کرنے کی تلقین کی ہے۔
جن نقادوں کو اکبر الٰہ آبادی کی شاعری کا محاسبہ کرنے سے زیادہ ان کی شخصیت میں کیڑے نکالنے کا شوق ہے۔ وہ ان کے اس خط کا حوالہ دینا نہیں بھولتے جو انھوں نے قمر الدین احمد کے نام (غالباً) لکھا تھا اور جس میں کہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سید عشرت حسین کی ملازمت کے خوف سے جنگ آزادی کے میدان میں کھل کر کودنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر ہم اکبر کا دفاع کرنے کے بجائے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ذاتی زندگی میں ایسی چھوٹی موٹی لغزشیں (Abberations) تو بڑے بڑے شاعروں کے یہاں بھی مل جاتی ہیں خواہ وہ مرزا غالب اور علامہ اقبال ہی کیوں نہ ہوں۔ غالب کے شخصی تضادات ان کی شاعرانہ عظمت کو کم نہیں کرتے۔اسی طرح علامہ اقبال نے مغربی تہذیب سے نفرت کرنے کے باوجود اپنے بیٹے کو انگلستان بھیج کر تعلیم دلوائی تو اس سے ان کی شاعری کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
آخر میں ہم اتنا اور عرض کر دیں کہ اکبر کی شاعری بظاہر تو بڑی آسان اور سادہ معلوم ہوتی ہے۔ مگر ان کا شعری عمل (Process) خاصا پیچیدہ اور بہت تہدار ہے۔ وہ مشرق کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے علم بردار مزید یہ کہ وہ اردو کے دوسرے بڑے پرو لتاری شاعر ہیں۔ انھوں نے نہ صر ف زندگی کی بنیادی صد اقتوںکو پیش کیا ہے بلکہ سماج کے کمزور ترین طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھی احترام کے ساتھ نظر ڈالی ہے۔ اس تعلق سے ان کا موازنہ صرف نظیر اکبر آبادی سے کیا جا سکتا ہے۔ ان کے یہاں جا بجا ایسی آفاقی صداقتیں بکھری ہوئی ہیں جو اکبر الٰہ آبادی کو ہر دور میں زندہ     ر کھیں گی۔ ہاں انھیں سمجھنے اور پرکھنے کے زاویے بدلتے رہیں گے۔ اکبر نے زبان و بیان کے جو تجربے کیے ہیں ان پر بھی سنجیدگی اور غور کے ساتھ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔


پتہ:
فضیل جعفری
60/2,C-Dheeraj Upwan
Opp.Siddharth Nagar, Boriwali
Mumbai (East)-400066

سہ ماہی ’ فکر و تحقیق، جنوری تا مارچ 2009

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں