24/9/21

مغربی بنگال میں 2000 کے بعد اردو افسانہ - مضمون نگار : محمد علی حسین شائق

 



2000کے بعد معاصر اردو افسانہ اپنے اندر نہ صرف اصلا حی پہلو لیے ہوئے ہے بلکہ اس کے اندر بیا نیہ پن بھی ہے، علامتوں اور استعاروں کا استعمال بھی ملتا ہے۔ معا صر اردو افسانہ آج کے مسائل کی منا سبت سے اپنے اندر مو ضوعات لیے قاری کے درمیان حا ضر ہوتا ہے جس سے قاری    اس کی قرأت کرتے وقت ترسیل کے مسئلے سے دوچار نہیں ہوتا ہے۔ سابقہ روایات کے مقابلے،  معا صر اردو افسانہ اپنے اندر تنوع لیے ہوئے ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ سابقہ روایات یعنی ترقی پسند تحریک، جدیدیت کے رجحان اور اصلا حی پہلو تہی کرنے والے زیادہ تر افسانہ نگار،معا صراردو افسانے کے تحت ایسے افسانے تخلیق کررہے ہیں جس میں قاری کے لیے ذہنی آسو دگی بھی ملتی ہے، تنوع بھی رہتا ہے، بیانیہ پن کا احساس بھی ملتا ہے اور ترسیل کا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ 2000 کے بعد کا افسانوی منظر نامہ سابقہ منظر ناموں کے مقابلے بہت ہی حو صلہ مند رہا ہے۔

اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہوگی کہ معاصر اردو افسانہ نہ صرف اپنے اندر بیا نیہ پن لیے رہتا ہے بلکہ اس کے ساتھ علامتوں اور استعاروں کا استعمال بھی ملتا ہے لیکن ایسی علامتوں اور استعاروں کا استعمال معا صر اردو افسانہ قطعی نہیں کر رہا ہے جس کے اندر ثقالت ہو۔ قاری وہی افسانے پسند کرتے ہیں جس میں ثقالت نہ ہو، ترسیل کا مسئلہ نہ ہواو ر قار ی اس کی ترسیل میں کوئی دقت محسوس نہ کرے۔معاصر اردو افسانہ ایسے افسانے کا متقا ضی ہے جس میں بیانیہ پن بھی ہو، تنوع بھی ہو، کردار بھی ہو، علامتوں اور استعاروں کا استعمال بھی ہوتو یقینا وہ افسانہ قاری کو اپنی طرف راغب کرے گا۔

جہاں تک معاصر اردوافسانے میں رویے اور رجحانات کا تعلق ہے تو اس بات کو محسوس کیا جا سکتا ہے کہ معا صر اردو افسانہ اپنے اندر ایک احتجاج کی لے رہتا ہے لیکن اس میں شدت پسندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ آج کا افسانہ نگار احتجاج کی لے بلند کرتا ہے لیکن اس میں دھیما پن رہتا ہے۔ معا صر اردو افسانہ منافرت بھرے ما حول سے نکل کر اطمینان و سکون کے ما حول کا متقاضی ہے۔یہ گرتی ہوئی اخلا قی قدروں کی پا مالی کا احتجا جی رویہ پیش کرتا ہے، سماج میں پھیلی معاشی نا ہمواریوں کی صدا بلند کرتا ہے، اس کے افسانے میں جذباتیت رہتی ہے لیکن اس کی آنچ میں دھیما پن رہتا ہے،اس میںاجتماعیت کے مسئلے کا اظہار بھی ملتا ہے اور انفرادیت کے مسئلے کا اظہار بھی۔ جدیدیت کے رجحان میں جہاں اردو افسانہ شناخت کے مسئلے سے دوچار تھا تو اس وقت کے حا لات کچھ اور تھے لیکن آج کا اردو افسانہ بھی شناخت کے مسئلے کو قاری کے سامنے رکھتا ہے۔ جدیدیت میں شنا خت کا مسئلہ تقسیم ہند کے تناظر میں پیدا ہوا تھا لیکن اپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے یہاں کا قاری شناخت کے مسئلے سے دوچار ہے، معاشی طور پر، اخلاقی طور پر اس لیے،معا صر اردو افسا نہ شناخت کے مسئلے کوبھی سامنے رکھتا ہے۔

معاصر اردو افسانے کے رویے اور رجحانات میں فرق ضرور آئے ہیں لیکن مسئلہ وہی ہے،سابقہ سماج میں بھی قنو طیت کا مسئلہ تھا،آج کے سماج میں بھی۔ اس لیے سماج مسا ئل کے معا ملے میں زیادہ بد لا ہوا نظر نہیں آرہا ہے بلکہ کم و بیش اسی ڈگر پر رواں دواں ہے،لیکن انداز بیان میں تبدیلی ضرور آئی ہے۔ معاصر اردو افسانہ مغرب کی گندی تہذب کو مشرق میں سرایت کرنے پر ایک کاری ضرب لگاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں عریانیت کے حوالے سے انسان کے اندر جو شیطانی خیا لات  پنپتے ہیں اس کا اظہاربھی کرتا ہے۔

آج معا صر اردو افسانہ ایک مرتبہ پھر پریم چند کے اس خیال کی تشریح چاہتا ہے جو انھوں نے انجمن ترقی پسند مصننفین کے جلسے میں صدارتی خطبے کے دوران کہا تھا کہ ’’ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہو گا۔ ‘‘ آج کا اردو افسانہ آخر کس حسن کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔؟سائنسی طور پر ہمارا ذہن بہت ترقی کر چکا ہے۔ گھنٹوں کے مسئلے کو منٹوں میں اور منٹوں کے مسئلے کو سکنڈ میں حل کر رہا ہے لیکن کیا ہمارا ذہن اس بات سے قطعی پیچھا چھڑا لے گا کہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں بے پناہ ترقی کے باوجود ہمارا سماج اخلاقی گراوٹ کا زبر دست شکار ہوچکا ہے۔اخلاقی اور تہذیبی گراوٹ ترقی کی نشانی نہیں ہو سکتی،ہمیں حسن کے معیا ر میں تبدیلی لانی ہو گی،سوچ میں استحکام لا نا ہو گا۔آسمانوں کی بلندیوں اور زمین کی تہوں میں پہنچنے سے ہمارا سماج مہذب نہیں کہلا ئے گا۔ ایک سماج کے مہذب کہلا نے کے لیے اخلاقی، تہذیبی، معا شی،اور سما جی نا ہمواریوں کو ختم کرنا ہو گا۔ معا صر اردو افسانہ ایسے ہی موضوعات کو اپنے اندر سمو نا چاہتا ہے۔ آج کا فنکار گزشتہ فنکاروں سے زیادہ حساس ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ منٹو نے سماج میں پھیلے ہوئے ناسور کی نشتر زنی  اپنے افسانوں سے کی لیکن معا صر اردو افسانہ کے افسانہ نگار بھی اس سے الگ نہیں ہیں۔ ان کی تخلیقات میں سماج میں پھیلی برائی کی نشتر زنی ملتی ہے۔ منٹو نے اس سماج کو دیکھا جس میں طوائفوں کے کو ٹھے ہوا کرتے تھے اور سفید پوش رات کی تا ریکی میں اپنی ہوس مٹا کر دن کے اجالے میں ان ہی طوائفوں پر انگلیا ںاٹھا تے تھے۔منٹونے ان طوائفوں کے اندر ایک عورت کو محسوس کیا تھا اور حقیقتوں کو سامنے لا کر انھیں عورت کے مقام پر کھڑا کرنا چاہتا تھا تا کہ وہ عورت طوائف کی دنیا سے نکل کر ایک با عزت عورت کی شکل میں سماج میں اپنا مقام حا صل کر سکے۔آج کا فنکار بھی اسی خیال کو اپنی تخلیقات میں پیش کرتا ہے۔ قحبہ خانے آج بھی ہیں لیکن ساتھ ہی مہذب قحبہ خانے بھی اسی معاشرے میں ہیں اور جسموں کی تجارت بڑے ہی شوق سے ہورہی ہے اور یہ ایک فیشن بن چکا ہے۔ مغرب کی تقلید نے مشرقی ممالک کوبھی فیشن پرست بنا دیا ہے اور جنسی تعلقات کو  عیب نہیں بلکہ ایک فیشن سے تعبیر کر رہا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وبا سے زبردست جوجھ رہا ہے ۔ آج کا فنکار ان مو ضوعات کو اپنی تخلیقات میں پیش کرتا ہے۔

معا صر اردو افسانہ کئی چنو تیوں سے نبرد آز ما ہے۔ سابقہ افسانے اور افسانہ نگاروں کے سامنے محدود چنوتیاں تھیں، مو ضو عات بہت تھے، آج کے فنکار کے پاس بھی ہیں لیکن انھیں بہت زیادہ  چنوتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آج کا افسانہ دوراہے پر کھڑا ہے۔جب ترقی پسندی کا زور ٹوٹنے لگا اور جدیدیت کا غلبہ ہونے لگا اس وقت بھی افسانہ دوراہے پر کھڑا تھا لیکن وہاں ترسیل کا مسئلہ تھا لیکن آج کے افسانے کے پاس ترسیل کا مسئلہ نہیں بلکہ اظہار کے ذریعے اس کے اطلاق کا ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ معا صر افسانہ کسی طرح اپنے رویے سے سمجھوتہ نہیں کرتا کیونکہ آج کا فنکار مو ضوعات کو سامنے رکھ کر اعتدال کے ساتھ اپنے خیالات اور جذ بات کا اظہار کرتا ہے۔ رجحانات کے معا ملے میں قاری ادب سے جڑ رہا ہے ،افسانے کی قرأت کو اپنا شیوہ بنا رہا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں۔

افسانہ نگاروں کی نئی نسل جو 2000 کے بعد افسانے کی دنیا میں قدم رکھا،بڑے ہی حساس انداز میں اور طمطراق انداز میں اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔ آج پوری دنیا الیکٹرونک میڈیا سے نکل کرشوسل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہو چکی ہے۔ انسان کی ضرورتیں بھی بے انتہا بڑھ گئیں ہیں، ساتھ ہی انسان کی مصروفیات میں بھی کمی کے بجائے زیادتی ہوئی ہے۔ آج کا انسان پہلے کے مقا بلے بہت زیادہ مصروف ہوگیا ہے تاہم اس نے ادب سے اپنا رشتہ اب بھی استوار رکھا ہے اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ معا صر ادب اپنے سفر کو نہا یت ہی معتدل انداز سے جا ری رکھے ہوئے ہے اور اس معا صرادب میں معا صر اردو افسانہ اپنی مستحکم شنا خت بنا چکا ہے اور اس طرح آگے کی طرف رواں دوا ںہے جو ایک خوش آئند قدم ہے۔یہ تو قو می سطح کی گفتگو ہوئی لیکن جب مغربی بنگا کی سطح پر اردو افسانے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں توہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ مغربی بنگا ل بھی اور دوسری ریا ستوں کے ساتھ اردوادب کی خدمت میں پیچھے نہیں رہا ہے۔

مغربی بنگا ل میں افسانہ نگاری کی ابتدا غالبا 1910  کے قریب ہوئی۔ یہاں کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ڈاکٹر عندلیب شادانی، راحت آرا بیگم، صالحہ بیگم مخفی،ل۔ احمد، اکبر آبادی،شائستہ سہر وردی، حسن نجمی سکندر پوری، جوہر غازی پوری،شمس صابری، شین مظفر پوری  طاہرہ دیوی شیرازی، شاہ مقبول احمد اسحاق امرتسری، شریف چکوالی، قیس شیخ پوری  وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر عندلیب شادانی جو بہت دنوں تک پریم پجاری کے نا م سے لکھتے رہے۔ان کے دو افسانوی مجموعے ’سچی کہانیاں ‘ اور’ نوش و نیش ‘ منظر عام پر آئے۔راحت آرائ بیگم کے چھ افسانوی مجموعے انقلاب، بدو کی بٹی، بانسری کی آواز، پریمی،دلنواز منظر عام پر آئیں۔صالحہ بیگم مخفی کا افسانوی مجموعہ نیا شاہکار ( مظا ہرات مخفی ) کے نام سے شائع ہوا۔ اس میں کل گیارہ یک حرفی افسانے ہیں۔اس طرح دیگر افسانہ نگاروں کے بھی کئی ایک افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔   ابتدائی افسانہ نگاری کے بعد جب ترقی پسند ی کا زمانہ آیا تو بھی مغربی بنگال کے افسانہ نگاروں نے اس کا ساتھ دیا۔مغربی بنگا ل کے ترقی پسند افسانہ نگاروں میں اہم نام  نشاط ا لا یمان جن کا افسانوی مجموعہ ’لیل و نہار ‘، شمس صابری کا افسانوی مجموعہ ’دھند اور کرن‘، ڈاکٹر جاوید نہال کا ’پھول رانی‘،سالک لکھنوی کا ’عذرا اور دیگر افسانے ‘، شانتی رنجن بھٹاچاریہ کا ’شاعر کی شادی ‘ اور ’ راہ کا کانٹا‘ یونس احمر کا ’ سنگریزے‘منظر عام آئے اور وقت کی ضرورت کو پورا کیا۔جدیدیت کا اثر مغربی بنگا ل کے اردو افسانوں پر بھی پڑااور یہاں کے افسانہ نگاروں نے بھی علامتی، استعاراتی اور تمثیلی افسانے لکھے۔ ان میںایک نام ظفر اگانو ی کا ہے جن کا اکلوتا افسانوی مجموعہ ’بیچ کا ورق‘ ہے۔انیس رفیع کاتین افسانوی مجموعے ’اب وہ اتر نے والا ہے‘، ’ کر فیو سخت  ہے‘ اور ’ گداگر سرائے ‘ ہیں۔ فیروز عابد کا ’اندھی گلی میں صبح، نقش بر آب، کھلے آسمان کے نیچے ‘ ہیں۔ ڈاکٹرعابد ضمیر کا’ڈوبتے سورج کا کرب‘ کے علاوہ ان کے اور افسانوی مجموعے ’دل کی تحریر‘، ’شطرنج کے مہرے ‘، بھیگی پلکیں وغیرہ ہیں۔شمس ندیم کے افسانے زخمی خوابوں کا کرب،سرخ عورت، نیلا گھوڑا،اور سیاہ روشنی کا شکاری اہم ہیں۔سہیل واسطی کے افسانے رنگوں میں گھرا آدمی، اسموک اسکرینِ، شانتی پیدا ہوئی، پش بسٹن اور پلک اہم ہیں۔  نذیراحمد یو سفی کا افسانوی مجموعہ چپ فضا میں عذاب، دو سو  قدم کا ڈر ہے۔ ڈاکٹر عشرت بیتا ب کے افسانوی مجموعے بے ثمرحیات، ٹھنڈی آنچ کا سورج  وغیرہ ہیں، سفید ساڑی والی عورت ِ،سورج میں اٹکا ہوا ایک قدم، ٹھنڈی آنچ کا سورج ان اہم علامتی افسانے ہیں۔ سعید پریمی کا افسانوی مجموعے ’ چہرے کی واپسی‘ 1982 میں اور’میرے اپنے‘ 2008 میں شائع ہوئے۔ ان کے علاوہ اظہارالا سلام کا افسانوی مجموعہ’واپسی‘ ہے ان کے علامتی افسانوں میں وہ آدمی، اجنبی، سوراخ، دھواں ہیں۔ مشتاق اعظمی کے دوافسانوی مجموعے ’آدھا آدمی‘  اور ’ نا رسیدہ‘ ہیں۔جلیل عشرت کا افسانوی مجموعہ اکیسویں صدی کا گوتم، نئی صدی کی بیٹی  ہے۔ ضیائ الرحمن  ضیائ کا افسانوی مجموعہ ’ فصیلوں کا  قیدی‘ ہے۔صدیق عالم کاافسانوی مجموعے’آخری چھائوں‘ 1982 میں اور’لیمپ جلانے والے‘ 2008 میں شائع ہوئے، محمود یٰسین کا افسانوی مجموعہ ’ نئی بستی کا رزمیہ اور دیگر افسانے ‘  ہے۔ ان کے اہم علامتی افسانے شکست خوردہ، نئی بستی کا رزمیہ، وغیرہ ہیں۔سلیم خاںہمرازکے دو افسانوی مجموعے ’ڈیڈ لائن‘ اور ندی میں اترتا سمندر ہیں۔ شبیر اختر کا افسانوی مجموعہ ’ سنسان جنگلوں کا راستہ ‘ ہے۔ ڈاکٹر مشتاق انجم کے افسانوی مجموعہ ’بے گھری ‘ اور ’ تلاش ‘ ہیں ۔  ان کے اہم علامتی افسانوں میں رات کا مسافر، نصف زمین میں گڑا ہوا آدمی،بے روح پرندہ وغیرہ ہیں۔شبیر احمد کا افسانوی مجموعہ ’چو تھا فنکار‘ ہے۔انیس النبی کا افسانوی مجموعہ ’پرندے ‘ ہے۔سلیم سرفراز کے تین افسانوی مجموعے منظر عام پرآچکے ہیں ان میں خواب کنارے، یا د سہارے، دھوپ سنوارے ہیں۔  جا وید نہال حشمی کا افسانوی مجموعہ ’دیوار ‘ ہے۔ عظیم اللہ ہاشمی کا افسانوی مجموعہ’ دیدۂ  نم ‘ ہے راقم الحروف ( محمد علی حسین شائق ) کے دو مجموعے منظر م پر آ چکے ہیں۔ان میں کرچیوں میں بٹا انسان، اور اترکے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ڈ اکٹر شہناز نبی، شبیر اصغر، وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

جدیدیت کا زور جب ختم ہوا تو مغربی بنگال کے افسانہ نگاروں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور یہاں بھی علامتوں  سے نکل کر بیانیہ افسانے لکھے جا نے لگے۔ان افسانوں میں سماج کے مسائل، تہذیب کا گرتا معیار، اخلاقی قدروں کی پا مالی،وغیرہ کے موضوعات چھا ئے رہے تب تک 2000 کا سال آگیا۔معا صر اردو افسانے کے حوالے سے جب ہم 2000کے بعد کے افسانوں کامطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آج بھی ان افسانہ نگاروں کے جو 1960 ا ور 1980 کی دہائی میں افسانے لکھے ہیں 2000 کے بعد بھی ان کا افسانوی سفر جاری ہے اور معا صرا حساسات کو ملحوظ خا طر افسانے لکھ رہے ہیں جس میں اشتراکی پہلو بھی غالب رہتا ہے،بدلتی قدروں کا ساتھ دیتے ہوئے اساطیر ی ادب کو بھی برت رہے ہیں اور علامتوں کا فنکارانہ استعمال بھی کیا جا رہاہے۔ آج کا ادب عصری تقا ضوں کو صحت مند طریقے سے برت رہا ہے اورسفر کو آگے بڑھا ئے جا رہا ہے۔

معا صر اردو افسانے کی روایت کو آگے بڑھا نے میں جن فنکاروں نے اپنی خدمات پیش کیں ا ن میں صدیق عالم، عشرت بیتاب، مشتاق انجم، خورشید اختر فرازی، شین کنور،  شہیرہ مسرور،  انیس النبی،  شہناز نبی،  یا سمین اختر، سلیم سرفراز، عظیم اللہ ہاشمی،جاوید نہال حشمی، ریا ض دانش، مسرور تمنا،نسیم اشک، طلعت انجم فخر اور راقم الحرو ف کا نا م شامل کیا جا سکتا ہے۔ درج بالا ناموں کے علاوہ اور  بھی بہت سے نام ہیں جن کو اس میں شامل نہیں کیاجا سکا  ہے لیکن ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے۔

معا صر اردو افسانہ بھی اپنی روش کو اپنا ئے ہوئے ہے۔ مغربی بنگال کے معاصر اردو افسانہ نگاروں میں 2000 کے بعد کم تعداد میں سامنے آئے ہیں تا ہم یہ بھی ہے کہ 2000 سے قبل لکھنے والے افسانہ نگاراب بھی لکھ رہے ہیں اور ان کے افسانے بھی معا صر ادب کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ معا صر اردوافسانہ ابھی نئے افسانہ نگاروں کی روش پر چل رہا ہے اور افسانہ نگارضرورت کے تحت اور ما حول کی مناسبت سے افسانے لکھ رہے ہیں۔

مغربی بنگا ل کے معا صر اردو افسانے کی فضا میں ایک نام ڈاکٹر عشرت بیتاب کا ہے جو اپنی زندگی کے 80 کے پڑائو میں آچکے ہیں جن کے یہاں بیانیہ افسانے بھی ملتے ہیں، علامتی و استعاراتی افسانے بھی نظر آتے ہیں  لیکن 2000 کے بعد کا جومنظر نامہ ہمارے سامنے موجود ہے جہاں انسانوں کے اندر انسانیت اور اپنے آبا و اجداد کی وراثت کی حفاظت کی ذمے داری تو دور کی بات رہی، اس کی اہمیت تک کو ہم نہیں سمجھتے۔موصوف کا ایک افسانہ ’بے حسی ‘جو 2006 میں شائع ہوا اس خیال کو پیش کرتا ہے۔ آج کا ادب ہم سے اپنے اسلاف کی نشانی کی حفاظت کا متقا ضی ہے۔ کہانی کے اختتام پر قاری فکر کی گہرائی میں غوطہ زن ہو کر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ہمارے سماج میں تیسری جنس کے لوگ بھی رہتے ہیں جنہیں ہمارا سماج قبول نہیں کرتا ہے یا انھیں احترام کی نظروں سے نہیںدیکھتا ہے لیکن اس تیسری جنس کے اندر اپنے ا سلاف کو یاد رکھنے کا عمل ہمارے مہذب سماج میں رہ رہے انسانوں کو جھنجھوڑتا ہے۔ملا حظہ کیجیے:

’’ رات میری موسی سپنے میں آکر کہہ رہی تھی کہ تجھ سے مل کر مو سی والی وہ کہانی لیے لیں ‘‘

  ’’کون موسی والی کہانی؟‘‘

  ’’ ارے وہی...کیا اچھا سانام بتایا تھا موسی نے... رات کے سپنے میں !‘‘ اور پھر کمر لچکا کر کچھ سوچنے لگی۔ ’’ہاں ِہاں...بے نور ن والی آنکھ۔ ‘‘

’’ بے نور آنکھیں۔‘‘ میں نے اصلاح کی۔

 ’’ ہا ں وہی۔۔تم نے موسی پر اس میں کچھ لکھا ہے نا! ‘‘

’’ ارے با با، ہجڑوں پر میری کئی کہا نیا ں ہیں، لیکن بے نور آنکھیں... بھٹیا والی کہا نی ‘‘

’’ ہا ں ! بھٹیا ہی تو میری موسی تھی... میرے کل کی سردار نی ! ‘‘

’’ تم کیا کرو گی اسے لے کر ؟ ‘‘

’’ موسی نے کہا کہ اسے فریم میں چڑھوا کر دیوار میں لٹکانے کو... اومیری اماں... سنہرے گوٹے میں... سج رہی... ‘‘               

کہانی لے کر وہ لوگ چلی گئیں لیکن میں کھڑا سوچتا رہ گیا... کہ انھیں اپنے پروجوں سے کتنی عقیدت ہے... اے کاش... ‘‘

اس طرح کی کئی اور کہا نیاں ہیں جو انھوں نے تخلیق کیں ہیں۔

ایک دوسرا معتبر نا م ڈا کٹر مشتاق انجم کا ہے۔ وہ بھی 80 کی دہائی سے افسانہ لکھ رہے ہیںاور اب تک ان کے کئی ایک افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ انھوں نے بیانیہ افسانے بھی لکھے، علامتی اور استعاراتی افسانے اور اب بھی لکھ رہے ہیں۔ ان کے افسانوں میں اعتدال پسندی مکمل طور پر غا لب نظر آتی ہے۔  وہ اپنے بیانیہ پن میں ہی علامت اور استعاروں کو استعمال کر دیتے ہیں اور افسانے کے اندر افسانہ پن بھی برقرار رہتا ہے۔ ان کا ایک افسانہ ’ آب گزیدہ‘ جو سہ ماہی ذہن جدید دسمبر، فروری  2011 میں شائع ہوا،اسے پڑھ کر بخوبی اندازہ لگا یا سکتا ہے کہ ان کے افسانے میں بیانیہ پن بھی ہے،کردار بھی ہے ساتھ ہی سہل علامتوں کا استعمال بھی ہے ملا حظہ کیجیے:

’’ پانی میں رہ کر مگر مچھ سے بیر ‘‘

 اس میںکس قدر مفہوم چھپا ہوا ہے۔ علامت کا سہل استعمال۔ یعنی ایساماحول جو اس انسان کے مزاج کے با لکل بر عکس ہو وہاں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے،بلکہ اس کے رحم و کرم پر رہنا پڑتا ہے۔ یہاں اذیت کو بطور علامت استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اسی افسانے میں ایک کوا گویا ہوتا ہے۔ ملا حظہ کیجیے:

’’ خودداری کو مٹھی میں بند کرکے پا نی کے قریب جا یا جا سکتا ہے۔‘‘

 آج کے ما حول میںخوددار ہونا اور حساس ہونا مشکل میں پھنسنا ہے۔کہانی جب آگے بڑھتی ہے تو ایک عمر دراز شخص کہانی کے کینوس پر ابھرتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک فریم ہے،کہانی کار اس فریم کو دیکھتا ہے،۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے اور اس کو بکواس آرٹ سمجھتا ہے لیکن بعد میں اسے احساس ہوتا ہے کہ موجودہ سماج کے نظام کا ڈھا نچہ ہی یہی ہے۔ ملا حظہ کیجیے:

’’ اس نے ایک بار فریم پر نظر ڈالی۔

 ڈاکٹر کی کرسی پر ڈاکو، وکیل کی کرسی پر پاکٹ مار، جج کی کرسی پرجلاد، وزیر کی کرسی پرلومڑی،راجہ کی کرسی پر گدھا،چوہے کی کرسی پر شیر، افسر کی کرسی پر سور...

اس نے نظریں اٹھا کر بزرگ کی طرف دیکھا

’’ ارے بڑے میاں کہاں گئے ؟‘‘

  دفعتا کانوں میں آواز آئی۔

’’ پانی میں رہ کر مگر مچھ سے بیر ‘‘

 گھڑیال کا چہرہ نظر نہیں آیالیکن پانی میں ہلچل اس کی موجودگی کا احساس دلارہی تھی !

   تب دور سے ایک آواز ابھری

   ’’ خودداری کو مٹھی میں رکھ کر پانی کے قریب جا یا جا سکتا ہے۔‘‘

       2000  کے بعد کے افسانوں میں ایک ا فسانہ ’انتقام ‘ ہے جس کے خالق خورشید فرازی ہیں وہ بھی ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔انھوں نے اخلاقی قدروں کا گرتا ہوا معیار،زمانے کے شکست وریخت کی باتوں کو نہایت ہی سہل زبان میں افسانوی رنگ عطا کردیا ہے۔ ان کا افسانہ ’ انتقام‘2007 میں سہ ماہی رسالہ مژگاں میں شائع ہوا۔ اس افسانے میں موصوف نے انسانی فطرت کی خوبصورت عکاسی کی ہے۔ انسان کی فطرت کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی ہے لیکن اس کا احساس بعد میں ہوتا ہے۔ افسانے کے دو کردار ہمارے سامنے ہیں۔ پہلا کردار عادل نواب کا دوسرا  احمر امن کا۔ پہلا کردار ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہونے کے ساتھ ایک ادیب و افسانہ نگار بھی ہے۔ دوسرا کردار احمرامان ایک صحافی ہے۔ موصوف نے ان دونوںکرداروں کے ذریعے انسان کے منفی اور مثبت پہلوٗوں کو اجا گر کرنے کی کوشش کی ہے۔عادل نواب ہمیشہ احمر امان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہا لیکن احمر امان نے ہمیشہ اپنی مثبت سوچ کے ساتھ کام کرتے ہوئے عادل نواب کو اس کی شخصیت کو اوپر کرتا رہا۔ نتیجے میں بعد میں عادل نواب کواس بات کا احساس  ہوا اور اس  نے بھری محفل میں اپنی غلطی کا اقرار کیا جس سے اس کا قد چھوٹا نہیں بلکہ اور بڑا ہو گیا اور احمر امان کی عظیم شخصیت میں عظمت کے مزید چاند ستارے ٹانک دیے گئے۔ 2000 کے بعد ہمارے سماج میں گرتی ہوئی اخلاقی قدروں کا مسئلہ در پیش تھا اوراب بھی ہے لیکن ہمارے افسانہ نگاروں نے ہمیشہ اس بات کو محسوس کیا اور ان مو ضوعات پر افسانے لکھے۔

انیس النبی کا افسانہ ’بھرت راج ‘ ہندوستان کی موجودہ سیا سی صورت حال کی بہترین عکاسی کرتا ہے جہاں اقتدار کی حصولیا بی کے لیے مذہبی ہتھکنڈے اپنائے جا تے ہیں اور ملک کے سیدھے سادے عوام کو الٹی سیدھی باتیں کر کے اپنا الو سیدھا کیا جاتا ہے۔شبیر احمد کا افسانہ ’’ بشرجن ‘‘ انسانی نفسیات کی بہترین تر جمانی کرتا ہے۔ انسان نفسیاتی طور پربہت کمزور پیدا ہوتا ہے۔ اس کو تقویت اس کے اندر کی خود اعتمادی بخشتی ہے تب جا کر وہ اس نفسیات سے نکل پاتا ہے۔ انسان کے ذہن میں جو بات بیٹھ جاتی ہے اسے نکالنا بہت مشکل ہو جا تا ہے اور یہ کام ماہر نفسیات ہی کر سکتے ہی۔ڈاکٹر شاہد فروغی کا افسانہ’سڑا ہوا ہاتھ‘ایک اچھا افسانہ ہے۔ کبھی کبھی انسان اپنی زندگی سے تنگ آکر خود کشی کا ارادہ کرتا ہے اور اس کام کے لیے وہ پوری تیاری بھی کرلیتا ہے لیکن اسی لمحے جب دوسرے کا خیال اسے آتا ہے تو وہ خود کشی کا ارادہ ترک کردیتا ہے اور دوسرے کی خاطر زندہ رہنے کا عہد کر لیتا ہے اس طرح اس کی زندگی غلط عمل کرنے سے بچ جاتی ہے۔ افسانہ ’سڑا ہوا ہاتھ‘ اسی خٰیال کو پیش کرتا ہے۔۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اور دہشت گرد نہ ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان بلکہ وہ صرف اور صرف ایک دہشت گرد ہو تا ہے جس کا مقصد لوگوں کے امن و سکون کو غارت کرنا ہوتا ہے، لوگوں کے چہروں سے خو شی چھیننا ہوتا ہے اس کے علاوہ اس کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی کا افسانہ ’نیل گگن کے تارے‘ اسی خیال کو ظاہر کرتا ہے۔ معاصر اردو افسانہ آج ایسے موضوعات سے بھرا پڑا ہے۔

سائنس اور ٹکنا لوجی کی بے پناہ ترقی کے مثبت اور منفی نتائج سے بے خبر آج کا انسان اس کے پیچھے اس لیے بھا گا جا رہا ہے کہ لوگ اسے ترقی یافتہ سمجھیں۔ حا لانکہ سائنس اور ٹکنالوجی کی ایجاد  سے جتنا فائدہ انسان کو ملا ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا ہے اور ہوش انسان کو اس وقت آتا ہے جب بہت دیر ہوجاتی ہے۔عصر حاضر میں مو بائل ٹاور اور نت نئے قسم کی ایجادات نے انسانوں کو فائدہ پہنچایا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا یا ہے۔ ارشد نیازکا افسانہ ’ ای وائرس ‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں یہ خیا ل پیش کیا گیا ہے۔ اس وائرس کی ایجاد سے ذہنی طورپر مفلوج انسانوں کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے اور افسانہ نگار اس کا موجد ہے اور اس کا تجربہ اپنے ہی بچے پر کرتا ہے جس کامثبت اثر بھی دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن اسی لمحے اس کے منفی اثرات کاخیال اس کے ذہن میں آتا ہے اور اسے اینٹی وائرس  سے اس ای وائرس کوختم کر دیتا ہے۔نسیم اشک کا افسانہ ’ گم شدہ ‘ عصر حا ضر کے بدلتے انسانی چہروں کی کہانی ہے۔ انسان وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ چل رہا ہے اور تیزی سے اپنے چہرے و قت کے تقا ضے کے مطابق بدل رہا ہے۔ خوف خدا سے خالی دل ایک پل کو بھی یہ سوچ کر نہیں گھبراتا ہے کہ اتنے چہرے بدلتے بدلتے اس کا اپنا چہرہ بھی مسخ ہو گیا ہے۔ آج کا انسان اتنا ترقی یافتہ ہو گیا ہے کہ وہ یہ بات بھول گیا ہے کہ ایک روز اسے اپنے رب کے پاس لو ٹنا بھی ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ جملے...

’’ اب اسے ذرہ برابر بھی ملال نہ تھا کہ اس کا چہرہ کھو گیا ہے، دوسروں کے پاس بھی ان کے چہرے نہیںہیں اور وہ سبھی خوش ہیں تو پھر وہ کیوں چہرے کے نہ ہونے کا غم کرے۔ ‘‘ (افسانہ: گم شدہ )

یہ انسانی زندگی کا المیہ ہے کہ وہ حقیقت سے اس قدر بیگانہ ہو چکا ہے کہ خود اپنے آپ کو پہچان نہیں پا رہا ہے۔

نسیم اشک کا دوسرا افسانہ ’ مٹتی تصویریں ‘ ہے۔ یہ ایک کہانی کار کی کہانی ہے۔ جب وہ اپنی کہانی ختم کرنے کے لیے ایک شہر جاتا ہے تو وہاں کی زندگی دیکھ کر حیران ہو جا تا ہے۔ ملک اور سماج میں ابھر تے نئے مسائل کو دیکھ کر گھبرا جا تا ہے۔ حقیقی زندگی کو قریب سے د یکھنے کے بعد وہ سوچتا ہے کہ کیا وہ جو کہا نی کہہ رہا ہے اس کا حقیقت سے واسطہ بھی ہے؟ مفلسی، تنگدستی، لا چاری جیسے مسائل سے قطع نظر کہانی کا آخر کیا وجود ہے ؟ ملا حظہ کیجیے:

’’ اس نے مجھے روک کر کہا، بابو وہ بڑے صا حب بھی یہا ں آتے ہیں وہ ہماری زندگی کی تر جمانی کرتے ہیں وہ بہت بڑے فنکار ہیں جب بھی یہاں آتے ہیں منھ پر کپڑااور ایک منرل واٹر کی بو تل ضرور ہاتھ میں رکھتے ہیں لوگ کہتے ہیں ان کے دل میں غریبوں کا بڑا دردہے۔ ‘‘ 

(افسانہ  مٹتی تصویریں ) 

اس کے علاوہ ان کا افسانہ ’ اندھی روشنی ‘ ملک میں تیزی سے بڑھتے فرقہ وارانہ فساد کی تصویر پیش کرتا ہے۔ چند مفاد پرست لوگ کس طرح خوشحال لوگوں کی زندگی میں نفرت کی آگ بھڑ کاتے ہیں جس میں ذات و مذہب سے با لا تر انسانیت جل جاتی ہے۔ عصر حاضر میں معا صر ادب ایسے ہی مو ضوعات کو اپنے افسانوں میں شامل کر رہا ہے۔

ایسے بہت سے موضوعات لیے ہمارے افسانہ نگارآج بھی اردو ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ شہیرہ مسرور کا افسانہ ’ نسلوں کی کیل پر ٹنگا رشتہ ‘، نئی نسل کی بازیابی اور اس کے اندر اپنی تہذیب کو بچانے کا پیغام دیتا ہے۔ شہناز نبی کاافسانہ ’کبڑو ں کی بستی‘ ایک علامتی افسانہ ہے لیکن علامت کے استعمال میں سہل پسندی ہے جو قا ری کی تر سیل تک ہے۔ جاویدنہال حشمی کا افسانہ ’ جڑوں کی تلاش ‘ موجودہ صورت حال کی بہترین نمائندگی کرتا ہے۔ شبیر احمد کا ’ بشرجن ‘ انیس النبی کا ’بھرت راج‘، راقم الحروف کا ’کرچیوں میں بٹاانسان ‘، شبیر اصغر کا ’چار انگلیوں والا آدمی‘  عظیم اللہ ہاشمی کا’ ’نیل گگن کے تارے‘ شکیل افروز کا ’سیاہ تاج ‘ ریاض دانش کا ’ گھڑی ‘  نسیم اشک کا ’مٹتی تصویریں اور گم شدہ ‘ وغیرہ ایسے افسانے ہیں  جو2000 کے بعد اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔ یہ تمام افسانے عصر حاضر کے مسائل کی نمائندگی کرتے ہیں۔

ایک بات اور ہے کہ یہ تمام افسانے نہ صرف مسائل کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں بلکہ ان مسائل کے حل کے راستے بھی نکالتے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ معا صر اردو افسانہ نے روایت کااحترام بھی کیا ہے، حالات پر کاری ضرب بھی لگا یا ہے اور اس میں بیانیہ پن کا خیال بھی رکھا ہے تو کردار کی اہمیت کو اجاگر بھی کیا ہے، ساتھ ہی اس میں فنی ستارے بھی ٹا نکے ہیں اور علامتوں اور استعاروں کا خوبصورت استعمال بھی کیا ہے۔ معا صر اردو افسانہ اب رومان پسندی کو راہ نہیں دیتا بلکہ مسائل کو سامنے لا تا ہے اور اس کے حل کے راستے بھی تلاش کرتا ہے تاکہ پریشان حا ل انسان ان تمام مسائل سے نبرد آزما ہو کر اس کے حل کی طرف مراجعت کرے اور اطمینان و سکون کی زندگی بسر کر ے۔اس کے علاوہ سماج میں پھیلی منا فرت کی دیواروں کو بھی ڈھا دے تا کہ سماج کا ہر فرد ایک دوسرے کو اپنا سجھ سکے،ایک دوسرے کے درد کو اپنا درد محسوس کرے۔آج کا افسانہ منظر نگاری سے زیادہ واقعات نگاری پر زور دیتا ہے تا کہ مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ معا صر اردو افسانہ انہی تمام باتوں کا متقاضی ہے۔مغربی بنگال کی سر زمین نے ہمیشہ ملک کے اتحاد کی بات کی ہے یہاں کے افسانہ نگاروں نے ہمیشہ ایسے افسانے کی تخلیق کی ہے جس سے نفرت کی دیوار مسمار ہوئی ہے۔

مختصر یہ کہ معا صر اردو افسانہ اپنے انداز میں خوب سے خوب تر کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ انسانی مسائل، سماجی مسائل، ڈیجیٹلائز ورلڈ کی برق رفتاری، انسانوں کی بے سمت پرواز، اخلا قی قدروں کا گرتا معیار، ہندوستا نی تہذیب کا نکلتا جنازہ کے علاوہ قومی شناخت کے مسئلے کو بھی اجا گر کرتا ہے جس سے سماج میں کافی اتار چڑھائو دیکھنے کو ملتا ہے۔ان تمام مو ضوعات کے اظہار میں معا صر اردو افسانہ اعتدال رویے مثبت رجحان کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور آنے والی نسلوں پر اس کی ذمے داری دیے جا رہا ہے جو نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے اور چنوتی بھرابھی ہے۔

 

Dr. Mohd Ali Husain Shaiq

Kashan-e-Mustafa

Gali No.: 3, Kamra No.: 1/2

Post: Jagtdal

Distt.: 24 Pargana (Shimal) - 743125(W.B)

 

 

 


 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں