22/9/21

کتھارسس کی نفسیاتی اہمیت اور ادبی معنویت - مضمون نگار: وحیدالظفر خاں

 



انسانی تہذیبوں کے عروج و زوال کے تاریخی تسلسل میں سب سے اہم اور قابل غور مسئلہ انسانی نفسیات کے عناصر ترکیبی میں استحکام اور پائیداری کا ہے تغیر و تبدل کے اس عظیم ترین منظرنامہ میں صرف انسان کی ذہنی محسوساتی اور جذباتی کشمکش کا جو نفسیاتی میکینزم موجود ہے وہ ہابیل اور قابیل کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کی طرح آج بھی غیرمبتدل ہے۔ لالچ، حسد، خوف، ترحم، غم پذیری دلگیری، غصہ، نفرت، تکبر، محبت، ایثار وغیرہ جذبوں سے معمور انسانی نفسیات ایک انتہائی پیچیدہ تخلیق ہے۔ ان متضاد جذبات کو ایسے سلیقے سے پیوست کیا گیا ہے کہ خود انسان کو بھی کسی جذبے سے متاثر ہونے یا مغلوب ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ جذبات کے اس پیچیدہ اور نادیدہ نظام کو نفسیات انسانی کا نام دیا گیا ہے۔ ہر جذبہ موجود ہوتے ہوئے بھی ناموجود رہتا ہے انسانی رشتوں کے تصادم سے تحریک پاکر ہی کوئی جذبہ ابھرتا ہے اور کبھی کبھی وہ جذبہ اس قدر دطاقتور ہوتا ہے کہ انسانی وجود اور اس کی توانائیاں خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہیں اور وہ انسان بھی اسی کے ساتھ بہہ جاتا ہے۔ اسی نفسیاتی نظام میں جہاں طغیانی ہے وہاں اس کا سدّ باب بھی موجود ہے جس طرح انسانی خون میں سرخ و سفید ذرات کا لائحہ عمل موجود ہے جو انسانی جسم میں کسی بھی فساد کے لیے دفاعی میکینزم کا کام کرتا ہے اسی طرح جذبات کی افراط و تفریط کا نظام برپا کیا گیا ہے۔ جذبات پر غالب آنا یا مغلوب ہونا دونوں کا اختیار انسان کو دیا گیا ہے۔ بے راہ رو جذبات کی سرکشی جب انسان کے عملی اقدام کی تحریک بنتی ہے تواس کی اذیت و عقوبت کا ایک سلسلہ بھی ساتھ لاتی ہے  جو اس کے تزکیہ نفس کے لیے ایک محرک کا کام کرتی ہے۔

ادب انسانی زندگی کے تقریباً تمام داخلی و خارجی مضمرات و محرکات کا جائزہ لے کر انسانی فہم و فراست کو بالیدگی عطا کرتا ہے۔ انسانی تزکیۂ نفس کی اہمیت کے پیش نظر ان عوامل کو پرکھنا بھی ضروری ہے جو کسی المیہ کی بنیاد بنتے ہیں۔ یونانی فلاسفر ارسطو نے تزکیہ نفس جس کو یونانی زبان میں Catharsis کہا جاتا ہے کو ایک ڈرامائی تھیوری کے طور پر پیش کیا ہے جس کے ذریعے انسانی جذبات کی حربیت اور تضبیط کی جاسکتی ہے۔ یہ اصطلاح اردو ادب میں مستعمل نہیں کیونکہ اردو ادب میں المیہ ڈراموں کا وفور اس سطح پر نہیںہوا کہ اس کی مقصدیت یا معنویت کے لیے کسی اصطلاح کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یونانی ٹریجڈی جس کو اردو ادب میں المیہ کہا جاتا ہے ایک مخصوص ترین تعارف سے متصف ہے۔ ہر المناک منظر جہاں انسانی زندگی کے جان و مال کا زیاں ہو ٹریجڈی نہیں کہا جاسکتا جیسے سونامی، سمندری طوفان، زلزلہ، آتش فشاں کے گرم سرخ بہتے ہوئے لاوے سے انسانوں کی بستیوں اور زندگیوں کا ضائع ہوجانا۔ ایسے حادثات کے لیے Natural Calamity کی اصطلاح وضع کی گئی ہے درحقیقت ایسے منظر سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ پل بھر میں سب کچھ بے منظر ہوجائے اور انسان بے دست و پا دیکھتا رہ جائے۔ دراصل ٹریجڈی کا مقصد ہر دور کے ہر انسان کے لیے ذہنی و نفسیاتی تربیت ہے تاکہ انسان ان کوتاہیوں سے پرہیز کرے اور ان لغزشوں کا اعادہ نہ کرے جس کے ردعمل نے کسی ٹریجڈی کو جنم دیا۔ انسانی فطرت ہمیشہ مسرت و انبساط کو ترجیح دیتی ہے۔ طربیہ ڈرامہ اس ضرورت کو ایک حد تک پورا کردیتا ہے لیکن یہ بھی ایک صداقت ہے کہ طرب و نشاط کی کیفیت انتہائی عارضی اور اکتا دینے والی ہوتی ہے انسانی روح میں کوئی تموج یا کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس المیہ کا منظرنامہ انسانی عمل اور ردعمل کا آئینہ دار ہوتا ہے زندگی کی سچی حقیقتوں سے جو بصیرت افروز مسرت کا احساس ابھرتا ہے وہ ایک نئے علم کا انکشاف کرتا ہے۔ جب کوئی انسان ناجائز خواہشوں کی تکمیل میں ناجائز طریقے اختیار کرتا ہے تو خواہش کی ناکامی کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کا سارا اثاثہ بھی گنوا دیتا ہے۔ ایسے المناک اور کربناک منظرنامہ کا شریک ہر فرد المیہ کے ہیرو پر خود کو قیاس کرنے لگتا ہے انسانی نفسیات کی گرہیں کھلنے لگتی ہیں۔ عروج و زوال کے اس منظرنامہ کے محرکات و مضمرات آشکارا ہونے لگتے ہیں او رہر انسان اپنی آزادی اور اختیار کے حدود پر نظرثانی کرنے لگتا ہے۔

ارسطو نے المیہ ہیرو کے لیے کچھ شرائط وضع کی ہیں جو شخص ان شرائط کا حامل ہوتا ہے وہی المیہ ہیرو بننے کا اہل سمجھا جاتا ہے ہر عام شخص المیہ ہیرو تسلیم نہیں کیا جاسکتا چاہے وہ اذیت کی ہولناک ترین صورت حال کا شکار ہو۔ المیہ ہیر وکے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام الناس میں اپنی شخصی حیثیت کے اعتبار سے بلند ترین منصب پر فائز ہو جیسے بادشاہ، شہزادہ، فوجی کمانڈر وغیرہ اور عوام اس کو اچھی نظر سے دیکھتی ہو۔ وہ شخص اپنے کردار و عمل سے ایک نارمل انسان ہو نہ بہت زیادہ نیک خصلت اور نہ ہی بدی کا مجسمہ کیونکہ بدکردار انسان کے بدانجام سے انسانی جذبات کی تزکیہ کاری ممکن ہی نہیں البتہ ایک نارمل نیکوکار انسان کے زوال سے خوف اور دردمندی کے جذبات برانگیختہ ہوکر تزکیہ نفس کا سبب بنتے ہیں۔المیہ کردار میں تمام خوبیوں کے باوجود ایک ایسا داخلی نقص موجود رہتا ہے جو اس کی تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے جس کو یونانی اصطلاح میں Hamartia (ہمارشیا) کہا جاتا ہے۔ انسانی زندگی میں بشری کمزوری کا اعتراف اس لیے ضروری ہے کہ وہ انسان کو بااختیار ہونے اور آزادی کے ساتھ اپنے جذبات و شہوات پر قدرت کاملہ کے التباس کا احساس کراسکے۔ ایسا نقص ہی دراصل انسانی سرشت میں پیوست رہتا ہے جو وقت، نسل، قوم او رمقام کی زد میں نہیں آتا۔ ہر دور کے ہر انسان کے نفسیاتی خمیر میں گندھا رہتا ہے اور تخریب کا سبب بنتا ہے لیکن اس کا اہم ترین پہلو دراصل انسانی عمل کی کارکردگی میں مضمر رہتا ہے۔ اگر وہ نفسیاتی نقص عمل کی شکل میں نہیں ڈھلتا تو انسانی کردار کی عظمت و حرمت کو کوئی زوال نہیںا ٓتا۔ انسان کے عمل میں اختیار کی آزادی کی اہمیت اسی لیے دوچند ہوجاتی ہے کہ نیک و بد دونوں پہلو اس کے پیش نظر رہتے ہیں اور دونوں کے درمیان انتخاب کی آزادی کا حق اور عمل کی قوت و قدرت کے ساتھ عمل کا فیصلہ اس کے مستقبل کا ضامن ہوتا ہے۔ ہر انسان اپنی تدبیر کا خود ہی معمار ہے یہ تصور ارسطو کے المیہ کا ہے۔

Every man is an architect of his own destiny

اس تصور کے برخلاف انسانی اختیار و عمل میں انتخاب و آزادی کا تصور ٹامس ہارڈی کی المیاتی کائنات میں موجود نہیں ہے۔ ٹامس ہارڈی ملکہ وکٹوریہ کے دور کا ایک نہایت مشہور شاعر اور ناولسٹ ہے اس کا عقیدہ ہے کہ یہ کائنات خدا کے وجود سے خالی ہے۔ انسان ایک مجبور محض ذی روح ہے جو اپنی قسمت اور تقدیر ساتھ لے کر پیدا ہوا ہے اور اسی کے تابع رہ کر اپنی پوری زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس کا ہر عمل پہلے سے طے شدہ ہے جس پر وہ گامزن رہتا ہے۔ ساتھ ہی ہارڈی کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اس دنیا میں کچھ نادیدہ منتقمانہ قوتیں برسرپیکار ہیں جو انسان کو ایک کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرتی ہیں اور ہمہ وقت آمادہ رہتی ہیں کہ انسان کو کوئی مسرت کا لمحہ میسر نہ ہو ہارڈی اپنے مشہور ناول میئر آف کیسٹر برج (Mayor of Casterbridge) میں رقم طراز ہے کہ:

"Happiness is an occasional episode in the general drama of pain."

انسانی زندگی آلام و مصائب کی ایک درد بھری داستان ہے جس میں خوشی صرف ایک اتفاقی واقعہ ہوسکتی ہے جس دنیا میں خدا کا تصور نہ ہو اس کے وجود پر یقین نہ ہو وہاں بے بسی بے کسی اور قنوطیت کا تسلط ہوتا ہے ایسی دنیا کا انسان صرف Chance اور Fateکو ہی محرک حیات مانتا ہے کیونکہ وہ خود کسی بھی فعل و عمل کے لیے نہ مختا رہے اور نہ ہی ردعمل کے لیے ذمے دار۔

ارسطو نے کتھارسس کے Process کو ایک فلسفیانہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ ارسطو کے پیش نظر خدا اور انسان کے مابین ایک بے حد مقدس اور روحانی رشتہ ہے۔ البتہ خدا انسانی معاملات میں دخیل نہیں لیکن انسان خدا کی ذات اور اس کی صفات پر پورا یقین رکھتا ہے۔ وہ خدا جو اس دنیا میں اور مابعد دنیا(Here and Here after) میں جزا  اور سزا کا مختارکل ہے۔ انسانی تہذیب اور نفسیات کی تہذیبی ساخت میں اس عقیدے کی کارفرمائی نہایت اہم اور موثر رول ادا کرتی ہے۔ ارسطو کے تصور خدا کے مطابق انسانی دل اس جذبے سے معمور ہے کہ اس سے محبت کرنے والا ایک دوست آسمان میں ہے جو غم و الم میں اس کی پکار سنتا ہے جو اس کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز ہی نہیں مددگار بھی ہے اور اس عظیم کائنات کے ہر حرکت و عمل کے پس پردہ اسی کی قدرت اور حکمت کارفرما ہے۔ خدا کے وجودکا یہ تصور انسانی معاشرے میں باہمی رشتوں کی اہمیت کو زیادہ جلا بخشتا ہے اور ہر فرد کو دوسرے فرد کی اخلاقی ذمے داری کا احساس دلاتا ہے۔ کسی بھی ٹریجڈی کا ہیرو زندگی کے کسی بھی بلند منصب پر فائز ہو لیکن بہ حیثیت انسان اگر وہ جرم یا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو سزا کے قانون سے بچ نہیں سکتا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کا ہاتھ آگ میں پڑجائے تو ردعمل کے طور پر یقینا جل جائے گا کیونکہ اگر عمل سرزد ہوگیا چاہے دانستہ طو رپر یا نادانستہ طور پر ردعمل ضروری ہے۔ فطرت کے وضع کردہ قانون میں کسی طرح کی لچک کا امکان ہی نہیں۔ المیہ کردار کی نمایاں ترین خصوصیت دراصل عمل کی آزادی کا غلط یا ناجائز استعمال ہے۔ یہاں اراد ہ یانیت اچھی یا بری کسی طرح بھی قابل لحاظ نہیں۔ کوئی بھی شخص اپنے دل میں کسی کو قتل کرنے، زنا کرنے، چوری کرنے جیسے جرائم کرنے کا اراداہ رکھتا ہے وہ کسی سزا کا مستوجب قرار نہیںپاتا جب تک اس کا ارادہ اس کو عمل پر آمادہ نہ کرے اور عمل سرزد نہ ہو۔

اسی ضمن میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں جرم و گناہ کے پرکھنے کا معیار کیا ہوگا کیونکہ ہر ملک و قوم کے جرم و سزا کے قوانین مختلف ہیں۔ ایسی صورت حال میں المیہ کردار کے جرم و گناہ کے پرکھنے کا پیمانہ کیا ہوگا؟ ارسطو نے جرم و گناہ کے جس پیمانے کو متعارف کیا ہے اور شیکسپیئر نے اپنی ٹریجڈیز میں المیہ کرداروں کی لغزشوں کے ذریعے نمایاں کیا ہے وہ ایک ایسا آفاقی پیمانہ ہے جو زمان و مکان کی حدود سے ماورا ہے۔ اس پیمانے کے مطابق ہر وہ انسانی عمل سزا کا مستحق ہے جو عدل و قسط کی تقویم اور معاشرے کی صحت و سلامتی کے لیے خطرہ ہو۔ قتل و غارت گری، ظلم و تعدی، چوری ڈکیتی وغیرہ جیسے جرائم ہر دو رکے انسانی معاشرے میں جرائم ہی تسلیم کیے جاتے ہیں اسی بنیاد پر ارسطو کے وضع کردہ پیمانے اس کے المیہ کردار کی حیثیت کو پوری پوری اہمیت کا حامل بنا دیتے ہیں اور دنیا کے ہر سماج ہر دور میں ایسے المیہ کرداروں کی پذیرائی ہوتی رہی ہے اسی ضمن میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ اس دنیا میں کچھ نادیدہ پراسرار قوتیں متحرک ہیں جو انسان کے مجرمانہ اعمال و افعال کی سزا پر مامور ہیں جیسے ہی کسی انسان سے کوئی لغزش سرزد ہوتی ہے یہ قوتیں انتقام پر کمربستہ ہوجاتی ہیں۔ یونانی اصطلاح میں ان پراسرار اور نادیدہ قوتوں کو Nemesis کہا جاتا ہے۔ جن کی سزا فوری طور پر موت نہیں بلکہ اذیت و ابتلا کا ایک ایسا تسلسل ہوتا ہے جو شدید سے شدید تر ہوتا جاتا ہے اور یہ اذیت ناک تسلسل ذہنی، روحانی،  جسمانی ہر سطح پر مجرم کو کرب میں مبتلا رکھتا ہے۔ مجرم جو ایک انتہائی باعزت اور عالیشان زندگی بسر کررہا تھا دھیرے دھیرے تنہا ہوتا جاتا ہے اس کے احباب اور متعلقین اس سے کنارہ کش ہوتے جاتے ہیں اس کی زندگی کا ماحول جو عیش و طرب، عزت و وقار سے لبریز تھا، دھندلا جاتا ہے۔ اس پر ان دیکھے خوف کے سائے لہرانے لگتے ہیں اور وہ زندگی کی ہم آہنگی، سرخوشی اور مسرت سے محروم ہوجاتا ہے اس کا ذہن اندیشوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے اس کے دوست اس کے دشمن بن جاتے ہیں، اس کی روح ایک زندہ جہنم بن جاتی ہے اور وہ خود وَسواسِ الخَنَّاس کے تاریک جنگل میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ خود اپنی ذات سے ہی نفرت کرنے لگتا ہے۔ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے آخرش وہ اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لیتا ہے او راس طرح وہ اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہے کہ جس سزا اور عقوبت سے وہ گزرا ہے وہ حق بجانب تھی۔ اس اعتراف سے اس کو ایک طرح کی طمانیت کا احساس ہوتا ہے اور انتہائی سکون کے ساتھ وہ موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ Suffering یعنی ابتلا اور اذیت کا کربناک تسلسل اس کا روحانی تزکیہ کرتا ہے جس کی بنا پر وہ یہ تسلیم کرلیتا ہے کہ اپنے گناہ کی سزا اس نے اسی دنیا میں بھگت لی ہے اور آنے والی زندگی میں اس سزا سے معتوب نہ ہوگا لیکن اس منظرنامے کا دوسرا پہلو جو عوام الناس سے متعلق ہے وہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سادہ لوح عوام کی آنکھیں جب ایک عظیم المرتبت شخصیت کو اقتدار اور ثروت کی بلندیوں سے قعر مذلت میں گرتے ہوئے دیکھتی ہیں تو ان کے جذبات میں ایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر کہ گناہ کی سزا ایک عظیم انسان کو کس قدر اذیت ناک طریقے سے ملی ہے ان کا دل المیہ ہیرو کے دردناک انجام سے دردمندی، رحم اور تاسف بھر جاتا ہے اور ہر دل اس خوف سے لرز جاتا ہے کہ ہم سادہ عام لوگ کس طرح ایسی سزا سے بچ سکتے ہیں اگر ہم بھی ایسے گناہ کے مرتکب ہوں۔ اس طرح عام لوگ خوف کے جذبات سے لرزتے ہوئے اور المیہ ہیرو کے لیے ہمدردی کے احساس سے بھرے ہوئے تنقیہ کے عمل سے گزرتے ہیں۔ Catharsis کا پروسیس صرف جرم و گناہ کی کدورت اور سفلی جذبات کا تزکیہ ہی نہیں کرتا بلکہ روح کو مجلا و مصفا بنا کر اس کو اعلیٰ ترین خیالات و جذبات سے آراستہ بھی کرتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انسانی رشتوں کی تعمیر و تربیت میں انسانی جذبات کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ معاشرتی رشتوں کا باہمی تسلسل جذبات کے نازک تانے بانے میں پیوست رہتا ہے۔ ہر فرد سماج کی ایک اکائی کی حیثیت سے اپنے طرز عمل میں بے اعتدالی کی وجہ سے پورے سماجی Fabric کو متاثر کرتا ہے جس کا محرک اس کے جذبات بنتے ہیں۔ قرآن کے نزول سے سیکڑوں سال قبل ارسطو نے اپنی المیہ تھیوری کے ذریعے جن اصطلاحوں جیسے کتھارسس ہمارشیا (Catharsis- Hamartia)کو متعارف کرایا ہے، قرآن بھی سورہ والشمس میں اس کی توثیق کرتا ہے جس میں بڑی وضاحت کے ساتھ انسانی نفس کی تشکیل و تخلیق کے عناصر ترکیبی بیان کیے گئے ہیں اور انسانی زندگی کی معنویت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰہَاo فَاَلۡہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقۡوٰھَاo قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ ذَکّٰہَا وَقَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰہَاo میں واضح اشارہ ہے کہ جو فجور انسانی سرشت میں پیوست کیا گیا ہے اور جس کا علم دے کر یہ ہدایت کی گئی ہے کہ فلاح کا راستہ فجور کے تزکیہ سے ہی ممکن ہے گویا انسان خیر و شر دونوں پر پوری طرح قادر ہے۔ انتخاب کے ساتھ عمل کی بھی پوری آزادی دی گئی ہے اور نفس کی آلودگی کے تصفیہ و تزکیہ کے لیے پوری رہنمائی بھی واضح کردی گئی ہے جس کو مقصد حیات کی کلید بھی کہا جاسکتا ہے۔ خیر و شر کے اس Paradox کو جو کائنات کبریٰ سے کائنات صغریٰ میں اندرونی مماثلت کا اشاریہ ہے اگر وسیع معنی میں دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا Code of Conduct بن جاتا ہے جس کی تعمیل انسانی معاشرے کو خوشحال اور پرامن گہوارے میں منقلب کرسکتی ہے۔

ارسطو کی اصطلاح Hamartia یعنی انسانی کردار کا داخلی نقص بعینہٖ فُجُورٰہا سے عیاں ہے۔ اسی طرح Catharsis تقویٰ کی نمائندگی کرتا ہے، جو تزکیہ کے عمل کو مہمیز دیتا ہے،۔ جس کے زیریں ارتعاش میں خوف مضمر رہتا ہے۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ارسطو کی المیہ تھیوری کا لب لباب اس آیت کی تشریح میں موجود ہے۔ اس صداقت جرم کے پیش نظر ارسطو کی کتھارسس کی تھیوری کو اس کے Prophetic vision پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ قرآن ادبیات عالیہ کی ام الکتاب ہے۔ اس کو صرف دینیات کے دائرے میں محصور کرنا اس کی آفاقی افادیت اور Utility کے عظیم مقاصد سے صرف نظر کرنا ہے۔


 

Prof. Waheed-uz-Zafar Khan

Masood Mahal, Lal Diggi Road

Aligarh - 202002 (UP)

Mob.: 9258130100


ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2021


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں