حسرت موہانی بڑے غزل گو تھے اور غزل کے رسیا بھی، شاید
اسی لیے غزل کے ذکر کے ساتھ حسرت کی یاد بے اختیار آتی ہے۔ حسرت صرف تغزل اور شعر
کی بوقلمونیوں میں کھو کر نہیں رہ گئے بلکہ انھوں نے زندگی کی بصیرت بھی حاصل کی
اور کشاکش حیات سے نبرد آزما بھی ہوئے۔ حسرت کے مطالعے میں ہم صاف طور پر دو
قسموں کے رجحانات سے دو چار ہوتے ہیں۔ ایک قسم تو ان کے رجحانات اور خیالات کی ہے
جس سے ہمارے سامنے شاعر اور فنکار حسرت کا تصور ابھرتا ہے اور دوسری قسم کے رجحان
’آدمی حسرت ‘کی تصویر ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حسرت دونوں ہی
مقام پر اپنے عہد کے اکثر ہم سفروں سے ممتاز نظر آتے ہیں، حسرت کی یہی خوبی میرے
خیال میں ان کی مقبولیت اور جاودانی کا سبب بنی، ان کی غزلوں میں ہمیں شاعر اور
فنکار حسرت کے ساتھ ’آدمی حسرت‘ بھی چلتا پھرتا دکھائی دیتا ہے اور یہی’آدمی‘
حسرت کی شاعری کو زندگی اور شاعرانہ فکر و بصیرت عطا کرتا ہے ۔
حسرت کی غزلوں میں شعر و شباب کے ذکر کے شانہ بہ شانہ
عصری حسیت کی ترجمانی کا رجحان بھی صاف صاف نظر آتا ہے۔ حسرت نے زندگی کو قریب سے
دیکھا تھا اس لیے انھوں نے عارض و رخسار کے ساتھ ساتھ سنگریزے بھی جمع کیے، زلف و
کاکل کے ساتھ ’چکی کی مشقت‘ کا تصور بھی پیش کیا۔ در اصل حسرت کی شاعری کا یہ رویہ
یا رجحان ان کے عہد کا تقاضا تھا۔ ملک کی غلامی، ہم وطنوں کا استحصال، ظلم و تشدد
کے پھیلتے سائے میں حسرت کی شاعری پروان چڑھی۔ان کے سامنے وطن کا ماضی جہاں پر
شکوہ تھا وہیں خاک و خون آلود بھی۔ 1857 کے انقلاب کی ناکامی کی تصویر ان کے ۔ذہن
پر چھائی ہوئی تھی لیکن دوسری جانب ان کی فطرت میں جذب و شوق کا عنصر بھی موجود
تھا۔ چنانچہ ان کی شاعری دونوں جذبوں کی مفاہمت کی شکل میں نمودار ہوئی۔ حسرت کی
وہ شاعری جو انھوں نے اپنی جوانی میں کی،اس میں حسن و محبت کی داستان طرازی، جذب و
شوق کا اظہار اور روحانی و جمالیات تجربات کے نقوش ملتے ہیں۔ ان کی شباب کی غزلوں
میں جذبوں کا گرم لہو رواں ملتا ہے۔ چنانچہ ان کی ابتدائی غزل بقول نیاز فتح پوری
ان کی پہلی غزل ہے۔ جو عشق و سرمستی کی روداد معلوم ہوتی ہے اور شاعرانہ مرتبے کے
کمال کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اگرچہ ان میں ان کے شعور و ادراک کی ناپختگی کی
علامت بھی موجود ہے ؎
مسجدوں میں کون جائے واعظ اب
تو اک بت سے ارادت ہو گئی
عشق نے ان کو سکھا دی شاعری
اب تو اچھی فکر حسرت ہو گئی
اس غزل کو نیاز فتح پوری نے طفلانہ فکر کا نمائندہ قرار
دیا ہے اور یہ بھی بتلانے کی کوشش کی ہے کہ یہ غزل در اصل اس بات کا اشاریہ ہے کہ
ابھی حسرت کی شاعری ’حسرت تعمیر‘ کے مرحلے میں ہے۔ اس پر کسی عمارت کا پر شکوہ علم
بلند نہیں ہوا ہے۔ یہ پہلی غزل ہے جو 13-14 سال کی عمر میں کہی گئی تھی۔ اس میں جو
رنگ و آہنگ ہے اس سے نہ صرف حسرت کی شاعرانہ فطرت کی غمازی ہوتی ہے بلکہ یہ بھی
کہ حسرت کی شخصیت میں جس طرح سیاست کی جڑیں بہت گہری تھیں اسی طرح شاعری بھی ان کی
شخصیت کا لازمی جزو تھا۔ یہاں مجھے خلیق انجم کی اس رائے سے اتفاق نہیں کہ حسرت کا
مزاج شاعری سے زیادہ سیاست سے لگائو رکھتا تھااور ان کو شاید سیاست کے لیے ہی بنایا
گیا تھا۔ میںتو یہ سمجھتا ہوں کہ شاعر حسرت اور سیاست داں حسرت دونوں متوازی طریق
پر پیکر خاکی میں جمع ہو گئے تھے اور اپنے اپنے مواقع پر دونوں کا اظہار ہوا۔ ان
دونوں میں حسرت کو ان کی منفرد صلاحیتوں کی وجہ سے پوری کامیابی حاصل ہوئی۔ رشید
احمد صدیقی نے ان کی شاعری پر اپنی رائے اس طرح دی ہے کہ ’’معاصر غزل گو بھی اپنا
اپنا مقام رکھتے ہیںپھر بھی حسرت کی غزل گوئی ممتاز اور منفرد ہے۔ ‘‘احتشام صاحب
کا خیال ہے کہ ’’حسرت موجودہ دور کے سب سے بڑے غزل گو تسلیم کیے گئے ہیں اور اردو
شاعری کے مسلسل ارتقا میں ان کی ایک اہم جگہ ہے۔‘‘سرور صاحب نے تو انھیں اردو شاعری
کے دوسرے دور کا سب سے بڑا کلاسیکی شاعر تسلیم کیا ہے۔
رشید احمد صدیقی، سید احتشام حسین اور سرور صاحب کے خیالات
کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حسرت کی شاعرانہ حیثیت کسی جہت سے کمزور نہیں
تھی۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ حسرت کی غزلوں میں مضامین اور موضوعات کی رنگا رنگی
نہیں ملتی۔ ان کی شاعری کا جو بہترین حصہ ہے اس میں داستان حسن و عشق کا یک رنگا
دھارا بہتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس کی وجہیں خواہ کچھ بھی ہوں متقدمین کی پیروی یا
رجحان طبع، مگر ہے کچھ ایسا ہی۔
حسن و عشق کے موضوع سے حسرت کو خاصا ربط تھا، وہی
موضوعات سیاسی بصیرتوں اور انقلابی جذبوں کے پیدا ہونے تک حسرت نے جو شاعری کی اس
میں حسن و عشق کے معمولات کو بیان کرتے رہے۔ہجر و وصال کی قدیم روایت کو دہرانے کا
عمل ان کی شاعری میں جاری رہا۔ 1893-1903 تک کی پوری شاعری اسی نہج پر نظر آتی
ہے۔ مثلاً ؎
نہ ہو مجھ سا کوئی محو تمنا ہوا کرتی ہے باتیں دل سے کیا
کیا
ہوا حسرت مجھے پھر شوق صحرا، جنوں نے پھر مجھے سمجھا دیا
کیا
میری نگاہ شوق کا شکوہ نہیں جاتا
سوتے بھی وہ پاس سے دیکھا نہیں جاتا
1903
کے بعد کی غزلوں کا رنگ بھی رومانی شاعری کا نمائندہ
نظر آتا ہے اور ا س میں بھی حسرت کے سیاسی شعور اور تقاضے کے اشارے نہیں ملتے، اس
دور کی شاعری میں بھی حسرت انہی موضوعات کی طرف متوجہ رہے جو خالص رومانی اور روایتی
ہیں۔ مثلاً ؎
رونق پیرہن کوئی خوبی جسم نازنیں
اور شوخ ہو گیا رنگ ترے لباس کا
اس دور کی ایک غزل اس عہد میں بھی اور آج تک زبان زد خاص
و عام ہے ؎
بڑھ گئی تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا
سب غلط کہتے تھے لطف یار کو وجہ سکوں
درد دل اس نے تو حسرت اور دونا کر دیا
غرض یہ کہ حسرت کی شاعرانہ عظمت اپنی جگہ تسلیم، ان کی
اچھی شاعری کا یک رخا پن بری طرح کھٹکتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حسرت نے
اردو غزل کو جو کچھ دیا اس میں نئے پن کی تخلیق کی بجائے اساتذہ کا رنگ و آہنگ
برتنے میں ہی انھوں نے عافیت سمجھی اور اسی رنگ سے اپنی پوری شاعری کا مزاج تیار کیا۔خلیل
صاحب نے حسرت کی شاعری پر لکھتے ہوئے ایک اہم نکتے کی نشاندہی کی ہے اور لکھا ہے
کہ:
’’قدیم
شعرا کے دواوین کی چھان بین جس ذوق و شوق سے حسرت نے کی تھی اور صف دوئم اور صف
سوئم کے شعرا کے اچھے اشعار کا انتخاب جس خوبی سے پیش کیا وہ ان کا قابل قدر
کارنامہ ہے۔ حسرت نے ان تمام شعرا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ان کے یہاں تمام
رنگوں کی جھلکیاں ملتی ہیں اور شعرائے قدیم کے دستور کے مطابق ذ، ظ،ض اور ط وغیرہ
کی ردیفوں میں بھی غزلیں کہنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
حسرت کا کلام پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف دوئم
درجے کے شعرا کا رنگ کامیابی سے نباہ سکے ہیں۔ ان کا مزاج میر، غالب یا صف اول کے
شعرا سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ تتبع کوئی بری چیز نہیں لیکن تتبع میں بھی تخلیق اور
جدت طرازی کی جا سکتی تھی۔ جن غزلوں کو حسرت نے محض زلف و رخسار کی عبارت آرائی
کارنگ دیا ہے۔ ان میں روح عصر کے تقاضے بھی شامل کیے جا سکتے تھے۔ حسرت اگر ایسا
کرتے تو صرف ان کی شخصیت پر نہیں بلکہ اردو شاعری پر بھی بڑے گہرے اور مثبت اثرات
مرتسم ہو سکتے تھے لیکن حسرت کسی نئی منزل کی تلاش نہ کر سکے اور غزل کے روایتی
مزاج سے ہی وابستہ رہے۔ دراصل حسرت کی فطرت میں عشقِ جنوں ساماں نے گھر کر لیا تھا
اور تجربۂ عشق سے اپنے وطن موہان ہی میں آشنا ہو چکے تھے۔ حسرت کا یہ عشق ان کا
جذبہ پرستش زندگی کے ہر ہر قدم پران کے ساتھ رہا۔ ضمیمہ دیوان کی غزلیں ان کے پورے
تجربات محبت کی غمازی کرتی ہیں۔ موہان کے قیام کے زمانے میں حسرت نے جتنی بھی غزلیں
کہیں ان کی جنوں خیزی، عشق کی تندی و سرمستی ہی ملتی ہے، لیکن حسرت ہمیشہ انہی
جذبوں سے بندھے نہ رہ سکے اور 1903 کے بعد ان کی طبیعت نے دوسرا رخ اختیار کیا۔
جسے ان کی شاعری کا دوسرا موڑ بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور یہاں ان کی شاعری کا
موضوع ان کے عہد کا مزاج، مطالبہ اور عصری حسیت کا اعلامیہ نظر آتا ہے۔ حسرت نے
اس زمانے کی تحریکات کو سمجھا،قومی یا ملکی مسائل نے انھیں اپنی طرف متوجہ ہونے پر
مجبور کیا، یہیں سے حسرت کا شعری مزاج نئے شاہ راہ کی تلاش کرتا ہوا دکھائی دیتا
ہے۔ اب صرف نالۂ فراق یا ہجر و وصال کا ذکر نہیں رہا بلکہ اس میں ایک قسم کی حقیقت
شناسی اور احساس فرض کا اظہار بھی دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنی ایک غزل میں اس انحراف
کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں ؎
سر سے سودائے بتانِ بے وفا جاتا رہا
ہو گیا دل اب دلائے شوق سے رشک چمن
بے خودی ہائے محبت سے نہیں کچھ واسطہ
ہم سمجھتے ہیں اب ایسے شوق کو دیوانہ پن
1903
کے بعد کی ایک اور غزل حسرت کے اس فکری انقلاب کی
نمائندہ معلوم ہوتی ہے ؎
توڑ کر عہد وفا ناآشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
جی میں آتا ہے کہ اس شوخ تغافل غیر سے
اب نہ ملیے پھر کبھی اور بے وفا ہو جائیے
بھول کر اس ستم پرورکی پھر آئے نہ یاد
اس قدر بے گانۂ عہد وفا ہو جائیے
غرض کہ زندگی کے اس حصے میں حسرت نے انہی فکری اور فنی
بصیرتوں کے واردات کو اظہا رکا ذریعہ بنایا اور خود کو ملک کی آزادی، انسانی
آزادی اور خاص طور پر استحصال کے شکار طبقات کی آزادی کے لیے وقف کر دیا۔ زندگی
کے اس مرحلے میں حسرت نے بڑا ہی جرأت مندانہ اقدام کیا اور معاشرے میں پھیلی ہوئی
ایسی تمام رسموں کے خلاف آواز اٹھائی جنہوںنے انسان کو یا معاشرے کو کسی بھی طرح
اذیت میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اس دور کے حسرت پر زندگی اور اس کا نصب العین حاوی
اور غالب رہا۔ ہم اس حسرت کو یاد رکھ سکتے
ہیں جس نے زندگی کی ترجمانی اور اس کی افزائش کا بہترین فریضہ انجام دیا۔ اور یہ
بھی کسی کارنامے سے کم نہیں۔
حسرت کی اس زندگی کا آغاز ’اردوئے معلی‘ کا پہلا شمارہ
تھا جویکم جولائی 1903 کو شائع ہوا تھا۔ رسالے کے سر ورق پر سید فضل الحسن حسرت
موہانی (بی اے) درج تھا۔ یہیں سے حسرت کی سیاسی اور عملی زندگی شروع ہوتی ہے۔ ’اردوئے معلی‘ کے عہد میں سر عبد القادر کا
’مخزن‘ نوبت رائے نظر کا ’خدنگ نظر‘ بھی موجود تھا۔ لیکن ان ماہناموں کے ہوتے ہوئے
بھی حسرت موہانی کے ’اردوئے معلی‘ نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی، اس مقبولیت کی
وجہ خود حسرت کی ذات تھی اور سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ حسرت نے ’اردوئے معلی‘ سے
اصلاح ذوق کا کام لینا چاہا تھا۔ اسی لیے اس میں کسی قسم کی غرض مندانہ سیاست نہ
تھی اور یہی وجہ ہے کہ حسرت کا ماہنامہ اپنے مقاصد میں بے حد کامیاب رہا۔ حسرت نے
قوم کے ذہن و مزاج کی اصلاح کو اپنا نصب العین بنایا تھا۔ حسرت اپنے اس مقصد میں
کامیاب رہے اور ایک ایسا طبقہ بہر حال بنا جس نے قدیم روایتی طرز فکر کے بجائے
زندہ اور متحرک فکر کی ترجمانی کی، اور اس طرح حسرت موہانی نے زلف و محبوب کی سج
دھج کے ساتھ ملک و قوم کے ذہن و دماغ کی نشو و نما میں بھی تاریخی کردار پیش کیا۔
حسرت کی اس عملی زندگی میں سب سے بڑی چیز ان کی سچائی اور بے مثال انسانی ہمدردی
تھی۔ انھوں نے کبھی بھی ظلم کے خلاف مصلحت بینی اختیار نہیں کی، اس بے باک اور بے
خوف سیاست داں کو اپنی جرأت اور حوصلہ مندی کے عوض زندگی بھر’زندانی‘ بن کر رہنا
پڑا لیکن اس نے اپنی ڈگر نہ چھوڑی۔ اس لیے یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ حسرت جس قدر
عظمتیں بحیثیت کلاسیکی شاعر یا بحیثیت غزل گو رکھتے ہیں اسی طرح حسرت بحیثیت آدمی
بھی عظیم اور آنے والی نسلوں کے لیے سرمایۂ بصیرت ہیں۔
حسرت کی شاعری میں براہ راست انھوں نے کبھی عمل کی تلقین
نہیں کی مگر ان کا تغزل بھی نئے رنگ کا ہے۔ بقول عسکری صاحب: ان کے یہاں ہمیں ایک
نیا وجدان، نئی سرشاری، نیا ذوق و شوق، نیا والہانہ پن نظر آتا ہے جو اس سے پہلے
اردو شاعری میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ حسرت نے جس طرح سیاست کی دنیا میں
زندگی گزاری ہے اسی کا عکس ان کی عشقیہ شاعری میں نظر آتا ہے، جس سے ان کے یہاں ایک
علوفکر اور خودداری نظر آتی ہے۔انھوں نے اپنا یہ مسلک اس طرح بیان کیا ہے ؎
کسی پر مٹ کے رہ جاتا ہے حسرت
ہمیں کیا کام عمرِ جاوداں سے
یہاں حسرت کے مزاج کی طرفگی بھی نظر آتی ہے مگر زمانے
کے اثرات کا کچھ کم ہاتھ نہیں۔یہ بات ہم اس وقت تک نہیں سمجھ پاتے جب تک ہم حسرت کی
شاعری کا مقابلہ مولانا محمد علی جوہرکی شاعری سے نہ کریں۔ کیوں کہ دونوں کا خارجی
ماحول ایک جیسا تھا، سیاسی خیالات اور سیاسی جد و جہد ایک ہی قسم کی تھی اور سیاسی
زندگی کی مصیبتیں دونوں کو جھیلنی پڑیں۔ اس لیے دونوں کے یہاں ایک جیسے عناصر مل
جاتے ہیں۔خلیل صاحب کا یہ خیال بڑی حد تک درست ہے کہ :
’’حسرت کے دیوان کا
انتخاب کیا جائے اور ان کی شاعری کا وہ حصہ جو ان کا بہترین سرمایہ کہاجاتا ہے ایک
جگہ اکٹھا کر دیا جائے تو سب سے پہلے جو بات ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی
شاعری ان کی آپ بیتی ہے۔ یہی ان کی خصوصیت بھی ہے اور یہی ان کا عیب بھی۔‘‘
Dr.Quaisar
Zaman
Urdu
Ghar,Suleman Colony
Hazaribagh(Jharkhand)
Mob:09031919207
Email:quaisarzaman98@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں