27/9/21

ماحولیاتی تحفظ اور ادب اطفال - مضمون نگار: زاہد ندیم احسن

 



 ماحول اپنے آپ میں ایک مکمل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے جس میں نامیاتی اور غیر نامیاتی اجزا تشکیل پاتے ہیں۔ یہی وہ خصوصیت ہے جو ماحولیاتی نظام قائم کرنے میں معاون ہے۔ ماحولیات یا ما حولیاتی نظام کرہ ارض کے کسی بھی حصے میں پائے جانے والے نامیہ اور غیر نامیہ عناصر کے باہمی تعلقات کے مجموعے کو کہتے ہیں۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماحول ایک حیاتیاتی نظام ہے۔

 ماحول ان سبھی جسمانی،کیمیائی اور حیاتیاتی عناصر کامستحکم ڈھانچاہے،جو کسی بھی ذی روح،ماحول اور زندگی میں پیش آنے والی سبھی چیزوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہماری زندگی کو متاثر کرنے والی تمام نامیاتی اور غیر نامیاتی اشیا اور ان کے افعال و اعمال سے وقوع پزیر ہونے والے حادثات و واقعات کے مجموعے کو ماحول کہتے ہیں۔ اس سے تمام جاندار متاثر بھی ہوتے ہیں اور اپنے عمل سے اس کو متاثر بھی کرتے رہتے ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ ما حولیات میں مذکورہ تمام عناصرشامل ہیں جن کے اثرات بالواسطہ یابلا واسطہ طور پر حیات ا نسانی پر پڑ تے ہیں۔بہ ایں طور مفید اورمضر دونوں صورتوں میں اثر انداز ہوتے ہیں۔

 فی زمانہ اس بات کی ضرورت اور اہمیت دو چند ہو جاتی ہے کہ علم ما حولیات سے متعلق تمام چیزوں کی معلومات کے ساتھ ان کے تمام عوامل کی تعلیم پر بھی زور دیا جائے، تاکہ ان مسائل کی تدبیر کی جا سکے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس جدید معاشرے کو ماحولیات کے در پیش مسائل سے آگاہ کیا جا ئے۔ چونکہ آج کے اس مشینی دور میں پوری دنیا اس انجام کو پہنچ چکی ہے جس میں فضائی آلودگی اور زمینی آلودگی ہمارے لیے نہ صرف ایک مسئلہ ہے بلکہ ایک چیلینج ہے اورپوری دنیا خطرناک مسائل سے دو چار ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ماحول سے جڑے تمام مسائل پر سنجیدگی سے غور خوض کیا جائے اورنسل انسانی کے تحفظ کی کیا تدبیر ممکن ہو سکتی ہے اس کو عام کیا جائے،تاکہ اس  کے برے اور ہولناک انجام سے عوام واقف ہو سکیں۔

اب ایک نظر ان مسائل پر بھی ڈال لیں جو مسائل، ماحول اور ہمیں در پیش ہیں اور کس طرح سے زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آلودگی : زراعت،تجارتی اور رہائشی تپش،صنعتیں،حمل ونقل، زمینی اور فضائی آلودگی میں اہم رول ادا کرتی ہیں، فضامیں، کاربن مونو آکسائڈ، سلفر ڈائی آکسائڈ،کلورو فلورو کاربن، اور موٹر گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے نائیٹروجن آکسائڈ سے فضا ئی آلودگی پیدا ہوتی ہے جوسانس کے ساتھ پھپڑے میں پہنچ کر طرح طرح کی بیماری پیدا کرتی ہے۔ آلودگی کی وجہ سے بہت سے جاندارکی قسمیں ختم ہورہی ہیں یا ختم ہونے کے دہانے پرہیں۔ صوتی آلودگی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے کچھ آوازیں جو نا گوار ہوتی ہیں جس سے نقصان پہنچتا ہے اور سننے والے پر ان کے برے اثرات پڑتے ہیں صوتی آلودگی کے زمرے میں آتی ہیں صوتی آلودگی سے سماعت پر اثر پڑتا ہے، کان کا درد،چڑ چڑا پن جیسی حالت ہوتی ہے اور اگر یہ بہت دنوں تک رہ جائے تو بلڈ پریشر ہو جائے گا۔ صوتی آلودگی کے ذرائع سڑک پر چلنے والی گاڑیوں سے نکلنے والی آوازیں ہوائی جہاز اور جیٹ کی آواز نئے شہروں کی پلاننگ کاروباری علاقوں میں نا قابل برداشت آواز صنعتی شور ہیں۔ اس کا تدارک یہ ہے کہ گاڑیوں کی رفتار کم کی جائے ہارن کے استعمال پر پابندی کی جائے۔ رہائشی علاقوں اوربھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں بڑی بڑی گاڑیوں کا جانا ختم کیا جائے۔

یہ درست ہے کہ تعلیم کے ذریعے سے ماحول کی معلومات سماجی زندگی کے فروغ کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کا بنیادی مقصد انسانوں کے اندر،جسمانی، ذہنی، سماجی، تہذیبی، اور روحانی پختگی لانا ہے۔ اس طرح کے تعلیمی نظریات کو استحکام بخشنے کے لیے  فطرت کے ذریعے بنائے گئے اس ما حولیاتی نظام کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔ما حول کا علم حاصل کرنا ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی روایت کا اہم حصہ ہے اور اس کی روایت ابتدا سے ہی رہی ہے۔ طبیعیاتی اور معاشیاتی دور میں حالات کچھ الگ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں سائنس اور تکنیک کے مختلف شعبوں میں نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ تو دوسری طرفHuman Environment) انسانی ماحول بھی بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے۔ نئی نسل کو ماحولیات میں ہونے والی تبدیلی اور بگاڑ کا شعور تعلیم کے ذریعے سے پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ ماحولیات اور تعلیم کے مابین جو رشتہ ہے اس کو جان کر بھی انسان اپنے اندر بیداری  لاسکتا ہے۔ طالب علموں کو ماحول اور ماحولیات کی تعلیم عام فہم اور آسان زبان میں دینا چاہیے ابتدا میں یہ تعلیم بالکل سطحی اور تعارفی انداز سے دینا چاہیے۔ آگے چل کر اس کے تکنیکی پہلوئوں پر غور کرنا چاہیے۔ تعلیمی سطح پر ما حولیات کی معلومات انسانی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔

UNESCOنے ماحولیاتی تعلیم اور اس کے مقاصد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے یہ بات کہی ہے:

’’ماحولیاتی تعلیم ایک ایسا لائحہ عمل ہے جس سے طلبا مختلف مسائل کو اور اہم قدروں کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے وہ اپنے اندر ایسی صفات کو فروغ دیں گے جس سے وہ یہ سمجھ سکیں کہ انسان کا اپنے ماحول اپنی ثقافت اور آس پاس کی چیز سے گہرا تعلق ہے۔یہ ایسی تعلیم ہے جو ان کے رویے اورطرز عمل میں ماحولیاتی اہمیت کا احساس اجاگر کرے۔‘‘

 مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں دیکھا جائے اور ان پر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ماحولیات کی تعلیم زیادہ کار آمد اسکول کی وجہ سے ہے اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جب نئی نسل کو اس کی تعلیم سے بہرور کیا جائے گا اور اس کی اہمیت کو زندگی کے افادی پہلوئوں سے مربوط کیا جائے گا تو ہمارے بچے نہ صرف اس کی اہمیت اور افادیت کو محسوس کریں گے بلکہ اسے اپنی زندگی میں اتار کر حیات کے ہر موڑ پر مقدم رکھیں گے۔

 چونکہ بچے کسی بھی قوم کے معمار اور خشت اول ہوتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ ما حولیات کی تعلیم اسکولی سطح سے ہی دی جائے کیونکہ  اس کی تعلیم ابتدا ہی سے دی جائے گی تو ایک عمر تک پہنچ کے پختہ ہو جائیں گے جس کا ایک بہتر نتیجہ سامنے آئے گا۔ نفسیات کی نظر سے یہ درست ہے کہ کسی بھی چیز کو سکھانے کے لیے  اس میں دلچسپی پیدا کی جائے خاص طور سے اگر بچوں کو کچھ سکھانا ہے یا کسی کام کے لیے عمل پیرا کرناہے تو اس کے لیے Subject Stimulus,Motivation اور Drive  ان چار چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے کہانیاں مذکورہ تمام چیزوں کے لیے بہتر ہے۔ اسی کے پیش نظر بہت سے لوگوںنے ایسی کہانیاں لکھی ہیںجس میں ماحولیاتی قدروں کی افادیت اور اہمیت پر زور ملتا ہے۔

اس حوالے سے میرے پیش نظر بچوں کے لیے لکھی گئیں کچھ کہانیاں ہیں جو ما حولیات اور اس کے مسائل سے سروکار رکھتی ہیں:

 بھنورا، سیدہ فرحت کی کہانی ہے اس کہانی میں ماحول میں پائی جانے والی فطری چیزوںمیں چھیڑ چھاڑ سے کیا نتیجہ نکلتا ہے ان باتوں کو کہانی کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کا سیاق یہ ہے کہ چھوٹی بچی جس کا نام کنول ہے  پانی میں کھیلنے کی وجہ سے اسے سردی ہوگئی ہے وہ گھر میں لیٹی لیٹی اکتاہٹ محسوس کرتی ہے تو اپنے گھر کے باغ میں چلی جاتی ہے۔ وہاں وہ پھول پر منڈراتے ہوئے  بھنورے کو دیکھتی ہے۔ وہیں اسے نیند آجاتی ہے۔ پھر خواب میں وہی بھنورا آتا ہے اور اسے کہانی سناتا ہے۔خواب کے ذریعے سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔

’’ہاں سنو! بھنورے نے جواب دیا۔ میں ایک دیس کا راجہ تھا۔ یہاں سے بہت دور دیس کا۔ مجھے سونے  چاندی ہیرے موتی سے بڑا پیار تھا۔ میرا محل سونے کا تھا۔ اس میں چاندی کے دروازے تھے میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتاپیتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے باغ میں ٹہلتے ہوئے سوچا۔یہ پھول، پتے،ہری ہری گھاس سب کچھ سوکھ کر کوڑے کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اور ہاں مجھے چڑیوں کی چو ںچوں،کبوتروں کی غٹر غوں کا شور بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ بس  میں نے ایک دم سے حکم دیا۔یہ سارے باغ اجاڑ دیے جائیں۔ پھول پتے نوچ کر پھینک دیے جائیں۔چڑیوں کو مار دیا جائے۔ باغ میں سونے چاندی کے پھولوں  کے پودے لگائے جائیں ان میں سونے چاندی کی گھنٹیاں باندھی جائیں۔‘‘

’’بس میرا حکم ہونے کی دیر تھی تمام باغ  اجڑ گئے۔ چڑیاں مر گئیںتتلیاں بھاگ گئیں اور جگہ جگہ سونے چاندی کی گھنٹیاں لگادی گئیں۔مگر اس کے بعد کیا ہوا یہ مت پوچھو! کیا ہوا کنول نے حیرت سے پوچھا۔‘‘

  یہ کہانی  چونکہ بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے لکھی گئی ہے اس لیے  اس کی بنت میں کہانی کے تمام خصائل موجود ہیں اور ساتھ میں پیغام بھی موجود ہے کہ اپنے آس پاس کے ہرے بھرے ماحول کو ختم کرنے سے کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں اس کہانی میں کہانی نویس نے یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ اگر ہم اپنے آس پاس موجود ہرے بھرے باغ کو نقصان پہنچا دیں تو ماحول آلودہ ہو جائے گا اورآس پاس کے رہنے والے تمام جاندار پر مہلک اور مضر اثرات مرتب ہوںگے۔

کان کی خراش، فرحت قمر کی کہانی ہے اس میں انھوں نے صوتی آلودگی سے سماج میں کیا نقصان پہنچ سکتے ہیں اس کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ کہانی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ رضوانہ اور خالد کے ابو امی شادی میں گئے ہوئے ہیں گھر اکیلا ہے،یہ دونوں بھائی بہن اپنے گھر میں اور دوستوں کو بلا لیتے ہیں سبھی دوست مل کر ہنگامہ شروع کرتے ہیں تیز تیز آواز نکالتے ہیںوہیںپڑوس میں رہنے والے رضوی صاحب کی طبیعت خراب ہے،انھیں ان کی آواز ناگوار گزرتی ہے،وہ اپنے کمرے سے نکل کر بچوں کے پاس آتے ہیں اور ان کو شور کے نقصانات بڑے ہی پیار سے سمجھاتے ہیں۔ اقتباس دیکھیں:

 ’’جی ہاں‘‘ رضوی صاحب نے فوراً کہا۔ جب کوئی خواہ مخواہ شور کرتا ہے تو اسی طرح پڑوسیوں کو بھی برا لگتا ہے۔ اصل میں لوگ زیادہ تر آوازیں خواہ مخواہ ہی پیدا کرتے ہیں۔ زور زور سے بولتے ہیں زور زور سے ریڈیو اور ٹی وی چلاتے ہیں لائوڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں اور خواہ مخوہ  چلاتے ہیں۔ اسی خواہ مخواہ کی آوازیں تو شور ہیں اور ہماری صحت پر برا اثر ڈالتی ہیں‘‘

 تو سنو‘‘ جس طرح سے گرمی کو تھرما میٹر کی ڈگر ی کی اکائی سے ناپا جاتا ہے یا فاصلوں کو میٹر  اور کیلو میٹر سے اسی طرح شور کو ڈسی بل کی اکائی سے ناپا جاتا ہے۔ اب جیسے سڑک کے ٹریفک سے 90 ڈیسی بل شور پیدا ہوتا ہے، بڑے پریس میں یہ شور 100 ڈیسی بل ہو جاتا ہے اور جب کوئی جیٹ جہاز اڑان بھرتا ہے تو 120 ڈیسی بل شور پیدا کرتا ہے انسان کے کان 140 ڈیسی بل تک شور برداشت کر سکتے ہیں۔ اگر شور اس سے زیادہ بڑھ جائے تو آدمی کے کان پھٹ سکتے ہیں۔ اسی لیے بے کار کی پر شور باتوں کوسمع خراشی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کان کی خراش۔‘‘

   مذکورہ بالااقتباس میں کہانی کار نے بے حد عمدگی سے بچوں کو زیادہ شور اور ہنگامے کے نقصانات سے با خبر کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس طرح کا ماحول نہیں پیدا کرنا چاہیے جو پاس پڑوس کے لوگوں کو ناگوار خاطر گزرے اور جس کی وجہ سے دل آزاری ہو کیوں کہ یہ چیزیں بھی ہمارے ماحول کو مکدر کرتی ہیں۔

 ’’مچھلی بنا  ننھیالا۔نہیں نہیں‘‘سریکھا پانند یکرکی کہانی  ہے اس کہانی میںپانی کی آلودگی اور اس سے ہونے والے نقصانات کو کہانی کے ذریعے پیش کیاگیا ہے۔ کہانی کا سیاق یہ ہے کہ دنو کے اسکول کی چھٹی ہونی ہے اور گھر کے لوگوں نے اس کے ننھال جانے کا ارادہ کر رکھا ہے یہ سن کر دنو بہت خوش ہے کہ ننھیال میں اسے موج مستی کرنے کا اوردوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کا موقع ملے گا اور ساتھ میں ماما کے ساتھ ندی پر مچھلی پکڑنے کا مزہ  لگ،مگر جب وہ اپنے ننھیال پہنچتا ہے تو سارا مزہ خراب ہو جاتا ہے مچھلیوںکی بیما ری پھیلی ہوئی ہے جسے کھا کر لوگ بیمار پڑ رہے ہیں۔ جس مقصد سے دنو وہاں گیا اسی پر پابندی لگ جاتی ہے۔ اس کہانی میں اس کے اسباب کا پتاکچھ اس طرح سے چلتا ہے۔اقتباس دیکھیں۔

’’ آؤ بابو میں دکھاتا ہوں‘‘ کہہ کر بوڑھا بابا اسے تھوڑی دور لے گیا۔  وہاں پڑے پڑے کئی بھگو نوںمیں کئی رنگوں کا پانی ابل رہا تھا۔ دو لوگ ناریل  کے ریشے اس میں ڈال کر ڈنڈوں سے ہلا تے اور اوپر نیچے کر کے، باہر نکال کر سوکھنے کے لیے پھیلا دیتے اب ان میں سے کسی کا رنگ ہلکا لال کسی کا نیلا اور کسی کا ہرا ہو گیا تھا۔

 دنو نے پوچھا‘‘ یہ جو بچا ہوا پانی یا رنگ آپ نے پھینکا تھا وہ کہاں جاتا ہے‘‘ ڈھلان ہے نہ تھوڑی سی۔بہہ کر جاتا ہوگا ندی میں۔بابا نے بتایا۔ندی میں‘‘ دنو نے پوچھا۔ ہاں اور کہاں جائے گا۔ دو فر لانگ  پر تو ہے جھواری، اسی سے تو پانی  لاتے ہیں ! ابھی یہاں نل کہاں لگے ہیں۔ بابا نے  بتایا۔‘‘ اب سمجھ گیا کہہ کر  دنو ماما کے پاس بھاگا آیا۔

 ماما مچھلیاں کیوں بیمار ہوتی ہیں اور کھانے والے کیوں بیمار پڑتے ہیں میں سمجھ گیا۔آؤ  میں بتاتا  ہوں دنو ماما کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے بولا۔ یہ دیکھو ماما یہ رنگ کا گندا پانی۔یہ لوگ یہاں پھینک رہے ہیں وہ بہہ کر ندی میں جا رہا ہے اسی سے ندی کی مچھلیاں بیمار   پڑ رہی ہیں اور انھیں کھا کر سارور ڈے کے لوگ بیمار ہوئے ہیں۔ دنو جلدی جلدی بولا۔

 پر ڈاکٹر بابو رنگ کے پانی میں گندا کچھ نہیں ہوتا رنگ پھینکنے والوں میں سے ایک آدمی بولا۔

 دیکھو یہ سوکھا رنگ جو تم لوگ بناتے ہو ماما نے پوری بات ایک دم سمجھتے ہوئے کہا...  اس میں کچھ کیمیائی چیزیں پڑی ہوتی ہیں۔ اور اسے کچھ اور پکا کرنے کے لیے سوڈا، تیزاب اور کچھ کیمیائی چیز یں ملاتے ہو۔ دیکھو تم خود بھی تو اسے ہاتھ سے نہیں ڈنڈے سے چلاتے ہو اور ڈنڈے سے ہی ریشے کو پھیلاتے ہو‘‘ ماما نے سمجھاتے ہوئے کہا۔‘‘ ہاں بابو ہاتھ سے چلائیں گے تو ہاتھ جل نہ جائیں گے۔ رنگ والا بولا۔‘‘ اگر تمہارا ہاتھ جل سکتا ہے تو‘ جب یہ رنگ بہہ کر ندی  کے پانی میں جاتا ہے ‘ تو وہاں کی مچھلیوں پر بھی اثر  ضرور ڈالتا ہوگا! اسی سے ندی کا پانی بھی گندہ ہو رہا ہے اور تمہارے یہاں اور گائوں کے لوگ بھی بیمار پڑ رہے ہیں۔ دنو نے سمجھاتے ہوئے کہا۔‘‘

کارخانوں میں تو سرکار اس کے لیے بندو بست کرتی ہے۔ تم لوگوں کو بھی کچھ کرنا ہوگا۔تمہاری بھلائی اسی میں ہے۔ کیوں بابا آپ سمجھائیں گے اپنے سب ساتھیوں کو؟ ماما نے پوچھا۔

 کیوں نہیں ڈاکٹر بابو! ہم بیمارتھوڑی ہی پڑنا چھاہتے ہیں‘‘

 مذکورہ کہانی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کس طرح سے کیمیکل اور دیگر فضلات کے پانی میں ملنے سے پانی آلودہ ہو جاتا ہے۔اور اس کے اثرات کس طرح پانی میں رہنے والے جاندار اور اس علاقے میں رہنے والے لوگوں پر پڑتے ہیں۔

نیم کا پیڑ طلعت عزیز کی کہانی ہے جس میں انھوں نے فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی نقصان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ کہانی کا سیاق کچھ اس طرح ہے کہ ایک گھر کے آنگن میں نیم کا پیڑ تھا جسے کٹوا دیا گیا ہے بچے اسے دیکھ کر اداس ہیں پھر اس کے چچا  چچی اور بھائی بہن شہر سے آتے ہیں تو باتوں باتوں میں پیڑ کٹنے کے کیا نقصان ہیں اسے بتایا گیا ہے۔

 ابا بہت خوشی خوشی گاؤں میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کر رہے تھے۔ لیکن بڑے چچا اس سے زیادہ خوش نہیں تھے۔ اسلم بھائی کا کہنا تھا کہ اس گاؤں    کا نقشہ ہی بدلتا جا رہا ہے،یہ تو بالکل شہر ہوتا جا رہا ہے۔

یہ تو اچھی ہی بات ہے نا۔ہم گاؤں والوں کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ابا نے کہا۔ لیکن یہ سوچو اس ترقی کے لیے تم کیا کھورہے ہو؟ بڑے چچا بولے۔ یہ کھلا آسمان یہ پاک صاف تازہ ہوا۔ یہ چڑیاں، یہ جانور، ندی کا  شفاف میٹھاپانی۔ کیا یہ سب ایسے ہی رہیں گے؟ کیوں اس کو کیا ہوگا؟ ہمارے پاس ندی بھی رہے گی اور آسمان بھی۔ابا نے کہا۔

 ماسٹر جی نے کچھ رک کر جواب دیا۔ اصل میں خود انسان نے ہی اب ماحول کے اس تال میل کو کچھ بگاڑ دیا ہے۔ مثال کے طور پر اس نے اپنی ضرورت کے لیے د ھڑا دھڑ پیڑ کاٹ کر جنگل صاف کر دیے۔

پیڑ کٹنے سے سب سے پہلا نقصان تو یہی ہے کہ ہوا گندی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بارش کا پیڑوں کے ساتھ بھی کافی گہرا رشتہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ سمندر سے پانی بھر کر ہوا  بھاری ہو جاتی ہے تو وہ ایسے علاقوں کی طرف چلتی ہے جہاں کی ہوا سورج کی گرمی سے گرم ہو کر ہلکی ہو جاتی اور اوپر اٹھنے لگتی ہے۔ سمندر سے آنے والی بھاری ہوا اس جگہ کو بھرنے آتی ہے جو ہلکی ہوا نے خالی کی تھی۔ اب اگر اس  علاقے میں پہاڑ ہوں تو ہوا ان سے ٹکرا کر بارش کرتی ہے۔ میدانی علاقے میں پہاڑ تو ہوتے نہیں یہاں پیڑ ہی اس ہوا کو بارش دینے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر پیڑ نہ ہوں تو یہ ہوا آندھی کی شکل میں اس علاقے سے تیزی سے نکل جاتی ہے‘‘

 ہاں ایک اور رشتہ بھی ہے پیڑوں سے پانی کا۔ پیڑ بارش کے پانی کو اپنی جڑوں کی وجہ سے زمین میں بہت گہرا نہیں رسنے دیتے۔ اگر پیڑ نہ ہوں تو اس علاقے کے کنویں اور تالاب سوکھ جائیں۔ اور پھر یہ پیڑ زمین کے پانی کو سورج کی روشنی سے بچا کر اسے ابخارات یا بھاپ  بن کر اڑ نے سے روکتے ہیں۔ ایک اور بہت اہم کام بھی یہ پیڑ کرتے ہیں جسے تم نے اپنی کتابوں میں بھی پڑھا ہوگا‘‘

 کیا؟ دونوں نے ایک ساتھ پوچھا

 وہ یہ کہ جب بارش کاپانی تیزی سے بہتا ہے تو پیڑوں کی جڑیں زر خیز مٹی کو پانی کے ساتھ بہہ جانے سے روک لیتی ہے ہیں اگر یہ پیڑ نہ ہوں  تو یہ مٹی بہہ کر دریا میں چلی جائے اور دریا سے سمندر کی تہہ میں جا کر بیٹھ جائیں اس سے اس علاقے کی زمین فصلیں اگانے کے قابل ہی نہ بچے۔اور تو اور اگر پہاڑ پر جمی برف کے پگھلنے کے بعد تیزی سے بہتے پانی کو اگریہ پیڑ کم نہ کریں تو یہ پانی میدانی علاقوں میں باڑھ بن کر تباہی مچائے گا۔

 مذکورہ تمام کہانیاں اس طور پر اہم ہیں کہ وہ ماحول کے توازن اور تناسب سے تعلق رکھتی ہیں اور بچوں کو ما حول کی آلودگی اور اس کے مسائل کوسمجھانے کی غرض سے لگھی گئیں ہیںجب کہ کہانیوں کو پڑھنے کے بعد یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ پوری طرح سے مقصدی کہانیاں بن کر رہ گئیں ہیں اس میں کہانی کی تمام خوبی موجود ہے اور ساتھ ساتھ ہر جگہ کہانی کی آمد کا بھی احساس ہوتا ہے جو ان تمام کہانیوں کو دلچسپ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے خاص بات یہ ہے کہ یہ کہانیاں بچوں کے لیے بچوں کی زبان میں ہی لکھی گئی ہیں اور بچوں کی ذہنی استطاعت کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہیں جس کی وجہ سے ان کی معنویت دو چند ہو جاتی  ہے اور اس کی افادیت میں چار چاند لگ گیا ہے اگر اس طرح کی کہانیوں کو اسکولی نصاب کا حصہ بنایا جائے تو یہ بعید نہیں کہ ہماری نئی نسل ایک اہم علم سے بہر مند ہو سکے گی بلکہ ما حولیاتی بگاڑ کے خاتمے کے لیے معاون بھی ثابت ہو گی پھر اس عالمی خطرے سے بچنا ہمارے لیے بے حد آسان ہو گا۔

 

Dr. Zahid Nadeem Ahsan

Dept of Urdu, Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

 

 

 


 

 

24/9/21

ماہنامہ معارف اور تحقیقات سلیمانی- مضمون نگار: اطہر حسین

 



  سید سلیمان ندوی(1884-1953) کا شمارممتاز علمی وادبی شخصیات میں ہوتا ہے۔انھوں نے علم وتحقیق کے مختلف موضوعات پرکتابیں تصنیف کیں۔تاریخ و سیرت کے علاوہ ادب و تحقیق کے موضوعات کا بھی انھوں نے احاطہ کیا۔ان کی گراں قدر علمی و تحقیقی خدمات کا ایک زاویہ ماہنامہ معارف بھی ہے، جس کا خاکہ علامہ شبلی نعمانی نے تیار کیا تھا۔ مگر اس میں رنگ علامہ سید سلیمان ندوی نے بھرا۔ معارف کا آغازاس طرح ہوا کہ سو برس سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے باوجود نہ صرف یہ مسلسل شائع ہورہا ہے بلکہ اس کے تمام شمارے محفوظ اور استفادہ کے لیے آن لائن موجود بھی ہیں۔ جولائی 1916میں سید سلیمان ندوی نے اسے جاری کیا۔ 1953تک انھوں نے ماہ نامہ معارف کی ادارت فرمائی۔واضح رہے کہ معارف بنیادی طور پر علمی اور تحقیقی رسالہ ہے۔

معارف کے علمی وادبی مضامین ومقالات کی طرح شذرات کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ شذرات دراصل معارف کا اداریہ ہے۔ جس کو اپنے اسلوب تحریر کی بنا پر غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔ڈ اکٹر اجمل ایوب اصلاحی شذرات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مقالات کا حصہ معارف کی جان ہے اور شذرات اس کا دیباچہ اور دریچہ،لیکن کئی پہلووں سے شذرات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔یہ عین ممکن ہے کہ کسی شمارے کے مقالات اتنے دقیق ہوں کہ بہت سے قارئین کے لیے اس میں دلچسپی کا سامان نہ ہو مگر شذرات،معارف کے سارے ناظرین پڑھتے ہیں،بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سب سے پہلے شذرات ہی پڑھتے ہیں۔اداریہ کے لیے شذرات کا لفظ اس سے قبل ’الندوہ‘میں استعمال کیا گیا تھا اور قیاس یہ ہے کہ یہ بھی علامہ شبلی کی ایجاد ہے اور اسے ان اولیات میں شمار کیا جانا چاہیے۔شذرات سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو کہتے ہیںجو سونے کی کان سے چنے جاتے ہیں۔ تاریخ پر ابن العباد حنبلی (ف:1089ھ) کی کتاب ’شذرات الذہب فی تاریخ من ذہب‘ مشہور ہے۔ اداریے میں مختلف موضوعات پر جو علاحدہ علاحدہ ٹکڑے لکھے جاتے ہیںان کے لیے علامہ شبلی نے اس بلیغ لفظ کا انتخاب کیا تھا،پھر تو یہ ایسا عام ہواکہ بہت سے لوگ اسے اداریے کا ہم معنی سمجھنے لگے۔علامہ شبلی نے الندوہ میں جو شذرات لکھے وہ تو شذرات الذہب تھے ہی،ان کے جانشینوں نے معارف میں جو اداریے لکھے وہ بھی علم وادب کا شاہکار تھے۔‘‘1

شذرات معارف میں مدیران معارف کی نجی زندگی کے بعض گوشوں،علمی اسفار،علمی وادبی تحریکوں، انجمنوں اور اداروں کی سرگرمیوں کا احاطہ، معروف ادیبوں، شاعروں سے متعلق معلومات اور عربی،فارسی کے ساتھ ساتھ عالمی،ملکی اور مقامی سطح پر موجود اردو مطبوعات اور مخطوطات کے نادر ذخائر کی نشاندہی،قدیم ونایاب کتب کے علاوہ جدید مطبوعات کے تذکرے سب کچھ ہوتا ہے اور یہ معارف کے قارئین کے لیے معلومات کا ایک اہم خزانہ ہوتا تھا۔ سید سلیمان ندوی نے تقریبا 37 سال تک معارف کے شذرات تحریر کیے جس میں ان تمام گوشوں کا انھوں نے احاطہ کیا۔ ان کے شذرات تین جلدوں میں مدون ہوچکے ہیں۔مولانا عبد الماجد دریابادی شذرات سلیمانی کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’صاحب معارف کی شذرات نگاری ایک خصوصی وامتیازی شان نگارش رکھتی ہے،بے لاگ لیکن نہ درشت نہ کرخت،عمیق لیکن نہ ادق نہ مغلق،رنگین لیکن نہ پر تکلف نہ ثقیل،سلیس لیکن نہ سطحی نہ عامیانہ،شگفتہ لیکن نہ تاویلانہ نہ خطیبانہ،جاندار لیکن نہ گرما گرم نہ پرخروش،صالح لیکن نہ خشک نہ مولویانہ،سلیمانی ادب وانشا کا اردو تاریخ ادب وانشا میں جو ایک خاص مقام ہے... اس کی اصل بنیاد ہی معارف کے ادارتی صفحات سے پڑی اور معارف کے شذرات نے بہتوں کے لیے ایک نئی راہ کھول دی۔‘‘2

عبدالماجد دریابادی نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ شذرات معارف نے بہتوں کے لیے نئی راہ کھول دی ہے۔ سید صاحب نے جس طرح قدیم متون کی بازیافت، شعرا وادبا کے احوال،نادرونایاب قلمی وغیر مطبوعہ تحریریں، ملک وبیرون ملک کے کتب خانوں اور لائبریریوں میں موجود نایاب/کم یاب مخطوطوت کا تعارف بطور خاص پیش کرتے تھے۔اس سے جہاں کتابوں کے تئیں ان کی دلچپسی کا اندازہ ہوتا ہے وہیں معارف کے قارئین کو کتابوں سے باخبر ی بھی ہوتی تھی چونکہ اس زمانے میں رسل و رسائل اور ٹکنالوجی کی اتنی آسانی اور سہولت نہیں تھی اس لیے معارف کی یہ کوشش قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی اور اسے کتاب اور علم دوستی سے تعبیر کیا گیا۔یہاں اردو ادب سے متعلق سید سلیمان ندوی اور ماہنامہ معارف کی بعض اہم تحقیقات کا تعارف پیش نظر ہے۔

میر اثرصوفی شاعر کے طور پر مشہور خواجہ میر درد کے چھوٹے بھائی اور صاحب دیوان شاعر تھے۔انھوں نے اردو کی مختلف شعری اصناف میں طبع آزمائی کی۔ان کے دیوان میں غزلیں، رباعیات اور دومثنویا ں شامل ہیں۔ میراثر کی مثنوی ’خواب وخیال‘کو اردو ادب میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ایک مدت تک یہ مثنوی کم یاب تھی۔ پہلی بارسید سلیمان ندوی نے1917 میںمعارف کے شذرات میں اس کی اطلاع دی۔وہ لکھتے ہیں:

’’حضرت خواجہ میر درد کے چھوٹے بھائی میر اثر دہلوی اپنے زمانے کے مشہور شاعر تھے۔تصوف کو بے تکلف سہل ورواں اردو غزلوں میں ادا کرنا انھیں دونوں بھائیوں پر ختم تھا۔ان کی مثنوی’خواب وخیال‘اردو زبان کا ایک انمول سرمایہ ہے۔سال تصنیف1125ھ ہے۔یہ مثنوی کم یاب ہے۔شمس العلما محمد حسین آزاد’آب حیات‘ میں ایک دو فقرے سے زیادہ اس پر نہ لکھ سکے۔شاید یہ مثنوی انھیں ہاتھ نہ آئی۔مولانا حالی بھی مقدمہ دیوان میں اپنا نہ دیکھا ظاہر کرتے ہیں۔ ہم اپنے دوست مولوی بشیرالحق صاحب سب انسپکٹر سون برسا کے ممنون ہیں کہ ان کی وساطت سے یہ مثنوی مستعار ہمیں ہاتھ آسکی۔‘‘3

یہ مثنوی انجمن ترقی اردو سے 1926میں شائع ہوئی جسے مولوی عبدالحق نے مرتب کیا تھا۔مرتب نے اس پر ایک تفصیلی مقدمہ بھی لکھا مگر اس میں معارف کا ذکر نہیں کیاگیا۔مقدمہ میں خواب وخیال کے مخطوطوں کے بارے میںمولوی صاحب لکھتے ہیں:

’’ان کے دیوان کی طرح ان کی مثنوی بھی بہت کم یاب ہے۔مجھے ایک مدت سے اس کی تلاش تھی اتفاق سے ایک نسخہ میرے برادرمعظم شیخ ضیائ الدین نے مجھے بھیجا جو انھیں کہیں سے مل گیا تھا۔میں اس کی اصلاح وترتیب میں مصروف تھا کہ مولوی نجیب اشرف ندوی نے اطلاع دی کہ انھیں ایک نسخہ انجمن اصلاح دسنہ بہار کے کتب خانے میں دستیاب ہوا ہے۔جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ میں انجمن کی طرف سے اسے شائع کرنے والا ہوں تو کمال عنایت سے وہ نسخہ میرے پاس بھیج دیا جس سے مجھے اپنے نسخے کی تصحیح میں بہت مددملی۔‘‘4

 مرزامحمدرفیع سودا (1712-1781)  ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ انھوں نے غزل، رباعی، قصیدہ شہرآشوب، مرثیہ، ہجویات اورمدحیات غرض یہ کہ انھوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کی وجہ شہرت ان کے قصائد ہیں۔ سودا کے قلمی ومطبوعہ دیوان کے سیکڑوں نسخے ہندوستان  اور بیرون ملک میں موجود ہیں۔ڈاکٹرہاجرہ ولی الحق نے دیوان سودا کو1985میں چھبیس نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے اور ان تمام نسخوں کی اطلاع دی ہے جو ہندوستان اور ہندوستان سے باہر موجود ہیں۔ایسے ہی ایک اہم نسخے کی اطلاع سید سلیمان ندوی نے اگست 1922کے شذرات میں دی ہے۔یہ نسخہ مختلف حیثیتوں سے اہم ہے۔سید سلیمان ندوی کتب خانہ آصفیہ میں موجود سودا کے قلمی دیوان کی اطلاع دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی صدرالصدور دولت آصفیہ حیدآباد دکن کے کتب خانے میں سودا کے دیوان کا ایک نادر نسخہ بہم پہنچا ہے،علاوہ خوش خطی اور دیگر اوصاف ندرت کے ایک خاص بات اس میں یہ ہے کہ نسخہ عین اس وقت پایہ تکمیل کو پہنچ رہا تھا جب نادر شاہ اپنی قہار فوجیں لیے ہوئے دلی کے دروازے پر کھڑا تھا۔کاتب نے کتاب کے آخر میں لکھا ہے کہ یہ سطریں جس وقت لکھی جارہی ہیں نادر شاہ کی فوجیں شہر میں داخل ہورہی ہیں۔کیا یہ علمی یک سوئی کی عجیب وغریب مثال نہیں کہ جب شہر اضطراب اور بے چینی کی کروٹیں لے رہا تھا،ایک سودازدئہ علم دیوان سودا کی کتابت میں مصروف تھا،یہ ذوق فن ہر بوالہواس کو کہاں نصیب۔‘‘5

سودا کا ایک قدیم قلمی دیوان جو کم یاب تھا۔ اگست 1922 کے شذرات میں سید صاحب نے اس نسخے کے دریافت کی اطلاع دی اور اس کا مختصر تعارف بھی لکھا یہی نسخہ ڈاکٹر ہاجرہ ولی الحق نے1985میں اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔

اردو ادب کے مختلف گوشوں کی تفتیش وتلاش، نادر و نایاب کتب کی بازیافت اوران ذخیروں کی حفاظت کے حوالے سے معارف کی فکرمندی دیدنی ہے۔علم دوستی کایہ رویہ اول تاآخر نمایاں ہے۔نادر کتب سے دلچسپی دیکھ بہت سے قارئین بھی اپنے خطوط میںمعارف کو معلومات فراہم کرتے ہیں۔اردو نثر کی ایک اہم کتاب ’گربہ نامہ‘ (بلی نامہ)جس کے مصنف فقیر غلام علی آزاد ہیں۔سید صاحب شذرات میں لکھتے ہیں:

’’ڈھاکہ سے ایک مخدوم نے جن کے کتب خانے کے بعض نوادر درحقیقت جواہرات میں تلنے کے لائق ہیں، ان میں سے ہمارے پاس ’گربہ نامہ‘(بلی نامہ) ایک قصہ کی چند ورقہ کتاب اس تمہیدی خط کے ساتھ بھیجی ہے،کہ مجھے یقین ہے کہ دارالمصنفین کے قبضے میں اگرچہ ایک بڑا کتب خانہ ہے لیکن شاید گربہ نامہ اس میں موجود نہ ہو اس لیے بازار سے دوپیسے کی خرید کر بھیجتا ہوں۔یہ اردو نثر میں گربئہ مسکین کی مختصرسوانح عمری ہے۔زبان پرانی ہے مگر رواں۔قدیم اردو کے دستور کے مطابق حرف اضافت کی تقدیم وتاخیر ہے۔جابجا آیات قرآنی، احادیث، فارسی اساتذہ کے اشعار اور ہندی دوہے ہیں۔خیالات ومضامین سے مولویت جھلکتی ہے۔آخر میں مصنف نے اپنا نام فقیر غلام علی آزاد بتایا ہے۔اس سے مراد اگر میر غلام علی آزاد بلگرامی ہیں جیسا کہ قرائن کی شہادت ہے تو اس نظریے میں اب غور کرنا پڑے گا کہ اردو نثر کی سب سے پہلی کتاب فضلی کی ’دہ مجلس‘ہے،جیسا کہ مولوی محمد حسین آزاد مرحوم کا دعوی ہے یا میر غلام علی آزاد کا چند ورقہ رسالہ ہے۔یہ دونوں بزرگ ایک ہی زمانے میں تھے۔‘‘6

ڈھاکہ سے حکیم مولوی حبیب الرحمن خاں سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں اردو لغت ومحاورات کی دونادر کتب کی اطلاع دیتے ہیں جو کہ دریاے لطافت سے پہلے لکھی گئی۔اس خط سے نہ صرف یہ کہ اردو کی دوقدیم کتابوں کے متعلق واقفیت ہوتی ہے بلکہ محمد حسین آزادکا نظریہ بھی باطل قرار پاتا ہے کہ انشائ اللہ خاں انشائ کی دریاے لطافت(1802) اردو قواعد کی پہلی کتاب ہے۔ معارف جولائی 1917کے شذرات میں اردو کی دونادر کتب کی بازیافت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’امپیریل لائبریری کلکتہ میں شمس البیان،اردو لغت ومحاورات میں ایک کتاب ہے جو دریاے لطافت سے پندرہ برس پہلے لکھی گئی ہے۔مجھ کو یاد آتا ہے کہ اس موضوع پر ندوہ کے کتب خانے میں بھی ایک کتاب موجود ہے۔ابھی حال میں ایک ناقص الطرفین رسالہ ہمارے دوست کے ہاتھ لگا ہے جس کا نام ’صرف اردو‘ہے،رسالہ منظوم ہے اور پرانی زبان میں ہے،شیدا کوئی بزرگ ہیں،وہ اس کے مصنف ہیں۔لارڈ منٹواور ڈاکٹر ہنٹر کی اس میں بڑی تعریف کی ہے۔سال تصنیف 1221ھ ہے۔ دریاے لطافت سے ایک سال پہلے تصنیف پایا ہے،ازراہ عنایت یہ رسالہ ہمارے مطالعے کے لیے بھیجا ہے۔‘‘7

شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان‘ جس کے مصنف مرزامحمد اسماعیل جان طیش ہیں۔ مرزا طیش دہلی کے رہنے والے تھے۔عروض وبلاغت اور فن شعر کے ماہر تھے۔ فن شاعری خواجہ میر درد سے سیکھی تھی۔خاندانی سپاہی تھے اس لیے فنون سپہ گری سے بھی واقفیت تھی۔مرزا ایک اچھے شاعر بھی تھے بیاض طیش میں موجود ہندی کلام سے آپ کا تخلص’سدا خیر‘ثابت ہوتا ہے۔’شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان‘ مرزا طیش نے 1207ھ میں قیام مرشدآباد/ ڈھاکہ کے زمانے میں لکھی تھی۔یہ کتاب چھوٹے سائز کے 96 صفحات پر مشتمل پتھر کے چھاپے پر مرشد آباد سے 1265ھ میں شائع ہوئی تھی۔8

اس کے علاوہ قصہ یوسف ذلیخا،بہار دانش،کلیات طیش، بیاض طیش وغیرہ مرزا طیش کی اہم کتابیں ہیں۔ ’شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان‘ کو عابد رضا بیدار نے خدا بخش لائبریری پٹنہ سے 1977میں شائع کیا۔عابد رضابیدار کتاب کی تدوین کے متعلق لکھتے ہیں:

’’اب اس کتاب کے مطبوعہ نسخے بھی نایاب ہیں۔ ڈھاکہ کے حکیم حبیب الرحمن مرحوم کو اس کا ایک نسخہ ملا تھا۔ ایک نسخہ ڈاکٹر عندلیب شادانی کے پاس بھی تھا۔ جنھوں نے قاضی عبد الودود کی فرمائش پر ایک قلمی نسخہ کی مدد سے اس کا ایک ایڈیشن بھی تیار کیا تھا پھر خدا جانے اس کا کیا ہوا۔رضالائبریری رامپور میں بھی ایک نسخہ موجود ہے۔ایک مخطوطہ بھی رضا میں محفوظ ہے لیکن یہ مطبوعہ نسخہ کے بعد کا ہے۔ایک نسخہ ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ میں محفوظ ہے۔ایشیاٹک سوسائٹی کے قلمی نسخہ اور رامپور کے مطبوعہ نسخہ کی نقل خدا بخش کے لیے حاصل کی گئی ہیں اور ان کی بنیاد پر ایک نسبتہ بہتر نسخہ پیش کیا جارہا ہے۔‘‘9

شذرات کے مطالعے سے سیکڑوں مخطوطات اور قدیم وجدید مطبوعات کے بارے میں معلومات ہوتی ہے۔ فروغ کتب معارف کا ایک مستقل موضوع رہا ہے۔ مدیران معارف کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی قدیم وجدید مطبوعہ وغیر مطبوعہ کتاب کی اطلاع پہنچے تو بلا تاخیر اسے قارئین معارف تک پہنچا دیں۔پٹنہ کے کتب خانے میں موجود ایک منظوم قلمی نسخے کا تعارف دسمبر کے شذرات میں سید سلیمان ندوی کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’پٹنہ کے کتب خانہ مشرقی میں اردو نظم کی ایک قدیم کتاب ہے،محمد امان قادری گورگھپور مصنف کا نام ہے۔سال تصنیف1170ھ ہے یعنی اس کی تصنیف پر 167 برس گذرچکے ہیں۔حنفی فقہ کے مسائل اس میں منظوم ہوئے ہیں،سات ابواب پر عبادات ومعاملات وغیرہ کے عنوانات سے اشعار ہیں۔اس نظم کی خاص خصوصیت یہ ہے کہ بحر ایسی اختیار کی گئی ہے جو ہندی رامائن سے ماخوذ ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو شاعری پر ہندی نے کس حد تک اثر کیا تھا۔‘‘10

شذرات معارف سے سید سلیمان ندوی کے متعدد اسفار کا پتا چلتا ہے جن میں سفر لاہور، حیدرآباد، دہلی، لکھنؤ، بھوپال، ممبئی، میسوراور مدراس وغیر ہ قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ اسفار سے صرف احوال سفر ہی نہیں بلکہ نہایت کارآمد معلومات اور فکر انگیز نکات زیر بحث آتے ہیں۔ ان میں تاریخی، جغرافیائی معلومات، سیاسی وسماجی حقائق، علمی وادبی اداروں کا تذکرہ، قدیم کتب خانوں، اشاعتی اداروں، معروف شخصیات سے ملاقات کی دلچسپ روداد ہے۔سید سلیمان ندوی کا معمول تھاکہ جس شہر کا بھی سفر کرتے وہاں اداروں اور کتب خانوں کا ضرور معائنہ کرتے تھے اور وہاں موجود کتابوں اور شخصیات کا احوال قارئین معارف تک ضرور پہنچاتے تھے۔اکتور 1937 کے  سفر مدراس میں سید صاحب مدراس یونی ورسٹی کے شعبہ تحقیقات علمیہ بھی گئے۔وہاں موجود دیوان بیدار کے دو نسخوں کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مولانا محوی عربی،فارسی کے خوش مذاق عالم اور اردو کے اچھے شاعر ہیں۔ انھوں نے چھ سات برس کے اندر کئی کتابوں کا ترجمہ اور تصحیح کی ہے... دلی کے ایک شاعر میر محمد بیدار کا دیوان مقدمے اور تصحیح کے ساتھ شائع کیا ہے۔بیدار کا یہ دیوان 1935میں چھپ کر شائع ہوچکا ہے۔اب کیا عجیب بات ہے کہ اس کے دو برس بعد 1937میں ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد نے اسی دیوان کے کسی دوسرے قلمی نسخے کو غیر مطبوعہ سمجھ کر جناب جلیل احمد صاحب قدوائی کے مقدمے اور تصحیح کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اگر ہمارے علمی اداروں میں آپس میں علمی روابط ہوں تو اس قسم کی محنت اور سرمائے کی بربادی سے ہم محفوظ رہیں۔‘‘11

سید سلیمان ندوی نے ملک کے اس حصے کو (مدراس) ہندستان کا پچھواڑا کہا ہے۔معارف مئی 1939میں سید سلیمان ندوی کا ایک تحقیقی مقالہ ’بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔اس مضمون میں انھوں نے اردو زبان میں رائج بہت سے قدیم الفاظ کی تحقیق، ان کی اصل اور وجہ تسمیہ بیان کی ہے۔انھوں نے الفاظ کی مفصل تاریخ کے ساتھ ساتھ لفظ کی اصل زبان اور کس طرح ہندوستان پہنچا اور یہاں کن معنوں میں مستعمل ہوا، ان تمام باتوں کو نہایت علمی انداز میں پیش کیا ہے۔اس ذیل میں انھوں نے ناشتہ نہاری، سلفہ، قاب، رکابی، جہاز، سرخی، نستعلیق، تماشا، احدی، قورمہ، شوربہ، کباب، راز، مستری، خراداورساہول وغیرہ الفاظ کی تحقیق کی ہے اور ان الفاظ کی منتقلی کے جو اسباب بتائے ہیں دیکھنے کے لائق ہیں۔سید سلیمان ندوی لفظ خراد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بڑھیوں کی بول چال میں ایک لفظ ’خراد‘اور ’خرادنا ‘ہے، میز کرسی یا پلنگ وغیرہ کے پایوں کو چھیل کر کہیں موٹا، کہیں پتلا کہیں گاؤ دم وغیرہ مختلف شکلیں دیتے ہیں،یہ خالص عربی لفظ ’خرط‘ہے،عربی میں اس کے معنی اس طرح چھیلنے کے ہیں کہ اس کی اوپری پرت اترجائے، اس سے’ خراط‘ بنا،یعنی وہ آلہ جس سے لکڑی کو اس طرح چھیلا جائے۔ وہ خرّاط ہمارے یہاں خراد ہوااور اس سے خراد پر چڑھنا محاورہ اور خرادنا مصدر بنا،یہ لفظ اس حقیقت کا پتہ دیتا ہے کہ لکڑی کی یہ صنعت کاری مسلمانوں کے ذریعے ہندوستان میں آئی اور پھیلی۔‘‘12

سید سلیمان ندوی نے معارف اکتوبر 1922کے شمارے میں’ اوراق پارینہ‘ کے عنوان کے تحت ایک قدیم نصابی کتاب ’مجمع گنج‘کا تعارف کرایا ہے۔سید صاحب کو یہ کتاب دسنہ بہار کے ایک کتب خانے کی ردی کتابوں میں ملی۔نادرمخطوطات اور مطبوعات کے حوالے سے معارف کے صفحات پر یہ اولین تحریر ہے۔1845میں یہ کتاب کمپنی کے عہد میں کلکتہ اسکول بکس سوسائٹی میں چھپی۔یہ کتاب کمپنی کے قائم کردہ ابتدائی اسکول میں پڑھائی جاتی تھی اور طلبہ کو بطور انعام بھی دی جاتی تھی۔

کتاب کا یہ نسخہ 1855میں دسنہ بہارکے حاجی وزیرالدین کو گیا اسکول کے مشرقی صیغے کی طرف انعام میں ملی تھی۔یہ چھوٹی تقطیع کے 217صفحات میں ہے اور اس میں 28 مضامین اور عنوانات ہیں۔ اس میں ہندوستان میں پیدا ہونے والی نیل،روئی،افیون،ململ اور ریشم کے کپڑے،گنا،تباکواور ہندوستان کی تجارت کے علاوہ اس وقت کے ہندوستان کے احوال کا تذکرہ ہے۔انگلستان کے گزشتہ عہد جہالت پر بھی ایک باب شامل ہے۔کتاب کا اہم باب اسکندریہ کے مشہور کتب خانہ کے جلائے جانے کے متعلق ہے جس کا ملزم مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا ہے۔کتاب میں مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ یورپ کے علوم وفنون کو اپنی زبان میں منتقل کریں۔کتاب کے عنوان کے نیچے درج عبارت سے کتاب کے لکھے جانے کے مقصدکا علم ہوتا ہے۔:

’’عقل کوروشن کرنے والی تعلیموں کا اور دانائی سکھانے والی... کا اس میں اکثر ملکوںکی بستی، شہر اور ادیبوں کے احوال کا بیان ہے۔ہندوستانی لڑکوں کے لیے انگریزی سے زبان اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔‘‘ 13 سید سلیمان ندوی کتاب کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی طلبہ کو جدید معلومات سے روشناس کیا جائے،اس لیے جوباتیں اس وقت نئی معلوم ہوتی تھیں اس کا ذکر ہے۔ (2)  چونکہ ہندوستان میں اس وقت تک مسلمان طاقتور عنصر تھے،اس لیے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں اور عیسائی بادشاہوں کے درمیان تعلقات،جنگ وصلح بہت پرانے ہیں۔جنگ صلیبی کا ایک باب ہے،فتح اندلس کا ذکر ہے،سلطان روم کا بیان ہے۔(3) اس وقت تک انگریز زیادہ عقلمند یا متکبر نہیں ہوئے تھے اس لیے پہلے اپنی واپنے ملک اور اپنے براعظم یورپ کی جہالت کا ذکر کرکے پھر اپنی عقلمندی اور دانشوری اور ترقی کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ انگلستان کے گذشتہ عہد جہالت پر بھی ایک باب ہے۔‘‘14

مجمع گنج سے تاریخ ادب کا کوئی بڑا مسئلہ وابستہ نہیں مگر معار ف کے ابتدائی تحقیقی رجحانات کے حوالے سے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔واضح رہے کہ انگریزوں کی آمد کے بعد تراجم کی روایت کو فروغ ملا۔ اس نوع کی بہت سی نصابی کتب مرتب کی گئیں۔مرزا غالب کی انشاے غالب بھی نصابی ضرورت کے تحت مرتب کی گئی تھی نیز ایک کتاب ’جواہر منظوم‘(اشاعت :1867) بھی ہے۔یہ انگریزی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ ہے۔ گارساں دتاسی کے خطبے میں اس کتاب کا ذکرہے۔15

اردو زبان کی پیدائش کے متعلق سید سلیمان ندوی کے نظریے سے ہر شخص بخوبی واقف ہے۔ سید صاحب نے سرزمین سندھ کو اردو کا مولد قرار دیا ہے۔اس کے ثبوت میں انھوں نے متعدد شواہد پیش کیے ہیں۔معارف جولائی 1933میں سید صاحب کا ایک مضمون ’اردو کیوں کر پیدا ہوئی‘شائع ہوا۔سید سلیمان ندوی کا یہی مضمون نقوش سلیمانی میں شامل ہے۔ تحقیقی نوعیت سے یہ مضمون بہت اہم ہے۔ اردو زبان کن کن مراحل سے گزری کن کن  راجاؤں  نے اس کی پرورش کی اور کس طرح ایک زبان کی شکل اختیار کی غرض یہ کہ انھوں اردو زبان کی مفصل تاریخ بیان کی ہے اور اسی مضمون میں اردو زبان کے سندھ میں پیدا ہونے کا نظریہ بھی پیش کیا ہے۔اردو کی پیدائش کے سلسلے میں سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

’’مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولی اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔‘‘16

معارف میں غالبیات کا ایک بڑاخزانہ ہے۔ حیات غالب،کلام غالب،تلامذہ غالب اور غالب پر لکھی گئی کتابوں کے حوالے سے سیکڑوں تحقیقی وتنقیدی مضامین، تبصرے اور شذرات شامل ہیں۔اس میں سے ایک نسخہ حمیدیہ کی دریافت ہے۔نسخہ حمیدیہ غالب کا وہ قلمی دیوان ہے جس میں غالب کا مکمل اردو کلام ہے۔یہ نسخہ غالب نے 1821 میں مکمل کیا تھا جب ان کی عمر صرف 24سال تھی۔ اس کے کاتب حافظ معین احمد تھے۔ کتب خانے حمیدیہ بھوپال میں اس کی بازیافت ہوئی اس لیے اس کتب خانہ کی طرف منسوب ہے۔غالب کا یہ قلمی دیوان گمنام تھا سب سے پہلے سید سلیمان ندوی نے مولانا عبد السلام ندوی کے توسط سے ادبی دنیا کو باخبر کیا۔وہ شذرات معارف میں اس کی خبر دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہمارے دوست مولانا عبد السلام ندوی شعر الہند کی خاطر آج کل کتب خانوں کی خاک چھان رہے ہیں، اسی سلسلے میں وہ بھوپال بھی پہنچے ہیں۔ وہاں کے کتب خانہ حمیدیہ میں انھیں ایک انمول جواہر ملا یعنی مرزا غالب کا اصلی مکمل اردو دیوان بلا خذف وانتخاب جو موجودہ دیوان سے ضخامت میں دونا ہے،نہایت عمدہ مطلا نسخہ ہے۔ کسی خوش مزاج کے ہاتھ وہ پڑا تھا،اس نے ان غزلوں کا مطبوعہ غزلوں سے مقابلہ کرکے اختلاف نسخ بھی لکھ دیا ہے۔‘‘17

اس تحقیق کو معارف میں غالب تحقیق کا نکتہ آغاز کہا جاسکتا ہے۔نسخہ حمیدیہ کی اس خبر کے بعد بہت سے لوگوں نے اس کو بھوپال آکر دیکھا ان میں سید ہاشمی فرید آبادی،امتیاز علی عرشی،جبکہ استفادہ کرنے والوں میں عبد الرحمن بجنوری،پروفیسر حمید خان اور ڈاکٹر عبد اللطیف شامل ہیں۔نسخہ حمیدیہ کی بحث وتحقیق کا یہ سلسلہ 1918 سے 2017تک رہا۔جنوری 1944کے بعد اس نسخے کی کوئی اطلاع نہیں ملتی۔پرفیسر ظفر احمد صدیقی کے مطابق 2015 میں شہاب ستاراور مہر افشاں فاروقی کی کوشش سے دوبارہ اس کی بازیافت ہوئی(18) جسے عبد الرحمن بجنوری کے انتقال کے بعد مفتی انوار الحق نے عبد الرحمن بجنوری کی تقریظ کے ساتھ شائع کیا مگر انھوں نے معارف کا ذکر کہیں نہیں کیا ہے،جبکہ معارف ہی نے سب سے پہلے اس کے بازیافت کی اطلاع دی تھی۔نسخہ حمیدیہ کی اشاعت کے بعد عبد القوی دسنوی، ابومحمد سحر، گیان چندجین، جگن ناتھ آزاد اور دیگر لوگوں نے اس پر لکھا جس سے غالبیات میں نئے مباحث کا آغاز ہوا،جس کا سہرا معارف کے سر ہے۔

ان معروضات سے انداز ہ کیا جاسکتا ہے کہ اردو تحقیق کے کارواں کو سمت و رفتار دینے میں سید صاحب کی ان تحریروں کا اہم کردار ہے۔بے شمار کتابیں اور تحقیقی مقالات میں شذرات سلیمانی کی بازگشت کو بآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔شذرات معارف کے اس پہلو پر کم ہی روشنی ڈالی گئی ہے۔

حوالے وحواشی:

1      ماہنامہ معارف،مئی2017،ص354

2      سید سلیمان ندوی،شذرات سلیمانی،حصہ اول،دارالمصنفین اعظم گڑھ2012ص4

3      ماہنامہ معارف،شذرات اپریل1917

4      مولوی عبدالحق،مقدمہ خواب وخیال،انجمن ترقی اردو1926ص ج

5      ماہنامہ معارف،شذرات اگست1922

6      ماہنامہ معارف،شذرات اپریل1919

7      ماہنامہ معارف،شذرات  جولائی1917

8      عابد رضا بیدار،شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان،خدا بخش لائبریری،1977ص7

9      عابد رضا بیدار،شمس البیان فی مصطلحات الہندوستان،خدا بخش لائبریری،1977ص7

10    ماہنامہ معارف،شذرات،دسمبر1918

11    ماہنامہ معارف،شذرات دسمبر1937

12    ماہنامہ معارف مئی 1939،ص331

13    ماہنامہ معارف اکتوبر 1922

14    ماہنامہ معارف،اکتوبر1922ص311

15    عمیر منظر،رشید حسن خاں کلام غالب کے شارح،غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی۔2019 ص69

16    سید سلیمان ندوی،نقوش سلیمانی،1967ص250

17    ماہنامہ معارف شذرات،ستمبر 1918

18    ماہنامہ معارف مئی 2017

 

Athar Husain

504/122 Shabab, Market Nadwa

Nadwa Road, Daliganj

Lucknow - 226020 (UP)

Mob.: 8074378735

Email.: atharhusainmanuu@gmail.com

 

 


 

 


مغربی بنگال میں 2000 کے بعد اردو افسانہ - مضمون نگار : محمد علی حسین شائق

 



2000کے بعد معاصر اردو افسانہ اپنے اندر نہ صرف اصلا حی پہلو لیے ہوئے ہے بلکہ اس کے اندر بیا نیہ پن بھی ہے، علامتوں اور استعاروں کا استعمال بھی ملتا ہے۔ معا صر اردو افسانہ آج کے مسائل کی منا سبت سے اپنے اندر مو ضوعات لیے قاری کے درمیان حا ضر ہوتا ہے جس سے قاری    اس کی قرأت کرتے وقت ترسیل کے مسئلے سے دوچار نہیں ہوتا ہے۔ سابقہ روایات کے مقابلے،  معا صر اردو افسانہ اپنے اندر تنوع لیے ہوئے ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ سابقہ روایات یعنی ترقی پسند تحریک، جدیدیت کے رجحان اور اصلا حی پہلو تہی کرنے والے زیادہ تر افسانہ نگار،معا صراردو افسانے کے تحت ایسے افسانے تخلیق کررہے ہیں جس میں قاری کے لیے ذہنی آسو دگی بھی ملتی ہے، تنوع بھی رہتا ہے، بیانیہ پن کا احساس بھی ملتا ہے اور ترسیل کا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ 2000 کے بعد کا افسانوی منظر نامہ سابقہ منظر ناموں کے مقابلے بہت ہی حو صلہ مند رہا ہے۔

اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہوگی کہ معاصر اردو افسانہ نہ صرف اپنے اندر بیا نیہ پن لیے رہتا ہے بلکہ اس کے ساتھ علامتوں اور استعاروں کا استعمال بھی ملتا ہے لیکن ایسی علامتوں اور استعاروں کا استعمال معا صر اردو افسانہ قطعی نہیں کر رہا ہے جس کے اندر ثقالت ہو۔ قاری وہی افسانے پسند کرتے ہیں جس میں ثقالت نہ ہو، ترسیل کا مسئلہ نہ ہواو ر قار ی اس کی ترسیل میں کوئی دقت محسوس نہ کرے۔معاصر اردو افسانہ ایسے افسانے کا متقا ضی ہے جس میں بیانیہ پن بھی ہو، تنوع بھی ہو، کردار بھی ہو، علامتوں اور استعاروں کا استعمال بھی ہوتو یقینا وہ افسانہ قاری کو اپنی طرف راغب کرے گا۔

جہاں تک معاصر اردوافسانے میں رویے اور رجحانات کا تعلق ہے تو اس بات کو محسوس کیا جا سکتا ہے کہ معا صر اردو افسانہ اپنے اندر ایک احتجاج کی لے رہتا ہے لیکن اس میں شدت پسندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ آج کا افسانہ نگار احتجاج کی لے بلند کرتا ہے لیکن اس میں دھیما پن رہتا ہے۔ معا صر اردو افسانہ منافرت بھرے ما حول سے نکل کر اطمینان و سکون کے ما حول کا متقاضی ہے۔یہ گرتی ہوئی اخلا قی قدروں کی پا مالی کا احتجا جی رویہ پیش کرتا ہے، سماج میں پھیلی معاشی نا ہمواریوں کی صدا بلند کرتا ہے، اس کے افسانے میں جذباتیت رہتی ہے لیکن اس کی آنچ میں دھیما پن رہتا ہے،اس میںاجتماعیت کے مسئلے کا اظہار بھی ملتا ہے اور انفرادیت کے مسئلے کا اظہار بھی۔ جدیدیت کے رجحان میں جہاں اردو افسانہ شناخت کے مسئلے سے دوچار تھا تو اس وقت کے حا لات کچھ اور تھے لیکن آج کا اردو افسانہ بھی شناخت کے مسئلے کو قاری کے سامنے رکھتا ہے۔ جدیدیت میں شنا خت کا مسئلہ تقسیم ہند کے تناظر میں پیدا ہوا تھا لیکن اپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے یہاں کا قاری شناخت کے مسئلے سے دوچار ہے، معاشی طور پر، اخلاقی طور پر اس لیے،معا صر اردو افسا نہ شناخت کے مسئلے کوبھی سامنے رکھتا ہے۔

معاصر اردو افسانے کے رویے اور رجحانات میں فرق ضرور آئے ہیں لیکن مسئلہ وہی ہے،سابقہ سماج میں بھی قنو طیت کا مسئلہ تھا،آج کے سماج میں بھی۔ اس لیے سماج مسا ئل کے معا ملے میں زیادہ بد لا ہوا نظر نہیں آرہا ہے بلکہ کم و بیش اسی ڈگر پر رواں دواں ہے،لیکن انداز بیان میں تبدیلی ضرور آئی ہے۔ معاصر اردو افسانہ مغرب کی گندی تہذب کو مشرق میں سرایت کرنے پر ایک کاری ضرب لگاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں عریانیت کے حوالے سے انسان کے اندر جو شیطانی خیا لات  پنپتے ہیں اس کا اظہاربھی کرتا ہے۔

آج معا صر اردو افسانہ ایک مرتبہ پھر پریم چند کے اس خیال کی تشریح چاہتا ہے جو انھوں نے انجمن ترقی پسند مصننفین کے جلسے میں صدارتی خطبے کے دوران کہا تھا کہ ’’ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہو گا۔ ‘‘ آج کا اردو افسانہ آخر کس حسن کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔؟سائنسی طور پر ہمارا ذہن بہت ترقی کر چکا ہے۔ گھنٹوں کے مسئلے کو منٹوں میں اور منٹوں کے مسئلے کو سکنڈ میں حل کر رہا ہے لیکن کیا ہمارا ذہن اس بات سے قطعی پیچھا چھڑا لے گا کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں بے پناہ ترقی کے باوجود ہمارا سماج اخلاقی گراوٹ کا زبر دست شکار ہوچکا ہے۔اخلاقی اور تہذیبی گراوٹ ترقی کی نشانی نہیں ہو سکتی،ہمیں حسن کے معیا ر میں تبدیلی لانی ہو گی،سوچ میں استحکام لا نا ہو گا۔آسمانوں کی بلندیوں اور زمین کی تہوں میں پہنچنے سے ہمارا سماج مہذب نہیں کہلا ئے گا۔ ایک سماج کے مہذب کہلا نے کے لیے اخلاقی، تہذیبی، معا شی،اور سما جی نا ہمواریوں کو ختم کرنا ہو گا۔ معا صر اردو افسانہ ایسے ہی موضوعات کو اپنے اندر سمو نا چاہتا ہے۔ آج کا فنکار گزشتہ فنکاروں سے زیادہ حساس ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ منٹو نے سماج میں پھیلے ہوئے ناسور کی نشتر زنی  اپنے افسانوں سے کی لیکن معا صر اردو افسانہ کے افسانہ نگار بھی اس سے الگ نہیں ہیں۔ ان کی تخلیقات میں سماج میں پھیلی برائی کی نشتر زنی ملتی ہے۔ منٹو نے اس سماج کو دیکھا جس میں طوائفوں کے کو ٹھے ہوا کرتے تھے اور سفید پوش رات کی تا ریکی میں اپنی ہوس مٹا کر دن کے اجالے میں ان ہی طوائفوں پر انگلیا ںاٹھا تے تھے۔منٹونے ان طوائفوں کے اندر ایک عورت کو محسوس کیا تھا اور حقیقتوں کو سامنے لا کر انھیں عورت کے مقام پر کھڑا کرنا چاہتا تھا تا کہ وہ عورت طوائف کی دنیا سے نکل کر ایک با عزت عورت کی شکل میں سماج میں اپنا مقام حا صل کر سکے۔آج کا فنکار بھی اسی خیال کو اپنی تخلیقات میں پیش کرتا ہے۔ قحبہ خانے آج بھی ہیں لیکن ساتھ ہی مہذب قحبہ خانے بھی اسی معاشرے میں ہیں اور جسموں کی تجارت بڑے ہی شوق سے ہورہی ہے اور یہ ایک فیشن بن چکا ہے۔ مغرب کی تقلید نے مشرقی ممالک کوبھی فیشن پرست بنا دیا ہے اور جنسی تعلقات کو  عیب نہیں بلکہ ایک فیشن سے تعبیر کر رہا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وبا سے زبردست جوجھ رہا ہے ۔ آج کا فنکار ان مو ضوعات کو اپنی تخلیقات میں پیش کرتا ہے۔

معا صر اردو افسانہ کئی چنو تیوں سے نبرد آز ما ہے۔ سابقہ افسانے اور افسانہ نگاروں کے سامنے محدود چنوتیاں تھیں، مو ضو عات بہت تھے، آج کے فنکار کے پاس بھی ہیں لیکن انھیں بہت زیادہ  چنوتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آج کا افسانہ دوراہے پر کھڑا ہے۔جب ترقی پسندی کا زور ٹوٹنے لگا اور جدیدیت کا غلبہ ہونے لگا اس وقت بھی افسانہ دوراہے پر کھڑا تھا لیکن وہاں ترسیل کا مسئلہ تھا لیکن آج کے افسانے کے پاس ترسیل کا مسئلہ نہیں بلکہ اظہار کے ذریعے اس کے اطلاق کا ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ معا صر افسانہ کسی طرح اپنے رویے سے سمجھوتہ نہیں کرتا کیونکہ آج کا فنکار مو ضوعات کو سامنے رکھ کر اعتدال کے ساتھ اپنے خیالات اور جذ بات کا اظہار کرتا ہے۔ رجحانات کے معا ملے میں قاری ادب سے جڑ رہا ہے ،افسانے کی قرأت کو اپنا شیوہ بنا رہا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں۔

افسانہ نگاروں کی نئی نسل جو 2000 کے بعد افسانے کی دنیا میں قدم رکھا،بڑے ہی حساس انداز میں اور طمطراق انداز میں اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔ آج پوری دنیا الیکٹرونک میڈیا سے نکل کرشوسل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہو چکی ہے۔ انسان کی ضرورتیں بھی بے انتہا بڑھ گئیں ہیں، ساتھ ہی انسان کی مصروفیات میں بھی کمی کے بجائے زیادتی ہوئی ہے۔ آج کا انسان پہلے کے مقا بلے بہت زیادہ مصروف ہوگیا ہے تاہم اس نے ادب سے اپنا رشتہ اب بھی استوار رکھا ہے اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ معا صر ادب اپنے سفر کو نہا یت ہی معتدل انداز سے جا ری رکھے ہوئے ہے اور اس معا صرادب میں معا صر اردو افسانہ اپنی مستحکم شنا خت بنا چکا ہے اور اس طرح آگے کی طرف رواں دوا ںہے جو ایک خوش آئند قدم ہے۔یہ تو قو می سطح کی گفتگو ہوئی لیکن جب مغربی بنگا کی سطح پر اردو افسانے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں توہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ مغربی بنگا ل بھی اور دوسری ریا ستوں کے ساتھ اردوادب کی خدمت میں پیچھے نہیں رہا ہے۔

مغربی بنگا ل میں افسانہ نگاری کی ابتدا غالبا 1910  کے قریب ہوئی۔ یہاں کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ڈاکٹر عندلیب شادانی، راحت آرا بیگم، صالحہ بیگم مخفی،ل۔ احمد، اکبر آبادی،شائستہ سہر وردی، حسن نجمی سکندر پوری، جوہر غازی پوری،شمس صابری، شین مظفر پوری  طاہرہ دیوی شیرازی، شاہ مقبول احمد اسحاق امرتسری، شریف چکوالی، قیس شیخ پوری  وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر عندلیب شادانی جو بہت دنوں تک پریم پجاری کے نا م سے لکھتے رہے۔ان کے دو افسانوی مجموعے ’سچی کہانیاں ‘ اور’ نوش و نیش ‘ منظر عام پر آئے۔راحت آرائ بیگم کے چھ افسانوی مجموعے انقلاب، بدو کی بٹی، بانسری کی آواز، پریمی،دلنواز منظر عام پر آئیں۔صالحہ بیگم مخفی کا افسانوی مجموعہ نیا شاہکار ( مظا ہرات مخفی ) کے نام سے شائع ہوا۔ اس میں کل گیارہ یک حرفی افسانے ہیں۔اس طرح دیگر افسانہ نگاروں کے بھی کئی ایک افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔   ابتدائی افسانہ نگاری کے بعد جب ترقی پسند ی کا زمانہ آیا تو بھی مغربی بنگال کے افسانہ نگاروں نے اس کا ساتھ دیا۔مغربی بنگا ل کے ترقی پسند افسانہ نگاروں میں اہم نام  نشاط ا لا یمان جن کا افسانوی مجموعہ ’لیل و نہار ‘، شمس صابری کا افسانوی مجموعہ ’دھند اور کرن‘، ڈاکٹر جاوید نہال کا ’پھول رانی‘،سالک لکھنوی کا ’عذرا اور دیگر افسانے ‘، شانتی رنجن بھٹاچاریہ کا ’شاعر کی شادی ‘ اور ’ راہ کا کانٹا‘ یونس احمر کا ’ سنگریزے‘منظر عام آئے اور وقت کی ضرورت کو پورا کیا۔جدیدیت کا اثر مغربی بنگا ل کے اردو افسانوں پر بھی پڑااور یہاں کے افسانہ نگاروں نے بھی علامتی، استعاراتی اور تمثیلی افسانے لکھے۔ ان میںایک نام ظفر اگانو ی کا ہے جن کا اکلوتا افسانوی مجموعہ ’بیچ کا ورق‘ ہے۔انیس رفیع کاتین افسانوی مجموعے ’اب وہ اتر نے والا ہے‘، ’ کر فیو سخت  ہے‘ اور ’ گداگر سرائے ‘ ہیں۔ فیروز عابد کا ’اندھی گلی میں صبح، نقش بر آب، کھلے آسمان کے نیچے ‘ ہیں۔ ڈاکٹرعابد ضمیر کا’ڈوبتے سورج کا کرب‘ کے علاوہ ان کے اور افسانوی مجموعے ’دل کی تحریر‘، ’شطرنج کے مہرے ‘، بھیگی پلکیں وغیرہ ہیں۔شمس ندیم کے افسانے زخمی خوابوں کا کرب،سرخ عورت، نیلا گھوڑا،اور سیاہ روشنی کا شکاری اہم ہیں۔سہیل واسطی کے افسانے رنگوں میں گھرا آدمی، اسموک اسکرینِ، شانتی پیدا ہوئی، پش بسٹن اور پلک اہم ہیں۔  نذیراحمد یو سفی کا افسانوی مجموعہ چپ فضا میں عذاب، دو سو  قدم کا ڈر ہے۔ ڈاکٹر عشرت بیتا ب کے افسانوی مجموعے بے ثمرحیات، ٹھنڈی آنچ کا سورج  وغیرہ ہیں، سفید ساڑی والی عورت ِ،سورج میں اٹکا ہوا ایک قدم، ٹھنڈی آنچ کا سورج ان اہم علامتی افسانے ہیں۔ سعید پریمی کا افسانوی مجموعے ’ چہرے کی واپسی‘ 1982 میں اور’میرے اپنے‘ 2008 میں شائع ہوئے۔ ان کے علاوہ اظہارالا سلام کا افسانوی مجموعہ’واپسی‘ ہے ان کے علامتی افسانوں میں وہ آدمی، اجنبی، سوراخ، دھواں ہیں۔ مشتاق اعظمی کے دوافسانوی مجموعے ’آدھا آدمی‘  اور ’ نا رسیدہ‘ ہیں۔جلیل عشرت کا افسانوی مجموعہ اکیسویں صدی کا گوتم، نئی صدی کی بیٹی  ہے۔ ضیائ الرحمن  ضیائ کا افسانوی مجموعہ ’ فصیلوں کا  قیدی‘ ہے۔صدیق عالم کاافسانوی مجموعے’آخری چھائوں‘ 1982 میں اور’لیمپ جلانے والے‘ 2008 میں شائع ہوئے، محمود یٰسین کا افسانوی مجموعہ ’ نئی بستی کا رزمیہ اور دیگر افسانے ‘  ہے۔ ان کے اہم علامتی افسانے شکست خوردہ، نئی بستی کا رزمیہ، وغیرہ ہیں۔سلیم خاںہمرازکے دو افسانوی مجموعے ’ڈیڈ لائن‘ اور ندی میں اترتا سمندر ہیں۔ شبیر اختر کا افسانوی مجموعہ ’ سنسان جنگلوں کا راستہ ‘ ہے۔ ڈاکٹر مشتاق انجم کے افسانوی مجموعہ ’بے گھری ‘ اور ’ تلاش ‘ ہیں ۔  ان کے اہم علامتی افسانوں میں رات کا مسافر، نصف زمین میں گڑا ہوا آدمی،بے روح پرندہ وغیرہ ہیں۔شبیر احمد کا افسانوی مجموعہ ’چو تھا فنکار‘ ہے۔انیس النبی کا افسانوی مجموعہ ’پرندے ‘ ہے۔سلیم سرفراز کے تین افسانوی مجموعے منظر عام پرآچکے ہیں ان میں خواب کنارے، یا د سہارے، دھوپ سنوارے ہیں۔  جا وید نہال حشمی کا افسانوی مجموعہ ’دیوار ‘ ہے۔ عظیم اللہ ہاشمی کا افسانوی مجموعہ’ دیدۂ  نم ‘ ہے راقم الحروف ( محمد علی حسین شائق ) کے دو مجموعے منظر م پر آ چکے ہیں۔ان میں کرچیوں میں بٹا انسان، اور اترکے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ڈ اکٹر شہناز نبی، شبیر اصغر، وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

جدیدیت کا زور جب ختم ہوا تو مغربی بنگال کے افسانہ نگاروں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور یہاں بھی علامتوں  سے نکل کر بیانیہ افسانے لکھے جا نے لگے۔ان افسانوں میں سماج کے مسائل، تہذیب کا گرتا معیار، اخلاقی قدروں کی پا مالی،وغیرہ کے موضوعات چھا ئے رہے تب تک 2000 کا سال آگیا۔معا صر اردو افسانے کے حوالے سے جب ہم 2000کے بعد کے افسانوں کامطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آج بھی ان افسانہ نگاروں کے جو 1960 ا ور 1980 کی دہائی میں افسانے لکھے ہیں 2000 کے بعد بھی ان کا افسانوی سفر جاری ہے اور معا صرا حساسات کو ملحوظ خا طر افسانے لکھ رہے ہیں جس میں اشتراکی پہلو بھی غالب رہتا ہے،بدلتی قدروں کا ساتھ دیتے ہوئے اساطیر ی ادب کو بھی برت رہے ہیں اور علامتوں کا فنکارانہ استعمال بھی کیا جا رہاہے۔ آج کا ادب عصری تقا ضوں کو صحت مند طریقے سے برت رہا ہے اورسفر کو آگے بڑھا ئے جا رہا ہے۔

معا صر اردو افسانے کی روایت کو آگے بڑھا نے میں جن فنکاروں نے اپنی خدمات پیش کیں ا ن میں صدیق عالم، عشرت بیتاب، مشتاق انجم، خورشید اختر فرازی، شین کنور،  شہیرہ مسرور،  انیس النبی،  شہناز نبی،  یا سمین اختر، سلیم سرفراز، عظیم اللہ ہاشمی،جاوید نہال حشمی، ریا ض دانش، مسرور تمنا،نسیم اشک، طلعت انجم فخر اور راقم الحرو ف کا نا م شامل کیا جا سکتا ہے۔ درج بالا ناموں کے علاوہ اور  بھی بہت سے نام ہیں جن کو اس میں شامل نہیں کیاجا سکا  ہے لیکن ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے۔

معا صر اردو افسانہ بھی اپنی روش کو اپنا ئے ہوئے ہے۔ مغربی بنگال کے معاصر اردو افسانہ نگاروں میں 2000 کے بعد کم تعداد میں سامنے آئے ہیں تا ہم یہ بھی ہے کہ 2000 سے قبل لکھنے والے افسانہ نگاراب بھی لکھ رہے ہیں اور ان کے افسانے بھی معا صر ادب کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ معا صر اردوافسانہ ابھی نئے افسانہ نگاروں کی روش پر چل رہا ہے اور افسانہ نگارضرورت کے تحت اور ما حول کی مناسبت سے افسانے لکھ رہے ہیں۔

مغربی بنگا ل کے معا صر اردو افسانے کی فضا میں ایک نام ڈاکٹر عشرت بیتاب کا ہے جو اپنی زندگی کے 80 کے پڑائو میں آچکے ہیں جن کے یہاں بیانیہ افسانے بھی ملتے ہیں، علامتی و استعاراتی افسانے بھی نظر آتے ہیں  لیکن 2000 کے بعد کا جومنظر نامہ ہمارے سامنے موجود ہے جہاں انسانوں کے اندر انسانیت اور اپنے آبا و اجداد کی وراثت کی حفاظت کی ذمے داری تو دور کی بات رہی، اس کی اہمیت تک کو ہم نہیں سمجھتے۔موصوف کا ایک افسانہ ’بے حسی ‘جو 2006 میں شائع ہوا اس خیال کو پیش کرتا ہے۔ آج کا ادب ہم سے اپنے اسلاف کی نشانی کی حفاظت کا متقا ضی ہے۔ کہانی کے اختتام پر قاری فکر کی گہرائی میں غوطہ زن ہو کر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ہمارے سماج میں تیسری جنس کے لوگ بھی رہتے ہیں جنہیں ہمارا سماج قبول نہیں کرتا ہے یا انھیں احترام کی نظروں سے نہیںدیکھتا ہے لیکن اس تیسری جنس کے اندر اپنے ا سلاف کو یاد رکھنے کا عمل ہمارے مہذب سماج میں رہ رہے انسانوں کو جھنجھوڑتا ہے۔ملا حظہ کیجیے:

’’ رات میری موسی سپنے میں آکر کہہ رہی تھی کہ تجھ سے مل کر مو سی والی وہ کہانی لیے لیں ‘‘

  ’’کون موسی والی کہانی؟‘‘

  ’’ ارے وہی...کیا اچھا سانام بتایا تھا موسی نے... رات کے سپنے میں !‘‘ اور پھر کمر لچکا کر کچھ سوچنے لگی۔ ’’ہاں ِہاں...بے نور ن والی آنکھ۔ ‘‘

’’ بے نور آنکھیں۔‘‘ میں نے اصلاح کی۔

 ’’ ہا ں وہی۔۔تم نے موسی پر اس میں کچھ لکھا ہے نا! ‘‘

’’ ارے با با، ہجڑوں پر میری کئی کہا نیا ں ہیں، لیکن بے نور آنکھیں... بھٹیا والی کہا نی ‘‘

’’ ہا ں ! بھٹیا ہی تو میری موسی تھی... میرے کل کی سردار نی ! ‘‘

’’ تم کیا کرو گی اسے لے کر ؟ ‘‘

’’ موسی نے کہا کہ اسے فریم میں چڑھوا کر دیوار میں لٹکانے کو... اومیری اماں... سنہرے گوٹے میں... سج رہی... ‘‘               

کہانی لے کر وہ لوگ چلی گئیں لیکن میں کھڑا سوچتا رہ گیا... کہ انھیں اپنے پروجوں سے کتنی عقیدت ہے... اے کاش... ‘‘

اس طرح کی کئی اور کہا نیاں ہیں جو انھوں نے تخلیق کیں ہیں۔

ایک دوسرا معتبر نا م ڈا کٹر مشتاق انجم کا ہے۔ وہ بھی 80 کی دہائی سے افسانہ لکھ رہے ہیںاور اب تک ان کے کئی ایک افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ انھوں نے بیانیہ افسانے بھی لکھے، علامتی اور استعاراتی افسانے اور اب بھی لکھ رہے ہیں۔ ان کے افسانوں میں اعتدال پسندی مکمل طور پر غا لب نظر آتی ہے۔  وہ اپنے بیانیہ پن میں ہی علامت اور استعاروں کو استعمال کر دیتے ہیں اور افسانے کے اندر افسانہ پن بھی برقرار رہتا ہے۔ ان کا ایک افسانہ ’ آب گزیدہ‘ جو سہ ماہی ذہن جدید دسمبر، فروری  2011 میں شائع ہوا،اسے پڑھ کر بخوبی اندازہ لگا یا سکتا ہے کہ ان کے افسانے میں بیانیہ پن بھی ہے،کردار بھی ہے ساتھ ہی سہل علامتوں کا استعمال بھی ہے ملا حظہ کیجیے:

’’ پانی میں رہ کر مگر مچھ سے بیر ‘‘

 اس میںکس قدر مفہوم چھپا ہوا ہے۔ علامت کا سہل استعمال۔ یعنی ایساماحول جو اس انسان کے مزاج کے با لکل بر عکس ہو وہاں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے،بلکہ اس کے رحم و کرم پر رہنا پڑتا ہے۔ یہاں اذیت کو بطور علامت استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اسی افسانے میں ایک کوا گویا ہوتا ہے۔ ملا حظہ کیجیے:

’’ خودداری کو مٹھی میں بند کرکے پا نی کے قریب جا یا جا سکتا ہے۔‘‘

 آج کے ما حول میںخوددار ہونا اور حساس ہونا مشکل میں پھنسنا ہے۔کہانی جب آگے بڑھتی ہے تو ایک عمر دراز شخص کہانی کے کینوس پر ابھرتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک فریم ہے،کہانی کار اس فریم کو دیکھتا ہے،۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے اور اس کو بکواس آرٹ سمجھتا ہے لیکن بعد میں اسے احساس ہوتا ہے کہ موجودہ سماج کے نظام کا ڈھا نچہ ہی یہی ہے۔ ملا حظہ کیجیے:

’’ اس نے ایک بار فریم پر نظر ڈالی۔

 ڈاکٹر کی کرسی پر ڈاکو، وکیل کی کرسی پر پاکٹ مار، جج کی کرسی پرجلاد، وزیر کی کرسی پرلومڑی،راجہ کی کرسی پر گدھا،چوہے کی کرسی پر شیر، افسر کی کرسی پر سور...

اس نے نظریں اٹھا کر بزرگ کی طرف دیکھا

’’ ارے بڑے میاں کہاں گئے ؟‘‘

  دفعتا کانوں میں آواز آئی۔

’’ پانی میں رہ کر مگر مچھ سے بیر ‘‘

 گھڑیال کا چہرہ نظر نہیں آیالیکن پانی میں ہلچل اس کی موجودگی کا احساس دلارہی تھی !

   تب دور سے ایک آواز ابھری

   ’’ خودداری کو مٹھی میں رکھ کر پانی کے قریب جا یا جا سکتا ہے۔‘‘

       2000  کے بعد کے افسانوں میں ایک ا فسانہ ’انتقام ‘ ہے جس کے خالق خورشید فرازی ہیں وہ بھی ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔انھوں نے اخلاقی قدروں کا گرتا ہوا معیار،زمانے کے شکست وریخت کی باتوں کو نہایت ہی سہل زبان میں افسانوی رنگ عطا کردیا ہے۔ ان کا افسانہ ’ انتقام‘2007 میں سہ ماہی رسالہ مژگاں میں شائع ہوا۔ اس افسانے میں موصوف نے انسانی فطرت کی خوبصورت عکاسی کی ہے۔ انسان کی فطرت کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی ہے لیکن اس کا احساس بعد میں ہوتا ہے۔ افسانے کے دو کردار ہمارے سامنے ہیں۔ پہلا کردار عادل نواب کا دوسرا  احمر امن کا۔ پہلا کردار ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہونے کے ساتھ ایک ادیب و افسانہ نگار بھی ہے۔ دوسرا کردار احمرامان ایک صحافی ہے۔ موصوف نے ان دونوںکرداروں کے ذریعے انسان کے منفی اور مثبت پہلوٗوں کو اجا گر کرنے کی کوشش کی ہے۔عادل نواب ہمیشہ احمر امان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہا لیکن احمر امان نے ہمیشہ اپنی مثبت سوچ کے ساتھ کام کرتے ہوئے عادل نواب کو اس کی شخصیت کو اوپر کرتا رہا۔ نتیجے میں بعد میں عادل نواب کواس بات کا احساس  ہوا اور اس  نے بھری محفل میں اپنی غلطی کا اقرار کیا جس سے اس کا قد چھوٹا نہیں بلکہ اور بڑا ہو گیا اور احمر امان کی عظیم شخصیت میں عظمت کے مزید چاند ستارے ٹانک دیے گئے۔ 2000 کے بعد ہمارے سماج میں گرتی ہوئی اخلاقی قدروں کا مسئلہ در پیش تھا اوراب بھی ہے لیکن ہمارے افسانہ نگاروں نے ہمیشہ اس بات کو محسوس کیا اور ان مو ضوعات پر افسانے لکھے۔

انیس النبی کا افسانہ ’بھرت راج ‘ ہندوستان کی موجودہ سیا سی صورت حال کی بہترین عکاسی کرتا ہے جہاں اقتدار کی حصولیا بی کے لیے مذہبی ہتھکنڈے اپنائے جا تے ہیں اور ملک کے سیدھے سادے عوام کو الٹی سیدھی باتیں کر کے اپنا الو سیدھا کیا جاتا ہے۔شبیر احمد کا افسانہ ’’ بشرجن ‘‘ انسانی نفسیات کی بہترین تر جمانی کرتا ہے۔ انسان نفسیاتی طور پربہت کمزور پیدا ہوتا ہے۔ اس کو تقویت اس کے اندر کی خود اعتمادی بخشتی ہے تب جا کر وہ اس نفسیات سے نکل پاتا ہے۔ انسان کے ذہن میں جو بات بیٹھ جاتی ہے اسے نکالنا بہت مشکل ہو جا تا ہے اور یہ کام ماہر نفسیات ہی کر سکتے ہی۔ڈاکٹر شاہد فروغی کا افسانہ’سڑا ہوا ہاتھ‘ایک اچھا افسانہ ہے۔ کبھی کبھی انسان اپنی زندگی سے تنگ آکر خود کشی کا ارادہ کرتا ہے اور اس کام کے لیے وہ پوری تیاری بھی کرلیتا ہے لیکن اسی لمحے جب دوسرے کا خیال اسے آتا ہے تو وہ خود کشی کا ارادہ ترک کردیتا ہے اور دوسرے کی خاطر زندہ رہنے کا عہد کر لیتا ہے اس طرح اس کی زندگی غلط عمل کرنے سے بچ جاتی ہے۔ افسانہ ’سڑا ہوا ہاتھ‘ اسی خٰیال کو پیش کرتا ہے۔۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اور دہشت گرد نہ ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان بلکہ وہ صرف اور صرف ایک دہشت گرد ہو تا ہے جس کا مقصد لوگوں کے امن و سکون کو غارت کرنا ہوتا ہے، لوگوں کے چہروں سے خو شی چھیننا ہوتا ہے اس کے علاوہ اس کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی کا افسانہ ’نیل گگن کے تارے‘ اسی خیال کو ظاہر کرتا ہے۔ معاصر اردو افسانہ آج ایسے موضوعات سے بھرا پڑا ہے۔

سائنس اور ٹکنا لوجی کی بے پناہ ترقی کے مثبت اور منفی نتائج سے بے خبر آج کا انسان اس کے پیچھے اس لیے بھا گا جا رہا ہے کہ لوگ اسے ترقی یافتہ سمجھیں۔ حا لانکہ سائنس اور ٹکنالوجی کی ایجاد  سے جتنا فائدہ انسان کو ملا ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا ہے اور ہوش انسان کو اس وقت آتا ہے جب بہت دیر ہوجاتی ہے۔عصر حاضر میں مو بائل ٹاور اور نت نئے قسم کی ایجادات نے انسانوں کو فائدہ پہنچایا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا یا ہے۔ ارشد نیازکا افسانہ ’ ای وائرس ‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں یہ خیا ل پیش کیا گیا ہے۔ اس وائرس کی ایجاد سے ذہنی طورپر مفلوج انسانوں کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے اور افسانہ نگار اس کا موجد ہے اور اس کا تجربہ اپنے ہی بچے پر کرتا ہے جس کامثبت اثر بھی دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن اسی لمحے اس کے منفی اثرات کاخیال اس کے ذہن میں آتا ہے اور اسے اینٹی وائرس  سے اس ای وائرس کوختم کر دیتا ہے۔نسیم اشک کا افسانہ ’ گم شدہ ‘ عصر حا ضر کے بدلتے انسانی چہروں کی کہانی ہے۔ انسان وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ چل رہا ہے اور تیزی سے اپنے چہرے و قت کے تقا ضے کے مطابق بدل رہا ہے۔ خوف خدا سے خالی دل ایک پل کو بھی یہ سوچ کر نہیں گھبراتا ہے کہ اتنے چہرے بدلتے بدلتے اس کا اپنا چہرہ بھی مسخ ہو گیا ہے۔ آج کا انسان اتنا ترقی یافتہ ہو گیا ہے کہ وہ یہ بات بھول گیا ہے کہ ایک روز اسے اپنے رب کے پاس لو ٹنا بھی ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ جملے...

’’ اب اسے ذرہ برابر بھی ملال نہ تھا کہ اس کا چہرہ کھو گیا ہے، دوسروں کے پاس بھی ان کے چہرے نہیںہیں اور وہ سبھی خوش ہیں تو پھر وہ کیوں چہرے کے نہ ہونے کا غم کرے۔ ‘‘ (افسانہ: گم شدہ )

یہ انسانی زندگی کا المیہ ہے کہ وہ حقیقت سے اس قدر بیگانہ ہو چکا ہے کہ خود اپنے آپ کو پہچان نہیں پا رہا ہے۔

نسیم اشک کا دوسرا افسانہ ’ مٹتی تصویریں ‘ ہے۔ یہ ایک کہانی کار کی کہانی ہے۔ جب وہ اپنی کہانی ختم کرنے کے لیے ایک شہر جاتا ہے تو وہاں کی زندگی دیکھ کر حیران ہو جا تا ہے۔ ملک اور سماج میں ابھر تے نئے مسائل کو دیکھ کر گھبرا جا تا ہے۔ حقیقی زندگی کو قریب سے د یکھنے کے بعد وہ سوچتا ہے کہ کیا وہ جو کہا نی کہہ رہا ہے اس کا حقیقت سے واسطہ بھی ہے؟ مفلسی، تنگدستی، لا چاری جیسے مسائل سے قطع نظر کہانی کا آخر کیا وجود ہے ؟ ملا حظہ کیجیے:

’’ اس نے مجھے روک کر کہا، بابو وہ بڑے صا حب بھی یہا ں آتے ہیں وہ ہماری زندگی کی تر جمانی کرتے ہیں وہ بہت بڑے فنکار ہیں جب بھی یہاں آتے ہیں منھ پر کپڑااور ایک منرل واٹر کی بو تل ضرور ہاتھ میں رکھتے ہیں لوگ کہتے ہیں ان کے دل میں غریبوں کا بڑا دردہے۔ ‘‘ 

(افسانہ  مٹتی تصویریں ) 

اس کے علاوہ ان کا افسانہ ’ اندھی روشنی ‘ ملک میں تیزی سے بڑھتے فرقہ وارانہ فساد کی تصویر پیش کرتا ہے۔ چند مفاد پرست لوگ کس طرح خوشحال لوگوں کی زندگی میں نفرت کی آگ بھڑ کاتے ہیں جس میں ذات و مذہب سے با لا تر انسانیت جل جاتی ہے۔ عصر حاضر میں معا صر ادب ایسے ہی مو ضوعات کو اپنے افسانوں میں شامل کر رہا ہے۔

ایسے بہت سے موضوعات لیے ہمارے افسانہ نگارآج بھی اردو ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ شہیرہ مسرور کا افسانہ ’ نسلوں کی کیل پر ٹنگا رشتہ ‘، نئی نسل کی بازیابی اور اس کے اندر اپنی تہذیب کو بچانے کا پیغام دیتا ہے۔ شہناز نبی کاافسانہ ’کبڑو ں کی بستی‘ ایک علامتی افسانہ ہے لیکن علامت کے استعمال میں سہل پسندی ہے جو قا ری کی تر سیل تک ہے۔ جاویدنہال حشمی کا افسانہ ’ جڑوں کی تلاش ‘ موجودہ صورت حال کی بہترین نمائندگی کرتا ہے۔ شبیر احمد کا ’ بشرجن ‘ انیس النبی کا ’بھرت راج‘، راقم الحروف کا ’کرچیوں میں بٹاانسان ‘، شبیر اصغر کا ’چار انگلیوں والا آدمی‘  عظیم اللہ ہاشمی کا’ ’نیل گگن کے تارے‘ شکیل افروز کا ’سیاہ تاج ‘ ریاض دانش کا ’ گھڑی ‘  نسیم اشک کا ’مٹتی تصویریں اور گم شدہ ‘ وغیرہ ایسے افسانے ہیں  جو2000 کے بعد اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔ یہ تمام افسانے عصر حاضر کے مسائل کی نمائندگی کرتے ہیں۔

ایک بات اور ہے کہ یہ تمام افسانے نہ صرف مسائل کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں بلکہ ان مسائل کے حل کے راستے بھی نکالتے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ معا صر اردو افسانہ نے روایت کااحترام بھی کیا ہے، حالات پر کاری ضرب بھی لگا یا ہے اور اس میں بیانیہ پن کا خیال بھی رکھا ہے تو کردار کی اہمیت کو اجاگر بھی کیا ہے، ساتھ ہی اس میں فنی ستارے بھی ٹا نکے ہیں اور علامتوں اور استعاروں کا خوبصورت استعمال بھی کیا ہے۔ معا صر اردو افسانہ اب رومان پسندی کو راہ نہیں دیتا بلکہ مسائل کو سامنے لا تا ہے اور اس کے حل کے راستے بھی تلاش کرتا ہے تاکہ پریشان حا ل انسان ان تمام مسائل سے نبرد آزما ہو کر اس کے حل کی طرف مراجعت کرے اور اطمینان و سکون کی زندگی بسر کر ے۔اس کے علاوہ سماج میں پھیلی منا فرت کی دیواروں کو بھی ڈھا دے تا کہ سماج کا ہر فرد ایک دوسرے کو اپنا سجھ سکے،ایک دوسرے کے درد کو اپنا درد محسوس کرے۔آج کا افسانہ منظر نگاری سے زیادہ واقعات نگاری پر زور دیتا ہے تا کہ مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ معا صر اردو افسانہ انہی تمام باتوں کا متقاضی ہے۔مغربی بنگال کی سر زمین نے ہمیشہ ملک کے اتحاد کی بات کی ہے یہاں کے افسانہ نگاروں نے ہمیشہ ایسے افسانے کی تخلیق کی ہے جس سے نفرت کی دیوار مسمار ہوئی ہے۔

مختصر یہ کہ معا صر اردو افسانہ اپنے انداز میں خوب سے خوب تر کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ انسانی مسائل، سماجی مسائل، ڈیجیٹلائز ورلڈ کی برق رفتاری، انسانوں کی بے سمت پرواز، اخلا قی قدروں کا گرتا معیار، ہندوستا نی تہذیب کا نکلتا جنازہ کے علاوہ قومی شناخت کے مسئلے کو بھی اجا گر کرتا ہے جس سے سماج میں کافی اتار چڑھائو دیکھنے کو ملتا ہے۔ان تمام مو ضوعات کے اظہار میں معا صر اردو افسانہ اعتدال رویے مثبت رجحان کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور آنے والی نسلوں پر اس کی ذمے داری دیے جا رہا ہے جو نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے اور چنوتی بھرابھی ہے۔

 

Dr. Mohd Ali Husain Shaiq

Kashan-e-Mustafa

Gali No.: 3, Kamra No.: 1/2

Post: Jagtdal

Distt.: 24 Pargana (Shimal) - 743125(W.B)